Surat Assajdah

Surah: 32

Verse: 7

سورة السجدة

الَّذِیۡۤ اَحۡسَنَ کُلَّ شَیۡءٍ خَلَقَہٗ وَ بَدَاَ خَلۡقَ الۡاِنۡسَانِ مِنۡ طِیۡنٍ ۚ﴿۷﴾

Who perfected everything which He created and began the creation of man from clay.

جس نے نہایت خوب بنائی جو چیز بھی بنائی اور انسان کی بناوٹ مٹی سے شروع کی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Creation of Man in Stages Allah tells us that He has created everything well and formed everything in a goodly fashion. Malik said, narrating from Zayd bin Aslam: الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ... Who made everything He has created good, means, "He created everything well and in a goodly fashion." When Allah mentions the creation of the heavens and the earth, He follows that by mentioning the creation of man. Allah says: ... وَبَدَأَ خَلْقَ الاِْنسَانِ مِن طِينٍ and He began the creation of man from clay. meaning, He created the father of mankind, Adam, from clay. ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَلَةٍ مِّن مَّاء مَّهِينٍ

بہترین خالق بہترین مصور ومدور فرماتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر چیز کو قرینے سے بہترین طور سے ترکیب پر خوبصورت بنائی ہے ۔ ہر چیز کی پیدائش کتنی عمدہ کیسی مستحکم اور مضبوط ہے ۔ آسمان و زمین کی پیدائش کیساتھ ہی خود انسان کی پیدائش پر غور کرو ۔ اس کا شروع دیکھو کہ مٹی سے پیدا ہوا ہے ۔ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام مٹی سے پیدائے ہوئے ۔ پر ان کی نسل نطفے سے جاری رکھی جو مرد کی پیٹھ اور عورت کے سینے سے نکلتا ہے ۔ پھر اسے یعنی آدم کو مٹی سے پیدا کرنے کے بعد ٹھیک ٹھاک اور درست کیا اور اس میں اپنے پاس کی روح پھونکی ۔ تمہیں کان آنکھ سمجھ عطا فرمائی ۔ افسوس کہ پھر بھی تم شکر گذاری میں کثرت نہیں کرتے ۔ نیک انجام اور خوش نصیب وہ شخص ہے جو اللہ کی دی ہوئی طاقتوں کو اسی کی راہ میں خرچ کرتا ہے ۔ جل شانہ وعزاسمہ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71یعنی جو چیز بھی اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے، وہ چوں کہ اس کی حکمت و مصلحت کا اعتدال ہے، اس لئے اس میں اپنا ایک حسن اور انفرادیت ہے۔ یوں اس کی بنائی ہوئی ہر چیز حسین ہے اور بعض نے اَ حْسَنَ کے معنی اَتْکُنَ و اَحْکَمَ کے کئے ہیں، یعنی ہر چیز مضبوط اور پختہ بنائی۔ بعض نے اسے اَ لْھَمَ کے مفہوم میں لیا یعنی ہر مخلوق کو ان چیزوں کا الہام کردیا جس کی وہ محتاج ہے۔ 72یعنی انسان اول آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے بنایا جن سے انسانوں کا آغاز ہوا اور اس کی زوجہ حضرت حوا کو آدم (علیہ السلام) کی بائیں پسلی سے پیدا کردیا جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٨] یعنی اللہ تعالیٰ نے جو چیز بھی بنائی اور جس مقصد یا مقاصد کے لئے بنائی تو اسے ایسی شکل و صورت عطا فرمائی جس سے بہتر شکل و صورت کا تصور میں آنا محال ہے۔ اس شکل و صورت پر کوئی بھی حرف گیری نہیں کرسکتا۔ مثلاً پانی اور ہوا میں اس نے جو جو خواص رکھے ہیں اور جن مقاصد کے لئے یہ چیزیں پیدا کی گئی ہیں۔ ان کے لئے یہی شکل و صورت سب سے بہتر تھی۔ یہی صورت ہر جاندار چیز اور نباتات کی ہے۔ کسی بھی چیز کی شکل و صورت بےدھنگی اور بےتکی نہیں ہے۔ انسان کے پورے جسم اور اس کے ایک ایک عضو کا یہی حال ہے۔ مثلاً اللہ نے آنکھ دیکھنے کے لئے اور کان سننے کے لئے بنائے ہیں۔ تو اس مقصد کے لئے جو شکل اللہ نے آنکھ اور کان کی بنادی ہے۔ یہی اس کے لئے بہتر بھی ہے اور خوبصورت بھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۙالَّذِيْٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ : یعنی اللہ تعالیٰ نے اس عظیم الشان کائنات میں بیحد و حساب جتنی چیزیں پیدا فرمائی ہیں اور جس مقصد کے لیے بنائی ہیں، انھیں اس کے لیے ایسی شکل و صورت عطا فرمائی ہے جس سے زیادہ خوب صورت اور عمدہ صورت کا تصور میں آنا محال ہے۔ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ : اپنی پیدا کردہ ہر چیز کے حسن کے مشاہدے کے لیے انسان کو خود اس کی ذات میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی کہ اس کے لیے تمہیں کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں، اللہ تعالیٰ نے تمہاری پیدائش کی ابتدا حقیر مٹی سے کی، جس میں زندگی کا نام و نشان نہ تھا۔ پوری زمین سے ایک مٹھی لے کر اپنے ہاتھوں سے ُ پتلا بنا کر پہلا انسان پیدا فرما دیا۔ ” طِيْنٍ “ میں تنوین تحقیر کی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Everything is good in this world. Evil comes through its wrong use. In verse 7, it was said: الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ |"Who made well whatever He created good”. The reason is that Allah Ta’ ala has made whatever He has created in this world under the dictate of His wisdom, and under the essential consideration of what is beneficial for the whole system. Therefore, everything has a beauty of its own. And the most beautiful and better than all is the making of man as it was said: لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (Surely, We did create man in the best of symmetry - 95:4). Then there are creations other than man that may outwardly be taken as bad. In fact, dogs, pigs, snakes, scorpions and wolfs are commonly considered bad because they are either poisonous or beastly. But, in terms of the expedient benefits of the world as a whole, none of these is really bad. A proverbial poetic observation in Urdu puts it as: نہیں ہے چیز نکمّی کوئی زمانے میں کوئی بُرا نہیں قدرت کے کارخانے میں There is nothing useless in the world There is no one bad in the workshop of nature. The author of Bayan ul-Qur&an has said, &the text&s كُلَّ شَيْءٍ (whatever) includes all substances and accidents, that is, also things which have corporeal substance, such as, animals, plants and minerals etc. as well as incorporeal things which include even morals and deeds. So much so that morals which are identified as bad - anger, greed, desire and their likes - are not bad in themselves. The bad about them emerges when they are used out of place. If they stay in their proper place, there is nothing bad in them. But, the sense being driven home here relates to the objective of their creation ( takwin )and introduction of these things - for that is nothing but good according to divine wisdom. However, the qualities of &good& and &bad& are attached to them in relation to the human acts and their effects on individuals. We can call it one&s right or choice employed in doing something. Then, in those terms, everything is not good, in fact, it is circumscribed by a little detail, that is, whatever has not been allowed by Allah Ta` Hla is not good, but is, rather bad.& Allah knows best. The sentence that follows next reads: وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ (and started the creation of man from clay - 7). Earlier, it was said that Allah Ta’ ala has made everything &good& in this world. Mentioned thereafter was man, the most beautiful of all. Then, to give expression to His most perfect power alongside, it was also said that the making of man as the most superior form of creation was not because the essential ingredient of his creation was most noble, elegant and superior, which may have made it so. In fact, as for the essential ingredient that went into his making, it was something as mean and lowly as the semen. Thereafter, the rest was a masterpiece of His perfect power and profound wisdom. It was this great combination that took something so low to such a height that man was rated as the most noble Divine creation.

