Surat Assajdah

Surah: 32

Verse: 9

سورة السجدة

ثُمَّ سَوّٰىہُ وَ نَفَخَ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِہٖ وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ الۡاَفۡئِدَۃَ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۹﴾

Then He proportioned him and breathed into him from His [created] soul and made for you hearing and vision and hearts; little are you grateful.

جسے ٹھیک ٹھاک کر کے اس میں اپنی روح پھونکی اسی نے تمہارے کان آنکھیں اور دل بنائے ( اس پر بھی ) تم بہت ہی تھوڑا احسان مانتے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ثُمَّ سَوَّاهُ ... Then He fashioned him in due proportion, means, when He created Adam from clay, He created him and gave him shape and made him upright. ... وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالاَْبْصَارَ وَالاَْفْيِدَةَ ... and breathed into him the soul; and He gave you hearing, sight and the sense of deduction. means, reason. ... قَلِيلً مَّا تَشْكُرُونَ Little is the thanks you give! means, for these strengths with which Allah has provided you; the one who is truly blessed is the one who uses them to worship and obey his Lord, may He be exalted and glorified.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

91یعنی اس بچے کی ماں کے پیٹ میں نشو و نما کرتے، اس کے اعضا بناتے، سنوارتے ہیں اور پھر اس میں روح پھونکتے ہیں۔ 92یعنی ساری چیزیں پیدا کیں تاکہ وہ اپنی تخلیق کی تکمیل کر دے، پس تم سننے والی بات کو سن سکو دیکھنے والی چیز کو دیکھ سکو اور ہر عقل و فہم میں آنے والی بات کو سمجھ سکو۔ 93یعنی اتنے احسانات کے باوجود انسان اتنا ناشکرا ہے کہ وہ اللہ کا شکر بہت ہی کم ادا کرتا ہے یا شکر کرنے والے آدمی بہت تھوڑے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ١٠] پھر اسی انتہائی چھوٹے سے جرثومہ کو رحم مادر میں پیوست کیا تو اس کے بالکل ویسے ہی اعضاء بننے لگے اور ان پر گوشت پوست چڑھنے لگا جس چیز کا وہ جرثومہ تھا اللہ تعالیٰ نے پھر اپنی انفرادی توجہ سے اس میں چند نمایاں اختلاف بھی رکھ دیئے۔ لیکن اعصاء کے توازن و تناسب میں کچھ فرق نہ آنے دیا۔ پھر یہ سب کچھ درست کرنے اور آنکھ، ناک، کان، دل وغیرہ سب اعضاء کو درست اور ٹھیک ٹھاک کردینے کے بعد اس میں اپنے ہاں سے روح پھونک دی اور مقررہ وقت کے بعد وہ ایک تندرست اور جیتا جاگتا انسان بن کر رحم مادر سے باہر نکل آیا۔ یہ سب باتیں ایسے بدیہی امور ہیں جو سب انسانوں کے مشاہدہ میں آتی رہتی ہیں۔ پھر بھی انسانوں کی اکثریت ایسی ہے جو نہ ان قدرتوں کا اعتراف کرتی ہے اور نہ ان نعمتوں پر اللہ کا شکر بجا لاتی ہے۔ (نیز دیکھئے سورة حجر کا حاشیہ ١٩)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ سَوّٰىهُ : ” سَوّٰی یُسَوِّيْ تَسْوِیَۃً “ برابر کرنا، درست کرنا۔ پھر اس انتہائی چھوٹے سے جرثومے کو ماں کے رحم میں پیوست کیا اور علقہ اور مضغہ کی منزلوں سے بڑھاتے ہوئے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا کر، اسے گوشت پوست پہنا کر، ہر عضو کو اس کی بہتر سے بہتر جگہ رکھ کر ہر طرح سے درست اور مکمل کردیا۔ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ : ” مِنْ “ تبعیض کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” اور اس میں اپنی ایک روح پھونکی۔ “ مراد اس سے اپنی پیدا کردہ روح ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ” لَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ “ ہے، انسان کا شرف بیان کرنے کے لیے اس میں پھونکی جانے والی روح کو اپنی روح قرار دیا۔ کیونکہ ارواح جتنی بھی ہیں سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں، مگر انسان کی خصوصیت کے اظہار کے لیے اس کی روح کی نسبت اپنی طرف فرمائی، جیسا کہ تمام اونٹنیوں کا مالک اللہ ہے مگر صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کو ” نَاقَۃُ اللّٰہِ “ فرمایا، تمام مساجد اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں، مگر کعبہ کو ” بیت اللہ “ کہا جاتا ہے اور بندے سب کے سب اللہ کے ہیں، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاص شرف کے اظہار کے لیے فرمایا : (سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ ) [ بني إسرائیل : ١ ] اور فرمایا : (وَّاَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ يَدْعُوْهُ ) [ الجن : ١٩ ] اور دوسرے مقامات پر انھیں اپنا بندہ قرار دیا۔ مزید دیکھیے سورة حجر کی آیت (٢٩) کی تفسیر۔ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـــِٕدَةَ : اس سے پہلے انسان کی پیدائش کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ کیا، روح پھونکنے سے جیتا جاگتا انسان وجود میں آگیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا کہ جب تم پیدا ہوئے تو کچھ نہ جانتے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہیں علم حاصل کرنے کے ذرائع عطا فرمائے، جیسا کہ فرمایا : (وَاللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا ۙ وَّجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ) [ النحل : ٧٨ ] ” اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور اس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنا دیے، تاکہ تم شکر کرو۔ “ علم حاصل کرنے کے ذرائع میں سب سے پہلے سننے کی نعمت کا ذکر فرمایا، کیونکہ پیدا ہونے کے بعد سب سے پہلے کان ہی اپنا کام شروع کرتے ہیں، اس کے بعد آنکھیں اپنا کام شروع کرتی ہیں، اور اس لیے بھی کانوں کا ذکر پہلے فرمایا کہ کانوں پر کوئی پردہ نہیں، وہ ہر وقت اپنا کام سرانجام دیتے ہیں، حتیٰ کہ سونے کی حالت میں بھی سخت آواز جگانے کا باعث ہوتی ہے، جب کہ آنکھیں بند کرلینے سے یا سوجانے سے دیکھنے کا عمل رک جاتا ہے۔ سوچنے سمجھنے کا عمل ان دونوں کے بعد شروع ہوتا ہے، اس لیے ” الافئدۃ “ کا ذکر دونوں کے بعد فرمایا۔ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ : یہ سب باتیں ایسی واضح ہیں کہ تم میں سے ہر ایک کے مشاہدہ میں آتی رہتی ہیں، مگر تم بہت کم شکر کرتے ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ سَوّٰىہُ وَنَفَخَ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـــِٕدَۃَ۝ ٠ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۝ ٩ سوا ( مساوات برابر) الْمُسَاوَاةُ : المعادلة المعتبرة بالذّرع والوزن، والکيل، وتَسْوِيَةُ الشیء : جعله سواء، إمّا في الرّفعة، أو في الضّعة، وقوله : الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار/ 7] ، أي : جعل خلقتک علی ما اقتضت الحکمة، وقوله : وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس/ 7] ، فإشارة إلى القوی التي جعلها مقوّمة للنّفس، فنسب الفعل إليها، وکذا قوله : فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، ( س و ی ) المسا واۃ کے معنی وزن کیل یا مسا حت کے لحاظ سے دو چیزوں کے ایک دوسرے کے برابر ہونے کے ہیں التسویۃ کے معنی کسی چیز کو ہموار کرنے ہیں اور آیت : ۔ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار/ 7] دو ہی تو ہے ) جس نے تجھے بنایا اور تیرے اعضاء کو ٹھیک کیا ۔ میں سواک سے مراد یہ ہے کہ انسان کی خلقت کو اپنی حکمت کے اقتضاء کے مطابق بنایا اور آیت : ۔ وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس/ 7] اور انسان کی اور اس کی جس نے اس کے قوی کو برابر بنایا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] جب اس کو ( صورت انسانیہ میں ) درست کرلوں اور اس میں ( اپنی بےبہا چیز یعنی ) روح پھونک دوں ۔ نفخ النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ( ن ف خ ) النفخ کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر/ 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔ روح الرَّوْحُ والرُّوحُ في الأصل واحد، وجعل الرّوح اسما للنّفس، وذلک لکون النّفس بعض الرّوح کتسمية النوع باسم الجنس، نحو تسمية الإنسان بالحیوان، وجعل اسما للجزء الذي به تحصل الحیاة والتّحرّك، واستجلاب المنافع واستدفاع المضارّ ، وهو المذکور في قوله : وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[ الإسراء/ 85] ، وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، وإضافته إلى نفسه إضافة