Surat Luqman

Surah: 31

Verse: 29

سورة لقمان

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُوۡلِجُ الَّیۡلَ فِی النَّہَارِ وَ یُوۡلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیۡلِ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ۫ کُلٌّ یَّجۡرِیۡۤ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّ اَنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿۲۹﴾

Do you not see that Allah causes the night to enter the day and causes the day to enter the night and has subjected the sun and the moon, each running [its course] for a specified term, and that Allah , with whatever you do, is Acquainted?

کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالٰی رات کو دن میں اور دن کو رات میں کھپا دیتا ہے سورج چاند کو اسی نے فرماں بردار کر رکھا ہے کہ ہر ایک مقررہ وقت تک چلتا رہے اللہ تعالٰی ہر اس چیز سے جو تم کرتے ہو خبردار ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Might and Power of Allah Allah tells us that He Allah says: أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ ... See you not that Allah merges the night into the day, and merges the day into the night, meaning, He takes from the night and adds to the day, so that the day becomes longer and the night shorter, which is what happens in summer when the days are longest; then the day starts to become shorter and the night longer, which is what happens in winter. ... وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى ... and has subjected the sun and the moon, each running its course for a term appointed; It was said that this means, each runs within its set limits, or it means until the Day of Resurrection; both meanings are correct. The first view is supported by the Hadith of Abu Dharr, may Allah be pleased with him, in the Two Sahihs, according to which the Messenger of Allah said: يَا أَبَا ذَرَ أَتَدْرِي أَيْنَ تَذْهَبُ هَذِهِ الشَّمْسُ O Abu Dharr! Do you know where this sun goes? I (Abu Dharr) said: "Allah and His Messenger know best." He said: فَإِنَّهَا تَذْهَبُ فَتَسْجُدُ تَحْتَ الْعَرْشِ ثُمَّ تَسْتَأْذِنُ رَبَّهَا فَيُوشِكُ أَنْ يُقَالَ لَهَا ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِيْت It goes and prostrates beneath the Throne, then it seeks permission from its Lord, and soon it will be said: "Go back from whence you came." Ibn Abi Hatim recorded that Ibn Abbas said, "The sun is like flowing water, running in its course in the sky during the day. When it sets, it travels in its course beneath the earth until it rises in the east." He said, "The same is true in the case of the moon." Its chain of narration is Sahih. ... وَأَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ and that Allah is All-Aware of what you do. This is like the Ayah, أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِى السَّمَأءِ وَالاٌّرْضِ Know you not that Allah knows all that is in the heaven and the earth. (22:70) The meaning is that Allah is the Creator Who knows all things, as He says: اللَّهُ الَّذِى خَلَقَ سَبْعَ سَمَـوَتٍ وَمِنَ الاٌّرْضِ مِثْلَهُنَّ It is Allah Who has created seven heavens and of the earth the like thereof. (65:12)

