Surat Assajdah

Surah: 32

Verse: 13

سورة السجدة

وَ لَوۡ شِئۡنَا لَاٰتَیۡنَا کُلَّ نَفۡسٍ ہُدٰىہَا وَ لٰکِنۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ مِنِّیۡ لَاَمۡلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿۱۳﴾

And if we had willed, We could have given every soul its guidance, but the word from Me will come into effect [that] "I will surely fill Hell with jinn and people all together.

اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت نصیب فرما دیتے ، لیکن میری یہ بات بالکل حق ہو چکی ہے کہ میں ضرور ضرور جہنم کو انسانوں اور جنوں سے پر کر دونگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَوْ شِيْنَا لاَتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا ... And if We had willed, surely We would have given every person his guidance, This is like the Ayah, وَلَوْ شَأءَ رَبُّكَ لامَنَ مَن فِى الاٌّرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا And had your Lord willed, those on earth would have believed, all of them together. (10:99) ... وَلَكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لاََمْلََنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ but the Word from Me took effect, that I will fill Hell with Jinn and mankind together. i.e., from both classes, so their abode will be Hell and they will have no escape from it and no way out. We seek refuge with Allah and in His perfect Words from that.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

131یعنی دنیا میں، لیکن یہ ہدایت جبری ہوتی، جس میں امتحان کی گنجائش نہ ہوتی۔ 132یعنی انسانوں کی دو قسموں میں سے جو جہنم میں جانے والے ہیں، ان سے جہنم کو بھرنے والی میری بات سچ ثابت ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ١٤] یعنی ہمیں انسان کے اضطراری ایمان کی ضرورت نہیں۔ اس صورت میں انسان کو اختیار دینا بالکل عبث تھا۔ اب چونکہ اسے اچھے یا برے راستہ کی تمیز بھی اسے بخش دے گئی ہے اور ان میں سے کسی ایک راہ کے انتخاب کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ لہذا اب اللہ کا کام یہ نہیں کہ ہر ایک کو ہدایت کی راہ پر لانے پر مجبور کردے۔ بلکہ یہ ہے کہ جس راہ پر کوئی چلتا ہے۔ اسی راستہ کے لئے اسے توفیق دے دے۔ [ ١٥] اللہ تعالیٰ کی تمام جاندار مخلوق میں سے جن اور انسان دو نوع ایسی ہیں۔ جن کو اللہ نے قوت تمیز اور قوت ارادہ و اختیار بخشی ہے۔ اور یہی دو انواع شریعت الٰہی کی مکلف ہیں۔ انھیں کے لئے یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ انسانوں سے پہلے جنات ہی اس زمین پر آباد تھے۔ جب ان میں سرکشی بڑھی تو اللہ نے ایک دوسری مخلوق انسان کو ان کا جانشین بنادیا۔ پہلے نبوت کا سلسلہ جنوں میں تھا۔ پھر یہ سلسلہ نبوت انسان کی طرف منتقل ہوگیا۔ جو نبی انسانوں کی طرف مبعوث ہوتا وہی جنوں کے لئے بھی ہوتا تھا۔ اور جن بھی بالتبع اسی نبی کی اطاعت کے پابند بنا دیئے گئے۔ لیکن حضرت انسان بھی سرکشی اور انکار حق میں جنوں سے پیچھے نہ رہا۔ دونوں نے اللہ کے عطا کردہ اختیار کا ناجائز اور غلط استعمال کیا۔ دونوں انواع کی اکثریت دنیا پر فریفتہ ہو کر اس امتحان میں فیل ہوگئی۔ جنوں اور انسانوں کے شیاطین نے خلقت کو اللہ کی راہ سے روکنے اور انھیں گمراہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور یہ سب باتیں اللہ کے علم میں پہلے سے موجود نہیں کہ جنوں اور انسانوں کی اکثریت اس امتحان میں ناکام ہو کر جہنم کا ایندھن بنے گی۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے کبھی اس ناکامی کی نسبت اپنی طرف کی ہے کبھی شیاطین جن و انس کی طرف اور کبھی ان گمراہوں کی طرف۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا ۔۔ : یعنی یہ کیا بات ہوئی کہ اب تم حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ایمان لے آؤ اور ہم تمہاری سزا موقوف کردیں، یا تمہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیں۔ اس طرح کی جبری ہدایت تو ہم تمہیں پہلے ہی دے سکتے تھے، مگر اس سے قیامت کی جزا و سزا بےنتیجہ ہو کر رہ جاتی اور امتحان کا مقصد فوت ہوجاتا۔ اب تو ضروری ہے کہ میرا وہ قول پورا ہو جو میں نے ابلیس کے آدم کو سجدے سے انکار کے وقت اسے مخاطب کر کے فرمایا تھا : (قَالَ فَالْحَقُّ ۡ وَالْحَقَّ اَقُوْلُ لَاَمْلَــــَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ اَجْمَعِيْنَ ) [ ص : ٨٤، ٨٥ ] ” فرمایا پھر حق یہی ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں کہ میں ضرور بالضرور جہنم کو تجھ سے اور ان سب لوگوں سے بھر دوں گا جو ان میں سے تیری پیروی کریں گے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ ہُدٰىہَا وَلٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّيْ لَاَمْلَــَٔــنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ۝ ١٣ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ مِلْء) بهرنا) مقدار ما يأخذه الإناء الممتلئ، يقال : أعطني ملأه ومِلْأَيْهِ وثلاثة أَمْلَائِهِ. لمل کسی چیز کی اتنی مقدار جس سے کوئی بر تن بھر جائے محاورہ ہے : ۔ اعطنی ملاءہ وملاء بہ وثلاثۃ املائہ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ جِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] ، وقال تعالی: وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] . ۔ الجنتہ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

مگر اگر ہمیں یہ منظور ہوتا تو ہر ایک شخص کو اس کی نجات کا راستہ عطا فرماتے لیکن میری بات محقق ہوچکی کہ میں جہنم کو جن و انس میں سے جو کافر ہیں سب سے بھروں گا اور اگر یہ نہ ہوتا تو پھر میں ہر ایک شخص کو معرفت و توحید سے سرفراز فرماتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ (وَلَوْ شِءْنَا لَاٰتَیْنَا کُلَّ نَفْسٍ ہُدٰٹہَا) اگر ہمیں اسی طرح آخرت کے پردے اٹھا کر اور عالم غیب کا مشاہدہ کروا کر لوگوں کو ہدایت دینا مقصود ہوتا تو ہم یہ کام دنیا میں ہی کردیتے اور اس طرح تمام انسانوں کو راہ ہدایت پر لے آتے۔ بہر حال ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب انہیں سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر یقین آجائے گا تو اس وقت انہیں اس ایمان اور یقین کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا ‘ کیونکہ اس وقت ان کی امتحانی مہلت ختم ہوچکی ہوگی۔ (وَلٰکِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّیْ لَاَمْلَءَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ والنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ) جنوں اور انسانوں میں سے جو بھی ہمارے باغی ہیں وہ سب ضرور جہنم کا ایندھن بنیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

23 That is, "Had it been Our will w give guidance to the people after having made them observe and experience the reality, We would not have brought you here after making you undergo this hard test in the world. We could have given you such guidance even before. But We had a different scheme for you from the very beginning. We wanted to test you by keeping the reality hidden from your eyes and senses in order to see whether you could recognize it by your intellect after perceiving its signs in the universe and in your own selves or not, whether you could take advantage of the help that We provided to you through Our Prophets and Our Books to recognize the reality or not, and whether after knowing the reality you could attain such control over your self or not that you should free yourselves from the service of your desires and lusts and believe in the reality and mend your ways and attitudes accordingly. You have failed in this test. Now setting the same test once again will be useless. If the second test is set in a condition when you remember everything that you have seen and heard here, it will be no test at all. And if, like before, you arc given re-birth in the world, while you do not remember anything and the reality is kept hidden from you, and you are set the test once again as before the result will not be, any different. " (For further explanation, sec Al-Baqarah: 210, Al-An`am: 7-9, 27-28, 158; Yunus: 19; AI-Mu'minun: 99-100). 24 The allusion is to what Allah had said, addressing Satan, at the creation of Adam: In vv. 69-88 of Surah Sad the whole story of that time has been related. When Satan refused to prostrate himself before Adam and asked for respite till Resurrection in order to seduce mankind, Allah had replied: "The truth is this, and the truth only I speak, that I shall fill Hell with you and all those who follow you from among mankind. " The word ajma'in (all together) here does not mean that alI jinns and all men will be cast into Hell, but it means that the satans and the men who follow them, will be cast into Hell all together.