دنیا کی ہر چیز اپنی ذات میں حسن اور اچھی ہے برائی اس کے غلط استعمال سے آتی ہے : (آیت) الذی احسن کل شئی خلقہ، یعنی اللہ وہ ذات ہے جس نے ہر چیز کی خلقت کو حسین اور بہتر بنایا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس عالم میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا فرمایا وہ حکمت اور مصالح عالم کے اقتضا سے بنایا ہے۔ اس لئے ہر چیز اپنی ذات کے اعتبار سے ایک حسن رکھتی ہے۔ اور ان سب سے زیادہ حسین اور بہتر انسان کو بنایا ہے، جیسا کہ ارشاد فرمایا : (آیت) لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔ ” یعنی ہم نے انسان کو سب سے زیادہ حسین تقویم اور بہتر شکل و صورت میں پیدا کیا ہے “ اور دوسری مخلوقات خواہ وہ ظاہر میں کتنی ہی قبیح اور بری سمجھی جاتی ہوں، کتا، خنزیر، سانپ، بچھو، شیر اور بھیڑیا یہ سب زہریلے اور درندے جانور عام نظروں میں برے سمجھے جاتے ہیں، مگر مجموعہ عالم کے مصالح کے اعتبار سے ان میں سے کوئی برا نہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں حضرت حکیم الامة نے فرمایا کہ کل شئی میں تمام جواہر اور اعراض داخل ہیں یعنی وہ چیزیں بھی جو وجود جوہری رکھتی ہیں جیسے حیوانات، نباتات، جمادات وغیرہ اور اعراض بھی جن میں اخلاق و اعمال بھی داخل ہیں۔ یہاں تک کہ جو اخلاق برے بتلائے جاتے ہیں جیسے غصہ، حرص، شہوت وغیرہ یہ بھی اپنی ذات میں برے نہیں، ان کی برائی غیر مصرف میں صرف کرنے اور بےمحل استعمال کرنے سے ہوتی ہے۔ اپنے محل میں رہیں تو ان میں کوئی چیز بری نہیں۔ لیکن مراد اس سے ان اشیاء کی جہت تخلیق وتکوین ہے کہ وہ خیر ہی خیر اور حسن ہی حسن ہے۔ اور اعمال کی دوسری جہت انسان کا کسب و اکتساب ہے، یعنی اپنے اختیار کو کسی کے کام کے کرنے میں صرف کرنا، تو اس حیثیت سے سب حسن نہیں، بلکہ ان میں تفصیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن کی اجازت نہیں دی وہ حسن نہیں، قبیح ہیں۔ واللہ اعلم۔ (آیت) وبد اخلق الانسان من طین : اس سے پہلے یہ بتلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عالم کی ہر چیز کو حسن بنایا ہے، اس کے بعد انسان کا ذکر فرمایا جو ان سب میں زیادہ حسین ہے۔ اس کے ساتھ کمال قدرت کے اظہار کے لئے یہ بھی بتلا دیا کہ جس انسان کو ہم نے سب مخلوق سے زیادہ بہتر بنایا ہے وہ یہ نہیں کہ اس کا مادہ تخلیق کچھ سب سے زیادہ اشرف و اعلیٰ اور بہتر لیا گیا، اس لئے سب سے بہتر ہوگیا۔ بلکہ مادہ تخلیق تو اس کا سب سے کمتر چیز یعنی منی کو بنایا گیا، پھر قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ نے اس کمترین چیز کو کہاں سے کہاں پہنچایا کہ اشرف المخلوقات قرار دیا گیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَہٗ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ۝ ٧ۚ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے بدأ يقال : بَدَأْتُ بکذا وأَبْدَأْتُ وابْتَدَأْتُ ، أي : قدّمت، والبَدْءُ والابتداء : تقدیم الشیء علی غيره ضربا من التقدیم . قال تعالی: وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسانِ مِنْ طِينٍ [ السجدة/ 7] ( ب د ء ) بدء ات بکذا وابتدءات میں نے اسے مقدم کیا ۔ اس کے ساتھ ابتدا کی ۔ البداء والابتداء ۔ ایک چیز کو دوسری پر کسی طور مقدم کرنا قرآن میں ہے { وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ } ( سورة السجدة 7) اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا ۔ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ طين الطِّينُ : التّراب والماء المختلط، وقد يسمّى بذلک وإن زال عنه قوّة الماء قال تعالی: مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات/ 11] ، يقال : طِنْتُ كذا، وطَيَّنْتُهُ. قال تعالی: خَلَقْتَنِي مِنْ نارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص/ 76] ، وقوله تعالی: فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص/ 38] . ( ط ی ن ) الطین ۔ پانی میں ملی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں گو اس سے پانی کا اثر زائل ہی کیوں نہ ہوجائے اور طنت کذا وطینتہ کے معنی دیوار وغیرہ کو گارے سے لینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات/ 11] چپکنے والی مٹی سے ۔ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص/ 76] اور اسے مٹی سے بنایا ۔ فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص/ 38] ہامان امیر لئے گارے کو آگ لگو اکر اینٹیں تیار کرواؤ

