Surat Assajdah

Surah: 32

Verse: 18

سورة السجدة

اَفَمَنۡ کَانَ مُؤۡمِنًا کَمَنۡ کَانَ فَاسِقًا ؕ ؔلَا یَسۡتَوٗنَ ﴿۱۸﴾؃

Then is one who was a believer like one who was defiantly disobedient? They are not equal.

کیا وہ جو مومن ہو مثل اس کے ہے جو فاسق ہو؟ یہ برابر نہیں ہو سکتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Believer and the Rebellious are not equal Allah says; أَفَمَن كَانَ مُوْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا لاَّ يَسْتَوُونَ Is then he who is a believer like him who is a rebellious! Not equal are they. Allah tells us that in His justice and generosity, on the Day of Judgement He will not judge those who believed in His signs and followed His Messengers, in the same w... ay as He will judge those who rebelled, disobeyed Him and rejected the Messengers sent by Allah to them. This is like the Ayat: أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُواْ السَّيِّيَـتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَـتِ سَوَاءً مَّحْيَـهُمْ وَمَمَـتُهُمْ سَأءَ مَا يَحْكُمُونَ Or do those who earn evil deeds think that We shall hold them equal with those who believe and do righteous good deeds, in their present life and after their death Worst is the judgement that they make. (45:21) أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَـتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِى الاٌّرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ Shall We treat those who believe and do righteous good deeds as corruptors on earth! Or shall We treat those who have Taqwa as the wicked! (38:28) لااَ يَسْتَوِى أَصْحَـبُ النَّارِ وَأَصْحَـبُ الْجَنَّةِ Not equal are the dwellers of the Fire and the dwellers of the Paradise... (59:20) Allah says: أَفَمَن كَانَ مُوْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا لاَّ يَسْتَوُونَ Is then he who is a believer like him who is a rebellious! Not equal are they. i.e., before Allah on the Day of Resurrection. Ata' bin Yasar, As-Suddi and others mentioned that this was revealed concerning Ali bin Abi Talib and Uqbah bin Abi Mu`it. Hence Allah has judged between them when He said:   Show more

نیک وبد دونوں ایک دوسرے کے ہم پلہ نہیں ہوسکتے اللہ تعالیٰ کے عدل وکرم کا بیان ان آیتوں میں ہے کہ اس کے نزدیک نیک کار اور بدکاربرابر نہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَاۗءً مَّحْيَاهُمْ...  وَمَمَاتُهُمْ ۭ سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ 21؀ۧ ) 45- الجاثية:21 ) یعنی کیا ان لوگوں نے جو برائیاں کررہے ہیں یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں ایمان اور نیک عمل والوں کی مانند کردیں گے؟ ان کی موت زیست برابر ہے ۔ یہ کیسے برے منصوبے بنا رہے ہیں ۔ اور آیت میں ہے ( اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ 28؀ ) 38-ص:28 ) یعنی ایماندار نیک عمل لوگوں کو کیا ہم زمین کے فسادیوں کے ہم پلہ کردیں؟ پرہیزگاروں کو گنہگاروں کے برابر کردیں؟ اور آیت ( لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ 20؀ ) 59- الحشر:20 ) دوزخی اور جنتی برابر نہیں ہوسکتے ۔ یہاں بھی فرمایا کہ مومن اور فاسق قیامت کے دن ایک مرتبہ کے نہیں ہوں گے ۔ کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ اور عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ پھر ان دونوں قسموں کا تفصیلی بیان فرمایا کہ جس نے اپنے دل سے کلام اللہ کی تصدیق کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا تو انہیں وہ جنتیں ملیں گی جن میں مکانات ہیں بلند بالا خانے ہیں اور رہائش آرام کے تمام سامان ہیں ۔ یہ ان کی نیک اعمالی کے بدلے میں مہمانداری ہوگی ۔ اور جن لوگوں نے اطاعت چھوڑی ان کی جگہ جہنم میں ہوگی جس میں سے وہ نکل نہ سکیں گے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ اُعِيْدُوْا فِيْهَا ۤ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ 22؀ۧ ) 22- الحج:22 ) یعنی جب کبھی وہاں کے غم سے چھٹکارا چاہیں گے دوبارہ وہیں جھونک دئیے جائیں گے ۔ حضرت فضیل بن عیاض فرماتے ہیں واللہ ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہونگے آگ شعلے انہیں اوپر نیچے لے جا رہے ہونگے فرشتے انہیں سزائیں کررہے ہونگے اور جھڑک کر فرماتے ہونگے کہ اس جہنم کے عذاب کا لطف اٹھاؤ جسے تم جھوٹا جانتے تھے ۔ عذاب ادنی سے مراد دنیوی مصیبتیں آفتیں دکھ درد اور بیماریاں ہیں یہ اس لئے ہوتی ہیں کہ انسان ہوشیار ہوجائے اور اللہ کی طرف جھک جائے اور بڑے عذابوں سے نجات حاصل کرے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد گناہوں کی وہ مقرر کردہ سزائیں ہیں جو دنیا میں دی جاتی ہیں جنہیں شرعی اصطلاح میں حدود کہتے ہیں ۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عذاب قبر ہے ۔ نسائی میں ہے کہ اس سے مراد قحط سالیاں ہیں ۔ حضرت ابی فرماتے ہیں چاند کا شق ہوجانا دھویں کا آنا اور پکڑنا اور برباد کن عذاب اور بدر والے دن ان کفار کا قید ہونا اور قتل کیا جانا ہے ۔ کیونکہ بدر کی اس شکست نے مکے کے گھر گھر کو ماتم کدہ بنادیا تھا ۔ ان عذابوں کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے ۔ پھر فرماتا ہے جو اللہ کی آیتیں سن کر اس کی وضاحت کو پاکر ان سے منہ موڑلے بلکہ ان کا انکار کرجائے اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا ؟ حضرت قتادۃ فرماتے ہیں اللہ کے ذکر سے اعراض نہ کرو ایسا کرنے والے بےعزت بےوقعت اور بڑے گنہگار ہیں ۔ یہاں بھی فرمان ہوتا ہے کہ ایسے گنہگاروں سے ہم ضرور انتقام لیں گے ۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے تین کام جس نے کئے وہ مجرم ہوگیا ۔ جس نے بےوجہ کوئی جھنڈا باندھا ، جس نے ماں باپ کا نافرمانی کی ، جس نے ظالم کے ظلم میں اس کا ساتھ دیا ۔ یہ مجرم لوگ ہیں اور اللہ کا فرمان ہے کہ ہم مجرموں سے باز پرس کریں گے اور ان سے پورا بدلا لیں گے ۔ ( ابن ابی حاتم )   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

181یہ استفہام انکاری ہے یعنی اللہ کے ہاں مومن اور کافر برابر نہیں ہیں بلکہ ان کے درمیان بڑا فرق و تفاوت ہوگا مومن اللہ کے مہمان ہوں گے۔ اور اعزازو کرام کے مستحق اور فاسق و کافر تعزیر و عقوبت کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے جہنم کی آگ میں جھلسیں گے۔ اس مضمون کو دوسرے مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً (اَم... ْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَاۗءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۭ سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ ) 45 ۔ الجاثیہ :21) (اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ ) 38 ۔ ص :28) (لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ ) 59 ۔ الحشر :20) وغیرہ۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢١] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فاسق کو مومن کی عین ضد کے طور پر بیان فرمایا، یعنی مومن اور فاسق برابر کیا ہوں گے یہ تو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جیسے دن کے مقابلہ میں رات ہوتی ہے، یعنی مومن اگر ایماندار ہے تو فاسق بےایمان ہوگا۔ مومن اگر اللہ کا مطیع فرمان ہے تو فاسق اللہ کا باغی ہوگا۔ تو جس طرح یہ اپنے...  اعمال کے لحاظ سے ایک دوسرے کی عین ضد ہیں۔ اس طرح اخروی اجر کے لحاظ سے بھی ان کا معاملہ ایسا ہی ہوگا۔ چناچہ اگلی دو آیات میں انہی دونوں قسم کے لوگوں کا انجام اور ان کو ملنے والی جزاء و سزا کا ذکر کیا گیا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا ۔۔ : ” فِسْقٌ“ کا لفظ ” فَسَقَتِ الثَّمَرَۃُ “ سے نکلا ہے، جب پھل پھٹ کر چھلکے سے نکل جائے، پھر اطاعت سے نکل جانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ یہ لفظ نافرمان مومن پر بھی بولا جاتا ہے اور کافر پر بھی، جیسا کہ فرمایا : (وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُول... ٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ ) [ النور : ٥٥ ] ” جس نے اس کے بعد کفر کیا تو یہی لوگ نافرمان ہیں۔ “ اس آیت میں فاسق سے مراد کافر و مشرک ہے، کیونکہ مومن کے مقابلے میں آ رہا ہے۔ کفار کے لیے عذاب کی وعید اور مومنوں کے لیے نعمتوں کی نوید کا ذکر آیا تو اس پر کوئی کج بحث کہہ سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں کیا کمی ہے، وہ چاہے تو جس طرح دنیا میں اس نے مومن و کافر سبھی کو اپنی نعمتیں دے رکھی ہیں، آخرت میں بھی دونوں کو نواز دے۔ فرمایا، یہ تو عدل و حکمت ہی کے خلاف ہے، بھلا ایک ماننے والا اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو نہ ماننے والا ہے ؟ ایک مطیع و فرماں بردار شخص اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو نافرمان اور باغی ہے ؟ دونوں کبھی برابر نہیں ہوسکتے، نہ دنیا میں ان کی زندگی کا انداز ایک ہے، نہ موت کے وقت اور نہ آخر ت میں ایک ہوگا۔ اس مضمون کی آیات کے لیے دیکھیے سورة صٓ (٢٨) ، حشر (٢٠) اور جاثیہ (٢١) یہ آخرت کے ثواب و عقاب کی نہایت عمدہ دلیل ہے، کیونکہ اگر اس دنیا کے بعد کوئی دوسری زندگی نہ ہو تو نیک و بد سب یکساں ہوجائیں اور نیک و بد کا یکساں ہوجانا پروردگار عالم کی حکمت کے بالکل خلاف ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا۝ ٠ ۭؔ لَا يَسْـتَوٗنَ۝ ١٨۬ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی:...  وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔ استوا أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] ( س و ی ) المسا واۃ کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

لہذا اب بتا کہ جو شخص سچا مسلمان ہوگیا یعنی حضرت علی تو کیا وہ منافق یعنی ولید بن عقبہ بن ابی محی جیسا ہوجائے گا۔ شان نزول : اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا (الخ) واحدی اور ابن عساکر نے سعید بن جبیر کے طریق سے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ ولید بن عقبہ بن معیط نے حضرت علی سے کہا ... کہ میں آپ سے ہتھیار کے اعتبار سے بھی تیز اور زبان کے اعتبار سے بڑھ کر اور لشکر کے اعتبار سے بھی بڑا ہوں۔ حضرت علی نے اس سے فرمایا خاموش ہوجا تو فاسق ہے اور اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور ابن عدی اور خطیب نے اپنی تاریخ میں کلبی اور ابو صالح کے واسطے سے حضرت ابن عباس سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور خطیب اور ابن عساکر نے ابن لہیعہ، عمرو بن دینار کے واسطہ سے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت حضرت علی اور عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ ان دونوں کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہوگئی تھی۔ اور اسی طرح اس روایت میں ہے کہ یہ آیت عقبہ بن ولید کے بارے میں نازل ہوئی ہے ولید کے بارے میں نہیں نازل ہوئی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30 Here mu min (believer) and Fasiq (sinner) have been used as two contrasting terms. Mu 'min is he who believes in Allah as his Lord and the One and only Deity and adopts obedience of the Law which AIlah has sent down through His Prophets. Contrary to this, Fasiq is he who adopts the attitude of fisq (disobedience, rebellion, independence and obedience to others than Allah). 31 That is, "They ca... n neither have the same way of thinking and life in the world nor can they be treated alike by God in the Hereafter."  Show more

