Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 1

سورة الأحزاب

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰہَ وَ لَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ۙ﴿۱﴾

O Prophet, fear Allah and do not obey the disbelievers and the hypocrites. Indeed, Allah is ever Knowing and Wise.

اے نبی! اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کی باتوں میں نہ آجانا اللہ تعالٰی بڑے علم والا اور بڑی حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to defy the Disbelievers and Hypocrites by following the Revelation of Allah and putting One's Trust in Him Allah says, يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّهَ ... O Prophet! Have Taqwa of Allah, Here Allah points out something lower by referring to something higher. When He commands His servant and Messenger to do this, He is also commanding those who are lo... wer than him, and the command is addressed to them more so. Talq bin Habib said: "Taqwa means obeying Allah in the light of the guidance of Allah and in hope of earning the reward of Allah, and refraining from disobeying Allah in the light of the guidance of Allah and fearing the punishment of Allah." ... وَلاَ تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ ... and obey not the disbelievers and the hypocrites. means, do not listen to what they say and do not consult them. ... إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا Verily, Allah is Ever All-Knower, All-Wise. means, He is more deserving of your following His commandments and obeying Him, for He knows the consequences of all things and is Wise in all that He says and does. Allah says:   Show more

تنبیہ کی ایک موثر صورت یہ بھی ہے کہ بڑے کو کہا جائے تاکہ چھوٹا چوکنا ہوجائے ۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو کوئی بات تاکید سے کہے تو ظاہر ہے کہ اوروں پر وہ تاکید اور بھی زیادہ ہے ۔ تقویٰ اسے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ثواب کے طلب کی نیت سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے ۔ اور فرمان با... ری کے مطابق اس کے عذابوں سے بچنے کے لئے اس کی نافرمانیاں ترک کی جائیں ۔ کافروں اور منافقوں کی باتیں نہ ماننا نہ ان کے مشوروں پر کاربند ہونا نہ ان کی باتیں قبولیت کے ارادے سے سننا ۔ علم وحکمت کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے چونکہ وہ اپنے وسیع علم سے ہر کام کا نتیجہ جانتا ہے اور اپنی بےپایاں حکمت سے اس کی کوئی بات کوئی فعل غیر حکیمانہ نہیں ہوتا تو تو اسی کی اطاعت کرتا رہ تاکہ بد انجام سے اور بگاڑ سے بچارہے ۔ جو قرآن وسنت تیری طرف وحی ہو رہا ہے اس کی پیروی کر اللہ پر کسی کا کوئی فعل مخفی نہیں ۔ اپنے تمام امور واحوال میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی بھروسہ رکھ ۔ اس پر بھروسہ کرنے والوں کو وہ کافی ہے ۔ کیونکہ تمام کارسازی پر وہ قادر ہے اس کی طرف جھکنے والا کامیاب ہی کامیاب ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21آیت میں تقویٰ پر مداومت اور تبلیغ و دعوت میں استقامت کا حکم ہے۔ طلق بن حبیب کہتے ہیں، تقویٰ کا مطلب ہے کہ اللہ کی اطاعت اللہ کی دی ہوئی روشنی کے مطابق کرے اور اللہ سے ثواب کی امید رکھے اور اللہ کی معصیت اللہ کی دی ہوئی روشنی کے مطابق ترک کر دے، اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے (ابن کثیر) 22پس وہی اس بات...  کا حق دار ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اس لئے نتائج کو وہی جانتا ہے اور اپنے اقوال و افعال میں وہ حکیم ہے  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] جنگ احد کے بعد مدینہ پر خوف وہراس کی فضا :۔ اگرچہ اس سورة کا اکثر حصہ جنگ (احزاب ٥ ھ) کے بعد نازل ہوا تاہم ابتدائی آیات جنگ احزاب سے بہت پہلے کی ہیں۔ مکہ میں تو آپ کے اور مسلمانوں کے دشمن صرف قریش مکہ تھے۔ مگر مدینہ جانے کے بعد مدینہ کے یہود، مشرکین اور منافقین سب آپ کے دشمن بن گئے تھے۔ جو اسلا... م اور پیغمبر اسلام کو بدنام کرنے اور صفحہ ہستی سے مٹا دینے پر تلے بیٹھے تھے۔ غزوہ احد میں مسلمانوں کو جو عارضی طور پر شکست ہوئی تھی اس نے دشمنوں کے حوصلے بہت بڑھا دیئے تھے۔ مشرک قبائل نے دو دفعہ رسول اللہ کو دھوکا دے کر تبلیغ کے لئے قاریوں کا مطالبہ کیا اور پھر انھیں قتل کردیا۔ مدینہ پر ہر وقت خوف و ہراس کی فضا طاری رہتی تھی۔ اور اعدائے اسلام نے اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کی مہم بڑی تیز کر رکھی تھی۔ خ معاشرتی اصلاحات اور غلامی کا مسئلہ :۔ اور یہی وہ دور تھا جس میں بذریعہ وحی مسلمانوں کی اخلاقی تربیت اور معاشرتی اصلاحات کا سلسلہ بھی جاری تھا اور معاشرتی اصلاحات کے سلسلہ میں ایک نہایت اہم مسئلہ غلامی کا تھا۔ عرب معاشرہ میں غلامی کا اتنا زیادہ رواج تھا کہ اگر یوں کہا جائے کہ اس دور میں عرب آبادی کا آدھے سے زیادہ حصہ غلاموں پر مشتمل تھا تو غلط نہ ہوگا۔ پھر ان غلاموں کو آزاد انسانوں سے بہت حقیر اور کم تر درجہ کی مخلوق سمجھا جاتا تھا اور اسلام اس سلسلہ میں کئی اصلاحات کرنا چاہتا تھا۔ خ غلام اور آزاد کی طبقاتی تقسیم :۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی یہ تھی کہ زید بن حارثہ آپ کا غلام تھا۔ جسے آپ نے آزاد کرکے اپنا متبنیٰ بنا لیا تھا۔ چناچہ لوگ سیدنا زید کو زید بن محمد کہا کرتے تھے۔ یہ آزاد کردہ غلام بھی معاشرہ میں وہ مقام نہیں رکھتے تھے جو آزاد لوگوں کا ہوتا تھا۔ گویا یہ معاشرتی عزت و وقار کے لحاظ سے ایک درمیانہ قسم کا تیسرا طبقہ بن جاتا تھا جو غلاموں سے تو اوپر ہوتا تھا لیکن آزاد لوگ انھیں بھی اپنا ہم پلہ قرار نہیں دیتے تھے۔ اس سلسلہ میں اسلام نے کئی اقدامات کئے اور کئی اصلاحات کیں۔ مثلاً اسلام نے اگرچہ کلی طور پر غلامی کا استیصال نہیں کیا کیونکہ اس میں بھی کچھ مصلحتیں تھیں تاہم ایسی تدابیر اختیار کیں جن سے زیادہ سے زیادہ غلاموں کو آزادی کی نعمت میسر ہو اور یہ ایک جداگانہ موضوع ہے۔ جو خاصا تفصیل طلب ہے۔ خ آپ کے آزاد کردہ غلام زید کا سیدہ زینب سے نکاح :۔ آزاد شدہ غلاموں کے سلسلہ میں اسلام کا منشا یہ تھا کہ کم از کم ایسے لوگوں کو ازاد لوگوں کے برابر درجہ دیا جائے۔ چناچہ اسی منشائے الٰہی کے مطابق آپ نے اپنے آزاد کردہ غلام اور متبنیٰ زید کے لئے اپنی پھوپھی زاد بہن سیدہ زینب سے رشتہ کا مطالبہ کردیا۔ سیدہ زینب کا خاندان آپ ہی کا خاندان تھا۔ جو آزاد معاشرہ میں بڑے اونچے درجہ کے لوگ شمار ہوتے تھے وہ بھلا کیسے اس رشتہ کو قبول کرسکتے تھے ؟ چناچہ انہوں نے اسی بنا پر رشتہ سے صاف انکار کردیا اور رشتہ کا یہ مطالبہ چونکہ رسول اللہ نے اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے کیا تھا۔ لہذا ان لوگوں کے انکار پر اسی سورة کی آیت نمبر ٣٦ نازل ہوئی۔ جس میں سیدہ زینب کے رشتہ داروں کو مطلع کردیا گیا کہ && جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا فیصلہ کرلیں تو مومنوں کا کچھ اختیار باقی نہیں رہ جاتا && چناچہ انہوں نے اللہ کے اس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا اور سیدنا زید اور سیدہ زینب کی شادی ہوگئی۔ مگر شادی کے بعد بھی زوجین کے تعلقات میں خوشگواری نہ آسکی۔ اور اس کی وجہ وہی طبقاتی امتیاز تھا جو معاشرہ میں جڑ پکڑ چکا تھا۔ خ آپ کا زید کو سمجھانا اور طلاق کی نوبت :۔ سیدہ زینب نے اللہ کے حکم کے سامنے تو سر تسلیم خم کردیا مگر طبیعت کا یکدم بدل جانا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ اور وہ اپنے خاوند کا وہ احترام نہ کرسکیں جو ایک بیوی کو اپنے خاوند کا کرنا چاہئے۔ سیدنا زید چونکہ رسول اللہ کے چہیتے بھی تھے اور متبّنی بھی۔ لہذا انہوں نے کئی بار آپ سے اپنی اس تکلیف اور ذہنی کوفت کی شکایت کی۔ اور یہ بھی کہا کہ میں زینب کو طلاق دے دوں گا۔ مگر آپ سیدنا زید کو طلاق سے منع ہی فرماتے رہے۔ خ ہر مشکل کام کا آغاز نبی کی ذات سے : سیدہ زینب سے نکاح کا حکم :۔ عرب معاشرہ میں ایک اور بگاڑ بھی موجود تھا جو یہ تھا کہ یہ لوگ متبنیٰ کو ہر لحاظ سے اپنے حقیقی بیٹوں کی مانند قرار دیتے تھے اور اس مسئلہ میں بھی اسلام اصلاحی قدم اٹھانا چاہتا تھا۔ لیکن یہ قدم چونکہ انتہائی مشکل قدم تھا۔ اور جو شخص بھی اس بند دروازے کو کھولنے کا ارادہ کرتا اسے سارے عرب معاشرہ کے طعن وتشنیع کا ہدف بننا پڑتا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مشکل کام کے لئے نبی کی ذات کو منتخب کیا۔ جن دنوں سیدنا زید سیدہ زینب کو طلاق دینے کا سوچ رہے تھے۔ اسی دور میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارہ مل چکا تھا کہ اب سیدہ زینب کا آپ سے نکاح کیا جائے گا۔ اس اشارہ حکم الٰہی سے دو مصلحتیں مقصود تھیں ایک یہ کہ سیدہ زینب جس نے اپنی طبیعت کی ناگواری کے باوجود اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا تھا آئندہ آپ سے نکاح کرکے اس کی دلجوئی کی جائے اور دوسری مصلحت یہ تھی کہ معاشرہ میں اس غلط نظریہ کا قلع قمع کیا جائے کہ متبنّیٰ بھی ہر لحاظ سے حقیقی بیٹے کی طرح ہوتا ہے۔ خ نکاح پر کافروں اور منافقوں کا طعن وتشنیع :۔ جب آپ کو وحی سے سیدہ زینب سے نکاح کا اشارہ ملا۔ تو آپ کے سامنے وہ سارے خطرات آنے لگے۔ جب سارے کے سارے دشمن آپ کو یہ طعنہ دیں گے کہ دیکھو ! اس نبی نے تو اپنی بہو سے نکاح کرلیا ہے حالانکہ یہ خود ہی بہو سے نکاح کرنا حرام بتاتا ہے۔ غالباً طعن وتشنیع کے انھیں خطرات کے پیش نظر آپ زید کو بار بار طلاق دینے سے روکتے رہے۔ اسی پس منظر میں اس سورة کی یہ ابتدائی آیات نازل ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنے نبی کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں ان کافروں اور منافقوں سے نہ ڈرنے کی ضرورت ہے نہ ان کی باتوں پر کان دھرنے کی۔ ڈرنے کے لائق تو صرف اللہ کی ذات ہے۔ تم صرف اسی سے ڈرو اور اسی کی وحی کی اطاعت کرو۔ اللہ اپنے احکام کی حکمت خوب جانتا ہے کہ وہ کیوں ایسا حکم دے رہا ہے اور جو لوگ اس نکاح کے رد عمل میں شور و غوغا بپا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے بھی پوری طرح باخبر ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ ۔۔ : سورت کا آغاز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ “ کے خطاب سے ہوتا ہے۔ اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکریم و تشریف مقصود ہے، کیونکہ قرآن مجید میں دوسرے انبیاء کو ان کے ناموں کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے، جیسا کہ ” یَاٰدَم، ینوح، یابراھیم، ... یعیسیٰ “ وغیرہ، مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ “ اور ” يٰٓاَيُّهَا الرسول “ کے ساتھ ہی مخاطب کیا گیا ہے۔ 3 اس سورت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پانچ دفعہ ” يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ “ کے ساتھ مخاطب فرمایا ہے، ایک یہ آیت، دوسری آیت (٢٨) : (ۧيٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا ) ، تیسری آیت (٤٥) : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا ) ، چوتھی آیت (٥٠) : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ ) اور پانچویں آیت (٥٩) : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ ) اس سے ظاہر ہے کہ اس سورت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذاتی معاملات کا خاص طور پر ذکر ہے۔ اگرچہ مقصود امت کی تعلیم بھی ہے۔ اتَّقِ اللّٰهَ وَلَا تُطِـعِ الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ : یہ سورت سن پانچ ہجری کے آخر میں غزوۂ احزاب کے زمانے میں نازل ہوئی۔ یہ وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں پر نہایت مشکل اور آزمائش کا تھا، کیونکہ قریش، غطفان، ہذیل اور پورے عرب کے مشرکین مل کر اسلام کو مٹانے کی آخری کوشش کے لیے دس ہزار کا لشکر لے کر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے تھے۔ ان کی مدد مدینہ کے یہود اور منافقین بھی کر رہے تھے، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ اسی زمانے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زمانۂ جاہلیت کی کچھ ایسی رسوم کو توڑنے کا حکم ہوا جو اس وقت سب لوگوں کے ہاں مسلّمہ تھیں، مثلاً بیوی کو ماں کہہ دیا جائے تو اسے ماں ہی کی طرح حرام سمجھنا، منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کا مقام دے کر وارث بنانا، اس کی بیوی کے ساتھ بہو کی طرح نکاح حرام سمجھنا وغیرہ۔ متبنٰی (منہ بولا بیٹا) بنانے کی یہ رسم اتنی مستحکم تھی کہ جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود اپنے عمل سے اسے نہ توڑتے اس کا ختم ہونا مشکل تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبوت سے پہلے اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا۔ جاہلیت کی رسوم میں سے ایک رسم یہ بھی تھی کہ غلام آزاد بھی ہوجائے تو وہ اسے حقیر ہی سمجھتے اور آزاد لوگوں کا درجہ دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے اس رسم کو توڑا اور اپنی پھوپھی کی بیٹی زینب بنت جحش (رض) کا نکاح، جو نہایت عالی خاندان سے تھیں، اپنے آزاد کردہ غلام زید (رض) کے ساتھ کردیا، مگر دونوں میں موافقت نہ ہوسکی، تو زید (رض) نے اسے طلاق دے دی۔ اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش تھی کہ زینب (رض) سے نکاح کرلیں، کیونکہ اس نے زید سے نکاح کرکے بہت بڑی قربانی دی تھی اور اس کی دل جوئی بھی مقصود تھی۔ مگر ڈر یہ تھا کہ پورے عرب کے مشرکین اور منافقین اس پر طعن و تشنیع کا طوفان برپا کردیں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہو سے نکاح کو حرام کہتے ہیں اور خود بہو سے نکاح کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ چار بیویوں سے نکاح جائز تھا، اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زینب سے نکاح کرتے تو یہ پانچویں بیوی ہوتی، کیونکہ اس سے پہلے سودہ، عائشہ، حفصہ اور ام سلمہ آپ کے نکاح میں تھیں۔ اس پر بھی کفار و منافقین کو طعن کا موقع ملتا، اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ ۔۔ “ کہہ کر زیادہ بیویاں رکھنے کی خصوصی اجازت عطا فرمائی۔ غرض اس قسم کی کئی باتوں کی اصلاح کرنا تھی، مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار و منافقین کے طوفان اٹھانے کے خوف سے انقباض محسوس کرتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے سورت کا آغاز ہی اس بات سے کیا : ” اے نبی ! اللہ سے ڈر اور کافروں اور منافقوں کا کہنا مت مان۔ “ یہ لمبی بات کو مختصر کرنے کی ایک خوب صورت مثال ہے، جو یہ تھی کہ اللہ سے ڈر، کفار و منافقین یا کسی اور سے مت ڈر اور اللہ کا حکم مان اور کفار و منافقین کا کہنا مت مان۔ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا :” اِنَّ “ عموماً تعلیل کے لیے ہوتا ہے، یعنی یہ کسی بات کی وجہ بیان کرتا ہے۔ ” بیشک اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہر چیز کا علم رکھنے والا، کمال حکمت والا ہے “ یعنی اس کے احکام، علم و حکمت پر مبنی ہیں، جب کہ کفار کے رسوم و رواج اور ضابطوں کی بنیاد وہم و گمان، جہل اور بےوقوفی پر ہے۔ آگے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ منہ سے کہہ دینے سے کوئی عورت ماں نہیں بن جاتی، نہ کوئی شخص منہ سے کہہ دینے سے بیٹا بن جاتا ہے۔ وہ تقدیس جو حقیقی ماں، بہن، بیٹی اور بہو کے رشتے میں ہوتی ہے، مصنوعی رشتے میں کبھی نہیں ہوسکتی، بلکہ یہ رشتے عام میل ملاپ کی وجہ سے برائی پھیلنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس لیے کسی کافر یا منافق سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، ایک اللہ سے ڈریں اور اسی کا حکم مان کر جاہلیت کی ان تمام رسوم کا خاتمہ کردیں۔ 3 اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے امت کو تنبیہ کی مؤثر ترین صورت اختیار فرمائی گئی ہے کہ جب یہ حکم سب سے بڑے شخص کو ہے تو دوسروں کے لیے تو اس کی تاکید اس سے بھی زیادہ ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary This is a Madani Surah. Most of its subjects feature is the loveable persona of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his special place with Allah. There it has been variously emphasized that showing reverence for him is obligatory and that causing any pain to him is haram (forbidden). Then the rest of the subjects taken up in the Surah also serve as complements to the ultimate...  perfection of his station. The background of revelation Some narrations have been reported outlining the cause of the revelation of this Surah: 1. When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) came to live in Madinah after his hijrah, the environs of the city were inhabited by Jewish tribes, some of whom being Quraizah, Nadir and Banu Qainuqa . Being the prophet of mercy for all, he wished and tried that they somehow embrace Islam. It so happened that a few men from among these Jews started visiting him and posing as Muslims hypocritically. There was no faith in their heart. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) took this as sufficient to begin within the hope that the incidence of some people becoming Muslims would make it easier for him to invite others. Therefore, he used to welcome everyone from among these people particularly and warmly, so much so that even if they happened to do something bad, he would ignore it as a measure of religious expediency. It was because of this event that the initial verses of Surah al-Ahzab were revealed. (al-Qurtubi) According to another event reported by Ibn Jarir from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ، it was after hijrah that Walid Ibn Mughirah and Shaibah Ibn Rabi&ah from among the kuffar of Makkah came to Madinah. They made an offer before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that they would let him have half of the entire wealth of the Quraish of Makkah, if he were to withdraw his claim of prophethood. And the hypocrites and Jews of Madinah gave him a threat that they would kill him, if he did not withdraw from his claim and call. Thereupon, these verses were revealed. (Ruh al-Ma’ ani) The third event has been reported by Tha` alibi and Wahidi with no ascription of authority. This event, according to them, goes back to the time when a no war pact was signed between the pagans of Makkah and the Holy Prophet t at Hudaibiyah. It was at that time that Abu Sufyan, ` Ikrimah, Ibn Abi Jahl and Abu al-A&war Sulami came to Madinah. There they said to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ` You stop speaking ill of our objects of worship - or simply say that they will also intercede on our behalf and bring benefits to us. If you do just that much, then we, on our part, will forget about you and your Lord - and the dispute will be all over.& What they said was very unpleasant for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and for all Muslims who wanted to kill them. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, ` I have made a peace pact with them, therefore, this cannot be done.& Thereupon, these verses were revealed. (Ruh al-Ma’ ani) Though, these reports are different but, in reality, there is no contradiction therein. These events could also be the cause of the revelation of the cited verses. In these verses, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been asked to do two things: (1) اِتَّقِ اللہَ (ittaqillah), that is, &fear Allah.& (2) لَا تُطِیعِ الکَافِرِینَ (la tuti&il-kafirin), that is, &do not obey the disbelievers.& The order to fear Allah was given for the reason that killing them was a breach of trust which is haram (forbidden). As for the order of not obeying the disbelievers, it was given for the reason that the demands made by the infidels in all these events were unacceptable. Relevant details follow. Explanation of Verses In the opening verse of the Surah: یَٰایُّھَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللہَ (0 Prophet, fear Allah - 1), the wording of the address to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is significant. This is a singular honor given and the high regard shown to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Nowhere in the entire Qur&an, has he ever been addressed directly by his name - as has been the case in addressing other prophets. They have been addressed as یَا آدَمُ (0 &Adam), یَا نُوحُ (0 Nuh), یَا اِبرَاھِیمُ (0 Ibrahim), یَا مُوسیٰ (0 Musa) and likewise, repeatedly. Contrary to this, wherever throughout the Qur&an an address was made to the last among the prophets, may peace and the blessings of Allah be upon him, he was addressed by some title, like nabiyy (prophet) or rasul (messenger of Allah) etc. The only exception is that of four occasions [ 3:144; 33:40; 47:2; 