Surat Assajdah

Surah: 32

Verse: 3

سورة السجدة

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ ۚ بَلۡ ہُوَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اَتٰہُمۡ مِّنۡ نَّذِیۡرٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ لَعَلَّہُمۡ یَہۡتَدُوۡنَ ﴿۳﴾

Or do they say, "He invented it"? Rather, it is the truth from your Lord, [O Muhammad], that you may warn a people to whom no warner has come before you [so] perhaps they will be guided.

کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے سے گھڑ لیا ہے ( نہیں نہیں ) بلکہ یہ تیرے رب تعالٰی کی طرف سے حق ہے تاکہ آپ انہیں ڈرائیں جنکے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تاکہ وہ راہ راست پر آجائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ... Or say they: "He has fabricated it": they say, he has fabricated it, i.e., he has made it up by himself. ... بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ Nay, it is the truth from your Lord, so that you may warn a people to whom no warner has come before you, in order that they may be guided. means, in order that they may follow the truth.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31یہ بطور توبیخ کے ہے کہ کیا رب العالمین کے نازل کردہ اس کلام بلاغت نظام کی بابت یہ کہتے ہیں کہ اسے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھڑ لیا ہے ؟ 32یہ نزول قرآن کی علت ہے۔ اس سے معلوم ہوا (جیسا کہ پہلے بھی وضاحت گزر چکی ہے) کہ عربوں میں نبی پہلے نبی تھے۔ بعض لوگوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو بھی عربوں میں مبعوث نبی قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم۔ اس اعتبار سے قوم سے مراد پھر خاص قریش ہوں گے جن کی طرف کوئی نبی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے نہیں آیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

سوچنے کی بات ہے کہ کوئی انسان صرف اسی موضوع پر کتاب لکھ سکتا ہے جس میں اسے مہارت حاصل ہو اور لوگوں میں وہ اس فن کے عالم کی حیثیت سے کسی حد تک معروف ہو۔ اور تصنیف اس لئے کرتا ہے کہ وہ لوگوں پر اپنی علمیت اور مہارت کا سکہ بٹھائے اور لوگوں میں اور اس کی کتاب کو عام مقبولیت حاصل ہو۔ لیکن یہاں معاملہ سارے کا سارا اس سے بالکل برعکس تھا۔ نبوت کے بعد آپ نے جو کلام پیش کیا۔ نبوت سے پیشتر آپ نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی تھی جس سے نبوت کے بعد اسے کلام کے لئے کوئی اشارہ تک بھی پایا جاتا ہو۔ پھر آپ نے جو کلام پیش کیا جو ان لوگوں کی عادات، رسوم، مزاج اور طباع کے یکسری مخالف تھا اس سے آپ کا لوگوں میں مقبول ہونا تو دور کی بات ہے۔ آپ نے گویا یہ کلام پیش کرکے کسی بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دیا۔ جس سے پوری قوم آپ کی دشمن بن گئی۔ اب کفار سے سوال یہ ہے کہ کیا کوئی شخص ایسا کام اپنی مرضی سے کرسکتا ہے جس سے سب لوگ اس کے دشمن بن جائیں ؟ اور اگر یہ بات عقلاً محال ہے تو پھر یہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس کام پر مامور کیا ہے کہ وہ اللہ کا کلام لوگوں نے سامنے پیش کردے۔ اس سے لوگ اس کے مخالف ہوتے ہیں۔ تو ہوجائیں، اسے دکھ پہنچاتے ہیں تو پہنچا لیں اور اس کے دشمن بنتے ہیں تو بن جائیں مگر وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ کے سامنے اس بات کا پابند ہے کہ حالات خواہ کتنے ہی ناخوشگوار پیش آئیں وہ اللہ کا کلام لوگوں تک پہنچا دے۔ [ ٢] عرب میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے مدتوں پہلے حضرت ہود، قوم عاد کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور صالح قوم ثمود کی طرف ان کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل مبعوث ہوئے۔ پھر ان کے بعد حضرت شعیب پیدا ہوئے۔ باقی زیادہ تر انبیاء شام اور فلسطین کے علاقہ میں بھی مبعوث ہوتے رہے۔ حضرت شعیب اور رسول اللہ کا درمیانی وقفہ دو ہزار سال کے لگ بھگ ہے۔ اور چونکہ یہ دو ہزارسال کی مدت بھی ایک طویل مدت ہے جس میں بہت سے انبیاء عرب کی حدود سے باہر مبعوث ہوتے رہے۔ اسی لئے فرمایا کہ اہل عرب کے پاس پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ [ ٣] یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب دو ہزار سال تک اہل عرب کے ہاں کوئی رسول ہی نہ آیا ہو نہ ہی اللہ کی طرف سے حجت پوری ہوئی ہو تو پھر ان لوگوں کو ان کے کفر و شرک کی بنا پر عذاب کیوں کر ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ وہ عذاب سے پہلے لوگوں پر حجت پوری کرلیتا ہے اور کسی پر ذرہ بھی ظلم و زیادتی نہیں کرتا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انبیاء کی تعلیم ان لوگوں تک بھی برابر پہنچتی رہی تھی۔ کیونکہ ان لوگوں کا شام و فلسطین کے لوگوں سے گہرا میل جول بھی تھا اور تجارتی قافلے بھی آتے جاتے رہتے تھے لہذا ان مشرکین مکہ میں بھی ایسے لوگ ہر دور میں موجود رہے جو شرک سے بیزار اور توحید کے قائل تھے بعثت نبوی کے وقت بھی ایسے لوگ موجود تھے جو شرک سے بیزاری کے علاوہ شراب نوشی، حمیۃ جاہلیہ اور جدال و قتال سے بھی متنفر تھے۔ لیکن انھیں کوئی واضح راہ نہیں مل رہی تھی۔ نہ ہی ایسے لوگوں کے باہمی اتحاد کی کوئی صورت ممکن تھی۔ ایسے لوگوں کو جب ایک پیغمبر کے مبعوث ہونے کی خبر ملی تو گویا ان لوگوں کے دل کی مراد بر آئی اور وہ فوراً اسلام لے آئے۔ ان میں سرفہرت تو ورقہ بن نوفل ہیں جو بعثت کے وقت صاحب فراش تھے۔ جلد ہی فوت ہوگئے اور انھیں باقاعدہ اسلام لانے کے اعزاز حاصل نہ ہوسکا۔ باقی حضرت ابوبکر صدیق (رض) ، حضرت عثمان بن مظعون (رض) ، حضرت صہیب رومی (رض) ، حضرت ابوذر (رض) غفاری (رض) ، حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل وغیرہ سب کے سب شرک سے بیزار اور موحد تھے۔ جو فوراً اسلام لے آئے تھے۔ پھر بیشمار ایسے موحد بھی ہمیں تاریخ میں ملتے ہیں جو آپ کی بعثت سے پیشتر فوت ہوچکے تھے اور یہ سب انبیائے بنی اسرائیل کی تعلیمات کا اثر تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ : ” اَم “ سے پہلے عموماً ایسا جملہ موجود یا مقدر ہوتا ہے جو ہمزہ استفہام سے شروع ہوتا ہے۔ یہاں مقدر جملہ ظاہر کریں تو عبارت یہ ہوگی : ” أَھُمْ یُؤْمِنُوْنَ بِہِ أَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرَاہُ “ یعنی ” کیا یہ لوگ اللہ کی نازل کردہ کتاب پر ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہو کر ایمان لاتے ہیں، یا یہ کہہ کر جھٹلا دیتے ہیں کہ اس پیغمبر نے اسے اپنے پاس سے گھڑ لیا ہے ؟ “ کئی مفسرین نے اس ” ام “ کو منقطعہ قرار دے کر ” بَلْ “ کے معنی میں قرار دیا ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا : ” بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے۔ “ اس ” بَلْ “ سے پہلے بھی ایک عبارت محذوف ہے کہ یہ لوگ اس پر ایمان لانے کے بجائے یہی کہتے ہیں کہ اس نے اسے اپنے پاس سے گھڑ لیا ہے۔ دیکھیے سورة فرقان (٤، ٥) اور مدثر (١٨ تا ٢٥) ۔ بَلْ هُوَ الْحَـقُّ مِنْ رَّبِّكَ : فرمایا، ان کا یہ کہنا درست نہیں، بلکہ یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے اور یہ لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق و امانت کو پوری طرح جاننے کے باوجود صریح غلط اور لغو بات کہہ رہے ہیں۔ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِيْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ : مراد قوم عرب ہے، جنھیں اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کے ساتھ سب سے پہلے خطاب فرمایا اور ان کے ذریعے سے تمام دنیا تک یہ پیغام پہنچانے کا اہتمام فرمایا۔ اس سے پہلے اگرچہ عرب میں اسماعیل، ہود، صالح اور شعیب (علیہ السلام) مبعوث ہوچکے تھے، مگر ان کی بعثت کو مدتیں گزر چکی تھیں۔ ان کے بعد تورات و انجیل نازل ہوئیں، مگر عرب میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا۔ اس لیے اللہ عزوجل نے آخری نبی ان میں مبعوث فرمایا، جیسا کہ ارشاد ہے : ( وَھٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰي طَاۗىِٕفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا ۠ وَاِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِيْنَ اَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْكِتٰبُ لَكُنَّآ اَهْدٰي مِنْهُمْ ۚ فَقَدْ جَاۗءَكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ ۚ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَصَدَفَ عَنْهَا ۭ سَنَجْزِي الَّذِيْنَ يَصْدِفُوْنَ عَنْ اٰيٰتِنَا سُوْۗءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا يَصْدِفُوْنَ ) [ الأنعام : ١٥٥ تا ١٥٧ ] ” اور یہ عظیم کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے، بڑی برکت والی، پس اس کی پیروی کرو اور بچ جاؤ، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ تم کہو کہ کتاب تو صرف ان دو گروہوں پر اتاری گئی جو ہم سے پہلے تھے اور بیشک ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے یقیناً بیخبر تھے۔ یا یہ کہو کہ اگر ہم پر کتاب اتاری جاتی تو ہم ان سے زیادہ ہدایت والے ہوتے۔ پس بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل اور ہدایت اور رحمت آچکی، پھر اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ کی آیات کو جھٹلائے اور ان سے کنارا کرے۔ عنقریب ہم ان لوگوں کو جو ہماری آیات سے کنارا کرتے ہیں، برے عذاب کی جزا دیں گے، اس کے بدلے جو وہ کنارا کرتے تھے۔ “ مزید تفصیل مذکورہ بالا آیات کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ 3 اس مقام پر کئی مفسرین نے اسماعیل (علیہ السلام) اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان دو ہزار یا اڑھائی ہزار سال کا عرصہ بیان کیا ہے، مگر اس کا کوئی قابل اعتماد حوالہ نہیں دیا، اس لیے ہمارے پاس اس لمبی مدت کی تعیین کا کوئی ذریعہ نہیں۔ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُوْنَ : یہاں ” لَعَلَّ “ ” کَيْ “ کے معنی میں ہے ” تاکہ وہ ہدایت پائیں “ اور اگر ” ترجی “ کے معنی میں ہو، یعنی ” امید ہے، یا شاید “ تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعتبار سے ہے کہ تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں، اس امید پر کہ وہ ہدایت پاجائیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تو ہر بات کا علم ہے کہ وہ ہدایت پائیں گے یا نہیں، تو اسے ” شاید “ ‘ یا ” امید ہے “ کہنے کی کیا ضرورت ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary At this place, the word: نَّذِيرٍ (nadhir: warner) in: مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ (to whom no warner has come.. -3)means a rasul or messenger.The sense is that no messenger had appeared amidst the Quraish of Makkah before the Holy Prophet t. This does not mean that the call of the messengers had just not reached them until that time, because it was clearly said in another verse of the Qur&an: وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (And there was no community without a warner having passed among them - 35:24). In this verse, (i.e. the verse 35:24) the word: نَّذِيرٍ (warner) appears in its general lexical sense, that is, one who calls people towards Allah, whether a messenger or prophet or one of their deputies, khali&fah or the ` alim of din. So, from this verse, it seems that the call of pure monotheism (tauhid) had reached all communities and groups. That is correct in its place and certainly the dictate of universal Divine mercy. Commentator Abu Hayyan says that the call to tauhid and &iman has never ceased in any time or place or people. And wherever a long time passed after the appearance of a prophet, it resulted in the dearth of those having the knowledge of the legacy of prophethood. Thereupon, some new prophet or messenger was sent. This requires that the call to tauhid should have reached the Arab peoples definitely, and much earlier. But, for this it is not necessary that the call should have been brought in by some prophet or messenger in person. It is possible that it may have reached through the learned serving as deputies to the prophetic mission. Therefore, the verses of this Surah, Surah Ya Sin and others which prove that no nadhir (warner) had appeared amidst the Quraish of Arabia before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) must be approached with the necessary consideration that the word: نَّذِيرٍ (nadhir) used there should mean a prophet and messenger in the technical sense denoting that no prophet and messenger had come amidst those people before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - even though, the call to tauhid and &iman may have reached there too through other means. Before the period of فَترَۃ fatrah, that is, before the appearance of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، it stands proved about some blessed souls who firmly adhered to the faith of Sayyidna Ibrahim and Ismail (علیہما السلام) . They believed in the Oneness of Allah and were averse to the worship of and sacrifices for idols. Ruh-ul-Ma’ ani reports from the Maghazi of Musa Ibn &Uqbah about one such person whose name was Zayd Ibn ` Amr Ibn Nufayl. He had also met the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، before he was ordained as a prophet. But, it was still before his prophethood that he died in the year the Quraish had built the edifice of the Baytullah - and this happened five years prior to his prophethood. About him, Musa Ibn &Uqbah says, ` He used to stop the Quraish from indulging in the worship of idols. He opposed the offering of sacrifices in the name of idols as an evil practice and would not eat the meat from animals slaughtered by the Mushriks.& Abu Dawud Tayalisi has reported from Sayyidna Said Ibn Zayd Ibn Amr (رض) ، the son of Zayd Ibn ` Amr Ibn Nufayl, one of the celebrated ten (عَشرۃ مُبَشّرّۃ) among the noble Sahabah, that he had submitted before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) saying: |"You already know about my father that he adhered to pure monotheism and rejected idolatry. Can I, then, pray for his forgiveness?|" The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"Yes, for him the prayer of forgiveness is permissible. He will, on the day of Qiyamah, rise as a community of his own.|" (Ruh-ul-Ma’ ani) Similarly, Warqah Ibn Nawfal (رض) who was present during the initial period of the prophethood and the revelation of the Qur&an was an adherent of pure monotheism (tauhid). He had expressed his resolve to help the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) but he died soon after. These examples prove that the people of Arabia were though not totally deprived of the Divine call to faith and monotheism, but that no prophet had appeared amidst them as such. Allah knows best. All three verses cited above carry an affirmation of the veracity of the Qur&an and the Prophet of Islam.

معارف ومسائل (آیت) ما اتہم من نذیر، نذیر سے مراد اس جگہ رسول ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قریش مکہ میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کوئی رسول نہیں آیا تھا۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انبیاء کی دعوت بھی ان کو اب تک نہ پہنچی تھی۔ کیونکہ دوسری آیت قرآن میں واضح طور پر ارشاد ہے و ان من امة الا خلا فیہا نذیر، یعنی کوئی امت اور جماعت دنیا میں ایسی نہیں جس میں کوئی اللہ سے ڈرانے والا اور اس کی طرف دعوت دینے والا نہ آیا ہو۔ اس آیت میں لفظ نذیر اپنے عام لغوی معنی میں ہے۔ یعنی اللہ کی طرف دعوت دینے والا وہ خواہ رسول اور پیغمبر ہو یا ان کا کوئی نائب، خلیفہ یا عالم دین۔ تو اس آیت سے تمام امتوں اور جماعتوں تک توحید کی دعوت پہنچ جانا معلوم ہوتا ہے، وہ اپنی جگہ صحیح درست اور حق تعالیٰ کی رحمت عامہ کا مقتضا ہے، جیسا کہ ابوحیان نے فرمایا کہ توحید اور ایمان کی دعوت کسی زمانے اور کسی مکان اور کسی قوم میں کبھی منقطع نہیں ہوتی، اور جب کہیں نبوت پر زمانہ دراز تک گزر جانے کے بعد اس نبوت کا علم رکھنے والے علماء بہت کم رہ گئے تو کوئی دوسرا نبی و رسول مبعوث ہوگیا۔ اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ اقوام عرب میں بھی بقدر ضرورت توحید کی دعوت پہلے سے ضرور پہنچی ہوگی مگر اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ یہ دعوت خود کوئی نبی و رسول لے کر آیا ہو، ہوسکتا ہے کہ ان کے نائبین علماء کے ذریعہ پہنچ گئی ہو۔ اس لئے اس سورة اور سورة یٰسین وغیرہ کی وہ آیتیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قریش عرب میں آپ سے پہلے کوئی نذیر نہیں آیا تھا، ضروری ہے کہ اس میں نذیر سے مراد اصطلاحی معنی کے اعتبار سے رسول و نبی ہو۔ اور مراد یہ ہو کہ اس قوم کے اندر آپ سے پہلے کوئی نبی و رسول نہیں آیا تھا، اگرچہ دعوت ایمان و توحید دوسرے ذرائع سے یہاں بھی پہنچ چکی ہو۔ زمانہ فترت یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے بہت سے حضرات کے متعلق یہ ثابت ہوا ہے کہ وہ دین ابراہیم و اسماعیل (علیہ السلام) پر قائم تھے، توحید پر ان کا ایمان تھا، بت پرستی اور بتوں کے لئے قربانی دینے سے متنفر تھے۔ روح المعانی میں موسیٰ بن عقبہ کی مغازی سے یہ روایت نقل کی ہے کہ زید بن عمرو بن نفیل جو آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور نبوت سے پہلے آپ سے ملے بھی تھے، مگر نبوت سے پہلے ان کا انتقال اس سال میں ہوگیا، جس میں قریش نے بیت اللہ کی تعمیر کی تھی اور یہ واقعہ آپ کی نبوت سے پانچ سال پہلے کا ہے، ان کا حال موسیٰ بن عقبہ نے یہ نقل کیا ہے کہ قریش کو بت پرستی سے روکتے تھے اور بتوں کے نام پر قربانی دینے کو بہت برا کہتے تھے اور مشرکین کے ذبائح کا گوشت نہ کھاتے تھے۔ اور ابو داؤد طیالسی نے زید بن عمرو بن نفیل کے صاحبزادے حضرت سعید بن زید بن عمرو سے جو صحابہ میں عشرہ مبشرہ میں داخل ہیں۔ یہ روایت کیا ہے کہ انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میرے والد کا جو کچھ حال تھا وہ آپ کو معلوم ہے کہ توحید پر قائم، بت پرستی کے منکر تھے، تو کیا میں ان کے لئے دعائے مغفرت کرسکتا ہوں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہاں ان کے لئے دعائے مغفرت جائز ہے، وہ قیامت کے روز ایک مستقل امت ہو کر اٹھیں گے۔ (روح) اسی طرح ورقہ بن نوفل جو آپ کے زمانہ نبوت شروع ہونے اور نزول قرآن کی ابتداء کے وقت موجود تھے توحید پر قائم تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کرنے کا اپنا عزم ظاہر کیا تھا، مگر فوراً بعد ہی ان کی وفات ہوگئی۔ یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ اقوام عرب بھی دعوت الٰہیہ اور دعوت ایمان و توحید سے محروم تو نہیں تھیں، مگر خود ان کے اندر کوئی نبی نہیں آیا تھا۔ واللہ اعلم ان تینوں آیتوں میں قرآن کی حقانیت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول برحق ہونے کا اثبات ہے