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اس نے جو چیز بنائی وہ خوب اور مضبوط بنائی اور انسان یعنی آدم (علیہ السلام) کی پیدائش مٹی سے شروع کی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧ (الَّذِیْٓ اَحْسَنَ کُلَّ شَیْءٍ خَلَقَہٗ ) اس نے جو چیز بھی بنائی ہے بہت عمدہ بنائی ہے۔ اس کی تخلیق میں کہیں کوئی نقص یا کوتاہی نہیں ہے۔ (وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ ) اس سے حضرت آدم ( علیہ السلام) کی تخلیق بھی مراد ہے ‘ جس کے مختلف مراحل کا ذکر قرآن حکیم میں متعدد بار ہوا ہے اور ہر انسان کی تخلیق بھی ‘ کیونکہ انسان کی تخلیق جس مادے سے ہوتی ہے وہ بنیادی طور پر زمینی اجزا سے حاصل شدہ غذا سے ہی بنتا ہے۔ اس بارے میں تفصیلی گفتگو سورة المؤمنون کی آیت ١٢ کے ضمن میں ہوچکی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13 That is, "In this limitless universe He has created countless numbers of things, but none of them is ugly and ill-shaped: everything has its own special beauty: everything is proportionate and symmetrical in its own way. Whatever He has made for a particular purpose, He has given it the most appropriate, form and invested it with the most :unable qualities for it. No better and more appropriate structure could be conceived, for example, for the eye and the ear which have been made for seeing and hearing. The air has precisely the same qualities which it should have for the purpose for which it has been made, and the water precisely the same qualities for the purpose for which it has been made. No one can point out any defect or flaw in the design of anything made by God; nor can anyone offer an alteration or modification in it. "