48:29] where the very purpose was to declare that he is the rasul of Allah. It is there only that his blessed name has been mentioned - which was functionally necessary. In this address, two orders were given to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : (1) That of fearing Allah in the sense that the peace pact entered into with the Mushriks of Makkah should not be contravened. (2) That of not yielding to what is said by the disbelievers, hypocrites and the Jews. At this point, a question may arise. Is it not that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is, after all, protected from all sins? Now, a breach of solemn pledge is obviously a major sin, and similarly, it is also a great sin to accept the offer of disbelievers and polytheists, quoted under the background of revelation. Since the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was already protected from all kinds of sins, what was the need for such an order? According to Ruh al-Ma’ ani, these orders have the sense of instruction to abide by this conduct in future as well - as he did in the event concerned. And the order of: اِتَّقِ اللہ (ittaqillah: fear Allah) was made to come earlier for the reason that Muslims wanted to kill the Mushriks of Makkah with whom a treaty of peace was already in effect. Therefore, the instruction to avoid a breach of pledge was made to precede through the expression: اِتَّقِ اللہ (ittagillah: fear Allah). As for the instruction of not yielding to the kuffar and mushrikin, since no one had even wanted to do that, it was mentioned later. And some respected commentators have said that, in this verse, though the address is to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، but the purpose is to warn the Muslim community at large. As for him, he was ma` sum, that is, protected in the sense that there was just no probability of the contravention of Divine injunctions from him. But, the law is for the whole community. So, a corresponding mode was employed to make the community hear it and become alerted, and the address was made to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) which enhanced the importance of the order significantly by suggesting: When, even the rasul of Allah is the addressee of the order, how can any individual of the Muslim community remain exempted from it? And Ibn Kathir has said: In this verse, the real purpose of prohibiting the obedience of the disbelievers is that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) should not consult with them or let them have the opportunity of sitting with him frequently, because such consultation or mutual interaction generally becomes the cause of ending up in a disposition favouring the acceptance of what they proposed. Though, there was no probability that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) would do what they asked him to do, still, he was stopped from maintaining such liaison with them and from having them participate in his consultations. It is this idea that has been expressed through the word: اِطَاعَۃ (ita’ ah: obedience, submission or listening to and doing the bidding of someone), because such consultations and mutual interaction usually become the cause of ultimate acceptance. So, what has really been done here is that he has been prohibited from adopting the ways that could lead to such &itaa&ah or obedience. As for obedience itself, there was no probability that he would ever do that. Now the second question that may arise here is that according to this verse, the disbelievers and the hypocrites were expected to propose things counter to the true Islamic position. To the extent of open disbelievers, such