Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 9

سورة الروم

اَوَ لَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ کَانُوۡۤا اَشَدَّ مِنۡہُمۡ قُوَّۃً وَّ اَثَارُوا الۡاَرۡضَ وَ عَمَرُوۡہَاۤ اَکۡثَرَ مِمَّا عَمَرُوۡہَا وَ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ ؕ فَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظۡلِمَہُمۡ وَ لٰکِنۡ کَانُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ ؕ﴿۹﴾

Have they not traveled through the earth and observed how was the end of those before them? They were greater than them in power, and they plowed the earth and built it up more than they have built it up, and their messengers came to them with clear evidences. And Allah would not ever have wronged them, but they were wronging themselves.

کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر یہ نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیسا ( برا ) ہو ؟ وہ ان سے بہت زیادہ توانا اور ( طاقتور ) تھے اور انہوں نے ( بھی ) زمین بوئی جوتی تھی اور ان سے زیادہ آباد کی تھی اور ان کے پاس ان کے رسول روشن دلائل لے کر آئے تھے یہ تو ناممکن تھا کہ اللہ تعالٰی ان پر ظلم کرتا لیکن ( دراصل ) وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الاَْرْضِ ... Do they not travel in the land, means, `do they not understand and think and see and hear about the people of the past,' Allah says: ... فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً .. and see what was the end of those before them! They were superior to them in strength, meaning, `the nations...  of the past who came before you were stronger than you to whom Muhammad has been sent; they had more wealth and more sons. You have not been given one-tenth of what they were given. They stayed longer in this world than you will stay. They were more civilized than you and were more prosperous in the land than you.' Yet despite all that, when their Messengers came to them with clear signs, while they were enjoying their life of luxury, Allah punished them for their sins and they had no one who could protect them from Allah. Their wealth and sons could not protect them from the wrath of Allah in the slightest, and Allah was not at all unjust towards them when He sent His punishment upon them. It is as Allah says: .... وَأَثَارُوا الاْأَرْضَ وَعَمَرُوهَا أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوهَا وَجَاءتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ ... they tilled the soil and populated it in greater numbers than these have done: there came to them their apostles with Clear (Signs): it was not Allah Who wronged them, ... وَلَكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ but they used to wrong themselves. They brought destruction upon themselves, when they rejected and mocked the signs of Allah. All of this only happened because of their previous sins and their rejection (of the Messengers). Allah says: ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِينَ أَسَاوُوا السُّوأَى أَن كَذَّبُوا بِأيَاتِ اللَّهِ وَكَانُوا بِهَا يَسْتَهْزِوُون   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

91یہ آثار کھنڈرات اور نشانات عبرت پر غور و فکر نہ کرنے پر ملامت کی جا رہی ہے۔ مطلب ہے کہ چل پھر کر وہ مشاہدہ کرچکے ہیں۔ 92یعنی ان کافروں کا جن کو اللہ نے ان کے کفر باللہ، حق کے انکار اور رسولوں کو جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک کیا۔ 93یعنی قریش اور اہل مکہ سے زیادہ۔ 94یعنی اہل مکہ تو کھیتی باڑی سے ناآشنا...  ہیں لیکن پچھلی قومیں اس وصف میں بھی ان سے بڑھ کر تھیں۔ 95اس لئے کہ ان کی عمریں بھی زیادہ تھیں، جسمانی قوت میں بھی زیادہ تھے اسباب معاش بھی ان کو زیادہ حاصل تھے۔ پس انہوں نے عمارتیں بھی زیادہ بنائیں، زراعت و کاشتکاری بھی کی اور وسائل رزق بھی زیادہ مہیا کئے۔ 96لیکن وہ ان پر ایمان نہیں لائے۔ لہذا تمام تر قوتوں، ترقیوں اور فراغت و خوش حالی کے باوجود ہلاکت ان کا مقدر بن کر رہی۔ 97کہ انھیں بغیر گناہ کے عذاب میں مبتلا کر دیتا 98یعنی اللہ کا انکار اور رسولوں کی تکذیب کر کے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] یعنی ظلم کی عمارت ہمیشہ عقیدہ آخرت سے انکار کی بنیاد پر اٹھتی ہے۔ اور جن ظالم اقوام کو اللہ تعالیٰ نے تباہ کیا ان سب میں قدر مشترک یہی تھی کہ آخرت کے منکر تھے۔ کیونکہ جو شخص یا جو قوم آخرت میں اللہ کے حضور اپنے اعمال کی جوابدہی کی قائل ہوگی وہ ظلم کر ہی نہیں سکتی۔ ان تباہ ہونے والی قوموں میں ای... سے لوگ بھی موجود تھے جو تم سے بہت زیادہ طاقتور تھے۔ فنون دنیا کے ماہر تھے۔ انہوں نے زرعی میدان میں بھی خوب ترقی کی تھی اور زمین کو چیر کر اس میں سے خزانے بھی نکالے تھے۔ اور تہذیب و تمدن کے لحاظ سے تم سے بہت زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ لیکن جب انہوں نے ظلم اور زیادتی پر کمر باندھی تو اللہ نے انھیں تباہ و برباد کرکے رکھ دیا اب اگر اے کفار مکہ ! تم بھی وہی سرکشی اور ظلم کی راہ اختیار کرو گے تو آخر کیا وجہ ہے کہ تمہارا بھی انجام ایسا ہی نہ ہو۔ [ ٨] یعنی ایک تو تمہارے اندر آخرت کے لازمی ہونے کے دلائل موجود تھے، دوسرے کائنات میں موجود تھے، تیسرے تم پر اللہ کی رحمت ہوئی کہ اس نے رسول بھیج کر تمہیں مابعدالموت پیش آنے والے حقائق سے خبردار کرتے رہے۔ پھر بھی اگر تم لوگ عقیدہ آخرت کے منکر بن کر اپنی عاقبت تباہ کرلو تو اس میں تمہارا اپنا ہی قصور ہے۔ اللہ تعالیٰ کبی کسی پر زیادتی اور ظلم نہیں کرتا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا ۔۔ : آخرت کے حق ہونے کے دلائل ذکر کرنے کے بعد اس کی تکذیب کرنے والی پہلی اقوام کے برے انجام سے ڈرایا ہے۔ کیونکہ ان اقوام کے آثار مکہ مکرمہ کے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں ہر طرف بکھرے پڑے تھے۔ عاد وثمود ہوں یا اصحاب مدین اور قوم لوط ہو یا قوم سبا ی... ا قوم فرعون، مکہ مکرمہ کے لوگ تجارت کے لیے ان تمام علاقوں میں جایا کرتے تھے۔ ” الارض “ سے مراد مکہ مکرمہ اور اس کے ارد گرد کے علاقے ہیں، جن کا قرآن میں جا بجا ذکر ہے۔ یعنی یہ لوگ جو اللہ کی وحدانیت، اس کے رسولوں کی رسالت اور آخرت کو جھٹلانے والے ہیں، کیا اس زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے ان جھٹلانے والے لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو ان سے پہلے تھے ؟ مطلب یہ ہے کہ یقیناً یہ لوگ زمین میں چلے پھرے ہیں اور انھوں نے سب کچھ دیکھا ہے، مگر عبرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا کہ انھیں کچھ نصیحت ہوتی کہ وہ لوگ قوت کے لحاظ سے ان سے بہت زیادہ تھے۔ ان کے قد کاٹھ اور ان کی جسمانی، مالی اور فوجی قوت ان سے کہیں زیادہ تھی اور انھوں نے زمین کو ان سے زیادہ پھاڑا تھا۔ زمین کو پھاڑنے میں زراعت، معدنیات نکالنا اور آب پاشی کا نظام قائم کرنا سبھی کچھ آجاتا ہے اور انھوں نے زمین کو اس سے کہیں زیادہ آباد کیا جو ان اہل مکہ نے آباد کیا ہے۔ انھوں نے بڑی بڑی عمارتیں، کارخانے اور پانی کے بند بنائے۔ ان کے پاس ان کے رسول واضح معجزے اور دلائل لے کر آئے، مگر انھوں نے انھیں جھٹلا دیا، تو اللہ کے عذاب کا نشانہ بنے اور اب تک ان کی بستیوں کے نشانات ان کی بربادی کی داستان سنا رہے ہیں۔ كَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَّاَثَارُوا الْاَرْضَ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا کہ پہلے لوگ ان سے قوت میں زیادہ تھے اور انھوں نے زمین کو پھاڑا اور اسے آباد کیا، اس سے زیادہ جو انھوں نے اسے آباد کیا ہے، اس میں کفار (اہل مکہ) پر چوٹ بھی ہے، کیونکہ اہل مکہ کا اہل مصر، اہل شام اور اہل یمن کے ساتھ زمین کی زراعت اور آباد کاری میں کوئی مقابلہ ہی نہ تھا۔ مکہ میں نہ قابل زراعت زمین تھی، نہ انھوں نے زمین کو پھاڑا اور نہ ہی ان کے پاس آب پاشی کا کوئی نظام تھا۔ جبکہ مصر، شام اور یمن زراعت اور دوسرے شعبوں میں کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔ سو اہل مکہ کو بھی زراعت اور زمین کی آباد کاری کرنے والے قرار دینے میں اور پہلی قوموں کو ان سے زیادہ ترقی یافتہ قرار دینے میں ان کے ساتھ ایک طرح کا مذاق بھی ہے کہ ترقی کے مقابلے میں اپنی حیثیت کو پیش نظر رکھیں اور دیکھیں کہ جب اتنی زبردست ترقی یافتہ قومیں اپنے رسولوں کو جھٹلانے کی پاداش میں ہلاک کردی گئیں تو ان بےچاروں کی کیا اوقات ہے۔ فَمَا كَان اللّٰهُ لِيَظْلِمَهُمْ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ نے جتنی اقوام کو تباہ کیا ان سب میں قدر مشترک ظلم تھا اور ظلم کی بنیاد آخرت سے انکار ہے، کیونکہ جو قوم آخرت پر یقین رکھتی ہو اور اسے اپنے اعمال کی جواب دہی کا احساس ہو تو وہ ظلم کر ہی نہیں سکتی۔ سو اگر آخرت سے انکار کی وجہ سے ان پر عذاب آیا تو اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا، بلکہ یہ ان کے اپنے ظلم کا نتیجہ تھا اور اگر اہل مکہ پر اپنے رسول کو اور آخرت کو جھٹلانے کے نتیجے میں عذاب آیا تو ان کے اپنے ظلم کی وجہ ہی سے آئے گا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

