Surat Assajdah

Surah: 32

Verse: 24

سورة السجدة

وَ جَعَلۡنَا مِنۡہُمۡ اَئِمَّۃً یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا لَمَّا صَبَرُوۡا ۟ ؕ وَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یُوۡقِنُوۡنَ ﴿۲۴﴾

And We made from among them leaders guiding by Our command when they were patient and [when] they were certain of Our signs.

اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے ، اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And We made from among them, leaders, giving guidance under Our command, when they were patient and used to believe with certainty in Our Ayat. means, because they were patient in adhering to the commands of Allah and avoiding what He prohibited, and they believed in His Messengers and followed what they brought, there were among them leaders who guided others to the truth by the com... mand of Allah, calling for goodness, enjoining what is right and forbidding what is wrong. Then when they changed (the Words of Allah), twisting and distorting them, they lost that position and their hearts became hard. They change the words from their places, so they do no righteous deeds and have no correct beliefs. Allah says: وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَيِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ... And We made from among them (Children of Israel), leaders, giving guidance under Our command, when they were patient, Qatadah and Sufyan said: "When they patiently shunned the temptations of this world." This was also the view of Al-Hasan bin Salih. Sufyan said, "This is how these people were. A man cannot be an example to be followed unless he shuns the temptation of this world." Allah says: وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا بَنِى إِسْرَءِيلَ الْكِتَـبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ وَرَزَقْنَـهُمْ مِّنَ الطَّيِّبَـتِ وَفَضَّلْنَـهُمْ عَلَى الْعَـلَمينَ وَءاتَيْنَـهُم بَيِّنَـتٍ مِّنَ الاٌّمْرِ And indeed We gave the Children of Israel the Scripture, and the understanding of the Scripture and its laws, and the Prophethood; and provided them with good things, and preferred them above the nations. And We gave them clear proofs in matters. (45:16-17) And He says here: إِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