اس کے سامنے پر چیز حقیر وپست ہے رات کو کچھ گھٹا کر دن کو کچھ بڑھانے والا اور دن کو کچھ گھٹاکر رات کو کچھ بڑھانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ جاڑوں کے دن چھوٹے اور راتیں بڑی گرمیوں کے دن بڑے اور راتیں چھوٹی اسی کی قدرت کا ظہور ہے سورج چاند اسی کے تحت فرمان ہیں ۔ جو جگہ مقرر ہے وہیں چلتے ہیں قیامت تک برابر اسی چال چلتے رہیں گے اپنی جگہ سے ادھر ادھر نہیں ہوسکتے ۔ بخاری ومسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا کہ جانتے ہو یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں ، آپ نے فرمایا یہ جاکر اللہ کے عرش کے نیچے سجدے میں گر پڑتا ہے اور اپنے رب سے اجازت چاہتا ہے قریب ہے کہ ایک دن اس سے کہہ دیا جائے کہ جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ سورج بمنزلہ ساقیہ کے ہے دن کو اپنے دوران میں جاری رہتا ہے غروب ہو کر رات کو پھر زمین کے نیچے گردش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اپنی مشرق سے ہی طلوع ہوتا ہے ۔ اسی طرح چاند بھی ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے خبردار ہے جیسے فرمان ہے کیا تو نہیں جانتا کہ زمین آسمان میں جو کچھ ہے سب اللہ کے علم میں ہے سب کا خالق سب کا عالم اللہ ہی ہے جیسے ارشاد ہے اللہ نے سات آسمان پیدا کئے اور انہی کے مثال زمینیں بنائیں ۔ یہ نشانیاں پروردگار عالم اس لئے ظاہر فرماتا ہے کہ تم ان سے اللہ کے حق وجود پر ایمان لاؤ اور اسکے سوا سب کو باطل مانو ۔ وہ سب سے بےنیاز اور بےپرواہ ہے سب کے سب اس کے محتاج اور اس کے در کے فقیر ہیں ۔ سب اس کی مخلوق اور اس کے غلام ہیں ۔ کسی کو ایک ذرے کے حرکت میں لانے کی قدرت نہیں ۔ گو ساری مخلوق مل کر ارادہ کرلے کہ ایک مکھی پیدا کریں سب عاجز آجائیں گے اور ہرگز اتنی قدرت بھی نہ پائیں گے ۔ وہ سب سے بلند ہے جس پر کوئی چیز نہیں ۔ وہ سب سے بڑا ہے جس کے سامنے کسی کو کوئی بڑائی نہیں ۔ ہر چیز اس کے سامنے حقیر اور پست ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

291یعنی رات کا کچھ حصہ لے کر دن میں شامل کردیتا ہے، جس سے دن بڑا اور رات چھوٹی ہوجاتی ہے جیسے گرمیوں میں ہوتا ہے، اور پھر دن کا کچھ حصہ لے کر رات میں شامل کردیتا ہے، جس سے رات بڑی اور دن چھوٹا ہوجاتا ہے جیسے سردیوں میں ہوتا ہے۔ 292' مقررہ وقت تک ' سے مراد قیامت تک ہے یعنی سورج اور چاند کے طلوع و غروب کا نظام، جس کا اللہ نے ان کو پابند کیا ہوا ہے قیامت تک یوں ہی قائم رہے گا۔ دوسرا مطلب ہے کہ ایک متعینہ منزل تک، یعنی اللہ نے ان کی گردش کے لیے ایک منزل اور ایک دائرہ متعین کیا ہوا ہے جہاں ان کا سفر ختم ہوتا ہے اور دوسرے روز پھر وہاں سے شروع ہو کر پہلی منزل پر آکر ٹھہر جاتا ہے ایک حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوذر (رض) سے فرمایا جانتے ہو، یہ سورج کہاں جاتا ہے ؟ ابوذر (رض) کہتے میں نے کہا اللہ اور کے رسول خوب جانتے ہیں فرمایا اس کی آخری منزل عرش الہی ہے یہ وہاں جاتا ہے اور زیر عرش سجدہ ریز ہوتا ہے پھر وہاں سے نکلنے کی اپنے رب سے اجازت مانگتا ہے ایک وقت آئے گا کہ اس کو کہا جائے تو جہاں سے آیا ہے وہی لوٹ جا۔ تو وہ مشرق سے طلوع ہونے کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا جیسا کہ قرب قیامت کی علامات میں آتا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں سورج رہٹ کی طرح ہے، دن کو آسمان پر اپنے مدار پر چلتا رہتا ہے، جب غروب ہوجاتا ہے، تو رات کو زمین کے نیچے اپنے مدار پر چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ مشرق سے طلوع ہوجاتا ہے۔ اسی طرح چاند کا معاملہ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧] اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کا ذکر فرمایا تو ساتھ ہی سورج اور چاند کا بھی ذکر فرما دیا۔ سورج کا تعلق دن کے اوقات سے ہے اور چاند کا رات کے اوقات سے اور یہی دو سیرے ہیں جو اہل زمین کو سب سے زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں۔ اور اکثر ادوار میں ان دونوں کی ہی پوجا اور عبادت کی جاتی رہی ہے۔ اور ان دونوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسے کام پر لگا دیا ہے جس سے وہ سرمو سرتابی نہیں کرسکتے۔ قابل غور و فکر بات یہ ہے کہ اللہ کی جو مخلوق اپنے کام میں اس طرح جکڑی ہوئی ہو۔ کیا وہ معبود ہونے کی اہلیت رکھتی ہے ؟ جو چیز اپنے اختیار سے نہ ایک لمحہ آگے پیچھے رہ سکتی ہے اور نہ ایک انچ ادھر ادھر سرک سکتی ہے، ایسی بےاختیار مخلوق معبود سمجھ لینا حماقت نہیں تو کیا ہے ؟ [ ٣٨] یعنی اس مقررہ وقت کے بعد ان کی حرکت یا ان کی گردش ختم ہوجائے گی۔ بالفاظ دیگر یہ نظام لیل و نہار ختم کردیا جائے گا۔ اور اس سورج اور چاند کا وجود فنا ہوجائے گا۔ کیونکہ یہ چیزیں ایک مقررہ وقت تک ہیں ابدی نہیں ہیں۔ اور اگر ابدی نہیں تو ازلی بھی نہیں ہوسکتیں۔ گویا یہ چیزیں حادث ہیں اور فنا ہونے والی ہیں۔ گویا اس آیت میں دہریوں کا رد بھی موجود ہے جو اس کائنات کو ازلی ابدی سمجھتے ہیں اور مشرکوں کا بھی رد ہے جو ان فانی چیزوں کو معبود سمجھے بیٹھے ہیں۔ [ ٣٩] دہریہ حضرات تو سرے سے روز آخرت کے منکر ہوتے ہیں اور مشرکین میں سے اکثر تو آخرت کے منکر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ دور نبوی میں مشرکین مکہ اور ایران کے آتش پرست دونوں آخرت کے منکر تھے اور بعض مشرک عقیدہ آخرت کے منکر تو نہیں ہوتے مگر اس عقیدہ کو کچھ مزید ایسے عقیدے شامل کرلیتے ہیں۔ جو عقیدہ آخرت کے اصل مقصد کو فنا کردیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے سب لوگوں کی طرز زندگی اس دنیا میں شتر بےمہار کی طرح گرزتی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی یہ وعید سنا دی کہ اللہ تمہارے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے اور ان کی تمہیں سزا دانے پر بھی قادر ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُوْ لِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ ۔۔ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة آل عمران (٢٧) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے تمام انسانوں کو پیدا کرنا اور دوبارہ زندہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے ایک جان کو پیدا کرنا اور دوبارہ زندہ کرنا۔ تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو کہ جب دن بڑھنے لگتے ہیں تو ہر روز رات کا ایک حصہ دن میں شامل ہوجاتا ہے، پھر سردیوں کی آمد کے ساتھ دن کا وہی حصہ رات میں شامل ہوتا جاتا ہے۔ دن کو رات اور رات کو دن کا حصہ بنا دینے والے کے لیے تمہاری موت کے بعد حیات بالکل معمولی بات ہے۔ یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ وہ رات کی تاریکی کو دن کی روشنی پر اور دن کی روشنی کو رات کی تاریکی پر لے آتا ہے۔ وَسَخَّــرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۡ كُلٌّ يَّجْرِيْٓ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى حافظ صاحبان توجہ فرمائیں کہ پورے قرآن مجید میں ” كُلٌّ يَّجْرِيْٓ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى“ اسی مقام پر ہے۔ دوسرے تمام مقامات پر ” كُلٌّ يَّجْرِيْٓ لاَجَلٍ مُّسَمًّى“ ہے۔ یہ دوبارہ زندگی کے ممکن ہونے کی دوسری دلیل ہے۔ یعنی انسان سے کہیں بڑی مخلوق سورج اور چاند کا اس طرح مسخر ہونا کہ مدت ہائے دراز سے اسی طرح چل رہے ہیں اور اس وقت تک چلتے رہیں گے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ ” اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى“ (ایک مقرر وقت تک) کے لفظ میں کئی چیزیں شامل ہیں، پہلی یہ کہ رات دن کی روزانہ کی گردش میں یہ دونوں صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک چلتے ہیں، پھر اسی سفر پر روانہ ہوجاتے ہیں۔ ان کا روزانہ کا یہ سفر مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق کی طرف رہٹ کی طرح جاری رہتا ہے۔ دوسری یہ کہ طلوع و غروب کے وقت کے لحاظ سے چاند ایک ماہ میں اپنا سفر پورا کر کے اسی وقت طلوع ہوتا ہے جس وقت وہ پچھلے ماہ طلوع ہوا تھا اور سورج سال کے بعد عین اسی وقت طلوع ہوتا ہے جس وقت وہ پچھلے سال طلوع ہوا تھا۔ تیسری یہ کہ سورج اور چاند اس وقت تک چل رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کی گردش ختم ہونے کے لیے مقرر فرمایا ہے اور وہ قیامت کا دن ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ وَاِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ ) [ التکویر : ١، ٢ ] ” جب سورج لپیٹ دیا جائے گا۔ اور جب ستارے بےنور ہوجائیں گے۔ “ آیات کے سیاق کے لحاظ سے یہ معنی یہاں زیادہ مناسب ہے، اس لیے اکثر مفسرین نے یہاں ” اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى“ سے قیامت کا دن ہی مراد لیا ہے۔ 3 یہاں ایک سوال یہ ہے کہ اس مقام پر ” اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے، جب کہ دوسرے مقامات پر ” لاَجَلٍ مُّسَمًّى“ استعمال فرمایا ہے، اس میں کیا حکمت ہے ؟ سلیمان الجمل نے فرمایا : ” یہاں اللہ تعالیٰ نے ” اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى“ فرمایا ہے، جب کہ سورة فاطر اور سورة زمر (اور رعد) میں ” لاَجَلٍ مُّسَمًّى“ فرمایا ہے۔ کیونکہ یہاں یہ لفظ دو ایسی آیات کے درمیان آیا ہے جن میں اس انتہا کا ذکر ہے جب مخلوق ختم ہوگی، چناچہ اس سے پہلے ” مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ “ ہے اور بعد میں ” يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا “ ہے، دونوں آیات کائنات کے اس نظام کے خاتمے پر دلالت کر رہی ہیں اور سورة فاطر اور زمر میں یہ بات نہیں، کیونکہ سورة فاطر میں نہ خلق کی ابتدا کا ذکر ہے نہ انتہا کا اور سورة زمر میں ابتدا کا ذکر ہے انتہا کا نہیں، اس لیے وہاں ” لام “ کا لفظ استعمال فرمایا کہ سورج اور چاند جس طرح چلتے دکھائی دے رہے ہیں یہ ایک مقرر وقت پر پہنچنے کے لیے چل رہے ہیں۔ “ وَّاَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ : اس کا عطف ” اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُوْ لِجُ “ پر ہے۔ ” اَلَمْ تَرَ “ کا معنی تھا ” کیا تم نے نہیں جانا ؟ “ یعنی تم یقیناً جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور۔۔ یہ بھی جانتے ہو کہ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّہَارِ وَيُوْلِجُ النَّہَارَ فِي الَّيْلِ وَسَخَّــرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝ ٠ ۡكُلٌّ يَّجْرِيْٓ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّاَنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۝ ٢٩ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ ولج الوُلُوجُ : الدّخول في مضیق . قال تعالی: حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف/ 40] ، وقوله : يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهارِ وَيُولِجُ النَّهارَ فِي اللَّيْلِ [ الحج/ 61] فتنبيه علی ما ركّب اللہ عزّ وجلّ عليه العالم من زيادة اللیل في النهار، وزیادة النهار في اللیل، وذلک بحسب مطالع الشمس ومغاربها . ( و ل ج ) الولوج ( ض ) کے معنی کسی تنک جگہ میں داخل ہونے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف/ 40] یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نکل جائے ۔ اور آیت : ۔ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهارِ وَيُولِجُ النَّهارَ فِي اللَّيْلِ [ الحج/ 61]( کہ خدا ) رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے ۔ میں اس نظام کائنات پت متنبہ کیا گیا ہو جو اس عالم میں رات کے دن اور دن کے رات میں داخل ہونے کی صورت میں قائم ہے اور مطالع شمسی کے حساب سے رونما ہوتا رہتا ہے ۔ ليل يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل : أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ نهار والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] ( ن ھ ر ) النھر النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔ سخر التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] ( س خ ر ) التسخیر ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔ شمس الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] ، وقال : الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها . ( ش م س ) الشمس کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔ قمر القَمَرُ : قَمَرُ السّماء . يقال عند الامتلاء وذلک بعد الثالثة، قيل : وسمّي بذلک لأنه يَقْمُرُ ضوء الکواکب ويفوز به . قال : هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ( ق م ر ) القمر ۔ چاند جب پورا ہورہا ہو تو اسے قمر کہا جاتا ہے اور یہ حالت تیسری رات کے بعد ہوتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ چاندکو قمر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ستاروں کی روشنی کو خیاہ کردیتا ہے اور ان پر غالب آجا تا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا ۔ جری الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ أجل الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر/ 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص/ 28] . ( ا ج ل ) الاجل ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ { وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى } [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے خبیر والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، ( خ ب ر ) الخبر کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے مخاطب کیا تم یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن سے بڑا کرتا ہے کہ رات پندرہ گھنٹے کی ہوجاتی ہے اور دن صرف نو ہی گھنٹے کا ہوتا ہے اور دن کو رات سے بڑا کرتا ہے کہ دن پندرہ گھنٹے کا اور رات نو گھنٹے کی ہوجاتی ہے اور اس نے سورج اور چاند کو کام پر لگا رکھا ہے ہر ایک وقت مقررہ تک اپنی مقررہ منزلوں میں چلتا رہے گا اور جو کچھ تم نیکی یا برائی کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کی پوری خبر رکھتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ ) ” اس مفہوم کے اعتبار سے اس کی مثال تسبیح کے دانوں کی سی ہے ‘ یعنی قدرت الٰہی سے دن اور رات کی ترتیب ایک ڈوری میں پروئے گئے سیاہ اور سفید رنگ کے دانوں کی سی ہے کہ ایک سیاہ اور ایک سفید دانہ باری باری چلے آ رہے ہیں۔ ان الفاظ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں۔ یعنی دن جب گھٹتا ہے تو رات اس کے کچھ حصے پر قابض ہوجاتی ہے گویا وہ اس میں داخل ہوجاتی ہے۔ اور اسی طرح جب رات گھٹتی ہے تو اس کے کچھ حصے پر دن قبضہ (encroachment) کرلیتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

50 That is, "The appearance and alternation of the day and night consistently and regularly by itself shows that the sun and the moon have been subjected to a system. " The sun and the moon have been mentioned here in particular because both these are the most prominent bodies of the heaven, which man has been worshipping as deities since the earliest times, and which many people worship as gods even today. The fact, however, is that Allah has bound aII the stars and planets of the universe including the earth into an unalterable system from which they cannot deviate even by an inch. 51 That is, nothing in the world, whether the sun or the moon, or any other star or planet, in the universe, is eternal and ever-lasting. Everything has a term for it and can function only till its expiry. Everything has a beginning in time before which it was not there and an end in time after which it will not be there. This means to imply that such temporal and powerless things cannot become the deities of men.

