Surat Assajdah

Surah: 32

Verse: 5

سورة السجدة

یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الۡاَرۡضِ ثُمَّ یَعۡرُجُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗۤ اَلۡفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ ﴿۵﴾

He arranges [each] matter from the heaven to the earth; then it will ascend to Him in a Day, the extent of which is a thousand years of those which you count.

وہ آسمان سے لے کر زمین تک ( ہر ) کام کی تدبیر کرتا ہے پھر ( وہ کام ) ایک ایسے دن میں اس کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازہ تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يُدَبِّرُ الاَْمْرَ مِنَ السَّمَاء إِلَى الاَْرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ ... He directs the command from the heavens to the earth; then it will go up to Him,) means, His command comes down from above the heavens to the furthest boundary of the seventh earth. This is like the Ayah, اللَّهُ الَّذِى خَلَقَ سَبْعَ سَمَـوَتٍ وَمِنَ الاٌّرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الاٌّمْرُ بَيْنَهُنَّ It is Allah Who has created seven heavens and of the earth the like thereof. The command descends between them,(65:12) Deeds are raised up to the place of recording above the lowest heaven. The distance between heaven and earth is the distance of five hundred years traveling, and the thickness of the heaven is the distance of five hundred years. Mujahid, Qatadah and Ad-Dahhak said, "The distance covered by the angel when he descends or ascends is the distance of five hundred years, but he covers it in the blink of an eye." Allah says: ... فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51آسمان سے، جہاں اللہ کا عرش اور لوح محفوظ ہے، اللہ تعالیٰ زمین پر احکام نازل فرماتا ہے یعنی تدبیر کرتا اور زمین پر ان کا نفاذ ہوتا ہے۔ جیسے موت اور زندگی، صحت اور مرض، عطا اور منع، غنا اور فقر، جنگ اور صلح، عزت اور ذلت، وغیرہ، اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر سے اپنی تقدیر کے مطابق یہ تدبیریں اور تصرفات کرتا ہے۔ 52یعنی پھر اس کی یہ تدبیر یا امر اس کی طرف واپس لوٹتا ہے ایک ہی دن میں جسے فرشتے لے کر جاتے ہیں اور صعود کا یا آنے جانے کا فاصلہ اتنا ہے کہ غیر فرشتہ ہزار سال میں طے کرے۔ یا اس سے قیامت کا دن مراد ہے کہ اس دن انسانوں کے سارے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے۔ اس یوم کی تعیین و تفسیر میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے امام شوکانی نے1516اقوال اس ضمن میں ذکر کیے ہیں اس لیے حضرت ابن عباس نے اس کے بارے میں توقف کو پسند فرمایا اور اس کی حقیقت کو اللہ کے سپرد کردیا ہے۔ صاحب ایسر التفاسیر لکھتے ہیں کہ قرآن میں یہ تین مقامات پر آیا ہے اور تینوں جگہ الگ الگ دن مراد ہے۔ (وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَمْلَيْتُ لَهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ اَخَذْتُهَا ۚ وَاِلَيَّ الْمَصِيْرُ ) 22 ۔ الحج :48) میں یوم کا لفظ عبارت ہے اس زمانہ اور مدت سے جو اللہ کے ہاں اور سورة معارج میں جہاں یوم کی مقدار پچاس ہزار سال بتلائی گئی ہے یوم حساب مراد ہے اور اس مقام زیر بحث میں یوم سے مراد دنیا کا آخری دن ہے جب دنیا کے تمام معاملات فنا ہو کر اللہ کی طرف لوٹ جائیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٦] اس کے تخلیقی کارناموں کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک کام کا ارادہ کرتا ہے یا اس کی اسکیم بناتا ہے تو تدبیر امور پر مامور فرشتوں کو اس کی خبر دیتا ہے۔ جو اللہ کے حکم کے مطابق نیچے اترے ہیں۔ تمام اسباب ظاہری و باطنی خواہ زمین سے متعلق سے ہوں یا آسمان سے سب کے سب خود بخود جمع ہو کر اس کام کی تکمیل کے احترام میں لگ جاتے ہیں۔ اور ایک دن میں جب یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے تو فرشتے اللہ کے حضور حاضر ہو کر اس کی روئداد پیش کردیتے ہیں۔ اور یہ ایک دن اہل دنیا کے حساب کے مطابق ایک ہزار سال کی مدت ہوتی ہے۔ گویا فرشتوں کو ایک ہزار سالہ پروگرام اللہ تعالیٰ دے دیتے ہیں۔ جب سے کام سرانجام پاچکتا ہے تو پھر اگلا ایک ہزارسالہ پروگرام مدبرات امر فرشتوں کے حوالہ کردیا جاتا ہے۔ اسی آیت میں دراصل ان مشرکوں کے اس اعتراض کا جواب دیا جارہا ہے جو اس بات پر مصر تھے اور نبیوں سے کہتے رہتے تھے کہ جس عذاب کی تم دھمکی دیتے ہو وہ آکیوں نہیں جاتا ؟ یا تم اسے ابھی ہم پر لے کیوں نہیں آتے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس ہزار سالہ پروگرام میں کسی قوم پر عذاب آنے کا پروگرام بھی شامل ہوتا ہے۔ اور وہ پروگرام کے مطابق اپنے وقف مقررہ پر ہی آتا ہے اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ جو عذاب کسی قوم کے مقدر ہوچکا ہے وہ اس پر نہ آئے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے سارے کام سوچے سمجھے پروگرام کے مطابق بروئے کار لاتا ہے۔ تمہارے جلدی مچانے یا نہ مچانے کیا کچھ فائدہ یا اثر نہیں ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَاۗءِ اِلَى الْاَرْضِ ۔۔ : اس آیت کی تفسیر میں اہل علم کا بہت اختلاف ہے، حتیٰ کہ بعض نے اس کی تفصیل اللہ کے علم کے سپرد کرتے ہوئے خاموشی اختیار فرمائی ہے، کیونکہ ہر تفسیر میں ایک طرح کی کمی اور اعتراض کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ یہاں ان میں سے دو تفسیریں نقل کی جاتی ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ جو فیصلہ فرماتا ہے اسے آسمان سے زمین کی طرف نافذ فرماتا ہے، پھر اس کے نافذ ہونے کی خبر اوپر اس کی طرف ایک ایسے دن میں جاتی ہے جس کی مقدار آسمان سے زمین پر اترنے اور پھر اس کی طرف چڑھنے میں دنیا کے ہزار سال کے برابر ہے، کیونکہ آسمان و زمین کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، چناچہ اترنے اور اوپر جانے کا فاصلہ ہزار سال ہے۔ ابن جریر طبری نے فرمایا : ” یہ سب اقوال سے بہتر ہے، کیونکہ یہ اس کے معانی میں سب سے ظاہر اور قرآن کے ظاہر الفاظ سے زیادہ ملتا ہے۔ “ ابن کثیر (رض) نے اس کے ساتھ مجاہد، قتادہ اور ضحاک کا قول نقل فرمایا ہے : ”(اللہ تعالیٰ کا حکم لے کر) فرشتے کا اترنا پانچ سو سال کے فاصلے میں ہوتا ہے اور اس کا چڑھنا بھی پانچ سو سال کے فاصلے میں ہوتا ہے، لیکن وہ اسے آنکھ جھپکنے میں طے کرلیتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗٓ اَلْفَ سَـنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ) [ السجدۃ : ٥ ] ” ایک ایسے دن میں جس کی مقدار ہزار سال ہے، اس (حساب) سے جو تم شمار کرتے ہو۔ “ (ابن کثیر) قاسمی، ابن جزی صاحب التسہیل، بغوی، سعدی اور بہت سے مفسرین نے یہی معنی بیان فرمایا ہے، یا اس کو ترجیح دی ہے۔ واضح رہے کہ قرآن مجید میں ” یَومٍ “ کا لفظ پچاس ہزار سال کی مدت کے لیے بھی آیا ہے اور ہزار سال کے لیے بھی، دنیا کے عام دنوں کے لیے بھی اور وقت کے چھوٹے سے چھوٹے جز کے لیے بھی، جیسا کہ فرمایا : (يَسْـَٔـلُهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ ) [ الرحمٰن : ٢٩ ] ” اس سے مانگتا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے، ہر دن وہ ایک نئی شان میں ہے۔ “ یہاں ” ہر دن “ سے مراد ہر لمحہ ہے۔ مقصد اس آیت کا یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ ان سے لاتعلق نہیں ہوگیا کہ اس کے چلانے کا کام کوئی اور کر رہا ہو، بلکہ آسمان سے لے کر زمین تک، بڑے سے لے کر چھوٹے تک، ہر کام کی تدبیر وہ خود کرتا ہے۔ وہ اپنے ہر حکم پر عمل کی بھی مکمل خبر رکھتا ہے اور زمین و آسمان کے درمیان ہزار برس کے فاصلے کے باوجود اس کے حکم سے یہ سب کچھ لمحوں میں ہوجاتا ہے۔ اس آیت میں ان جاہل صوفیوں اور مشرکین کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عالم کا نظام اپنے پیاروں کو دے کر فارغ ہوچکا ہے اور اب سارا نظام وہی چلا رہے ہیں۔ پھر ان حضرات نے اس کے لیے باقاعدہ عہدے بنا رکھے ہیں، جن کے مطابق ان کا کوئی ولی قیّوم کے مرتبے پر ہے، کوئی قطب ہے، کوئی غوث ہے، کچھ ابدال ہیں اور کچھ اوتاد، اور یہی حضرات دنیا کا نظام چلا رہے ہیں۔ اس کے مطابق انھوں نے شیخ عبدالقادر جیلانی کو غوث اعظم (سب سے بڑا مددگار) کا عہدہ دے رکھا ہے۔ ایک اللہ کو پکارنے کے بجائے یہ لوگ کبھی کسی کو مدد کے لیے پکارتے ہیں اور کبھی کسی کو۔ دراصل ان کی گمراہی کے پیچھے وہی فاسد عقیدہ ہے جس کی تردید اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمائی ہے کہ جو مالک لمحوں میں ہزار سال کے فاصلے سے ہر معاملے کی تدبیر کرتا اور اس کی پوری خبر رکھتا ہے، اس اکیلے کی عبادت اور اسی سے مانگنے کے بجائے کسی ایسے کی عبادت اور اس سے فریاد کیوں کی جائے جس کا کسی کام کی تدبیر میں کوئی دخل ہی نہیں۔ 3 دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کو پیدا کرنے کے وقت سے لے کر آسمان سے اپنی مخلوق اور زمین کے ہر معاملے کی تدبیر کر رہا ہے اور یہ سلسلہ ان کے فنا ہونے تک جاری رہے گا۔ پھر یہ تمام معاملات اس کی طرف اوپر جاتے ہیں، تاکہ وہ ان کے بارے میں ایک ایسے دن کے اندر فیصلہ فرمائے جس کی مقدار ہزار برس ہے، ان دنوں سے جو تم شمار کرتے ہو۔ مفسر المراغی، ابن عاشور، ابوبکر الجزائری صاحب ایسر التفاسیر، ابراہیم القطان صاحب تیسیر التفسیر اور دوسرے کئی مفسرین نے یہی معنی بیان کرنے پر اکتفا فرمایا ہے اور کئی دوسرے مفسرین نے اسے ترجیح دی ہے۔ اس معنی کو ترجیح دینے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہر معاملے کے اور ہر انسان کے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے کا ذکر فرمایا ہے، فرمایا : (وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ ) [ آل عمران : ٢٨ ] ، (ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ) [ البقرۃ : ٢٨ ] ، (وَاِلَيْهِ يُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّهٗ ) [ ھود : ١٢٣ ] ، (ثُمَّ اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) [ الأنعام : ٦٠ ] اور فرمایا : (اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا ۭوَعْدَ اللّٰهِ حَقًّا ۭ اِنَّهٗ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ ) [ یونس : ٤ ] اس تفسیر میں ایک اشکال ہے کہ سورة معارج (٤) میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کی مقدار پچاس ہزار سال بتائی ہے، جب کہ یہاں ایک ہزار سال کا ذکر ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہزار سال سے مراد محض کثرت ہے، کیونکہ عربی زبان میں سب سے بڑا عدد ” أَلْفٌ“ (ہزار) ہی ہے۔ اس سے زیادہ عدد کی ضرورت ہو تو دوسرے عدد ساتھ ملائے جاتے ہیں، مثلاً ” خَمْسُوْنَ أَلْفًا “ یا ” مِاءَۃُ أَلْفٍ “ اور بعض اوقات کثرت کے اظہار کے لیے ” أَلْفٌ“ ہی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ اس لیے ” خمْسِیْنَ اَلْفَ سَـنَةٍ “ اور ” اَلْفَ سَـنَةٍ “ دونوں سے قیامت ہی کا دن مراد ہے اور دونوں عددوں سے کثرت کا اظہار مقصود ہے۔ ہوسکتا ہے اصل مدت اس سے کہیں زیادہ ہو جسے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ (واللہ اعلم) بعض مفسرین نے یہ حل بیان فرمایا ہے کہ مصیبت کے ایام لمبے ہوتے ہیں، چناچہ پچاس ہزار سال کی لمبائی کفار کے لیے ہوگی، جیسے فرمایا : (فَذٰلِكَ يَوْمَىِٕذٍ يَّوْمٌ عَسِيْرٌ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ غَيْرُ يَسِيْرٍ ) [ المدثر : ٩، ١٠ ] ” تو وہ اس دن، ایک مشکل دن ہے۔ کافروں پر آسان نہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

