Surat Luqman

Surah: 31

Verse: 16

سورة لقمان

یٰبُنَیَّ اِنَّہَاۤ اِنۡ تَکُ مِثۡقَالَ حَبَّۃٍ مِّنۡ خَرۡدَلٍ فَتَکُنۡ فِیۡ صَخۡرَۃٍ اَوۡ فِی السَّمٰوٰتِ اَوۡ فِی الۡاَرۡضِ یَاۡتِ بِہَا اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَطِیۡفٌ خَبِیۡرٌ ﴿۱۶﴾

[And Luqman said], "O my son, indeed if wrong should be the weight of a mustard seed and should be within a rock or [anywhere] in the heavens or in the earth, Allah will bring it forth. Indeed, Allah is Subtle and Acquainted.

پیارے بیٹے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو پھر وہ ( بھی ) خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو اسے اللہ تعالٰی ضرور لائے گا اللہ تعالٰی بڑا باریک بین اور خبردار ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

This is useful advice which Allah tells us Luqman gave, so that people may follow it and take it as a good example. He said: يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ ... O my son! If it be (anything) equal to the weight of a grain of mustard seed, means, if a wrong action or a sin be equal to the size of a grain of mustard seed. ... فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الاَْرْضِ ... and though it be in a rock, or in the heavens or on the earth, Allah will bring it forth. ... يَأْتِ بِهَا اللَّهُ ... Allah will bring it forth. means, He will bring it forth on the Day of Resurrection, when it is placed in the Scales of justice and everyone is rewarded or punished for his actions -- if they are good, he will be rewarded and if they are bad he will be punished. This is like the Ayat: وَنَضَعُ الْمَوَزِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَـمَةِ فَلَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْياً And We shall set up Balances of justice on the Day of Resurrection, then none will be dealt with unjustly in anything. (21:47) فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَن يَعْـمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً يَرَهُ So, whosoever does good equal to the weight of a speck of dust shall see it. And whosoever does evil equal to the weight of a speck of dust shall see it. (99:7-8) Even if this tiny thing were to be hidden inside a solid rock or anywhere in the heavens and the earth, Allah will bring it forth, because nothing is hidden from Him, not even the weight of a speck of dust in the heavens or on the earth. Allah says: ... إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ Verily, Allah is Subtle, Well-Aware. meaning, His knowledge is subtle, for nothing is hidden from Him, no matter how small, subtle and minute. خَبِيرٌ (Well-Aware), even of the footsteps of an ant in the darkest night. Then he (Luqman) said:

قیامت کے دن اعلیٰ اخلاق کام آئے گا حضرت لقمان کی یہ اور وصیتیں ہیں اور چونکہ یہ سب حکمتوں سے پر ہیں ۔ قرآن انہیں بیان فرما رہا ہے تاکہ لوگ ان پر عمل کریں ۔ فرماتے ہیں کہ برائی خطا ظلم ہے چاہے رائی کے دانے کے برابر بھی ہو پھر وہ خواہ کتنا ہی پوشیدہ اور ڈھکا چھپا کیوں نہ ہو قیامت کے دن اللہ اسے پیش کرے گا میزان میں سب کو رکھا جائے گا اور بدلہ دیا جائے گا نیک کام پر جزا بد پر سزا جیسے فرمان ہے آیت ( وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا 47؀ ) 21- الأنبياء:47 ) ، یعنی قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھ کر ہر ایک کو بدلہ دیں گے کوئی ظلم نہ کیا جائے گا ۔ اور آیت میں ہے ذرے برابر نیکی اور ذرے برابر برائی ہر ایک دیکھ لے گا خواہ وہ نیکی یا بدی کسی مکان میں محل میں قلعہ میں پتھر کے سوراخ میں آسمانوں کے کونوں میں ، زمین کی تہہ میں ہو کہیں بھی ہو اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں وہ اسے لاکر پیش کرے گا وہ بڑے باریک علم والا ہے ۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اس پر ظاہر ہے اندھیری رات میں چیونٹی جو چل رہی ہو اس کے پاؤں کی آہٹ کا بھی وہ علم رکھتا ہے ۔ بعض نے یہ بھی جائز رکھاہے کہ انھا میں ضمیر شان کی اور قصہ کی ہے اور اس بناپر انہوں نے مثقال کی لام کا پیش پڑھنا بھی جائز رکھا ہے لیکن پہلی بات ہی زیادہ اچھی ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ صخرہ سے مراد وہ پتھر ہے جو ساتویں آسمان اور زمین کے نیچے ہیں ۔ اس کی بعض سندیں بھی بنی اسرائیل سے ہیں اگر صحیح ثابت ہوجائیں ۔ بعض صحابہ سے مروی تو ہے واللہ اعلم ۔ بہت ممکن ہے کہ یہ بھی بنی اسرائیل سے منقول ہو لیکن ان کی کتابوں کی کسی بات کو ہم نہ سچی مان سکیں نہ جھٹلاسکیں ۔ بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بقدر رائی کے دانہ کے کوئی عمل حقیر ہو اور ایسا پوشیدہ ہو کہ کسی پتھر کے اندر ہو ۔ جیسے مسند احمد کی حدیث میں ہے رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر تم میں سے کوئی شخص کوئی علم کرے کسی بےسوراخ کے پتھر کے اندر جس کا نہ کوئی دروازہ ہو نہ کھڑکی ہو نہ سوراخ ہو تاہم اللہ تعالیٰ اسے لوگوں پر ظاہر کردے گا خواہ کچھ ہی عمل ہو نیک ہو یا بد ۔ پھر فرماتے ہیں بیٹے نماز کا خیال رکھنا ۔ اس کے فرائض اسکے واجبات ارکان اوقات وغیرہ کی پوری حفاظت کرنا ۔ اپنی طاقت کے مطابق پوری کوشش کرنا ساتھ اللہ کی باتوں کی تبلیغ اپنوں پرایوں میں کرتے رہنا بھلی باتیں کرنے اور بری باتوں سے بچنے کے لئے ہر ایک سے کہنا اور چونکہ ۔ نیکی کا حکم یعنی بدی سے روکنا جو عموما لوگوں کو کڑوی لگتی ہے ۔ اور حق گو شخص سے لوگ دشمنی رکھتے ہیں اس لئے ساتھ ہی فرمایا کہ لوگوں سے جو ایذاء اور مصیبت پہنچے اس پر صبر کرنا درحقیقت اللہ کی راہ میں ننگی شمشیر رہنا اور حق پر مصیبتیں جھیلتے ہوئے پست ہمت نہ ہونا یہ بڑا بھاری اور جوانمردی کا کام ہے ۔ پھر فرماتے ہیں اپنا منہ لوگوں سے نہ موڑ انہیں حقیر سمجھ کریا اپنے تئیں بڑا سمجھ کر لوگوں سے تکبر نہ کر ۔ بلکہ نرمی برت خوش خلقی سے پیش آ ۔ خندہ پیشانی سے بات کر ۔ حدیث شریف میں ہے کہ کسی مسلمان بھائی سے تو کشادہ پیشانی سے ہنس مکھ ہو کر ملے یہ بھی تیری بڑی نیکی ہے ۔ تہبند اور پاجامے کو ٹخنے سے نیچا نہ کر یہ کبر غرور ہے اور اللہ کو ناپسند ہے ۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو تکبر نہ کرنے کی وصیت کی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ اللہ کے بندوں کو حقیر سمجھ کر تو ان سے منہ موڑ لے اور مسکنیوں سے بات کرنے سے شرمائے ۔ منہ موڑے ہوئے باتیں کرنا بھی غرور میں داخل ہے ۔ باچھیں پھاڑ کر لہجہ بدل کر حاکمانہ انداز کے ساتھ گھمنڈ بھرے الفاظ سے بات چیت بھی ممنوع ہے ۔ صعر ایک بیماری ہے جو اونٹوں کی گردہ میں ظاہر ہوتی ہے یا سر میں اور اس سے گردن ٹیڑی ہوجاتی ہے ، پس متکبر شخص کو اسی ٹیڑھے منہ والے شخص سے ملادیا گیا ۔ عرب عموما تکبر کے موقعہ پر صعر کا استعمال کرتے ہیں اور یہ استعمال ان کے شعروں میں بھی موجود ہے ۔ زمین پر تن کر اکڑ کر اترا کر غرور وتکبر سے نہ چلو یہ چال اللہ کو ناپسند ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناپسند رکھتا ہے جو خود بین متکبر سرکش اور فخر وغرور کرنے والے ہوں اور آیت میں ہے ( وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا 37؀ ) 17- الإسراء:37 ) ، یعنی اکڑ کر زمین پر نہ چلو نہ تو تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ پہاڑوں کی لمبائی کو پہنچ سکتے ہو ۔ اس آیت کی تفسیر بھی اس کی جگہ گذر چکی ہے ۔ حضور کے سامنے ایک مرتبہ تکبر کا ذکر کیا گیا تو آپ نے اس کی بڑی مذمت فرمائی اور فرمایا کہ ایسے خود پسند مغرور لوگوں سے اللہ غصہ ہوتا ہے اس پر ایک صحابی نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جب کپڑے دھوتا ہوں اور خوب سفید ہوجاتے ہیں تو مجھے بہت اچھے لگتے ہیں میں ان سے خوش ہوتا ہوں ۔ اسی طرح جوتے میں تسمہ بھلالگتا ہے ۔ کوڑے کا خوبصورت غلاف بھلا معلوم ہوتا ہے آپ نے فرمایا یہ تکبر نہیں ہے تکبر اس کا نام ہے کہ تو حق کو حقیر سمجھے اور لوگوں کو ذلیل خیال کرے یہ روایت اور طریق سے بہت لمبی مروی ہے اور اس میں حضرت ثابت کے انتقال اور ان کی وصیت کا ذکر بھی ہے ۔ اور میانہ روی کی چال چلاکر نہ بہت آہستہ خراماں خراماں نہ بہت جلدی لمبے ڈک بھر بھر کے ۔ کلام میں مبالغہ نہ کرے بےفائدہ چیخ چلا نہیں ۔ بدترین آواز گدھے کی ہے ۔ جو پوری طاقت لگا کر بےسود چلاتا ہے ۔ باوجودیکہ وہ بھی اللہ کے سامنے اپنی عاجزی ظاہر کرتا ہے ۔ پس یہ بری مثال دے کر سمجھا دیا کہ بلاوجہ چیخنا ڈانٹ ڈپٹ کرنا حرام ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بری مثالوں کے لائق ہم نہیں ۔ اپنی دے دی ہوئی چیز واپس لینے والا ایسا ہے جیسے کتا جو قے کرکے چاٹ لیتا ہے ۔ نسائی میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب مرغ کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو اور جب گدھے کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرو ۔ اس لئے کہ وہ شیطان کو دیکھتا ہے ۔ ایک روایت میں ہے رات کو ۔ واللہ اعلم ۔ یہ وصیتیں حضرت لقمان حکیم کی نہایت ہی نفع بخش ہیں ۔ قرآن حکیم نے اسی لیے بیان فرمائی ہیں ۔ آپ سے اور بھی بہت حکیمانہ قول اور وعظ ونصیحت کے کلمات مروی ہیں ۔ بطور نمونہ کے اور دستور کے ہم بھی تھوڑے سے بیان کرتے ہیں ۔ مسند احمد میں بزبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت لقمان حکیم کا ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ اللہ کو جب کوئی چیز سونپ دی جائے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی حفاظت کرتا ہے ۔ اور حدیث میں آپ کا یہ قول بھی مروی ہے کہ تصنع سے بچ یہ رات کے وقت ڈراؤنی چیز ہے اور دن کو مذمت وبرائی والی چیز ہے آپ نے اپنے بیٹے سے یہ بھی فرمایا تھا کہ حکمت سے مسکین لوگ بادشاہ بن جاتے ہیں ۔ آپ کا فرمان ہے کہ جب کسی مجلس میں پہنچو پہلے اسلامی طریق کے مطابق سلام کرو پھر مجلس کے ایک طرف بیٹھ جاؤ ۔ دوسرے نہ بولیں تو تم بھی خاموش رہو ۔ اگر وہ ذکر اللہ کریں تو تم ان میں سب سے پہلے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کرو ۔ اور اگر وہ گپ شپ کریں تو تم اس مجلس کو چھوڑ دو ۔ مروی ہے کہ آپ اپنے بچے کو نصیحت کرنے کے لئے جب بیٹھتے تو رائی کی بھری ہوئی ایک تھیلی اپنے پاس رکھ لی تھی اور ہر ہر نصیحت کے بعد ایک دانہ اس میں سے نکال لیتے یہاں تک کہ تھیلی خالی ہوگئی تو آپ نے فرمایا بچے اگر اتنی نصیحت کسی پہاڑ کو کرتا تو وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا چنانچہ آپ کے صاحبزادے کا بھی یہی حال ہوا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حبشیوں کو رکھاکر ان میں سے تین شخص اہل جنت کے سردار ہیں لقمان حکیم نجاشی اور بلال موذن ۔ تواضع اور فروتنی کا بیان حضرت لقمان نے اپنے بچے کو اس کی وصیت کی تھی اور ابن ابی الدنیا نے اس مسئلہ پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے ۔ ہم اس میں سے اہم باتیں یہاں ذکر کردیتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بہت سے پراگندہ بالوں والے میلے کچیلے کپڑوں والے جو کسی بڑے گھر تک نہیں پہنچ سکتے اللہ کے ہاں اتنے بڑے مرتبہ والے ہیں کہ اگر وہ اللہ پر کوئی قسم لگا بیٹھیں تو اللہ تعالیٰ اسے بھی پوری فرمادے ۔ اور حدیث میں ہے براء بن مالک ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں رضی اللہ عنہ ۔ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قبر رسول کے پاس روتے دیکھ کر دریافت فرمایا تو جواب ملا کہ صاحب قبر صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث میں نے سنی ہے جسے یاد کرکے رورہا ہوں ۔ میں نے آپ سے سنا فرماتے تھے تھوڑی سی ریاکاری بھی شرک ہے اللہ تعالیٰ انہیں دوست رکھتا ہے جو متقی ہیں جو لوگوں میں چھپے چھپائے ہیں جو کسی گنتی میں نہیں آتے اگر وہ کسی مجمع میں نہ ہوں تو کوئی ان کا پرسان حال نہیں اگر آجائیں تو کوئی آؤ بھگت نہیں لیکن ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں وہ ہر ایک غبار آلود اندھیرے سے بچ کرنور حاصل کرلیتے ہیں ۔ حضور فرماتے ہیں یہ میلے کچیلے کپڑوں والے جوذلیل گنے جاتے ہیں اللہ کے ہاں ایسے مقرب ہیں کہ اگر اللہ پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ پوری کردے گو انہیں اللہ نے دنیا نہیں دی لیکن ان کی زبان سے پوری جنت کا سوال بھی نکل جائے تو اللہ پورا کرلیتا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ میری امت میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر آکر وہ لوگ ایک دینار ایک درہم بلکہ ایک فلوس بھی مانگیں تو تم نہ دو لیکن اللہ کے ہاں وہ ایسے پیارے ہیں کہ اگر اللہ سے جنت کی جنت مانگیں تو پروردگار دے دے ہاں دنیا نہ تو انہیں دیتا ہے نہ روکتا ہے اس لئے کہ یہ کوئی قابل قدر چیز نہیں ۔ یہ میلی کچیلی دو چادروں میں رہتے ہیں اگر کسی موقعہ پر قسم کھا بیٹھیں تو جو قسم انہوں نے کھائی ہو اللہ پوری کرتا ہے ۔ حضور فرماتے ہیں کہ جنت کے بادشاہ لوگ ہیں جو پراگندہ اور بکھرے ہوئے بالوں والے ہیں غبار آلود اور گرد سے اٹے ہوئے وہ امیروں کے گھر جانا چاہیں تو انہیں اجازت نہیں ملتی اگر کسی بڑے گھرانے میں نکاح کی مانگ کر ڈالیں تو وہاں کی بیٹی نہیں ملتی ۔ ان مسکینوں سے انصاف کے برتاؤ نہیں برتے جاتے ۔ ان کی حاجتیں اور ان کی امنگیں اور مرادیں پوری ہونے سے پہلے ہی خود ہی فوت ہوجاتی ہے اور آرزوئیں دل کی دل میں ہی رہ جاتی ہیں انہیں قیامت کے دن اس قدر نور ملے گا کہ اگر وہ تقسیم کیا جائے تو تمام دنیا کے لئے کافی ہوجائے ۔ حضرت عبداللہ بن مبارک کے شعروں میں ہے کہ بہت سے وہ لوگ جو دنیا میں حقیر وذلیل سمجھے جاتے ہیں کل قیامت کے دن تخت وتاراج والے ملک ومنال والے عزت وجلال والے بنے ہوئے ہونگے ۔ باغات میں نہروں میں نعمتوں میں راحتوں میں مشغول ہونگے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جناب باری کا ارشاد ہے سب سے زیادہ میرا پسندیدہ ولی وہ ہے جو مومن ہو کم مال والا کم عیال والا غازی عبادت واطاعت گذار پوشیدہ واعلانیہ مطیع ہو لوگوں میں اس کی عزت اور اس کا وقار نہ ہو اس کی جانب انگلیاں اٹھتی ہوں اور وہ اس پر صابر ہو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ جھاڑ کر فرمایا اس کی موت جلدی آجاتی ہے اس کی میراث بہت کم ہوتی ہے اس کی رونے والیاں تھوڑی ہوتی ہیں ۔ فرماتے ہیں اللہ کے سب سے زیادہ محبوب بندے غرباء جو اپنے دین کو لئے پھرتے ہیں جہاں دین کے کمزور ہونے کا خطرہ ہوتا ہے وہاں سے نکل کھڑے ہوتے ہیں یہ قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیساتھ جمع ہونگے ۔ حضرت فضیل بن عیاض کا قول ہے کہ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندے سے فرمائے گا کیا میں نے تجھ پر انعام واکرام نہیں فرمایا ؟ کیا میں نے تجھے دیا نہیں؟ کیا میں نے تیرا جسم نہیں ڈھانپا ؟ کیا میں نے تمہیں یہ نہیں دیا ؟ کیا وہ نہیں دیا ؟ کیا لوگوں میں تجھے عزت نہیں دی تھی ؟ وغیرہ تو جہاں تک ہوسکے ان سوالوں کے جواب دینے کا موقعہ کم ملے اچھا ہے ۔ لوگوں کی تعریفوں سے کیا فائدہ اور مذمت کریں تو کیا نقصان ہوگا ۔ ہمارے نزدیک تو وہ شخص زیادہ اچھا ہے جسے لوگ برا کہتے ہوں اور وہ اللہ کے نزدیک اچھا ہو ۔ ابن محیریز تو دعا کرتے تھے کہ اللہ میری شہرت نہ ہو ۔ خلیل بن احمد اپنی دعا میں کہتے تھے اللہ مجھے اپنی نگاہوں میں تو بلندی عطا فرما اور خود میری نظر میں مجھے بہت حقیر کردے اور لوگوں کی نگاہوں میں مجھے درمیانہ درجہ کا رکھ پھر شہرت کا باب باندھ کر امام صاحب اس حدیث کو لائے ہیں انسان کو یہی برائی کافی ہے کہ لوگ اس کی دینداری یادنیاداری کی شہرت دینے لگیں اور اس کی طرف انگلیاں اٹھنے لگیں اشارے ہونے لگیں ۔ پس اسی میں آکر بہت سے لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں مگر جنہیں اللہ بچالے ۔ سنو اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور اعمالوں کو دیکھتا ہے ۔ حضرت حسن سے بھی یہی روایت مرسلا مروی ہے جب آپ نے یہ روایت بیان کی تو کسی نے کہا آپ کی طرف بھی انگلیاں اٹھتی ہیں ۔ آپ نے فرمایا سمجھے نہیں مراد انگلیاں اٹھنے سے دینی بدعت یادنیوی فسق وفجور ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ شہرت حاصل کرنا نہ چاہو ۔ اپنے تئیں اونچا نہ کرو کہ لوگوں میں تذکرے ہونے لگیں علم حاصل کرو لیکن چھپاؤ چپ رہو تاکہ سلامت رہو نیکوں کو خوش رکھو بدکاروں سے تصرف رکھو ۔ حضرت ابراہیم بن ادھم فرماتے ہیں کہ شہرت کا چاہنے والا اللہ کا ولی نہیں ہوتا ۔ حضرت ایوب کا فرمان ہے جسے اللہ دوست بنالیتا ہے وہ تو لوگوں سے اپنا درجہ چھپاتا ہے ۔ محمد بن علا فرماتے ہیں اللہ کے دوست لوگ اپنے تئیں ظاہر نہیں کرتے ۔ سماک بن سلمہ کا قول ہے عام لوگوں کے میل جول سے اور احباب کی زیادتی سے پرہیز کرو ۔ حضرت ابان بن عثمان فرماتے ہیں اگر دین کو سالم رکھنا چاہتے ہو تو لوگوں سے کم جان پہچان رکھو ۔ حضرت ابو العالیہ کا قاعدہ تھا جب دیکھتے کہ انکی مجلس میں تین سے زیادہ لوگ جمع ہوگئے تو انہیں چھوڑ کر خود چل دیتے ۔ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوڑا تانا اور فرمایا اس میں تابع کے لیے ذلت اور متبوع کے لئے فتنہ ہے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جب لوگ چلنے لگے تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم پر میرا باطن ظاہر ہوجائے تو تم میں سے دو بھی میرے ساتھ چلنا پسند نہ کریں ۔ حماد بن زید کہتے ہیں جب ہم کسی مجلس کے پاس سے گذرتے اور ہمارے ساتھ ایوب ہوتے تو سلام کرتے اور وہ سختی سے جواب دیتے ۔ پس یہ ایک نعمت تھی ۔ آپ لمبی قمیض پہنتے اس پر لوگوں نے کہا تو آپ نے جواب دیا کہ اگلے زمانے میں شہرت کی چیز تھی ۔ لیکن یہ شہرت اس کو اونچا کرنے میں ہے ۔ ایک مرتبہ آپ نے اپنی ٹوپیاں مسنون رنگ کی رنگوائی اور کچھ دنوں تک پہن کر اتاردی اور فرمایا میں نے دیکھا کہ لوگ انہیں نہیں پہنتے ۔ حضرت ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ نہ تو ایسا لباس پہنو کہ لوگوں کی انگلیاں اٹھیں نہ اتنا گھٹیا پہنو کہ لوگ حقارت سے دیکھیں ۔ ثوری فرماتے ہیں عام سلف کا یہی معمول تھا کہ نہ بہت بڑھیا کپڑا پہنتے تھے نہ بالکل گھٹیا ۔ ابو قلابہ کے پاس ایک شخص بہت سی بہترین اور شہرت کا لباس پہنے ہوئے آیا تو آپ نے فرمایا اس آواز دینے والے گدھے سے بچو ۔ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے دلوں میں تو تکبر بھر رکھاہے اور ظاہر لباس میں تواضع کر رکھی ہے گویا چادر ایک بھاری ہتھوڑا ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقولہ ہے کہ آپ نے بنی اسرائیل سے فرمایا میرے سامنے تو درویشوں کی پوشاک میں آئے حالانکہ تمہارے دل بھیڑیوں جیسے ہیں ۔ سنولباس چاہے بادشاہوں جیسا پہنو مگر دل خوف اللہ سے نرم رکھو ۔ اچھے اخلاق کا بیان حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہتر اخلاق والے تھے ۔ آپ سے سوال ہوا کہ کونسامومن بہتر ہے فرمایا سب سے اچھے اخلاق والا ۔ آپ کا فرمان ہے کہ باوجود کم اعمال کے صرف اچھے اخلاق کیوجہ سے انسان بڑے بڑے درجے اور جنت کے اعلی منازل حاصل کرلیتا ہے ۔ اور باوجود بہت ساری نیکیوں کے صرف اخلاق کی برائی کی وجہ سے جہنم کے نیچے کے طبقے میں چلا جاتا ہے ۔ فرماتے ہیں اچھے اخلاق ہی میں دنیا آخرت کی بھلائی ہے ۔ فرماتے ہیں انسان اپنی خوش اخلاقی کے باعث راتوں کو قیام کرنے والے اور دنوں کو روزے رکھنے والوں کے درجوں کو پالیتا ہے ۔ حضور سے سوال ہو کہ دخول جنت کا موجب عام طور سے کیا ہے؟ فرمایا اللہ کا ڈر اور اخلاق کی اچھائی ۔ پوچھا گیا عام طور سے جہنم میں کونسی چیز لے جاتی ہے؟ فرمایا دو سوراخ دار چیزیں یعنی منہ اور شرمگاہ ۔ ایک مرتبہ چند اعراب کے اس سوال پر کہ انسان کو سب سے بہتر عطیہ کیا ملا ہے؟ فرمایا کہ حسن اخلاق ۔ فرمایا کہ نیکی کی ترازو میں اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی چیز اور کوئی نہیں ۔ فرماتے ہیں تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق والا ہو ۔ فرماتے ہیں جس طرح مجاہد کو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے صبح شام اجر ملتا ہے اسی طرح اچھے اخلاق پر بھی اللہ ثواب عطا فرماتا ہے ۔ ارشاد ہے تم میں مجھے سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ قریب وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق والا ہو ۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ بغض ونفرت کے قابل اور مجھ سے سب سے دور جنت میں وہ ہوگا جو بد خلق بدگو بدکلام بدزبان ہوگا ۔ فرماتے ہیں کامل ایماندار اچھے اخلاق والے ہیں جو ہر ایک سے سلوک ومحبت سے ملیں جلیں ۔ ارشاد ہے جس کی پیدائش اور اخلاق اچھے ہیں اسے اللہ تعالیٰ جہنم کا لقمہ نہیں بنائے گا ۔ ارشاد ہے کہ دو خصلیتں مومن میں جمع نہیں ہوسکتی بخل اور بداخلاقی ۔ فرماتے ہیں بدخلقی سے زیادہ بڑا کوئی گناہ نہیں ۔ اس لئے کہ بداخلاقی سے ایک سے ایک بڑے گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ حضور کا ارشاد ہے اللہ کے نزدیک بد اخلاقی سے بڑا کوئی گناہ نہیں ۔ اچھے اخلاق سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔ بداخلاقیاں نیک اعمالوں کو غارت کردیتی ہیں ۔ جیسے شہد کو سرکہ خراب کردیتا ہے ۔ حضور فرماتے ہیں کہ غلام خرید نے سے غلام نہیں بڑھتے البتہ خوش اخلاقی سے لوگ گرویدہ ہوجاتے ہیں ۔ امام محمد بن سیریں کا قول ہے کہ اچھا خلق دین کی مدد ہے ۔ تکبر کی مذمت کا بیان ۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں وہ جنت میں نہ جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو ۔ اور وہ جہنمی نہیں جس کے دل میں رائی کے برابر ایمان ہو ۔ فرماتے ہیں کہ جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر تکبر ہے وہ اوندھے منہ جہنم میں جائیں گے ۔ ارشاد ہے کہ انسان اپنے غرور اور خود پسندی میں بڑھتے بڑھتے اللہ کے ہاں جباروں میں لکھ دیا جاتا ہے ۔ پھر سرکشوں کے عذاب میں پھنس جاتا ہے ۔ امام مالک بن دینار رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ایک دن حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام اپنے تخت پر بیٹے تھے آپ کی دربار میں اس وقت دو لاکھ انسان تھے اور دو لاکھ جن تھے آپ کو آسمان تک پہنچایا گیایہاں تک کہ فرشتوں کی تسبیح کی آواز کان میں آنے لگی ۔ اور پھر زمین تک لایا گیا یہاں تک کہ سمندر کے پانی سے آپ کے قدم بھیگ گئے ۔ پھر ہاتف غیب نے ندادی کہ اگر اس کے دل میں ایک دانے کے برابر بھی تکبر ہوتا تو جتنا اونچا گیا تھا اس سے زیادہ نیچے دھنسادیا جاتا ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خطبے میں انسان کی ابتدائی پیدائش کا بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ یہ دو شخصوں کی پیشاب گاہ سے نکلتا ہے ۔ اس طرح اسے بیان فرمایا کہ سننے والے کراہت کرنے لگے ۔ امام شعبی کا قول ہے جس نے دو شخصوں کو قتل کردیا وہ بڑا ہی سرکش اور جبار ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ( اَتُرِيْدُ اَنْ تَــقْتُلَنِيْ كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًۢا بِالْاَمْسِ 19؀ ) 28- القصص:19 ) کیا تو مجھے قتل کرنا چاہتا ہے ؟ جیسے کہ تونے کل ایک شخص کو قتل کیا ہے ۔ تیرا ارادہ تو دنیا میں سرکش اور جبار بن کر رہنے کا معلوم ہوتا ہے ۔ حضرت حسن کا مقولہ ہے وہ انسان جو ہر دن میں دو مرتبہ اپنا پاخانہ اپنے ہاتھ سے دھوتا ہے وہ کس بناپر تکبر کرتا ہے اور اس کا وصف اپنے میں پیدا کرنا چاہتا ہے جس نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور اپنے قبضے میں رکھا ضحاک بن سفیان سے دنیا کی مثال اس چیز سے بھی مروی ہے جو انسان سے نکلتی ہے ۔ امام محمد بن حسین بن علی فرماتے ہیں جس دل میں جتنا تکبر اور گھمنڈ ہوتا ہے اتنی ہی عقل اسکی کم ہوجاتی ہے ۔ یونس بن عبید فرماتے ہیں کہ سجدہ کرنے کے ساتھ تکبر اور توحید کیساتھ نفاق نہیں ہوا کرتا ۔ بنی امیہ مارمار کر اپنی اولاد کو اکڑا کر چلنا سکھاتے تھے ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کو آپ کی خلافت سے پہلے ایک مرتبہ اٹھلاتی ہوئی چال چلتے ہوئے دیکھ کر حضرت طاؤس نے انکے پہلو میں ایک ٹھونکا مارا اور فرمایا یہ چال اس کی جس کے پیٹ میں پاخانہ بھرا ہوا ہے؟ حضرت عمر بن عبدالعزیز بہت شرمندہ ہوئے اور کہنے لگے معاف فرمائیے ہمیں مارمار کر اس چال کی عادت ڈلوائی گئی ہے ۔ فخر و گھمنڈ کی مذمت کا بیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص فخروغرور سے اپنا کپڑا نیچے لٹکا کر گھسیٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسکی طرف رحمت سے نہ دیکھے گا ۔ فرماتے ہیں اسکی طرف اللہ قیامت کے دن نظر نہ ڈالے گا جو اپنا تہبند لٹکائے ۔ ایک شخص دو عمدہ چادریں اوڑھے دل میں غرور لئے اکڑتا ہوا جارہار تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسادیا قیامت تک وہ دھنستا ہوا چلا جائے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