ملك، وتخصیصه بالإضافة تشریفا له وتعظیما، کقوله : وَطَهِّرْ بَيْتِيَ [ الحج/ 26] ، ويا عِبادِيَ [ الزمر/ 53] ( رو ح ) الروح والروح دراصل ایک ہی ہیں ( روح کا اطلاق سانس پر ہوتا ہے اور سانس بھی چونکہ روح کا ایک جزء ہے اس لئے مجازا اسے روح کہہ دیا ہے جیسا کہ نوع کو اسم جنس سے تعبیر کرلیتے ہیں مثلا تسمیۃ الانسان بالحیوان اور کبھی روح کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جس کے ذریعہ زندگی حرکت منافع کا حصوال ومضرات سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[ الإسراء/ 85] اور تجھ سے روح کی حقیقت دریافت کرتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ یہ میرے پروردگار کا ایک حکم ہے وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] اور میں نے اس میں اپنی ( طرف سے ) روح پھونک دی ۔ میں روح کے یہی معنی مراد ہیں اور اللہ تعالٰیے کا اسے اپنی ذات کی طرف منسوب کرنا اضافت ملک کے طور پر ہے جس سے اس کی شرافت کا اظہار مقصود ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ : وَطَهِّرْ بَيْتِيَ [ الحج/ 26] میں بیت کیا اضافت اپنی ذات کی طرف کی ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ويا عِبادِيَ [ الزمر/ 53] اے میرے بند و جنہوں نے اپنے اوپر زیادتی کی ۔ میں عباد کی نسبت بھی یا متکلم ( ذات باری تعالیٰ ) کی طرف اضافت تشریفی ہے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ فأد الْفُؤَادُ کالقلب لکن يقال له : فُؤَادٌ إذا اعتبر فيه معنی التَّفَؤُّدِ ، أي : التّوقّد، يقال : فَأَدْتُ اللّحمَ : شَوَيْتُهُ ، ولحم فَئِيدٌ: مشويٌّ. قال تعالی: ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم/ 11] ، إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء/ 36] ، وجمع الفؤاد : أَفْئِدَةٌ. ( ف ء د ) الفواد کے معنی قلب یعنی دل کے ہیں مگر قلب کے فواد کہنا معنی تفود یعنی روشن ہونے کے لحاظ سے ہے محاورہ ہے فادت الحم گوشت گو آگ پر بھون لینا لحم فئید آگ میں بھنا ہوا گوشت ۔ قرآن میں ہے : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم/ 11] جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا ۔ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء/ 36] کہ کان اور آنکھ اور دل فواد کی جمع افئدۃ ہے قرآن میں ہے فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ [إبراهيم/ 37] لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ ان کی طرف جھکے رہیں ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي : ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور پھر ماں کے پیٹ میں اس کے اعضاء درست کیے اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی اور تمہارے کان بنائے تاکہ تم ان سے حق اور ہدایت کی باتوں کو سنو اور تمہیں آنکھیں دیں تاکہ حق و ہدایت کو دیکھو اور حق و ہدایت کے سوچنے اور سمجھنے کے لیے دل دیے۔ مگر جتنے میں نے تم پر احسانات و انعامات کیے اس کے مقابلے میں تمہارا شکر کچھ بھی نہیں تم بہت ہی کم شکر ادا کرتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩ (ثُمَّ سَوّٰٹہُ ) یہاں ثُمَّ کا لفظ اس تخلیقی مرحلے کی نشاندہی کر رہا ہے جس کا آغاز ماں کے پیٹ میں استقرار حمل سے ہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ بچے کے اعضاء ترتیب پاتے ہیں۔ نسل انسانی کا ہر بچہ اس مرحلے سے گزرتا ہے ۔ (وَنَفَخَ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ ) پھر ایک مرحلے پر اس حیوانی جسم میں روح پھونک کر اسے انسان بنادیا جاتا ہے۔ ماں کے پیٹ میں ایک بچہ جن مراحل سے گزرتا ہے اس کی تفصیل اس متفق علیہ حدیث میں بیان ہوئی ہے جس کا مطالعہ ہم سورة المؤمنون کی آیات ١٢ تا ١٤ کے ذیل میں کرچکے ہیں۔ (ملاحظہ ہو اسی جلد کا صفحہ ١٧٠) (وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْءِدَۃَ ط) ۔ اَفْءِدَۃَجمع ہے اور اس کا واحد فُؤاد ہے۔ عام طور پرفُؤاد کا ترجمہ دل ہی کیا جاتا ہے مگر حقیقت میں اس سے انسانی عقل و شعور مراد ہے جس کا تشخص حیوانی عقل اور شعور سے قطعاً مختلف ہے۔ (لفظ فُؤاد کی مزید تشریح کے لیے سورة بنی اسرائیل ‘ آیت ٣٦ کی تشریح ملاحظہ ہو۔ )