معارف ومسائل روز قیامت کا طول : (آیت) فی یوم کان مقدار الف سنة مما تعدون، ” یعنی اس دن کی مقدار تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کی ہوگی “ اور سورة معارج کی آیت میں ہے (آیت) فی یوم کان مقدار خمسین الف سنة، ” یعنی اس دن کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہو گی “ اس کا ایک سیدھا سا جواب تو وہ ہے جو بیان القرآن میں اختیار کیا گیا ہے کہ اس دن کے ہولناک ہونے کے سبب یہ ان لوگوں کو بہت دراز محسوس ہوگا۔ اور یہ درازی بمقدار اپنے ایمان و اعمال کے ہوگی۔ جو بڑے مجرم ہیں ان کو زیادہ جو کم ہیں ان کو کم محسوس ہوگی، یہاں تک کہ جو دن بعض کو ایک ہزار سال کا معلوم ہوگا وہ دوسروں کے نزدیک پچاس ہزار سال کا ہوگا۔ تفسیر روح المعانی میں اور بھی متعدد توجیہات علماء اور صوفیاء کرام سے نقل کی گئی ہیں، مگر وہ سب کے سب قیاسات ہی ہیں۔ ایسی چیز جس کو قرآن کا مدلول کہا جاسکے یا جس پر یقین کیا جاسکے کوئی نہیں۔ اس لئے اسلم وہی طریقہ ہے جو سلف صالحین صحابہ وتابعین نے اختیار کیا، کہ اس ایک پچاس کے فرق کو علم الٰہی کے حوالہ کیا اور خود اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ ہمیں معلوم نہیں۔ حضرت ابن عباس نے اس کے متعلق فرمایا ہما یومان ذکرہما اللہ تعالیٰ فی کتابہ اللہ تعالیٰ اعلم بھما واکرہ ان اقول فی کتاب اللہ مالا اعلم (اخرجہ عبدالرزاق والحاکم وصححہ) ” یعنی یہ دو دن ہیں جن کا ذکر اللہ نے اپنی کتاب میں کیا ہے اور اللہ ہی ان کی حقیقت کو جانتا ہے اور میں اس کو برا سمجھتا ہوں کہ قرآن میں وہ بات کہوں جس کا مجھے علم نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَاۗءِ اِلَى الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْہِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُہٗٓ اَلْفَ سَـنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۝ ٥ دبر والتدبیرُ : التفکّر في دبر الأمور، قال تعالی: فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات/ 5] ، يعني : ملائكة موكّلة بتدبیر أمور، ( د ب ر ) دبر ۔ التدبیر ( تفعیل ) کسی معاملہ کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے اس میں غور و فکر کرنا قرآن میں ہے :۔ فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات/ 5] پھر دنیا کے ) کاموں کا انتظام کرتے ہیں ۔ یعنی وہ فرشتے جو امور دینوی کے انتظام کیلئے مقرر ہیں ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے عرج العُرُوجُ : ذهابٌ في صعود . قال تعالی: تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج/ 4] ، فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ [ الحجر/ 14] ، والمَعَارِجُ : المصاعد . قال : ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج/ 3] ، ولیلة المِعْرَاجُ سمّيت لصعود الدّعاء فيها إشارة إلى قوله : إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر/ 10] ، وعَرَجَ عُرُوجاً وعَرَجَاناً : مشی مشي العَارِجِ. أي : الذاهب في صعود، كما يقال : درج : إذا مشی مشي الصاعد في درجه، وعَرِجَ : صار ذلک خلقة له «4» ، ( ع ر ج ) العروج کے معنی اوپر چڑھنا کے ہیں قرآن میں ہے : تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج/ 4] جس کی طرف روح ( الامین ) اور فرشتے چڑھتے ہیں ۔ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ [ الحجر/ 14] اور وہ اس میں چڑھنے بھی لگیں ۔ اور معارج کے معنی سیڑھیوں کے ہیں اس کا مفرد معرج ( اور معراج ) ہے ۔ قرآن میں ہے : ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج/ 3] سیڑھیوں والے خدا کی طرف سے ( نازل ہوگا ) ۔ اور شب معراج کو بھی لیلۃ المعراج اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں دعائیں اوپر چڑھتی ہیں جیسا کہ آیت کریمہ ؛ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر/ 10] اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ عد العَدَدُ : آحاد مركّبة، وقیل : تركيب الآحاد، وهما واحد . قال تعالی: عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ، وقوله تعالی: فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف/ 11] ، فَذِكْرُهُ للعَدَدِ تنبيه علی کثرتها . والعَدُّ ضمُّ الأَعْدَادِ بعضها إلى بعض . قال تعالی: لَقَدْ أَحْصاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا [ مریم/ 94] ، فَسْئَلِ الْعادِّينَ [ المؤمنون/ 113] ، أي : أصحاب العَدَدِ والحساب . وقال تعالی: كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ [ المؤمنون/ 112] ، وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ [ الحج/ 47] ، ( ع د د ) العدد ( گنتی ) آحا د مرکبہ کو کہتے ہیں اور بعض نے اس کے معنی ترکیب آحاد یعنی آجا د کو ترکیب دینا بھی کئے ہیں مگر ان دونوں معنی کا مرجع ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف/ 11] ہم نے غار میں کئی سال تک ان کانوں پر ( نیند کا ) بردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ کے لفظ سے کثرت تعداد کی طرف اشارہ ہے ۔ العد کے معنی گنتی اور شمار کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَقَدْ أَحْصاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا[ مریم/ 94] اس نے ان سب کا اپنے علم سے احاطہ اور ایک ایک کو شمار کر رکھا ہے ۔ اور آیت ۔ فَسْئَلِ الْعادِّينَ [ المؤمنون/ 113] کے معنی یہ ہیں کہ حساب دانوں سے پوچھ دیکھو ۔ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ [ المؤمنون/ 112] زمین میں کتنے برس رہے ۔ وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ [ الحج/ 47] بیشک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کی رو سے ہزار برس کے برابر ہے :

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