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىہُ ۚ بَلْ ہُوَالْحَـقُّ مِنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰىہُمْ مِّنْ نَّذِيْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ لَعَلَّہُمْ يَہْتَدُوْنَ۝ ٣ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) القری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ اهْتِدَاءُ يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] ، وقال : فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] ، فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] ، فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . ويقال المُهْتَدِي لمن يقتدي بعالم نحو : أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] تنبيها أنهم لا يعلمون بأنفسهم ولا يقتدون بعالم، وقوله : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] فإن الِاهْتِدَاءَ هاهنا يتناول وجوه الاهتداء من طلب الهداية، ومن الاقتداء، ومن تحرّيها، وکذا قوله : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] وقوله : وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] فمعناه : ثم أدام طلب الهداية، ولم يفترّ عن تحرّيه، ولم يرجع إلى المعصية . وقوله : الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ [ البقرة/ 157] أي : الذین تحرّوا هدایته وقبلوها وعملوا بها، وقال مخبرا عنهم : وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] . الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو ۔ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کرسکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں ۔ لیکن کبھی اھتداء کے معنی طلب ہدایت بھی آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو ۔ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تم کو اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہ راست پر چلو ۔ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بیشک ہدایت پالیں ۔ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں ۔ المھتدی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی عالم کی اقتدا کر رہا ہے ہو چناچہ آیت : ۔ أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] بھلا اگر ان کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ کسی کی پیروی کرتے ہوں ۔ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ نہ وہ خود عالم تھے اور نہ ہی کسی عالم کی اقتداء کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] تو جو کوئی ہدایت حاصل کرے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ میں اھتداء کا لفظ طلب ہدایت اقتدا اور تحری ہدایت تینوں کو شامل ہے اس طرح آیت : ۔ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال انہین آراستہ کر کے دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آتے ۔ میں بھی سے تینوں قسم کی ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور آیت : ۔ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] اور جو توبہ کرلے اور ایمان لائے اور عمل نیک کرے پھر سیدھے راستہ پر چلے اس کو میں بخش دینے والا ہوں ۔ میں اھتدی کے معنی لگاتار ہدایت طلب کرنے اور اس میں سستی نہ کرنے اور دوبارہ معصیت کی طرف رجوع نہ کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ«1» [ البقرة/ 157] اور یہی سیدھے راستے ہیں ۔ میں مھتدون سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت الہیٰ کو قبول کیا اور اس کے حصول کے لئے کوشش کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا چناچہ انہی لوگوں کے متعلق فرمایا ۔ وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] اے جادو گر اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر بیشک

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

مگر کفار مکہ یوں کہتے ہیں کہ اس قرآن حکیم کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طرف سے بنا لیا ہے بلکہ یہ قرآن کریم سچی کتاب ہے آپ کے رب کی طرف سے بذریعہ جبریل آپ پر نازل ہوئی ہے تاکہ آپ اس قرآن کریم کے ذریعے سے قریش کو ڈرائیں جن میں سے آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا رسول نہیں آیا تاکہ وہ گمراہی سے سیدھے راستے پر آجائیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣ (اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰٹہُ ج) (بَلْ ہُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰٹہُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِکَ لَعَلَّہُمْ یَہْتَدُوْنَ ) ” اہل مکہ حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے۔ ان کے لیے حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) سے لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک طویل عرصے کے دوران کوئی نبی یا رسول نہیں آیا۔ اس آیت میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

