Surat Assajdah

Surah: 32

Verse: 25

سورة السجدة

اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ یَفۡصِلُ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فِیۡمَا کَانُوۡا فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۲۵﴾

Indeed, your Lord will judge between them on the Day of Resurrection concerning that over which they used to differ.

آپ کا رب ان ( سب ) کے درمیان ان ( تمام ) باتوں کا فیصلہ قیامت کے دن کرے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, your Lord will judge between them on the Day of Resurrection, concerning that wherein they used to differ. meaning, with regard to beliefs and actions.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

251اس سے وہ اختلاف مراد ہے جو اہل کتاب میں باہم برپا تھا، ضمناً وہ اختلاف بھی آجاتے ہیں۔ جو اہل ایمان کفر، اہل حق اور اہل باطل کے درمیان دنیا میں رہے اور ہیں دنیا میں تو ہر گروہ اپنے دلائل پر مطمئن اور اپنی ڈگر پر قائم رہے۔ اس لئے ان اختلافات کا فیصلہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ہی فرمائے گا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اہل حق کو جنت میں اور اہل کفر و باطل کو جہنم میں داخل فرمائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢٧] اصول دین سے اختلاف کرنے کا وجود دنیوی مفادات اور قائد بن کر اپنا جھندا الگ بلند کرنے کی خواہش ہوتی ہے اور اس روش کا لازمی نتیجہ امت میں انتشار اور دنیا میں ذلت و خواری ہوتی ہے۔ یہی کچھ یہود کو اختلافات کے نتیجہ میں حاصل ہوا۔ اور یہی کچھ آج کل مسلمانوں کو حاصل ہو رہا ہے۔ پھر جو فرقہ بن جاتا ہے اس میں کچھ ایسا فرقہ وارانہ تعصب پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی روش بدلنا قطعاً گوارا نہیں کرتا۔ وہ دوسرے سب فرقوں کو گمراہ سمجھتا ہے لیکن اپنے متعلق اسے خیال تک نہیں آتا کہ وہ بھی گمراہ ہوسکتا ہے۔ گویا دنیا میں تو کوئی فرقہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کو آمادہ نہیں ہوتا۔ ہاں اللہ تعالیٰ ہی ان کے درمیان یہ فیصلہ کرے گا کہ کس فرقہ کے پاس کس قدر حق کا حصہ تھا اور کس قدر باطل کا ان سب میں سے فلاں فرقہ حق پر تھا اور باقی سب گمراہ تھے۔ لوگوں کے تعصب کی وجہ سے دنیا میں یہ مسئلہ لاینحل ہی رہتا ہے خواہ امت کتنی ہی ذلت اور خواری سے دو چار رہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ ۔۔ : پچھلی آیت میں اس وقت کا ذکر ہے جب بنی اسرائیل نے کتاب اللہ پر عمل کیا، ان کے علماء اور ائمہ خود دین پر قائم رہے، دوسروں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ سرانجام دیتے رہے اور اس راستے میں اپنوں اور بیگانوں کی ایذا رسانی پر صبر کرتے رہے۔ بعد میں جب وہ دنیا پرستی اور طمع میں مبتلا ہوگئے، جانتے بوجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کے بجائے اس کی من مانی تاویل بلکہ اس میں تحریف کرنے لگے، ہر ایک نے اپنی مرضی کے مسائل ایجاد کرلیے تو وہ مختلف گروہوں میں بٹ گئے۔ ہر فرقہ اپنے آپ ہی کو سچا قرار دیتا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان کے ان اختلافات کے بارے میں تیرا رب ہی قیامت کے دن فیصلہ فرمائے گا۔ 3 بنی اسرائیل کے ان حالات و واقعات میں امت مسلمہ کے لیے سبق ہے کہ امامت کا مقام کن لوگوں کو حاصل ہوتا ہے اور کسی قوم کے عروج و زوال کا باعث کیا چیز ہوتی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ رَبَّكَ ہُوَيَفْصِلُ بَيْنَہُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ فِــيْمَا كَانُوْا فِيْہِ يَخْتَلِفُوْنَ۝ ٢٥ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ فصل ( جدا) الفَصْلُ : إبانة أحد الشّيئين من الآخر : حتی يكون بينهما فرجة، ومنه قيل : المَفَاصِلُ ، الواحد مَفْصِلٌ ، قال تعالی: وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قالَ أَبُوهُمْ [يوسف/ 94] ، ويستعمل ذلک في الأفعال والأقوال نحو قوله : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ أَجْمَعِينَ [ الدخان/ 40] ( ف ص ل ) الفصل کے معنی دوچیزوں میں سے ایک کو دوسری سے اسی طرح علیحدہ کردینے کے ہیں کہ ان کے درمیان فاصلہ ہوجائے اسی سے مفاصل ( جمع مفصل ) ہے جس کے معنی جسم کے جوڑ کے ہیں . قرآن میں ہے : وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قالَ أَبُوهُمْ [يوسف/ 94] اور جب قافلہ ( مصر سے ) روانہ ہوا ۔ اور یہ اقول اور اعمال دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے قرآن میں ہے : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ أَجْمَعِينَ [ الدخان/ 40] کچھ شک نہیں کہ فیصلے کا دن سب کے اٹھنے کا دن ہے ۔ الاختلافُ والمخالفة والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب مسلمان و کافر یا یہ کہ بنی اسرائیل کے درمیان قیامت کے دن ان دینی امور میں فیصلہ فرمائے گا جن میں یہ باہمی اختلاف کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