وہ آسمان سے لیکر زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے وحی فرشتوں کو دے کر بھیجتا ہے اور پھر فرشتے اسی کے حضور میں واپس ہوجاتے ہیں ایک ہی دن میں جس کی مقدار دنیاوی سالوں میں ہزار سال کے برابر ہے کہ فرشتوں کے علاوہ دوسروں کو اترنے اور چڑھنے کے لیے ہزار سال کا زمانہ چاہیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥ (یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْضِ ) کائنات کے انتظامی امور کی منصوبہ بندی اللہ تعالیٰ کے ہاں ہزار سال کے حساب سے کی جاتی ہے ‘ جیسا کہ اگلے جملے میں واضح کیا جا رہا ہے کہ اللہ کا ایک دن ہمارے ہزار سال کے عرصے کے برابر ہے۔ اس منصوبہ بندی کے اندر لیلۃ القدر گویا انسانی کیلنڈر کے حساب سے متعلقہ سال کے بجٹ سیشن کا درجہ رکھتی ہے۔ اس سالانہ بجٹ میں فیصلے کیے جاتے ہیں کہ متعلقہ سال کے اندر دنیا میں انسانوں کے لیے کون کون سے امور کس کس طرح نمٹائے جائیں گے۔ انہی فیصلوں کی تعمیل و تنفیذ کے لیے آسمانوں سے فرشتوں کا نزول ہوتا ہے جس کا ذکر سورة القدر میں آیا ہے۔ (ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ ) پھر فرشتے ان احکام کی تعمیل سے متعلق اپنی اپنی رپورٹس اللہ کے حضور پیش کرتے ہیں۔ (فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٓٗ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ) ۔ یہ مضمون اپنی اہمیت کے پیش نظر قرآن حکیم میں دو دفعہ آیا ہے۔ چناچہ سورة الحج میں کفار کی طرف سے عذاب کی جلدی مچانے کے جواب میں یوں وضاحت فرمائی گئی : (وَاِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ) اور یقیناً ایک دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کے نزدیک ایک ہزار برس کی طرح ہے جیسے تم لوگ گنتی کرتے ہو۔ جبکہ یہاں اللہ تعالیٰ کی تدبیر امر کے سلسلے میں ایک بنیادی اصول کے طور پر بتایا گیا ہے کہ اللہ کے ہاں جو فیصلے ہوتے ہیں ان کی منصوبہ بندی ایک ہزار سال کے عرصے کے مطابق کی جاتی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

9 That is, "The events of a thousand years of your history are a day's work for AIlah." He entrusts His scheme of work to the "angels of destiny", who submit their report of work before Him and receive orders for the scheme of the next day (whose length according to your calculation would be a thousand years). "This thing has been expressed at two other places also in the Qur'an, the study of which can help to understand it fully well. The disbelievers of Arabia said, "Muhammad (upon whom be Allah's peace) claimed to be a Prophet many years ago. He has warned us again and again that if we did not accept his message and rejected his invitation, we would be seized by Allah's torment. He has been repeating this threat since many years, but the torment has not overtaken us, although we have denied and rejected him clearly over and over again. Had his threats any substance in them, we would have been seized in the torment long ago " In this connection, in Surah AI-Hajj Allah says: "These people are demanding of you to hasten the chastisement. Allah will never fail to fulfil His threat, but a day with your Lord is equal to a thousand years as you reckon." (v. 47) In Surah AI-Ma'arij (vv. 1-7), it has been said: "An asker has asked for a torment, (the torment) which must befall the disbelievers. There is none to avert it. It is from that God Who is the Owner of the Steps of Ascent. The angels and the Spirit ascend to His Presence in a day whose measure is fifty thousand years. So, have patience, O Prophet, a graceful patience! They think it is far off, but We see it near at hand. " What is meant to be impressed in these verses is this: Allah's decrees are not passed and enforced in the history of mankind according to the earthly watches and calendars. When a nation is warned that if it adopted such and such an attitude in life, it would meet with such and such an end, the people would be foolish if from this they understood that the predicted consequences would follow their evil acts and deeds immediately. Not to speak of days and months and years, the occurrence of the results may even take centuries.

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :8 یعنی تمہارا اصل خدا تو خالق زمین و آسمان ہے ۔ تم کس خیال خام میں مبتلا ہو کہ کائنات کی اس عظیم الشان سلطنت میں اس کے سوا دوسروں کو کار ساز سمجھ بیٹھے ہو ۔ اس پوری کائنات کا اور اس کی ہر چیز کا پیدا کرنے والا اللہ ہے ۔ اس کی ذات کے سوا ہر دوسری چیز جو یہاں پائی جاتی ہے ، مخلوق ہے ۔ اور اللہ اس دنیا کو بنا دینے کے بعد کہیں جا کر سو بھی نہیں گیا ہے ، بلکہ اپنی اس سلطنت کا تخت نشین اور حاکم و فرماروا بھی وہ آپ ہی ہے ۔ پھر تمہاری عقل آخر کہاں چرنے چلے گئی ہے کہ تم مخلوقات میں سے چند ہستیوں کو اپنی قسمتوں کا مالک قرار دے رہے ہو ؟ اگر اللہ تمہاری مدد نہ کرے تو ان میں سے کس کی یہ طاقت ہے کہ تمہاری مدد کر سکے ؟ اگر اللہ تمہیں پکڑے تو ان میں سے کس کا یہ زور ہے کہ تمہیں چھڑا سکے ؟ اگر اللہ سفارش نہ سنے تو ان میں سے کون یہ بل بوتا رکھتا ہے کہ اس سے اپنی سفارش منوا لے ؟ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :9 یعنی تمہارے نزدیک جو ایک ہزار برس کی تاریخ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں گویا ایک دن کا کام ہے جس کی اسکیم آج کارکنان قضا و قدر کے سپرد کی جاتی ہے اور کل وہ اس کی روداد اس کے حضور پیش کرتے ہیں تاکہ دوسرے دن ( یعنی تمہارے حساب سے ایک ہزار برس ) کا کام ان کے سپرد کیا جائے ۔ قرآن مجید میں یہ مضمون دو مقامات پر اور بھی آیا ہے جنہیں نگاہ میں رکھنے سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آ سکتا ہے ۔ کفار عرب کہتے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو نبوت کا دعویٰ لے کر سامنے آئے کئی برس گزر چکے ہیں ۔ وہ بار بار ہم سے کہتے ہیں کہ اگر میری اس دعوت کو تم لوگ قبول نہ کرو گے اور مجھے جھٹلاؤ گے تو تم پر خدا کا عذاب آ جائے گا ۔ مگر کئی برس سے وہ اپنی یہ بات دوہرائے جا رہے ہیں اور آج تک عذاب نہ آیا ، حالانکہ ہم ایک دفعہ نہیں ہزاروں مر تبہ انہیں صاف صاف جھٹلا چکے ہیں ۔ ان کی یہ دھمکیاں واقعی سچی ہوتیں تو ہم پر نہ معلوم کبھی کا عذاب آ چکا ہوتا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ سُورۂ حج میں فرماتا ہے : وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ یُّخْلِفَ اللہُ وَعْدَہٗ وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ o ( آیت ٤۷ ) یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں ۔ اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا ۔ مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تم لوگوں کے شمار سے ہزار برس جیسا ہوا کرتا ہے ۔ دوسری جگہ اسی بات کا جواب یہ دیا گیا ہے : سَاَلَ سَآئِلٌ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ ( oلا ) لِلْکٰفِرِیْنَ لَیْسَ لَہٗ دَافِعٌ ( oلا ) مِّنَ اللّٰہ ذِی الْمَعَارِجِ O تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ والرُّوْحُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍO فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیلاً o ا ِنَّھُمْ یَرَوْنَہ بَعِیْدًا ( oلا ) وَّنَرٰہ قَرِیْباًoط ( المعارج ۔ آیات ۱ ۔ ۷ ) پوچھنے والا پوچھتا ہے اس عذاب کو جو واقع ہونے والا ہے کافروں کے لیے جس کو دفع کرنے والا کوئی نہیں ہے ، اس خدا کی طرف سے جو چڑھتے درجوں والا ہے ( یعنی درجہ بدرجہ کام کرنے والا ) ۔ چڑھتے ہیں اس کی طرف ملائکہ اور روح ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے ۔ پس اے نبی ! صبر جمیل سے کام لو ۔ یہ لوگ اسے دور سمجھتے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں ۔ ان تمام ارشادات سے جو بات ذہن نشین کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں خدا کے فیصلے دنیا کی گھڑیوں اور جنتریوں کے لحاظ سے نہیں ہوتے ۔ کسی قوم سے اگر کہا جائے کہ تم فلاں روش اختیار کرو گے تو اس کا انجام تمہیں یہ کچھ دیکھنا ہو گا ، تو وہ قوم سخت احمق ہو گی اگر اس کا مطلب سمجھے کہ آج وہ روش اختیار کی جائے اور کل اس کے برے نتائج سامنے آجائیں ۔ ظہور نتائج کے لیے دن اور مہینے اور سال تو کیا چیز ہیں ، صدیاں بھی کوئی بڑی مدت نہیں ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن کے ایک ہزار سال کے برابر ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس کی صحیح تشریح تو اﷲ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہ نے اسے متشابہات میں بھی شمار کیا ہے، لیکن دوسرے مفسرین کے مطابق اِس آیت کی ایک تفسیر تو یہ ہے کہ اُس دن سے مراد قیامت کا دن ہے جو ایک ہزار سال کے برابر ہوگا، اور مطلب یہ ہے کہ جتنی مخلوقات کا انتظام اُس وقت اﷲ تعالیٰ فرما رہے ہیں، وہ سب آخر کار قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ جن اُمور کا فیصلہ فرماتے ہیں، اُن کی تنفیذ اپنے اپنے طے شدہ وقت پر ہوتی ہے، چنانچہ بعض اُمور کی تنفیذ میں اِنسانوں کی گنتی کے مطابق ایک ہزار سال بھی لگ جاتے ہیں، لیکن اﷲ تعالیٰ کے نزدیک یہ ایک ہزار سال بھی کوئی بڑی مدّت نہیں ہے، بلکہ ایک دن کے برابر ہے، چنانچہ جیسا کہ سورۂ حج (۲۳:۴۷) میں فرمایا گیا ہے، کفار کے سامنے جب یہ کہا جاتا تھا کہ اُن کے کفر کے نتیجے میں اُن پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دُنیا یا آخرت میں عذاب آئے گا تو وہ اس کا مذاق اڑاتے تھے، اور کہتے تھے کہ اِتنے دن گذر گئے، لیکن کوئی عذاب نہیں آیا، اگر واقعی عذاب آنا ہے تو ابھی کیوں نہیں آجاتا؟ اِس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے جو وعدہ کر رکھا ہے، وہ تو ضرور پورا ہوگا۔ رہا اُس کا وقت، تو وہ اﷲ تعالیٰ کی اپنی حکمت کے مطابق متعین ہوگا۔ اور تم جو سمجھ رہے ہو کہ اس کے آنے میں بہت دیر ہوگئی ہے تو در حقیقت تم جس مدت کو ایک ہزار سال سمجھتے ہو، وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن کے برابر ہے۔ اس آیت کی کچھ مزید تفصیل ان شا اللہ سورۂ معارج (۷۰:۳) میں آئے گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥۔ بعضے مفرسروں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اس آیت میں ہزار برس کا عرصہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے اور سورة معارج پچاس ہزار برس کا عرصہ ذکر فرمایا ہے ان دونوں آیتوں میں موافقت کی کیا صورت ہے پھر اس اعتراض کا کئی طرح سے جواب ١ ؎ دیا ہے (١ ؎ یہ پورا مبحث فتح البیان ص ٥٧١ ج ٣ (طبع ہند) میں ہے (ع ‘ ح) لیکن اوپر گزر چکا ہے کہ تفسیر کے باب میں حضرت عبداللہ اللہ بن عباس (رض) کے ش اگر دمجاہد کے قول کا بڑا اعتبار یہ اس لیے مجاہد کا قول ذکر کیا جاتا ہے مجاہد جو موافقت اندونوں آیتوں کی بتائی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے دنیا کے انتظام کے لیے طرح طرح کے حکم ہوتے ہیں عرش معلیٰ سے آسمان بہ آسمان وہ حکم دنیا کے آسمان تک آن کر دنیا کے آسمان کے فرشتے زمین پر اس حکم کے موافق تعمیل کردیتے ہیں اور تعمیل کی اطلاح کے لیے پھر فورا اول آسمان پر چڑھ جاتے ہیں اور اسی طرح وہ اطلاع عرش معلیٰ تک پہنچ جاتی ہے اس طرح سب سے اول دنیا کے آسمان کے فرشتے زمین سے آسمان تک آنے جانے میں ہزار برس کے فاصلہ کو طے کرتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ پچاس ہزار کا فاصلہ عرش