Surat Luqman

Surah: 31

Verse: 26

سورة لقمان

لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡغَنِیُّ الۡحَمِیۡدُ ﴿۲۶﴾

To Allah belongs whatever is in the heavens and earth. Indeed, Allah is the Free of need, the Praiseworthy.

آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے یقیناً اللہ تعالٰی بہت بڑا بے نیاز اور سزاوار حمد و ثنا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ ... To Allah belongs whatsoever is in the heavens and the earth. meaning, He created it and has dominion over it. ... إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ Verily, Allah, He is Al-Ghani, Worthy of all praise. means, He has no need of anyone or anything besides Himself, and everything else is in need of Him. He is Wo... rthy of praise for all that He has created, so praise be to Him in the heavens and on earth for all that He has created and decreed, and He is worthy of praise in all affairs.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

261یعنی ان کا خالق بھی وہی ہے، مالک بھی وہی اور مدبر و متصرف کائنات کا محتاج بھی وہی۔ 262بےنیاز ہے اپنے ماسوائے یعنی ہر چیز اس کی محتاج ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں۔ 263اپنی تمام پیدا کردہ چیزوں میں۔ پس اس نے جو کچھ پیدا کیا اور جو احکام نازل فرمائے، اس پر آسمان و زمین میں سزاوار حمد و ثنا صرف اسی کی ... ذات ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٣] پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت کا ذکر تھا اور اس پہلو سے شرک کے بطلان پر دلیل پیش کی گئی تھی۔ اس آیت میں اللہ کے ہر چیز کا مالک ہونے کا ذکر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کائنات کو پیدا کرکے کہیں علیحدہ نہیں جا بیٹھا۔ بلکہ وہ اس کے سر پر آن موجود ہے۔ وہ ان چیزوں پر کنٹرول رکھے ہوئے ہے۔ ان پر قاب... ض ہے۔ اور جس طرح ان چیزوں میں چاہے تصرف بھی کرسکتا ہے اور کر رہا ہے اور اس کی ساری مخلوق اس کی مملوک بھی ہے۔ کسی مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی اس ملکیت میں سے کسی چیز پر بھی شاہانہ اختیارات حاصا نہیں ہیں۔ بلکہ اگر اللہ نے کوئی چیز کسی کی ملک میں کردی ہے تو وہ اس میں اسی حد تک تصرف کرسکتا ہے یا اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جس حد تک شریعت نے اجازت دے رکھی ہے۔ [ ٣٤] اس جملہ کی تشریح کے لئے اسی سورة کی آیت نمبر ١٢ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔۔ : یہ پہلی آیت ہی کا نتیجہ ہے کہ جب آسمانوں کا اور زمین کا خالق اللہ تعالیٰ ہے تو ظاہر ہے کہ ان کا مالک بھی وہی ہے، اور جب مالک وہ ہے تو ثابت ہوا کہ چیز اپنے وجود اور بقا میں اس کی محتاج ہے اور وہ سب سے غنی ہے، کسی کا محتاج نہیں اور ہر حمد کا مالک ہے۔ دیکھیے...  اسی سورت کی آیت (١٢) ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ ہُوَالْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ۝ ٢٦ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ...  الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ غنی الغِنَى يقال علی ضروب : أحدها : عدم الحاجات، ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] ، الثاني : قلّة الحاجات، وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس» والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ 2 قدرے محتاج ہونا اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جو کچھ آسمان و زمین میں ہے وہ سب اللہ ہی کی ملکیت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ مخلوق سے بےنیاز اور قابل تعریف ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ (لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط) ” لفظ اللہ کے ساتھ یہاں ” لام تملیک “ آیا ہے۔ یعنی آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ کی ملکیت ہے۔ (اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ ) ” وہ بےنیاز ہے ‘ اسے کوئی احتیاج نہیں ‘ وہ خود اپنی ذات میں ستودہ صفات ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

47 This has been explained in E. N. 19 above.

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :46 یعنی حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ زمین اور آسمانوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے بلکہ درحقیقت وہی ان سب چیزوں کا مالک بھی ہے جو زمین و آسمانوں میں پائی جاتی ہیں ۔ اللہ نے اپنی یہ کائنات بنا کر یوں ہی نہیں چھوڑ دی ہے کہ جو چاہے اس کا ، یا اسکے کسی حصے کا مالک بن بیٹھے ۔ اپن... ی خلق کا وہ آپ ہی مالک ہے اور ہر چیز جو اس کائنات میں موجود ہے وہ اس کی ملک ہے ۔ یہاں اس کے سوا کسی کی بھی یہ حیثیت نہیں ہے کہ اسے خداوندانہ اختیارات حاصل ہوں ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :47 اس کی تشریح حاشیہ نمبر ۱۹ میں گزر چکی ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(31:26) الغنی۔ بےنیاز ۔ غیر محتاج۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنی میں سے ہے۔ الحمید۔ حمد سے (فعیل) کے وزن پر صفت مشبہ کا صیغہ ہے اور بمعنی مفعول یعنی محمود ہے۔ ستودہ۔ سراہا ہوا۔ تعریف کیا ہوا۔ سزاوارحمد۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی نہ صرف خلاق ہے بلکہ مالک بھی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ تعریف بھی اسی کی ہے۔ (رازی)4 سب اس کے محتاج اور بےبس بندے ہیں۔ کوئی اس کی تعریف کرے یا نہ کرے۔ وہ بذات خود تعریف کا سزا وار ہے۔ (نیز دیکھیے آیت 12)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25:۔ للہ ما فی السموت الخ، یہ توحید پر چوتھی عقلی دلیل ہے۔ ساری کائنات کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے اور اس کا مالک اور اس میں متصرف بھی وہی ہے اور پھر وہ سب سے بےنیاز بھی اور تمام صفات کمال سے متصف بھی۔ لہذا عبادت اور پکار کے لائق بھی وہی ہے اور کوئی نہیں۔ للہ ما فی السموات والارض خلقا و ملکا و تصرفا ... لیس لاحد سواہ عز وجل استقلالا ولا شرکۃ فلا یستحق العبادۃ فیھما غیرہ سبحانہ وتعالیٰ بوجہ من الوجوہ (روح ج 21 ص 96) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

26۔ جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں موجود ہے سب اللہ تعالیٰ کی ملک اور اسی کی مملوک ہے اور بلا شبہ اللہ تعالیٰ بےنیاز اور تمام خوبیوں والا ہے۔ یہ دوسرے مقدمہ کی تائید اور تقریر ہے کہ مملوک مالک کی الوہیت میں کس طرح حصہ دار ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ نے کسی کا محتاج نہیں اور سب خوبیوں والا ہے آگے خوبیوں ک... ا بیان ہے۔  Show more