Surat Luqman
Surah: 31
Verse: 3
سورة لقمان
ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لِّلۡمُحۡسِنِیۡنَ ۙ﴿۳﴾
As guidance and mercy for the doers of good
جو نیکوکاروں کے لئے رہبر اور ( سراسر ) رحمت ہے ۔
ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لِّلۡمُحۡسِنِیۡنَ ۙ﴿۳﴾
As guidance and mercy for the doers of good
جو نیکوکاروں کے لئے رہبر اور ( سراسر ) رحمت ہے ۔
الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَةَ وَيُوْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم بِالاْخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ
3 1محسنین محسن کی جمع ہے اس کے ایک معنی تو یہ ہیں احسان کرنے والا والدین کے ساتھ رشتے داروں کے ساتھ، مستحقین اور ضرورت مندوں کے ساتھ، دوسرے معنی ہیں، نیکیاں کرنے والا، یعنی برائیوں سے مجتنب اور نیکوکار، تیسرے معنی ہیں اللہ کی عبادت نہایت اخلاص اور خشوع و خضوع کے ساتھ کرنے والا۔ جس طرح حدیث جبرائیل میں ہے ان تعبد اللہ کانک تراہ۔ قرآن ویسے تو سارے جہان کے لئے ہدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے لیکن اس سے اصل فائدہ چونکہ صرف محسنین اور متقین ہی اٹھاتے ہیں، اس لئے یہاں اسطرح فرمایا۔
[١] قرآن کی اور اس کی آیات کی بعض مقامات پر یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ سب لوگوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔ سورة بقرہ کی ابتداء میں فرمایا کہ یہ متقین کے لئے ہدایت ہے اور اس مقام پر فرمایا کہ یہ محسنین کے لئے ہدایت ہے۔ تو ان آیات میں کچھ تضاد نہیں۔ اور ان کی تطبیق کی سورت یہ ہے کہ قرآن فی الواقعہ ایسے لوگوں کے لئے یعنی تمام بنی نوع انسان اور جن کے لئے ہدایت کی کتاب ہے، مگر اس کی ہدایت سے مستفید وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو خود بھی ہدایت کے طالب ہوں اللہ سے ڈرنے والے ہوں۔ اس کتاب کے منکر اور بدکار لوگ اس سے مستفید نہیں ہوسکتے۔ ہاں اگر وہ اپنی ضد سے باز آجائیں تو وہ بھی ہدایت پاسکتے ہیں۔ [ ٢] اور قرآن کی آیات رحمت اس لحاظ سے ہیں کہ قرآن ایک طرز حیات سکھلاتا ہے جو ایک طرف تو اخروی فلاح کا ضامن ہے اور دوسری طرف دنیوی زندگی کے ہر پہلو ایسی متوازن اور متناسب راہیں دکھلاتا ہے جس سے نہ فرد کے حقوق مجروح ہوتے ہیں نہ معاشرہ کے اور وہ ان میں حسین امتزاج پیدا کردیتا ہے۔ وہ تدبیر منزل یعنی عائلی زندگی سے لے کر حکمرانی تک بین الملکتی تعلقات، خارجہ اور پالیسی کی ایسی معتدل راہ پیش کرتا ہے کہ اگر انسانی عقل ہزاروں سال بھی بھٹکتی پھرتی تو ایسی متوازن راہیں تلاش نہیں کرسکتی تھی۔ اللہ کی یہ انتہائی رحمت اور مہربانی ہے کہ اللہ نے وحی کے ذریعہ انسانوں کو مفت میں ہی ایسی راہیں اور ایسے طریقے بتلا دیئے ہیں۔
هُدًى وَّرَحْمَةً لِّلْمُحْسِنِيْنَ ۔۔ : ان آیات کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی آیات (٢ تا ٥) کی تفسیر۔
ہُدًى وَّرَحْمَۃً لِّلْمُحْسِنِيْنَ ٣ ۙ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔