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :30 یہاں مومن اور فاسق کی دو متقابل اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں ۔ مومن سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو اپنا رب واحد مان کر اس قانون کی اطاعت اختیار کر لے جو اللہ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے بھیجا ہے ۔ اس کے برعکس فاسق وہ ہے جو فسق ( خروج از طاعت ، یا با الفاظ د... یگر بغاوت ، خود مختاری اور اطاعت غیر اللہ ) کا رویہ اختیار کرے ۔ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :31 یعنی نہ دنیا میں ان کا طرز فکر و طرز حیات یکساں ہو سکتا ہے اور نہ آخرت میں ان کے ساتھ خدا کا معاملہ یکساں ہو سکتا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٨ تا۔ ٢٠۔ اس آیت شریف میں اللہ تعالیٰ اپنے عدل اور انصارف سے آگاہ فرماتا ہے کہ کیا وہ شخص جو خدا کی آیتوں کی تصدیق اور رسولوں کی فرمانبرداری کرتا ہے قیامت کے روز مانند اس شخص کے ہے جو کہ خدا کا نافرمان ہے ہرگز دونوں برابر نہیں ہوسکتے کیوں کہ جنہوں نے اچھے کام کئے ان کے لیے باغ رہنے کے لیے ہیں جن می... ں بالا خانے ہیں بہ سبب کہ اس کا بدلہ ہے وہ دنیا میں نیک عمل کرتے تھے اسی طرح جن لوگوں نے نافرمانی کی ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے پھر جب وہ اس آگ سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو اسی کے اندر پھر ڈال دئے جاویں گے ‘ اور ان سے کہا جائے گا کہ وہی آگ ہے جس کو تم دنیا میں جھٹلاتے تھے اس لیے اب اسی اس کا مز چکھو ‘ معتبر سند سے مسند امام احمد اور مسند بزار میں بابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کم سے کم دوزخ کا عذاب جس بھی ١ ؎ ہے (١ ؎ الترغیب والترہیب ص ٤٨٧ ج ٤۔ فصل فی قفاد تہم فی العذاب وذکر اہو نہم عذابا۔ ) اور معتبر سند سے اسی مضمون کو ابوہریرہ (رض) سے ایک روایت طبرانی میں بھی ہے صحیح مسلم اور مستدرک حاکم میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایتیں ٢ ؎ ہیں (٢ ؎ ایضا فصل فیمالا دنی اہل الجنۃ فیہاص ٥٠١‘ ٥٠٦ ج ٤) جن میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ادنیٰ اہل جنت کو تمام دنیا سے دس گنا لساز و سامان دے دیا جائے گا ان حدیثوں سے اہل دوزخ اور اہل جنت کے برابر نہ ہونے کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(32:18) مومنا وفاسقا بوجہ خبر کان منصوب ہیں۔ فاسق فسق یفسق (ضرب) وفسق یفسق (نصر) اور فسق یفسق (کرن) فسق و فسوق سے اسم فاعل واحد مذکر ہے (لیکن مؤمنا وفاسقا سے یہاں مراد طبقہ مومنین و طبقہ فاسقین ہے) ۔ فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائرہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں۔ یہ فسق الرطب (کھجور پک کر اپنے چھلکے س... ے باہر نکل آئی) سے ماخوذ ہے۔ شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعجم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگرچہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے ۔ اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام و اقرار کرنے کے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔ اور کافر حقیقی پر فاسق کا لفظ اس لئے بولا جاتا ہے کہ وہ حکم عقل یا فطرت کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ کمن میں کاف تشبیہ کے لئے ہے۔ یستو ون : استوی یستوی استواء (افتعال) مصدر سے مضارع کا صیغہ جمع مذکر غائب لا یستو ون وہ برابر نہیں ہیں ۔ پہلے جملہ کے جواب میں آیا تھا کہ کیا وہ جو مومن ہے وہ اس جیسا ہے جو فاسق ہے ؟ جواب ہے ۔ نہیں۔ وہ یکساں نہیں ہوسکتے اگر پہلا جملہ استفہام انکاری کے معنوں میں لیا جائے تو یہ انکار مزید تاکید کے لئے ہوگا۔ جملہ سابقہ میں مؤمنا اور فاسقا سے مراد طبقہ مؤمنین اور طبقہ فاسقین ہے۔ لہذا اس رعائت سے جمع کا صیغہ لایا گیا ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی قیامت کے روز دونوں کا انجام یکساں نہیں ہوسکتا۔ ( نیز دیکھئے حاشیہ 21، حشر : 20) اور یہ آخرت کے ثواب و عقاب کی نہایت عمدہ دلیل ہے کیونکہ اگر اس دنیا کے بعد کوئی دوسری زندگی نہ ہو تو نیک اور بد سب یکساں ہوجائیں اور نیک و بد کا یکساں ہوجانا پروردگار عالم کی شان کے بالکل خلاف ہے۔ بعض روایات میں...  