Surat Luqman

Surah: 31

Verse: 15

سورة لقمان

وَ اِنۡ جَاہَدٰکَ عَلٰۤی اَنۡ تُشۡرِکَ بِیۡ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ۙ فَلَا تُطِعۡہُمَا وَ صَاحِبۡہُمَا فِی الدُّنۡیَا مَعۡرُوۡفًا ۫ وَّ اتَّبِعۡ سَبِیۡلَ مَنۡ اَنَابَ اِلَیَّ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۵﴾

But if they endeavor to make you associate with Me that of which you have no knowledge, do not obey them but accompany them in [this] world with appropriate kindness and follow the way of those who turn back to Me [in repentance]. Then to Me will be your return, and I will inform you about what you used to do.

اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا ، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کردوں گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِن جَاهَدَاكَ عَلى أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَإ تُطِعْهُمَا ... But if they strive with you to make you join in worship with Me others that of which you have no knowledge, then obey them not; means, if they try hard to make you follow them in their religion, then do not accept that from them, but do not let that stop you from behaving with them in the world kindly, i.e. treating them with respect. ... وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ... but behave with them in the world kindly, ... وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ... and follow the path of him who turns to Me in repentance and in obedience. means, the believers. ... ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّيُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ Then to Me will be your return, and I shall tell you what you used to do. At-Tabarani recorded in Al-Ishrah that Sa`d bin Malik said, "This Ayah, وَإِن جَاهَدَاكَ عَلى أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَإ تُطِعْهُمَا (But if they strive with you to make you join in worship with Me others that of which you have no knowledge, then obey them not;) was revealed concerning me. I was a man who honored his mother, but when I became Muslim, she said: `O Sa`d! What is this new thing I see you doing Leave this religion of yours, or I will not eat or drink until I die, and people will say: Shame on you, for what you have done to me, and they will say that you have killed your mother.' I said, `Do not do that, O mother, for I will not give up this religion of mine for anything.' She stayed without eating for one day and one night, and she became exhausted; then she stayed for another day and night without eating, and she became utterly exhausted. When I saw that, I said: `O my mother, by Allah, even if you had one hundred souls and they were to depart one by one, I would not give up this religion of mine for anything, so if you want to, eat, and if you want to, do not eat.' So she ate."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

151یعنی مومنین کی راہ۔ 152یعنی میری طرف رجوع کرنے والوں کی پیروی اس لیے کرو کہ بالآخر تم سب کو میری ہی بارگاہ میں آنا ہے، اور میری ہی طرف سے ہر ایک کو اس کے اچھے یا برے عمل کی جزا ملنی ہے۔ اگر تم میرے راستے کی پیروی کرو گے اور مجھے یاد رکھتے ہوئے زندگی گزارو گے تو امید ہے کہ قیامت والے روز میری عدالت میں سرخرو ہو گے بصورت دیگر میرے عذاب میں گرفتار ہو گے۔ سلسلہ کلام حضرت لقمان کی وصیتوں سے متعلق تھا۔ اب آگے پھر وہی وصیتیں بیان کی جارہی ہیں۔ جو لقمان نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ درمیان کی دو آیتوں میں اللہ تبارک وتعالی نے جملہ معترضہ کے طور پر ماں باپ کے ساتھ احسان کی تاکید فرمائی۔ جس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی گئی ہے کہ لقمان نے یہ وصیت اپنے بیٹے کو نہیں کی تھی کیونکہ اس میں ان کا اپنا ذاتی مفاد بھی تھا۔ دوسرا یہ واضح ہوجائے کہ اللہ کی توحید و عبادت کے بعد والدین کی خدمت و اطاعت ضروری ہے۔ تیسرا یہ کہ شرک اتنا بڑا گناہ ہے کہ اگر اس کا حکم والدین بھی دیں تو ان کی بات نہیں ماننی چاہیے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩] السماء کی تشریح کے لئے دیکھئے سورة عنکبوت کی آیت نمبر ٨ کا حاشیہ نمبر ١٢ [ ٢٠] یعنی والدین بھی اگر شرک پر یا دین کے خلاف کسی بات کے لئے مجبور کریں تو ان کی بات اللہ کے حکم کے مقابلہ میں تسلیم نہیں کی جاسکتی۔ البتہ دنیوی معاملات میں ان سے اچھا سلوک کیا جائے خواہ والدین کافر ہی کیوں نہ ہو۔ مثلاً محتاج ہوں، تو ان کی مالی اعانت کی جائے۔ اور دین کے علاوہ دوسری باتوں میں ان کی اطاعت کی جائے۔ ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھا جائے۔ ان سے محبت اور شفقت سے سلوک کیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ اللہ کے مخلص بندوں کی راہ ہے۔ لہذا انہی کی راہ اختیار کرنی چاہئے۔ [ ٢١] یعنی والدین کو بھی اور اولاد کو بھی سب کو میرے حضور ہی پیش ہونا ہے۔ میں سب کو بتلا دوں گا کہ زیادتی اور تقصیر کسی کی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰٓي اَنْ تُشْرِكَ بِيْ ۔۔ : والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کے بعد اس میں سے ایک چیز کا استثنا فرمایا کہ اگر وہ تجھ پر اس بات کا زور دیں کہ تو میرے ساتھ شرک کرے، تو خواہ جتنا زور لگا لیں ان کی بات مت ماننا۔ سورة عنکبوت کی آٹھویں آیت میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں ” وَاِنْ جَاهَدٰكَ لتُشْرِكَ بِيْ “ ہے اور یہاں ” عَلٰٓي اَنْ تُشْرِكَ بِيْ “ ہے۔ ” علی “ کے لفظ میں ” لام “ کی بہ نسبت زیادہ قوت پائی جاتی ہے، اس لیے تفسیر میں اس بات کی طرف ” خواہ جتنا زور لگا لیں “ کے الفاظ کے ساتھ اشارہ کیا گیا ہے۔ سورة عنکبوت میں فتنے کا ذکر ہے، جو والدین کی طرف سے منت و سماجت اور نرمی سے بھی ہوسکتا ہے اور سختی سے بھی، بہلانے پھسلانے یا بےرخی کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے اور طاقت، قوت اور زبردستی کے ساتھ بھی۔ والدین کی طرف سے شرک پر آمادہ کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کے باوجود ان کی اطاعت نہ کرنے کا حکم دیا، خواہ معاملہ تلوار یا بندوق تک پہنچ جائے۔ معمولی کوششیں خودبخود اس کے ضمن میں آگئیں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ کے بعد آدمی کے سب سے بڑے محسنوں کی بات ماننا اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلے میں جائز نہیں، تو پھر کسی اور کی کیا حیثیت ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے ؟ خواہ کوئی رشتہ دار ہو یا دوست، پیر ہو یا فقیر، امام ہو یا حاکم، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِيْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ ) [ المعجم الکبیر للطبراني : ١٣؍٦٠، ح : ١٤٧٩٥ ] ” خالق کی نافرمانی کے معاملہ میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ “ مزید دیکھیے سورة عنکبوت (٨) کی تفسیر۔ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا : ممکن تھا کہ کوئی شخص اس سے یہ سمجھ لیتا کہ والدین کے مشرک ہونے یا شرک پر آمادہ کرنے کی کوشش کی صورت میں ان سے سرے ہی سے قطع تعلق کرلینا چاہیے۔ اس لیے فرمایا کہ جب تک وہ زندہ ہیں، ان معاملات میں جو دین کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے، ان کے ساتھ اچھے طریقے کے ساتھ رہو۔ مثلاً ان کے کھانے پینے، پہننے، رہنے اور علاج وغیرہ کی ضروریات کا خیال رکھو، ان کے ساتھ نرمی اور محبت کے ساتھ بات کرو، ان کے غصے اور تلخی کو برداشت کرتے رہو۔ جب مشرک والدین کے متعلق یہ حکم ہے، تو مومن والدین کا حق کس قدر ہوگا ! وَّاتَّبِعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ : اس جملے میں دوبارہ تاکید فرمائی کہ دنیاوی معاملات میں ان کے ساتھ معروف طریقے سے رہنے کی صورت میں اس بات کا خیال رکھو کہ تم میں مداہنت نہ پیدا ہوجائے کہ دینی معاملات میں بھی تم ان کے پیچھے چل پڑو۔ نہیں، چلنا انھی لوگوں کے راستے پر ہے جن کا رجوع میری طرف ہے اور جو صرف میری ہدایت اور رہنمائی پر چلتے ہیں۔ یہ راستہ صرف ان لوگوں کا ہے جو قرآن و حدیث پر چلتے ہیں، کیونکہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ یہی دو چیزیں ہیں۔ کسی ایسے شخص کی رائے یا قیاس پر چلنا، جس پر اللہ کی طرف سے وحی نہیں ہوتی ” سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ “ پر چلنا نہیں، کیونکہ ہدایت حاصل کرنے کے لیے اس کی طرف رجوع اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں بلکہ غیر اللہ کی طرف ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ ) [ الأعراف : ٣ ] ” اس کے پیچھے چلو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا اور دوستوں کے پیچھے مت چلو۔ “ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : ” میں تمہیں بتاؤں گا “ میں ڈانٹنے کا جو زور ہے وہ ” میں تمہیں جزا دوں گا “ میں نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

صَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُ‌وفًا (And be with them, in this world, with due fairness - 15). It means: &In the matter of the contravention of your faith and religion, do not obey parents. But, when it comes to worldly matters, such as serving parents physically or financially or in any other way necessary, do not fall short about it. Instead, deal with them in mundane matters according to recognized custom. Show no disrespect to them. Do not respond to what they say in a manner that hurts them unnecessarily. In other words, the pain you cause them by not accepting their insistence on Shirk and Kufr is something you will have to bear by, since you have no choice there. But, let this necessity stay within its functional limits and keep abstaining from causing any pain to them in other matters.& Special Note As for the weaning period of two years for a child mentioned in the verse, it is in accordance with customary practice. It carries no clarification concerning the injunction relevant to any additional period of suckling the child. A detailed explanation of this issue will, insha&Allah, appear under the commentary on the verse: وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرً‌ا (And his carrying and weaning is (in) thirty months - A1-Ahgaf, 46:15).