آیت ٣ (ہُدًی وَّرَحْمَۃً لِّلْمُحْسِنِیْنَ ) ” یعنی قرآن محسنین کے لیے سراسر ہدایت اور سراپا رحمت ہے۔ یاد رہے سورة البقرۃ کی آیت ٢ میں اس کے مقابل (ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ) کے الفاظ ہیں کہ یہ ہدایت ہے اہل تقویٰ کے لیے۔ یہاں پر ایک تو ہدایت کے ساتھ لفظ ” رَحْمَۃ “ کا اضافہ فرمایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کتاب سے استفادہ کے حوالے سے ” متقین “ کے بجائے ” محسنین “ کا ذکر ہے۔ محسنین دراصل متقین سے بلند تر درجے پر فائزوہ لوگ ہیں جن کا ایمان ترقی پاتے پاتے ” احسان “ کے درجے تک پہنچ جاتا ہے ۔۔ ” احسان “ قرآن کی ایک اہم اصطلاح ہے۔ اس کی وضاحت قبل ازیں سورة المائدۃ کی اس آیت کے ضمن میں کی جا چکی ہے : (اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْاط واللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ) ” جب تک وہ تقویٰ کی روش اختیار کیے رکھیں اور ایمان لائیں اور نیک عمل کریں اور پھر تقویٰ میں بڑھیں اور ایمان لائیں ‘ پھر اور تقویٰ میں بڑھیں اور پھر درجہ احسان پر فائز ہوجائیں۔ اور اللہ تعالیٰ محسنوں سے محبت کرتا ہے “۔ یہ اس درجہ بندی کی طرف اشارہ ہے جس میں سب سے پہلے اسلام ‘ اس کے بعد ایمان ‘ اور پھر اس کے اوپر احسان کا درجہ ہے۔ اسلام ‘ ایمان اور احسان کی یہ تین منازل ” حدیث جبریل ( علیہ السلام) “ میں بھی بیان ہوئی ہیں۔ چناچہ اللہ کے راستے کے مسافروں کی اعلیٰ ترین منزل ” احسان “ ہے۔
2 That is, "These verses give guidance to the Right Way and have been sent down as a mercy from God. But the people who can profit by this mercy and guidance are only those who adopt a righteous attitude, who wish to become good, who crave for their own well-being, whose quality is that they avoid the evil when they are warned of it, and follow the good when they are shown the ways to it. As for the wicked and mischievous people, they will neither profit by this guidance nor receive any share from this mercy. "
سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :2 یعنی یہ آیات راہ راست کی طرف رہنمائی کرنے والی ہیں اور خدا کی طرف سے رحمت بن کر آئی ہیں ، مگر اس رحمت اور ہدایت سے فائدہ اٹھانے والے صرف وہی لوگ ہیں جو حسن عمل کا طریقہ اختیار کرتے ہیں ، جو نیک بننا چاہتے ہیں ، جنہیں بھلائی کی جستجو ہے ، جن کی صفت یہ ہے کہ برائیوں پر جب انہیں متنبہ کر دیا جائے تو ان سے رک جاتے ہیں اور خیر کی راہیں جب ان کے سامنے کھول کر رکھ دی جائیں تو ان پر چلنے لگتے ہیں ۔ رہے بدکار اور شرپسند لوگ تو وہ نہ اس رہنمائی سے فائدہ اٹھائیں گے نہ اس رحمت میں سے حصہ پائیں گے ۔
(31:3) ھدی۔ (اسم ومصدر بمعنی ہدایت کرنا یا ہدایت) ورحمۃ (اسم ومصدر بمعنی بخشش، مہربانی ، احسان۔ فضل، انعام، رحم کرنا) دونوں منصوب بوجہ حال ہونے کے ایت سے۔ یعنی یہ سراسر ہدایت و رحمت ہے (محسنین کے لئے) محسنین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ احسان کرنے والے۔ نیکو کار مرد۔
ف 13 یعنی یہ کتاب اگرچہ فی نفسہ ہایت و رحمت ہے لیکن اس سے فائدہ ہی لوگ اٹھاتے ہیں جو نیک ہیں ” نیکوں “ کے لئے اصل میں لفظ ” محسنین “ استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے ” احسان کرنے والے “ اور نہایت خلوص اور حضور قلب سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کو احسان کہا جاتا ہے۔ روایات آثار میں ” احسان “ کی ترغیب آئی ہے۔