4 Just as in the first verse it was considered sufficient to say, 'It is without any doubt the Book of God," and no further argument was needed to be advanced to prove the Qur'an to be Divine Word, so in this verse also the only thing being said to refine the disbelievers' charge that the Qur'an was being forged is: "It is the Truth from your Lord." The reason for it is the same as we have given in E.N. 1 above. The listeners wcrc well aware of the person who was presenting the Qur'an, of the environment in which he was presenting it and the confidence and grace with which he was presenting it; they also knew the Book, its diction and literary excellence and its themes; they were also feeling the influence and impact it was having on contemporary society of Makkah. Under those conditions the Book's being the Truth sent down by the Lord of the Worlds, was such an evident factual reality that the mere mention of it in clear and definite terms was enough to refute the accusation of the disbelievers. Any attempt to strengthen this assertion by resort to reasoning would have caused it to be weakened instead. The case would be like this. Supposing it's day and the sun is shining bright, and a stubborn person calls it a dark night. To refute him it would be enough to say: "Do you call it a night when the bright day is clearly visible aIIaround`.'" If after this, one tried to bring logical arguments to prove the day to be day. it would not in any way strengthen the reply but would rather weaken it instead. 5 That is; "Just, as its being the Truth and a Revelation from Allah is absolutely certain, so is its being based on wisdom and Allah's mercy for you also evident. You yourselves know that for the past many centuries no Prophet has been raised among you, and you also know that your entire nation has been involved in ignorance and moral degeneration and sheer backwardness. In a state like this if a Prophet has been raised among you to awaken you and show you the right way, you should not be surprised. This was a great need which Allah has fulfilled for the sake of your own welfare and well-being. One should note that in Arabia the light of the true Faith was first of aII spread by the Prophets Hud and- Salih, who lived in the pre-historic age. They were followed by the Prophets Abraham and Ishmael, who lived 2,500 years before the Holy Prophet. After them the last Prophet to be raised in Arabia before the Holy Prophet was the Prophet Shu'aib, who had passed about 2,000 years earlier. This is a very long period. That is why it has been said, and rightly so, that no warner had come to those people. This did not mean that no warner had ever come to them, but it meant that the people had long stood in need of a warner. Here, another question may arise in the minds, which should be answered straightaway. One may ask: When no Prophet had come to the Arabs for hundreds of years before the Holy Prophet, what would be the basis of accountability of the people who had lived in that age of ignorance? They could not tell guidance from deviation and error. Then, if they had gone astray, how could they be held responsible for their deviation? The answer is this: The detailed knowledge of the true Faith might have been lost to those people, but even in that age of ignorance the people were not unaware that the true Faith was based on TauhId, and the Prophets had never taught idol-worship to their followers. This truth was also contained in those traditions which the Arabs had received from the Prophets born in their own land, and they were also aware of this through the teachings of the Prophets Moses, David, Solomon and Jesus (peace be upon alI of them) who had been born in the land adjoining their own. In the traditions of Arabia also it was well known that in the earliest times the Arabs' real religion was the Religion of Abraham and that idol-worship had been .introduced among them by a person named `Amr bin Luhayy. In spite of the prevalence of shirk and idol-worship, there were living in different parts of Arabia many such people, who rejected shirk, professed Tauhid and openly condemned offering of sacrifices at the shrines of idols. In the age close to the Holy Prophet's own, there had passed people like Quss bin Sa`idat-il-Iyadi, Umayyah bin Abi as-Salt, Suwaid bin `Amr alMustaliqi, Waki' bin Salamah bin Zuhair al-Iyadi', `Amr bin Jundub al-Juhani, Abu Qais Sarmah bin Abi Anas, Zaid bin `Amr bin Nufail, Waraqah bin Naufal, 'Uthman bin al-Huwairith, `Ubaidah bin Jahsh, `Amir bin az-Zarb al-'Advani ' Allaf bin Shahab at-Tamimi; , Al-Mutalammis bin Umayyah al-Kinani; , Zuhair bin Abi Salma, Khalid bin Sinan bin Ghais al-'Absi, `Abdullah al-Quda`i and many others, who were known as Hunafa'. These people publicly professed Tauhid as the basis of the Faith and declared their dissociation from the religion of the mushriks. Obviously they had got this concept from whatever had remained behind from the influence of the teaching of the Prophets. Moreover, the inscriptions belonging to the 4th and 5th centuries A. D. , which have been discovered in Yaman as a result of modern archaeological research and investigation, reveal that a monotheistic religion existed there in that age, whose followers acknowledged ar-Rahman (the All-Merciful) and Rabb-us-sama' wa!-ard ( Lord of the heavens and earth) alone as the One and only Deity. An inscription. dated 378 A.D. has been found from the ruins of a house of worship, which says that this house of worship has been built for the worship of "God of heavens" or "Lord of heavens". In an inscription of 465 A.D. there are words which clearly point to the doctrine of Tauhid. Similarly, an inscription of 512 A.D. has been discovered at Zabad, a place between the river Euphrates and Qinnasrin, in northern Arabia, bearing the words: Bism-ilahu, la 'izza illa lahu, /a shukra, ills lahv. All this shows that before the advent of the Holy Prophet, the teachings of the former Prophets had not altogether been forgotten, and there still existed many means which at least reminded man of the truth: "Your God is only One God. " (For further explanation, see E.N. 84 of Surah AI-Furqan).

