Surat Luqman

Surah: 31

Verse: 22

سورة لقمان

وَ مَنۡ یُّسۡلِمۡ وَجۡہَہٗۤ اِلَی اللّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ عَاقِبَۃُ الۡاُمُوۡرِ ﴿۲۲﴾

And whoever submits his face to Allah while he is a doer of good - then he has grasped the most trustworthy handhold. And to Allah will be the outcome of [all] matters.

اور جو ( شخص ) اپنے آپ کو اللہ کے تابع کر دے اور ہو بھی وہ نیکوکار یقیناً اس نے مضبوط کڑا تھام لیا تمام کاموں کا انجام اللہ کی طرف ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says: وَمَن يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ ... And whosoever submits his face (himself) to Allah, Allah tells us that whoever submits his face to Allah, i.e., does deeds sincerely for His sake, submits to His commandments and follows His Laws, ... وَهُوَ مُحْسِنٌ ... while he is a Muhsin, i.e., doing what his Lord has commanded and abstaining from what He has ... forbidden, ... فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى ... then he has grasped the most trustworthy handhold. means, he has received a firm promise from Allah that He will not punish him. ... وَإِلَى اللَّهِ عَاقِبَةُ الاْإُمُورِ And to Allah return all matters for decision.   Show more

مضوبوط دستاویز فرماتا ہے کہ جو اپنے عمل میں اخلاص پیدا کرے جو اللہ کا سچافرمانبردار بن جائے جو شریعت کا تابعدار ہوجائے اللہ کے حکموں پر عمل کرے اللہ کے منع کردہ کاموں سے باز آجائے اس نے مضبوط دستاویز حاصل کرلی گویا اللہ کا وعدہ لے لیا کہ عذابوں میں وہ نجات یافتہ ہے ۔ کاموں کا انجام اللہ کے ہاتھ ہ... ے ۔ اے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے کفر سے آپ غمگین نہ ہوں ۔ اللہ کی تحریر یونہی جاری ہوچکی ہے سب کالوٹنا اللہ کی طرف ہے ۔ اس وقت اعمال کے بدلے ملیں گے اس اللہ پر کوئی بات پوشیدہ نہیں ۔ دنیا میں مزے کرلیں پھر تو ان عذابوں کو بےبسی سے برداشت کرنا پڑے گا جو بہت سخت اور نہایت گھبراہٹ والے ہیں جیسے اور آیت میں ہے ( قُلْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ 69؀ ) 10- یونس:69 ) اللہ پر جھوٹ افترا کرنے والے فلاح سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ دنیا کا فائدہ تو خیر الگ چیز ہے لیکن ہمارے ہاں ( موت کے بعد ) آنے کے بعد تو اپنے کفر کی سخت سزا بھگتنی پڑے گی ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

221یعنی صرف اللہ کی رضا کے لئے عمل کرے اس کے حکم کی اطاعت اور اس کی شریعت کی پیروی کرے۔ 222یعنی ما مور بہ چیزوں کا اتباع اور منہیات کو ترک کرنے والا۔ 223یعنی اللہ سے اس نے مضبوط عہد لے لیا کہ وہ اس کو عذاب نہیں کرے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٠] مضبوط حلقہ کی تعریف اللہ تعالیٰ نے خود ہی بیان کردی۔ یعنی جو شخص اللہ کے احکام کے سامنے سر تسلیم ختم کر دے اور پھر اس کے احکام کے مطابق نیک اعمال بھی بجا لائے گویا اس میں ساری شریعت آگئی۔ اس شریعت پر عمل پیرا ہونا ہی ایسے مضبوط حلقے یا کڑے کو تھامنا ہے۔ جو اپنی مضبوطی کی وجہ ٹوٹنے والا نہیں۔ ل... ہذا جو شخص اسے مضبوطی سے پکڑے رکھے گا اس کو نہ گر پڑنے کا خطرہ ہے اور نہ کہیں چوٹ لگ جانے کا۔ پھر اسی حلقہ کو تھامے ہوئے وہ بالآخر اللہ تک پہنچ جائے گا۔ جب تے وہ یہ حلقہ کو تھامے رہے گا، شیطان نہ اسے دھوکا دے سکے گا نہ گمراہ کرسکے گا یا دوسری راہ پر ڈال سکے گا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ يُّسْلِمْ وَجْهَهٗٓ اِلَى اللّٰهِ ۔۔ : اس سے پہلے ان لوگوں کا ذکر ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی علم، ہدایت یا کتاب منیر کے بغیر جھگڑتے ہیں۔ اب ان کے مقابلے میں اس شخص کا ذکر ہے جو اپنے چہرے یعنی اپنے آپ کو پوری طرح اللہ تعالیٰ کے سپرد اور اس کے حوالے کردیتا ہے۔ اپنا ہر عمل صرف اس کی ر... ضا کے لیے کرتا ہے۔ جو وہ کہے کرتا ہے، جس سے روک دے رک جاتا ہے۔ نہ اپنی خواہش پر چلتا ہے نہ کسی دوست یا رشتہ دار کے پیچھے چلتا ہے اور نہ آبا و اجداد میں سے کسی کی راہ و رسم اختیار کرتا ہے۔ اس کی نماز، قربانی، زندگی اور موت سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، فرمایا : (قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ) [ الأنعام : ١٦٢ ] ” کہہ دے بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔ “ آیت میں چہرے کو اللہ کے حوالے کرنے کا ذکر ہے، مراد پورے وجود کو اللہ کے حوالے کرنا ہے۔ کیونکہ چہرہ جسم کا سب سے باشرف حصہ ہے، اس کے تابع ہونے سے پورا وجود تابع ہوجاتا ہے۔ وَهُوَ مُحْسِنٌ : اور وہ اپنا ہر عمل اس طرح کرتا ہے گویا وہ اپنے رب کو دیکھ رہا ہے۔ سو اگر وہ اسے نہیں دیکھتا تو اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے اور وہ ہر عمل میں اللہ کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے پر چلتا ہے۔ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى : ” أَمْسَکَ یُمْسِکُ إِمْسَاکًا “ تھامنا، پکڑنا۔ ” استمسک “ میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے مبالغہ ہے، یعنی ” اچھی طرح پکڑ لیا۔ “ ” اَلْعُرْوَۃُ “ کڑا یا حلقہ یا رسی کا کنارا جسے لٹکتے ہوئے گرنے سے بچنے کے لیے پکڑ لیا جائے اور ” الوثقی “ ” أَوْثَقُ “ کا مؤنث ہے ” سب سے مضبوط۔ “ یعنی اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردینے والا یہ وہ شخص ہے جس نے اسلام کی رسی کے مضبوط حلقے کو اچھی طرح تھام لیا ہے۔ اسے بلندی سے پستی میں یا جہنم میں گرنے کا کوئی خطرہ نہیں۔ شیطان اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور اسی حلقے کو تھامے ہوئے آخرکار وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچ جائے گا اور اس کی جنت کا وارث بن جائے گا۔ بخلاف ان لوگوں کے جو کسی علم، ہدایت یا کتاب منیر کے بغیر جھگڑتے ہیں کہ انھوں نے اپنی عمارت کی بنیاد ایک گرنے والے کھوکھلے تودے کے کنارے پر رکھی ہے، جو انھیں لے کر جہنم کی آگ میں گرنے والا ہے۔ دیکھیے سورة توبہ (١٠٩) ۔ وَاِلَى اللّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ : ” الی اللہ “ کو پہلے لانے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا کہ تمام کاموں کا انجام اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے، کسی اور کی طرف نہیں، وہی ہر کام کی جزا دے گا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ يُّسْلِمْ وَجْہَہٗٓ اِلَى اللہِ وَہُوَمُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۝ ٠ ۭ وَاِلَى اللہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۝ ٢٢ وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ ... فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔ مسك إمساک الشیء : التعلّق