Surat Luqman

Surah: 31

Verse: 18

سورة لقمان

وَ لَا تُصَعِّرۡ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ ﴿ۚ۱۸﴾

And do not turn your cheek [in contempt] toward people and do not walk through the earth exultantly. Indeed, Allah does not like everyone self-deluded and boastful.

لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا اور زمین پراترا کر نہ چل کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعا لٰی پسند نہیں فرماتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلاَ تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ ... And turn not your face away from men with pride, means, `do not turn your face away from people when you speak to them or they speak to you, looking down on them in an arrogant fashion. Rather be gentle towards them and greet them with a cheerful face,' as it says in the Hadith: وَلَوْ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ وَوَجْهُكَ إِلَيْهِ مُنْبَسِطٌ وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الاِْزَارِ فَإِنَّهَا مِنَ الْمَخِيلَةِ وَالْمَخِيلَةُ لاَ يُحِبُّهَا الله ... even if it is only by greeting your brother with a cheerful countenance. And beware of letting your lower garment trail below your ankles, for this is a kind of boasting, and Allah does not like boasting. ... وَلاَ تَمْشِ فِي الاَْرْضِ مَرَحًا ... nor walk in insolence through the earth. means, `do not be boastful, arrogant, proud and stubborn. Do not do that, for Allah will hate you.' So he said: ... إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ Verily, Allah likes not any arrogant boaster. meaning, one who shows off and admires himself, feeling that he is better than others. And Allah says: وَلاَ تَمْشِ فِى الاٌّرْضِ مَرَحًا إِنَّكَ لَن تَخْرِقَ الاٌّرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاً And walk not on the earth with conceit and arrogance. Verily, you can neither rend nor penetrate the earth nor can you attain a stature like the mountains in height. (17:37) We have already discussed this is detail in the appropriate place. The Command to be Moderate in Walking And Luqman said to his son:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

181یعنی تکبر نہ کر کہ لوگوں کو حقیر سمجھے اور جب وہ تجھ سے ہم کلام ہوں تو ان سے منہ پھیر لے۔ یا گفتگو کے وقت اپنا منہ پھیرے رکھے؛ صعر ایک بیماری ہے جو اونٹ کے سر یا گردن میں ہوتی ہے، جس سے اس کی گردن مڑ جاتی ہے، یہاں بطور تکبر منہ پھیر لینے کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے (ابن کثیر) 182یعنی ایسی چال یا رویہ جس سے مال ودولت یا جاہ و منصب یا قوت و طاقت کی وجہ سے فخر و غرور کا اظہار ہوتا ہو، یہ اللہ کو ناپسند ہے، اس لیے کہ انسان ایک بندہ عاجز وحقیر ہے، اللہ تعالیٰ کو یہی پسند ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق عاجزی وانکساری ہی اختیار کیے رکھے اس سے تجاوز کر کے بڑائی کا اظہار نہ کرے کہ بڑائی صرف اللہ ہی کے لیے زیبا ہے جو تمام اختیارات کا مالک اور تمام خوبیوں کا منبع ہے۔ اسی لیے حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہوگا۔ جو تکبر کے طور پر اپنے کپڑے کو گھسیٹتے ہوئے چلے اللہ اس کی طرف قیامت والے دن نہیں دیکھے گا۔ تاہم تکبر کا اظہار کیے بغیر اللہ کے انعامات کا ذکر یا اچھا لباس اور خوراک وغیرہ کا استعمال جائز ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٤] گال پھلا پھلا کر باتیں کرنا اور اکڑ اکڑ چلنا یہ سب خود پسندوں اور متکبروں کی ادائیں ہیں۔ متکبر لوگوں کی گفتگو سے، وضع قطع سے، چال ڈھال سے غرضیکہ ان کی ایک ایک ادا سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ شخص اپنے آپ کو دوسروں کے مقابلہ میں بہت کچھ سمجھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگوں کی ایک ایک حرکت سخت ناگوار ہے (مزید تشریح کے لئے دیکھئے سورة بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٣٧ کا حاشیہ نمبر ٤٧ اور سورة الفرقان کی آیت نمبر ٦٣ کا حاشیہ نمبر ٨٠)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ للنَّاسِ : ” صَعَرٌ“ اونٹ کو لگنے والی ایک بیماری، جس سے وہ اپنی گردن ایک طرف پھیرے رکھتا ہے۔ اس سے باب ” تفعیل “ تکلف کے لیے ہے۔ یعنی تکلف سے ایک طرف منہ پھیرے رکھنا۔ یہ انداز حقارت کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عمرو بن حُنَیّ تغلبی نے اپنے بعض بادشاہوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ؂ وَ کُنَّا إِذَا الْجَبَّارُ صَعَّرَ خَدَّہُ أَقَمْنَا لَہُ مِنْ مَیْلِہِ فَتَقَوَّمَا ” اور ہم ایسے تھے کہ جب کسی جبار نے اپنا رخسار ٹیڑھا کیا، تو ہم نے اس کی ٹیڑھ سیدھی کردی، سو تو بھی سیدھا ہوجا۔ “ [ فَتَقَوَّمَا امر کا صیغہ ہے (ابوعبید) اور آخر میں الف اشباع کے لیے ہے ] 3 احکام کی وصیت کے بعد لقمان (علیہ السلام) نے چند آداب و اخلاق کی وصیت فرمائی، فرمایا لوگوں کے لیے اپنا رخسار ٹیڑھا نہ رکھ، یعنی انھیں حقیر سمجھ کر ایسا نہ کر جیسے متکبر اور مغرور لوگ کرتے ہیں، بلکہ تواضع اور نرمی اختیار کر، جیسا کہ عقل مند لوگوں کا شیوہ ہے۔ تحقیر کے اس انداز سے منع کرنے میں زبان یا ہاتھ کے ساتھ کسی کی تحقیر سے منع کرنا بالاولیٰ شامل ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے فرمایا : (فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ ) [ بني إسرائیل : ٢٣ ] ” ماں باپ کو ” اُف “ نہ کہو۔ “ مراد کسی بھی طرح تکلیف پہنچانے سے منع کرنا ہے۔ وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا : یہاں ایک سوال ہے کہ چلا زمین ہی پر جاتا ہے، پھر خاص طور پر اس کا ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ تمام لوگوں کی طرح اس زمین سے تمہاری پیدائش ہے، اسی میں تم نے دفن ہونا ہے اور دوسرے تمام لوگ بھی اسی زمین پر چل رہے ہیں، پھر تمہارا دوسروں کو حقیر اور اپنے آپ کو ان سے برتر سمجھنا اور اکڑ کر چلنا تمہیں کس طرح زیب دیتا ہے ؟ (واللہ اعلم) سورة بنی اسرائیل (٣٧) میں یہ مضمون زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة نساء (٣٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Fifth Bequest of Luqman about Social Manners In verse 18, it was said: وَلَا تُصَعِّرْ‌ خَدَّكَ لِلنَّاسِ (And do not turn your cheek away from people). The expression: لَا تُصَعِّرْ‌ (la tusa|"ir) is a derivation from: صَعَرَ (sa’ ara) which is a disease among camels that causes a tilt in the neck similar to the stroke among human beings that makes the face become crooked. It carries the sense of turning one&s face away (in disdain). Thus, the verse means: &do not turn your face away from people when you meet them and talk to them for it is a sign of avoidance and arrogance and very much against the norms of gentle manners.& In the next sentence of the verse, it was said: وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْ‌ضِ مَرَ‌حًا (and do not walk on the earth haughtily - 18). The last word: مَرَ‌حًا (maraha) denotes walking proudly with assumed airs. The sense of the statement is that Allah Ta’ ala has given this earth the lowest profile from among the entire range of elements He created. Is it not that you were born from it and on it you walk around? Know your reality and do not walk haughtily. This is the way of the arrogant. Therefore, after that, it was said: إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ‌ (Surely, Allah does not like anyone arrogant, proud - 18).

پانچویں وصیت لقمانی متعلقہ آداب معاشرت : (آیت) ولا تصعر خدک للناس، لاتصعر، صعر سے مشتق ہے جو اونٹ کی ایک بیماری ہے جس سے اس کی گردن مڑ جاتی ہے، جیسے انسانوں میں لقوہ معروف بیماری ہے جس سے چہرہ ٹیڑھا ہوجاتا ہے، مراد اس سے رخ پھیرلینا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی ملاقات اور گفتگو میں ان سے منہ پھیر کر گفتگو نہ کرو جو ان سے اعراض کرنے اور تکبر کرنے کی علامت ہے اور اخلاق شریفانہ کے خلاف ہے۔ (آیت) ولا تمش فی الارض مرحاً ، مرح اکڑ کر، اترا کر چلنا ہے۔ معنی یہ ہیں کہ زمین کو اللہ تعالیٰ نے سارے عناصر سے پست افتادہ بنایا ہے تم اسی سے پیدا ہوئے اسی پر چلتے پھرتے ہو اپنی حقیقت کو پہچانو اترا کر نہ چلو جو متکبرین کا طریقہ ہے۔ اسی لئے اس کے بعد فرمایا (آیت) ان اللہ لا یحب کل مختال فخور، ” یعنی اللہ نہیں پسند کرتا کسی متکبر فخر کرنے والے کو “

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ۝ ١٨ۚ صعر الصَّعَرُ : ميل في العنق، والتَّصْعِيرُ : إمالته عن النّظر کبرا، قال تعالی: وَلا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ [ لقمان/ 18] ، وكلّ صعب يقال له : مُصْعَرٌ ، والظَّليم أَصْعَرُ خلقةً «3» . ( ص ع ر ) الصعر کے اصل معنی گردن میں کجی کے ہیں ۔ اور تصعیر کے معنی ہیں تکبر کی وجہ سے گردن کو ٹیڑھا کرنا اور اعراض پر تنا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ [ لقمان/ 18] اور ( تکبر کی بنا پر ) لوگوں سے روگردانی نہ کرو ۔ اور ہر مشکل امر کو مصعر کہا جاتا ہے شتر مرغ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ پیدائشی طور پر اصعر یعنی کج گردن ہوتا ہے ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ مشی المشي : الانتقال من مکان إلى مکان بإرادة . قال اللہ تعالی: كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، وقال : فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور/ 45] ، إلى آخر الآية . يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک/ 15] ، ويكنّى بالمشي عن النّميمة . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم/ 11] ، ويكنّى به عن شرب المسهل، فقیل : شربت مِشْياً ومَشْواً ، والماشية : الأغنام، وقیل : امرأة ماشية : كثر أولادها . ( م ش ی ) المشی ( ج ) کے معنی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف قصد اور ارادہ کے ساتھ منتقل ہونے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور/ 45] ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک/ 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور کنایۃ مشی کا لفظ چغلی کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم/ 11] طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا ۔ اور کنایۃ کے طور پر مشئی کے معنی مسہل پینا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ شربت مشیا ومشو ا میں نے مسہل دواپی الما شیۃ مویشی یعنی بھیڑ بکری کے ریوڑ کو کہتے ہیں اور امراۃ ماشیۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے بچے بہت ہوں ۔ مرح المَرَحُ : شدّة الفرح والتّوسّع فيه، قال تعالی: وَلا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحاً [ الإسراء/ 37] وقرئ : ( مَرِحاً ) «3» أي : فَرِحاً ، ومَرْحَى: كلمة تعجّب . ( م ر ح ) المرح کے معنی ہیں بہت زیادہ اور شدت کی خوشی جس میں انسان اترانے لگ جائے قرآن میں ہے : وَلا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحاً [ الإسراء/ 37] اور زمین پر اکڑا کر ( اور اٹھلاکر ) مت چل ۔ اس میں ایک قرآت مرحا بمعنی فرحا بھی ہے ۔ مرحی یہ کلمہ تعجب ہے ( اور احسنت یا اصبت کی جگہ استعمال ہوتا ہے ) یعنی خوب کیا کہنے ہیں ۔ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ خيل الخَيَال : أصله الصّورة المجرّدة کالصّورة المتصوّرة في المنام، وفي المرآة وفي القلب بعید غيبوبة المرئيّ ، ثم تستعمل في صورة كلّ أمر متصوّر، وفي كلّ شخص دقیق يجري مجری الخیال، والتّخييل : تصویر خيال الشیء في النّفس، والتّخيّل : تصوّر ذلك، وخلت بمعنی ظننت، يقال اعتبارا بتصوّر خيال المظنون . ويقال خَيَّلَتِ السّماءُ : أبدت خيالا للمطر، وفلان مَخِيل بکذا، أي : خلیق . وحقیقته : أنه مظهر خيال ذلك . والخُيَلَاء : التّكبّر عن تخيّل فضیلة تراءت للإنسان من نفسه، ومنها يتأوّل لفظ الخیل لما قيل : إنه لا يركب أحد فرسا إلّا وجد في نفسه نخوة، والْخَيْلُ في الأصل اسم للأفراس والفرسان جمیعا، وعلی ذلک قوله تعالی: وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال/ 60] ، ويستعمل في كلّ واحد منهما منفردا نحو ما روي : (يا خيل اللہ اركبي) فهذا للفرسان، وقوله عليه السلام : «عفوت لکم عن صدقة الخیل» يعني الأفراس . والأخيل : الشّقراق لکونه متلوّنا فيختال في كلّ وقت أنّ له لونا غير اللون الأوّل، ولذلک قيل : كأبي براقش کلّ لو ... ن لونه يتخيّل ( خ ی ل ) الخیال ۔ اس کے اصل معنی صورت مجردہ کے ہیں ۔ جیسے وہ صورت جو خواب یا آیئنے میں نظر آتی ہے یا کسی کی عدم موجودگی میں دل کے اندر اس کا تصور آتا ہے ۔ پھر ( مجازا ) ہر اس امر پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جس کا تصور کیا جائے اور ہر اس پتلے دبلے شخص کو خیال کہاجاتا ہے جو بمنزلہ خیال اور تصور کے ہو ۔ التخییل ( تفعیل ) کے معنی کسی کے نفس میں کسی چیز کا خیال یعنی تصور قائم کرنے کے ہیں اور التخیل کے معنی ازخود اس قسم کا تصور قائم کرلینے کے ہیں ۔ اور خلت بمعنی ظننت آتا ہے ۔ اس اعتبار سے کہ مظنون چیز بھی بمنزلہ خیال کے ہوتی ہے ۔ خیلت السماء آسمان میں بارش کا سماں نظر آنے لگا ۔ فلاں مخیل بکذا ۔ فلاں اس کا سزا اور ہے اصل میں اس کے معنی یہ ہیں کہ فلاں اس خیال کو ظاہر کرنے والا ہے ۔ الخیلاء ۔ تکبر جو کسی ایسی فضیلت کے تخیل پر مبنی ہو جو انسان اپنے اندر خیال کرتا ہو ۔ اسی سے لفظ خیل لیا گیا ہے کیونکہ جو شخص گھوڑے پر سوار ہو وہ اپنے اندر بخت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل اندر نحوت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل کا لفظ گھوڑے اور سواروں دونوں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال/ 60] اور گھوڑو ن کے تیار رکھنے سے اور کبھی ہر ایک پر انفراد بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے (122) یاخیل اللہ ارکبی ۔ ( اے اللہ کے سوا گھوڑے پر سوار ہوجا۔ تو یہاں خیل بمعنی فا رس کے ہے اور ایک حدیث میں ہے (123) عفوت لکم عن صدقۃ الخیل کہ میں نے تمہیں گھوڑوں کا صدقہ معاف کیا الاخیل ۔ شقرا ( ایک پرندہ ) کو کہاجاتا ہے کیونکہ وہ رنگ بدلتا رہتا ہے ۔ اور ہر لحظہ یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ دوسرے رنگ کا ہے ۔ اس ی بناپر شاعر نے کہا ہے ( مجرد الکامل) (149) کا بی براقش کل لومن نہ یتخیل ابوبراقش کی طرح جو ہر آن نیا رنگ بدلتا ہے ۔ فخر الفَخْرُ : المباهاة في الأشياء الخارجة عن الإنسان کالمال والجاه، ويقال : له الفَخَرُ ، ورجل فَاخِرٌ ، وفُخُورٌ ، وفَخِيرٌ ، علی التّكثير . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتالٍ فَخُورٍ [ لقمان/ 18] ، ويقال : فَخَرْتُ فلانا علی صاحبه أَفْخَرُهُ فَخْراً : حکمت له بفضل عليه، ويعبّر عن کلّ نفیس بِالْفَاخِرِ. يقال : ثوب فَاخِرٌ ، وناقة فَخُورٌ: عظیمة الضّرع، كثيرة الدّر، والفَخَّارُ : الجرار، وذلک لصوته إذا نقر كأنما تصوّر بصورة من يكثر التَّفَاخُرَ. قال تعالی: مِنْ صَلْصالٍ كَالْفَخَّارِ [ الرحمن/ 14] . ( ف خ ر ) الفخر ( ن ) کے معنی ان چیزوں پر اترانے کے ہیں جو انسان کے ذاتی جوہر سے خارج ہوں مثلا مال وجاہ وغیرہ اور اسے فحر ( بفتح الخا ) بھی کہتے ہیں اوت فخر کرنے والے کو فاخر کہا جاتا ہے اور فخور وفخیر صیغہ مبالغہ ہیں یعنی بہت زیادہ اترانے والا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتالٍ فَخُورٍ [ لقمان/ 18] کہ خدا کسی اترانے والے کو خود پسند کو پسند نہیں کرتا ۔ فخرت فلان علٰی صاحبہ افخرہ فخرا ایک یکو دوسرے پر فضیلت دینا اور ہر نفیس چیز کو فاخر کہا جاتا ہے چوب فاخر قیمتی کپڑا اور جس اونٹنی کے تھن تو بڑے بڑے ہوں مگر دودھ بہت کم دے اسے فخور کہتے ہیں ۔ الفخار منکوں کو کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ٹھوکا لگانے سے اس طرح زور سے بولتے ہیں جیسے کوئی کوئی بہت زیادہ فخر کررہا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنْ صَلْصالٍ كَالْفَخَّارِ [ الرحمن/ 14] ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

مغرورانہ انداز میں گفتگو نہ کی جائے قول باری ہے : (ولا تصعر خدک للناس) اور لوگوں سے اپنا رخ مت پھیرو۔ حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد کا قول ہے کہ آیت کے معنی ہیں۔” غرور کی بنا پر اپنا رخ لوگوں سے نہ پھیرو۔ “ ابراہیم نخعی کا قول ہے اس سے تشدق مراد ہے یعنی باچھیں کھولنا۔ یہ معنی بھی پہلے معنی کی طرف راجع ہے کیونکہ باچھیں پھیلا کر باتیں کرنے والا متکبر ہوتا ہے۔ ایک کے مطابق صعر دراصل ایک بیماری کا نام ہے جو اونٹوں کے سروں اور گردنوں میں پیدا ہوجاتی ہے اور ان کے چہروں اور گردتوں کو ٹیڑھا رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ اس شخص کو تشبیہ دی گئی ہے جو لوگوں سے اپنی گردن ٹیڑھی رکھتا ہے یعنی ان سے اپنا رخ پھیرے رکھتا ہے۔ شاعر کا شعر ہے : وکنا اذا الجبار صعر خدہ اقمنالہ من میلہ فتقوما ہم تو ایسے لوگ ہیں کہ اگر کوئی مغرور ہمارے سامنے اپنی گردن ٹیڑھی کرتا تو ہم اس کی کجی دور کردیتے اور پھر وہ سیدھی ہوجاتی ۔ یعنی ہم اس کا غرور ختم کردیتے۔ غرور انسان کو زیب نہیں دیتا قول باری ہے (والا تسمش فی الارض مرحبا۔ اور زمین پر اکڑ کر مت چلو) مرح اترانے لوگوں کو حقارت کی نظروں سے دیکھنے اور انہیں ذلیل سمجھنے نیز خود پسندی کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمادیا اس لئے کہ یہ حرکت صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو حقیقت سے آگاہ نہ ہو اور اسے اپنی ابتداء اور انتہا کی خبر نہ ہو۔ حسن بصری کا قول ہے کہ ابن آدم کیسے تکبر کرتا ہے حالانکہ اس کا خروج دودفعہ پیشاب کی راہ سے ہو رہا ہے۔ قول باری ہے (ان اللہ لا یحب کل مختال دخور۔ بیشک اللہ تعالیٰ کسی تکبر کرنے والے فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا) مجاہد کا قول ہے کہ مختال متکبر کو کہتے ہیں۔ فخور اس شخص کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں پر لوگوں کے سامنے ڈینگیں مارتا اور انہیں حقارت کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ اس کا یہ رویہ قابل مذمت ہوتا ہے کیونکہ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکرادا کرنا چاہیے نہ کہ ان نعمتوں کو اس کی نافرمانی کا ذریعہ بنایا جائے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ” میں اولاد آدم کا سردار ہوں لیکن میں اس پر فخر کا اظہار نہیں کرتا۔ “ آپ نے یہ بتادیا کہ اولاد آدم کے سردار ہونے کی بات کا ذکر شکر کے طور پر ہوا تھا اظہار فخر کے طور پر نہیں ہوا تھا۔ جس طرح یہ قول باری ہے (واما بنعمۃ ربک فحدث اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرو) ۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور تکبر اور بڑائی میں لوگوں سے اپنا رخ مت پھیر یا یہ کہ غریب مسلمانوں کو کمتر مت سمجھ اور زمین پر بڑائی کے ساتھ مغرور ہو کر مت چل۔ بیشک اللہ تعالیٰ کبھی تکبر کرنے والے اور نعمت خداوندی پر فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ (وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ للنَّاسِ ) ” یعنی لوگوں سے بےرخی اور غرور وتکبر کی روش مت اختیار کرو ۔ (اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ ) ” لفظی اعتبار سے مُخْتَال کا تعلق خیل (گھوڑے) سے ہے۔ گھوڑے کی چال میں ایک خاص تمکنت اور غرور کا انداز پایا جاتا ہے۔ چناچہ جب انسان اپنی چال کے انداز میں گھوڑے کے سے غرور و تمکنت کا مظاہرہ کرتا ہے تو گویا وہ مُخْتَالبن جاتا ہے۔ یہی مضمون اس سے پہلے سورة بنی اسرائیل میں اس طرح بیان ہوا ہے : (وَلاَ تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاج اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلاً ) ” اور زمین میں اکڑ کر نہ چلو ‘ تم نہ تو زمین کو پھاڑ سکو گے اور نہ ہی پہنچ سکو گے پہاڑوں تک اونچائی میں “۔۔ اور اب آخری نصیحت :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