معلیٰ تک طے ہوتا ہے اور یہ سب کچھ دن کے دن ہوجاتا ہے جس کی گنتی ایک حساب سے ہزار برس کی ہے اور ایک حساب سے بچ اس ہزار برس کی غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زمین سے دنیا کے مسلمان تک کی مدت ذکر فرمائی ہے اور سورة معارج میں عرش معلیٰ تک کی مدت کا ذکر فرمایا ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمر (رض) وبن العاص کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے بچ اس ہزار برس پہلے دنیا میں جو کچھ ہونے والا تھا اپنے علم ازلی کے موافق وہ سب اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے معتبر سند سے مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ لوح محفوظ میں لکھولیا ہے معتبر سند سے مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ لوح محفوظ کے نوشتہ میں سے ہر شب قدر کو سال بھر کے امور انتظامی کے نقل فرشتوں کو مل جاتی ہے اس کے موافق اللہ کے فرشتے سال بھر کے امور انتظامی کی نقل فرشتوں کو مل جاتی ہے اس کے موافق اللہ کے فرشتے سال بھر کا نتظام چلاتے ہیں ١ ؎ (١ ؎ یہ پورا مبحث فتح البیان ص ٥٧١ ٥٧٣ ج ٣ (طبع ہند) میں ہے (ع ‘ ح) صحیح مسلم کے حوال سے ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ لوگوں کے دن کے تمام عمل رات سے پہلے اور رات کے عمل دن سے پہلے فرشتے اللہ تعالیٰ کے ملاحظہ میں پیش کردیتے ہیں۔ ان حدیثوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر کے موافق ہر کام آسمان پر جو لوح محفوظ میں لکھا گیا ہے اس میں کا سال بھر کا انتظام فرشتوں کی معرفت ہر سال زمین پر روز انہ آتا ہے اور اس کے موافق تعمیل ہو کر دن کے عملوں کا نتیجہ رات سے پہلے اور رات کے عملوں کا نتیجہ دن سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ملاحظہ میں پیش ہوجاتا ہے حالانکہ یہ فاصلہ آسمان دنیا تک ہزار برس کا اور عرش معلیٰ تک پچاس ہزار برس کا ہے۔ اس آیت میں مشرکین مکہ کو یہ سمجھایا گان ہے کہ جس طرح دنیا کے پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے اسی طرح دنیا کے تمام انتظام میں بھی اس کا کوئی یریک نہیں ہے باوجود اس کے جو لوگ غیروں کو اس کی تعظیم میں شریک کرتے ہیں وہ بڑے نادان ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(32:5) یدبرـ دبر یدبر تدبیر (تفعیل) سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب التدبیر کے معنی ہیں کسی معاملہ کے انجام پر نظر رکھئے ہوئے اس میں غور و فکر کرنا۔ جیسے التدبیر کے معنی ہیں کسی معاملہ کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے اس میں غور و فکر کرنا۔ جیسے فالمدبرات امرا (79:5) پھر (دنیا کے) کاموں کا انتظام کرتے ہوئے۔ یدبر وہ انتظام کرتا ہے وہ تدبیر کرتا ہے۔ (ہرامر کی) من السماء الی الارض۔ آسمان سے زمین تک۔ مراد تمام کائنات ہے۔ یعرج مضارع واحد مذکر غائب عرج یعرج عروج (نصر) مصدر سے۔ وہ چڑھتا ہے۔ یا وہ چڑھیگا۔ یا لوٹے گا۔ اس کا فاعل امر ہے یعنی ہر امر آغاز سے انجام تک اپنی تمام روئداد سمیت قیامت کے روز خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہوگا۔ اور وہ ذات باری تعالیٰ ان کے متعلق فیصلہ فرمائے گی۔ فی یوم کان مقدارہ الف سنۃ۔ اس دن جس کی مقدار (تمہارے شمار کے مطابق) ایک ہزار سال ہوگی۔ ایک اور جگہ آیا ہے فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃ (70:40) وہ دن جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی۔ مراد روز قیامت کی طوالت کو ذہن نشین کراتا ہے۔ مما تعدون ۔ مما، من اور ما سے مرکب ہے تعدون مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر عد یعد (نصر) عد مصدر سے۔ جو تم شمار کرتے ہو۔ یا گنتے ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی آسمان سے زمین تک تمام کام اسی کے قف اور قدر سے چل رہے ہیں۔ وہ آسمان کے بلند ترین حصہ سے زمین کے پست ترین حصہ تک اپنا حصہ نازل کرتا ہے جیسے فرمایا (یتنزل الا مر بینھن) ( طلاق : 12) کہ اس کا حکم ان زمین و آسمان کے درمیان اترتا ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ عرش محل تدبر ہے۔ یعنی وہاں ہر چیز کی تدبیر ہوتی ہے اور مادون العرش یعنی آسمانوں میں اس کی تفصیلات طے کی جاتی ہیں۔ ( دیکھئے سورة رعد آیت 2) اور پھر ان تفصیلات کو آسمانوں سے نیچے اتار کر ان کی تعریف کی جاتی ہے۔ جیسے فرمایا ( ولقد صر فناہ بینھم لیذکروا) (قرطبی) ۔4 مراد قیامت کا دن ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے حضور تمام انسانوں کی پیشی ہوگی۔ سورة معارج ( آیت 4) میں قیامت کے دن کی مقدار پچاس ہزار برس فرمائی ہے جس کے معنی یا تو یہ ہیں کہ شدت خوف سے کفار کو قیامت کا دن پچاس ہزار برس کا معلوم ہوگا۔ یا یہ کہ قیامت کے دن میں پچاس مرحلے ہوں گے جن میں سے ہر مرحلہ ہزار برس کا ہوگا۔ ابن جریر اور بعض دوسرے مفسرین (رح) نے اس آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ فرشتہ بندوں کے اعمال لے کر ایک دن میں اللہ تعالیٰ کے حضور ( یعنی اس جگہ کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے اعمال کے لیے مقرر کی ہے) صعود کرتا ہے۔ آنے اور جانے میں جتنی مسافت وہ طے کرتا ہے اسے اگر کوئی غیر فرشتہ طے کرے تو ہزار برس صرف ہوجائیں ؟ کیونکہ آسمان سے زمین تک پانچ سو برس کی مسافت ہے یا یہ کہ اوپر چڑھنے کی مسافت بھی ایک ہزار سال ہے اور نیچے اترنے کی مسافت بھی اس کے برابر ہے اس صورت میں سورة معارج کی آیت سے قیامت کا دن مراد ہوگا اور اس آیت سے وہ متعارض نہیں رہے گی۔ بعض علماء نے تفسیر نے یہ بھی بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ ایک دن کے اندر ایک ہزار سال کے امور کی تدبیر کر کے فرشتوں کو القا کردیتا ہے اور فرشتے اسے سر انجام دیتے رہتے ہیں پھر اس کے بعد دوسرے ہزار سال کی تدبیر اتر آتی ہے، اسی طرح یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔ ( قرطبی، شوکانی) موضح میں ہے بڑے بڑے کام کا حکم عرش سے مقرر ہو کر نیچے اترتا ہے۔ سب اسباب اس کے آسمان اور زمین سے جمع ہو کر بن جاتا ہے پھر ایک مدت جاری رہتا ہے پھر اٹھ جاتا ہے اللہ کی طرف دوسرا رنگ اترتا ہے جیسے بڑے بڑے پیغمبر جن کا اثر قرنوں تک رہا، بڑی قوم میں سرداری جو عمروں چلے وہ ہزار برس اللہ کے ہاں ایک دن ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی قیامت میں سب امور مع مالھا وما علیھا اسی کے حضور میں پیش ہوں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ عرش بریں پر متمکن ہونے کے باوجود پوری کائنات کا مالک اور اس کا نظام چلا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ عرش بریں پر متمکن ہو کر کائنات کے نظام سے لاتعلق نہیں ہوا اور نہ ہی اس نے کائنات کا نظام چلانے کے لیے کچھ ذمہ داریاں دوسروں کو سونپ رکھی ہیں۔ ایسا عقیدہ رکھنا بدترین شرک ہے اس کی نفی کے لیے ارشاد ہوا ہے کہ وہ آسمان سے لے کر زمین تک بلا شرکت غیرے پورے کا پورا نظام چلارہا ہے۔ جو ہستی اتنی زبردست ہے کہ پوری کائنات کو عدم سے وجود میں لائی ہے اور اس کا نظام بلاشرکت غیرے چلا رہی ہے اس کے مقابلہ میں تمہارے معبودج نہیں تم سرپرست اور سفارشی سمجھ بیٹھے ہو تمہارے کس کام آسکتے ہیں۔ کیا تمہیں اتنی موٹی حقیقت بھی سمجھ نہیں آتی ؟ اسے کسی کی مشاورت اور معاونت کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ہر پوشیدہ اور ظاہر چیز کو جانتا ہے۔ ہر اعتبار سے غالب ہے۔ سب پر غالب ہونے کے باوجود نہایت مہربان ہے۔ پہلی آیت میں تدبیرِ کائنات کے بارے میں ارشاد ہوا کہ جو تمہاری گنتی کے مطابق ایک ہزار سال بنتا ہے۔ تمہارا ہزار سال اس کے ہاں ایک دن کے برابر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہونے کا حقیقی معنٰی کیا ہے اس کے بارے میں اہل تفسیر نے پانچ آراء کا اظہار فرمایا ہے۔ 1 جو کام ایک ہزار سال کی مدت میں پورے ہونے والے ہوتے ہیں۔ اس کے ہاں یہ مدت ایک دن کے برابر ہے۔ 2 ۔ اللہ تعالیٰ کچھ کام ملائکہ کے حوالے کرتے ہیں۔ جب ہزار سالہ منصوبہ مکمل ہوجاتا ہے تو ملائکہ اس کی رپورٹ اپنے رب کے حضور پیش کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اگلے ایک ہزار سال کا منصوبہ ان کے حوالے کردیتے ہیں۔ 3 اس سے مراد قیامت کا ایک دن ہے جو دنیا کے ایک ہزار سال کے برابر ہوگا۔ اس طرح قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا ہوگا۔ 4 قرآن پاک نے جب یہ بات کفار کو بتلائی کہ اگر تم اپنے فکروعمل سے باز نہ آئے تو تم پر عذاب نازل ہوگا۔ اس سے سبق حاصل کرنے کی بجائے کفار نے اس دن کا مذاق اڑایا اور مطالبہ کیا کہ اب تک عذاب نازل کیوں نہیں ہوا ؟ اس کے جواب میں ارشاد ہوا کہ جس مدت کو تم ایک ہزار سال سمجھتے ہو اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ایک دن کے برابر ہے۔ ( الحج : ٤٧) 5 مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اس آیت کو متشابہات میں شمار کرتے تھے ان کا فرمان ہے کہ ہمیں اس دن کے بارے میں قیل وقال کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کرنا چاہیے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اکیلا ہی پوری کائنات کے نظام کو چلارہا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ظاہر اور باطن کو جانتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب ہونے کے باوجود نہایت مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی کائنات کو بنانے اور اس کے نظام کو چلانے والا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ سب کو پیدا کرنے والا ہے۔ ( النساء) ٢۔ اللہ تعالیٰ سب کو پالنے والا ہے۔ (الفاتحۃ : ١) ٣۔ اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا خالق ہے۔ (الانعام : ١٠٢) ٤۔ اللہ تعالیٰ کائنات کا مالک ہے۔ (یونس : ٣١) ٥۔ اللہ تعالیٰ کائنات کا نظام چلانے والا۔ (فاطر : ١٣) ٦۔ اللہ تعالیٰ حاکم مطلق ہے۔ (یوسف : ٤٠) ٧۔ اللہ تعالیٰ ہی عطا کرنے والا ہے۔ ( سبا : ١٥) ٨۔ اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے اور اس کا ہی حکم چلنا چاہیے۔ (الاعراف : ٥٤) ٩۔ تمہارا رب ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں پھر تم کہاں بہک گئے ہو ؟ (المومن : ٦٢) ١٠۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (آل عمران : ١٠٢) ١١۔ اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کو پیدا کرنے والا ہے، اور وہی اسے دوبارہ لوٹائے گا۔ (یونس : ٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ آسمان سے زمین تک تدبیر فرماتا ہے، ہر امر اس کے حضور میں ایسے دن میں پیش ہوگا جس کی مقدار ایک ہزار سال ہے جو کچھ وجود میں آتا ہے، کائنات میں جو انقلاب ہوتے ہیں اور جو مخلوق کے احوال اور اعمال وجود میں آتے ہیں یہ سب اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور تدبیر کے موافق ہے، جو کچھ وجود میں آ رہا ہے سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں قیامت کے دن پیش ہوگا، اس دن کی مقدار اس شمار کے مطابق جو دنیا میں گنتے ہیں ایک ہزار سال کی ہوگی۔ الفاظ آیت سے متبادر تو یہی ہے کہ (یَعْرُجُ ) میں جو ضمیر مرفوع ہے وہ (الْاَمْرَ ) کی طرف راجع ہے لیکن مفسرین نے اس میں متعدد احتمالات بیان کیے ہیں اسی طرح لفظ (اِلَیْہِ ) کے مرجع کے بارے میں بھی متعدد اقوال ہیں۔ (رجع تفسیر القرطبی جلد ١٤ ص ٨٧، ٨٨) صاحب روح المعانی نے آیت کی تفسیر میں لمبی بحث کی ہے (جلد ١٢ ص ١٢١) یہاں سورة السجدہ میں قیامت کے دن کو ایک ہزار سال بتایا اور سورة المعارج میں پچاس ہزار سال کا بتایا۔ جب اس کے بارے میں حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا (ھما یومان ذکر ھما اللّٰہ تعالیٰ فی کتابہ اللّٰہ تعالیٰ اعلم بھما واکرہ ان قول فی کتاب اللہ مالا اعلم) (یعنی ان دونوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکر فرمایا اللہ تعالیٰ ہی کو ان کا علم ہے) بعض حضرات نے یہ توجیہ کی ہے کہ احوال و اشخاص کے اعتبار سے کسی کا یہ دن بہت جلدی گزر جائے گا اور کسی کا بہت دیر میں گزرے گا، مومنین صالحین جلدی سے چھٹکارا پاجائیں گے، انہیں ایسا معلوم ہوگا جیسے ایک فرض نماز کا وقت گزرا ہو۔ (کما ورد فی الحدیث) اور فاسقین کے لیے بہت مصیبت کا دن ہوگا اور کافروں کے لیے تو بہت ہی زیادہ مصیبت در پیش ہوگی اور ان کے لیے یہ دن پچاس ہزار سال گزرنے کے برابر ہوگا۔ قال العبد الفقیر عفا اللّٰہ تعالیٰ عنہ : ان المفسرین الکرام ذکروا اقوالاً کثیرۃ فی تفسیر قولہ تعالیٰ : یُدَبِّرُ الْاَمْرَ (الآیۃ) واختاروا فی مرجع ضمیر الیہ ثم فی تطبیق قولہ تعالیٰ : الف سنۃٍ مما تعدون۔ وقولہ تعالیٰ : فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃً ۔ حتیٰ ان صاحب الروح جعل الآیۃ الکریمۃ من المتشابھات، والذی القی اللّٰہ تعالیٰ فی روعی ھو ان اللّٰہ تعالیٰ یدبر الامور التی تجری فی السماء والارض وما بینھما حسب ما قدرہ ویرجع الامور کلھا الیہ تعالیٰ فی یوم القیامۃ، والامور التکوینیۃ لیس لھا صلۃ بالعباد لا یثابون علیھا ولا یعاقبون، فاما الامور التشریعیۃ التی امروا بامتثالھا بعد عروجھا الیہ تعالیٰ فی یوم القیامۃ تعرض علی العبادلا یخفیٰ علیھم خافیۃ فیحاسبون فمنھم مثابون واٰخرون یعاقبون، فاما التوفیق بین الف سنۃ وخمسین فعلم بذٰلک تخفیفہ علی المؤمنین الذین یصلون، فاما العصاۃ من اھل الایمان احوالھم مختلفۃ فمن مقل من الذنوب ومکثر منھا فیھون او یصقب حسب حالھم فیمتد لبعضھم الٰی مقدار الف سنۃ، واما الامتداد الاکبر فھو علی الکفرۃ الفجرۃ اعنی خمسین الف سنۃ، ثم انہ لم یقید اللّٰہ تعالیٰ خمسین الف سنۃ بقولہ مما تعدون، وکذٰلک لم یقیدھا بذٰلک النبی فی ذکر تعذیب من لایؤدی زکوتہ کما رواہ مسلم، فیمکن ان یکون الف سنۃ مما تعدوا خمسین الف سنۃ باعتبار عدد آخر، ومن الاکابر من قال ان ھذا الاختلاف یمکن باعتبار اختلاف الآفاق کما ھو موجود فی ھذہ الدنیا فان ما یقع علیٰ خط الاستواء یتم فیہ الیل والنھار فی اربع وعشرون ساعۃ واما ما یقع علیٰ عرض التسعین فیمتد فیہ الیوم فی سنۃ واحدۃ وھذا یتم اذا کان فی ذٰلک الحین للسماء حرکۃ دولابیۃ وحویۃ ولم یثبت ذٰلک۔ اللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب والیہ المرجع المآب۔ بندہ عاجز عاشق الٰہی عفا عنہ کہتا ہے کہ مفسرین کرام نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد (یُدَبِّرُ الْاَمْرَ ) کی تفسیر میں بہت سارے اقوال ذکر کیے ہیں اور (اِلَیْہِ ) کی ضمیر کے مرجع میں بھی اپنی اپنی ترجیحات کا ذکر کیا ہے پھر اللہ تعالیٰ کے ارشاد (اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ) (تمہاری اپنی اپنی گنتی کے مطابق ہزار سال) اور (فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ ) (ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی) میں تطبیق کا ذکر بھی کیا ہے۔ یہاں تک کہ تفسیر روح المعانی کے مصنف (رح) نے اس آیت کریمہ کو متشابہات میں شمار کیا ہے۔ وہ بات جو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تقدیر کے مطابق آسمان و زمین اور ان کے درمیان کے امور کی تدبیر کرتا ہے اور تمام امور قیامت کے دن اسی کی طرف لوٹیں گے۔ جو امور تکوینی ہیں ان کے ساتھ بندوں کا کوئی تعلق نہیں ہے نہ ان پر کسی کو ثواب ہوگا نہ عذاب لیکن شرعی امور جن پر عمل کرنے کا بندوں کو حکم دیا گیا ہے وہ امور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف پہنچنے کے بعد بندوں پر پیش کیے جائیں گے ان میں کوئی ذرہ بھی پوشیدہ نہیں رہے گا۔ پھر ان کا حساب ہوگا بعض کو ثواب ملے گا بعض کو عذاب۔ رہا مسئلہ ایک ہزار سال اور پچاس ہزار میں تطبیق کا تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نیکوکار مومنوں پر قیامت کا دن ہلکا اور چھوٹا ہوگا مگر گناہ گار مومنوں کے احوال مختلف ہوں گے کئی تھوڑے گناہوں والے ہوں گے کئی زیادہ والے لہٰذا قیامت کا دن ان کے گناہوں اور نیکیوں کے مطابق ان کو ہلکا یا سخت معلوم ہوگا حتیٰ کہ بعض کے لیے وہ دن ہزار سال کا ہوجائے گا۔ اور اس دن کا سب سے زیادہ لمبا ہونا وہ کافروں کے لیے ہوگا زیادہ لمبے سے مراد پچاس ہزار سال کا دن ہے پھر یہ بھی ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے پچاس ہزار سال کے ساتھ بندوں کے شمار کی قید نہیں بتائی جیسا کہ مسلم میں روایت ہے۔ تو ہوسکتا ہے کہ مطلب یہ ہو کہ ہزار سال جسے تم دوسری گنتی کے مطابق پچاس ہزار سال شمار کرتے ہو اور بعض اکابر نے کہا ہے کہ ہوسکتا ہے یہ ہزار سال اور پچاس ہزار سال کا فرق مطالع کے اختلاف کی وجہ سے ہو جو کہ اس دنیا میں موجود ہے جو ممالک خط استواء پر واقع ہیں وہاں ایک دن رات چوبیس گھنٹے میں مکمل ہوتا ہے اور جو علاقے ٩٠ فیصد درجہ زاویہ پر واقع ہیں وہاں ایک دن ایک سال تک لمبا ہوجاتا ہے اور یہ اس وقت مکمل ہوتا ہے جب آسمان کی حرکت دولانی اور حویہ ہوتی ہے لیکن یہ توجیہ نصوص سے ثابت نہیں ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ یدبر الامر الخ نظام عالم کی تدبیر اور کائنات کا نظم و نسق اسی کے ہاتھ میں ہے وہ اپنے تکوینی احکام بندوں پر نازل کرتا ہے اور بندوں کے اعمال صالحہ اس کی طرف چڑھتے ہیں۔ یہ سب کچھ روازنہ ہوتا ہے حالانکہ نزول و عروج کی مسافت ہمارے حساب سے ایک ہزار برس کا راستہ ہوگ۔ معناہ واللہ اعلم ان امرہ ینزل من السماء علی عبادہ و تعرج الیہ اعمالہم الصالحۃ الصادرۃ علی موافقۃ ذالک الامر ان نزول الامر و عروج العمل فی المسافۃ الف سنۃ مما تعدون۔۔۔ یوم فان بین السماء والارض مسیرۃ خمسمائۃ سنۃ فینزل فی مسیرۃ خمسمائۃ سنۃ و یعرف فی مسیرۃ خمسمائۃ فھو مقدار الف سنۃ (کبیر ج 6 ص 755) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

5۔ تم اتنی بات بھی نہیں سوچتے کہ اس بزرگ و برتر اور قادر مطلق رب العالمین کی نافرمانی کا انجام کیا ہوگا ۔