38 The allusion is to the differences and schisms in which the children of Israel were involved after they became deprived of the faith and belief and gave up obedience of their righteous leaders and were given to the worship of the world. One result of this is obvious and before the whole world: they suffer from disgrace and infamy and misfortune; the other result is that which is not known, to the world: it will appear on the Day of Resurrection. "

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :38 یہ اشارہ ہے ان اختلافات اور فرقہ بندیوں کی طرف جن کے اندر بنی اسرائیل ایمان و یقین کی دولت سے محروم ہونے اور اپنے راست رو ائمہ کی پیروی چھوڑ دینے اور دنیا پرستی میں پڑ جانے کے بعد مبتلا ہوئے ۔ اس حالت کا ایک نتیجہ تو ظاہر ہے جسے ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ بنی اسرائیل ذلت و نکبت میں گرفتار ہیں ۔ دوسرا وہ ہے جو دنیا نہیں جانتی اور وہ قیامت کے روز ظاہر ہو گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(32:25) یفصل بینھم۔ مضارع واحد مذکر غائب فصل (باب ضرب) مصدر وہ فیصلہ کرے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 وہاں معلوم ہوجائے گا کہ کون ہدایت پر تھا اور کون اسرائیل بھی ہوسکتے ہیں جنہوں نے انبیاء ( علیہ السلام) اور ان کے معاصر اقوام اور مسلمان اور کافر بھی مراد ہوسکتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی مومنین کو جنت میں اور کفار کو دوزخ میں ڈال دے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

تیسری آیت میں یہ فرمایا کہ قیامت کے دن آپ کا رب ان کے درمیان ان امور کے بارے میں فیصلہ فرما دے گا جن میں یہ لوگ آپس میں اختلاف کرتے تھے یعنی اہل ایمان کو جنت میں اور اہل کفر کو دوزخ میں داخل فرما دے گا۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہے کہ جو لوگ آپ کے مخالف ہو رہے ہیں اگر کفر ہی پر جمے رہے تو قیامت کے دن سزا مل ہی جائے گی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23:۔ ان ربک الخ، مومنین اور منکرین کے درمیان الہ تعالیٰ قیامت کے دن فیصلہ فرمائے گا۔ اور ہر فریق کو اس کے اعمال کے مطابق جزاء و سزا دے گا۔ ای یقضی و یحکم بین المومنین والکفار، فیجازی کلا بما یستحق (قرطبی ج 14 ص 109) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

25۔ اے پیغمبر جن امور میں کافر اور مومن یا پیغمبر یا انکی امت اختلاف کرتے رہتے ہیں آپ کا پروردگار یقینا قیامت کے روز ان کے مابین ان سب امورکا فیصلہ کردے گا ۔ فیصلہ یہی کہ مومن جنت میں اور کافر جہنم میں بھیج دیئے جائیں گے ۔ انبیاء مقام قرب میں ہوں گے اور ان کی جھگڑا لوامتیں عذاب میں مبتلا ہوں گی۔ ہوسکتا ہے کہ بنی اسرائیل کی مختلف فرقوں کے باہمی اختلاف کے فیصلے کی طرف اشارہ ہو۔