161ان تک کا مرجع خطیئۃ ہو تو مطلب گناہ اور اللہ کی نافرمانی والا کام ہے۔ اور اگر اس کا مرجع خصلۃ ہو تو مطلب اچھائی یا برائی کی خصلت ہوگا۔ مطلب یہ کہ انسان اچھا یا برا کام کتنا بھی چھپ کر کرے، اللہ سے چھپا نہیں رہ سکتا، قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اسے حاضر کرلے گا، یعنی اس کی جزا دے گا اچھے عمل کی اچھی جزا، برے عمل کی بری جزا، رائی کے دانے کی مثال اس لئے دی کہ وہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ جس کا وزن محسوس ہوتا ہے نہ تول میں ترازو کے پلڑے جھکا سکتا ہے۔ اسی طرح چٹان (آبادی سے دور جنگل، پہاڑ میں) مخفی ترین جگہ ہے یہ مضمون حدیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ فرمایا ' اگر تم میں سے کوئی شخص بےسوراخ کے پتھر میں بھی عمل کرے گا، جس کا کوئی دروازہ ہو نہ کھڑکی، اللہ تعالیٰ اسے لوگوں پر ظاہر فرما دے گا، چاہے وہ کیسا ہی عمل ہو ' (مسند احمد،328 اس لیے کہ وہ لطیف و باریک بین ہے۔ اس کا علم مخفی ترین چیز تک محیط ہے اور خبیر ہے اندھیری رات میں چلنے والی چیونٹی کی حرکات و سکنات سے بھی وہ باخبر ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] اس آیت میں حضرت لقمان نے اللہ تعالیٰ کے علم غیب کی وسعت بھی بیان فرمائی اور اس کی قدرت بھی۔ علم غیب کی اس طرح کہ تم کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام کرو۔ علانیہ کرو یا کئی پردوں میں چھپ کر کرو۔ وہ تمہارے اعمال سے خوب واقف ہے۔ تمہارے دلوں کے خیالات تک جانتا ہے۔ اس کے پاس تمہارا پورا پورا ریکارڈ بھی موجود ہے۔ لہذا جو کام بھی کرو سوچ سمجھ کر اور اللہ سے ڈر کر کرو۔ اور اس کی قدرت کا یہ عالم ہے کہ موت کے بعد تمہیں دوبارہ اپنے پاس حاضر کرنا تو بہت بڑی بات ہے۔ وہ تو رائی کے ایک دانہ تک کو جو کسی کھوہ کی تاریکیوں میں پڑا ہو، اپنے پاس لاحاضر کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ حضرت لقمان یہ بات اپنے بیٹے کو سمجھا کر اس کے اخلاق کو درست کرنا اور اس میں تقویٰ کی صفت پیدا کرنے چاہتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰبُنَيَّ اِنَّهَآ اِنْ تَكُ ۔۔ : لقمان (علیہ السلام) کی پہلی وصیت کے بعد دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے بارے میں وصیت فرمائی۔ اب دوبارہ لقمان (علیہ السلام) کی وصیتوں کا بیان شروع ہوتا ہے۔ پہلی وصیت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کا رد اور اس کی توحید کا بیان تھا، اس وصیت میں اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت کے کمال کا بیان ہے۔ 3 اکثر مفسرین کے مطابق ” اِنَّهَآ “ میں ضمیر ” ھَا “ نیکی اور بدی کے اس عمل کی طرف جا رہی ہے جس کا ذکر پچھلی آیت ” بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ “ میں ہے : ” أَيْ إِنَّ الْفِعْلَۃَ الْحَسَنَۃَ أَوِ السَّیِّءَۃَ إِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ “ یعنی ” اچھا یا برا عمل اگر رائی کے ایک دانے کے برابر ہوگا ۔۔ “ ابن عاشور نے فرمایا کہ ” تَک “ کا اسم مؤنث مقام کی دلالت کے مطابق مقدر مانا جائے گا : ” أَيْ إِنْ تَکُ الْکَاءِنَۃُ “ یعنی اگر ہونے والی کوئی بھی چیز رائی کے دانے کے برابر ہوگی۔ یہ عام ہے، جس میں نیکی اور بدی بھی شامل ہے۔ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ : مراد چھوٹی سے چھوٹی چیز ہے، کیونکہ عرب اس کے لیے ” مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ “ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، یا ” مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ “ کا۔ ” مِثْقَالَ “ ” ثَقُلَ “ میں سے آلہ کا وزن ہے، بروزن ” مِفْعَالٌ۔ “ فَتَكُنْ فِيْ صَخْـرَةٍ اَوْ فِي السَّمٰوٰتِ اَوْ فِي الْاَرْضِ : یہ بیان کسی بھی ایسی چیز کی مثال کے طور پر ہے جو زیادہ سے زیادہ مخفی ہو اور جس کا حصول زیادہ سے زیادہ مشکل ہو۔ يَاْتِ بِهَا اللّٰهُ : اس میں اللہ تعالیٰ کے کمال علم اور قدرت کا بیان ہے کہ کوئی چیز کہیں بھی ہو، کتنی پوشیدہ سے پوشیدہ اور کتنی بعید سے بعید ہو، اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وہ کہاں ہے اور وہ اسے حاضر کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔ جب چاہے گا اسے اپنے پاس لے آئے گا۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ کوئی عمل نیک ہو یا بد، جتنا بھی چھپ کر کیا جائے اور اس کا کرنے والا کہیں بھی چلا جائے، اللہ تعالیٰ اسے اور اس کے کرنے والے کو اپنے پاس لے آئے گا اور اس کی جزا دے گا۔ (دیکھیے سورة انبیاء : ٤٧) جب اتنی مخفی اور عام رسائی سے باہر چیزوں کے متعلق اس کے علم و قدرت کا یہ عالم ہے، تو ان چیزوں کے بارے میں اس کے علم اور قدرت کا خود ہی اندازہ لگا لو جو اتنی مشکل اور دشوار نہیں ہیں۔ اس وصیت میں حدیث جبریل میں مذکور ” احسان “ کی تاکید ہے کہ آدمی ہر وقت یہ خیال رکھے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں میرا مالک مجھے دیکھ رہا ہے اور وہ مجھ پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ اس سے انسان اللہ تعالیٰ کی معصیت سے بچ جاتا ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ : ” لُطْفٌ“ میں باریک بینی اور نرمی دونوں مفہوم پائے جاتے ہیں۔ ابن عاشور نے فرمایا : ” اَللَّطِیْفُ مَنْ یَّعْلَمُ دَقَاءِقَ الْأَشْیَاءِ وَیَسْلُکُ فِيْ إِیْصَالِھَا إِلٰی مَنْ تَصْلُحُ لَہُ مَسْلَکَ الرِّفْقِ “ ” لطیف وہ ہے جو نہایت باریک اشیاء کو جانتا ہو اور جن کے لائق وہ چیزیں ہیں ان تک انھیں پہنچانے میں نرمی کا طریقہ اختیار کرے۔ “ مثلاً اس کے لطیف ہونے کا اظہار اس کیڑے کے وجود سے ہوتا ہے جو کسی بہت بڑی چٹان کے اندر ہے، جس تک پہنچنے کا یا خوراک پہنچانے کا کوئی راستہ نہیں۔ اب یہ اس لطیف وخبیر کا کام ہے کہ اس نے اسے وہاں کس طرح پیدا فرمایا، پھر ہر لمحے اس کی ہر ضرورت اسے پہنچائی، پھر جب چاہے چٹان کو توڑ کر یا توڑے بغیر اور اسے ذرہ بھر خراش پہنچائے بغیر جہاں چاہے لے آئے۔ جو رائی کے دانے کے برابر اشیاء کا اتنا علم اور ان پر اتنی دسترس رکھتا ہے، بڑی اشیاء کے متعلق اس کے علم و قدرت کا کیا حال ہوگا ! ؟ یہاں تک بنیادی صحیح عقیدے کا بیان مکمل ہوگیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Second Bequest of Luqman about Articles of Belief One should irrevocably hold the belief that the knowledge of Allah Ta` a1a surrounds every single particle of whatever there is in and around the expanses of the heavens and the earth with His most perfect power. Nothing can - be it the smallest of the small not commonly visible, or be it the farthest of the far, or be it behind layers upon layers of darkness and curtains - simply nothing can hide from the knowledge and view of Allah Ta’ ala. And He can, when He wills, cause it to be present, where He wills. This is what is meant by verse يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْ‌دَلٍ (My dear son, in fact, if there be anything to the measure of a grain of rye, and it be [ hidden ] in a rock or in the heavens and the earth, Allah will bring it forth. Surely, Allah is All-Fine, All Aware). Then, the all-covering knowledge and power of Allah Ta’ ala is, in its own place, a basic belief of Islam - and certainly, a great proof of Tauhid, the belief in the Oneness of Allah.