241اس آیت سے صبر کی فضیلت واضح ہے، صبر کا مطلب اللہ کے اوامر کے بجا لانے اور اللہ کے رسولوں کی تصدیق اور ان کے پیروی میں جو تکلیفیں آئیں، انھیں خندہ پیشانی سے جھیلنا، اللہ نے فرمایا، ان کے صبر کرنے اور آیات الٰہی پر یقین رکھنے کی وجہ سے ہم نے ان کو دینی امامت اور پیشوائی کے منصب پر فائز کیا۔ لیکن جب...  انہوں نے اس کے برعکس تبدیل و تحریف کا ارتکاب شروع کردیا، تو ان سے یہ مقام سلب کرلیا گیا، چناچہ اس کے بعد ان کے دل سخت ہوگئے، پھر ان کا عمل صالح رہا اور نہ اعتقاد صحیح۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢٦] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پیشوائی کے لئے لازمی صفات کا ذکر فرمایا : پہلی صفت یہ ہے کہ ان کا تازیست یہ طرز عمل ہونا چاہئے کہ وہ اللہ کے احکام کی دعوت دیتے رہیں اور لوگوں کی رہنمائی کرتے رہیں دوسرے یہ کہ یہ کام پورے صبر و استقلال سے سرانجام دیں۔ اور اس راہ میں پیش آنے والے مصائب پر صبر کریں اور...  تیسرے یہ کہ وہ اللہ کی آیات اور اس کے وعدوں پر پختہ یقین رکھتے ہوں۔ جتنا زیادہ یقین پختہ ہوگا اسی قدر وہ صبر کرسکیں گے اور اسی قدر زیادہ وہ امامت یا پیشوائی کے حقدار ہوں گے۔ اور بنی اسرائیل میں سے جو شخص ان صفات کے حامل تھے انھیں اللہ تعالیٰ نے امامت کے منصب پر سرفراز فرما دیا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۚوَجَعَلْنَا مِنْهُمْ اَىِٕمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا : اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے کچھ ایسے امام اور پیشوا بنائے جو لوگوں کی رہنمائی ہمارے حکم کے ساتھ کرتے تھے۔ ظاہر ہے اللہ کے حکم کے ساتھ رہنمائی وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اس کا علم رکھتے ہوں، اس میں بنی اسرائیل کے انبیاء بھی شامل ہیں، جیسا کہ اللہ...  تعالیٰ نے ان سے پہلے ابراہیم، اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : (وَجَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرٰتِ وَاِقَام الصَّلٰوةِ وَاِيْتَاۗءَ الزَّكٰوةِ ۚ وَكَانُوْا لَنَا عٰبِدِيْنَ ) [ الأنبیاء : ٧٣ ] ” اور ہم نے انھیں ایسے پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے ساتھ رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے ان کی طرف نیکیاں کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی وحی بھیجی اور وہ صرف ہماری عبادت کرنے والے تھے۔ “ اور بنی اسرائیل کے وہ علماء بھی جو ہدایت پر قائم تھے اور لوگوں کو اللہ کے حکم کے مطابق اس ہدایت کی طرف دعوت دیتے تھے۔ یہ ہدایت اللہ کی کتاب تھی اور اس پر ایمان لانے والے دو طرح کے لوگ تھے، ایک وہ ائمہ جو اللہ کے حکم کے مطابق رہنمائی کرتے تھے اور دوسرے ان کے وہ پیروکار جو اس رہنمائی پر عمل کرتے تھے۔ پہلی قسم کے لوگوں کا مقام نبوت کے بعد سب سے بلند ہے، فرمایا : ( يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ) [ المجادلۃ : ١١ ] ” اللہ ان لوگوں کو درجوں میں بلند کرے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنھیں علم دیا گیا۔ “ لَمَّا صَبَرُوْا ڜ وَكَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يُوْقِنُوْنَ : یعنی ان ائمہ کو پیشوائی کا یہ مقام دو وجہ سے حاصل ہوا، ایک صبر کی وجہ سے کہ انھوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری پر باندھ کر اور اس کی منع کردہ چیزوں سے روک کر رکھا۔ وہ اللہ کے دین کی دعوت دیتے رہے اور اس کے لیے جہاد کرتے رہے اور انھوں نے اس راستے میں پیش آنے والی ہر مصیبت پر صبر کیا۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کی آیات پر یقین کی وجہ سے کہ وہ دنیاوی فائدوں اور لذتوں میں پھسل جانے والے نہیں تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے وعدوں پر یقین رکھنے والے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امامت کا مقام وہی لوگ حاصل کرسکتے ہیں جو صبر اور اللہ تعالیٰ کی آیات پر یقین کے وصف سے آراستہ ہوں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Two conditions for the leader of any people In the next verse (24), it was said: وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِ‌نَا لَمَّا صَبَرُ‌وا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ (And We appointed leaders from among them who guided (people) under Our command, when they observed patience, and kept firm belief in Our verses). In this verse, two reasons have been given as to why religious le... adership was bestowed on some of the sages of Bani Isra&il: (1) Observance of patience and (2) the certitude of Divine words. In terms of the Arabic usage, the sense of doing sabr or patience is very wide and general. Literally, it means to tie or to be firm. At this place, sabr means to stay firm on the implementation of Divine injunctions and to hold one&s desiring self in check against the infringement of what Allah Ta&ala has declared to be Karam (unlawful) or makruh (reprehensible). This covers one&s obedience to all injunctions of the Sharl&ah which is pragmatic perfection at its best. The second reason lies in their certitude - they are certain of the Divine words. This includes the initial understanding of the sense of the verses as well as the resulting certitude which emerges from such comprehension - both. This is intellectual perfection at its best. In short, in the sight of Allah Ta’ ala, only those who are perfect both in &ilm (knowledge) and &amal (practice) are worthy of religious leadership. It is interesting here that perfection in practice has been made to precede perfection in knowledge while, usually &ilm (knowledge) precedes ` amal (practice). This arrangement releases a strong hint, that is, a knowledge which has no corresponding practice with it is just not credible in the sight of Allah. Ibn Kathir has reported the following saying of some ` Ulama& in his tafsir of this verse: بِالصَّبرِ وَ الیَقِینِ تُنَالُ الِا مَا مَۃُ فِی الدِّینِ One can arrive at the station of leadership in religion only through sabr (patience) and yagin (certitude).  Show more