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :13 یعنی اس عظیم الشان کائنات میں اس نے بے حد و حساب چیزیں بنائی ہیں ، مگر کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جو بے ڈھنگی اور بے تکی ہو ۔ ہر شے اپنا ایک الگ حسن رکھتی ہے ۔ ہر شے اپنی جگہ متناسب اور موزوں ہے ۔ جو چیز جس کام کے لیے بھی اس نے بنائی ہے اس کے لیے موزوں ترین شکل پر ، مناسب ترین صفات کے ساتھ بنائی ہے ۔ دیکھنے کے لیے آنکھ اور سننے کے لیے کان کی ساخت سے زیادہ موزوں کسی ساخت کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا ۔ ہوا اور پانی جن مقاصد کے لیے بنائے گئے ہیں ان کے لئے ہوا ٹھیک ویسی ہی ہے جیسی ہونی چاہیے ، اور پانی وہی اوصاف رکھتا ہے جیسے ہونے چاہییں ۔ تم خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کے تقشے میں کسی کوتاہی کی نشاندہی نہیں کر سکتے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(32:7) احسن۔ اس نے اچھا بنایا۔ اس نے اچھا کیا۔ اس نے احسان کیا۔ احسان (افعال) مصدر کل شیء مضاف مضاف الیہ مل کر احسن کا مفعول۔ خلقہ میں ہ ضمیر کا مرجع شیء ہے جملہ خلقہ محل جر میں شئے کی صفت ہے الذی احسن کل شیء خلفہ جس نے جو چیز بنائی بہت خوب بنائی ہے۔ بدا۔ اس نے شروع کیا۔ اس نے ابتدا کی۔ اس نیے پہلی مرتبہ کیا۔ طین۔ مٹی ۔ گارا۔ مٹی اور پانی دونوں کا آمیزہ طین ہے۔ خلق الانسان۔ مضاف مضاف الیہ۔ انسا کی پیدائش۔ بدا خلق الانسان من طین۔ اس نے انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی جس مصلحت کے لئے اس کو بنایا اس کے مناسب بنایا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس ” اللہ “ نے زمین و آسمان اور ہر چیز بنائی اور پورے کے پورے نظام کو بلا شرکت غیرے چلارہا ہے اسی نے انسان کو مٹی سے بنایا اور ہر چیز کو اس کے مناسب حال نہایت خوبصورت پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے جو چیز بھی بنائی اور پیدا کی ہے اسے نہایت ہی خوبصورت اور متوازن بنایا ہے۔ پھول کی پتیوں کو دیکھیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کس قدر بھولی بھالی، پیاری، پیاری اور نہایت ہی دلکش ہوتی ہے پتیوں کی تراش، خراش دیکھو تو یوں لگتا ہے کہ کسی خاص ڈائی سے نکالی ہوئی ہیں رنگت پر نظر پڑتی ہے تو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایک ہی پتی پر رنگ کے کسی شیڈ میں۔ گلاب کی پتی کا ابتدائی حصہ سفیدی لئے ہوئے ہے اوپر کا حصہ نہایت ہی سرخ رنگ سے مّزین ہے۔ درندوں کو، دیکھو شیر کا چہرہ کس قدر بارعب اور جسم کتنا پھرتیلا ہے۔ بلی کے بچے کو دیکھو کتنا بھولہ بھالا لگتا ہے یہاں تک کتے کا بچہ بھی پیارا لگتا ہے۔ غرض کہ جو چیز بنائی خوب سے خوب تر بنائی۔ ہر کسی کو اس کی طبع کے مطابق ماحول دیا اور اس کی خوراک کا بندوبست فرمایا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر اس کی نسل کا سلسلہ مرد، زن کے پانی کے ایک قطرہ سے شروع کیا جو عورت کے رحم میں پہنچ کر خون بنتا ہے اس کے بعد لوتھڑے کی شکل اختیار کرتا ہے پھر اسے ایک وجود بخشا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے پھر اسے سننے کے لیے کان، دیکھنے کے لیے آنکھیں اور سوچنے کے لیے دل دیا تاکہ سچائی کو سنے، حقیقت کو دیکھے اور دل کے ساتھ سوچے کہ میں نے کس کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرنی ہے اور کس کا سب سے زیادہ شکر گزار رہنا ہے لیکن انسانوں کی اکثریت اپنے خالق اور مالک کی ناقدری اور ناشکری کرتے ہیں۔ کان، آنکھیں اور دل اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کو دیے ہیں مگر ان کی اور انسان کی سماعت، بصارت اور سوچ میں بےانتہا فرق ہے اس لیے انسان سے شکر گزار رہنے کا مطالبہ کیا ہے۔ شکر کا جذبہ محسن کی قدر کرنے کا احساس دلاتا ہے اور شکر گزارہی تابعدار ہوا کرتے ہیں۔ (حَدَّثَنَا أَبُوْ مُوْسَی الأَشْعَرِیُّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَۃٍ قَبَضَہَا مِنْ جَمِیْعِ الأَرْضِ فَجَاءَ بَنُوْ آدَمَ عَلَی قَدْرِ الأَرْضِ جَاءَ مِنْہُمُ الأَحْمَرُ وَالأَبْیَضُ وَالأَسْوَدُ وَبَیْنَ ذَلِکَ وَالسَّہْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ ) [ رواہ ابوداؤد : باب فِی الْقَدَرِ ] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی کی ایک مٹھی سے پیدا فرمایا اسی لیے آدم کی اولاد زمین کی رنگت کے مطابق ہے بعض ان میں سے سرخ ہیں اور بعض سفید، اور بعض سیاہ اور ان میں کچھ آرام اور سکون سے زندگی بسر کرنے والے ہیں اور کچھ غم زدہ اور کچھ خبیث النّفس اور کچھ نیک ہیں۔ “ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) وَرَفَعَ الْحَدِیْثَ أَنَّہُ قَالَ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ وَکَّلَ بالرَّحِمِ مَلَکًا فَیَقُوْلُ أَیْ رَبِّ نُطْفَۃٌ أَیْ رَبِّ عَلَقَۃٌ أَیْ رَبِّ مُضْغَۃٌ فَإِذَا أَرَاد اللَّہُ أَنْ یَقْضِیَ خَلْقًا قَالَ قَالَ الْمَلَکُ أَیْ رَبِّ ذَکَرٌ أَوْ أُنْثٰی شَقِیٌّ أَوْ سَعِیْدٌ فَمَا الرِّزْقُ فَمَا الأَجَلُ فَیُکْتَبُ کَذَلِکَ فِی بَطْنِ أُمِّہٖ ) [ رواہ مسلم : باب کَیْفِیَّۃِ الْخَلْقِ الآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّہِ وَکِتَابَۃِ رِزْقِہِ وَأَجَلِہِ وَعَمَلِہِ وَشَقَاوَتِہِ وَسَعَادَتِہِ ] ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے وہ حدیث کو مرفوع بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رحم میں ایک فرشتہ مقرر کیا ہے وہ پوچھتا ہے اے میرے رب ! یہ نطفہ ہے اے میرے رب ! یہ گوشت کا لوتھڑا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی کی تخلیق کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے اے میرے رب مذکر یا مؤنث بدبخت یا خوش بخت اس کا رزق کتنا ہے اس کی عمر کتنی ہے اسی طرح اس کا نیک اور بد ہونا اس کی ماں کے پیٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جو چیز پیدا فرماتا ہے نہایت خوبصورت پیدا کرتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی افزائش کا انتظام اسی کے وجود کے ذریعے سے فرمایا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آنکھ، کان اور دل عنایت کیے تاکہ وہ اس کا شکر ادا کرے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

