Surat Luqman

Surah: 31

Verse: 21

سورة لقمان

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ اتَّبِعُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ قَالُوۡا بَلۡ نَتَّبِعُ مَا وَجَدۡنَا عَلَیۡہِ اٰبَآءَنَا ؕ اَوَ لَوۡ کَانَ الشَّیۡطٰنُ یَدۡعُوۡہُمۡ اِلٰی عَذَابِ السَّعِیۡرِ ﴿۲۱﴾

And when it is said to them, "Follow what Allah has revealed," they say, "Rather, we will follow that upon which we found our fathers." Even if Satan was inviting them to the punishment of the Blaze?

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کی تابعداری کرو تو کہتے ہیں کہ ہم نے تو جس طریق پر اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اسی کی تابعداری کریں گے ، اگرچہ شیطان ان کے بڑوں کو دوزخ کے عذاب کی طرف بلاتا ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ... And when it is said to them, means, to these people who dispute about the Oneness of Allah. ... اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ ... "Follow that which Allah has sent down," means, the pure Divine Laws that He has sent down to His Messengers, ... قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ ابَاءنَا ... they say: "Nay, we shall follow that which we found our fathers (following)." means, they have no other proof except the fact that they are following their forefathers. Allah says: أَوَلَوْ كَانَ ءَابَاوُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ شَيْيًا وَلاَ يَهْتَدُونَ Even though their fathers did not understand anything nor were they guided. (2:170) meaning, `what do you think, you who take the forefathers' deeds as proof, that they were misguided and you are following in their footsteps!' Allah says: ... أَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطَانُ يَدْعُوهُمْ إِلَى عَذَابِ السَّعِيرِ Even if Shaytan invites them to the torment of the Fire!

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

211یعنی ان کے پاس کوئی عقلی دلیل ہے، نہ کسی ہادی کی ہدایت اور نہ کسی کتاب آسمانی سے کوئی ثبوت، گویا کہ لڑتے ہیں ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩] تقلید آباء کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ بزرگوں میں سے کسی ایک نے کوئی غلطی کی۔ کوئی غلط عقیدہ اپنایا یا کوئی بدعی کام شروع کردیا۔ پھر بعد کی نسلوں نے بزرگوں سے عقیدت کی بنا پر اس غلطی کو درست تسلیم کرتے ہوئے رائج کرلیا۔ اور اس کی تحقیق کی کسی نے ضرورت ہی نہ سمجھی۔ اس آیت میں دو باتوں کی صراحت کی گئی ہے۔ ایک یہ کہ تقلید آباء بلاتحقیق اور شیطان کی پیروی کی ایک ہی چیز ہے۔ اور دوسرے یہ کہ شیطان کی پیروی کا لازمی نتیجہ جہنم کا عذاب ہے۔ گویا ان سے سوال یہ کیا جارہا ہے کہ اگر شیطان تمہارے آباء اجداد کو جہنم کی طرف لے جارہا ہو تو بھی تم اپنے آباء واجداد کی پیروی کرو گے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ۔۔ : یعنی کتاب اللہ اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایت کے مقابلے میں اپنے جاہل اسلاف کو پیش کرتے ہیں، پھر اس سے بڑھ کر گمراہی اور کیا ہوسکتی ہے ؟ مزید دیکھیے سورة بقرہ (١٧٠) ۔ اَوَلَوْ كَان الشَّيْطٰنُ يَدْعُوْهُمْ اِلٰى عَذَاب السَّعِيْرِ : یعنی کیا اگر شیطان انھیں بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب کی طرف دعوت دے رہا ہو تب بھی یہ ان کے ساتھ دوزخ کی آگ میں جا کو دیں گے اور یہ سوچنے کی زحمت ہی نہ کریں گے کہ وہ انھیں کدھرلے جا رہا ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۝ ٠ ۭ اَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطٰنُ يَدْعُوْہُمْ اِلٰى عَذَابِ السَّعِيْرِ۝ ٢١ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا سعر السِّعْرُ : التهاب النار، وقد سَعَرْتُهَا، وسَعَّرْتُهَا، وأَسْعَرْتُهَا، والْمِسْعَرُ : الخشب الذي يُسْعَرُ به، واسْتَعَرَ الحرب، واللّصوص، نحو : اشتعل، وناقة مَسْعُورَةٌ ، نحو : موقدة، ومهيّجة . السُّعَارُ : حرّ النار، وسَعُرَ الرّجل : أصابه حرّ ، قال تعالی: وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء/ 10] ، وقال تعالی: وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير/ 12] ، وقرئ بالتخفیف «2» ، وقوله : عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک/ 5] ، أي : حمیم، فهو فعیل في معنی مفعول، وقال تعالی: إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر/ 47] ، والسِّعْرُ في السّوق، تشبيها بِاسْتِعَارِ النار . ( س ع ر ) السعر کے معنی آگ بھڑکنے کے ہیں ۔ اور سعرت النار وسعر تھا کے معنی آگ بھڑکانے کے ۔ مجازا لڑائی وغیرہ بھڑکانے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے : ۔ استعر الحرب لڑائی بھڑک اٹھی ۔ استعر اللصوص ڈاکو بھڑک اٹھے ۔ یہ اشتعل کے ہم معنی ہے اور ناقۃ مسعورۃ کے معنی دیوانی اونٹنی کے ہیں جیسے : ۔ موقدۃ ومھیجۃ کا لفظ اس معنی میں بولا جاتا ہے ۔ المسعر ۔ آگ بھڑکانے کی لکڑی ( کہرنی ) لڑائی بھڑکانے والا ۔ السعار آگ کی تپش کو کہتے ہیں اور سعر الرجل کے معنی آگ یا گرم ہوا سے جھلس جانے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء/ 10] اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير/ 12] اور جب دوزخ ( کی آگ ) بھڑکائی جائے گی ۔ عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک/ 5] دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ تو یہاں سعیر بمعنی مسعور ہے ۔ نیز قران میں ہے : ۔ إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر/ 47] بیشک گنہگار لوگ گمراہی اور دیوانگی میں ( مبتلا ہیں ) السعر کے معنی مروجہ نرخ کے ہیں اور یہ استعار ہ النار ( آگ کا بھڑکنا ) کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جس وقت ان کفار مکہ سے کہا جاتا ہے کہ اس قرآن کریم کی پیروی کرو اور اس کو پڑھو جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر نازل فرمایا ہے تو کہتے ہیں کہ نہیں ہم تو اسی طریقہ کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو پایا ہے کیا اگر شیطان ان کے آباؤ اجداد کو کفر و شرک کی طرف بلاتا رہا ہو جس سے دوزخ کا عذاب واجب ہوتا ہے تب بھی یہ ان ہی کی پیروی کریں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ (وَاِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآءَ نَا ط) ” یہ سوچ آج بھی زندہ ہے۔ آج بھی ہر معاشرے میں کلچر کے احیاء ‘ لوک ورثے کی حفاظت اور قومی روایات کے پروان چڑھانے کے نام پر کروڑوں روپے کے وسائل ضائع کردیے جاتے ہیں۔ (اَوَلَوْ کَان الشَّیْطٰنُ یَدْعُوْہُمْ اِلٰی عَذَاب السَّعِیْرِ ) ” اپنے آباء و اَجداد کے غلط طریقوں سے چمٹے رہنے کی یہ سوچ دراصل شیطانی گمراہی کے سبب ہے۔ چناچہ ایسی باتیں کر کے گویا وہ لوگ شیطان کی دعوت پر لبیک کہہ رہے ہیں اور شیطان کی دعوت تو گویا جہنم کے عذاب کی دعوت ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

39 That is, It is not at aII necessary that the forefathers of every person and every family and nation should have been on the right path. The mere argument that a particular way of life had been bequeathed by the elders cannot be a proof of its being right also. No sane person can commit the folly that he should blindly go on following the way of his forefathers even if they were not rightly guided, and should never bother to find out where the way is leading him."

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :39 یعنی ہر شخص اور ہر خاندان اور ہر قوم کے باپ دادا کا حق پر ہونا کچھ ضروری نہیں ہے ۔ محض یہ بات کہ یہ طریقہ باپ دادا کے وقتوں سے چلا آ رہا ہے ہرگز اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ یہ حق بھی ہے ۔ کوئی عقلمند آدمی یہ نادانی کی حرکت نہیں کر سکتا کہ اگر اس کے باپ دادا گمراہ رہے ہوں تو وہ بھی آنکھیں بند کر کے انہی کی راہ پر چلے جائے اور کبھی یہ تحقیق کرنے کی ضرورت نہ محسوس کرے کہ یہ راہ جا کدھر رہی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢١ تا ٢٦۔ اوپر ذکر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی سب ضرورت کی چیزیں پیدا کیں اس پر بعضے ناشکر لوگ نادانی سے اللہ تعالیٰ کے وحدہ لاشریک ہونے میں بغیر سند کے جھگڑتے ہیں ان آیتوں میں اس بےسند جھگڑنے کا ذکر فرمایا کہ ان مشرکوں سے جب اللہ کے حکم پر چلنے کو کہا جاتا ہے تو یہ نادان کہتے ہیں کہ جن تبوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے ہم بھی انہیں کو پوجیں گے اور ان کا ہی طریقہ اختیار کریں گے اسکا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ کیا یہ لوگ باپ دادا کی چال چلیں گے اگرچہ شیطان ان کو دوزخ کے عذاب کی طرف بلاتا ہو مطلب یہ ہے کہ ان کہ باپ دادا شیطان کے پیرو اور گمراہ ہوں تو کیا جب بھی یہ ان کا طریقہ اختیار کریں گے ؟ یہ عقل سے بہت بعید ہے پھر فرمایا جو لوگ اللہ کے حکم پر چلتے ہیں ان لوگوں نے بڑی مضبوط دستاویز کو پکڑا ہے وہ دستاویز اللہ کا وعدہ ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو جنت میں داخل کرے گا۔ کیونکہ دنیا کے کاموں میں اگر یہ لوگ اپنے بڑوں کا طریقہ غلط پاتے ہیں تو چھوڑ دیتے ہیں پھر دین کے طریقہ میں بڑوں کے حق پر ہونے کی جب کوئی سندان لوگوں کے پاس نہیں ہے تو ایسے بےسند طریقہ کو یہ لوگ شیطانی بہکاوا کیوں نہیں خیال کرتے پھر فرمایا جو شخص اللہ کے حکم پر نہ چلے تو اے رسول اللہ اس کا تم کچھ غم نہ کرو ان کو ہمارے پاس آنا ہے اس وقت ہم ان کو ان کے عملوں کو جتلاویں گے اور سزا دیں گے بیشک اللہ تعالیٰ دل کی باتوں کو خوب جانتا ہے اس پر کچھ پوشیدہ نہیں ہے۔ پھر فرمایا ہم تھوڑے دنوں دنیا کی چیزوں سے فائدہ اٹھانے کے بعد قیامت کے روزان کو مجبور و نا چار کر کے پکڑ لاویں گے اور ان کے عملوں کی ان کو پوری سزا دیویں گے۔ اب آگے فرمایا کہ اے رسول اللہ کے اگر تم ان مشرکوں سے پوچھو گے کہ آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ یہی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے مطلب یہ کہ وہ مشرک اس بات کو جانتے ہیں کہ سب کا پیدا کرنے والا خدا تعالیٰ ہے کوئی اس کا شریک نہیں پھر باوجود اس کے عبادت میں اللہ کے ساتھ ایسوں کو شریک کرتے ہیں جن کو خدا کی مخلوق کہتے ہیں پھر فرمایا سب تعریف اللہ کو زیبا ہے مطلب یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے، اللہ کا شکر کرو کہ خدا کی حجت کے پورے ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہی کیونکہ خود مشرکوں کے اقرار سے ان پر الزام ثابت ہوگیا پھر ایسے جاہل ہیں کہ شرک کئے جاتے ہیں پھر فرمایا جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے وہ سب اللہ کی ملک ہے بیشک اللہ ہی بےپر واہ اور خوبیوں والا ہے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکا ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اپنے علم ازلی کے موافق اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کتنے آدمی جنت میں جانے کے قابل کام کریں گے اور کتنے دوزخ میں جانے کے قابل اسی طرح صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی وہ حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے ان حدیثوں کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ فتح مکہ سے پہلے مشرکین مکہ میں کے جو لوگ علم الٰہی میں دوزخ کے قابل ٹھہر چکے تھے وہ اگرچہ اللہ کو اپنا خالق و رازق جانتے تھے لیکن ازلی گمراہی کے سبب سے پھر بھی شرک کو نہیں چھوڑتے تھے اور رات دن کی قرآن کی نصیحت ان کے حق میں ایسی ہی رائگاں تھی جس طرح بری زمین میں مہینہ کا پانی رائگاں جاتا ہے صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت گزر چکی ہے کہ قوم نوح میں کے کچھ نیک لوگ مرگئے تھے جن کے مرجانے کا اس وقت کے لوگوں کو بڑا رنج تھا شیطان نے موقع پاکر ان لوگوں کے جی میں یہ وسوسہ ڈالا کہ ان نیک لوگوں کی شکل کے بت بنا کر رکھ لیے جاویں کہ ان بتوں کو دیکھ لینے سے ان نیک لوگوں کی جدائی کا رنج کی ہوجاوے گا۔ اس وسوسہ کے موافق وہ بت بنا کر رکھ لیے جاویں کہ ان بتوں کو دیکھ لینے سے ان نیک لوگوں کی جدائی کا رنج کم ہوجاوے گا۔ اس وسوسہ کے موافق وہ بت بنائے گئے اور پھر رفتہ رفتہ ان بتوں کی پوجا ہونے لگی۔ اس حدیث کو آیت کان الشیطان ید عوھم الی عذاب السعیر کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آدم (علیہ السلام) کی عداوت کے سبب سے جہاں تک ہو سکے اولاد آدم کو شیطان دوزخ میں گھسیٹ کرلے جانا چاہتا ہے اس لیے اس نے اپنے اس مقصد کو پورا کرنے کا حیلہ بت پرستی کو ٹھہرایا ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ بت پرستی کا طریقہ ایسا ناپسند ہے کہ قوم سے لے کر فرعون تک لاکھوں آدمیوں کو دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اسی بت پرستی کی سزا کے طور پر طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کردیا اور عقبیٰ میں ایسے لوگوں کے لیے سخت عذاب کا وعدہ فرمایا ہے اب ان مشرکین مکہ کو یہ یاد رہے کہ اگر یہ لوگ اپنے بڑوں کو پیشوا ٹھہرا کر بت پرستی سے باز نہ آویں گے تو یہی انجام ان کا ہوگا جوان سے پہلے لوگوں کا ہوا۔ اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کے بدر کے قصہ کی روایت جو اوپر گزر چکی ہے اس سے اس وعدہ کا ظہور اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ العروۃ الوثقی کے معنے مضبوط دست آوبز کے بھی ہیں مضبوط رسی کے بھی ہیں اور فقط لفظ عروہ کے معنے جز اور بنیاد کے بھی ہیں اس واسطے تفسیروں اور جموں میں العروۃ الوثقی کے مختلف معنے جو نظر آتے ہیں وہ سب صحیح ہیں بعضے مرادی ترجموں کے قرآن میں عروہ کا ترجمہ۔۔۔ کیا گیا ہے اس سے مطلب وہی جڑ اور بنیاد ہے صحیح بخاری مسلم وغیرہ ١ ؎ میں عبداللہ بن سلام (رض) کے خواب کی ایک بڑی حدیث ہے جس میں عبداللہ بن سلام نے ایک لوہے کی سلاخ خواب میں دیکھی ہے اور پھر اس سلاخ پر چڑھ کر میدان حسر اور اہل جنت اور دوزخ کو دیکھا ہے اس روایت میں یہ بھی ہے کہ اس سلاخ کے سرے پر ایک سونے کا کڑا جڑا ہوا تھا اسی کڑے کو پکڑ کر عبداللہ بن سلام اس سلاخ پر چڑھے ہیں اور خواب کی تعبیر میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کڑے کو العروۃ الوثقی اور اس سلاخ کو اسلام فرمایا ہے اسی مناسبت سے بعضے ترجموں میں عروہ کے معنے کڑے کے کیے ہیں جو بالکل صحیح ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ سب معنے مثال کے طور پر ہیں اصل مقصد یہ ہے کہ جس شخص نے اسلام کو مرتے دم تک مضبوط پکڑا اس نے گویا نجات کی دست آویز حاصل کی۔ (١ ؎ تفسیر مظہری ص ٣٢٣ جلد اول) (٢ ؎ تفسیر مظہری ص ٣٢٣ جلداول وسنن دار قطنی ص ٤٩٨۔ ) (٣ ؎ مشکوۃ کتاب الصلواۃ فصل اول ) (٤ ؎ ایضا ) (١ ؎ مشکوۃ ص ٥٧٥ باب جامع المناقب ‘ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(31:21) اولو کان الشیطن یدعوہم الی عذاب السعیر۔ ہمزہ استفہامیہ ہے ای ایتبعونہ (کیا وہ پھر بھی پیروی کرتے رہیں گے) واؤ حالیہ ہے اور جملہ لوکان ۔۔ السعیر۔ جملہ حالیہ ہے۔ یعنی کیا وہ پھر بھی اس کی پیروی کرتے رہیں گے درآں حالیکہ وہ شیطان ان کو بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب کی طرف بلا رہا ہو۔ یدعوھم میں ضمیر ہم جمع مذکر غائب کی دو صورتیں ہیں :۔ (1) اگر اس کا مرجع وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں بل نتبع ما وجدوا علیہ اباء نا تو مطلب یہ ہوگا کہ شیطان ان کو اپنے آباء و اجداد کے مذہب کی طرف مائل کرکے عذاب جہنم کی طرف لے جا رہا ہے۔ (2) اور اگر اس کا مرجع آباء ہے تو مطلب ہوگا کہ کیا اس حال میں بھی کہ شیطان ان کے آباء و اجداد کو عذاب دوزخ کی طرف بلا رہا ہو وہ اپنے آباو اجداد کی پیروی کریں گے (ای ایتبعونھم) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 تب بھی یہ ان کے ساتھ دوزخ کی آگ میں جا کو دیں گے ؟” یعنی کتاب اللہ اور پیغمبر کی ہدایت کے مقابل ہمیں اپنے جاہل اسلاف کے عمل کو پیش کرتے ہیں پھر اس سے بڑھا کر گمراہی اور کیا ہوسکتی ہے ؟ (دیکھیے بقرہ آیت 87 مائدہ آیت 104)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ مطلب یہ کہ ایسے معاند ہیں کہ باوجود اس کے کہ ان کو دلیل کی طرف بلایا جاتا ہے، مگر پھر بھی بلا دلیل بلکہ خلاف دلیل محض آباء ضالین کی راہ پر چلتے ہیں۔ 7۔ یعنی فرمانبرداری اختیار کرے عقائد میں بھی اعمال میں بھی، مراد اسلام و توحید ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انسان کا اپنے رب کے ساتھ جھگڑنے کا ایک انداز۔ انسان کا حقائق ٹھکرانے اور اپنے رب کے ساتھ جھگڑنے کا یہ بھی انداز ہے کہ جب اسے یہ بات کہی جاتی ہے کہ صرف اس کی اتباع کرو جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں ہم تو اسی کی اتّباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے گویا کہ یہ اپنے آباء و اجداد کی رسومات کو دین سمجھتے ہیں۔ جس کے بارے میں سورة البقرہ آیت ١٧١ میں یہ ارشاد ہوا کہ ” کیا ان کے باپ دادا دین کے بارے میں کوئی سمجھ اور رہنمائی نہ رکھتے تھے “ اس کے باوجود یہ ان کی پیروی کریں گے۔ ایسے کفار کی مثال تو اس شخص کی ہے جو شخص چِلّانے کی آواز کے سوا کچھ نہیں سمجھتا یہ بہرے، گونگے، اندھے ہیں ایسے لوگ کبھی عقل سے کام نہیں لیتے۔ (البقرۃ : ١٧١) یہاں یہ ارشاد ہوا ہے کیا ان کے باپ دادا کو شیطان جہنم کے عذاب کی طرف بلاتا رہا اور وہ جہنم کے راستے پر ہی چلتے رہے اس کے باوجود یہ لوگ اپنے باپ، دادا کے طریقے پر چلتے رہیں گے ؟ اس فرمان میں سمجھانا مقصود یہ ہے کہ دانشمندی کا تقاضا اور جہنم کے راستے سے بچنے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ رہنمائی کے مطابق زندگی بسر کرے۔ کسی اور کے پیچھے نہ چلے۔ مسائل ١۔ اکثر لوگ بلا دلیل اپنے آباء و اجداد کی پیروی کرتے ہیں۔ ٢۔ شیطان انسان کو جہنم کے راستے کی دعوت دیتا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واذا قیل لھم ۔۔۔۔۔۔ علیہ اباءنا (31: 21) ” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ پیروی کرو اس چیز کی جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اس چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا “۔ یہ ہے ان کی واحد دلیل جو وہ اپنے رویے پر پیش کرسکتے ہیں ۔ یہ بھی عجیب دلیل ہے ۔ پتھر جیسی جامد تقلید ، جو نہ علم پر مبنی ہے ، نہ کسی نظریہ پر مبنی ہے ۔ یہی وہ تقلید ہے جس سے اسلام انسانیت کو چھڑانا چاہتا ہے ۔ ان کی عقل کو آزادی دیتا ہے کہ وہ آزادانہ غور دفکر کریں اور انسان کے اندر بیداری ، حرکت اور روشنی پھیلانا چاہتا ہے لیکن انسان ہیں کہ وہ اپنے ماضی کے آثار سے منحرف ہوگئے ہیں اور مویشیوں کی طرح اپنے آپ کو ایک ستون سے باندھا ہوا ہے اور بیڑیاں ازخود پہن رکھی ہیں ۔ اسلام تو دراصل ضمیر کی مزیت اور شعور کی مزیت کا نام ہے ۔ وہ نور کی تلاش میں آگے بڑھتا ہے ۔ وہ زندگی کا ایسا نظام ہے جس میں کوئی تقلید اور کوئی غلامی اور جمود نہیں ہے ۔ لیکن انسوس ہے کہ یہ لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اور اپنی روح سے اس آزادی کو پرے پھینکتے ہیں اور اللہ کے بارے میں بغیر کسی ہدایت اور بغیر کسی کتاب منیر کے مجادلہ کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اب ان کے ساتھ مذاق کیا جاتا ہے اور ان کے موقف کی ایک خفیہ خطر ناکی بیان کو دی جاتی ہے ۔ اولو کان ۔۔۔۔۔ عذاب السعیر (31: 21) ” کیا یہ انہی کی پیروی کریں گے خواہ شیطان انیں بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف کیوں نہ بلاتاہو “۔ انہوں نے جو یہ موقف اختیار کو کررکھا ہے تو وہ شیطان کی دعوت پر اختیارکر رکھا ہے تاکہ وہ انہیں جہنم کی آگ تک پہنچادے ۔ تو سوال یہ ہے کہ اگر شیطان انہیں جہنم کی طرف لے جارہا ہے تو پھر بھی یہ اس کی تقلید کریں گے ۔ یہ نہایت ہی احساس دلانے والی چٹکی ہے ۔ نہایت ہی بیدار کرنے والی اور ڈرانے والی ۔ خصوصاً اس عظیم کائنات دلیل کے بعد ۔ اس ہٹ دھرمی پر مبنی جدہل اور یہ دلیل جھگڑے کے حوالے سے ۔ اب ان کو بتایا جاتا ہے کہ ان کے لیے مناسب طرز عمل کیا ہے اور اس کائناتی دلیل اور اللہ کے وسیع انعامات کے بعد انہیں کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہئے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ جس ذات پاک نے یہ نعمتیں دی ہیں صرف اسی کی عبادت کی جائے لیکن بعض لوگ توحید کے بارے میں جھگڑتے ہیں، اللہ تعالیٰ کو معبود حقیقی ماننے کو تیار نہیں نہ ان کے پاس علم ہے نہ ہدایت ہے نہ کوئی اللہ تعالیٰ کی نازل فرمودہ کتاب ہے جس کی روشنی میں کوئی بات کرتے، محض باپ دادوں کی اندھی تقلید کر رکھی ہے۔ جب انہیں توحید کی دعوت دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نازل فرمایا ہے اس کا اتباع کرو تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے جس دین پر اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اسی کا اتباع کرتے رہیں گے ان لوگوں کی جہالت اور حماقت پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا (اَوَلَوْ کَان الشَّیْطٰنُ یَدْعُوْھُمْ اِلٰی عَذَاب السَّعِیْرِ ) (کیا یہ لوگ اپنے باپ دادوں کا اتباع کرتے رہیں گے اگرچہ ان لوگوں کو شیطان دوزخ کے عذاب کی طرف بلاتا ہو) اور وہ اس کی دعوت کو قبول کرکے (جو شرک اور کفر کی دعوت ہے) دوزخ میں جاچکے ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ ہوش گوش سے کام لو، دنیاوی نقصان اور خسران کے بارے میں تو کسی کا اتباع کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور صاف کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص کنویں میں گرنے لگے تو ہم کیوں گریں، لیکن باپ دادوں کی تقلید کرکے دوزخ کے دائمی عذاب میں جانے کو تیار ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ واذا قیل الخ، یہ شکوہ ہے اور جب ان مشرکین سے کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نور ہدایت نازل فرمایا اس کی پیروی کرو اور اسے مان لو تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو اپنے باپ دادا کے دین پر ہی چلیں گے۔ اولو کان الشیطان الخ۔ اس کا معطوف علیہ مقدر ہے ای ایتبعونہم ولو کان الشیطان یدعوھم فیما ھم علیہ من الشرک الی عذاب السعیر (ابو السعود ج 6 ص 742) ۔ یہ مشرکین پر انکار و تعجب ہے یعنی اگرچہ شیطان ان کے باپ دادا کو شرک میں مبتلا کر کے جہنم کی طرف بلاتا رہا ہو تو کیا پھر بھی وہ انہی کے دین پر چلیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

21۔ اور جب اس قسم کے جھگڑا لوافراد سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے اس کی پیروی اور اتباع کرو تو یہ کہتے ہیں کہ ہرگز نہیں بلکہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے۔ اور اس طریقہ کار کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے بڑوں کو پایا ہے بھلا کیا اگر شیطان ان کے بڑوں کو دوزخ کے عذاب کیط رف بلاتا رہا ہو تب بھی یہ انہی کی پیروی کریں گے۔ یعنی جب کبھی ان کو ما انزل اللہ کی دعوت دی جاتی ہے تو انکار کرتے ہیں اور اپنے بڑوں کو کورا نہ تقلید اور ان کے غلط راستوں کی پیروی کرنے پر اصرار کرتے ہیں یعنی دلیل کی طرف نہیں آتے اور بلا دلیل بڑوں کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ حضرت حق تعالیٰ فرماتا ہے اگر شیطان ان کے بڑوں کو عذاب سعیر کی طرف بلاتا رہا ہو تب بھی وہ انہی کا اتباع کریں گے۔ عذاب سعیر کا سبب ہے گمراہی تو مطلب یہ ہے کہ گمراہی کی طرف شیطان ان کے بڑوں کو بلاتا رہا تب بھی یہ ان شیطان کے ماروں کی پیروی کرتے رہیں گے۔ سعیر دہکتی ہوئی آگ کو کہتے ہیں مراد اس سے جہنم ہے۔