کسی قوم کا مقتداء و امام بننے کے لئے دو شرطیں : (آیت) وجعلنا منہم ائمة تہدون بامرنا لما صبروا اوکانوا بایتنا یوقنون، ” یعنی ہم نے بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگوں کو امام اور پیشوا و مقتداء بنادیا جو اپنے پیغمبر کے نائب ہونے کی حیثیت سے باذن ربانی لوگوں کو ہدایت کیا کرتے تھے، جبکہ انہوں نے صبر کیا اور ... جبکہ وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ “ اس آیت میں علماء بنی اسرائیل میں سے بعض کو امامت و پیشوائی کا درجہ عطا فرمانے کے دو سبب ذکر فرمائے ہیں، اول صبر کرنا، دوسرے آیات الہیہ پر یقین کرنا۔ صبر کرنے کا مفہوم عربی زبان کے اعتبار سے بہت وسیع اور عام ہے۔ اس کے لفظی معنی باندھنے اور ثابت رہنے کے ہیں۔ اس جگہ صبر سے مراد احکام آلہیہ کی پابندی پر ثابت قدم رہنا اور جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے حرام یا مکروہ قرار دیا ہے ان سے اپنے نفس کو روکنا ہے جس میں تمام احکام شریعت کی پابندی آجاتی ہے اور یہ بہت بڑا عملی کمال ہے۔ دوسرا سبب ان کا آیات آلہیہ پر یقین رکھنا ہے۔ اس میں آیات کے مفہوم کو سمجھنا پھر سمجھ کر اس پر یقین کرنا دونوں داخل ہیں، یہ بہت بڑا کمال علمی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ امامت و پیشوائی کے لائق اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف وہ لوگ ہیں جو عمل میں بھی کامل ہوں اور علم میں بھی، اور یہاں عملی کمال کو علمی کمال سے مقدم بیان فرمایا ہے کہ ترتیب طبعی میں علم عمل سے مقدم ہوتا ہے۔ اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ اللہ کے نزدیک وہ علم قابل اعتبار ہی نہیں جس کے ساتھ عمل نہ ہو۔ ابن کثیر نے بعض علماء کا قول اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ بالصبر والیقین تنال الامامہ فی الین، ” یعنی صبر اور یقین ہی کے ذریعہ دین میں کسی کی امامت کا درجہ مل سکتا ہے۔ “  Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ اَىِٕمَّۃً يَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا۝ ٠ ۣۭ وَكَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يُوْقِنُوْنَ۝ ٢٤ إِمام : المؤتمّ به، إنسانا كأن يقتدی بقوله أو فعله، أو کتابا، أو غير ذلک محقّا کان أو مبطلا، وجمعه : أئمة . وقوله تعالی: يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ [ الإسراء/ 71] أي...  : بالذي يقتدون به، الامام وہ ہے جس کی اقتداء کی جائے خواہ وہ انسان ہو یا اس کے قول وفعل کی اقتداء کی جائے یا کتاب وغیرہ ہو اور خواہ وہ شخص جس کی پیروی کی جائے حق پر ہو یا باطل پر ہو اس کی جمع ائمۃ افعلۃ ) ہے اور آیت :۔ { يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ } ( سورة الإسراء 71) جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے پیشواؤں کے ساتھ بلائیں گے ۔ میں امام سے وہ شخص مراد ہے جس کی وہ اقتداء کرتے تھے ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں يقن اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة/ 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما . ( ی ق ن ) الیقین کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور بنی اسرائیل جب ایمان و اطاعت پر ثابت قدم رہے تو ہم نے ان میں بہت سے پیشوا بنا دیے تھے جو مخلوق کو ہمارے حکم کی طرف بلاتے تھے اور وہ لوگ اپنی کتاب کی پیش گوئی کی وجہ سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کا یقین رکھتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ اَءِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا ط) ۔ یعنی بنی اسرائیل کے ائمہ اور پیشواؤں کو تورات کی تعلیمات لوگوں تک پہنچانے کے لیے صبر کی روش پر کاربند رہنا پڑتا تھا۔ اس نکتے کو یوں سمجھئے کہ کتاب اللہ کی تعلیمات کو سیکھنے اور پھر لوگوں تک پہنچانے کے لیے وقت درکار...  ہے جو انسانی سطح پر بذات خود ایک بہت بڑی قربانی ہے۔ دولت اور عیش و عشرت کے حصول کی حرص ہر انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ اگر کوئی شخص اپنا بیشتر وقت دنیا اور اس کی آسائشوں کے حصول کے لیے صرف کر دے گا تو اس کے شب وروز میں دعوت و تبلیغ اور اللہ کی راہ میں جدوجہد کے لیے وقت کہاں سے آئے گا ؟ چناچہ اگر کسی کو اللہ کے راستے میں نکلنے کے لیے کمربستہ ہونا ہے تو صبر و استقامت کا دامن تھام کر اسے لازمی طور پر دنیا کی بہت سی آسائشوں کو خیرباد کہنا ہوگا۔ اس کے علاوہ اس راستے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حوالے سے بھی صبر درکار ہے۔ کتاب اللہ کی تعلیم و تبلیغ کے حوالے سے یہ دونوں فرائض گویا بنیاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ لیکن جب بھی کوئی شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا علمبردار بن کر نکلے گا تو لوگ اس کی مخالفت کریں گے ‘ اس راہ میں اسے گالیاں بھی سننا پڑیں گی ‘ جسمانی و ذہنی اذیتوں کا سامنا بھی کرنا ہوگا اور مال و جان کے نقصانات بھی برداشت کرنا پڑیں گے۔ بہر حال اس راستے پر جس پہلو سے بھی کوئی جدوجہد کرے گا ‘ اسے قدم قدم پر ایسے سنگ ہائے میل سے سابقہ پڑے گا جو صبر و استقامت اور ایثار و قناعت کے رنگا رنگ مطالبات سے عبارت ہوں گے۔ آج قرآن کی تبلیغ و ترویج کے میدان میں یہ آیت ہمارے لیے نشان منزل بن سکتی ہے۔ جس انداز میں یہاں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ائمہ کی تعریف فرمائی ہے اس کے لطیف احساس سے ہمارے دلوں میں ترغیب و تشویق کے جذبات کی نئی نئی کو نپلیں پھوٹنی چاہئیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بنی اسرائیل کے ان ائمہ کے کردار اور خوش نصیبی سے متعلق اپنے دلوں میں رشک پیدا کریں اور پھر اللہ سے توفیق مانگیں کہ وہ ہمیں بھی اس کام کے لیے ُ چن لے۔ لیکن ہمیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ یہ رتبہ بلند محض دعاؤں اور تمناؤں کے سہارے نہیں ملا کرتا۔ اس کے لیے ہمیں صبر و استقامت اور ایثار و قناعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر عملی کوشش کرنا ہوگی۔ اپنی بہت سی خواہشات کو قربان کرنا ہوگا ‘ اپنے معیار زندگی (living standard) کو کم سے کم سطح پر رکھنا ہوگا اور یوں اپنے تبلیغی بھائیوں کے بقول تفریغ الاوقات (دینی جدوجہد کے لیے وقت نکالنا) کو ممکن بنانا ہوگا۔ اس سلسلے میں ہم میں سے ہر ایک کو سنجیدہ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے ایک دفعہ اپنا بیشتر وقت پیسہ کمانے اور معیار زندگی بلند کرنے کی کوششوں میں صرف کرنے کی روش کو اپنا لیا تو یوں سمجھیں کہ ہم نے خود کو ایک کبھی نہ ختم ہونے والے چکر میں ڈال لیا۔ یعنی خود کو ایک نام نہاد معیار زندگی کے سراب کو پالینے اور پھر اس کو برقرار رکھنے کی خواہشات کا اسیر بنا لیا۔ اگر خدانخواستہ ہم نے اپنی زندگی اسی دنیاداری میں گزار دی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے ایک خاص معیار زندگی کو اپنے معبود کا درجہ دے کر گویا ساری عمر اسی کی پوجا میں گزار دی ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم اللہ کی توفیق سے قرآن کا دامن مضبوطی سے تھام لیں ‘ اپنی زندگی کے لیے راہنمائی صرف اور صرف قرآن سے حاصل کرنے کا تہیہ کرلیں تو اللہ کے راستے پر چلنے کے لیے ہمارے سامنے ان شاء اللہ اسباب کے نت نئے دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔ یاد رکھیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو مسجودِملائک بنایا ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا نقطۂعروج (climax) ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے حیرت انگیز صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ جب یہ عزم صمیم کا زاد سفر لے کر کسی راہ پر چل پڑتا ہے تو مشکلات اس سے کنی کترا نے لگتی ہیں اور منزلیں خود آگے بڑھ کر اس کے قدم چومتی ہیں۔ (وَکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ ) ۔ بنی اسرائیل کے ائمہ جو کتاب کی تعلیم و تبلیغ میں مصروف تھے وہ صبر کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی آیات پر پختہ یقین بھی رکھتے تھے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی آیات پر یقین رکھنا ‘ اس کے وعدوں کو من و عن سچ ماننا اور اس پر توکل کرنا راہ حق کی جدوجہد کی لازمی شرائط ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