قرآن مجید محسنین کے لیے ہدایت اور رحمت ہے حضرت ابن عباس (رض) کا فرمان ہے کہ سورة لقمان مکہ معظمہ میں نازل ہوئی، اور ان کا ایک قول یہ ہے کہ پوری سورت میں سے تین آیات (وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلَامٌ) سے لے کر (اِنَّ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ) تک مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں۔ ( الم ) یہ حرف مقطعات میں سے ہے اس کا معنی اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ (تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ ) یہ کتاب حکیم یعنی قرآن کریم کی آیات ہیں پر حکمت ہیں۔ (ھُدًی وَّ رَحْمَۃً لِّلْمُحْسِنِیْنَ ) یہ قرآن اچھے کام کرنے والوں کے لیے ہدایت ہے اور رحمت ہے۔ ہدایت اور رحمت تو سارے انسانوں کے لیے ہے لیکن سب اسے قبول نہیں کرتے، قبول کرنے والے وہی لوگ ہیں جو صفت احسان سے متصف ہیں، ان کے قلوب صالح ہیں، نیتوں میں اخلاص ہے، اس لیے قرآن کو سن کر اس کی ہدایت کو قبول کرتے ہیں پھر اس کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارتے ہیں، اور یہ قرآن کے مطابق زندگی گزارنا ان کے لیے رحمت کا باعث بن جاتا ہے ان محسنین کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، (الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ ) کہ یہ لوگ نماز قائم کرتے ہیں (وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ ) اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ (وَ ھُمْ بالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ ) اور یہ لوگ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ درحقیقت اقامت صلوٰۃ اور ادائیگی زکوٰۃ یہ دونوں اسلام کے اہم رکن ہیں جن کا درجہ توحید اور رسالت پر ایمان لانے کے بعد ہے، باقی دو رکن یعنی صیام رمضان اور حج بیت اللہ اسلام کے ارکان تو ہیں لیکن ان کا درجہ نماز اور زکوٰۃ کے بعد ہے، نماز اور زکوٰۃ کی پابندی ہی رہے اور آخرت کا مضبوط یقین ہو تو انسان اسلام کے دوسرے احکام پر بآسانی چل سکتا ہے اور ان کی ادائیگی کے لیے اپنے نفس کو آمادہ کرسکتا ہے۔ ایسے حضرات کے بارے میں فرمایا کہ (اُولٰٓءِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ ) یہ حضرات اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں (وَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) اور یہ وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔ (اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے، یعنی دوزخ سے بچ جانا اور جنت میں داخل ہونا) جنہیں دنیا میں اس کی بشارت دے دی گئی ان کا عظیم مرتبہ ہے، یہ مضمون سورة بقرہ کے شروع میں بھی گزر چکا ہے۔ چونکہ آیت بالا میں زکوٰۃ دینے کا بھی ذکر ہے اس لیے بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ آیات بھی مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں، اور اس بات کی بنیاد اس پر ہے کہ زکوٰۃ مدینہ منورہ میں فرض ہوئی۔ اور جن حضرات نے مذکورہ بالا آیات کو مکی کہا ہے انہوں نے فرمایا ہے کہ زکوٰۃ بھی مکہ معظمہ میں فرض ہوگئی تھی البتہ اس کے تفصیلی احکام، مقادیر نصاب وغیرہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئے، لیکن اگر زکوٰۃ سے عام صدقہ مراد لیے جائے جیسا کہ چند صفحات پہلے سورة روم کی آیت (وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ ) کے ذیل میں گذر چکا ہے تو پھر ان آیات کو بھی مکی کہنے میں کوئی تامل نہیں رہتا۔
3۔ یہ آیتیں یا یہ قرآن کریم نیک لوگوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہیں ۔ یعنی مؤمنین و محسنین کیلئے ہدایت اور رحمت کا سبب ہے یعنی اس کتاب سے وہ لوگ صحیح رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق ہوتے ہیں اگرچہ قرآن کریم تمام بنی نوع انسان کے لئے موجب ہدایت و رحمت ہے لیکن چونکہ اس سے صحیح فائدہ مؤمنین اور محسنین ہی اٹھاتے ہیں اس لئے محسنین کا ذکر فرمایا آگے محسنین کی صفات بیان فرمائیں۔