Surat Luqman

Surah: 31

Verse: 7

سورة لقمان

وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِ اٰیٰتُنَا وَلّٰی مُسۡتَکۡبِرًا کَاَنۡ لَّمۡ یَسۡمَعۡہَا کَاَنَّ فِیۡۤ اُذُنَیۡہِ وَقۡرًا ۚ فَبَشِّرۡہُ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۷﴾

And when our verses are recited to him, he turns away arrogantly as if he had not heard them, as if there was in his ears deafness. So give him tidings of a painful punishment.

جب اس کے سامنے ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو تکبر کرتا ہوا اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں گویا کہ اس کے دونوں کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں آپ اسے دردناک عذاب کی خبر سنا دیجئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ ايَاتُنَا وَلَّى مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِي أُذُنَيْهِ وَقْرًا ... And when Our Ayat are recited to such a one, he turns away in pride, as if he heard them not -- as if there were deafness in his ear. means, when these Qur'anic verses are recited to one who is fond of idleness and play, he turns away from them and does not want to hea... r them. He turns a deaf ear to them as if he can hear nothing, because it annoys him to hear them since he gains no benefit from them and has no interest in them. ... فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ So announce to him a painful torment. i.e., on the Day of Resurrection, which will hurt him just as much as listening to the Book of Allah and its verses hurt him.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71یہ اس شخص کا حال ہے جو مذکورہ لہو و لعب کی چیزوں میں مگن رہتا ہے، وہ آیات قرآنیہ اور اللہ رسول کی باتیں سن کر بہرا بن جاتا ہے حالانکہ وہ بہرا نہیں ہوتا اور اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں، کیونکہ اس کے سننے سے وہ ایذاء محسوس کرتا ہے۔ اس لیے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، وقرا کے معنی ہیں...  کانوں میں ایسا بوجھ جو اسے سننے سے محروم کردے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] یہ ہے اللہ کی آیات سے اس کی شان بےنیازی گویا وہ اللہ کی آیات سننے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتا اور اگر کانوں میں آواز پڑ بھی جائے تو ایسے سنی ان سنی کردیتا ہے جیسے وہ ثقل سماعت کی وجہ سے بات سن ہی نہ پایا ہو۔ اور یہ سب کچھ وہ ازراہ تکبر نحوت کی بنا پر کرتا ہے لہذا اسے اس تکبر کی سزا دردناک عذاب کی ص... ورت میں ملے گی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِ اٰيٰتُنَا وَلّٰى مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ يَسْمَعْہَا كَاَنَّ فِيْٓ اُذُنَيْہِ وَقْرًا۝ ٠ ۚ فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ۝ ٧ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ ... إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مدموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ أذن الأذن : الجارحة، وشبّه به من حيث الحلقة أذن القدر وغیرها، ويستعار لمن کثر استماعه وقوله لما يسمع، قال تعالی: وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ قُلْ : أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ [ التوبة/ 61] أي : استماعه لما يعود بخیرٍ لكم، وقوله تعالی: وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام/ 25] إشارة إلى جهلهم لا إلى عدم سمعهم . ( اذ ن) الاذن کے معنی کان کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر ہنڈیا کی کو روں کو اذن القدر کہا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر ہر اس شخص پر اذن کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جو ہر ایک کی بات سن کر اسے مان لیتا ہو ۔ چناچہ فرمایا :۔ { وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ } ( سورة التوبة 61) اور کہتے ہیں یہ شخص زا کان ہے ان سے ) کہدو کہ وہ کان ہے تو تمہاری بھلائی کے لئے ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا } ( سورة الأَنعام 25) اور انکے کانوں میں گرانی پیدا کردی ہے ۔ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ بہرے ہوگئے ہیں بلکہ اس سے انکی جہالت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔ وقر الوَقْرُ : الثِّقلُ في الأُذُن . يقال : وَقَرَتْ أُذُنُهُ تَقِرُ وتَوْقَرُ. قال أبو زيد : وَقِرَتْ تَوْقَرُ فهي مَوْقُورَةٌ. قال تعالی: وَفِي آذانِنا وَقْرٌ [ فصلت/ 5] ، وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام/ 25] والوَقْرُ : الحِمْل للحمار وللبغل کالوسق للبعیر، وقد أَوْقَرْتُهُ ، ونخلةٌ مُوقِرَةٌ ومُوقَرَةٌ ، والوَقارُ : السّكونُ والحلمُ. يقال : هو وَقُورٌ ، ووَقَارٌ ومُتَوَقِّرٌ. قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] وفلان ذو وَقْرَةٍ ، وقوله : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَ [ الأحزاب/ 33] قيل : هو من الوَقَارِ. وقال بعضهم : هو من قولهم : وَقَرْتُ أَقِرُ وَقْراً. أي : جلست، والوَقِيرُ : القطیعُ العظیمُ من الضأن، كأنّ فيها وَقَاراً لکثرتها وبطء سيرها . ( و ق ر ) الوقر ۔ کان میں بھاری پن ۔ وقرت اذنہ تقر وتو قر کان میں ثقل ہونا یعنی باب ضرب وفتح سے آتا ہے ۔ لیکن ابوزید نے اسے سمع سے مانا ہے اور اس سے موقورۃ صفت مفعولی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَفِي آذانِنا وَقْرٌ [ فصلت/ 5] اور ہمارے کانوں میں بوجھ یعنی بہرہ پن ہے ۔ وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام/ 25] اور کانوں میں ثقل پیدا کردیا ۔ نیز وقر کا لفظ گدھے یا خچر کے ایک بوجھ پر بھی بولا جاتا جیسا کہ وسق کا لفظ اونٹ کے بوجھ کے ساتھ مخصوص ہے اور او قرتہ کے معنی بوجھ لادنے کے ہیں ۔ نخلۃ مر قرۃ ومو قرۃ پھل سے لدی ہوئی کھجور ۔ الوقار کے معنی سنجدگی اور حلم کے ہیں باوقار اور حلیم آدمی کو دقور وقار اور متوقر کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] تم کو کیا ہوا کہ تم خدا کی عظمت کا اعتماد نہیں رکھتے فلان ذو و قرۃ فلاں بر د بار ہے ۔ اور آیت : ۔ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَ [ الأحزاب/ 33] اور اپنے گھروں میں بڑی رہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں قرن وقار بمعنی سکون سے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ وقرت اقر وقر ا سے ہے جس کے معنی بیٹھ رہنا کے ہیں ۔ الوقیر ۔ بھیڑ بکری کا بہت بڑا ریوڑ ۔ یہ بھی وقار سے ہے گویا کثرت رفتاری کی وقار سکون پایا جاتا ہے ۔ بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جب اس کے سامنے ہماری آیات جن میں اوامرو نواہی کا بیان ہے پڑھی جاتی ہیں تو ایمان سے تکبر کرتا ہوا منہ موڑ لیتا ہے جیسے اس نے سنا ہی نہیں اور وہ بہرہ ہے۔ آپ اس کو ایک دردناک عذاب کی خبر سنا دیجیے چناچہ یہ بدر کے دن بری طرح مارا گیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْہَا کَاَنَّ فِیْٓ اُذُنَیْہِ وَقْرًا ج) ” گویا وہ بہرا ہے اور جو کچھ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے سنایا ہے اس نے وہ سنا ہی نہیں۔ (فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ) ” تاویل خاص کے اعتبار سے دونوں آیات مذکورہ شخص نضر بن حارث کے بارے میں ہیں اور ان میں عذاب کے ح... والے سے اسی کا ذکر ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧ تا ١٠۔ اوپر کی آیت میں جن لوگوں کا ذکر تھا انہی کو فرمایا کہ ایسے لوگوں کے روبر وجب قرآن کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ اپنی مالداری کے غرور میں پیٹھ موڑ کر اس طرح ٹل جاتے ہیں کہ گویا وہ بہرے ہیں اس واسطے فرمایا اے رسول اللہ کے تم ایسے ہر شخص کو کچھ دینے والے اس عذاب کی خبر سنا دو جو قیامت کے دن اس ... پر کیا جاوے گا حاصل یہ ہے کہ جس طرح وہ اللہ کی کتاب سے اور اس کی آیتوں سے گستاخی کر کے اللہ کے رسول کو ایذا دیتا تھا اسی طرح اللہ اس کو قیامت کے روز دکھ دینے والے عذاب میں ڈالے گا یہاں تک تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا بیان کیا جو قرآن شریف کی آیتوں کے سننے سے پہلو تہی کرتے ہیں اور ان کو ہنسی میں اڑاتے ہیں اور آپ سے بہرے بن جاتے ہیں اب آگے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا حال بیان فرماتا ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کو بڑی رغبت اور توجہ کے سات سنتے ہیں اور ان سے بڑے بڑے فائدہ اور نفع حاصل کرتے ہیں چناچہ فرمایا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر ایمان لائے اور تمام پیغمبروں کے رسول ہونے کی تصدیق کی اور شریعت کے مطیع ہو کر اچھے عمل کئے ان کے واسطے نعمتوں کے باغ ہیں جن میں انواع اقسام کی لذتیں اور طرح طرح کی خوشبوئیں ہیں ان کے اندر ہمیشہ ہمیشہ چین اور مزے اڑایا کریں گے عمدہ عمدہ لطیف کھانے اور پینے کی