أَوَلَمْ يَسِيرُ‌وا فِي الْأَرْ‌ضِ (Have they not travelled on earth - 30:9). It means that the Makkans live in a land where there is neither any cultivation and industry nor any tall and beautiful buildings, but for the sake of trade they do travel to Syria and Yemen. So, have they not seen, during the course of their trips, what was the fate of the earlier people, whom Allah Ta’ ala had endowed...  with skills to make use of the land? For instance, they had the skill to draw underground water by excavating the earth for irrigating fields and gardens, and dig out concealed precious minerals, such as gold and silver, and make use of them to their benefit. For their advanced skills and way of living, they were regarded as civilized nations. But they got engrossed so much in material life, transitory luxuries and comforts that they forgot Allah Ta’ ala and the Hereafter. Then, Allah Ta’ ala sent prophets and books to remind them of their duties, but they did not pay any heed. Ultimately, they were overtaken by Allah&s wrath even in this world. The ruins of their desolate cities still stand witness to their destruction. At the end of the verse it is suggested to ponder whether they were subjected to any oppression from Allah Ta’ ala, or they subjected themselves to their own cruelty by accumulating causes of the divine punishment.  Show more

اَوَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ ، یعنی یہ اہل مکہ تو ایک ایسی زمین کے باشندے ہیں جہاں نہ زراعت ہے نہ صنعت نہ تجارت کے مواقع اور نہ بلند وبالا حسین تعمیرات، مگر ملک شام اور یمن کے سفر ان لوگوں کو اپنے تجارتی مقاصد کے لئے پیش آتے ہیں کہ ان سفروں میں ان لوگوں نے اپنے سے پہلی اقوام دنیا کے انجام کا ... مشاہدہ نہیں کیا جن کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں بڑے بڑے تصرفات کرنے کا سلیقہ دیا تھا کہ زمین کو کھود کر اس سے پانی نکالنا اور اس سے باغات اور کھیتوں کو سیراب کرنا اور چھپے ہوئے معادن سے سونا چاندی اور دوسری قسم کی معدنی دھاتیں نکالنا اور ان سے انسانی فوائد کے لئے مختلف قسم کی مصنوعات تیار کرنا ان کا وظیفہ زندگی تھا اور یہ اپنے زمانے کی متمدن قومیں سمجھ جاتی تھیں۔ مگر انہوں نے اسی مادی اور فانی عیش و عشرت میں مست ہو کر اللہ کو اور آخرت کو بھلا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو یاد دلانے کے لئے اپنے پیغمبر اور کتابیں بھیجیں، مگر انہوں نے کسی کی طرف التفات نہیں کیا اور بالاخر دنیا میں بھی مبتلائے عذاب ہوئے جس پر ان کی بستیوں کے ویران کھنڈرات اس وقت تک شہادت دے رہے ہیں۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ غور کرو کہ کیا اس عذاب میں ان پر اللہ کی طرف سے کوئی ظلم ہوا ہے یا انہوں نے خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے کہ اسباب عذاب جمع کر لئے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝ ٠ۭ كَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْہُمْ قُوَّۃً وَّاَثَارُوا الْاَرْضَ وَعَمَــرُوْہَآ اَكْثَرَ مِمَّا عَمَــرُوْہَا وَجَاۗءَتْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَيِّنٰتِ۝ ٠ ۭ فَمَا كَانَ اللہُ لِيَظْلِمَہُمْ وَلٰكِنْ كَانُ... وْٓا اَنْفُسَہُمْ يَظْلِمُوْنَ۝ ٩ ۭ سير السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف/ 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير ( س ی ر ) السیر ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف/ 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ عاقب والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] ، ( ع ق ب ) العاقب اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ شد الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء : قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] ، ( ش دد ) الشد یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ قوی القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] ( ق وو ) القوۃ یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ أثر أَثَرُ الشیء : حصول ما يدلّ علی وجوده، يقال : أثر وأثّر، والجمع : الآثار . قال اللہ تعالی: ثُمَّ قَفَّيْنا عَلى آثارِهِمْ بِرُسُلِنا «1» [ الحدید/ 27] ، وَآثاراً فِي الْأَرْضِ [ غافر/ 21] ، وقوله : فَانْظُرْ إِلى آثارِ رَحْمَتِ اللَّهِ [ الروم/ 50] . ومن هذا يقال للطریق المستدل به علی من تقدّم : آثار، نحو قوله تعالی: فَهُمْ عَلى آثارِهِمْ يُهْرَعُونَ [ الصافات/ 70] ، وقوله : هُمْ أُولاءِ عَلى أَثَرِي [ طه/ 84] . ومنه : سمنت الإبل علی أثارةٍأي : علی أثر من شحم، وأَثَرْتُ البعیر : جعلت علی خفّه أُثْرَةً ، أي : علامة تؤثّر في الأرض ليستدل بها علی أثره، وتسمّى الحدیدة التي يعمل بها ذلک المئثرة . وأَثْرُ السیف : جو هره وأثر جودته، وهو الفرند، وسیف مأثور . وأَثَرْتُ العلم : رویته «3» ، آثُرُهُ أَثْراً وأَثَارَةً وأُثْرَةً ، وأصله : تتبعت أثره . أَوْ أَثارَةٍ مِنْ عِلْمٍ [ الأحقاف/ 4] ، وقرئ : (أثرة) «4» وهو ما يروی أو يكتب فيبقی له أثر . والمآثر : ما يروی من مکارم الإنسان، ويستعار الأثر للفضل ( ا ث ر ) اثرالشیئ ۔ ( بقیہ علامت ) کسی شی کا حاصل ہونا جو اصل شیئ کے وجود پر دال ہوا اس سے فعل اثر ( ض) واثر ( تفعیل ) ہے اثر کی جمع آثار آتی ہے قرآن میں ہے :۔ { ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا } [ الحدید : 27] پھر ہم نے ان کے پیھچے اور پیغمبر بھیجے { وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ } [ غافر : 21] اور زمین میں نشانات بنانے کے لحاظ سے { فَانْظُرْ إِلَى آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ } [ الروم : 50] تم رحمت الہی کے نشانات پر غور کرو اسی سے ان طریق کو آثار کہا جاتا ہے جس سے گذشتہ لوگوں ( کے اطوار وخصائل ) پر استدلال ہوسکے جیسے فرمایا { فَهُمْ عَلَى آثَارِهِمْ يُهْرَعُونَ } [ الصافات : 70] سو وہ انہیں کے نقش قدم پر دوڑتے چلے جاتے ہیں ۔ { هُمْ أُولَاءِ عَلَى أَثَرِي } [ طه : 84] وہ میرے طریقہ پر کار بند ہیں ۔ اسی سے مشہور محاورہ ہے سمنت الابل علی آثارۃ اثرمن شحم فربہ شدند شتراں پر بقیہ پیہ کہ پیش ازیں بود اثرت البعیر ۔ میں نے اونٹ کے تلوے پر نشان لگایا تاکہ ( گم ہوجانے کی صورت میں ) اس کا کھوج لگایا جا سکے ۔ اور جس لوہے سے اس قسم کا نشان بنایا جاتا ہے اسے المئثرۃ کہتے ہیں ۔ اثرالسیف ۔ تلوار کا جوہر اسکی عمدگی کا کا نشان ہوتا ہے ۔ سیف ماثور ۔ جوہر دار تلوار ۔ اثرت ( ن ) العلم آثرہ اثرا واثارۃ اثرۃ ۔ کے معنی ہیں علم کو روایت کرنا ۔ در اصل اس کے معنی نشانات علم تلاش کرنا ہوتے ہیں ۔ اور آیت ۔ { أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ } ( سورة الأَحقاف 4) میں اثارۃ سے مراد وہ علم ہے جس کے آثار ( تاحال ) روایت یا تحریر کی وجہ سے باقی ہوں ایک قراۃ میں اثرۃ سے یعنی اپنے مخصوص علم سے المآثر انسانی مکارم جو نسلا بعد نسل روایت ہوتے چلے آتے ہیں ۔ اسی سے بطور استعارہ اثر بمعنی فضیلت بھی آجاتا ہے ۔ عمر العِمَارَةُ : نقیض الخراب : يقال : عَمَرَ أرضَهُ : يَعْمُرُهَا عِمَارَةً. قال تعالی: وَعِمارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ [ التوبة/ 19] . يقال : عَمَّرْتُهُ فَعَمَرَ فهو مَعْمُورٌ. قال : وَعَمَرُوها أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوها [ الروم/ 9] ، وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ [ الطور/ 4] ، وأَعْمَرْتُهُ الأرضَ واسْتَعْمَرْتُهُ : إذا فوّضت إليه العِمَارَةُ ، قال : وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيها[هود/ 61] . ( ع م ر ) العمارۃ یہ خراب کی ضد ہے عمر ارضہ یعمرھا عمارۃ اس نے اپنی زمین آباد کی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَعِمارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ [ التوبة/ 19] اور مسجد محترم ( یعنی خانہ کعبہ ) کو آباد کرنا ۔ کہا جاتا ہے ۔ عمرتہ میں نے اسے آباد کیا ۔ معمر چناچہ وہ آباد ہوگئی اور آباد کی ہوئی جگہ کو معمور کہا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَعَمَرُوها أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوها [ الروم/ 9] اور اس کو اس سے زیادہ آباد کیا تھا جو انہوں نے کیا ۔ وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ [ الطور/ 4] اور آباد کئے ہوئے گھر کی ۔ اعمر تہ الارض واستعمرتہ میں نے اسے آباد کرنے کے لئے زمین دی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيها[هود/ 61] اور اس نے آباد کیا ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور یہ مکہ والے زمین میں چلے پھرے نہیں جس میں دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ان کا انبیاء کرام (علیہم السلام) کی تکذیب کرنے پر کیا انجام ہوا۔ حالانکہ وہ ان سے جسمانی طاقت میں بہتر تھے اور ان سے زیادہ انہوں نے سفر و تجارت کیا تھا یا یہ کہ ان سے بڑھ کر انہوں نے زمین کو بویا جوتا تھا اور ان مکہ ... والوں سے زائد انہوں نے زمین کو آباد کیا تھا اور اس میں باقی رہے تھے اور ان کے پاس بھی ان کے رسول احکام و معجزات لے کر آئے تھے اور وہ بھی ایمان نہیں لائے نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کردیا۔ اللہ تعالیٰ ہلاک کر کے ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا مگر وہ خود ہی کفر و شرک اور انبیاء کرام کی تکذیب کر کے اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8 This is an historical argument for the Hereafter. It means this: "The Hereafter has not been denied only by a couple of the people in the world, but a large number of them have been involved in this disbelief in human history. Even there have been entire nations which either denied it altogether or lived heedless of it, or invented such false beliefs about life-after-death as rendered the concep... t of the Hereafter meaningless. Then the continuous experience of history reveals that in whatever form the Hereafter has been denied, its inevitable result has been that the people became corrupted morally, they lived irresponsible lives they transgressed all limits of tyranny and wickedness, which became the cause of the destruction of one nation after the other. Does not this experience of thousands of years of history, which has been faced by human generations successively, prove that the Hereafter is a reality whose denial is fatal to man? Man has come to believe in gravitation only because he has always experienced and seen material things falling to the ground. He has recognized poison to be poison only because whoever took poison died. Similarly, when the denial of the Hereafter has always Ied to the corruption of morals for man, is not this experience enough to teach the lesson that the Hereafter is a reality, and to live one's life heedless of it is dangerous? 9 The words athar-ul- and in the original may either mean to plough the land for cultivation, or to dig the earth for taking out canals, underground water channels, minerals, etc. 10 This contains an answer to the argument of those who regard mere material progress as the sign of a nation's being righteous. They argue like this: "Haw is it possible that Allah will make fuel of Hell those people who have exploited the resources of the earth on such a large scale, who have constructed wonderful works on the earth and given birth to grand civilizations ?" The Qur'an refutes this argument, thus: "Such works of construction have been built before also by many nations on a large scale. Then, have you not seen that those nations have perished along with their civilization and their grand and magnificent "works" ? There is no reason why the Law of God that has so treated in the world the mere material progress of a people lacking the right belief and conduct, will not treat them likewise in the Next World and make them fuel of Hell." 11 That is, "They came with such Signs as were sufficient for anyone to be convinced of their being the true Prophets." The mention of the coming of the Prophets in this context implies this: "On the one hand, there are evidences in man's own self, and in the universe around him, and in the continuous experience of human history, and, on the other, there also came such Prophets, one after the other, who showed clear Signs of their being true Prophets and warned (the people) that the Hereafter is sure to come." 12 That is, "The destruction that overtook those nations afterwards was not due to Allah's being unjust to them but due to the injustice they had done to themselves. The person (or persons) who neither thinks rightly himself nor adopts the right attitude by listening to others, will be himself responsible for his evil end if he meets destruction. God cannot be blamed for this, for God has not only made arrangements for conveying to man the knowledge of the reality through His Books and His Prophets, but also blessed tnan with the intellectual resources and powers by exploiting which he can always judge the authenticity of the knowledge brought by the Prophets and the Divine Books. Had God deprived man of this guidance and these resources and he had to meet with the consequences of following a wrong way then doubtlessly could God have been blamed for injustice."  Show more