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :23 یعنی اس طرح حقیقت کا مشاہدہ اور تجربہ کرا کر ہی لوگوں کو ہدایت دینا ہمارے پیش نظر ہوتا تو دنیا کی زندگی میں اتنے بڑے امتحان سے گزار کر تم کو یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی ‘ ایسی ہدایت تو ہم پہلے ہی تم کو دے سکتے تھے لیکن تمہارے لیے تو آغاز ہی سے ہماری اسکیم یہ نہ تھی ہم تو حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل اور حواس سے مخفی رکھ کر تمہارا امتحان لینا چاہتے تھے کہ تم براہ راست اس کو بے نقاب دیکھنے کے بجائے کائنات میں اور خود اپنے نفس میں اس کی علامات دیکھ کر اپنی عقل سے اس کو پہچانتے ہو یا نہیں ، ہم اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے اس حقیقت شناسی میں تمہاری جو مدد کرتے ہیں اس سے فائدہ اٹھاتے ہو یا نہیں ، اور حقیقت جان لینے کے بعد اپنے نفس پر اتنا قابو پاتے ہو یا نہیں کہ خواہشات اور اغراض کی بندگی سے آزاد ہو کر اس حقیقت کو مان جاؤ اور اس کے مطابق اپنا طرز عمل درست کر لو ۔ اس امتحان میں تم ناکام ہو چکے ہو ۔ اب دوبارہ اسی امتحان کا سلسلہ شروع کرنے سے کیا حاصل ہو گا ۔ دوسرا امتحان اگر اس طرح لیا جائے کہ تمہیں وہ سب کچھ یاد ہو جو تم نے یہاں دیکھ اور سن لیا ہے تو یہ سرے سے کوئی امتحان ہی نہ ہو گا ۔ اگر پہلے کی طرح تمہیں خالی الذہن کر کے اور حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل رکھ کر تمہیں پھر دنیا میں پیدا کر دیا جائے اور نئے سرے سے تمہارا اسی طرح امتحان لیا جائے جیسے پہلے لیا گیا تھا ، تو نتیجہ پچھلے امتحان سے کچھ بھی مختلف نہ ہو گا ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل ، صفحات ۱٦۰ ۔ ۱٦۱ ۔ ۵٦۵ ۔ ٦۲۵ ۔ ۵۳۲ ۔ ٦۰۳ ۔ ٦۰٤ ۔ جلد دوّم ص ، ۲۷٦ ۔ جلد سوّم ص ۳۰۰ ) سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :24 اشارہ ہے اس قول کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم علیہ السلام کے وقت ابلیس کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا تھا ۔ سورہ ص کے آخری رکوع میں اس وقت کا پورا قصہ بیان کیا گیا ہے ۔ ابلیس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور نسل آدم کو بہکانے کے لیے قیامت تک کی مہلت مانگی ۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فَالْحَقُّ وَالْحَقَّ اَقُوْلُ لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ پس حق یہ ہے اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں کہ جہنم کو بھر دوں گا تجھ سے اور ان لوگوں سے جو انسانوں میں سے تیری پیروی کریں گے ۔ اَجْمَعِیْنَ کا لفظ یہاں اس معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے کہ تمام جن اور تمام انسان جہنم میں ڈال دیے جائیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے شیاطین اور ان شیاطین کے پیرو انسان سب ایک ساتھ ہی وصل جہنم ہوں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: یعنی اگر اللہ تعالیٰ زبردستی لوگوں کو ہدایت پر لانا چاہتے تو وہ ضرور ایسا کرسکتے تھے، لیکن اس صورت میں وہ آزمائش نہ ہوتی جو انسان کی تخلیق کا اصل مقصد ہے، انسان کی آزمائش تو اسی میں تھی کہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر پیغمبروں کی بات پر ایمان لائے، جنت اور جہنم کا آنکھ سے نظارہ کرلینے کے بعد اس پر زبردستی ایمان لانے میں کوئی آزمائش نہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے اس آزمائش کی خاطر انسان کو پیدا کرکے ازل ہی میں یہ طے کرلیا تھا کہ جو لوگ عقل سے کام لے کر پیغمبروں کی اطاعت نہیں کریں گے ؛ بلکہ ان کو جھٹلائیں گے، اُن سے میں جہنم کو بھردوں گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(32:13) ولو شئنا۔ میں نا ضمیر جمع متکلم اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے۔ شئنا ماضی جمع متکلم شاء یشاء (سمع) شاء اصل میں شیء تھا۔ ی متحرک ما قبل مفتوح ہے اسلئے ی کو الف سے بدلا گیا۔ شائہوگیا اس کا مصدر مشیئۃ (چاہنا) ۔ ولو شئنا۔ اور اگر ہم چاہتے لاتینا۔ میں لام تاکید لو کا جواب میں ہے۔ اتینا۔ ماضی جمع متکلم ہم نے دیا۔ ہم نے بخشاء ایتاء (افعال) مصدر۔ (اگر ہم چاہتے) تو ہم عطا کردیتے۔ ھدھا۔ مضاف مضاف الیہ۔ اس کی ہدایت۔ اس کی (راہ) ہدایت۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع نفس ہے۔ حق۔ ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ اس کا فاعل القول ہے۔ حق یحق حق وحقۃ (باب ضرب) سے ثابت ہونا۔ یقینی ہونا یعنی میرا یہ قول یقینی ہے۔ یا محقق ہوچکا ہے۔ لاملئن ۔۔ اجمعین ۔ یہ ہے وہ قول۔ لاملئن مضارع بلام تاکید ونون ثقیلہ تاکید۔ ملأ یملأ سلأ مصدر سے (باب فتح) بھرنا۔ مل مادہ۔ میں ضرور بھر دوں گا۔ مملوء بھرا ہوا۔ الجنۃ والناس۔ میں الف لام عہد کا ہے۔ مراد ہے جنوں اور انسانوں میں سے سرکش اور باغی۔ جیسا کہ شیطان کے قول : فیعزتک لاغوینھم اجمعین الا عبادک منھم المخلصین (38:8485) کے جواب میں ارشاد باری تعالیٰ ہے قال فالحق والحق اقول لا ملئن جھنم منک وممن تبعک منہم اجمعین (38:8485) یعنی اے شیطان ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میرے بندوں سے جو بھی تیری تابعداری کرے گا۔ میں ان سب کو تیرے سمیت جہنم میں بھردونگا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی یہ کیا بات ہوئی کہ اب تم حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ایمان لے آئو اور ہم تمہاری سزا موقوف کردیں یا تمہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیں، اس طرح کی جبری ہدایت تو تمہیں پہلے ہی دے سکتے تھے مگر اس سے قیامت یک دن کی جزا سزا بےنتیجہ ہو کر رہ جاتی اور امتحان کا مقصد ہی فوت ہوجاتا۔ اب تو ضروری ہے کہ میرا وہ قول پورا جو میں نے تخلیق آدم کے وقت ابلیس کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا یعنی ( فالحق والحق اقول لا ملان جھنم منک وممن تبعک منعم اجمعین) (ھی : 85) پس حق یہ ہے کہ میں حق بات ہی کہتا ہوں کہ میں جہنم کو تجھ سے اور تیری پیروی کرنے والوں سب سے بھروں گا ( قرطبی، ابن کثیر)2 یعنی دنیا کے عیش و آرام میں پھنس کر اس دن کے آنے کا خیال تک تمہار ذہنوں میں نہ آتا تھا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مجرموں کی درخواست کے جواب میں اللہ تعالیٰ کا حکم۔ مجرموں کو مزید احساس دلانے اور ذلیل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت دے دیتے لیکن میرا فرمان سچ ثابت ہوا کہ میں جہنم کو بہت سے جنوں اور انسانوں سے بھروں گا لہٰذا اب جہنم کا عذاب چکھو اس لیے کہ تم میری ملاقات کو فراموش کرچکے تھے لہٰذا ہم نے بھی تمہیں فراموش کردیا ہے بس اب تم اپنے کیے کے بدلے میں ہمیشہ کا عذاب سہتے رہو۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تین ارشادات فرمائے ہیں۔ 1 اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمام جنوں اور انسانوں کو ہدایت سے سرفراز کردیتا چاہنے سے مراد جبراً ہدایت دینا ہے اللہ تعالیٰ نے جن وانس کو اچھائی اور برائی کا شعور دے کر یہ اختیار بخشا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اچھائی کریں یا برائی کریں۔ جہنم میں داخل ہونے والوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشادات کو فراموش کیا اور دنیا کو مقدم سمجھا جس وجہ سے انہیں جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ 2 یہاں مجرمین کے لیے ” اَجْمَعِیْنَ “ کا لفظ استعمال کیا ہے جس سے مراد تمام کے تمام نافرمان جنّ اور انسان ہیں۔ 3 اللہ تعالیٰ کا کسی کو فراموش کرنے کا یہ معنٰی نہیں کہ خاکم بدھن کہ اللہ تعالیٰ بھی بھول جاتا ہے۔ فراموش کرنے کا معنٰی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہمیشہ کے لیے اپنی رحمت سے دور کر دے گا اور ان پر نظر کرم نہیں فرمائے گا۔ (عَنْ أَبِیْ الدَّرْدَاءِ قَالَ قَا لَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُلْقٰی عَلَی أَہْلِ النَّارِ الْجُوْعُ فَیَعْدِلُ مَا ہُمْ فِیْہِ مِنَ الْعَذَابِ فَیَسْتَغِیْثُوْنَ فَیُغَاثُوْنَ بِطَعَامٍ مِنْ ضَرِیْعٍ لاَ یُسْمِنُ وَلاَ یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ فَیَسْتَغِیْثُوْنَ بالطَّعَامِ فَیُغَاثُوْنَ بِطَعَامٍ ذِیْ غُصَّۃٍ فَیَذْکُرُوْنَ أَنَّہُمْ کَانُوْا یُجِیْزُوْنَ الْغُصَصَ فِیْ الدُّنْیَا بالشَّرَابِ فَیَسْتَغِیْثُوْنَ بالشَّرَابِ فَیُرْفَعُ إِلَیْہِمُ الْحَمِیْمُ بِکَلاَلِیْبِ الْحَدِیْدِ فَإِذَا دَنَتْ مِنْ وُجُوْہِہِمْ شَوَتْ وُجُوْہَہُمْ فَإِذَا دَخَلَتْ بُطُوْنَہُمْ قَطَّعَتْ مَا فِیْ بُطُوْنِہِمْ فَیَقُوْلُوْنَ ادْعُوْا خَزَنَۃَ جَہَنَّمَ فَیَقُوْلُوْنَ أَلَمْ تَکُ تَأْتِیْکُمْ رُسُلُکُمْ بالْبَیِّنَاتِ قَالُوْا بَلٰی قَالُوْا فَادْعُوْا وَمَا دُعَاءُ الْکَافِرِیْنَ إِلاَّ فِیْ ضَلاَلٍ قَالَ فَیَقُوْلُوْنَ ادْعُوْا مَالِکًا فَیَقُوْلُوْنَ (یَا مَالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّکَ ) قَالَ فَیُجِیْبُہُمْ (إِنَّکُمْ مَاکِثُوْنَ ) قَالَ الأَعْمَشُ نُبِّءْتُ أَنَّ بَیْنَ دُعَاءِہِمْ وَبَیْنَ إِجَابَۃِ مَالِکٍ إِیَّاہُمْ أَلْفَ عَامٍ قَالَ فَیَقُوْلُوْنَ ادْعُوْا رَبَّکُمْ فَلاَ أَحَدَ خَیْرٌ مِنْ رَبِّکُمْ فَیَقُوْلُوْنَ (رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَکُنَّا قَوْمًا ضَالِّیْنَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْہَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُوْنَ ) قَالَ فَیُجِیْبُہُمْ (اخْسَءُوْا فِیْہَا وَلاَ تُکَلِّمُوْنِ ) قَالَ فَعِنْدَ ذَلِکَ یَءِسُوْا مِنْ کُلِّ خَیْرٍ وَعِنْدَ ذَلِکَ یَأْخُذُوْنَ فِیْ الزَّفِیْرِ وَالْحَسْرَۃِ وَالْوَیْلِ ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ طَعَامِ أَہْلِ النَّارِ ] ” حضرت ابی دردا (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جہنمیوں پر بھوک مسلط کردی جائے گی اور وہ بھوک اس عذاب کے برابر ہوگی جس میں وہ مبتلا ہوں گے وہ کھانا طلب کریں گے تو انہیں کھانے میں سوکھی گھاس دی جائے گی جس سے نہ وہ موٹے ہو نگے اور نہ ان کی بھوک دور ہوگی وہ کھانا طلب کریں گے تو انہیں ایسا کھانا دیا جائے گا کہ ان کے حلق میں اٹک جائے گا۔ وہ کہیں گے کہ دنیا میں جب کھانا حلق میں اٹک جاتا تھا تو ہم پانی کے ساتھ اسے نیچے اتارتے تھے۔ پانی طلب کریں گے تو انہیں گرم پانی لوہے کے برتنوں میں دیا جائے گا جب وہ اسے اپنے چہروں کے قریب کریں گے تو ان کے چہرے جھلس جائیں گے اور جب اسے اپنے پیٹ میں داخل کریں گے تو ان کے پیٹ کٹ کے رہ جائیں گے وہ جہنم کے دروغے سے فریاد کریں گے انہیں جواب دیا جائے گا کیا تمہارے پاس رسول معجزات لے کر نہیں آئے تھے جہنمی جواب دیں گے ہاں ! تو فرشتے کہیں گے تم چیختے چلاتے رہو تمہاری فریاد رائیگاں جائے گی وہ کہیں گے مالک کو پکارو تو جہنمی مالک کو پکاریں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کہے کہ ہمارے مرنے کا فیصلہ فرما دے انہیں جواب دیا جائے گا تم ہمیشہ اسی میں رہو گے حدیث بیان کرنے والے اعمش نے کہا ان کو جہنم کے کنٹرولر فرشتے مالک کی طرف سے ایک ہزار سال کے بعد جواب دیا جائے گا۔ دوزخی آپس میں کہیں گے کہ اپنے پروردگار کو پکارو تمہارے رب سے بہتر کوئی نہیں تو وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم پر ہماری بدبختی غالب آگئی اور ہم گمراہ تھے اے ہمارے پروردگار ہمیں اس جہنم سے نکال دے اگر ہم دوبارہ ایسے اعمال کریں تو ہم ظالم ہوں گے۔ انہیں جواب دیا جائے گا اسی دوزخ میں رہو اور ہم سے کوئی بات نہ کرو اب وہ ہر بھلائی سے ناامید ہوجائیں گے اور آہ وزاریاں کریں گے اور کھانے پینے پر حسرت کا اظہار کریں گے اور واویلا کرتے رہیں گے۔ “ مسائل ١۔ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو جبراً ہدایت دینا چاہتا تو کوئی شخص گمراہ نہ ہوتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نافرمان جنوں اور انسانوں کو جہنم میں داخل کرے گا۔ ٣۔ جو لوگ قیامت کو فراموش کریں گے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں فراموش کردے گا۔ ٤۔ کفار اور مشرکین ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کی جہنم میں آہ زاریاں : ١۔ اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی دیر کے لیے مہلت دے ہم تیری دعوت قبول اور تیرے رسول کی بات کو تسلیم کریں گے۔ (ابراہیم : ٤٤) ٢۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ : ١٢) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧) ٤۔ اے ہمارے رب ! ہمیں یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المومنون : ١٠٧) ٥۔ جب بھی جہنم سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو دوبارہ لوٹائے جائیں گے۔ (السجدۃ : ٢٠) ٦۔ ہر جہنمی کی خواہش ہوگی کہ اسے دنیا میں واپس بھیج دیا جائے۔ (الانعام : ٢٧ تا ٢٨) ٧۔ اے رب ہمارے ! ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧) ٨۔ جب بھی ارادہ کریں گے کہ ہم نکلیں جہنم سے تو اس میں واپس لوٹائے جائیں گے۔ (الحج : ٢٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ ولو شئنا الخ۔ یہ مشرکین کے قول فارجعنا کا جواب ہے حاصل یہ ہے کہ اگر انہیں دنیا میں واپس بھیج دیا جائے تو پھر بھی وہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے کیونکہ انہوں نے ضد اور عناد اور سوء اختیار سے گمراہی کا راستہ اختیار کیا تھا۔ اگر ہم چاہتے تو زبردستی ہر انسان کو راہ ہدایت پر جمع کردیتے۔ لیکن یہ حکمت ابتلاء کے خلاف تھا نیز ہم فیصلہ کرچکے ہیں کہ شیطان کی پیروی کرنے والے انسانوں اور جنوں سے جہنم کو بھرنا ہے اس لیے یہ ناممکن ہے کہ یہ کفار و مشرکین دوبارہ دنیا میں جا کر راہ ہدایت اختیار کریں فموجب ذالک القول نشا اعطاء الھدی علی العموم بل منعناہ من اتباع ابلیس الذین انتم من جملتہم حیث صرفتم اختیارکم الی الغی باغوائہ الخ (ابو السعود ج 6 ص 755) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

13۔ اور اگر ہم چاہے تو ہر شخص کو اس کی صحیح راہ عنایت کردیتے لیکن میرا و ہ وعدہ اور میری وہ کہی بات محقق اور پوری ہو کر رہی کہ میں جنات اور انسان دونوں سے جہنم کو بھردوں گا ۔ مطلب یہ ہے کہ ہم کسی کو مجبور اور مضطر کر کے اگر ہدایت دینا چاہتے تو سب کو راہ راست پر لگا دیتے لیکن ہماری مصلحت اور حکمت مقتضی نہ تھی کہ سب کو بجبر واکراہ اس ہدایت پر زبردستی قائم کیا جائے جس کو موصول الی المطلوب کہتے ہیں اور جس طرح اس ہدایت سے نوازا جس کو ارادۃ الطریق کہتے ہیں اسی طرح ان کو ہدایت بمعنی ایصال الی المطلوب سے با لجبر نواز سکتے تھے مگر ایسا اکراہ ہم نے پسند نہیں کیا اور وہ قول اور وعدہ پورا اور محقق ہو کر رہا کہ میں نافرمانوں کو خواہ وہ جنات یعنی شیاطین ہوں یا ان کے متبعین انسان ہوں سب سے جہنم کو پر کردوں گا اور بھردوں گا ۔ ہم سورة انعام میں عرض کرچکے ہیں کہ ان کی واپسی مفید نہ ہوگی ۔ ولور دوالعادو المانھوا عنہ اس لئے واپسی نہیں ہوسکتی اور واپسی کا کوئی یامکان نہیں۔