انسان کی تخلیق اور تصویر کا تذکرہ اور منکرین بعث کی تردید جس ذات پاک کی صفات اوپر بیان ہوئیں وہ غیب اور شہادہ کا جاننے والا ہے یعنی جو کچھ بندوں سے غائب ہے اور جو کچھ آئندہ ہوگا اسے اس سب کا علم ہے اور جو کچھ موجود ہے اور بندوں کے سامنے ہے وہ اس سب کو جانتا ہے، (الْعَزِیْزُ ) (وہ سب پر غالب ہے) (الرَّحِیْمُ ) (وہ اپنی مخلوق پر رحم فرمانے والا ہے) (الَّذِیْٓ اَحْسَنَ کُلَّ شَیْءٍ خَلَقَہٗ ) (اس نے ہر چیز کو پیدا فرمایا اچھا بنایا) یعنی حکمت کے مطابق پیدا فرمایا اور حکمت کے مطابق اسے کام میں لگایا، ساری مخلوق خالق جل مجدہ کی حکمت کے مطابق وجود میں آئی ہے اور حکمت کے موافق اپنے اپنے اعمال میں مشغول ہے۔ حکمت کے مطابق پیدا فرمانا، کام میں لگانا یہ اللہ تعالیٰ کی صفت خاصہ ہے، اگر کوئی چیز فی نفسہ قبیح ہو تو یہ احسن الخلق کے منافی نہیں ہے کیونکہ احسن الخلق کا تعلق حکمت سے ہے۔ (وَبَدَ اَخَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ ) (اور اللہ نے انسان کی ابتدائی پیدائش مٹی سے فرمائی) اس کی تفسیر سورة حجر کے رکوع نمبر ٣ میں گزر چکی ہے اور سورة ص کے آخری رکوع میں بھی اس کا تذکرہ فرمایا ہے،

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ و بدا الخ اور انسان کی پیدائش مٹی سے شروع کی یعنی سب سے پہلے انسان حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا۔ ثم جعل نسلہ الخ، اس کے بعد نطفہ سے اس کی نسل کا سلسلسہ شروع فرمایا۔ سلالۃ، خلاصہ، غذا کا خلاصۃ خون ہے اور منی خون کا خلاصہ اور لب لباب ہے اس لیے سلالہ سے تعبیر فرمایا۔ ثم سواہ الخ رحم مادر میں نطفہ بیمقدار سے انسان کے تمام اعضاء درست کیے اور پھر ان میں جان ڈالی اور اسے سننے دیکھنے اور سمجھنے سوچنے کی قوتیں عطا فرمائیں تاکہ تم اللہ کے ان انعامات کا شکر بجا لاؤ۔ اس کی توحید کو مانو۔ تمام انواع عبادت صرف اسی کے لیے بجا لاؤ۔ اور اس کے احکام کی تعمیل کرو۔ مگر اس کے باوجود تم اس کی ناشکری کرتے ہو اور تم نے اس کے سوا اوروں کو کارساز اور شفعاء بنا رکھا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

7۔ جس نے خوبی بنائی جو چیز بنائی اور انسان کی پیدائش مٹی سے شروع کی ۔