سورة الروم حاشیہ نمبر : 8 یہ آخرت کے حق میں تاریخی استدلال ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ آخرت کا انکار دنیا میں دو چار آدمیوں ہی نے تو نہیں کیا ہے ۔ انسانی تاریخ کے دوران میں کثیر التعداد انسان اس مرض میں مبتلا ہوتے رہے ہیں ۔ بلکہ پوری پوری قومیں ایسی گزری ہیں جنہوں نے یا تو اس کا انکار کیا ہے ، اس سے غا... فل ہوکر رہی ہیں ، یا حیات بعد الموت کے متعلق ایسے غلط عقیدے ایجاد کرلیے ہیں جن سے آخرت کا عقیدہ بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے ۔ پھر تاریخ کا مسلسل تجربہ یہ بتاتا ہے کہ انکار آخرت جس صورت میں بھی کیا گیا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کے اخلاق بگڑے ، وہ اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ کر شتر بے مہار بن گئے ، انہوں نے ظلم و فساد اور فسق و فجور کی حد کردی ، اور اسی چیز کی بدولت قوموں پر قومیں تباہ ہوتی چلی گئیں ۔ کیا ہزاروں سال کی تاریخ کا یہ تجربہ ، جو پے در پے انسانی نسلوں کو پیش آتا رہا ہے ، یہ ثابت نہیں کرتا کہ آخرت ایک حقیقت ہے جس کا انکار انسان کے لیے تباہ کن ہے؟ انسان کشش ثقل کا اسی لیے تو قائل ہوا ہے کہ تجربے اور مشاہدے سے اس نے مادی اشیاء کو ہمیشہ زمین کی طرف گرتے دیکھا ہے ۔ انسان نے زہر کو زہر اسی لیے تو مانا ہے کہ جس نے بھی زہر کھایا وہ ہلاک ہوا ۔ اسی طرح جب آخرت کا انکار ہمیشہ انسان کے لیے اخلاقی بگاڑ کا موجب ثابت ہوا ہے تو کیا یہ تجربہ یہ سبق دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ آخرت ایک حقیقت ہے اور اس کو نظر انداز کر کے دنیا میں زندگی بسر کرنا غلط ہے؟ سورة الروم حاشیہ نمبر : 9 اصل میں لفظ ّاَثَارُوا الْاَرْضَ استعمال ہوا ہے ۔ اس کا اطلاق زراعت کے لیے ہل چلانے پر بھی ہوسکتا ہے اور زمین کھود کر زمین پانی ، نہریں ، کاریزیں اور معدنیات وغیرہ نکالنے پر بھی ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 10 اس میں ان لوگوں کے استدلال کا جواب موجود ہے جو محض مادی ترقی کو کسی قسم کے صالح ہونے کی علامت سمجھتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے زمین کے ذرائع کو اتنے بڑے پیمانے پر استعمال ( Exploit ) کیا ہے ، جنہوں نے دنیا میں عظیم الشان تعمیری کام کیے ہیں اور ایک شاندار تمدن کو جنم دیا ہے ، بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالی ان کو جہنم کا ایندھن بنا دے ۔ قرآن اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ یہ تعمیری کام پہلے بھی بہت سی قوموں نے بڑے پیمانے پر کیے ہیں ، پھر کیا تمہاری آنکھوں نے نہیں دیکھا کہ وہ قومیں اپنی تہزیب اور اپنے تمدن سمیت پیوند خاک ہوگئیں اور ان کی تعمیر کا قصر فلک بوس زمین پر آرہا ؟ جس خدا کے قانون نے یہاں عقیدہ حق اور اخلاق صالحہ کے بغیر محض مادی تعمیر کی یہ قدر کی ہے ، آخر کیا وجہ ہے کہ اسی خدا کا قانون دوسرے جہان میں انہیں واصل جہنم نہ کرے ؟ سورة الروم حاشیہ نمبر : 11 یعنی ایسی نشانیاں لے کر آئے جو ان کے نبی صادق ہونے کا یقین دلانے کے لیے کافی تھیں ۔ اس سیاق و سباق میں انبیاء کی آمد کے ذکر کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف انسان کے اپنے وجود میں ، اور اس سے باہر ساری کائنات کے نظام میں ، اور انسانی تاریخ کے مسلسل تجربے میں آخرت کی شہادتیں موجود تھیں ، اور دوسری طرف پے در پے ایسے انبیاء بھی آئے جن کے ساتھ ان کی نبوت کے برحق ہونے کی کھلی کھلی علامتیں پائی جاتی تھیں اور انہوں نے انسانوں کو خبردار کیا کہ فی الواقع آخرت آنے والی ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 12 یعنی اس کے بعد جو تباہی ان قوموں پر آئی وہ ان پر خدا کا ظلم نہ تھا بلکہ وہ ان کا اپنا طلم تھا جو انہوں نے اپنے اوپر کیا ۔ جو شخص یا گروہ نہ خود صحیح سوچے اور نہ کسی سمجھانے والے کے سمجھانے سے صحیح رویہ اختیار کرے اس پر اگر تباہی آتی ہے تو وہ آپ ہی اپنے برے انجام کا ذمہ دار ہے ۔ خدا پر اس کا الزام عائد نہیں کیا جاسکتا ۔ خدا نے تو اپنی کتابوں اور اپنے انبیاء کے ذریعہ سے انسان کو حقیقت کا علم دینے کا انتظام بھی کیا ہے ، اور وہ علمی و عقلی وسائل بھی عطا کیے ہیں جن سے کام لے کر وہ ہر وقت انبیاء اور کتب آسمانی کے دیے ہوئے علم کی صحت جانچ سکتا ہے ۔ اس رہنمائی اور ان ذرائع سے اگر خدا نے انسان کو محروم رکھا ہوتا اور اس حالت میں انسان کو غلط روی کے نتائج سے دو چار ہونا پڑتا تب بلا شبہ خدا پر ظلم کے الزام کی گنجائش نکل سکتی تھی ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(30:9) فینظروا۔ ف برائے عطف سببی۔ ینظروا کا عطف یسیروا پر ہے۔ تاکہ وہ دیکھتے۔ اشد۔ افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ سخت۔ قوۃ تمیز ہے یعنی وہ قوت میں شدید تر تھے۔ قوت میں بڑھے ہوئے تھے۔ منصوب بوجہ خبر کانوا۔ اثاروا ماضی جمع مذکر غائب اثارۃ (افعال) مصدر۔ بمعنی ہل جوتنا۔ بونا۔ اثاروا الارض۔ انہوں نے زمین کو ... جوتا۔ زمین میں ہل چلائے۔ اثار کا لغوی معنی ہے کسی چیز کو اس طرح متحرک کرنا اور اسے جنبش دیتا ہے کہ اس سے گردو غبار اڑنے لگے۔ اثر۔ نشان ۔ اثر۔ اثارو اثور جمع ۔ علم الآثار۔ اگلی قوموں کی چھوڑی ہوئی یادگاروں کا علم۔ عمروھا : ای عمرو الارض ، عمررا عمارۃ سے ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب انہوں نے اس کو بسایا۔ انہوں نے اس کو آباد کیا۔ عمر یعمر (باب نصر) سے ۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں ہے انما یعمر مساجد اللہ من امن باللہ ۔۔ (9:18) بیشک اللہ کی مسجدوں کو تو وہ آباد کرتا ہے جو ایمان لاتا ہے خدا پر۔ فما کان اللہ لیظلمہم میں لام لام جحد ہے اس کے بعد ان مقدرہ ہے جس کی وجہ سے منصوب ہے پس اللہ ایسا نہ تھا یا اللہ کی شان یہ نہ تھی کہ ان پر ظلم کرتا ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ یعنی اس میں کھیتی باڑی کی اور باغ لگائے اور زمین کو خوب آباد کیا۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ کہ انکار رسل کا کر کے مستحق ہلاک ہوئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اولم یسیروا ۔۔۔۔۔ وکانوا بھا یستھزءون (9- 10) ان آیات میں ہمیں دعوت دی جاتی ہے کہ گزرنے والوں کا جو انجام ہوا ، ذرا اس پر بھی غور کرو ، یہ بھی تو تمہاری ہی کی طرح کے انسان تھے۔ اسی طرح اللہ کی مخلوق تھے جس طرح تم ہو۔ ان کا انجام تمہارے لیے ایک نمونہ ہے۔ کیونکہ اللہ کی سنت تمام انسانوں کیلئے یکساں ہ... ے۔ اللہ کی سنت انسانی تاریخ کے بارے میں بھی اسی طرح اٹل ہے جس طرح اس کائنات کے بارے میں اٹل ہے۔ اللہ کا انسانوں کی کسی نسل کے ساتھ کوئی مخصوص تعلق نہیں ہے کہ ان کے ساتھ کوئی ممتاز سلوک کرے۔ نہ اللہ کی کچھ خواہشات ہیں جو زمان و مکان کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ معاذ اللہ رب العالمین یہ اس بات کی دعوت ہے کہ اس زندگی کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھا جائے اور اس پر غور کیا جائے کہ انسانی زندگی کے اس جہاں میں جو روابط تعلقات ہیں ان کی حقیقت کیا ہے اور گذشتہ تاریخ میں اس انسانیت کی تخلیق اور اس کا انجام کیا رہا ہے تاکہ انسانوں کا کوئی گروہ اور نسل صرف اپنی زندگی ، اپنے تصورات اور اپنی اقدار تک محدود نہ ہوجائے۔ تمام نسلوں کے درمیان جو مضبوط رشتہ ہے اس سے غافل نہ ہوجائے اور اس سنت کو بھی نہ بھول جائے جو تمام نسلوں پر حکمران ہے۔ اور ان قدروں کو بھی نہ بھول جائے جو ہر زمان و مکان میں ایک ہوتی ہیں۔ تاریخ ماضی میں جو اقوام ہو گزری ہیں اور جو اہل مکہ سے پہلے ہوگزری ہیں۔ وہ اہل مکہ سے۔ کانوا اشد منھم قوۃ (30: 9) ” وہ ان سے زیادہ طاقت رکھتے تھے “۔ واثاروا الارض (30: 9) ” انہوں نے زمین کو خوب ادھیڑا تھا “۔ انہوں نے اس میں کھیتی باڑی کا کام بھی کیا اور اس کے باطن کو پھاڑا اور اس کے ذخائر کو نکالا۔ وعمرواھا اکثر مما عمروھا (30: 9) ” اور انہوں نے اسے اتنا آباد کیا تھا جتنا انہوں نے نہیں کیا “۔ وہ لوگ عربوں سے زیادہ متمدن اور ترقی یافتہ تھے اور عربوں سے زیادہ زمین کے اندر تعمیرات کرنے والے تھے۔ یہ لوگ اس دنیا کی ظاہری ترقی اور خوبصورتی پر ہی اکتفاء کر گئے اور آخرت کی طرف نگاہ نہ ڈالی۔ وجاءتھم رسلھم بالبینت (30: 9) ” ان کے پاس ان کے رسول روشن نشانیاں لے کر آئے “۔ لیکن ان روشن نشانیوں کو دیکھ کر بھی ان کی آنکھیں نہ کھلیں اور یہ لوگ اس نور پر ایمان نہ لائے جو ان کو صحیح راستہ دکھا رہا تھا۔ چناچہ ان پر اللہ کی اس سنت کا اطلاق ہوگیا جو ہمیشہ مکذبین پر نافذ ہوتی ہے ۔ عذاب الٰہی کے مقابلے میں ان کی قوت ان کے کچھ کام نہ آئی۔ ان کا علم اور ان کی ترقی ان کے کچھ کام نہ آئی۔ اور ان کو ان کی وہ سزا و جزاء ملی جس کے وہ مستحق تھے۔ فما کا اللہ ۔۔۔۔ یظلمون (30: 9) ” پھر اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا مگر وہ خود ہی اپنے اپور ظلم کر رہے تھے “۔ ثم کان ۔۔۔۔ السواء (30: 10) ” آخر کار جن لوگوں نے برائیاں کی تھیں ان کا انجام بہت ہی برا ہوا “۔ یعنی وہ لوگ جو برائیوں کا ارتکاب کرتے تھے ، ان برائیوں کے مطابق پوری پوری سزا اور جزاء ان کو دے دی گئی اور ان کی برائی کیا تھی ؟ یہ کہ ، ان کذبوا بایت اللہ وکانوا بھا یستھزءون (30: 10) ” اس لیے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا تھا اور ان کا مذاق اڑاتے تھے “۔ قرآن کریم تکذیب کرنے والوں اور مزاح اڑانے والوں کو یہ دعوت دیتا ہے کہ وہ ذرا خدا کی اسی زمین پر چلیں پھریں اور گھونگھے کی طرح اپنے خول ہی میں بند نہ رہیں۔ انسانی تاریخ کو بھی ذرا پڑھیں کہ آپ جیسے مکذبین اور مزاح کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا رہا ہے۔ کہیں ایس انہ ہو کہ تمہارا انجام بھی ان جیسا ہو۔ اللہ کی سنت اٹل ہے اور وہ کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتی۔ وہ ذرا اپنی سوچ اور فکر کو وسعت دیں۔ پوری انسانیت کو ایک وحدت سمجھیں انبیاء کی دعوت کو ایک سمجھیں۔ اور یہ یقین کرلیں کہ اللہ کے قوانین قدرت کے مطابق تمام لوگوں کا انجام ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ یہ ہے وہ تصور جس میں اسلام تمام مومنین کے فکر و نظر کو رنگنا چاہتا ہے اور اس پر بار بار زور دیتا ہے۔ اس پوری کائنات کی گہرائیوں کے مطابق اور انسانی تاریخ کے گہرے مطالعے کے بعد اب قرآن کریم انسان کو اس میدان میں لے جاتا ہے جس سے انسان ہمیشہ غافل رہتا ہے۔ یعنی بعث بعد الموت کے میدان میں۔ یہ اس عظیم سچائی کا ایک اہم عنصر ہے جس کے اوپر یہ پوری کائنات قائم ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

زمین پر چلنے پھرنے کی تلقین اور امم سابقہ سے عبرت حاصل کرنے کا حکم اس کے بعد فرمایا (اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ) (الآیۃ) کیا ان لوگوں نے زمین میں چل پھر کر نہیں دیکھا تاکہ پرانے لوگوں کے احوال سے عبرت حاصل کرتے، ان سے پہلے جو لوگ تھے وہ ان سے زیادہ قوت والے تھے انہوں نے زمین کو جوتا اور بو... یا بیج ڈالا اور اس کی پیداوار کو اپنے تصرف میں لائے، نیز کھیتی باڑی کے علاوہ بھی انہوں نے زمین کو آباد کیا، اپنے مکانات بنائے، قلعے تعمیر کیے، باغات لگائے، نہریں جاری کیں، اور بہت کچھ کیا لیکن وہ اس سب کو چھوڑ کر چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اپنے رسول بھیجے جو ان کے پاس دعوت حق لے کر آئے لیکن ان لوگوں نے نہیں مانا، بالآخر فنا کے گھاٹ اتر گئے، ان کے قلعوں اور محلات کے کھنڈرات ابھی تک دنیا میں موجود ہیں، دیکھنے والے انہیں دیکھ کر عبرت حاصل کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو ان کو ہلاک فرمایا اس کا سبب ان کا اپنا ظلم تھا، وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے، انہوں نے اپنے خالق کو نہیں مانا، اس کے رسولوں کو جھٹلایا، معجزات سامنے آنے پر بھی برابر کفر پر اڑے رہے، ان کے اعمال ہی ان کی بربادی کا سبب بنے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ یہ تخویف دنیوی ہے۔ کیا ان معاندین نے زمین چل پھر کر پہلے زمانے کے معاندین حق کا انجام نہیں دیکھا ؟ جو جسمانی طاقت اور قوت میں ان سے کہیں زیادہ تھے۔ اور زراعت، باغبانی اور تعمیرات وغیرہ فنون میں ان سے زیادہ ماہر تھے۔ وہ دنیا میں بڑی شان و شوکت کے مالک تھے، عالیشان محلوں اور قلعوں میں رہتے تھے۔ ج... ب ان کے پاس ہمارے پیغمبر پیغام توحید لے کر آئے تو انہوں نے اپنی دولت و شوکت کے غرور میں ان کو جھٹلا دیا تو ہم نے ان کو دردناک عذاب میں مبتلا کر کے ہلاک کردیا۔ یہ عذاب ان کے اعمال کا نتیجہ تھا ہم نے ان پر ظلم و زیادتی نہیں کی۔ ثم کان عاقبۃ الذی الخ۔ یہ ان معاندین کے انجام بد کا بیان ہے۔ عاقبۃ الذین اساء وا، کان کی خبر مقدم ہے اور السوای اس کا اسم مؤخر ہے۔ اور ان کذبوا الخ ماقبل کا سبب ہے ان سے پہلے باء سببیہ یا لام تعلیل مقدر ہے ای بان اولان (روح) اور السوای سے مراد عقوبت ہے۔ یعنی دنیا میں سخت ترین سزا کی صورت میں وہ اپنے انجام سے دو چار ہوئے اس لیے کہ انہوں نے اللہ کی آیتوں کی تکذیب کی اور ہماری آیتوں اور ہمارے پیغمبروں سے استہزاء کرتے تھے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

9۔ کیا یہ لوگ ملک میں چلے پھرے نہیں چلتے پھرتے تو دیکھتے کہ ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو ان سے پہلے ہو گزرے ہیں ان کا حال یہ تھا کہ وہ ان سے قوت میں بھی زیادہ تھے اور انہوں نے ان سے زیادہ زمین کو بویا جوتا بھی تھا اور جس قدر ان لوگوں نے سامان اور تعمیرات سے زمین کو آباد کر رکھا ہے انہوں نے ان سے کہ... یں زیادہ آباد کر رکھا تھا اور ان کے پاس بھی ان کے پیغمبرکھلی اور صاف نشانیاں لیکر آئے تھے پس اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہ تھی کہ وہ ان لوگوں پر ظلم اور زیادتی کرتا لیکن وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا کرتے تھے۔ یعنی تم سے پہلے ے منکرین بڑے قدر آور اور زورآور تھے کھیتی باڑی بھی خوب کرتے تھے درخت لگاتے تھے نہریں نکالتے تھے زمین کو انہوں نے مکانات بنا بنا کر خوب آباد کر رکھا تھا بڑا سامان رکھتے تھے۔ غرض ہر بات طاقت و قوت محنت اور کاشت اور شہروں کی آبادی وغیرہ میں تم سے بڑھے ہوئے تھے اور ان کے پا س ان کے رسول بڑے بڑے صاف دلائل اور معجزات لیکر آئے تھے لیکن انہوں نے رسولوں کی مخالفت کر کے اپنی جانوں پر ظلم کیا حضرت حق تعالیٰ کی یہ شان نہ تھی کہ وہ ان پر ظلم و زیادتی کرتا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی بن رسول بھیجے اللہ نہ پکڑتا ۔ 12  Show more