دوسری وصیت لقمانی متعلقہ عقائد : یہ ہے کہ اس کا اعتقاد جازم رکھا جائے کہ آسمان و زمین اور ان کے اندر جو کچھ ہے اس کا ایک ایک ذرہ پر اللہ تعالیٰ کا علم بھی محیط اور وسیع ہے اور سب پر اس کی قدرت بھی کامل ہے۔ کوئی چیز کتنی ہی چھوٹی سے چھوٹی ہو جو عام نظروں میں نہ آسکتی ہو اس طرح کوئی چیز کتنی ہی دور دراز پر ہو اس طرح کوئی چیز کتنے ہی اندھیروں اور پردوں میں ہو اللہ تعالیٰ کے علم و نظر سے نہیں چھپ سکتی، اور وہ جس کو جب چاہیں جہاں چاہیں حاضر کرسکتے ہیں۔ (آیت) یبنی انہا ان تک مثقال حبة من خردل الایة کا یہی مطلب ہے۔ اور حق تعالیٰ کے علم وقدرت کا ہر چیز پر محیط ہونا خود بھی اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے، اور عقیدہ توحید کی بہت بڑی دلیل ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰبُنَيَّ اِنَّہَآ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِيْ صَخْـرَۃٍ اَوْ فِي السَّمٰوٰتِ اَوْ فِي الْاَرْضِ يَاْتِ بِہَا اللہُ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ۝ ١٦ ( ابْنُ ) أصله : بنو، لقولهم في الجمع : أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر أولاک بنو خير وشرّ كليهما وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ . الابن ۔ یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔ مِثْقَال : ما يوزن به، وهو من الثّقل، وذلک اسم لکل سنج قال تعالی: وَإِنْ كانَ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنا بِها وَكَفى بِنا حاسِبِينَ [ الأنبیاء/ 47] ، وقال تعالی: فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ [ الزلزلة/ 7- 8] ، وقوله تعالی: فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة/ 6- 7] ، فإشارة إلى كثرة الخیرات، وقوله تعالی: وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ [ القارعة/ 8] ، فإشارة إلى قلّة الخیرات . والثقیل والخفیف يستعمل علی وجهين : أحدهما علی سبیل المضایفة، وهو أن لا يقال لشیء ثقیل أو خفیف إلا باعتباره بغیره، ولهذا يصحّ للشیء الواحد أن يقال خفیف إذا اعتبرته بما هو أثقل منه، و ثقیل إذا اعتبرته بما هو أخفّ منه، وعلی هذه الآية المتقدمة آنفا . والثاني أن يستعمل الثقیل في الأجسام المرجّحة إلى أسفل، کالحجر والمدر، والخفیف يقال في الأجسام المائلة إلى الصعود کالنار والدخان، ومن هذا الثقل قوله تعالی: اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] . المثقال ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے کسی چیز کا وزن کیا جائے چناچہ ہر باٹ کو مثقال کہہ سکتے ہیں قرآن میں ہے ؛۔ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ [ الزلزلة/ 7- 8] ، وقوله تعالی: فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة/ 6- 7] تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لیگا تو جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور آیت کریمہ :۔ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ [ القارعة/ 8] اور جس کے وزن ہلکے نکلیں گے ۔ میں وزن کے ہلکا نکلنے سے اعمال حسنہ کے کم ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ ثقیل اور خفیف کے الفاظ دو طرح استعمال ہوتے ہیں ایک بطور مقابلہ کے یعنی ایک چیز کو دوسری چیز کے اعتبار سے ثقیل یا خفیف کہہ دیا جاتا ہے چناچہ مذکورہ بالا آیت میں نہی معنی مراد ہیں اور دوسرے یہ کہ جو چیزیں ( طبعا) نیچے کی طرف مائل ہوتی ہیں انہیں ثقیل کہا جاتا ہے جیسے حجر مدر وغیرہ اور جو چیزیں ( طبعا) اوپر کو چڑھتی ہیں جیسے آگ اور دہواں انہیں حفیف کہا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ ؛ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] تو تم زمین پر گر سے جاتے ہو ۔ میں زمین پر گرنا دوسرے معنی کے اعتبار سے ہے ۔ حبة الحَبُّ والحَبَّة يقال في الحنطة والشعیر ونحوهما من المطعومات، والحبّ والحبّة في بزور الریاحین، قال اللہ تعالی: كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ [ البقرة/ 261] ، وقال : وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُماتِ الْأَرْضِ [ الأنعام/ 59] ، وقال تعالی: إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام/ 95] ، وقوله تعالی: فَأَنْبَتْنا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ [ ق/ 9] ، أي : الحنطة وما يجري مجراها ممّا يحصد، وفي الحدیث : «كما تنبت الحبّة في حمیل السیل» ( ج ب ب ) الحب والحبۃ ( فتحہ حاء ) گندم ۔ جو وغیرہ مطعومات کے دانہ کو کہتے ہیں ۔ اور خوشبو دار پودوں اور پھولوں کے بیج کو حب وحبۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ [ البقرة/ 261]( ان کے دلوں ) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بالی میں سو سودانے ہوں ۔ وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُماتِ الْأَرْضِ [ الأنعام/ 59] اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ ایسا نہیں ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام/ 95] بیشک خدا ہی دانے اور گھٹلی کو پھاڑ کر ( ان سے درخت اگاتا ہے ۔ ) اور آیت کریمۃ ؛۔ فَأَنْبَتْنا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ [ ق/ 9] اور اس باغ سے دلبستان اگائے اور اناج ۔ میں حب الحصید سے گندم وغیرہ مراد ہے جو کاٹا جاتا ہے اور حدیث میں ہے ۔ کما تنبت الحبۃ فی جمیل السیل ۔ جیسے گھاس پات کے بیج جو سیلاب کے بہاؤ میں آگ آتے ہیں ۔ خردل۔ رائی۔ مثقال حبۃ من خردل۔ رائی کے دانہ کے برابر۔ رائی کے دانہ کے ہموزن۔ انھا ان تک ۔۔ خردل قصہ یہ ہے کہ اگر کوئی ( شے یا عمل) رائی کے دانہ کے برابر ( بھی چھوٹا) ہو۔ صخر الصَّخْرُ : الحجر الصّلب . قال تعالی: فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ [ لقمان/ 16] ، وقال : وَثَمُودَ الَّذِينَ جابُوا الصَّخْرَ بِالْوادِ [ الفجر/ 9] . ( ص خ ر ) الصخر کے معنی سخت پتھر یا چٹان کے ہیں قرآن میں ہے ۔ فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ [ لقمان/ 16] اور ہو بھی کسی پتھر کے اندر وَثَمُودَ الَّذِينَ جابُوا الصَّخْرَ بِالْوادِ [ الفجر/ 9] . اور ثمود کے ساتھ ( کیا کیا ) جنہوں نے وادی ( قری ) میں چٹانیں تراش کر ( مکان بنائے ) أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ لطف اللَّطِيفُ إذا وصف به الجسم فضدّ الجثل، وهو الثّقيل، يقال : شعر جثل «1» ، أي : كثير، ويعبّر باللَّطَافَةِ واللُّطْفِ عن الحرکة الخفیفة، وعن تعاطي الأمور الدّقيقة، وقد يعبّر باللَّطَائِفِ عمّا لا تدرکه الحاسة، ويصحّ أن يكون وصف اللہ تعالیٰ به علی هذا الوجه، وأن يكون لمعرفته بدقائق الأمور، وأن يكون لرفقه بالعباد في هدایتهم . قال تعالی: اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبادِهِ [ الشوری/ 19] ، إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِما يَشاءُ [يوسف/ 100] أي : يحسن الاستخراج . تنبيها علی ما أوصل إليه يوسف حيث ألقاه إخوته في الجبّ ، ( ل ط ف ) اللطیف ۔ جب یہ کسی جسم کی صفت واقع ہو تو یہ جبل کی ضد ہوتا ہے جس کے معنی بھاری اور ثقیل کے ہیں کہتے ہیں شعر جبل ) یعنی زیادہ اور بھاری بال اور کبھی لطافۃ یا لطف سے خرکت حفیفہ اور دقیق امور کا سر انجام دینا مراد ہوتا ہے اور لطائف سے وہ باتیں مراد لی جاتی ہیں جن کا ادراک انسای حواس نہ کرسکتے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے لطیف ہونے کے معنی یا تو یہ ہیں کہ وہ انسانی حواس کے اور اک سے مافوق اور بالا تر ہے اور یا سے اس لئے لطیف کہا جا تا ہے کہ وہ دقیق امور تک سے واقف ہے اور یا یہ کہ وہ انسانوں کو ہدایت دینے میں نہایت نرم انداز اختیار کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبادِهِ [ الشوری/ 19] خدا اپنے بندوں پر مہر بان ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِما يَشاءُ [يوسف/ 100] بیشک میرا پروردگار جو کچھ چاہتا ہے حسن تدبیر سے کرتا ہے میں لطیف سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر کام کو حسن تدبیر سے سر انجام دینا ہے ۔ چناچہ دیکھے کہ یوسف (علیہ السلام) کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں ڈال دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف اکرم سے انہیں اس مرتبہ تک پہنچا دیا خبیر والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، ( خ ب ر ) الخبر کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