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :2 اوپر کے تمہیدی فقرے کے بعد مشرکین مکہ کے پہلے اعتراض کو لیا جا رہا ہے جو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر کرتے تھے ۔ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :3 یہ محض سوال و استفہام نہیں ہے بلکہ اس میں سخت تعجب کا انداز پایا جاتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ان ساری باتوں کے باوجود ، جن کی بنا پر اس کتاب کا مُنزَّل من اللہ ہونا ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے ، کیا یہ لوگ ایسی صریح ہٹ دھرمی کی بات کہہ رہے ہیں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اسے خود تصنیف کر کے جھوٹ موٹ اللہ ربّ العالمین کی طرف منسوب کر دیا ہے ؟ اتنا لغو اور بے سر و پا الزام رکھتے ہوئے کوئی شرم ان کو نہیں آتی؟ انہیں کچھ محسوس نہیں ہوتا کہ جو لوگ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اور ان کے کام اور کلام کو جانتے ہیں اور اس کتاب کو بھی سمجھتے ہیں ، وہ اس بیہودہ الزام کو سن کر کیا رائے قائم کریں گے ؟ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :4 جس طرح پہلی آیت میں لَا رَیْبَ فِیْہِ ، کہنا کافی سمجھا گیا تھا اور اس سے بڑھ کر کوئی استدلال قرآن کے کلام الٰہی ہونے کے حق میں پیش کر نے کی ضرورت نہ سمجھی گئی تھی ، اسی طرح اب اس آیت میں بھی کفار مکہ کے الزام افترا پر صرف اتنی بات ہی کہنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے کہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے اس کی وجہ وہی ہے جو اوپر حاشیہ نمبر ۱ میں ہم بیان کر چکے ہیں ۔ کون ، کس ماحول میں ، کس شان کے ساتھ یہ کتاب پیش کر رہا تھا ، یہ سب کچھ سامعین کے سامنے موجود تھا ۔ اور یہ کتاب بھی اپنی زبان اور اپنے ادب اور مضامین کے ساتھ سب کے سامنے تھی ۔ اور اس کے اثرات و نتائج بھی مکہ کی اس سوسائٹی میں سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے ۔ اس صورت حال میں اس کتاب کا رب العالمین سے آیا ہوا حق ہونا ایسا صریح امر واقعہ تھا جسے صرف نعمتی طور پر بیان کر دینا ہی کفار کے الزام کی تردید کے لیے کافی تھا ۔ اس پر کسی استدلال کی کوشش بات کو مضبوط کرنے کے بجائے الٹی اس کمزور کرنے کی موجب ہوتی ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے دن کے وقت سورج چمک رہا ہو اور کوئی ڈھیٹ آدمی کہے کہ یہ اندھیری رات ہے ۔ اس کے جواب میں صرف یہی کہنا کافی ہے کہ تم اسے رات کہتے ہو ؟ یہ روز روشن تو سامنے موجود ہے ۔ اس کے بعد دن کے موجود ہونے پر اگر آپ منطقی دلیلیں قائم کریں گے تو اپنے جواب کے زور میں کوئی اضافہ نہیں کریں گے بلکہ درحقیقت اس کے زور کو کچھ کم ہی کر دیں گے ۔ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :5 یعنی جس کا حق ہونا اور من جانب اللہ ہونا قطعی و یقینی امر ہے اسی طرح اس کا مبنی بر حکمت ہونا اور خود تم لوگوں کے لیے خدا کی ایک رحمت ہونا بھی ظاہر ہے ۔ تم خود جانتے کہ صدہا برس سے تمہارے اندر کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے ۔ تم خود جانتے ہو کہ تمہاری ساری قوم جہالت اور اخلاقی پستی اور سخت پسماندگی میں مبتلا ہے ۔ اس حالت میں اگر تمہیں بیدار کرنے اور راہ راست دکھانے کے لیے ایک پیغمبر تمہارے درمیان بھیجا گیا ہے تو اس پر حیران کیوں ہوتے ہو ۔ یہ تو ایک بڑی ضرورت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پورا کیا ہے اور تمہاری اپنی بھلائی کے لیے کیا ہے ۔ واضح رہے کہ عرب میں دین حق کی روشنی سب سے پہلے حضرت ہود علیہ السلام اور حضرت صالح علیہ السلام کے ذریعہ سے پہنچی تھی جو زمانۂ قبل تاریخ میں گزرے ہیں ۔ پھر حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام آئے جن کا زمانہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈھائی ہزار برس قبل گزرا ہے ۔ اس کے بعد آخری پیغمبر جو عرب کی سر زمین میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھیجے گئے وہ حضرت شعیب علیہ السّلام تھے ۔ اور ان کی آمد پر بھی دو ہزار برس گزر چکے تھے ۔ یہ اتنی طویل مدت ہے کہ اس کے لحاظ سے یہ کہنا بالکل بجا تھا کہ اس قوم کے اندر کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا ۔ اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس قوم میں کبھی کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا تھا ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مدت دراز سے یہ قوم ایک متنبہ کرنے والے کی محتاج چلی آ رہی ہے ۔ یہاں ایک اور سوال سامنے آ جاتا ہے جس کو صاف کر دینا ضروری ہے ۔ اس آیت کو پڑھتے ہوئے آدمی کے ذہن میں یہ کھٹک پیدا ہوتی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے صدہا برس تک عربوں میں کوئی نبی نہیں آیا تو اس جاہلیت کے دور میں گزرے ہوئے لوگوں سے آخر باز پرس کس بنیاد پر ہوگی ؟ انہیں معلوم ہی کب تھی کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا ہے ؟ پھر اگر وہ گمراہ تھے تو اپنی اس گمراہی کے ذمہ دار وہ کیسے قرار دیے جا سکتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دین کا تفصیلی علم چاہے اس جاہلیت کے زمانہ میں لوگوں کے پاس نہ رہا ہو ، مگر یہ بات اس زمانے میں بھی لوگوں سے پوشیدہ نہ تھی کہ اصل دین توحید ہے اور انبیاء علیہم السلام نے کبھی بت پرستی نہیں سکھائی ہے ۔ یہ حقیقت ان روایات میں بھی محفوظ تھی جو عرب کے لوگوں کو اپنی سر زمین کے انبیاء سے پہنچی تھیں ، اور اسے قریب کی سرزمین میں آئے ہوئے انبیاء حضرت موسیٰ ، حضرت داؤد ، حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی تعلیمات کے واسطے سے بھی وہ جانتے تھے ۔ عرب کی روایات میں یہ بات بھی مشہور و معروف تھی کہ قدیم زمانہ میں اہل عرب کا اصل دین ، دین ابراہیمی ( علیہ السلام ) تھا اور بت پرستی ان کے ہاں عُمرو بن لُحیّ نامی ایک شخص نے شروع کی تھی ۔ شرک و بت پرستی کے رواج عام کے باوجود عرب کے مختلف حصوں میں جگہ جگہ ایسے لوگ موجود تھے جو شرک سے انکار کرتے تھے ، توحید کا اعلان کرتے تھے اور بتوں پر قربانیاں کرنے کی علانیہ مذمت کرتے تھے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے بالکل قریب زمانے میں قُسّ بن ساعِد ۃالایاوی ، اُمَیَّہ بن ابی الصَّلْت ، سُوْید بن عُمرو المُصْطَلِقی ، وکیع بن سَعَمہ بن زُہَیر الاِیاوی ، عُمرو بن جُندُب الجُہنِی ، ابو قیس صَرمہ بن ابی انَس ، زید بن عُمرو بن نُفَیل ، ورقہ بن نَوفَل ، عثمان بن الحُوَیزِث ، عبیداللہ بن جَحش ، عامر بن الظَّرب العَدْوانی ، عَلّاف بن شہاب التَّمیمی ، المُتَلَمِسّ بن اُمَیّۃ الکنانی ، زُہَیر بن ابی سَلْمیٰ ، خالد بن سِنان بن غَیث ، العَبُسی ، عبداللہ القُضَاعِی اور ایسے ہی بہت سے لوگوں کے حالات ہمیں تاریخوں میں ملتے ہیں جنہیں حُنَفَاء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ یہ سب لوگ علی الا علان توحید کو اصل دین کہتے تھے اور مشرکین کے مذہب سے اپنی بے تعلقی کا صاف صاف اظہار کرتے تھے ۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے ذہن میں یہ تخیل انبیاء علیہم السلام کی سابقہ تعلیمات کے باقی ماندہ اثرات ہی سے آیا تھا ۔ اس کے علاوہ یمن میں چوتھی پانچویں صدی عیسوی کے جو کتبات آثار قدیمہ کی جدید تحقیقات کے سلسلے میں برآمد ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں وہاں ایک توحیدی مذہب موجود تھا جس کے پیرو الرحمان اور ربّ السّماء والارض ہی کو اِلٰہ واحد تسلیم کرتے تھے ۔ ۳۷۸ عیسوی کا ایک کتبہ ایک عبادت گاہ کے کھنڈر سے ملا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ یہ معبد الٰہ ذو سَموی یعنی الٰہ السماء کی عبادت کے لئے بنایا گیا ہے ۔ ٤٦۵ عیسوی کے ایک کتبہ میں بنصر وردا الٰھن بعل سمین وارضین ( بنصر و بعون الالٰہ ربّ السماء والارْض ) کے الفاظ لکھے ہیں جو عقیدۂ توحید پر صریح دلالت کرتے ہیں ۔ اسی دور کا ایک اور کتبہ ایک قبر پر ملا ہے جس میں بِخَیل رحمنن ( یعنی استعین بحول الرحمٰن ) کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں ، اسی طرح شمال عرب میں دریائے فرات اور قِنَّسرین کے درمیان زَبَد کے مقام پر ۵۱۲ عیسوی کا ایک کتبہ ملا ہے جس میں بسْم الالٰہ لَا عِزَّ اِلَّا لَہ لَا شُکرَ اِلَّا لَہ کے الفاظ پائے جاتے ہیں ۔ یہ ساری باتیں بتاتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے انبیاء سابقین کی تعلیمات کے آثار عرب سے بالکل مٹ نہیں گئے تھے اور کم از کم اتنی بات یاد دلانے کے لیے بہت سے ذرائع موجود تھے کہ تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ، صفحات ٤٦٤ ۔ ٤٦۵ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: مکہ مکرمہ میں جب سے بت پرستی شروع ہوئی، کوئی نبی نہیں آیا تھا، انفرادی طور پر کچھ ایسے حجرات حق کی تعلیم و تبلیغ کرتے رہے ہیں جو نبی نہیں تھے، لیکن نبی کوئی نہیں آیا تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(32:3) ام۔ کبا۔ یا۔ خواہ۔ یہاں بمعنی بل (حرف اضراب) آیا ہے۔ یعنی یہ منکرین و کافرین نہ صرف اس کے منزل من اللہ ہونے میں شک کرتے ہیں بلکہ وہ تو اس سے بھی بڑھ کر یہ بہتان باندھتے ہیں کہ یہ افتراء (من گھڑت) ہے۔ افترہ : افتری ماضی واحد مذکر غائب افتری یفتری افتراء (افتعال) مصدر سے۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب الکتب کی طرف راجع ہے اس نے اس (کتاب) کو خود گھڑ لیا ہے ۔ بل۔ حرف اضراب ہے۔ یہاں اضراب انکار سے اثبات کی طرف ہے یعنی ان کا شک کرنا یا اس کو من گھڑت قرار دینا غلط ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تیرے پروردگار کی طرف سے یہ الحق ہے۔ ال استغراق کا ہے۔ لتنذر۔ میں لام تعلیل کا ہے ای انزلہ لتنذر اس نے اس کتاب کو نازل فرمایا تاکہ آپ ڈرائیں (اس قوم کو) تنذر مضارع منصوب (بوجہ لام تعلیل) صیغہ واحد مذکر حاضر۔ (تاکہ) تو ڈرائے۔ انذار (افتعال) مصدر۔ ما اتہم : ما نافیہ ہے۔ اتی ماضی واحد مذکر غائب ۔ اتیان مصدر سے اتی یاتی (ضرب) ہم ضمیر جمع مذکر غائب اس کا مرجع قوما ہے نہیں آیا ان کے پاس کوئی (نذیر) یعنی اس قوم کے پاس (کوئی ڈرانے والا) نہیں آیا۔ قوم سے مراد اہل عرب اور خاص کر قوم قریش ہے۔ تفسیر الماجدی میں ہے :۔ قوم قریش اسماعیلی تھی ۔۔ دین ابراہیمی و اسماعیلی چھوڑنے کے بعد جب سے یہ قوم عرب میں آباد ہوکر کفرو شرک میں مبتلا ہوگئی تھی۔ اس وقت سے ان میں کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا۔ امام المفسرین امام رازی سے یہی تفسیر مفعول ہے۔ ولامہ مودودی رقمطراز ہیں :۔ اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس قوم میں کبھی کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا تھا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مدت دراز سے یہ قوم ایک متنبہ کرنے والے کی محتاج چلی آرہی تھی۔ لعلہم یھتدون۔ اس کی تفسیر میں صاحب ضیاء القرآن لکھتے ہیں :۔ بغوی نے اپنی تفسیر میں واقدی سے نقل کیا ہے کہ قرآن کریم میں جہاں بھی لعل استعمال ہوا ہے اس کا مقصد علت بیان کرنا ہے یعنی آپ کے ڈرانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ ہدایت پاجائیں اور جن لوگوں نے بعض مقامات پر لعل کو ترجی یعنی آرزو اور امید کے معنی میں استعمال کیا ہے تو وہ آرزو متکلم یا مخاطب کی طرف سے ہوگی کیونکہ یہ جہالت کو مستلزم ہے اور اللہ تعالیٰ اس عیب سے پاک ہے۔ مطلب یہ کہ :۔ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق ہے ۔ اور اس مقصد کے لئے نازل کی گئی ہے کہ تو مشرکین کو شرک و کفر کے مآل سے ڈرائے تاکہ تیرے ڈرانے سے وہ ہدایت پائیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت و اہانت کو پوری طرح جاننے کے باوجود یہ لوگ ایسی صریح غلط اور لغوبات کہہ رہے ہیں۔9 مراد عرب یا قریش کے لوگ ہیں جن کی طرف خود ان میں سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا۔ حضرت اسماعیل کی بعثت پر (جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ان کے آخری پیغمبر تھے) تقریباً ڈھائی ہزار سال گذر چکے تھے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ام یقولون الخ۔ یہ شکوی ہے۔ یہ قرآن بلا شک و شبہ رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے لیکن مشرکین ماننے کے بجائے اسے اللہ کا کلام ہی نہ سمجھتے بلکہ اسے پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا افتراء کہتے ہیں کہ آپ نے اپنی طرف سے تصنیف کر کے عیاذا باللہ غلط طور سے اللہ کی طرف منسوب کردیا ہے۔ بل ھو الحق یہ جواب شکوی ہے۔ یہ قرآن کسی کا ساختہ پرداختہ نہیں۔ بلکہ وہ سراپا حق ہے اور تیرے پروردگار کی طرف سے ہے پہلی صورت میں من ربک ربک خبر بعد خبر ہے اور دوسری صورت میں الھق کے متعلق ہے لتنذر الخ کتاب کا مقصد یہ ہے کہ آپ ایک ایسی قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، تاکہ وہ شرک و ضلالت کو چھوڑ کر توحید و ہدایت کی راہ اختیار کریں۔ عرب میں قریش کی طرف حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کے بعد کوئی پیغمبر مبعوث نہیں ہوا۔ حضرت موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) صرف بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد زمان فترت میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا۔ واما العرب غیر المعاسرین فلم یاتھم من عہد اسمعیل (علیہ السلام) نبی منہم بل لم یرسل الیہم نبی مطلقا و موسیٰ و عیسیٰ و غیرہما من انبیاء بنی اسرائیل علیہم الصلوہ والسلام لم یبعثوا الیہم علی الاظہر (روح ج 21 ص 119) ۔ وقال ابن عباس و مقاتل و ذلک فی الفترۃ التی کان بین عیسیٰ و محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (خازن و معالم ج 5 ص 183، قرطبی ج 14 ص 85) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

3۔ کیا یہ منکر لوگ یوں کہتے ہیں کہ اس قرآن کو پیغمبر نے گھڑ لیا ہے اور اپنے دل سے بنا لیا ہے ہرگز نہیں بلکہ یہ کتاب حق اور سچ ہے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آئی ہے تا کہ آپ لوگوں کو ڈرا دیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تا کہ وہ لوگ صحیح راہ پر آجائیں ۔ یعنی اس قرآن کریم کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ یہ ان کا بنایا ہوا ہے یہ گھڑتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا کلام کہہ کر سناتے ہیں حالانکہ یہ بالکل جھوٹ اور غلط ہے بلکہ یہ قرآن کریم تو ایک سچی کتاب ہے اور پروردگار کی طرف سے آئی ہے اور اس لئے آئی ہے تا کہ آپ ان لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرا دیں جن کو عرصے سے کوئی ڈر سنانے والا نہیں آیا۔ یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد یا حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد کوئی ڈرانے والا نہیں آیا اور ڈرانے اور ڈر سنانے سے فائدہ یہ ہے تا کہ یہ لوگ راہ راست پر آجائیں۔