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15 "Shaped him": developed him from a microscopic organism into a full-fledged human being and perfected him with limbs and other organs of the body. 16 "Spirit" dces not merely imply the life because of which a living thing moves, but the essential human characteristic which imbues man with consciousness and thought, discretion and judgement, discernment, -and discrimination, by virtue of which he is distinguished from all other earthly creations and becomes possessor of a personality and self and worthy of Allah's vicegerency. Allah has called this "Spirit" His own either because it belongs to Him alone, and its being attributed to Himself is just like a thing's being attributed to its master, or because the attributes of knowledge, thought, consciousness, will, judgment, discretion, etc. with which man has been characterised are a reflection to the attributes of Allah. They have not arisen from any combination of matter, but from Allah Himself. Man has received knowledge from Allah's Knowledge, wisdom from Allah's Wisdom, and discretion and authority from Allah's Authority. He has not received these from a source which is without knowledge, without wisdom and without discretion and authority. (For further explanation, see E.N. 19 of AI-Hijr). 17 This is a fine way of saying something. Before the mention of "breathing into him of His spirit", man has been referred to in the third person: "He created him ..... spread his progeny ...... shaped him ...... breathed into him His spirit," for till then he was not even worthy of being addressed. Then, when the spirit had been breathed into him, he became worthy of the honour and it was said: "He gave you the ears . . . gave you the eyes . . . gave you the hearts," for after having been blessed with the Spirit, man became worthy of being addressed. The ears and the eyes imply the instruments by which man obtains knowledge. Although the senses of taste and touch and smell are also instruments of obtaining knowledge, hearing and sight are the major and by far the more important senses. Therefore, the Qur'an has mentioned only these two at different places as the most important gifts of God to man. "The Heart" implies the mind which arranges the information obtained through the senses and draws inferences from it, and selects a possible way of action and decides to follow it. 18 That is, "The wonderful human spirit with such excellent qualities has not been given to you so that you may live like the animals in the world and plan life for yourselves as an animal would. You were given the eyes so that you may see things with insight and not that you should live like the blind people; you were given the cars so that you may hear things with attention and not that you should live like the deaf people; you were given the hearts so that you may understand the reality and adopt the right way in thought and action and not that you should expend alI your capabilities for collecting the means of nourishing and sustaining your animality, or that you may devise philosophies and programmes of rebellion against your Creator. After having received these invaluable blessings from God, when you adopt polytheism and atheism, when you assume godhead yourself or become servants of other gods, when you lose yourself in sensual pleasure by serving your lusts, you in fact tell your God: "We were not worthy of these blessings: You should have made us a monkey, or a wolf, or an alligator, or a crow, instead of man."