چیزیں اور پوشاک و لباس قسم قسم کے پھنسیں گے اور بڑے بڑے عالیشان مکان میں رہیں گے اور نایاب سواریوں پر چڑ ہیں گے اور پاکیزہ بیبیاں ان کی ہم نشینی کے لیے موجود ہوں گی ہمیشہ رہنے کا یہ مطلب کہ یہ نعمتیں ان سے کبھی جدا نہ ہوں گی اور نہ وہ بدلنے کی خواستگار ہوں گے وعدہ اللہ کا حق ہے کیونکہ وہ اپنے وعدہ کا خلاف کبھی نہیں کرے گا اس لیے کہ اس کی ذات بڑی کریم اور رحیم ہے اور وہ بڑی عزت والا اور حکمت والا ہے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے معاذبن جبل (رض) کی حدیث گزر چکی ہے کہ اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ بندے اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں اب اس حق کے پورا ہوجانے کے بعد بطور حق کے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی مغفرت فرمائے گا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث بھی گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں بڑا دخل ہے جس جس کا حاصل یہ ہے کہ جس اللہ نے انسان کو اور انسان کی سب ضرورت کی چیزوں کو پیدا کیا ہے جو لوگ اس پر بھی دوسروں کو اس کے برابر ٹھہراتے ہیں اور اپنے خالق کے احکام کے سننے سے جان بوجھ کر بہرے بن جاتے ہیں انہوں نے اللہ کے حق کو کچھ نہیں سمجھا اس لیے اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گنہگار نہیں اور عقبیٰ میں ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اسی طرح جن لوگوں کو احکام الٰہی کا پورا یقین ہے جس کے سبب سے وہ عقبیٰ کی بھلائی کے کاموں میں لگے رہتے ہیں انہوں نے اللہ کے حق کو پھچانا اور ادا کیا اس واسطے اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق ان کو جنت میں داخل کرے گا جس کی نعمتوں کی تفصیل بیان سے باہر ہے چناچہ صحیح بخاری مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث قدسی اس باب میں کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جنت کی نعمتیں جنت میں داخل ہونے سے پہلے نہ کسی نے آنکھوں سے دیکھی نہ کانوں سے سنی نہ ان کا تصور کسی کے دل میں گزر سکتا ہے پھر فرمایا کہ اس خدائے حکیم نے آسمان بغیر ستون کے پیدا حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ آسمان کے لیے کوئی ایسا بھی ستون نہیں جو نظر آوے اور ایسا بھی نہیں جو دیکھائی نہ دے زیادہ تفصیل اس مسئلہ کی سورة رعد میں مفصل ہوچکی ١ ؎ ہے پھر فرمایا ڈالے اللہ نے زمین پر بوجھ پہاڑروں کے تاکہ بوجھل ہوجاوے اور تم کو لے کر نہ جھک جاوے اور پھیلائے اللہ تعالیٰ نے زمین کے اندر طرح طرح کے حیوانات جن کی تعداد سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا اس سے اللہ سبحانہ نے اپنا خالق ہونا ثابت فرمایا اب رازق ہونے پر آگاہ کرتا ہے کہ اتارا ہم نے آسمان سے پانی پھر اگائے ہم نے زمین میں اس کے سبب سے ہر قسم کے جوڑے خوشنما اور عمدہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر انعام اور فضل ہے۔ (١ ؎ صفحہ ٢١٢ جلد سوم )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی جیسے بہرا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ واذا تتلی الخ، ان معاندین پر جب اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ کبر و غرور اور کمال بےاعتنائی کے ساتھ ان سے منہ موڑ لیتے ہیں گویا کہ وہ کانوں سے بہرے ہیں اور انہوں نے ان کو سنا ہی نہیں۔ فبشرہ بعذاب الیم، معاندین کے لیے تخویف اخروی ہے یعنی جس طرح دنیا میں اللہ کی آیتیں سننے سے انہیں تکلی... ف ہوتی تھی اسی طرح وہ آخرت میں عذاب جہنم کی تکلیف میں مبتلا ہوں گے ای یوم القیامۃ یؤلمہ کما تالم بسماع کتاب اللہ وایاتہ (ابن کثیر ج 3 ص 443) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

7۔ اور جب اس شخص مذکور پر اور اسکے سامنے ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ تکبر کرتا ہوا منہ موڑ لیتا ہے اور متکبرانہ اندازے سے پیٹھ پھر کر چل دیتا ہے کہ گویا اس نے ان آیات کو سنا ہی نہیں جیسے اس کے دونوں کانوں میں ثقل ہے ۔ سو اے پیغمبر آپ اس شخص کو ایک درد ناک سزا ور عذاب کی بشارت اور خوشخبری دے ... دیجئے۔ یعنی ایک طرف اس کے اضلال کی یہ حالت کہ مغنیہ عورت اور لہو کی باتیں جمع کرتا پھرتا ہے ۔ دوسری طرف جب خود اس کے سامنے آیات الٰہی پڑھی جائیں تو تکبر کے ساتھ ان آیات الٰہی کو ناقابل التفات سمجھ کر پیٹھ پھیر کر چلاجائے اور ایسا بن جائے جیسے اس نے سنا ہی نہیں اور جیسے اس کے دونوں کان بہرے ہیں تو ایسے شریر کو آپ درد ناک عذاب کی خبر دیجئے ۔ اب آگے نیک اور اہل ایمان کا ذکر فرماتا ہے۔  Show more