ہے کہ یہ آیت حضرت علی (رض) اور ولید بن عتبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے (قرطبی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (18 تا 22) ۔ لا یستون (وہ برابر نہیں ہیں) ۔ الماوی (ٹھکانا) ۔ نزلا (مہمان داری۔ مہمان نوازی) ۔ اعیدوا (لوٹا دیئے گئے) ۔ نذیقن (ہم ضرور چکھائیں گے) ۔ الادنی (چھوٹا۔ گھٹیا) ۔ ذکر (یاد دلایا گیا) ۔ اعرض (اس نے منہ پھیرلیا) ۔ منتقمون (انتقام لینے والے۔ بدلہ لینے والے) ۔ تشریح : آیت...  نمبر (18 تا 22) ۔ ” مومن وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے تمام احکامات اور دین کی ہر سچائی کو دل سے قبول کر کے عمل صالح کی زندگی اختیار کرتا ہے۔ اس کے بر خلاف فاسق وہ نافرمان شخص ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے خلاف چلتا ہے۔ جب اس کے سامنے دین کی سچائی اور روشنی آتی ہے تو وہ اس کا انکار کر کے بغاوت اور نافرمانی پر اتر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ دونوں الگ الگ مزاج اور عمل کے لوگ ہیں یہ دونوں برابر کیسے ہو سکتے ہیں ؟ دنیا اور آخرت میں مومن و فاسق کا انجام ایک جیسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لا کر عمل صالح اختیار کرنے والوں کے لئے ایسی جنتیں ہوں گی جو ان کا مستقل ٹھکانا ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کے مشفق و مہربان پروردگار کی طرف سے ہر طرف سے ہر طرح دل داری اور میزبانی ہوگی۔ اسکے بر خلاف وہ لوگ جو دنیا میں فاسق و نافرمان ہوں گے۔ کفروشرک میں مبتلا اور اللہ کے احکامات کے باغی ہوں گے ان کی سزا جہنم کی وہ بھڑکتی آگ میں دھکیل دیں گے اور ان نافرمانوں سے کہیں گے کہ اب تم اپنے کرتوتوں کو سزا بھگتو اور عذاب کا مزہ چکھو۔ فرمایا کہ یہ تو ” عذاب اکبر “ یعنی بڑا عذاب ہوگا جس سے چھٹکارا نہ مل سکے گا لیکن ایسے لوگوں کو آگاہ کرتے اور اپنے اعمال بد سے توبہ کرکے رجوع کرنے کے لئے دنیا میں ” عذاب ادنی “ کم درجہ کا عذاب دیا جائے گا جیسے چھوٹے بڑے نقصانات، ہر چیز میں بےبرکتی، حادثات، ذلت و رسوائی، اجتماعی زندگی میں طوفان، زلزلے، بارشوں کی کمی، قحط سالی، طرح طرح کی وبائیں، بیماریاں، باہمی لڑائی جھگڑے، قتل و غارت گری، فسادات اور بد امنی یہ سب عذاب ادنی ہیں۔ یہ عذاب اس لئے آتے ہیں تاکہ ان جھٹکوں سے بری اور نافرمانی کی راہ پر چلنے والے عقل و سمجھ سے کام لیں۔ لیکن اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئیں اور مرنے سے پہلے اس سے توبہ نہ کریں تو دنیا کے ان معمولی عذابوں کے بعدوہ آخرت کے ابدی عذاب میں مبتلا ہوں گے اور اپنے برے انجام سے دو چار ہوں گے۔ فرمایا کہ اس سے بڑھ کر ظالم اور بےانصاف کون شخص ہوگا جس کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے آگاہی اور یاد دھانی آئی لیکن اس کے باوجود وہ اپنی روشن زندگی سے باز نہیں آیا ؟ فرمایا کی ایسے ظالموں سے اللہ انتقام ضرور لے گا اور ایسے لوگ دنیا اور آخرت میں شدید نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔ اس جگہ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اگر مصیبتیں، مشکلات اللہ کی فرماں برداری اور دین کی سر بلندی میں آئیں تو وہ عذاب نہیں ہوتیں بلکہ دنیا اور آخرت میں درجات کی بلندی اور آخرت میں نجات کا باعث ہیں۔ لیکن اگر اللہ کی نافرمانی اور اللہ کے احکامات سے بغاوت کی وجہ سے یہ تکلیفیں آئیں تو وہ اللہ کی طرف سے سزا کے طور پر ہیں۔ انبیاء کرام (رض) اور ان کے راستے پر چلنے والوں کو جو مشکلات، مصائب پیش آتے ہیں وہ اللہ کی رحمت ہیں اور ان کا آخرت میں بہت بڑا اجر وثواب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں فسق و فجور سے محفوظ فرما کر نیکی اور تقوی کی زندگی اور آخرت کی نجات عطا فرمائے۔ آمین  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آیت ١٠ تا ١٧ میں تابعدار اور نافرمانوں کے کردار اور انجام کا ذکر ہوا ہے اب کھلے الفاظ میں اعلان ہوتا ہے کہ تابعدار اور نافرمان برابر نہیں ہوسکتے۔ اس سے پہلی آیات میں نافرمانوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مٹی سے بنا کر اس کو کان، آنکھیں اور دل دیا ت... اکہ یہ اپنے وجود اور ” اللہ “ کی قدرت کی نشانیاں دیکھ کر اس کا شکر گزار بننے کی کوشش کرے اس کے شکر کی حقیقی صورت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرے اور آخرت میں کامیاب ٹھہرے۔ لیکن نافرمان اور قیامت کے منکر کہتے ہیں کیا ہمیں مرنے کے بعد پھر اٹھایا جائے گا ؟ ایسے لوگوں کے انجام کا ذکر کرتے ہوئے بتلایا کہ ہاں ! نہ صرف انہیں اٹھایاجائے گا بلکہ جہنم میں بھی جھونکا جائے گا۔ ان کے مقابلے میں صاحب ایمان لوگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جونہی ان کے سامنے ان کے رب کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو یہ تکبر کرنے کی بجائے اپنے رب کے حضور سزبسجود ہوتے ہیں۔ رات کو اٹھ اٹھ کر اپنے رب کے حضور خوف اور امید کے جذبات کے ساتھ دعائیں کرتے ہیں اور جو کچھ انہیں عطا کیا گیا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔ ان کے لیے ایسی نعمتیں تیار کی گئی ہیں جن کے بارے میں کسی انسان کے دل میں تصور بھی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس تقابل کے بعد اعلان ہوتا ہے کہ مومن اور فاسق برابر نہیں ہوسکتے۔ ایمان دار اور صاحب کردار لوگوں کے لیے جنت ہے جس میں ان کی مہمان نوازی کی جائے گی اور ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دیا جائے گا۔ جو دنیا میں نافرمان ٹھہرے ان کے رہنے کی جگہ جہنم کی دہکتی ہوئی آگ ہے جب وہ اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو ملائکہ انہیں مارتے اور جھڑکیاں دیتے ہوئے جہنم میں دور تک دھکیل دیں گے۔ ان کی اذیت اور تڑپ میں اضافہ کرنے کے لیے فرشتے اعلان کریں گے کہ بس تم جہنم کی آگ میں جلتے رہو کیونکہ تم قیامت اور جہنم کو جھٹلایا کرتے تھے۔ مسائل ١۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہوسکتے۔ ٢۔ مومنوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا اور ان کے اعمال کی بہترین جزادی جائے گی۔ ٣۔ فاسقوں کا ٹھکانہ جہنم ہوگا انہیں کہا جائے گا کہ ہمیشہ آگ کے عذاب میں مبتلا رہو۔ تفسیر بالقرآن جنتیوں کی جزا اور جہنمیوں کی سزا : ١۔ جنت میں جنتیوں کو ہر نعمت میسر ہوگی جس کی وہ چاہت کریں گے۔ ( الانبیاء : ١٠٢) ٢۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقۃ : ٢٣) ٣۔ یقیناً متقی نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ (الطور : ١٧) ٤۔ جنت میں سونے اور لؤلو کے زیور پہنائے جائیں گے۔ (فاطر : ٣٣) ٥۔ جنتی سبز قالینوں اور مسندوں پر تکیہ لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ (الرحمٰن : ٧٦) ٦۔ جنتیوں کو شراب طہور دی جائے گی۔ (الدھر : ٢١) ٧۔ جہنمیوں کو پیپ اور لہو پلایا جائے گا۔ (ابراہیم : ١٦) ٨۔ جہنمیوں کو آگ کے ستونوں سے باندھ دیا جائے گا۔ (ہمزہ : ٩٠) ٩۔ جہنمیوں کے جسم بار بار بدلے جائیں گے تاکہ انہیں پوری پوری سزادی جاسکے۔ (النساء : ٥٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

افمن کان مؤمنا ۔۔۔۔۔۔ انا من المجرمین منتقمون (18 – 22) مومنین اور فاسقین ، مزاج ، شعور اور طرز عمل کسی چیز میں برابر نہیں ہوتے کہ وہ دنیا و آخرت کی جزاء میں برابر ہوجائیں۔ مومن کی فطرت سیدھی ، سلیم ہوتی ہے اور وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کے سیدھے راستے اور سیدھے نظام کے مطابق زندگی بسر ک... رتے ہیں اور فاسق منحرف ، بےراہ رو ، مفسد فی الارض ، اور اللہ کے سیدھے راستے پر چلنے والے نہیں ہوتے اور نہ اسلامی نظام قانون کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مومن اور فاسق ایک جیسی زندگی بسر نہ کریں اور ان کی زندگی کا انجام ایک نہ ہو ، دنیا اور آخرت میں۔ اور ان میں سے ہر ایک کو دنیا اور آخرت دونوں میں اپنے کیے کے مطابق جزاء و سزا ملے گی۔ وما الذین امنوا ۔۔۔۔۔ الماوی (32: 19) ” جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے ، ان کے لیے تو جنتوں کی قیام گاہیں ہیں “۔ یہ ان قیام گاہوں میں فروکش ہوں گے اور یہ قیام گاہیں ان کو اپنے اندر لے لیں گی۔ یہ ان کے لیے اچھی منزلیں ہوں گی اور ان منازل میں وہ رہیں گے اور یہ بطور جزاء ہوں گے ان کے اعمال حسنہ پر۔ واما الذین فسقوا فماوھم النار (32: 20) ” اور جنہوں نے فسق اختیار کیا ہے ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ وہ اس کی طرف لوٹیں گے اور وہ وہاں سر چھپائیں گے۔ کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔ کلما ارادوآ ان یخرجوا منھا اعیدوا فیھا (32: 20) ” جب کبھی نکلنا چاہیں گے اس میں دھکیل دئیے جائیں “ یہ ایک ایسا منظر ہے جس میں بھرپور دوڑ دھوپ ہے لوگ بھاگ رہے ہیں اور انہیں پکڑ پکڑ کر دوبارہ دوزخ میں ڈالا جا رہا ہے وقیل لھم ۔۔۔۔۔ تکذبون (32: 20) ” اور ان سے کہا جائے گا کہ چکھو اب اسی آگ کے عذاب کا مزہ جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے “۔ یہ ان کی سرزنش ہے۔ ان کو زیادہ ذلیل کرنے اور زیادہ سزا دینے کے لیے۔ یہ ہے آخرت میں انجام فاسق لوگوں کا۔ لیکن ان کو قیامت کے عذاب کے آنے تک مہلت نہیں دے دی گئی۔ ان کو قیامت سے پہلے اس جہاں میں بھی عذاب کی دھمکی دی جاتی ہے۔ ولنذیقنھم من العذاب ۔۔۔۔۔ یرجعون (32: 21) ” اس بڑے عذاب سے پہلے ہم ایسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزا انہیں چکھاتے رہیں گے ، شاید کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے) باز آجائیں۔ لیکن ان چھوٹے موٹے عذابوں کی تہہ میں بھی دراصل اللہ کی رحمت پوشیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں فرماتے کہ اپنے بندوں کو بہرحال عذاب دیں۔ اگر وہ عذاب کے مستحق نہ ہوں۔ اگر وہ عذاب کے معصیات پر اصرار نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرا جھوٹا موٹا عذاب جو بندوں پر آتا رہتا ہے وہ بھی انہیں متنبہ کرنے کے لیے آتا ہے کہ شاید وہ لوٹ آئیں۔ ان کی فطرت جاگ اٹھے اور یہ عذاب انہیں راہ راست پر لے آئے۔ اور اگر وہ باز آجائیں تو وہ اس عذاب اکبر سے بچ جائیں جو ابھی ان کے سامنے گزشتہ منظر میں پیش کردیا گیا ہے۔ اگر ان کو رب تعالیٰ کی آیات کی یاد دہانی کی گئی اور انہوں نے ان سے اعراض کیا اور اس کی وجہ سے ان پر معمولی عذاب آگیا اور پھر انہوں نے عبرت حاصل نہ کی اور اپنی روش سے نہ لوٹے تو اب یہ ظالم ہیں۔ ومن اظلم ۔۔۔۔۔ اعرض عنھا (32: 22) ” اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جسے ہماری آیات سنائی گئیں اور پھر وہ اس دن ان سے منہ پھیرلے “۔ لہٰذا ایسے لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان سے انتقام لیا جائے۔ انا من المجرمین منتقمون (32: 22) ” ایسے مجرموں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے “۔ یہ ایک خوفناک تہدید ہے کہ اللہ جبار اور متکبر یہ دھمکی دے رہا ہے اور وہ اعلان کرتا ہے کہ ایسے مجرموں سے میں انتقام لوں گا۔ اللہ کے مقابلے میں یہ بیچارے ضعیف کر بھی کیا سکیں گے۔ واہ رے اللہ کا انتقام !۔ یہ سبق اب مجرمین اور صالحین ، مومنین اور فاسقین کے انجام پر ختم ہوتا ہے۔ ان دونوں قسم کے لوگوں کا انجام مناظر قیامت کی شکل میں ہے۔ جس کے وقوع میں یہ لوگ شک کرتے تھے۔ اس کے بعد سیاق کلام میں ایک نظر حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کے حالات پر ڈالی جاتی ہے۔ حضرت موسیٰ کو کتاب دی گئی تھی کہ بنی اسرائیل کے لیے کتاب ہدایت ہو جیسا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن دیا گیا ہے کہ یہ مومنین کے لیے ہدایت ہو۔ صاحب قرآن اور صاحب تورات ایک ہی نظریہ حیات پر متفق ہیں اور جس طرح حضرت موسیٰ کے متبعین نے صبر و ثبات سے کام لیا اور ان کو ائمہ ہدایت بنایا گیا تھا اس طرح اگر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی اگر صبر و ثبات سے کام لیں تو وہ بھی امامت کے مستحق ہوں گے امامت کی مستحق امت کی صفات کیا ہوتی ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مومن اور فاسق برابر نہیں مومنین صالحین کا اجر و انعام بتانے کے بعد ارشاد فرمایا (اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا) کیا جو شخص مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہوسکتا ہے ؟ پھر خود ہی جواب دے دیا (لَا یَسْتَوٗنَ ) (مومنین اور فاسقین برابر نہیں ہوسکتے) اس کے بعد دوبارہ اہل ایمان کی نعمتوں کا تذکرہ...  فرمایا اور ساتھ ہی کافروں کے عذاب کا بھی، ارشاد فرمایا (اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَھُمْ جَنّٰتُ الْمَاْوٰی) (جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے ان کے لیے باغ ہوں گے ٹھہرنے کی جگہوں میں) (نُزُلًا بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) (یہ بطور مہمانی ان اعمال کا بدلہ ہوں گے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے) (وَاَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰھُمُ النَّارُ ) (اور جن لوگوں نے نافرمانی کی ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے) (کُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْھَآ اُعِیْدُوْا فِیْھَا) (جب بھی اس میں سے نکلنے کا ارادہ کریں گے اس میں واپس لوٹا دئیے جائیں) (وَقِیْلَ لَھُمْ ذُوْقُوْا عَذَاب النَّارِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ ) (اور ان سے کہا جائے گا کہ آگ کا عذاب چکھو جس کو تم جھٹلاتے تھے) جب ایمان والوں اور نافرمانوں کے انجام میں فرق ہے کہ اہل ایمان ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں ہوں گے اور وہاں ان کے ساتھ مہمانوں جیسا برتاؤ ہوگا اور نافرمان دوزخ میں جائیں گے تو دونوں فریق برابر کیسے ہوسکتے ہیں ؟ اہل کفر کی ذلت کا یہ عالم ہوگا کہ جب اس میں سے نکلنا چاہیں گے تو اسی میں دھکیل دئیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ جو تم جھٹلانے والا عمل کیا کرتے تھے اس کی وجہ سے آگ کا عذاب چکھتے رہو۔ معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ آیت کریمہ (اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا) حضرت علی (رض) اور ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی، دونوں میں کچھ گفتگو ہو رہی تھی ولید نے حضرت علی (رض) سے کہہ دیا کہ چپ ہوجا تو بچہ ہے اور میں بولنے میں تجھ سے بہتر ہوں اور نیزہ بھی زیادہ تیز ہے اور دل اور بھی تجھ سے زیادہ ہوں، اس پر حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ چپ ہوجا تو فاسق ہے، اس پر آیت بالا نازل ہوئی (فی صحتہ کلام طویل ذکرہ صاحب الروح فراجعہ ان شئت، قال صاحب الروح وفی روایۃ اخریٰ انھا نزلت فی علی کرم اللّٰہ ورجل من قریش ولم یسمہ) (اس بات کے صحیح ہونے میں طویل کلام ہے جسے روح المعانی والے نے ذکر کیا ہے اگر آپ چاہیں تو اسے دیکھ لیں۔ روح المعانی کے مصنف (رح) نے کہا ہے کہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ یہ آیت حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور ایک دوسرے آدمی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ دوسرے آدمی کا نام ذکر نہیں کیا۔ )  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ افمن کان الخ یہ لف و نشر غیر مرتب کے طریق پر تخویف و بشارت کے اجمالی اعادہ ہے جس طرح صفات بالا میں مومن و فاسق برابر نہیں اسی طرح جزاء آخرت میں بھی وہ برابر نہیں ہوں گے مومنین الطاف ربانیہ کے مستحق اور فساق غضب خداوندی کے مورد ٹھہریں گے آگے فریقین کی جزاء تفصیل مذکور ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

18۔ کیا بھلا وہ شخص جو مومن اور ایمان دار ہے اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جو بےحکم اور نافرمان ہے یہ دونوں فریق برابر نہیں ہوسکتے۔ یعنی ایک مومن کامل ہے ایک فاسق یعنی کافر ہے دونوں برابر نہیں ہوسکتے کہتے ہیں ولید نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مقابلے میں کہا تھا کہ میری تلوار اور میری زبان اور تیر ی تلوا... ر اور زبان سے زیادہ تیز ہے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا تو فاسق ہے میں مومن ہوں تیری میری برابر نہیں ہوسکتی اس پر یہ آیت نازل ہوئی مومن سے مراد حضرت علی (رض) ہیں اور فاسق سے مراد ولید ہے اسی قسم کے تمام افراد کو ملا کر لا یستون فرمایا اور جمع کا استعمال کیا آگے عدم تساوی کی تفصیل بیان فرمائی۔  Show more