31 Tusa'ir in the original is from se 'ar. a disease in the camel's neck clue to which it keeps its face turned to one side. The idiom implies the attitude of a person who shows arrogance and vanity, turns his face away and treats others with scant respect. 32 Mukhtal in the original implies a person who has an over-high opinion of himself, and fakhur is the one who boasts of his superiority over others. A man becomes haughty and arrogant and vain in his gait only when he is puffed up with pride, and wants that others should feel his superiority. 33 According to some commentators it means this: 'Walk neither fast nor slow but at a moderate pace :" but the context shows that here the pace or the rate of walking is not the question. There is nothing morally wrong with a fast or a slow pace in itself, nor can there be a rule made for it. When a man is in a hurry. he has to walk fast, and there is nothing wrong if one walks slow when walking for pleasure. Even if there is a standard for the moderate pace, it cannot be made a law for every person at aII times. What is actually meant by this is to reform the state of the self under which a person walks haughtily. The haughtiness and arrogance of a person inevitably manifests itself in his gait and style of walking, which shows the state of his mind and also the cause of his pride and haughtiness. Wealth, authority, beauty. knowledge, power and such other things cause a man to became proud and vain, and each of these gives him a special style of gait. Contrary to this, manifestation of humility in the gait is also the result of one or the other morbid mental state. Sometimes the hidden conceit of the self of a man takes on the form of ostentatious humility, piety and godliness and this is shown by his gait; and sometimes man really feels so embittered by the frustrations of the world that he adopts a sick man's gait. What Luqman means to say is this: "Avoid these states of the mind and self and walk the gait of a simple, honest and noble person, which neither shows any vanity and haughtiness nor weakness nor ostentatious piety and humility." The taste of the Holy Prophet's great Companions in this regard can be judged from a few instances. When Hadrat Umar once saw a man walking with his head hung down, he shouted out to him, saying, "walk with your head raised up. Islam is not sick. "He saw another person walking like a weak, sick man, and said, wretch! Do not sully our religion! " Both these incidents show that in the sight of Hadrat 'Umar religious piety did not at aII require that one should walk cautiously. like the sick man and show undue humility by one's gait. Whenever he saw a Muslim walking such a gait, he would have the apprehension that it would misrepresent Islam and would depress the other Muslims. A similar incident was once met with by Hadrat 'A'ishah. She saw a person walking as if run down and exhausted. She asked what was the matter. It was said, 'He is one of the reciters of the Qur'an (i.e. a person who remains engaged in reciting and teaching the Qur'an and in worship)." At this she said, 'Umar was the chief of the reciters of the Qur'an, but as it was he would walk with a firm foot, and he would speak with force and strength, and he would give a good beating if he had to." (For further explanation. see E.N. 43 of Bani Isra'il and E.N. 79 of AI-Furqan).

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :31 اصل الفاظ ہیں لَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ ۔ صَعَر عربی زبان میں ایک بیماری کو کہتے ہیں جو اونٹ کی گردن میں ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے اونٹ اپنا منہ ہر وقت ایک ہی طرف پھیرے رکھتا ہے ۔ اس سے محاورہ نکلا فلان صعّر خدّہ ، فلاں شخص نے اونٹ کی طرح اپنا کلا پھیر لیا یعنی تکبر کے ساتھ پیش آیا اور منہ پھیر کر بات کی ۔ اسی کے متعلق قبیلۂ تغلب کا ایک شاعر عمرو بن حی کہتا ہے ، وکنّا اذا الجبار صَعَّر خَدَّ ٭ اقمنَا لہ من میْلہ فتقوّ مَا ہم ایسے تھے کہ جب کبھی کسی جبار نے ہم سے بات کی تو ہم نے اس کی ٹیڑھ ایسی نکالی کہ وہ سیدھا ہو گیا ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :32 اصل الفاظ ہیں مختال اور فخور ۔ مختال کے معنی ہیں وہ شخص جو اپنی دانست میں اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتا ہو ۔ اور فخور اس کو کہتے ہیں جو اپنی بڑائی کا دوسروں پر اظہار کرے ۔ آدمی چال میں اکڑ اور اتراہٹ اور تبختر کی شان لازماً اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کے دماغ میں تکبر کی ہوا بھر جاتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ دوسروں کو اپنی بڑائی محسوس کرائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(31:18) ولاتصعر۔ فعل نہی واحد مذکر حاضر۔ تصعیر (تفعیل) مصدر۔ تو (تکبر و نخوت کی وجہ سے) منہ نہ موڑ۔ الصعر کے اصل معنی گردن میں کجی کے ہیں اور اونٹوں کی ایک بیماری کا نام بھی ہے جب یہ لگتی ہے تو اونٹ کی گردن ٹیڑھی ہوجاتی ہے الصعرداء یاخذ البیعر فیکوی منہ عنقہ ویمیلہ۔ صعر ایک بیماری ہے جو اونٹ کو لگتی ہے تو اس سے اس کی گردن ٹیڑھی ہو کر جھک جاتی ہے۔ اسی بنا پر جب کوئی شخص غرور و نخوت سے اپنا منہ لوگوں کی طرف سے موڑ لیتا ہے تو عرب کہتے ہیں قد صعر خدہ اس مفہوم کی تائید میں عمرو بن جنی التغلبی کا شعر ہے۔ وکنا اذا الجبار صعر خدہ اقمنالہ من میلہ فتقوما (جب کوئی جابر شخص ازراہ تکبر اپنا رخسار پھیر لیتا ہے تو ہم (بزور شمشیر) اس کی کجی کو دور کردیتے ہیں اور وہ درست ہوجاتا ہے) خدک۔ مضاف مضاف الیہ۔ تیرا رخسار۔ خدود جمع۔ ولا تصعر خدک للناس اور تو لوگوں سے اپنا منہ مت پھیر۔ ای ولا تتکبر علیہم ان سے تکبر سے مت پیش آ۔ لاتمش۔ فعل نہی واحد مذکر حاضر۔ مشی (باب ضرب) مصدر۔ تمش اصل میں تمشی تھا۔ لاء نہی جازم فعل کی وجہ سے ی گرگئی۔ تو مت چل۔ مرحا۔ مرح یمرح (باب سمع) سے مصدر ہے۔ بہت زیادہ اور شدت کی خوشی سے اترانا۔ ناز سے چلنا۔ بوجہ حال منصوب ہے مختال۔ اسم فاعل واحد مذکر حاضر اختیال (افتعال) مصدر خیل مادہ ناز سے چلنے والا۔ مغرور ۔ متکبر ، الخیلاء وہ تکبر جو کسی ایسی فضیلت کے تخیل پر مبنی ہو جو انسان اپنے اندر خیال کرتا ہو اور وہ دراصل اس میں نہ ہو۔ فخور : الفخر (باب نصر) کے معنی ان چیزوں پر اترانے کے ہیں جو انسان کے ذاتی جوہر سے خارج ہوں مثلا مال و جاہ وغیرہ اور اسے فخر بھی کہتے ہیں اور فخر کرنے والے کو فاخر کہا جتا ہے۔ فخور و فخیر مبالغہ کے صیغے ہیں بہت زیادہ اترانے والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 15 یا لوگوں سے اپنا منہ پھیر کر بات نہ کر۔ یعنی غرور نہ کر بلکہ تواضح اور عاجزی کے ساتھ ہر ایک کی بات سن۔ 1 بلکہ اللہ تعالیٰ کو عاجزی پسند ہے واضح رہے کہ اکڑنا اور شیخی بگھارنا اور چیز ہے اور شکر کے جذبہ سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر کرنا دوسری چیز، یہ ناصرف جائز بلکہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔” واما بنعمت ربک فحدث (ضحیٰ 11)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو مزید چار وصیتیں۔ ایک اچھے مسلمان اور بہترین مبلّغ کے لیے لازم ہے کہ وہ ان باتوں کا خیال کرے جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو ارشاد فرمائی ہیں۔ عظیم دانشور اپنے بیٹے کو اخلاق اور کردار کے حوالے سے سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ لوگوں سے تکبر اور لاپرواہی سے اپنے چہرہ کو نہ پھیرنا۔ زمین پر اکڑ کر نہ چلنا۔ یقیناً یہ فخرو غرور کا انداز ہے یاد رکھ کہ رب ذوالجلال کو فخروغرور کرنے والے لوگ پسند نہیں۔ جو شخص ان باتوں کا خیال نہیں رکھتا بیشک وہ علمی، مالی، سماجی اور سیاسی لحاظ سے کتنا بڑا کیوں نہ ہو بالآخر لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں بسا اوقات متکبر شخص کے سامنے لوگوں کی گردنیں جھکی ہوئی ہوتی ہیں۔ مگر ان کے دل اس سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ( وَعَنْ اَنسٍ (رض) اَنَّ رَسُوْ لَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ اِذَا صَافَحَ الرَّجُلُ لَمْ یَنْزِعْ یَدَہٗ مِنْ یَدِہٖ حَتّٰی یَکُوْنَ ہَوُ الَّذِیْ یَنْزِعْ یَدَہٗ وَلَا یَصْرِفُ وَجَہَہٗ عَنْ وَجْہِہٖ حَتّٰی یَکْوْنَ ہُوَالَّذِیْ یَصْرِفُ وَجْہَہٗ عَنْ وَجْہِہٖ وَلَمْ یُرَ مُقَدِّماً رُکْبَتَیْہِ بَیْنَ یَدَیْ جَلِیْسٍ لَہٗ ) [ رواہ الترمذی : باب المصافحۃ ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی آدمی سے ہاتھ ملاتے تو آپ اس کے ہاتھ کھینچے سے پہلے اپنے ہاتھ کو الگ نہ کرتے اور نہ ہی آپ اپنے چہرے کو اس کے چہرے سے ہٹاتے جب تلک وہ اپنے چہرے کو خود نہ ہٹا لیتا۔ چلنا، اکڑ کر اور نہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجلس میں بیٹھے ہوئے اپنے گھٹنوں کو کبھی دراز کیا۔ “ چال ڈھال میں میانہ روی : حضرت لقمان اپنے بیٹے کو یہ وصیت بھی کرتے ہیں کہ بیٹا اکڑ کر نہ چلنے کا یہ معنٰی نہیں کہ آدمی بیماروں کی طرح چلے اس کا مفہوم یہ ہے کہ درمیانے انداز اور رفتار میں چلنا چاہیے۔ جس میں تندرستی کے اظہار کے ساتھ، تواضع بھی ہونی چاہیے اس میں پیدل چلنا ہی شامل نہیں بلکہ سواری کی رفتار بھی اسی انداز کی ہونی چاہیے بعض لوگ گاڑی ڈرائیو کر رہے ہوں تو اس سپیڈ کے ساتھ گزرتے ہیں کہ پیدل چلنے والے کا کلیجہ کانپ جاتا ہے۔ راستے میں پانی ہو تو راہگیروں کے کپڑے گندے ہوجاتے ہیں ایسے آدمی کو لوگ بدعائیں ہی دیا کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں یہ اصول مسلّمہ ہے کہ تیز رفتاری سے ایکسیڈنٹ زیادہ ہوتے ہیں اس لیے آدمی پیدل ہو یا سوار اسے میانہ روی کا خیال رکھنا چاہیے۔ چلنے کا انداز اور میانہ روی : زمین پر اکڑ کر چلنے سے انسان بڑا نہیں ہوجاتا انسان بڑا ہوتا ہے تواضح اور انکساری کے ساتھ۔ جس قدر لوگوں کے ساتھ تواضح اختیار کرے گا۔ اسی قدر ہی ان میں بڑا بنتا جائے گا۔ اکڑ کر چلنے کے بارے میں قرآن مجید میں ان الفاظ کے ساتھ مذمت کی گئی ہے۔ (وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا) [ بنی اسرائیل : ٣٧] ” اور زمین میں اکڑ کر نہ چل، بیشک تو نہ زمین کو پھاڑ سکے گا اور نہ اونچائی میں پہاڑوں تک پہنچ پائے گا۔ “ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قاَلَ مَارَایْتُ شَیْءًا اَحْسَنَ مِنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَاَنَّ الشَّمْسَ تَجْرِیْ فِیْ وَجْہِہٖ وَمَا رَایْتُ اَحَدًا اَسْرَعَ فِیْ مَشْیِہٖ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَاَنَّمَا الْاَرْضُ تُطْوٰی لَہٗ اِنَّا لَنُجْہِدُ اَنْفُسَنَا وَاِنَّہٗ لَغَیْرُ مُکْتَرِثٍ ) [ رواہ الترمذی : باب فی صفۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر کسی کو حسین نہیں دیکھا گویا کہ سورج آپ کے چہرے میں رواں دواں ہو۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ تیز چلنے والا کسی کو نہیں دیکھا اس طرح دکھائی دیتا گویا کہ آپ کے لیے زمین سکڑ گئی ہے۔ ہمیں آپ کے ساتھ ملنے کے لیے کوشش کرنا پڑتی، اور آپ کو کسی قسم کی مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ “ (کَانَ عَلِیٌّ إِذَا وَصَفَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ ۔۔ إِذَا مَشٰی تَقَلَّعَ کَأَنَّمَا یَمْشِیْ فِی صَبَبٍ )[ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ النَّبِیّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت علی (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قدرے جھک کرچلتے جیسے ڈھلوان سے نیچے اتر رہے ہوں۔ “ (یعنی گردن اکڑا کر نہیں چلتے بلکہ ہلکا سا جھکاؤ لیے ہوئے چلا کرتے ہیں۔ ) گفتگو میں میانہ روی رکھیں : حضرت لقمان اپنے بیٹے کو پے درپے نصیحتیں کرتے ہوئے سمجھاتے ہیں کہ میرے لخت جگر اپنی آواز بھی بلا ضرورت بلند نہ کرو۔ خواہ مخواہ اور بلا وجہ اونچی آواز سے بولنا گدھے کی طرح بولنا ہے۔ عقل مندی اور سنجیدگی کا تقاضا ہے کہ آدمی ماحول اور ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے آواز بلند کرے۔ چاہے وہ کتنا بڑا خطیب کیوں نہ ہو۔ اسے ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں میری آواز اور لب و لہجہ میں تصنّع اور کراہت تو نہیں پائی جاتی۔ یہی اصول نماز میں ہونا چاہیے لاؤڈ اسپیکر کی آواز کا تو بالخصوص خیال رکھنا چاہیے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا سَمِعْتُمْ صِےَاح الدِّےْکَۃِ فَسَلُوْا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ فَاِنَّھَا رَأَتْ مَلَکًا وَاِذَا سَمِعْتُمْ نَھِےْقَ الْحِمَارِ فَتَعَوَّذُوْا باللّٰہِ مِنَ الشَّےْطَان الرَّجِےْمِ فَاِنَّہُ رَاٰی شَےْطَانًا) [ رواہ البخاری : باب خیر مال المسلم ] حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم مرغ کی اذان سنو تو اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگا کرو۔ کیونکہ وہ فرشتے کو دیکھتا ہے اور جب گدھے کو ہینگتا سنو تو ” اَعُوْذُ باللّٰہِ مِن الشَّےْطٰنِ الرَّجِےْمِ “ پڑھو۔ کیونکہ گدھا شیطان کو دیکھ کر ہینگتا ہے۔ مسائل ١۔ لوگوں کے ساتھ متکبرانہ انداز اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ ٢۔ چال، ڈھال اور بولنے میں میانہ روی ہونی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ متکبر اور مغرور آدمی کو پسند نہیں کرتا۔ ٤۔ سب سے مکروہ آواز گدھے کی آواز ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ متکبر اور مغرور آدمی کو پسند نہیں کرتا۔ ١۔ متکبر کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (النحل : ٢٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ اترانے والے کو پسند نہیں کرتا۔ ( القصص : ٧٦) ٣۔ زمین میں اکڑ کر نہ چل ! نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ پہاڑوں کی بلندیوں کو پہنچ سکتا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٣٧) ٤۔ اللہ تکبر اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ (لقمان : ١٨) ٥۔ جو کچھ اللہ نے تمہیں عطا کیا ہے، اس پر اتراؤ نہیں کیونکہ اللہ فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الحدید : ٢٣) ٦۔ یقیناً اللہ تکبر اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ (النساء : ٣٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولا تصعر خدک ۔۔۔۔۔ لصوت الحمیر (18 – 19) صعر ایک بیماری ہے جب اونٹ کو لگ جاتی ہے تو وہ اپنی گردن ٹیڑھی کرلیتا ہے۔ قرآن کریم مغرور شخص کے فعل کو صعر کے ساتھ تشبیہ دے کر اس سے لوگوں کو متنفر کرنا چاہتا ہے۔ کبر اور سرتابی کے عمل کو صعر کہا گیا یعنی اپنے رخساروں کو لوگوں سے کبر و غرور کی وجہ سے پھیر دینا۔ زمین پر اکڑ کر چلنے کے معنی ہیں غرور اور استکبار کے ساتھ چلنا۔ بھولا ہوا اور لوگوں کو کچھ نہ سمجھنے والا ، یہ ایسی حرکت ہے جسے اللہ بھی مکروہ سمجھتا ہے اور لوگ بھی اسے برا سمجھتے ہیں۔ ایسا شخص اپنے بارے میں اونچا خیال رکھتا ہے اور اپنی رفتار میں اس کا اظہار کرتا ہے۔ ان اللہ لا یحب کل مختال فخور (31: 18) ” اللہ کسی خود پسند اور فخر جتلانے والے کو پسند نہیں کرتا “۔ اکڑ کر چلنے کی ممانعت کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا کہ اعتدال کے ساتھ چلو۔ واقصد فی مشیک (31: 19) ” اور اپنی چال میں اعتدال اختیار کرو “۔ قصد سے مراد میانہ روی ہے۔ یعنی وہ اقتصادی پالیسی جس میں اسراف نہ ہو ، کیونکہ جو شخص اکڑ کر چلتا ہے ، گردن مروڑ کر چلتا ہے اور اپنے آپ کو اونچا سمجھتا ہے وہ اپنی قوت کو ضائع کرتا ہے۔ گویا اسراف کرتا ہے۔ قصد سے مراد ارادہ بھی ہوسکتا ہے یعنی تمہارے چلنے کی حرکت بامقصد ہو اور تمہاری منزل متعین ہو۔ اور کڑ کو خود پسندی سے چلنے والا شخص ماسوائے دکھاوے کے اور اپنے ذہن میں بڑائی کے کوئی اور مقصد نہیں رکھتا اور یہ کوئی مقصد نہیں ہے ، یعنی اگر چلتے ہو تو کسی مقصد سے سادہ طریقے سے چلو۔ دھیمی آواز میں شائستگی ہوتی ہے۔ اس میں جو شخص بات کرتا ہے وہ اعتماد سے بات کرتا ہے اور اسے اپنی بات کی سچائی کا یقین ہوتا ہے۔ اونچی اور گرجدار آواز سے بات کرنے والا شخص عموماً بےادب ہوتا ہے یا اسے اپنی بات پر یقین نہیں ہوتا۔ یا وہ اپنی شخصیت کی کمزوری کو شور و شغب میں چھپانا چاہتا ہے۔ جھوٹا شخص ہمیشہ جوش و خروش دکھاتا ہے۔ قرآن کریم کا اپنا اسلوب ہے ، یہاں بےمقصد اونچی آواز کی قباحت کو ظاہر کرنے کے لیے ایک نہایت ہی مکروہ ، حقیر اور احمقانہ صورت پیش کی جاتی ہے۔ ان انکر الاصوات لصوت الحمیر (31: 19) ” سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے “۔ یوں ہر اونچی آواز کو دگدھوں کی آواز سے تشبیہ دے کر ، اسے قابل نفرت بنا دیا گیا اور یوں ہر عقلمند اور مہذب شخص اسے حقیر اور قابل نفرت سمجھنے لگتا ہے۔ یہ حقارت آمیز تصویر جس شخص کی نظروں میں ہو ، وہ کبھی بھی گدھوں کی آواز کی طرح آواز نہیں نکالے گا۔ یوں یہ دوسرا سفر ختم ہوتا ہے جس کے اندر پہلے ہی مسئلے پر بحث کی گئی ہے۔ یہ بحث نہایت ہی متنوع اور جدید سے جدید اسلوب میں کی گئی ہے ، قرآن کے اپنے انداز تصویر کشی میں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

تکبر کی مذمت حضرت لقمان (رض) نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا یہ زمین پر اتراتے ہوئے اکڑتے مکڑتے ہوئے نہ چلو کیونکہ یہ تکبر کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے اور فخر کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا، سورة الاسراء رکوع نمبر ٣ میں بھی یہ مضمون گذر چکا ہے وہاں یہ بھی فرمایا ہے (اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا) (بلاشبہ تو زمین کو نہیں پھاڑ سکتا اور لمبائی کے اعتبار سے پہاڑوں تک نہیں پہنچ سکتا) یعنی تجھ سے بڑی بڑی مخلوق موجود ہے، تجھے اکڑنا مکڑنا، اترانا اور شیخی بھگارنا کہاں زیب دیتا ہے ؟ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے یہ بھی کہا کہ اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کرو یعنی اس طرح چلو کہ دوڑ بھاگ نہ ہو کیونکہ وقار کے خلاف ہے، اور اس میں خود اپنی ذات کو اور زمین پر رہنے اور بسنے والوں اور چلنے پھرنے والوں کے لیے بھی خطرہ ہے، اور نہ بہت آہستہ چلو کہ تکبر اور تصنع والے چلتے ہیں تاکہ لوگوں پر اپنا امتیاز ظاہر کریں ہاں اگر کوئی بیمار اور ضعیف ہے تو وہ دوسری بات ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ ولا تصعر خدک الخ، عبادات کے بعد حضرت لقمان نے اپنے فرزند ارجمند کو مکارم اخلاق اور حسن معاشرت کی نصیحت فرمائی۔ یعنی دوسروں کو حقیر سمجھ کر اور کبر و غرور کی بناء پر ان سے منہ نہ موڑ بلکہ عاجزی، تواضع اور انس و محبت کے ساتھ ان سے برتاؤ کر۔ یقول لا تتکبر فتحتقر عباد اللہ وتعرض عنہم بوجھک اذا کلموک (ابن کثیر ج 3 ص 446) ۔ فالمعنی اقبل علیہم متواضعا مؤنسا مستانسا (قرطبی ج 14 ص 70) ۔ 17:۔ ولا تمش الخ، اور زمین میں اکڑ کر اور اترا کر نہ چل کیونکہ اللہ تعالیٰ تکبر کی چال چلنے والے اور لاف و گزاف مارنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ ان اللہ لا یحب الخ۔ جملہ ماقبل کے لیے تعلیل ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

18۔ اور لوگوں سے منہ پھلا کر بےرخی کا برتائو نہ کر اور لوگوں سے اپنا رخ نہ پھیر اور زمین میں اترا کر اور متکبرانہ چال سے نہ چلا کر بیشک اللہ تعالیٰ کسی تکبر کرنے والے شیخی مارنے والے کو پسند نہیں کرتا ۔ مطلب یہ ہے کہ لوگوں سے خندہ پیشانی اور اخلاق کے ساتھ ملا کر لوگوں کو حقیر سمجھ کر تکبر کا برتائو نہ کیا کر اور منہ پھلا کر بےرخی کے ساتھ بات نہ کیا کر زمین پر اکڑ کر چلنے سے منع فرمایا کیونکہ یہ متکبروں کی چال ہے ۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ ہر تکبر کرنے والے فخر کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا اور شیخی خور سے متکبرکوپسند نہیں کرتا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں گال نہ پھلا یعنی غرور سے نہ دیکھو۔ 12 حضرت شاہ صاحب (رح) تصعر خدک کا ترجمہ گال مت پھلا کیا ہے مطلب وہی ہے جو ہم نے عرض کیا تصعر کا ترجمہ لغت میں روبگروانیدن از کبر کیا ہے۔