37 That is, "Whatever progress the children of Israel made and whatever heights they attained by that Book, was not simply due to the reason that a Book had been sent among them. It was not an amulet that they might have hung around their necks and they might have started ascending the steps of glory under its good and protective influence. But the glory was the direct result of their firm faith i... n the Revelations of Allah, and of the patience and perseverance that they showed in following the Divine Commandments. Among the Israelites themselves also leadership fell to the lot of only those who were true believers of the Book of Allah and were not tempted at all by the greed of worldly gains and enjoyments. When in their love of the truth they stood firm against every danger, endured every loss and affliction, and exerted their utmost against every hostile force, from the lusts of their own selves to the external enemies of the true Faith, then only did they become the leaders of the world. The object is to warn the disbelievers of Arabia that just as the coming of the Book of Allah had decided the destinies of the children of Israel, so will this Book decide the destinies among you. Now only those people will become the leaders, who will believe in it and follow the Truth presented by it patiently and resolutely. Those who turn away from it are destined to end up in failure and wretchedness."  Show more

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :37 یعنی بنی اسرائیل کو اس کتاب نے جو کچھ بنایا اور جن مدارج پر ان کو پہنچایا وہ محض ان کے درمیان کتاب کے آ جانے کا کرشمہ نہ تھا گویا یہ کوئی تعویذ ہو جو باندھ کر اس قوم کے گلے میں لٹکا دیا گیا ہو اور اس کے لٹکتے ہی قوم نے بام عروج پر چڑھنا شروع کر دیا ہو بلکہ یہ ساری کرا... مت اس یقین کی تھی جو وہ اللہ کی آیات پر لائے اور اس صبر اور ثابت قدمی کی تھی جو انہوں نے احکام الہٰی کی پیروی میں دکھائی ۔ خود بنی اسرائیل کے اندر بھی پیشوائی انہی کو نصیب ہوئی جو ان میں سے کتاب اللہ کے سچے مومن تھے اور دنیوی فائدوں اور لذتوں کی طمع میں پھسل جانے والے نہ تھے ۔ انہوں نے جب حق پرستی میں ہر خطرے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہر نقصان اور ہر تکلیف کو بر داشت کیا اور اپنے نفس کی شہوات سے لے کر باہر کے اعدائے دین تک ہر ایک کے خلاف مجاہدہ کا حق ادا کر دیا تب ہی وہ دنیا کے امام بنے اس سے مقصود کفار عرب کو متنبہ کرنا ہے کہ جس طرح خدا کی کتاب کے نزول نے بنی اسرائیل کے اندر قسمتوں کے فیصلے کیے تھے اسی طرح اب اس کتاب کا نزول تمہارے درمیان بھی قسمتوں کا فیصلہ کر دے گا ۔ اب وہی لوگ امام بنیں گے جو اس کو مان کر صبر و ثبات کے ساتھ حق کی پیروی کریں گے اس سے منہ موڑنے والوں کی تقدیر گردش میں آ چکی ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(32:24) منھم : ای من بنی اسرائیل۔ ائمۃ۔ امام کی جمع پیشوا ۔ مقتدائ۔ امام افتعال کے وزن پر اسم ہے بمعنی من یؤتم بہ (جس کا قصد کیا جائے۔ چونکہ رہنما اور مقتدا کا قصد کیا جاتا ہے اس لئے اس کو امام کہتے ہیں ۔ غرض جس کی بھی پیروی کی جائے وہ امام ہے ۔ یہ پیروی حق میں ہو یا ناحق میں۔ مذکر مؤنث دونوں کے ... لئے آتا ہے۔ لما (جب) یہ یہاں دو صورتوں میں استعمال ہوسکتا ہے :۔ (1) حرف شرط۔ یا وجود لوجود (ثبوت ثانی بوجہ ثبوت اول ہے) اس صورت میں لما فعل ماضی پر داخل ہوکر ایسے دو جملوں کا مقتضی ہوتا ہے۔ جن میں سے دوسرے جملہ کا وجود پہلے جملے کے پائے جانے کے وقت ہوتا ہے۔ یہاں عبارت یوں ہوگی :۔ لما صبروا جعلنا منہم ائمۃ۔ یعنی ان کا صبر کرنا اور مقتدا ہونا ایک ہی زمانہ کو مستلزم ہے۔ (2) بطور اسم ظرف بمعنی حین۔ یعنی جب تک وہ صبر کرتے رہے تب تک وہ مقتدا و پیشوا رہے۔ (صبر سے مراد یہاں تبلیغ اور نصرت دین میں وہ مخالف عنصر کی سختیاں صبر سے جھیلتے رہے۔ کانوا یوقنون ۔ ماضی استمراری جمع مذکر غائب وہ (ہماری آیات کا) یقین رکھتے تھے۔ ایقان (افعال) مصدر۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یہ اس وقت کی بات ہے جب بنی اسرائیل نے کتاب الٰہی پر عمل کیا اور کافروں کی ایذا رسانی پر صبر کرتے رہے لیکن بعد میں جب انہوں نے تحریف کا راستہ اختیار کیا اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی من مانی تاویلیں کرنے لگے تو ان سے پیشوائی کا یہ پیغام چھین لیا گیا اور ان پر ذلت و رسوائی مسلط کردی گئی۔ (کما سبق مر... ادا) ۔ (ابن کثیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یہ تسلی ہے مومنین کی کہ تم لوگ صبر کرو، اور جب تم صاحب یقین ہو اور یقین کا مقتضا صبر کرنا ہے تو تم کو صبر ضرور ہے۔ اس وقت ہم تم کو بھی ائمہ دین بنادیں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسری آیت میں فرمایا کہ ہم نے بنی اسرائیل میں پیشوا بنا دئیے تھے جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے جبکہ انہوں نے صبر کیا (اس سے معلوم ہوا ہدایت اور محنت کی کوشش میں صبر کرنا ضروری ہے لہٰذا آپ بھی صبر کریں) اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے یہ یقین انہیں ہدایت اور دعوت کے کام پر ثابت قدم رکھتا تھا۔ (... اَءِمَّۃً ) سے کون حضرات مراد ہیں ؟ حضرات مفسرین نے فرمایا ہے کہ ان سے انبیاء کرام (علیہ السلام) مراد ہیں، اور ایک قول یہ ہے کہ ان کی امت کے افراد مراد ہیں جو ہدایت اور دعوت کے کام میں لگے رہتے تھے، یہ دوسرا قول اقرب ہے کیونکہ (وَکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ ) حال کے مناسب ہے، حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) تو اصحاب یقین تھے ہی (قال صاحب الروح ج ٢١ ص ١٣٨ والمراد کذالک لنجعلن الکتٰب الذی اتیناک اولنجعلنک ھدًی لامتک ولنجعلن منھم ائمۃ یھدون مثل تلک الھدایۃ) (تفسیر روح المعانی کے مصنف نے کہا ہے اور مراد یہ ہے کہ اسی طرح ہم نے آپ کو جو کتاب دی اسے یا خود آپ کو آپ کی امت کے لیے ہدایت کا سامان بنائیں گے اور ہم ضرور ان میں رہنما بنائیں گے جو اس ہدایت کے مطابق راہنمائی کریں۔ )  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ وجعلنا منھہم الخ، موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ہم نے بنی اسرائیل میں ایسے ائمہ اور پیشوا پیدا کیے جو تورات میں ہمارے احکام کے مطابق لوگوں کو توحید اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے تھے اور توحید کی تبلیغ اور اشاعت پر تکلیفیں اور مصیبتیں برداشت کرتے تھے اور خود بھی ایمان ویقین میں مضبوط اور ثابت...  قدم تھے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

24۔ اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے بعض لوگوں کو امام اور پیشوا بنایا تھا وہ ہمارے حکم سے ہدایت اور رہنمائی کیا کرتے تھے جبکہ وہ لوگ مصائب و تکالیف پر صبر کرتے رہے اور وہ ہماری آیتوں کا یقین کرتے تھے۔ یعنی مصائب پر صبر کرنے اور ہماری آیتوں پر اذغان و یقین کا ان لوگوں کو یہ صلہ ملا کر ان کو ہم نے امت مو... سوی کا پیشوا بنادیا ایسا ہی امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بھی ہوگا چناچہ ایسا ہی ہوا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی تم بھی ٹھیرے رہو تو تم میں بھی وہی چال ہو ۔ آخر ہوئے۔ 12  Show more