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :50 یعنی رات اور دن کا پابندی اور باقاعدگی کے ساتھ آنا خود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ سورج اور چاند پوری طرح ایک ضابطہ میں کسے ہوئے ہیں ۔ سورج اور چاند کا ذکر یہاں محض اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ دونوں عالم بالا کی وہ نمایاں ترین چیزیں ہیں جن کو انسان قدیم زمانے سے معبود بناتا چلا آ رہا ہے اور آج بھی بہت سے انسان انہیں دیوتا مان رہے ہیں ۔ ورنہ درحقیقت زمین سمیت کائنات کے تمام تاروں اور سیاروں کو اللہ تعالیٰ نے ایک اٹل ضابطے میں کس رکھا ہے جس سے وہ یک سر مو ہٹ نہیں سکتے ۔ سورہ لقمن حاشیہ: 51 یعنی ہر چیز کی جو مدت عمر مقرر کردی گئی ہے اسی وقت تک وہ چل رہی ہے ۔ سورج ہو یا چاند ، یا کائنات کا کوئی اور تارا یا سیارا ، ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ازلی ہے نہ ابدی ۔ ہر ایک کا ایک وقت آغاز ہے جس سے پہلے وہ موجود نہ تھی ، اور ایک وقت اختتام ہے جس کے بعد وہ موجود نہ رہے گی ، اس ذکر سے مقصود یہ جتانا ہے کہ ایسی حادث اور بے بس چیزیں آخر معبود کیسے ہوسکتی ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 اور جب قیامت آئے گی تو سب فنا ہوجائیں گے ان میں کوئی چیز ازلی اور ابدی نہیں ہے۔ ” ٹھہری ہوئی مدت “ سے مراد ان کے طلوع و غروب کا وقت بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ حضرت ابوذر کی روایت میں ہے کہ سورج جا کر اللہ کی عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے اور پھر اسے اجازت دی جاتی ہے کہ جہاں سے آئے ہو وہیں پلٹ جائو اجل مسمی کے یہ دونوں معنی ہوسکتے ہیں۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی قیامت تک۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو ” اللہ “ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا اور نکالتا ہے کیا وہ انسان کو مٹی سے دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا ؟ اللہ تعالیٰ انسان کو باربار اپنی قدرتوں کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ اے انسان دیکھ اور غور کر کہ جس زمین پر تیرا بسیرا اور جس آسمان کے نیچے تیرا ڈیرہ ہے۔ جس لیل ونہار پر تیری زندگی کا انحصا رہے اور جس شمس وقمر کے آنے جانے پر تیری زندگی کے رات دن بنتے ہیں۔ غور کر کہ کبھی رات کا کچھ حصہ دن میں ضم ہوجاتا ہے اور کبھی دن رات میں کئی کئی گھنٹے گم ہوجاتی ہے۔ سورج کو دیکھ کہاں سے نکلتا ہے اور کہاں غروب ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ اب چاند پر توجہ کر کہ وہ پندرہ راتیں کہاں غائب رہتا ہے جب نکلتا ہے تو کس قدر باریک ہوتا ہے۔ جب غائب ہونے کو آتا ہے تو چودھویں رات کو کس طرح تاباں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اوقات مقرر کر رکھے ہیں یہ اسی طرح اپنی ڈیوٹی دیتے رہیں گے یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے گا جو دن سے رات اور رات سے دن نکالتا ہے وہی ” اللہ “ تمہارا حقیقی خالق اور معبود ہے اور وہی تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا اور اپنے حضور پیش کرے گا۔ بس ہر حال میں اسی کو پکارو، اسی کی بندگی کرو اور اس کی غلامی میں آجاؤ۔ اس کے سوا جن کو تم پکارتے اور جن کے سامنے نذرونیاز پیش کرتے اور جن کے حضور سجدے کرتے ہو وہ سب کے سب باطل ہیں اور معبود نہیں ہیں۔ اللہ تمہارے شرکیہ تصورّات اور اعمال سے بلندوبالا ہے ہاں یہ بھی یاد رکھو جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اس کی اچھی طرح خبر رکھنے والا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الم تر ان اللہ ۔۔۔۔۔۔ وان اللہ ھو العلی الکبیر (29 – 30) رات کا دن میں داخل ہونا اور دن کا رات میں داخل ہونا ، ان کا باہم متضاد ہونا اور مختلف موسموں میں ان کا لمبا اور چھوٹا ہونا ایک عجیب منظر ہے۔ لیکن سالوں سے اسے دیکھتے چلے جانا اور بار بار ایسا ہونا انسانوں کو اس سے مانوس کردیتا ہے اور اکثریت اس اعجوبے کو دیکھتے ہوئے بھی اس کو محسوس نہیں کرتی۔ حالانکہ وہ نہایت ہی باریکی کے ساتھ اور کڑے نظم کے ساتھ واقعہ ہو رہا ہے اور اس میں سیکنڈ کا فرق بھی نہیں آتا۔ اس میں کوئی خلل نہیں آتا۔ کبھی ایک بار بھی۔ یہ مسلسل دوران زمین اور دوران کر ات ، جس میں کوئی کرہ اپنے مدار سے نہ ادھر ادھر ہوتا ہے اور نہ رکھتا ہے۔ ایک عظیم اعجوبہ ہے۔ صرف اللہ وحدہ کی ذات ہی اس قسم کے نظام کو وجود میں لاسکتی ہے اور چلا سکتی ہے اور حفاظت سے رکھ سکتی ہے۔ اس حقیقت کا ادراک صرف افلاک سماوی اور کر ات فلکی کے مدارات ہی کے مشاہدے سے ہوجاتا ہے۔ رات اور دن کے اس تغیر کا تعلق شمس و قمر کے دوران سے بھی واضح ہے۔ شمس و قمر کو مسخر کرکے فضا میں رکھتا ، روز و شب کے ظہور سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ ان کے لمبے چھوٹے ہونے سے بھی زیادہ عجیب۔ اس عظیم نظام کو صرف اللہ ہی مسخر کرسکتا ہے جو مدبر وخبیر ہے ، وہی ہے جو ان چیزوں کو وقت معلوم تک صحیح اندازے سے چلا سکتا ہے۔ رات کا دن میں داخل ہونا اور دن کا رات میں داخل ہونا تو اس پوری کائنات کا ایک معمولی حصہ ہے۔ شمس و قمر کی تسخیر بھی ایک واضح حقیقت ہے ، شمس و قمر کی اہمیت ایک عام آدمی کے لیے یہ ہے کہ یہ دونوں اجرام فلکی انسان کے سامنے اور قریب ہیں ورنہ کائنات میں تو یہ بھی ذرے اور حقیر ذرے ہی ہیں۔ اس عظیم علم اور انتظام کے بعد پھر : ان اللہ بما تعملون خبیر (31: 29) ” جو کچھ تم کرتے ہو ، اللہ اس سے باخبر ہے “۔ یہ تو ایک معمولی سی بات ہے۔ ان کائناتی حقائق کے بعد یہ غیبی حقیقت بہت ہی چھوٹی ہے اور اللہ کے لیے اس کا کرنا مشکل نہیں۔ یہ دونوں حقائق باہم مربوط ہیں۔ گردش لیل و نہار ، تسخیر و شمس و قمر اور اللہ کے علیم وخبیر ہونا ، ان تین حقائق کے بعد ایک عظیم حقیقت بیان کی جاتی ہے جس کے اوپر ان تینوں حقائق کا دارومدار ہے اور اس عظیم حقیقت کو اس سفر میں بیان کیا گیا ہے اور اس کے لیے یہ دلیل دی گئی ہے۔ ذلک بان اللہ ھو الحق ۔۔۔۔۔۔ العلی الکبیر (31: 30) ” یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی حق ہے اور اسے چھوڑ کر جن دوسری چیزوں کو یہ لوگ پکارتے ہیں ، وہ سب باطل ہیں ، اور (اس وجہ سے کہ) اللہ ہی بزرگ و برتر ہے “۔ ” یہ “ یعنی یہ نظام کائنات جو بہت ہی پیچیدہ ، باریک دائم ، ثابت اور نہایت ہی ہم آہنگ ہے۔ یہ نظام اس لیے قائم ہے کہ اللہ حق ہے اور اللہ کے سوا تمام دوسرے معبود الٰہ باطل ہیں ۔ یہ نظام کائنات حقیقت کبریٰ کی وجہ سے قائم ہے اور حقیقت کبریٰ اللہ واجب الوجود ہے جس کی وجہ سے یہ پورا وجود قائم ہے۔ چونکہ یہ کائنات قائم ہے ، لہٰذا اللہ حق ہے اور تبھی یہ کائنات قائم ہے۔ وہی اسے قائم کرتا ہے۔ چلاتا ہے ، حفاظت کرتا ہے اور تدبیر کرتا ہے۔ وہی ہے جو اس کائنات کے قائم رہنے کی ضمانت ہے “ وہی اس کے قرار ربط اور نظم کا سبب ہے۔ ذلک بان اللہ ھو الحق (31: 30) ” یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی حق ہے “۔ اللہ کے سوا ہر چیز متغیر اور متبدل ہے۔ اللہ کے سوا ہر چیز اپنا رخ بدلتی ہے۔ اللہ کے سوا ہر چیز میں زیادتی اور نقصان واقع ہوتا ہے۔ اس کے اوپر ضعف اور قوت ، جوانی اور بڑھاپا ، عروج وزوال ، اقبال و ادبار آتا ہے۔ اللہ کے سوا ہر چیز نہ تھی نہ ہوئی نہ تھی اور نہ ہوگی۔ یہ صرف اللہ ہی ہے جو قائم و دائم ہے۔ اور اس پر کوئی تغیر ، تبدل اور زوال نہیں آتا۔ نفس انسانی کے اندر ایک چیز رہتی ہے اور وہ یہ کہ اللہ کا یہ قول۔ ذلک بان اللہ ھو الحق (31: 30) کی پوری مراد ہم الفاظ میں منتقل نہیں کرسکے۔ اس کا ایک مفہوم ہے اور اس کو محسوس کیا جاتا ہے لیکن میرے لیے اسے الفاظ میں لانا مشکل ہے۔ اسی طرح یہ تعبیر ان اللہ ھو العلی الکبیر (31: 30) اس کے سوا کوئی علی اور کبیر نہیں ہے۔ ان تعبیرات کے بارے میں ، میں نے ایک ایسی بات کہہ دی ہے جس کو میرا پورا وجود پاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ انسانی تعبیرات میں وہ الفاظ نہیں ہیں کہ ان کے ذریعے ان دو فقروں میں پائے جانے والے حقائق کا اظہار کیا جاسکے۔ یہ بہت ہی بلند حقائق ہیں۔ اللہ حق ہے ، علی ہے ، کبیر ہے۔ انسانی تعبیرات ان مفاہم کو جو ان فقروں سے محسوس کیے جاسکتے ہیں اور محدود کردیتی ہیں۔ اس لیے صرف قرآن کی تعبیر ہی ان کے لیے کافی ہے۔ اس کائناتی منظر ، عالم بالا کے منظر کے بعد ایک دوسرا منظر جو انسانوں کے تجربے اور مشاہدے میں آتا ہی رہتا رہے ، روز و شب انسان ان کے تجربے سے گزرتے ہیں۔ یہ ایک کشتی ہے جو سمندر کی وسعتوں میں تیر رہی ہے۔ یہ بھی اللہ کے فضل و کرم سے تیر رہی ہے۔ اللہ لوگوں کو اس منظر میں ایک خطرناک حالت کے ساتھ کھڑا کردیتے ہیں۔ ایسے مناظر سے اکثر مخاطبین خود گزر چکے ہیں۔ یہ ایک فطری سفر ہے ۔ اس میں انسان قدرت اور قدرتی قوتوں کے اندر گھرا ہوتا ہے۔ اس کے پاس کوئی قوت ، کوئی مقابلہ ، کوئی گرفت اور کوئی غرور نہیں ہوتا۔ جب انسان اس کشتی میں سفر کر رہا ہوتا ہے اور سمندر کی گہرائیوں میں ہوتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد ارشاد فرمایا (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ ) (الآیۃ) اے مخاطب کیا تو اس کو نہیں دیکھتا کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل فرماتا ہے (یہ سب نظروں کے سامنے ہے) اور اس کے علاوہ کسی کو بھی اس تصرف پر قدرت نہیں ہے اور اسی نے چاند اور سورج کو مسخر کیا ہے ان دونوں کو جس کام میں لگایا ہے اس کے کرنے پر مجبور ہیں، ان کے لیے جو محور مقرر فرمایا ہے اسی پر چلتے رہتے ہیں ایک سرمواس سے ہٹ نہیں سکتے، ان کے لیے جو اللہ تعالیٰ نے ایک اجل مقرر فرما دی ہے اسی اجل تک چل رہے ہیں، اپنی ذات میں ان کا اپنا ذاتی کوئی تصرف نہیں۔ (وَّ اَنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ) (اور تم جو کچھ عمل کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے) وہ اسی کے مطابق جزا و سزا دے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

28:۔ الم تر الخ، یہ توحید پر چھٹی دلیل ہے۔ یعنی یہ حقیقت اس قدر واضح اور روشن ہے کہ اسے ہر کس و ناکس جانتا ہے کہ یہ سارا نظام عالم (نظام شمسی) اللہ کے اختیار و تصرف میں ہے۔ دن کے بعد رات، رات کے بعد دن، دن رات میں کمی بیشی، سورج اور چاند کا طلوع و غروب ہر ایک کا ایک معین اور مقرر پروگرام کے مطابق چلنا یہ سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے جب سارا نظام کائنات اس کے تصرف میں ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر بھی ہے اور کوئی چیز اس کے تصرف و اختیار اور اس کے علم سے باہر نہیں تو لامحالہ اس کے سوا کارساز اور معبود بھی کوئی نہیں وہ سارے جہان کا کارساز ہے اور ہر قسم کی عبادت اور دعاء کا مستحق بھی وہی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

29۔ اے مخاطب کیا تجھ کو یہ بات معلوم نہیں اور تو نے یہ نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں داخل کردیتا ہے اور دن کو رات میں داخل کردیتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے اور مسخرکر رکھا ہے کہ ان میں سے ہر ایک مقررہ وقت تک چلتا رہے گا اور نیز یہ بات کہ جو کام تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ ان تمام کاموں سے با خبر ہے۔ یعنی رات کے اجزاء کو دن بنا دیتا ہے اور دن کے اجزاء کو رات میں داخل کردیتا ہے جس سے سردی اور گرمی ہوتی ہے ، سورج اور چاند دونوں مسخر ہیں اور کام میں لگے ہوئے ہیں اور ان کی تسخیر اور ان کا چلنا ایک مقررہ وقت رہے گا یہ دلیل بھی توحید کی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) نے الی اجل مسمی کی تفسیر بیان کی ۔ بہر حال مطلب ایک ہی ہے کہ جب وہ ٹھہرا وعدہ آجائے گا تو یہ تمام نظام ختم ہوجائے گا اور قیامت قائم ہوجائے گی۔