سورہ سجدۃ حاشیۃ: 15 یعنی انتہائی باریک خورد بینی وجود سے بڑھا کر اسے پوری انسانی شکل تک پہنچایا اور اس کا جسم سارے اعضاء وجوارح کے ساتھ مکمل کردیا ۔ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :16 روح سے مراد محض وہ زندگی نہیں ہے جس کی بدولت ایک ذی حیات جسم کی مشین متحرک ہوتی ہے ، بلکہ اس سے مراد وہ خاص جوہر ہے جو فکر و شعور اور عقل و تمیز اور فیصلہ و اختیار کا حامل ہوتا ہے ، جس کی بدولت انسان تمام دوسری مخلوقات ارضی سے ممتاز ایک صاحب شخصیت ہستی ، صاحب اَنا ہستی ، اور حامل خلافت ہستی بنتا ہے ۔ اس روح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح یا تو اس معنی میں فرمایا ہے کہ وہ اسی کی ملک ہے اور اس کی ذات پاک کی طرف اس کا انتساب اسی طرح کا ہے جس طرح ایک چیز اپنے مالک کی طرف منسوب ہو کر اس کی چیز کہلاتی ۔ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر علم ، فکر ، شعور ، ارادہ ، فیصلہ ، اختیار اور ایسے ہی دوسرے جو اوصاف پیدا ہوئے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات کے پر تو ہیں ۔ ان کا سر چشمہ مادے کی کوئی ترکیب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ اللہ کے علم سے اس کو علم ملا ہے ، اللہ کی حکمت سے اس کی دانائی ملی ہے ، اللہ کے اختیار سے اس کو اختیار ملا ہے ۔ یہ اوصاف کسی بے علم ، بے دانش اور بے اختیار ماخذ سے انسان کے اندر نہیں آئے ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جِلد دوّم ، صفحات ۵۰٤ ۔ ۵۰۵ ) ۔ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :17 یہ ایک لطیف انداز بیان ہے ۔ روح پھونکنے سے پہلے انسان کا سارا ذکر صیغۂ غائب میں کیا جاتا رہا ۔ اس کی تخلیق کی ، اس کی نسل چلائی ، اس کو نِک سُک سے درست کیا ، اس کے اندر روح پھونکی ۔ اس لیے اس وقت تک وہ خطاب کے لائق نہ تھا ۔ پھر جب روح پھونک دی گئی تو اب اس سے فرمایا جا رہا ہے کہ تم کو کان دیے ، تم کو آنکھیں دیں ، تم کو دل دیے اس لیے کہ حامل روح ہو جانے کے بعد ہی وہ اس قابل ہوا کہ اسے مخاطب کیا جائے ۔ کان اور آنکھوں سے مراد وہ ذرائع ہیں جن سے انسان علم حاصل کرتا ہے ۔ اگرچہ حصول علم کے ذرائع ذائقہ اور لامسہ اور شامہ بھی ہیں ، لیکن سماعت و بینائی تمام دوسرے حواس سے زیادہ بڑے اور اہم ذرائع ہیں ، اس لیے قرآن جگہ جگہ انہی دو کو خدا کے نمایاں عطیوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے ۔ اس کے بعد دل سے مراد وہ ذہن ( Mind ) ہے جو حواس کے ذریعہ سے حاصل شدہ معلومات کو مرتب کر کے ان سے نتائج نکالتا ہے اور عمل کی مختلف امکانی راہوں میں سے کوئی ایک راہ منتخب کرتا اور اس پر چلنے کا فیصلہ کرتا ہے ۔ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :18 یعنی یہ عظیم القدر انسانی روح اتنے بلند پایہ اوصاف کے ساتھ تم کو اس لیے تو عطا نہیں کی گئی تھی کہ تم دنیا میں جانوروں کی طرح رہو اور اپنے لیے بس وہی زندگی کا نقشہ بنا لو جو کوئی حیوان بنا سکتا ہے ۔ یہ آنکھیں تمہیں چشم بصیرت سے دیکھنے کے لیے دی گئی تھیں نہ کہ اندھے بن کر رہنے کے لیے ۔ یہ کان تمہیں گوش ہوش سے سننے کے لیے دیے گئے تھے نہ کہ بہرے بن کر رہنے کے لیے ۔ یہ دل تمہیں اس لیے دیے گئے تھے کہ حقیقت کو سمجھو اور صحیح راہ فکر و عمل اختیار کرو ، نہ اس لیے کہ اپنی ساری صلاحیتیں صرف اپنی حیوانیت کی پرورش کے وسائل فراہم کرنے میں صرف کر دو ، اور اس سے کچھ اونچے اٹھو تو اپنے خالق سے بغاوت کے فلسفے اور پروگرام بنانے لگو ۔ یہ بیش قیمت نعمتیں خدا سے پانے کے بعد جب تم دہریت یا شرک اختیار کرتے ہو ، جب تم خود خدا یا دوسرے خداؤں کے بندے بنتے ہو ، جب تم خواہشات کے غلام بن کر جسم و نفس کی لذتوں میں غرق ہو جاتے ہو ، تو گویا اپنے خدا سے یہ کہتے ہو کہ ہم ان نعمتوں کے لائق نہ تھے ، ہمیں انسان بنانے کے بنائے تجھے ایک بندر ، یا ایک بھیڑیا ، یا ایک مگر مچھ یا ایک کوا بنانا چاہیے تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(32:9) سوہ : سوی۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ سوی یسوی تسویۃ (تفعیل) مصدر سے۔ کسی چیز کو بلندی و پستی میں برابر بنانا۔ برابر کرنا۔ پورا پورا بنانا۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب الانسان کی طرف راجع ہے۔ (پھر) اس نے اس کو درست کیا۔ مکمل کیا۔ نفخ۔ ماضی واحد مذکر غائب نفخ (نصر) مصدر سے۔ اس نے پھونکا۔ نفخۃ ایک پھونک۔ ایک بار پھونکنا۔ نفخ سے مراد ہے کہ پہلے بےجان تھا پھر اس کو زندہ اور حساس بنادیا۔ من روحہ۔ اپنی روح سے۔ تفسیر ماجدی میں ہے کہ :۔ روحہ میں اضافت تشریفی ہے اظہار تعظیم کے لئے جیسے بیت اللہ میں گھر کی اضافت اللہ کی طرف ہے۔ یہ مراد نہیں کہ نعوذ باللہ اللہ کی بھی کوئی روح ہے اور اس کا کوئی جزو انسان کے اندر پھونک دیا گیا۔ مراد وصرف یہ ہے کہ وہ روح جسے اللہ نے معزز و مکرم بنایا ہے اپنی خلافت سے۔ نفخ فیہ من روحہ اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی۔ وجعل لکم السمع والابصار والافئدۃ۔ اور تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنا دئیے۔ یہاں التفات ضمائر ہے غیبت سے خطاب کی طرف۔ اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں :۔ اول : یہ کہ اس نے انسان بےجان میں اپنی طرف سے روح پھونک کر جان ڈال دی۔ اس کو اپنی خلافت کا شرف بخشا تو اس کو اس قابل بنادیا کہ اس سے براہ راست خطاب کیا جائے۔ دوم : اپنے احسان و کرم بخشش کو انسان پر واضح کرنے اور اس کے ذہن نشین کرانے کے لئے اس سے براہ راست خطاب کیا۔ قلیلا ما تشکرون ۔ اس میں ما زائدہ مؤکدہ ہے قلت کی تاکید میں ہے۔ قلیلا صفت ہے شکرا کی جو محذوف ہے ای شکرا قلیلا تشکرون ۔ او تشکرون شکرا قلیلا (بیضاوی) تم لوگ بہت ہی کم شکر کرتے ہو۔ یہ جملہ معترضہ ہے ہوسکتا ہے کہ جملہ حالیہ ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی ادراکات ظاہرہ و باطنہ دیئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(ثُمَّ سَوّٰہُ وَنَفَخَ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْءِدَۃَ ) (پھر اللہ نے اس کو ٹھیک طرح بنا دیا یعنی وہیں اندر اندر رحم مادر میں اس کی شکل و صورت بنا دی، اعضاء بنا دئیے پھر اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دی، اس روح کے پھونکے جانے کے بعد جیتی جاگتی تصویر بن گئی، اس تصویر میں کان بھی بنا دئیے اور آنکھیں بھی اور دل بھی) اب جو بچہ باہر آیا تو وہ ہاتھ پاؤں کے اعتبار سے صحیح جاندار سننے اور دیکھنے والا اور اپنے دل کو ادراک اور فہم میں استعمال کرنے والا سامنے آگیا، گو یہ قویٰ اور ادراکات بتدریج نشوونما کے ساتھ ترقی پذیر ہوتے ہیں لیکن ابتداء ہی سے اس پیدا ہونے والے بچہ میں یہ چیزیں بطور ودیعت رکھ دی جاتی ہیں۔ (قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ ) انسانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کا شکر ادا کریں جس نے نطفہ سے رحم مادر میں اس کی تخلیق کی ابتداء کی اس کے اعضاء بنائے اور اس میں اپنی روح پھونکی اور اس میں قوت سامعہ و باصرہ ودیعت رکھی اور اس کے اندرون جسم دل بھی مرکب فرما دئیے جس کے دو کام ہیں، ایک تو رگوں میں خون کو برابر پھینکتے رہنا، دوسرے سوچنا سمجھنا، ان سب انعامات کا تقاضا یہ ہے کہ بنی آدم اپنے خالق کے شکر گزار ہوں لیکن شکر ادا کرنے ووالے کم ہیں اور جو شکر ادا کرنے والے ہیں وہ بھی بقدر استطاعت شکر ادا نہیں کرتے اور پورا شکر تو ادا ہو ہی نہیں سکتا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

9۔ پھر اس کو برابر کیا اور اس کے اعضا کو درست کیا اور درست اندام کیا اور اس میں اپنی روح کو پھونکا اور داخل کیا اور تمہارے نفع کیلئے تم کو کان اور آنکھیں اور دل دیئے تم لوگ بہت ہی کم شکر ادا کرتے ہو ۔ یعنی اعضاء میں تناسب رکھا اور درست اندام بنایا روح چونکہ اس کی طرف سے ہے اس لئے اس کی شرافت اور عزت کیلئے اپنی روح فرمایا۔ پھر آنکھیں اور کان اور دل دیئے تاکہ دیکھو اور آیات تنزیلیہ سنو اور دل سے سمجھ کر ایمان لائو اور اس کی توحید کا اقرار کرو مگر تم لوگ بہت ہی کم شکرادا کرتے ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اپنی جان میں سے جو مخلوق ہے اسی کا مال ہے مگر جسکو عزت دی اس کو اپناکہا۔ جیسے ان عبادی سو انسان کی جان غیب سے آئی ہے مٹی پانی سے نہیں بنی اس کو اپنی کہا اور یہ نہ سمجھے کہ اللہ کی جان جان ہو تو بدن بھی ہو بدن ہو تو ترکیب بھی ہو ذات پاک کہاں رہی۔ 12 خلاصہ۔ یہ کہ یہاں روح کا تصوریہ نہ کرنا کہ جیسے انسان کی جان کہ اس کے لئے بدن کا ہونا ضروری ہے بلکہ حق تعالیٰ نے اس کی اضافت اپنی طرف محض اس کی شرافت کی وجہ سے فرمائی ہے۔