به وحفظه . قال تعالی: فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] ، وقال : وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج/ 65] ، أي : يحفظها، واستمسَكْتُ بالشیء : إذا تحرّيت الإمساک . قال تعالی: فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف/ 43] ، وقال : أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف/ 21] ، ويقال : تمَسَّكْتُ به ومسکت به، قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة/ 10] . يقال : أَمْسَكْتُ عنه كذا، أي : منعته . قال : هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر/ 38] ، وكنّي عن البخل بالإمساک . والمُسْكَةُ من الطعام والشراب : ما يُمْسِكُ الرّمقَ ، والمَسَكُ : الذَّبْلُ المشدود علی المعصم، والمَسْكُ : الجِلْدُ الممسکُ للبدن . ( م س ک ) امسک الشئی کے منعی کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاطت کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] پھر ( عورت کو ) یا تو بطریق شاہستہ نکاح میں رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھور دینا ہے ۔ وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج/ 65] اور وہ آسمان کو تھا مے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے ۔ استمسکت اشئی کے معنی کسی چیز کو پکڑنے اور تھامنے کا ارداہ کرنا کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف/ 43] پس تمہاری طرف جو وحی کی گئی ہے اسے مضبوط پکرے رہو ۔ أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف/ 21] یا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی تو یہ اس سے ( سند ) پکڑتے ہیں ۔ محاورہ ہے : ۔ کیس چیز کو پکڑنا اور تھام لینا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة/ 10] اور کافر عورتوں کی ناموس قبضے میں نہ رکھو ( یعنی کفار کو واپس دے دو ۔ امسکت عنہ کذا کسی سے کوئی چیز روک لینا قرآن میں ہے : ۔ هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر/ 38] تو وہ اس کی مہر بانی کو روک سکتے ہیں ۔ اور کنایہ کے طور پر امساک بمعنی بخل بھی آتا ہے اور مسلۃ من الطعام واشراب اس قدر کھانے یا پینے کو کہتے ہیں جس سے سد رہق ہوسکے ۔ المسک ( چوڑا ) ہاتھی دانت کا بنا ہوا زبور جو عورتیں کلائی میں پہنتی ہیں المسک کھال جو بدن کے دھا نچہ کو تھا مے رہتی ہے ۔ عُرْوَةُ والعُرْوَةُ : ما يتعلّق به من عُرَاهُ. أي : ناحیته . قال تعالی: فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقى [ البقرة/ 256] ، وذلک علی سبیل التّمثیل . والعُرْوَةُ أيضا : شجرةٌ يتعلّق بها الإبل، ويقال لها : عُرْوَةٌ وعَلْقَةٌ. والعَرِيُّ والعَرِيَّةُ : ما يَعْرُو من الرّيح الباردة، والنّخلةُ العَرِيَّةُ : ما يُعْرَى عن البیع ويعزل، وقیل : هي التي يُعْرِيهَا صاحبها محتاجا، فجعل ثمرتها له ورخّص أن يبتاع بتمر «1» لموضع الحاجة، وقیل : هي النّخلة للرّجل وسط نخیل کثيرة لغیره، فيتأذّى به صاحب الکثير «2» ، فرخّص له أن يبتاع ثمرته بتمر، والجمیع العَرَايَا . «ورخّص رسول اللہ صلّى اللہ عليه وسلم في بيع العَرَايَا» «3» . العروۃ ۔ ہر وہ چیز جسے پکڑ کر کوئی لٹک جائے اور آیت کریمہ : فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقى[ البقرة/ 256] تو اس نے مضبوط حلقہ ہاتھ میں پکڑا ۔ میں ( ایمان باللہ کو ) بطور تمثیل کے ، ، مضبوط حلقہ ، ، ، سے تعبیر فرمایا ہے ۔ نیز عروۃ یا علقہ ایک قسم ( کی ) خار دار جھاڑی یا پیلو کی قسم ) کے درخت کو بھی کہتے ہیں جو اونٹوں کے لئے آخری سہارا ہوتا ہے العری والعریۃ سرد ہوا انسان کو لگ جاتی ہے ۔ نیز العریۃ کھجور کا وہ درخت جو بیع سے مستثنیٰ کیا گیا ہو ۔ بعض کہتے ہیں کہ عریۃ کھجور کے اس درخت کو کہتے ہیں جس کا پھل اس کے مالک نے کسی محتاج کو ہبہ کردیا ہو شرعا اس درخت کے پھل کو خشک کھجوروں کے عوض بیچنا جائز ہے بعض کہتے ہیں کہ عربیۃ کھجور کے اس درخت کو کہتے ہیں جو کسی آدمی کے باغ میں دوسرے کی ملکیت ہو اور اس کے آنے جانے سے باغ کے مالک کو تکلیف ہوتی ہو تو شریعت نے خشک کھجوروں کے عوض ا س کا پھل خریدنے کی اجازت دی ہے ۔ اس کی جمع عرایا ہے اور آنحضرت نے بیع عرایا کی رخصت دی ہے ۔ وثق وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] والمِيثاقُ : عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب/ 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] ( و ث ق ) وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔ حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔ المیثاق کے معنی پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔ الموثق ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔ عاقب والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] ، ( ع ق ب ) العاقب اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جو شخص اپنے دین و عمل کو خالص اللہ تعالیٰ کے لیے کرے اور وہ موحد و مخلص بھی ہو تو اس نے کلمہ لا الہ الا اللہ کا بڑا مضبوط حلقہ تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔ اور آخر سب کاموں کا کہ جن پر انسان مرتے ہیں آخرت میں اللہ ہی کی طرف پہنچے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ط) ” اَلْعُرْوَۃُ الْوُثْقٰی (مضبوط کنڈا یا حلقہ ) سے مراد اللہ کا تعلق اور اس کا سہارا ہے۔ اس مضبوط سہارے کو تھامنے کا ذکر اس سے پہلے سورة البقرۃ کی آیت ٢٥٦ میں اس طرح آیا ہے : (فَمَنْ یَّکْفُرْ بالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْم باللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بالْ... عُرْوَۃِ الْوُثْقٰیق لاَ انْفِصَامَ لَھَا ط) ” اور جو کوئی انکار کرے طاغوت کا اور ایمان لائے اللہ پر اس نے تو ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

40 "Whoever........Allah": Who submits himself wholly to the service of AIIah, entrusts alI his affairs to Him and makes His Guidance the law of his entire life. 41 That is, practically also he should adopt the attitude of an obedient servant of Allah. 42 That is, 'He will neither have the apprehension that he will be misguided, nor the fear that he will meet an evil end after having served Alla... h."  Show more

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :40 یعنی پوری طرح اپنے آپ کو اللہ کی بندگی میں دے دے ۔ اپنی کوئی چیز اس کی بندگی سے مستثنیٰ کر کے نہ رکھے ۔ اپنے سارے معاملات اس کے سپرد کر دے اور اسی کی دی ہوئی ہدایات کو اپنی پوری زندگی کا قانون بنائے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :41 یعنی ایسا نہ ہو کہ زبان سے تو وہ ... حوالگی و سپردگی کا اعلان کر دے مگر عملاً وہ رویہ اختیار نہ کرے جو خدا کے ایک مطیع فرمان بندے کا ہونا چاہیے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :42 یعنی نہ اس کو اس بات کا کوئی خطرہ کہ اسے غلط رہنمائی ملے گی ، نہ اس بات کا کوئی اندیشہ کہ خدا کی بندگی کر کے اس کا انجام خراب ہوگا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(31:22) من یسلم : من شرطیہ ہے۔ جو تابع کر دے۔ یسلم مضارع مجزوم بالشرط۔ اسلام مصدر۔ یہاں اسلام بمعنی تفویض ہے یعنی اپنے تمام امور کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کردینا۔ یعنی قضا و قدر الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کر دے جیسا کہ اور جگہ ہے اذ قال لہ ربہ اسلم قال اسلمت لرب العلمین۔ (2:121) جب اس سے اس کے پرورد... گار نے کہا کہ جھک جاؤ تو اس نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرتسلیم خم کرتا ہوں۔ ومن یسلم وجھہ الی اللہ اور جو اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردے۔ یعنی جو اپنے تمام امور اس کو تفویض کردے۔ وھو محسن۔ جملہ حالیہ ہے۔ درآں حالیکہ وہ محسن ہو۔ محسن احسان سے اسم فاعل واحد مذکر ہے۔ فریضہ سے زیادہ ادا کرنے والا۔ ہر قسم کی خوبی پیدا کرنے والا۔ احسان کی تعریف حدیث جبرئیل میں ہے الاحسان ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک۔ یعنی احسان اس کیفیت کو کہتے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرو گویا تم اس کے نور جمال کا مشاہدہ کر رہے ہو اور اگر تمہاری اس منزل پر رسائی نہیں تو کم از کم اتنا تصور تو پختہ ہو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ (ضیاء القرآن) فقد استمسک میں فاء جواب شرط کے لئے ہے۔ استمسک ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب استتمساک (استفعال) مصدر۔ کسی چیز کو پکڑنا اور تھامے رکھنا۔ پس اس نے مضبوطی سے پکڑ لیا۔ یا تھام لیا۔ العروۃ الوثقی۔ موصوف وصفت۔ العروۃ ہر وہ چیز جسے پکڑ کر کوئی لٹک جائے کڑا۔ حلقہ۔ کسی چیز کا قبضہ یا دستہ۔ اس کی جمع عری ہے۔ عرو یا عری مادہ۔ اس مادہ سے مختلف مشتقات مختلف معانی میں آئے ہیں۔ الوثقی۔ اسم تفضیل کا صیغہ واحد مؤنث ہے الاوثق واحد وثاقۃ مصدر (باب کرم) بمعنی بہت مضبوط۔ العروۃ الوثقی بہت مضبوط حلقہ یا کڑا۔ مطلب یہ ہے کہ جس نے قضا و قدر الٰہی کے سامنے سرتسلیم خم کردیا ۔ اور اپنے قلبن و قالب کو اس کے احکام کے آگے سرافگندہ کردیا۔ اور حسن عمل سے اس کی تائید بھی کی گویا اس نے ایک نہایت مضبوط حلقہ کو پکڑ لیا۔ اور تھام لیا۔ جس کے ٹوٹنے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ دوسری جگہ فرمایا :۔ فمن یکفر بالطاغوت ویؤمن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقی (2:256) تو جو کوئی طاغوت سے کفر کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے اس نے ایک بڑا مضبوط حلقہ تھام لیا۔ عاقبۃ الامور۔ مضاف مضاف الیہ۔ تمام کاموں کا انجام۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی ایمان اور عمل صالح اختیار کرے عمل میں احسان یہ ہے کہ عمل خلاص اللہ تعالیٰ کے لئے ہو یعنی ریا کاری سے پاک ہو اور پھر شریعت کی ہدایت کے مطابق ہو۔ (دیکھیے سورة بقرہ 112)11 جس کے بعد اسے بھٹکنے اور انجام بد سے دوچار ہونے کا کوء خطرہ نہیں۔12 ووہی ان کا بدلہ دے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ یعنی محض ظاہری اسلام نہ ہو۔ 9۔ یعنی وہ اس شخص کے مشابہ ہوگیا جو کسی مضبوط رسی کا حلقہ تھام کر گرنے سے مامون رہتا ہے، اسی طرح یہ شخص ہلاکت و خسران سے محفوظ ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آباؤ اجداد کی تقلید اور ادھر ادھر دینے کی بجائے آدمی کو اپنے رب کا فرمانبردار ہونا چاہیے۔ قرآن وسنت کے دلائل سے بےاعتنائی کرنا اور مذہبی رسومات یا خاندانی روایات کا لحاظ رکھتے ہوئے آباء و اجداد کی ڈگر پر چلنا حقیقت میں شیطان کی پیروی کرنا ہے۔ شیطان انسان کو جہنم میں لے جانا چا... ہتا ہے جہنم سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے چہرے کو اللہ کے حوالے کرے اور نیک کام کرتا رہے۔ جس نے اس فکر وعمل کو اپنالیا گویا کہ اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جس کا ٹوٹنا نا ممکنات میں سے ہے۔ انسان کو یقین رکھنا چاہیے کہ تمام کاموں کا انجام اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس بات کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے کہ اے صاحب ایمان لوگو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جس طرح اس سے ڈرنا چاہیے یہاں تک کہ تمہیں موت بھی اس کی تابعداری میں آئے اللہ کی رسی کو سب مل کر تھامے رکھو اور آپس میں تفریق پیدا نہ کرو (البقرہ : ١٠٢، ١٠٣) ” العُرْوَۃِ الْوُثْقٰی “ کا معنٰی مضبوط کڑا ہے جسے ” حَبْلُ اللّٰہ “ بھی کہا گیا ہے۔ آدمی جب گرنے یا ڈوبنے لگتا ہے تو وہ کسی نہ کسی چیز کو تھامنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ گرنے اور ڈوبنے سے بچ جائے اگر اس کا ہاتھ مضبوط کڑے ( Ring) کو پڑجائے تو اسے یقین ہوجاتا ہے کہ وہ گرنے سے بچ جائے گا۔ یہی حقیقی ایمان کا فائدہ ہے۔ کہ جس آدمی کا اپنے رب پر سچا اور پکا ایمان ہو تو وہ کسی صورت بھی کفر و شرک کے گڑھے میں نہیں گرتا اس فرمان سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو اپنا ایمان اللہ تعالیٰ پر مضبوط سے مضبوط رکھنا چاہیے۔ ایسا شخص ہر حال میں اپنے رب پر راضی رہتا اور اس سے اجر پاتا ہے۔ اپنے چہرے کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رکھنے یا حوالے کرنے کا معنٰی پوری طرح اس کی تابعداری کرنا ہے۔ کیونکہ انسان جب کسی راستے پر چلتا ہے تو اس کے چہرے کا رخ بھی اسی طرف ہوتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی بات کا حکم دیا گیا۔ (فَاَقِمْ وَجْھَکَ للدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْن) [ الروم : ٣٠] ” اے نبی یک سو ہو کر اپنا رخ اس دین پر قائم رکھو، وہ فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت بدلی نہیں جاسکتی، یہی مستقل دین ہے، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “ (کِتَاب اللّٰہِ ھُوَحَبْلُ اللّٰہِ اَلْمَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْضِ ) [ جامع الصغیر للألبانی ] ” اللہ کی کتاب ہی اللہ کی رسّی ہے جو آسمان سے زمین کی طرف لٹکائی گئی ہے۔ “ (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ )[ رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر ] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کے معاملات عجیب ہیں۔ اس کے تمام معاملات میں خیر ہے اور یہ صرف مومن کے لیے ہے اگر اس کو آسانی ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یہ اسکے لیے بہتر ہے اور اگر اسے تکلیف آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔ “ مسائل ١۔ انسان کو ہر حال میں اپنی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف رکھنا چاہیے۔ ٢۔ انسان کو ہر حال میں نیکی کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ٣۔ کتاب اللہ کے ساتھ تمسّک کرنے والا ہی آخرت میں کامیاب رہے گا۔ تفسیر بالقرآن محسن کے اوصاف : ١۔ اللہ کے سامنے جھک جانے والامحسن ہے۔ (لقمان : ٢٢) ٢۔ بیشک اللہ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (یوسف : ٩٠) ٣۔ صبر کرو اللہ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ ( ھود : ١١٥) ٤۔ اللہ کی رحمت محسنین کے قریب ہوا کرتی ہے۔ (الاعراف : ٥٦) ٥۔ ہم تمہارے گناہ مٹا دیں گے اور عنقریب ہم محسنین کو زیادہ عطا کریں گے۔ (البقرۃ : ٥٨) ٦۔ احسان کرو یقیناً اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (البقرۃ : ١٩٥) ٧۔ انہیں معاف کیجیے اور در گزر کیجیے یقیناً اللہ محسنین کو پسند فرماتا ہے۔ (المائدۃ : ١٣)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ومن یسلم ۔۔۔۔۔ واقبۃ الامور (22) ” “۔ یعنی پوری طرح اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کردینا اور اس کے ساتھ حسن عمل اور حسن سلوک کو اپنانا ، یعنی مکمل سپردگی اور اللہ کے فیصلوں پر پوری طرح راضی ہونا ، اللہ کے احکام ، ہدایات اور فرائض میں رنگ جانا ، اس شعور اور یقین کے ساتھ کہ اللہ کی رحمت ہمارے شامل حال ہے...  اور اللہ ہر وقت نگہبان ہے ۔ اس کا وجد ان اللہ کی رضا مند کو پاتا ہو اور وہ اس سپر دگی میں اپنے ساتھ پوری کا ئنات کو سربسجود سمجھتا ہو ۔ یہ سب اشارات اپنے چہرے کو اللہ کے حوالے کرنے کے لفظ کے اندر موجود ہیں ۔ چہرہ دراصل نہایت ہی مکرم حصہ ہے وجود انسانی کا ۔ ومن یسلم وجھہ ۔۔۔۔۔۔ بالعروۃ الوثقٰی (31: 22) ” جو شخص اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کردے اور عملاً وہ نیک ہو ، اس نے فی الواقع ایک بھروسے کے قابل سہارا تھام لیا “۔ یعنی وہ رسی جو نہیں کٹتی۔ جو کبھی ڈھیلی نہیں پڑتی۔ جو کچھ اس شخص کو دھوکہ نہیں دیتی جو اسے پکڑتا ہے۔ مراد وہ سہارا ہے جسے اسنان تھام لیتا ہے یعنی جو شخص اللہ کے سپرد ہوجائے وہ سمجھے کہ وہ مشکل ترین حالات میں ، تاریک راتوں میں ، سخت مشکلات میں ، سخت آندھیوں میں ، کبھی بےسہارا نہ ہوگا۔ یہ مضبوط سہارا وہ یقین ہے اور وہ گہرا رابطہ ہے جو بندہ مومن اور اس کے رب کے درمیان ہوا کرتا ہے۔ ایسا شخص ہر حال میں مطمئن ہوتا ہے اور اس پر جو مشکلات بھی آئیں وہ انہیں برداشت کرتا ہے۔ نہایت اطمینان اور نہایت وقار کے ساتھ۔ بڑے بڑے واقعات اور حادثات میں وہ باوقار رہتا ہے اور مشکلات کو برداشت کرتا ہے۔ نیز وہ اگر خوشحال ہوتا ہے تو بھی وہ آپے سے باہر نہیں ہوتا اور اعتدال اور سنجیدگی کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ اسی طرح اگر اس پر اچانک کوئی بحران آجائے تو وہ حواس باختہ نہیں ہوتا اور نہ خدا کے راستے میں آنے والی گوناگوں مشکلات میں پریشان ہوتا ہے۔ دعوت اسلامی کا سفر طویل اور خطرات سے پر ہے۔ اس میں محرومیوں اور مشکلات بھی خطرناک ہوتی ہیں لیکن خوشحالی اور مالداری اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔ مصیبت بھی آزمائش اور عافیت بھی آزمائش۔ لہٰذا ایسے سہارے کی اس راہ میں ہر وقت ضرورت ہوتی ہے جو کبھی ڈھیلا نہ ہو۔ ایسی رسی کی ضرورت ہوتی ہے جو ٹوٹ نہ جائے اور یہ ضرورت ہر وقت رہتی ہے۔ یعنی مضبوط سہارے کی اور یہ مضبوط سہارا کیا ہے ؟ اسلام لانا ، اللہ پر یقین کرنا ، اس کے سپرد ہوجانا اور راہ احسان اختیار کرنا۔ پھر انجام اللہ کے ہاتھ میں دے دینا۔ والی اللہ عاقبۃ الامور (31: 22) ” اور سہارے معاملات کا آخری فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے “۔ یعنی اسی کی طرف لوٹنا ہے اور آخری مرجع وہی ہے تو مناسب ہے کہ انسان پہلے سے اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دے اور اس کی طرف نہایت روشن اعتماد اور قرآن و سنت کی ہدایت کے مطابق راستے طے کرتا رہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل شرک اور اہل کفر کی حمایت اور ضلالت بتانے کے بعد اہل ایمان کی تعریف فرمائی اور فرمایا (وَمَنْ یُّسْلِمْ وَجْھَہٗٓ اِلَی اللّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی) (اور جو شخص اپنی ذات کو اللہ کا فرمانبردار بنا دے اور وہ مخلص بھی ہو تو اس نے مضبوط کڑے کو اچھی طرح سے پکڑ لی... ا) یعنی جس نے اپنے جسم اور جان کو اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بنا دیا (عقائد میں بھی اعمال میں بھی) اور اس کی یہ فرمانبرداری اخلاص کے ساتھ ہے، ظاہر اور باطن دونوں یکساں ہیں تو اس نے بڑے مضبوط کڑے کو پکڑ لیا، یعنی ایسے دین کو اختیار کیا جو ہلاکت و خسران اور تباہی سے پوری طرح محفوظ ہونے کا سبب بن گیا اور اس کی وجہ سے وہ دارالعذاب یعنی دوزخ میں جانے سے بچ گیا اور اس نے جو دین اختیار کیا یہ دین اسے دارالنعیم یعنی جنت میں لے جانے کا ضامن بن گیا۔ دین توحید مضبوط حلقہ ہے جو ٹوٹنے والا نہیں ہے، جیسا کہ سورة بقرہ میں (لاَ انْفِصَامَ لَھَا) فرمایا ہے۔ (وَاِلَی اللّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ ) (اور اللہ ہی کی طرف سب کاموں کا انجام ہے) یعنی حق کا اتباع کرنے والے اور باطل کے ماننے والے اور ان کے اعمال سب ہی اس کے حضور پیش ہوں گے وہ سب کو ان کے عقائد و اعمال کے مطابق جزا سزا دے گا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ ومن یسلم الخ، محسنین کے لیے بشارت اخروی ہے یعنی باپ دادا کی اندھادھند پیروی سے آخرت میں نجات نہیں ہوگی بلکہ فلاح و نجات نیک روسی سے ملے گی۔ جس شخص نے اپنے تمام امور کو اللہ کے سپرد کردیا اور اپنے ارادوں سے دستبردار ہوگیا۔ وھو محسن اور وہ تمام اعمال میں مخلص اور رضا الٰہی کا طالب ہو تو اس نے سب ... سے مضبوط کڑی کو پکڑ لیا۔ بس فلاح و نجات ایسے محسنین کے لیے ہے۔ والی اللہ عاقبۃ الامور تمام معاملات اللہ کے سپرد ہیں وہی ہر چیز میں متصرف ہے اور ہر چیز کا انجام بھی اسی کے اختیار میں ہے اس لیے اس کے سوا کوئی متصرف و مختار نہیں۔ تقدیم ظرف حصر کیلئے ہے۔ و تقدیم (الی اللہ) للحصر ردا علی الکفرۃ فی زعمھم مرجعیۃ الہتھم لبعض الامور (روح ج 21 ص 95) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

22۔ اور جس شخص نے اپنا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف کرلیا اور اپنی ذات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا اور وہ شخص مخلص بھی ہے تو اس نے بڑا مضبوط حلقہ اور مستحکم کڑا پکڑ لیا اور سب کاموں کا انجام اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف رح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ فرمانبرداری کی غرض سے اس نے اپنا منہ خ... دا کے سامنے کھ دیا یعنی اسلام قبول کرلیا اور عمل و اعتقاد کو درست کرلیا اور وہ مخلص بھی ہو، یعنی دل سے مسلمان ہو تو گویا اس نے ایک ایسا مضبوط اور پختہ حلقہ کو پکڑ لیا کہ گرنے کا اندیشہ نہ رہا ہر اعتبار سے محفوظ ہوگیا اور اخیر سب کاموں کا اللہ ہی کی طرف ہے وہاں ہر ایک کو اپنے اپنے اعمال کے موافق سزا یا صلہ عطا ہوگا ۔ عروۃ الوثقیٰ کی تفصیل سورة بقرہ کی تسہیل میں گزر چکی ہے۔  Show more