(آیت) صاحبھما فی الدنیا معروفاً ، یعنی دین میں تو تم ان کا کہنا نہ مانو مگر دنیا کے کاموں میں مثلاً ان کی جسمانی خدمت یا مالی اخراجات وغیرہ اس میں کمی نہ ہونے دو ، بلکہ دنیوی معاملات میں اس کے عام دستور کے مطابق معاملہ کرو ان کی بےادبی نہ کرو، ان کی بات کا جواب ایسے نہ دو جس سے بلاضرورت دل آزاری ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے شرک و کفر کے معاملہ میں نہ ماننے سے جو ان کی دل آزاری ہوگی وہ تو مجبوری کے لئے برداشت کرو، مگر ضرورت کو ضرورت کی حد میں رکھو، دوسرے معاملات میں ان کی دل آزاری سے پرہیز کرتے رہو۔ فائدہ : اس آیت میں جو بچے کے دودھ چھڑانے کی مدت دو سال بتلائی گئی ہے، یہ عام عادت کے مطابق ہے۔ اس میں اس کی کوئی تشریح و تصریح نہیں کہ اس سے زیادہ مدت تک دودھ پلایا جائے تو اس کا کیا حکم ہے۔ اس مسئلہ کی تشریح سورة احقاف کی ( آیت) وحملہ وفصلہ ثلثون شہراً ۔ کے تحت میں انشاء اللہ تعالیٰ آئے گی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ جَاہَدٰكَ عَلٰٓي اَنْ تُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ۝ ٠ ۙ فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا۝ ٠ ۡوَّاتَّبِــعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ۝ ٠ ۚ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝ ١٥ جهد الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال : جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب : - مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان . - ومجاهدة النفس . وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» «1» . والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» «2» . ( ج ھ د ) الجھد والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور جہا دتین قسم پر ہے ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» . قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] ، دنا اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ معْرُوفُ : اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران/ 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان/ 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب/ 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء/ 6] ، إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ [ النساء/ 114] ، وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 241] ، أي : بالاقتصاد والإحسان، وقوله : فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق/ 2] ، وقوله : قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ [ البقرة/ 263] ، أي : ردّ بالجمیل ودعاء خير من صدقة كذلك، والعُرْفُ : المَعْرُوفُ من الإحسان، وقال : وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ [ الأعراف/ 199] . وعُرْفُ الفرسِ والدّيك مَعْرُوفٌ ، وجاء القطا عُرْفاً. أي : متتابعة . قال تعالی: وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات/ 1] المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران/ 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب/ 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء/ 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ [ النساء/ 114] ہاں ( اس شخص کی مشاورت اچھی ہوسکتی ہے ) جو خیرات یا نیک بات ۔۔۔ کہے ۔ وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 241] اور مطلقہ کو بھی دستور کے مطابق نان ونفقہ دینا چاہیے ۔ یعنی اعتدال اور احسان کے ساتھ ۔ نیز فرمایا : فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق/ 2] تو یا تو ان کی اچھی طرح سے زوجیت میں رہنے دو اور اچھی طرح سے علیحدہ کردو ۔ قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ [ البقرة/ 263] نرم بات اور درگذر کرنا صدقہ سے بہتر ہے ۔ یعنی نرم جواب دے کر لوٹا دینا اور فقیر کے لئے دعا کرنا اس صدقہ سے بہتر ہے جس پر احسان جتلایا جائے ۔ العرف : وہ نیک بات جس کی اچھائی کو سب تسلیم کرتے ہوں قرآن پاک میں ہے : وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ [ الأعراف/ 199] اور نیک کام کرنے کا حکم دو ۔ عرف الفرس گھوڑے کی ایال عرف الدیک : مرغی کی کلغی جاء القطاعرفا : قطار جانور آگے پیچھے یکے بعد دیگرے آئے اسی سے قرآن پاک میں ہے : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات/ 1] ہواؤں کی قسم جو متواتر چلتی ہیں ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ نوب النَّوْب : رجوع الشیء مرّة بعد أخری. وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر/ 54] ، مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم/ 31] ( ن و ب ) النوب ۔ کسی چیز کا بار بارلوٹ کر آنا ۔ یہ ناب ( ن ) نوبۃ ونوبا کا مصدر ہے، وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر/ 54] اپنے پروردگار کی طر ف رجوع کرو ۔ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم/ 31] ( مومنو) اس خدا کی طرف رجوع کئے رہو ۔ فلان ینتاب فلانا وہ اس کے پاس آتا جاتا ہے ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (واتبع سبیل من اناب الی۔ اور اس شخص کی راہ پر چلو جو میری طرف رجوع کیے ہوئے ہو) یہ قول باری اجماع المسلمین کی صحت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کی راہ پر چلنے کا حکم دیا ہے اس کی مثال یہ قول باری ہے (ویتبع غیر سبیل المومنین ) اور وہ اہل ایمان کی راہ کو چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اگر وہ دونوں بھی تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرائے کہ جس کے شریک ہونے کے لیے تیرے پاس کوئی دلیل نہیں اور تو جانتا ہے کہ وہ میرا شریک نہیں تو پھر اس شریک کے کام میں ان کا کہا نہ ماننا اور دنیا میں ان کے ساتھ نیکی اور احسان کرتے رہنا اور صرف اس ہی شخص کے طریقہ پر چلنا جو میری طرف اور میری اطاعت کی طرف رجوع کرتا ہو۔ یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نقش قدم پر چلنا اور پھر تم سب کو اور تمہارے والدین کو میرے پاس آنا ہے میں اس وقت تمہیں جتا دوں گا جو کچھ تم نیکی اور برائی کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ (وَاِنْ جَاہَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌلا فَلَا تُطِعْہُمَا) ” یہاں والدین کے اپنی اولاد کو شرک پر مجبور کرنے کے حوالے سے ” جہاد “ کا لفظ استعمال ہوا ہے ‘ جس کے معنی انتہائی کوشش کے ہیں۔ چناچہ اس لفظ میں والدین کی طرف سے اپنا موقف منوانے کے لیے لڑنے جھگڑنے اور ہر طرح سے دباؤ ڈالنے کا مفہوم موجود ہے۔ البتہ یہاں بہت واضح انداز میں بتادیا گیا ہے کہ والدین کے تمام تر تقدس اور احترام کے باوجود انہیں اپنی حدود سے تجاوز کرنے اور اللہ کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت کسی صورت میں نہیں دی جائے گی۔ چناچہ اگر والدین اپنی اولاد کو اللہ کے ساتھ شرک کرنے پر مجبور کرنے لگیں تو اولاد ان کے اس حکم کی تعمیل کسی قیمت پر نہیں کرے گی۔ اس حوالے سے یہ اہم نکتہ بھی ذہن نشین کرلیجیے کہ یہ حکم صرف بت پرستی کی ممانعت تک محدود نہیں بلکہ لَا تُشْرِکْ باللّٰہِ کے الفاظ میں ہر قسم کے شرک کی مطلق ممانعت ہے ‘ بلکہ یوں سمجھنا چاہیے کہ اگر والدین اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم کو توڑنے کا کہہ رہے ہوں تو گویا وہ شرک ہی کا حکم دے رہے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ کے مقابلے میں کسی دوسرے کو مطاع ماننا گویا اسے معبود بنا لینے کے مترادف ہے۔ جیسے اگر کوئی شخص اپنے نفس کے اکسانے پر حرام میں منہ مارتا ہے یعنی اللہ کے حکم کو چھوڑ کر اپنے نفس کی بات مانتا ہے تو گویا اس نے حرام دولت کو اور اپنے نفس کو معبود کا درجہ دے دیا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن حکیم کا حکم بہت واضح ہے : (اَرَءَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوٰٹہُط اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلًا ) ( الفرقان) ” کیا تم نے دیکھا اس شخص کو جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے ! تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) کیا آپ ایسے شخص کی ذمہ داری لے سکتے ہیں ؟ “ شرک جیسے حساس مسئلے کو بہت زیادہ احتیاط اور اہتمام کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شرک کا محدود مفہوم سامنے رکھ کر اس کے بہت سے دوسرے پہلوؤں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ الحمد للہ ! اس موضوع پر میں نے تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ ” حقیقت و اقسام شرک “ کے موضوع پر میری چھ گھنٹے کی تقاریر کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ اس موضوع کو سمجھنے کے لیے ان تقاریر سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ان تقاریر کو اسی موضوع کے تحت کتابی صورت میں شائع بھی کیا جا چکا ہے۔ (وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًاز) ” ملاحظہ کیجیے اللہ تعالیٰ کے احکام کے اندر کس قدر خوبصورت توازن پایا جاتا ہے۔ ایک طرف والدین کے حقوق ادا کرنے کی سخت تاکید کی گئی ہے ‘ جبکہ دوسری طرف ان کے حقوق کی حد بھی مقرر کردی گئی ہے۔ پھر ایسا بھی نہیں کہ اگر والدین کافر یا مشرک ہیں تو ان کے تمام حقوق ہی ساقط ہوجائیں ‘ بلکہ ایسی صورت میں بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ یعنی اگر والدین مشرک ہیں تو بھی ان کی خدمت کرو ‘ ان کی ضروریات کا خیال رکھو اور ان کے مؤدّب بن کر رہو۔ البتہ اگر وہ شرک پر مجبور کریں یا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کا حکم دیں تو ان کا یہ مطالبہ نہ مانا جائے اور اس حوالے سے بھی انکار کرتے ہوئے ان کے ساتھ بد تمیزی نہ کی جائے۔ (وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ج) ” قرآن مجید میں جہاں بھی والدین کے حقوق کی بات ہوئی ہے وہاں ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے جبکہ ان کی اطاعت کرنے کا حکم کہیں بھی نہیں دیا گیا۔ بہر حال اگر والدین کی اطاعت ہوگی بھی تو اللہ کی اطاعت کے دائرے کے اندر رہ کر ہی ہوگی۔ البتہ جہاں تک اتباع اور پیروی کا تعلق ہے تو وہ صرف اسی شخص کی جائز ہے جو ہر طرف سے منہ موڑ کر کلیّ طور پر اللہ کی اطاعت میں آچکا ہو۔ جب تک نبوت کا تسلسل قائم تھا تو یہ بات انبیاء کرام ( علیہ السلام) پر صادق آتی تھی۔ اب ختم نبوت کے بعد امت میں سے جو شخص بھی اللہ کی اطاعت اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کرتے ہوئے لوگوں کو دین کی طرف بلائے اس آیت کی رو سے اس کا اتباع کرنا اور اس کا ساتھ دینا ضروری ہے۔ (ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) ” آخر کار تم سب نے میرے پاس ہی آنا ہے ‘ والدین کو بھی میرے حضور حاضر ہونا ہے اور ان کی اولاد کو بھی۔ ان میں سے جس نے جو کیا ہوگا ‘ وہ سب کچھ اسے دکھا دیا جائے گا۔ اب اگلی آیت میں حضرت لقمان کی دوسری نصیحت کا ذکر ہے۔ ان کی پہلی نصیحت آیت ١٣ میں بیان ہوئی ہے۔ اس کے بعد دو آیات میں والدین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

24 That is, "About wham you have no knowledge that he is My associate." 25 "All of you": the children as well as the parents. 26 For explanation, see E. N.'s 11 and 12 of Surah Al-'Ankabut.

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :24 یعنی جو تیرے علم میں میرا شریک نہیں ہے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :25 یعنی اولاد اور والدین ، سب کو ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :26 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، سورۂ عنکبوت ، حواشی نمبر ۱۱ ۔ ۱۲ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: یعنی دین کے معاملے میں اگر والدین کوئی غلط بات کہیں تو ان کی بات ماننا تو جائز نہیں ہے، لیکن اُن کی بات رد کرنے کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہئے جو ان کے لئے تکلیف دہ ہو، یا جس سے وہ اپنی توہین محسوس کریں، بلکہ نرم الفاظ میں ان کو بتادینا چاہئے کہ میں آپ کی یہ بات ماننے سے معذور ہوں۔ اور صرف اتنا ہی نہیں اپنے عام برتاو میں بھی اُن کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرتے رہنا چاہئے، مثلا ان کی خدمت کرنا، ان کی مالی امداد کرنا، وہ بیمارہوجائیں تو ان کی تیمار داری کرنا وغیرہ۔ 9: چونکہ والدین غلط راستے پر ہیں، اِس لئے اُن کا غلط راستہ اپنانا جائز نہیں، بلکہ راستہ اُنہی کا اپنانا چاہئے جنہوں نے اﷲ تعالیٰ سے مضبوط تعلق قائم کیا ہوا ہو، یعنی وہ اُسی کی عبادت اور اطاعت کرتے ہوں، اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ دین پر عمل بھی صرف اپنی سمجھ اور رائے سے نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ جن لوگوں کے بارے میں یہ بات واضح طور پر معلوم ہے کہ انہوں نے اﷲ تعالیٰ سے لولگائی ہوئی ہے، ان کو دیکھنا چاہئے، کہ انہوں نے دین پر کس طرح عمل کیا، اور پھر انہی کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ اِسی لئے کہا جاتا ہے اور بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ قرآن و حدیث کے صرف ذاتی مطالعے پر کوئی ایسا نتیجہ نہیں نکالنا چاہئے، جو امت کے علما اور بزرگوں کی تشریح کے خلاف ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٥۔ اوپر ماں باپ کے حق کے ماننے کا ذکر تھا اور یہ بھی ذکر تھا کہ اللہ تعالیٰ کا حق ماں باپ کے حق پر مقدم ہے اس لیے فرمایا کہ اگر ماں باپ تجھ سے شرک کرنے پر جھگڑیں تو ان کا کہا ہرگز نہ مان کیونکہ شرک ایسی بےسند چیز ہے جس کا پتہ دنیا میں کسی کو معلوم نہیں اس لیے اس باب میں ماں باپ کی پیروی مت کر ہاں معاملات دنیا میں تو ان کا ساتھی رہ اور ان کے ساتھ سلوک کرتا رہ دین میں ان لوگوں کی پیروی کر جو شرک سے بیزار اور ایمان والے ولوگ ہیں آخر تم سب اللہ کے پاس جزا و سزا کے لیے آنا ہے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت عبداللہ بن حذافہ کے قصہ کی گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس بات میں آدمی اللہ کا گنہگار ٹھہرتا ہو تو مخلوقات کی خاطر داری سے کوئی ایماندار شخص ایسی بات کو ہرگز نہ کرے۔ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ماں باپ ہوں خواہ کوئی اور مخلوقات میں سے ہو انسان کو مخلوقات کی فرما نبرداری وہاں تک جائز ہے کہ وہ فرما نبرداری حکم الٰہی کے برخلاف نہ ہو “

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(31:15) وان جاھدک۔ ان شرطیہ ہے جھدک فعل ماضی تثنیہ مذکر غائب ک ضمیر واحد مذکر حاضر۔ جاھد یجاھد مجاھدۃ (مفاعلہ) (اگر) وہ دونوں (تم سے) جہاد کریں یعنی جھگڑیں لڑیں ۔ تم پر زور دیں ۔ تم پر کوشش کریں۔ ان تشرک میں ان مصدریہ ہے۔ ما لیس لک بہ علم۔ میں ما بمعنی الذی ہے ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع ما موصولہ ہے۔ جس کا تجھے رلم نہیں۔ جس کی تیرے پاس کوئی دلیل نہیں۔ فلا تطعھما۔ جواب شرط۔ تو ان دونوں کا کہنا نہ مان۔ ان کی اطاعت مت کر۔ صاحبھما۔ فعل امر واحد مذکر حاضر۔ ھما ضمیر تثنیہ مذکر غائب ۔ مفعول ۔ تو ان کی مصاحبت کر۔ تو ان کے ساتھ رہ۔ تو ان کے ساتھ زندگی گزار۔ معروفا : ای صحابا معروفا۔ اچھی مصاحبت۔ اچھے سلوک کے ساتھ۔ اتبع۔ فعل امر۔ واحد ۔ مذکر حاضر۔ تو اتباع کر۔ تو پیروی کر۔ من اناب الی : من موصولہ بمعنی الذی اناب ینیب انابۃ (افعال) رجوع کرنا انابت الی اللہ کے معنی اخلاص عمل اور دل سے اللہ کی طرف رجوع کرنا اور توبہ کرنا۔ سبیل مضاف من اناب الی مضاف الیہ۔ جو میری طرف صدق دل سے رجوع کرے اس کی راہ کی پیروی کر۔ مرجعکم مضاف مضاف الیہ۔ تمہارا لوٹنا۔ انبئکم۔ مضارع واحد متکلم کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ میں تم کو خبر کروں گا۔ میں تم کو بتاؤں گا۔ قائدہ : آیات 14 اور 15 بطور جملہ معترضہ ہیں اگلی آیت 16 سے پھر حضرت لقمان (علیہ السلام) کا کلام شروع ہوتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 اور ظاہر ہے کہ خدا کے ساتھ کسی کے شریک ہونے کی سند نہیں ہوسکتی۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں :” شریک نہ مان جو تجھے معلوم نہیں یعنی شبہ میں بھی نہ مان اور یقین سمجھ کر تو کیا مانے۔ “8 کیونکہ خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں۔ (دیکھیے عنکبوت آیت 8)9 یعنی ان کے مشرک ہونے کے باوجود دنیا کے عام معاملات میں ان سے شفقت، محبت اخلاق اور تواضح کا برتائو کر۔10 یعنی میری توحید کا قائل ہے اور پورے اخلاص سے میری اطاعت و بندگی کر رہا ہے۔ دین کے معاملہ میں ماں باپ کی تقلید جائز نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ اور ظاہر ہے کہ کوئی چیز بھی ایسی نہیں کہ جس کے استحقاق شرکت پر کوئی دلیل قائم ہو بلکہ عدم استحقاق پر دلیلیں قائم ہیں۔ 1۔ یعنی میرے احکام کا معتقد و عامل ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : والدین کی فرمانبرداری کی حدود۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنم اور نسب کے حوالے سے انسان پر اس کے والدین کا بہت زیادہ حق ہے۔ لیکن انسان کا حقیقی خالق اور مالک ” اللہ “ ہے۔ اس نے انسانی افزائش کے لیے والدین کو اپنی تخلیق کا ذریعہ بنایا ہے اس لیے اس نے اپنی بندگی کے بعد ماں باپ کی سمع و اطاعت کا حکم دیا ہے۔ لیکن والدین کی اطاعت کی بھی ایک حد مقرر فرمائی ہے۔ بیشک والدین یہودی، عیسائی یا کسی بھی دین پر ہوں ان کی سمع و اطاعت کرنے کا حکم ہے۔ اس وقت تک جب تک وہ کفرو شرک کا حکم نہ دیں۔ اگر وہ کفرو شرک، اور بدعات کا حکم دیں تو ان کا حکم ماننا جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کفرو شرک کی تائید میں کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ لہٰذا دنیا کے اچھے معاملات میں والدین کی تابعداری کرنی ہے۔ مگر دین کے معاملہ میں پیروی اس شخص کی کرنی ہے جو ” اللہ “ کے راستے کی طرف بلانے والا ہو بالآخر سب کو ” اللہ “ کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ وہ بتائے گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو۔ (عَنِ النَوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ ) [ مشکوۃ : باب کتاب الامارۃ والقضاء ] ” حضرت نواس بن سمعان (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ “ حضرت سماک بن حرب بیان کرتے ہیں میں نے مصعب بن سعد (رض) سے سنا وہ اپنے باپ سعد (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ میرے متعلق چار آیات نازل ہوئی انہوں نے اپنی والدہ کا قصہ بیان کیا سعد (رض) کی والدہ کہنے لگی کیا اللہ نے ماں کے ساتھ نیکی کا حکم نہیں دیا ؟ اللہ کی قسم اس وقت تک نہ کھانا کھاؤں گی اور نہ پانی پیؤں گی یہاں تک کہ میں مرجاؤں۔ جب تک تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار نہ کرے۔ راوی کہتے ہیں جب سعد ماں کو کھانا کھلانا چاہتے تو وہ منہ بند کرلیتی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (اور ہم نے انسان کو تاکیدی حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین سے نیک سلوک کرے اور اگر وہ اس بات کا مطالبہ کریں کہ تو کسی کو میرا شریک ٹھہرائے جسکا تجھے علم نہیں تو ان کی اطاعت نہیں کرنا۔ میری طرف ہی تمہیں لوٹ کر آنا ہے۔ میں تمہیں بتلا دوں گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔ ) [ رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ الْعَنْکَبُوتِ ] اس آیت میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ کسی کو ” اللہ “ کا شریک اس لیے نہیں بنانا کیونکہ تجھے اس کا علم نہیں۔ علم اور معرفت کسی چیز کو جاننے کا نام ہے، جس کی بنیاد ٹھوس اور واضح دلیل پر ہونی چاہیے۔ کیونکہ شرک کی واضح اور ٹھوس دلیل نہیں ہوتی اس لیے فرمایا ہے کہ جس کا تو علم نہیں رکھتا اسے اپنے رب کا شریک نہ بنانا۔ اسی بنیاد پر فرمایا گیا ہے کہ اندھیرا اور روشنی برابر نہیں ہوسکتے۔ (فاطر : ٢٠) مسائل ١۔ کفرو شرک میں کسی کی تابعداری کرنا جائز نہیں۔ ٢۔ کافر اور مشرک والدین کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا لازم ہے۔ ٣۔ جو شخص اللہ کے راستے کی طرف بلائے اس کی بات ماننا چاہیے۔ ٤۔ سب نے ” اللہ “ کی طرف پلٹنا ہے وہ لوگوں کو ان کے اعمال کی خبر دیگا۔ تفسیر بالقرآن شرک کی کوئی دلیل نہیں : ١۔ جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی غیر کو پکارتا ہے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ (المؤمنون : ١١٧) ٢۔ انھوں نے اللہ کے علاوہ کئی معبود بنالیے ہیں آپ فرمائیں کوئی دلیل لاؤ۔ (الانبیاء : ٢٤) ٣۔ اس کے سوا کوئی اور بھی الٰہ ہے کوئی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔ (النمل : ٦٤) ٤۔ کچھ لوگ ” اللہ “ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی گئی۔ (الحج : ٧١) ٥۔ لوگو ! تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہوئے نہیں ڈرتے حالانکہ اللہ نے اس کی کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ (الانعام : ٨١) ٦۔ اے لوگو ! تمہارے پاس رب کی طرف سے اس کی توحید کی دلیل آچکی ہے۔ (النساء : ١٧٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا (وَاِنْ جَاھَدٰکَ عَلآی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا) (اور اگر تیرے والدین تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے جس کی تیرے پاس کوئی دلیل نہیں ہے تو ان کی فرمانبرداری نہ کرنا) دنیا میں اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے اور غیر اللہ کی عبادت کرنے کا سلسلہ چلا ہوا ہے، یہ ایک محض اندھی تقلید کے طور پر ہے، ماں باپ کو مشرک پاتے ہوئے شرک کا رواج دیکھتے ہیں تو خود بھی شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے جب مشرکین کو تنبیہ کی جاتی ہے اور شرک سے روکا جاتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو اسی پر پایا، علمی عقلی دلیل کوئی نہیں محض تقلید ہے۔ اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے ارشاد فرمایا کہ جو چیز بےدلیل ہے وہ غلط ہے، گمراہی ہے اسے اختیار نہ کرو، اگر ماں باپ زور دیں کہ اللہ کے ساتھ شرک کرو تو اس میں ان کی اطاعت نہ کرنا، انہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دیں، سب سے بڑا اللہ تعالیٰ کا حق ہے کیونکہ وہ خالق اور مالک ہے، کسی کے کہنے سے اس کی نافرمانی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ کسی کے کہنے سے نہ شرک اختیار کرنا جائز ہے نہ کسی بھی قسم کا کفر نہ کسی بھی قسم کا گناہ۔ اسی لیے حدیث شریف میں فرمایا (لاَ طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ ) کہ خالق کی نافرمانی میں کسی کی فرمانبرداری نہیں ہے۔ (وَصَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرِوْفًا) (اور دنیا میں ان کے ساتھ خوبی کے ساتھ رہنا سہنا رکھو) یعنی ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ رکھو، مومن ہوں یا کافر، حسن سلوک کے ساتھ پیش آتے رہو، اگر وہ کافر ہیں تو ان کے کفر کی وجہ سے ان کی خدمت اور حسن سلوک سے منہ نہ موڑو، بس اتنا خیال رہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ ہو۔ (وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ) (اور جو لوگ میرے راستے کی طرف رجوع کریں ان کا اتباع کرنا) اس میں نیک بننے اور نیکیوں پر ثابت قدم رکھنے کا طریقہ بتادیا اور وہ یہ کہ جو بندے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں ان کا اتباع کیا جائے۔ انسان کا مزاج ہے کہ وہ صحبت سے متاثر ہوتا ہے، برے آدمیوں میں آنا جانا رکھتا ہے تو ان کا اثر لے لیتا ہے اور اگر صالحین کے پاس آتا جاتا ہے، ان کی مجلسوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے تو نیکی کی طرف طبیعت چلنے لگتی ہے لہٰذا انسان پر لازم ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں ان کی بتائی ہوئی راہ پر چلے، انہیں کے ساتھ رہے اور ان کا اتباع کرے ورنہ شیطان اچک لے گا اور بری راہ پر ڈال دے گا۔ (ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) (پھر میری طرف تم سب کو لوٹنا ہے سو میں تمہیں ان کاموں سے باخبر کردوں گا جو تم کیا کرتے تھے) ہر ایک اپنے عمل سے باخبر ہوگا اور اپنے اپنے عمل کے مطابق سزا و جزا کا مستحق ہوگا۔ والدین کی خدمت اور فرمانبرداری کے بارے میں سو رۃ الاسراء کے رکوع نمبر ٣ میں اور سورة العنکبوت کے رکوع نمبر ١ میں تفصیل سے لکھا جاچکا ہے اس کا بھی مطالعہ کرلیا جائے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ وان جاھداک الخ، اگر ماں باپ تجھ پر زور ڈالیں اور تجھے شرک پر مجبور کریں تو اس معاملے میں ان کی ہرگز اطاعت نہ کر البتہ دنیا میں ان کے دوسرے حقوق ادا کرتا رہ اور اطاعت صرف اسی کی کر جو توحید پر قائم ہو اور شرک سے بیزار ہو۔ ای رجع الی بالتوحید والاخلاص بالطاعۃ (روح ج 21 ص 87) ۔ پھر قیامت کے دن تم سب میرے سامنے حاضر ہوگے تو وہاں ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا و سزا دی جائیگی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

15۔ اور اگر دونوں تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ تو کسی ایسی چیز کو میرا شریک ٹھہرا جس کے شریک الوہیت اور شرک فی العبادت ہونے کی تیرے پاس کوئی سند اور دلیل نہ ہو تو ان کا کہنا نہ مان اور ان کی اطاعت نہ کر ہاں دنیوی معاملات میں مثلاً خدمت اور انفاق وغیرہ میں بھلی طرح اور دستور کے موافق ان کا رفیق اور ہم صحبت رہ اور پیروی اسی شخص کی کر اور اسی کی راہ چل جو میری طرف رجوع ہوا پھر تم سب کو میری طرف آنا ہے اور تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے پس میں تم کو امن تمام اعمال کی حقیقت سے آگاہ کر دوں گا جو تم کیا کرتے تھے۔ یعنی باوجود ان حقوق کے جو والدین کے تجھ پر ہیں اگر وہ کبھی تجھ کو میرا شریک ٹھہرانے پر آمادہ کریں اور کوشش کریں اور تجھ پر زور ڈالیں تو ان کی اطاعت نہ کیجیو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک کرنے اور اس کی الوہیت میں کسی کو شریک ٹھہرانے پر نہ کوئی دلیل ہے اور نہ کوئی سند ہے جو تیرے علم میں آتی ، ما لیس لک بہ علم کا یہی مطلب ہے کہ جب شرک پر آج تک کوئی دلیل ہی قائم نہیں ہوسکی تو تیرے پاس دلیل کہاں ہے اور جب دلیل نہیں تو شرک میں ان کا کہنا نہ مان ، البتہ دنیوی معاملات میں جیسے ان کی خدمت اور نا ن و نفقہ وغیرہ کی خبر گیری دستور کے موافق کرتے رہنا اور خوبی اور بھلائی سے ان کے ساتھ صبر کرتے رہنا اس میں کوتاہی نہ ہو ان میں ان کی رفاقت اور ساتھ دینے میں کمی نہ کر ، ہاں دین کے معاملہ میں ان کا کہنا نہ مان بلکہ اس کی راہ چل اور اس شخص کے راستے کی اتباع اور پیروی کر جو میری طرف رجوع ہوا یعنی جو میرے احکام پر عامل ہو اور میرے احکام پر اعتقاد رکھتا ہو اس کے راستے پر چل اور دین کے بارے میں مشرک ماں با پ کا کہنا نہ مان، آگے فرمایا تم سب کو میری ہی طرف آنا ہے اس وقت میں تم کو آگاہ کردوں گا اور تم کو وہ سب اعمال بتلا دوں گا جو تم کیا کرتے تھے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں شریک نہ مان جو معلوم نہیں یعنی شبے میں نہ مان اور یقین سمجھ کر تو کیوں مانے 12 اب آگے پھر حضرت لقمان کی نصائح کا ذکر ہے۔