حضرت لقمان (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ بیٹا اگر کسی کی کوئی نیکی یا رزق رائی کے دانہ کے برابر ہو اور پھر وہ زمینوں کے نیچے کسی پتھر کے اندر چھپا ہو یا وہ آسمانوں کے اوپر ہو یا زمین کے اندر ہو جہاں کہیں بھی ہو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے مالک کے پاس لاکر حاضر کردے گا، اللہ تعالیٰ اس کے نکالنے میں بڑا باریک بین اور اس کی جگہ کے معلوم ہونے میں بڑا باخبر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ (یٰبُنَیَّ اِنَّہَآ اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ ) ” اپنی جسامت کے اعتبار سے رائی کا دانہ بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ مراد اس سے بہت ہی چھوٹی یا حقیر چیز ہے۔ قرآن مجید میں کسی چھوٹی یا حقیر چیز کا ذکر کرنے کے لیے حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ (رائی کے دانے) کے علاوہ بالعموم فَتِیْلاً یعنی کھجور کی گٹھلی کے ساتھ لگے ہوئے دھاگے (النساء : ٤٩) اور نَقِیْرًا یعنی کھجور کی گٹھلی کے گڑھے (النساء : ١٢٤) جیسے الفاظ بھی آتے ہیں ‘ لیکن رائی کا دانہ اپنی جسامت میں ان سب سے چھوٹا ہوتا ہے۔ (فَتَکُنْ فِیْ صَخْرَۃٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِہَا اللّٰہُ ط) ” انسان اشرف المخلوقات ہے ‘ اس کے اعمال چاہے اچھے ہوں یا برے وہ بھی انسان ہی کی طرح اہم ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ انسانی اعمال کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔ چناچہ انسان کا کوئی بھی عمل چاہے وہ کسی پہاڑ کی کھوہ میں وقوع پذیر ہواہو ‘ خلاء کی پہنائیوں میں یا زمین کے پیٹ کی تاریکیوں میں سر انجام دیا گیا ہو ‘ وہ اللہ سے چھپ نہیں سکتا۔ (اِنَّ اللّٰہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ ) ” یہی مضمون سورة الزلزال میں اس طرح بیان ہوا ہے : (فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ) ” تو جو کوئی کرے گا ذرّہ برابر بھلائی وہ اسے دیکھ لے گا ‘ اور جو کوئی کرے گا ذرّہ برابر برائی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔ “ نوٹ کیجیے ! حضرت لقمان نے اپنی وصیت میں شرک اور انسانی اعمال کے لازمی نتائج کے بعد بعث بعد الموت یا جنت و دوزخ کا تذکرہ نہیں کیا۔ اس لیے کہ یہ معلومات صرف وحی یا نبوت کی تعلیمات کے ذرائع سے ہی حاصل ہوسکتی ہیں۔ چناچہ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت لقمان نہ تو خود نبی تھے اور نہ ہی ان تک کسی نبی کی تعلیمات پہنچی تھیں۔ اس لیے ان کی نصیحتوں میں صرف وہی باتیں پائی جاتی ہیں جن تک کوئی صاحب حکمت شخص غور و خوض کے ذریعے پہنچ سکتا ہے ۔۔ اب ان کی تیسری نصیحت ملاحظہ ہو :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

27 The other admonitions of Luqman are being narrated here to imply that like the basic beliefs, the teachings pertaining to morals that the Holy Prophet is presenting, are not anything new in Arabia. 28 That is, "Nothing can escape Allah's knowledge and His grasp. A seed in the rock may be hidden for you, but it is known to AIIah. A particle in the heavens may be very distant for you, but for AIIah it is very near. A thing lying in the layers of the earth may be lying in darkness for you but for him it is in full light. Therefore, you cannot do anything good or bad, anywhere or any time, which may remain hidden from AIIah. He is not only aware of it, but when the time for accountability coms, He will place before you a full record of each act of yours. "

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :27 لقمان کے دوسرے نصائح کا ذکر یہاں یہ بتانے کے لیے کیا جا رہا ہے کہ عقائد کی طرح اخلاق کے متعلق بھی جو تعلیمات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں وہ بھی عرب میں کوئی انوکھی باتیں نہیں ہیں ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :28 یعنی اللہ کے علم سے اور اس کی گرفت سے کوئی چیز بچ نہیں سکتی ۔ چٹان کے اندر ایک دانہ تمہارے لیے مخفی ہو سکتا ہے ، مگر اس کے لیے عیاں ہے ۔ آسمانوں میں کوئی ذرہ تم سے بعید ترین ہو سکتا ہے ، مگر اللہ کے لیے وہ بہت قریب ہے ۔ زمین کی تہوں میں پڑی ہوئی کوئی چیز تمہارے لیے سخت تاریکی میں ہے مگر اس کے لیے بالکل روشنی میں ہے ۔ لہٰذا تم کہیں کسی حال میں بھی نیکی یا بدی کا کوئی کام ایسا نہیں کر سکتے جو اللہ سے مخفی رہ جائے ۔ وہ نہ صرف یہ کہ اس سے واقف ہے ، بلکہ جب محاسبہ کا وقت آئے گا تو وہ تمہاری ایک ایک حرکت کا ریکارڈ سامنے لا کر رکھ دے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: یہ اللہ تعالیٰ کے علم محیط کا بیان ہے جو لوگ آخرت کا انکار کرتے تھے، وہ یہ کہا کرتے تھے کہ جب انسان کے مرنے کے بعد اس کے سارے اجزاء منتشر ہوجائیں گے تو انہیں کیسے جمع کیا جاسکے گا ؟ حضرت لقمان نے بیٹے کو بتایا کہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا ذرہ بھی زمین و آسمان کی کسی بھی پوشیدہ جگہ چلا جائے، وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں اور وہ اسے نکال لانے پر پوری طرح قادر ہے۔ یاد رہے کہ جب جس کسی شخص کی کوئی چیز گم ہوجائے تو اسے تلاش کرنے کے لئے بعض بزرگوں نے بتایا ہے کہ گیارہ مرتبہ ’’ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘ پڑھ کر سورۂ لقمان کی یہ آیت تلاوت کی جاتی رہے تو عموماً وہ گمشدہ چیز مل جاتی ہے۔ بندہ نے بھی اس کا درجنوں بار تجربہ کیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٦ تا ١٩۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے لقمان (علیہ السلام) کے باقی کے اس کلام کو جو انہوں نے بیٹے سے بطور نصیحت کے کہا تھا پورا کیا لقمان (علیہ السلام) اپنے بیٹے سے کہتے ہیں کہ اے میرے بیٹے اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو اور ہو وہ پتھر میں آسمان یا زمین میں کہیں ہو جزا و سزا کے وقت اللہ تعالیٰ اس کو حاضر کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ چھپی ہوئی باتوں کا جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے ناقابل اعتراض سند سے مسند امام احمد میں ابوسعید خدری (رض) ١ ؎ سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص کسی ٹھوس پتھر میں گھس کر عمل کرے تو بھی اس کا عمل ظاہر ہوجائے گا خواہ کیسا ہی عمل ہو یہ حدیث لطیف خبیر کی گویا تفسیر ہے اسی طرح مسند بزار اور بیہقی کے حوالہ سے انس (رض) بن مالک کی معتبر روایت گزر چکی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حکم سے بعضے ایسے عمل لوگوں کے اعمال ناموں میں سے خارج کردیے جاویں گے جن کی خرابی کا حال اعمال ناموں کے لکھنے والے فرشتوں کو بھی معلوم نہ ہوگا اس حدیث کو بھی لطیف خبیر کی تفسیر میں بڑا دخل ہے پھر فرمایا کہ لقمان ( علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو یہ وصیت کی کہ نماز کو اس کے ارکان و اوقات کے ساتھ قائم رکھ اور لوگوں کو نصیحت کر موافق شرع کے اور منع کر خلاف شرع سے اور اس نصیحت کے کرنے میں کچھ تکلیف لوگوں کی طرف سے پہنچے تو صبر کر کیونکہ صبر بڑی ہمت کی چیز ہے۔ و لا تصعر خدک کی تفسیر میں علی بن طلحہ (رح) نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے یہ ہی نقل کیا ہے کہ تو تکبر نہ کر اور بڑائی نہ مار اور ایسا مت کر کہ خدا کے بندوں کو حقیر سمجھے اور جب وہ تجھ سے بات کریں تو تو ان سے منہ پھیرلے پھر فرمایا مت چل زمین پر اترا کر خود پسندی سے ورنہ خدا تعالیٰ تجھ کو حقیر رکھے گا کیونکہ وہ کسی کی خود پسند بڑائی مارنے والے کو پسند نہیں کرتا مطلب یہ ہے کہ بیچ کی چال چل نہ بہت آہستہ نہ بہت تیز اور بلکہ ان دونوں کے درمیان میں چل اور پست کر آواز اپنی گفتگو کرنے میں بےفائدہ ناحق آواز کو بلند مت کر بیشک بری سے بری آواز گدھے کی آواز ہے مجاہد اور اور مفسرین نے کہا ہے کہ کل آوازوں سے مکروہ اور ناپسند گدھے کی آواز ہے جو پکار کر بات کرے اس کی آواز گدھے کی آواز سے مشابہ ہے صحیح بخاری مسلم نسائی وغیرہ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ٢ ؎ ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تم مرغ کی آواز سنو تو اپنے حق میں بہتری کی دعا مانگو کیونکہ وہ اللہ کے فرشتوں کو دیکھ کر بولتا ہے اور جب تم گدھے کی آواز سنو تو اللہ سے پناہ مانگو کس لیے کہ گدھا شیطان کو دیکھ کر چلاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مرغ کی آواز سن کر جو کوئی دعا کرے گا تو فرشتے جو مرغ کے نظر آئے ہیں وہ آمین کہیں کے اور انکی آمین کی برکت سے عجب نہیں کہ وہ دعا قبول ہوجاوے اور گدھے کی آواز سن کر جو کوئی اللہ سے پناہ مانگے گا تو اس ذکر الٰہی سے شیطان بھاگ جاوے گا اور یہ اللہ سے پناہ مانگنے والا شخص شیطان کے بہکانے سے محفوظ رہے گا حاصل کلام یہ ہے کہ بہت چیخ کر بات چیت کا کرنا گدھے کی آواز سے مشابہ ہے اور گدھا شیطان کو دیکھ کر بےتحاشا چلاتا ہے اس لیے لقمان (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو اس مشابہت سے منع کیا۔ سورة الحجرات میں چلا کر بات چیت کرنے کی مذمت تفصیل سے آوے گی۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٤٦ ج ٣ ‘) (٢ ؎ مشکوۃ ٢١٣ باب الدعوات فی الاوقات و تفسیر ابن کثیر ص ٤٤٦ ج ٣)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(31:16) انھا ان تک : ھا ضمیر قصہ ہے جو مابعد کے جملہ کی طرف عائد ہے۔ ان تک ان شرطیہ ہے تک کون سے مضارع کا صیغہ واحد مؤنث غائب ہے اصل میں تکون تھا۔ ان شرطیہ کے آنے سے واؤ حذف ہوگیا اور نون کو بھی خلاف قیاس حرف علت کے مشابہ مان کر حذف کردیا گیا۔ ان تک اگر وہ ہو وے۔ مثقال اسم مفرد۔ ہم وزن۔ حبۃ۔ دانہ۔ اناج کے دانہ کو حبۃ یا حب کہتے ہیں ۔ خردل۔ رائی۔ مثقال حبۃ من خردل۔ رائی کے دانہ کے برابر۔ رائی کے دانہ کے ہموزن۔ انھا ان تک ۔۔ خردل قصہ یہ ہے کہ اگر کوئی (شے یا عمل) رائی کے دانہ کے برابر (بھی چھوٹا) ہو۔ فتکن۔ مضارع مجزوم واحد مؤنث غائب کون سے مضارع۔ دراصل تکون تھا حرف جازم (ان) داخل ہونے سے اجتماع ساکنین کی بناء پر واؤ ساقط ہوا۔ ترجمہ : پھر وہ ہو وے۔ صخرۃ۔ بڑا اور سخت پتھر۔ صخر وصخور جمع فی صخرۃ کسی بڑے سخت بھاری پتھر کے اندر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 اس سے کوئی عمل پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 16 تا 19۔ مثقال (وزن) ۔ حبتہ (دانہ) ۔ صخرۃ (سخت پتھر۔ چٹان) ۔ یات بھا (وہ اس کو لے آئے گا) ۔ اصاب (پہنچا) ۔ عزم الامور (ہمت کے کام) ۔ لا تصعر (تصعیر) (ٹیڑھانہ کر ۔ چہرہ نہ پھلا) ۔ خد (گال۔ رخسار) ۔ لا تمش (تو نہ چل) ۔ مرح (اکڑنا۔ تکبر کرنا) ۔ مختال (اترانے والا) ۔ فخور (بڑائیاں کرنے والا) ۔ اقصد (اعتدال۔ میانہ روی اختیار کر) ۔ مشی (چلنا) ۔ اغضض (پست کر۔ دھیما کر) ۔ صوت (آواز) ۔ انکر (بد ترین۔ ناگوار) ۔ الحمیر (گدھا) ۔ تشریح ـ آیت نمبر (16 تا 19) ۔ حجرت لقمان جو اللہ کے نیک اور برگذیدہ بندے تھے عرب کے رہنے والے ان کی عقل و فہم اور دانش پر بہت اعتماد کرتے تھے انہوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے پہلی بات یہ فرمائی کہ اس کائنات کا مالک صرف ایک اللہ ہے اس کی ذات، صفات اور عبادت میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے جو لوگ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں وہ در حقیقت بڑی بےانصافی، گستاخی اور ظلم عظیم کرتے ہیں۔ یہاں تک فرمایا ایک گھر میں کہ والدین جو انسان کی محبت و عقیدت کا مرکز ہوتے ہیں وہ بھی اگر اپنی اولاد کو شرک کرنے کا حکم دیں تو اولاد کو اس سے انکار کردینا فرض ہے۔ البتہ دنیاوی حسن سلوک میں کمی نہیں آنی چاہیے۔ کیونکہ والدین کافر ہوں یا اللہ کے فرماں بردار ہر حال میں ان کے ساتھ حسن معاملہ کرنا ضروری اور لازمی ہے۔ دوسرے نصیحت یہ فرمائی کہ انسان کا کوئی عمل یا کوئی بات کسی حال میں اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی چٹان یا زمین و آسمان میں کوئی چیز ایسی ہو جو لوگوں کی نگاہوں سے چھپی ہوئی ہو یا ہزاروں پردوں کے پیچھے کوئی گناہ کیا گیا ہو جو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو لیکن رب العالمین سے وہ بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ ہر بات اور عمل سے اچھی طرح واقف ہے۔ تیسری نصیحت یہ فرمائی کہ نماز کو ہمیشہ قائم رکھا جائے یعنی اس کے تمام آداب و ارکان کا خیال رکھتے ہوئے اس کو ادا کیا جائے۔ اصل میں توحید خالص کو مان کر اور اللہ کو ہر جگہ حاضر و ناظر جان کر عمل کرنا اور یہ یقین رکھنا کہ اس کو ایک دن اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے یہ دین اسلام کی روح ہے جس کا بہترین اظہار نماز کے ذریعہ ہوتا ہے اسی لئے حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نماز کی تاکید فرمائی۔ چوتھی نصیحت یہ فرمائی کہ ” امر بالمعروف اور نہی عن المنکر “ یعنی ہر نیک بات کو پھیلانے کی مسلسل جو جہد کرنا اور دنیا سے ہر برائی کو مٹانے کی کوشش کرنا ہر مومن کی ذمہ داری ہے کیونکہ اللہ نے اس کو بہترین امت بنایا ہے جس کا بنیادی فرض یہ ہے کہ دنیا میں نیکیاں پھیلائے اور برائیوں کے خاتمہ کی کوششوں میں لگی رہے۔ اصل میں جب تک ایک مومن کوئی بھی نیکی کرتا ہے نماز، روزہ اور احکام الہی کی پابندی کرتا ہے تو وہ عبادت ہے لیکن جب انسان کو یہ فکر دامن گیر ہوجائے کہ کسی طرح دوسرے لوگ بھی اس نیکی کو اپنالیں اور برائیوں سے بچ جائیں جب وہ اس کی جدوجہد کرتا ہے تو اس کو دعوت کہتے ہیں۔ عبادت اور دعوت دونوں ہی ضروری ہیں۔ عبادت کرنا تو شاید آسان ہو کیونکہ وہ انسان کی ذات تک محدود رہتی ہے لیکن دوسروں تک نیکی کا پیغام پہنچانا یہ بڑی ہمت اور حوصلہ مندی کی بات ہے اسی لئے فرمایا کہ اگر تمہیں اس راستے میں کوئی تکلیف پہنچے یا مشکل در پیش ہو تو اس پر صبر کرنا کیونکہ یہ بڑے حوصلے مندی کی بات ہے اسی لئے فرمایا کہ اگر تمہیں اس راستے میں کوئی تکلیف پہنچے یا مشکل در پیش ہو تو اس پر صبر کرنا کیونکہ یہ بڑے حوصلے ، جرات اور عزم و ہمت کی بات ہے۔ پانچویں نصیحت یہ فرمائی کہ لوگوں سے منہ پھیر پھیر کر بات مت کرنا کیونکہ یہ تکبر کر نشانی ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی سے بات کرتے تو پوری طرح متوجہ ہو کر بات کرتے تھے۔ یہی اہل ایمان کا طریقہ اور شریفانہ اخلاق کا تقاضا ہے۔ چھٹی نصیحت یہ فرمائی کہ زمین پر اکٹر کر چلنا تکبر اور غرور کی نشانی ہے جو کسی حال میں ایک مومن کو زیب نہیں دیتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کے بندے جب زمین پر چلتے ہیں تو بڑے وقار اور دھیمے پن سے چلتے ہیں یعنی متکبروں کی طرح نہ گردن اکڑا کر چلتے ہیں اور نہ زور سے پاؤں مار کر اپنی بڑائی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ تواضع اور انکساری کا طریقہ اختیار کرتے ہیں جو اللہ کو بہت پسند ہے۔ چلنے میں اس بات کا خیال ضرور رہے کہ نہ تو بیماروں کی طرح چلے نہ متکبر لوگوں کی طرح۔ درمیانہ اور اعتدال کی راہ سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ چلنے میں وقار ہو بناوٹ نہ ہو۔ ساتویں نصیحت یہ فرمائی کہ بیٹا ! اپنی آواز کو دھیما رکھنا۔ چیخنا، چلانا اور خوامخواہ زور زور سے بولنا پسندیدہ نہیں ہے جہاں جیسی ضرورت ہو اس کے مطابق آواز کو بلند یا پست کیا جائے لیکن بلا ضرورت گلا پھاڑنا اور اپنی بڑائی کا اظہار کرنا کسی طرح اچھی عادت نہین ہے۔ فرمایا کہ سب ہی جانور بولتے ہیں لیکن گدھے کی آواز اس لیے ناپسندیدہ ہے کہ وہ گلاپھاڑ کر چلاتا ہے اور اس پر بچے بھی ہنستے ہیں۔ اس بری عادت سے چھٹکارا پانا ضروری ہے۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بولتے تھے تو آپ حسب موقع اپنی آواز کو دھیما اور باوقار رکھتے تھے ۔ شہید کربلا حضرت حسین (رض) نے اپنے والد حضرت علی فرتضی (رض) سے پوچھا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب لوگوں کے درمیان بیٹھتے تھے تو آپ کا انداز کیا ہوتا تھا۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ خوش و خرم نظر آتے تھے۔ آپ کے اخلاق میں نرمی اور برتائو میں سہولت مندی ہوتی تھی۔ آپ کی طبعیت میں سختی نہیں تھی نہ آپ شور مچاتے تھے نہ کوئی ایسی بات منہ سے نکالتے تھے جو فحش اور گندی ہو، نہ کسی کو عیب لگاتے تھے نہ کنجوسی اور بخل سے کام لیتے تھے۔ جو چیز آپ کو پسند نہ آتی تو آپ اس کے پیچھے نہیں پڑتے تھے نہ اس میں عیب نکالتے تھے بلکہ اعراض فرمایا کرتے تھے یعنی خاموشی اختیار کرلیتے تھے۔ فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تین عادتیں نہیں تھیں (1) لڑائی جھگڑا کرنا۔ (2) تکبر کرنا۔ (3) جو چیز کام کی نہ ہو اس میں مشغول نہ ہونا۔ (شمائل ترمذی) اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت لقمان کی ان نصیحتوں پر پوری طرح عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں مکہ کے کافروں اور مشرکوں سے فرمایا ہے کہ تم حضرت لقمان کو عقل مند تو مانتے ہو لیکن ان کی ان باتوں کو نہیں مانتے کہ انہیں شرک اور تکبر سے کتنی نفرت تھی۔ وہ اللہ کے عبادت گذار اور نیک بندے تھے۔ جب کہ تمہاری زندگی میں ان باتوں کا اثر تک نہیں پایا جاتا۔ کم از کم جس کی تم عزت کرتے ہو اس کی نیک باتوں کو تسلیم تو کرو۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یہی اسباب ہیں خفاء شی کے علم خلق سے کیونکہ کبھی غایت صغر سے ایک شے مخفی ہوجاتی ہے کبھی حجاب کے شدید ہونے سے کبھی مکان کے بعید ہونے سے کبھی ظلمت سے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو دوسری وصیت۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو آخرت کی جو ابدہی کا احساس دلاتے ہوئے فرمایا کہ بیٹا انسان چھپ کر گناہ کرے یا اعلانیہ۔ رات کو کرے یا دن کی روشنی میں۔ گناہ بڑا ہو یا چھوٹا۔ بیشک وہ رائی کے دانے کے برابر ہی کیوں نہ ہو وہ زمین کی گہرائیوں میں ہو یا پہاڑ کی چوٹی پر یہاں تک کہ آسمانوں میں چھپا ہوا ہو۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی بارگاہ میں ضرور حاضر کرے گا کیونکہ وہ باریک سے باریک چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔ جس شخص کا یہ ذہن بن جائے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔ وہ جب چاہے پکڑ سکتا ہے اس نے پکڑ لیا تو اس کی پکڑ سے کوئی چھڑا نہیں سکتا۔ وہ شخص گناہ نہیں کرسکتا اگر بتقاضأ بشریت اس سے گناہ سرزد ہوجائے تو وہ زیادہ دیرتک توبہ کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس لیے قرآن مجید انسان کو یہ عقیدہ اور ذہن دیتا ہے کہ اے انسان تو جہاں کہیں ہو تیرا رب اپنے علم اور اقتدار کے حوالے سے تیرے ہی ساتھ ہوتا ہے۔ ” کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کو اللہ جانتا ہے۔ جب تین آدمی سرگوشی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ چوتھا ہوتا ہے اور جب پانچ آدمی سرگوشی کرتے ہیں تو اللہ ان کے ساتھ چھٹا ہوتا ہے۔ اسی طرح اس سے کم یا زیادہ ہوں تو اللہ ضرور ان کے ساتھ ہوتا ہے وہ کہیں بھی ہوں۔ پھر قیامت کے دن جو کام انہوں نے کیے ہیں ان کی ان کو خبر دے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ “ (المجادلۃ : ٧) اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے نہیں اپنے علم، اقتدار اور اختیارات کے حوالے سے ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔ ” اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی اور سمندر میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اسے جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی تر اور خشک دانہ نہیں مگر وہ ایک واضح کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ “ [ الانعام : ٥٩] (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّ رَجُلاً کَانَ قَبْلَکُمْ رَغَسَہُ اللَّہُ مَالاً فَقَالَ لِبَنِیْہِ لَمَّا حُضِرَ أَیَّ أَبٍ کُنْتُ لَکُمْ قَالُوا خَیْرَ أَبٍ قَالَ فَإِنِّیْ لَمْ أَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ ، فَإِذَا مُتُّ فَأَحْرِقُوْنِی ثُمَّ اسْحَقُوْنِیْ ثُمَّ ذَرُّونِیْ فِی یَوْمٍ عَاصِفٍ فَفَعَلُوْا، فَجَمَعَہُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ ، فَقَالَ مَا حَمَلَکَ قَالَ مَخَافَتُکَ فَتَلَقَّاہُ بِرَحْمَتِہِ ) [ رواہ البخاری : باب حدثنا ابو الیمان ] ” حضرت ابو سعید نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ تم سے پہلے ایک آدمی گزرا ہے جسے اللہ نے مال کی فراوانی عطا کی تھی اس نے موت کے وقت اپنے بیٹوں کو کہا میں نے کبھی نیک عمل نہیں کیا جب میں مرجاؤں تو مجھے جلا کر میری راکھ کو ہواؤں میں اڑا دینا، انہوں نے ایسا ہی کیا اللہ عزوجل نے اسے زندہ کیا، اور پوچھا کہ تجھے اس کام پر کس چیز نے ابھارا تھا ؟ وہ کہنے لگا کہ آپ کے ڈر نے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت میں لے لیا۔ “ مسائل ١۔ انسان جہاں کہیں ہو وہ اللہ تعالیٰ سے نہیں چھپ سکتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ باریک سے باریک چیز کو جانتا ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن انسان کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز جانتا ہے۔ (ہود : ٥) ٢۔ جوا للہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (البقرہ : ٢١٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ کا علم فرشتے بھی نہیں جانتے۔ (البقرہ : ٣٠) ٤۔ اللہ تعالیٰ خشکی اور تری کی پوشیدہ چیزوں کو جانتا ہے۔ (الانعام : ٥٩) ٥۔ ہر گرنے والا پتّہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتا ہے۔ (الانعام : ٥٩) ٦۔ اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے۔ (المومن : ١٩) ٧۔ اللہ تعالیٰ کے لیے یکساں ہے جو لوگ چھپاتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں۔ ( الرعد : ١٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یبنی انھا ان ۔۔۔۔۔ ان اللہ لطیف خبیر (16) اگر کوئی اللہ کے علم کی جامعیت اور مانعیت کو محض اصولی الفاظ میں بیان کر دے اور اللہ کو بہت قدرتوں والا کہہ دے اور یہ کہ اسے ذرے ذرے کا حساب لینا والا کہہ دے تو وہ اس قدر موثر نہیں ہوسکتا جس طرح یہ مصور انداز تعبیر موثر اور دلنشین ہے یہ قرآن کریم کا مخصوص انداز تعبیز ہے کہ نہایت معنوی اور ذہنی امور کو مصور کردیا جاتا ہے۔ (دیکھئے میری کتاب التصویر النبی) ۔ رائی کا دانہ بہت ہی چھوٹا ، گم گشتہ ، بےحقیقت اور بےوزن ہوتا ہے۔ اس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ پھر یہ دانہ کسی چٹان (مخرہ) میں ہو کہ وہاں تک پہنچنے کی کوئی راہ بھی نہ ہو یا وہ سماوات میں ہو ، جن کی دوریوں کے تصور ہی سے سر چکرا جاتا ہے ، جن کے اندر بڑے بڑے عظیم الجثہ کر ات کے وزن تیر رہے ہیں یا اس زمین کے اندر وہ رائی کے دانہ کہیں غبار میں پڑا ہوا تو اسے بھی ڈھونڈ لائے گا۔ پس ذرا تصور کرلو اس کے علم وقدرت کے بارے میں۔ وہ بہت ہی باریک بیں ہے۔ یات بھا اللہ ان اللہ لطیف خبیر (31: 16) اس مضمون کے ساتھ لطیف کا لفظ بہت ہی موزوں ہے۔ اور خیال اس ہولناک ، عظیم اور وسیع و عریض کائنات کی وادیوں میں اس رائی کے دانے کے پیچھے سرپٹ دوڑ رہا ہے اور یہ اللہ کے علم اور قدرت کے تصویر پر احاطہ کرنے سے عاجز رہ جاتا ہے ، اس لیے وہ اللہ کی طرف مڑ کر اپنی عاجزی کا اقرار کرتا ہے اور یقین کرتا ہے کہ اللہ ہر خفیہ بات کا جاننے والا ہے اور وہ بات ذہن نشین ہوجاتی ہے جسے پورا قرآن انسان کے ذہن میں بٹھانے کے درپے ہے کہ ” وہ “ دیکھ رہا ہے۔ نہایت ہی بہترین انداز میں اور دلنشیں اسلوب ہیں۔ حضرت لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت جاری رکھے ہوتے ہیں۔ اللہ پر پختہ ایمان لانے اور دل سے ہر قسم کے شرک کا شائبہ تک دور کرنے اور عقیدہ آخرت ثابت کرنے اور اسلامی نظریہ حیات دل میں بٹھانے کے بعد اب وہ اسلامی عقیدے کے تقاضے سامنے لاتے ہیں ، وہ تقاضے یہ ہیں کہ اللہ کے ساتھ رابطہ قائم رکھنے کے لیے نماز پڑھیں ، یہ معراج المومنین ہے۔ لوگوں کے ساتھ رابطہ رکھنے کیلئے ان کو اسلام کی دعوت دیں۔ جو بھی دعوت دیتا ہے اسے مشکلات پیش آتی ہیں ، اس لیے مشکلات پر صبر کرو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ یبنی انہا الخ۔ یہ کلام لقمان ہے اس میں ایک طرف تو جزاء وسزا کی طرف اشارہ ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیی کے علم غیب کلی اور اس کی قدرت کاملہ کا بیا ہے۔ انہا کی ضمیر سے حسنۃ اور سیئہ مراد ہے یعنی نیکی (توحید وغیرہ) اور گناہ (شرک وغیرہ) اگر رائی کے برابر بھی ہوگا اور زمین و آسمان میں کہیں بھی ہوگا اللہ تعالیٰ اسے حاضر کرلے گا اور اس پر جزا، و سزا دے گا کیونکہ وہ باریک سے باریک چیزوں کو جانتا ہے اور ہر چیز سے باخبر ہے۔ انہا ای الحسنۃ والسیئۃ ان کانت فی الصغر مثل حبۃ خردل۔ لاتخفی علی اللہ (کبیر ج 6، ص 736) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

16۔ اے میرے بیٹے کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر ہو پھر خواہ وہ کسی پتھر کے اندر ہو یا وہ آسمان میں ہو یا زمین میں ہو تو اللہ تعالیٰ اس عمل کو بھی لا حاضر کریگا بیشک اللہ تعالیٰ نہایت باریک ہیں بہت با خبر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم وقدرت کے کمال سے بیٹے کو آگاہ فرمایا کہ اس کا علم اتنا وسیع ہے کہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل چاہے رائی کے دانے ہی کے برابر کیوں نہ ہو اور کہیں پوشیدہ ہو کسی پتھر میں ہو یا زمین کے اور آسمان کے کسی حصے میں مخفی ہو یعنی کتنا ہی پوشیدہ ہو اور خواہ کتنا ہی دورہو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حساب کے وقت اس کو بھی لا حاضر کرے گا اس عمل کا چھوٹا ہونا یا پوشیدہ ہونا یا آسمان جیسی دوری پر ہونا اللہ تعالیٰ کے احاطہ علم اور احاطہ قدرت سے خارج نہیں کرسکتا ، کوئی عمل ہو یا خصلت و عادت ہو وقت پر اس سب کا اظہار ہوجائے گا اور لطیف وخبیر ہر چیز کو لا حاضر کرے گا ۔