proposals coming from them were not improbable, and warning against yielding to them is understandable. But, if the hypocrites said anything counter to Islam, they would no longer remain hypocrites, because in that case they would become open disbelievers. What, then, was the need to mention them separately? The answer is that it is possible that although the hypocrites may not have said anything against Islam very openly, but that they may have said something in support of other disbelievers. And if the event featuring the hypocrites, described under the background of revelation, is taken to be the cause of revelation, it simply leaves no difficulty or vagueness behind - because, in terms of this event, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has simply been prohibited from dealing with Jews calling themselves Muslims in a spirit of extra civility and accommodation. Later, towards the end of this verse, by saying: اِن اللہَ عَلِیماً حَکِیمَاً (Surely, Allah is All- Knowing, Wise - 1), stated there is the wisdom of the order given immediately earlier - that is, &fear Allah and do not obey the disbelievers and hypocrites.& The reason is that Allah Ta’ ala, who knows the consequences of everything, is most wise, and fully aware of what is better for His servants. This was said to counter some of the things put forth by the disbelievers or hypocrites which could generate for them certain advantages of lesser tension and increased mutual tolerance. But, from this Allah Ta’ ala prohibited him by declaring that even this tolerance of such people was counter to what was expedient under the circumstances and that such a policy was not going to end well.  Show more

خلاصہ تفسیر اے نبی اللہ سے ڈرتے رہئے (اور کسی سے نہ ڈریئے اور ان کی دھمکیوں کی ذرا پروا نہ کیجئے) اور کافروں کا (جو کھلم کھلا دین کے خلاف مشورے دیتے ہیں) اور منافقوں کا (جو درپردہ ان کے ساتھ متفق ہیں) کہنا نہ مانئے (بلکہ اللہ ہی کا کہنا کیجئے) بیشک اللہ تعالیٰ بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہے (اس کا ... ہر حکم فوائد اور مصالح پر مشتمل ہوتا ہے) اور (اللہ کا کہنا ماننا یہ ہے کہ) آپ کے پروردگار کی طرف سے جو حکم آپ پر وحی کیا جاتا ہے اس پر چلئے (اور اے لوگو) بیشک تم لوگوں کے سب اعمال کی اللہ تعالیٰ پوری خبر رکھتا ہے (تم میں سے جو ہمارے پیغمبر کی مخالفت اور مزاحمت کر رہے ہیں ہم سب کو سمجھیں گے) اور (اے نبی) آپ (ان لوگوں کی دھمکیوں کے معاملہ میں) اللہ پر بھروسہ رکھئے اور اللہ کافی کارساز ہے (اس کے مقابلہ میں ان لوگوں کی کوئی تدبیر نہیں چل سکتی، اس لئے کچھ فکر نہ کیجئے، البتہ اگر اللہ تعالیٰ کی حکمت کسی ابتلاء کو مقتضی ہو اور اس کی وجہ سے کوئی عارضی تکلیف پہنچ جائے تو وہ ضرر نہیں بلکہ عین منفعت ہے۔ معارف ومسائل یہ مدنی سورة ہے اس کے بیشتر مضامین رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبوبیت اور خصوصیت عند اللہ پر مشتمل ہیں، جس میں آپ کی تعظیم کا واجب ہونا اور آپ کی ایذا رسانی کا حرام ہونا مختلف عنوانات سے بیان ہوا ہے اور باقی مضامین سورة بھی انہی کی تکمیل و اتمام سے مناسبت رکھتے ہیں۔ شان نزول : اس سورة کے سبب نزول میں چند روایات منقول ہیں۔ ایک یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ہجرت کر کے مدینہ طیبہ میں تشریف فرما ہوئے، تو مدینہ کے آس پاس یہود کے قبائل بنو قریظہ، بنو نضیر، بنو قینقاع وغیرہ آباد تھے۔ رحمة العالمین کی خواہش اور کوشش یہ تھی کہ کسی طرح یہ لوگ مسلمان ہوجائیں۔ اتفاقاً ان یہودیوں میں سے چند آدمی آپ کی خدمت میں آنے لگے اور منافقانہ طور پر اپنے آپ کو مسلمان کہنے لگے، دلوں میں ایمان نہیں تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو غنیمت سمجھا، کہ کچھ لوگ مسلمان ہوجائیں تو دوسروں کو دعوت دینا آسان ہوجائے گا۔ اس لئے آپ ان لوگوں کے ساتھ خاص مدارات کا معاملہ فرماتے اور ان کے چھوٹے بڑے آنے والوں کا احترام کرتے تھے اور کوئی بری بات بھی ان سے صادر ہوتی تو دینی مصلحت سمجھ کر اس سے چشم پوشی فرماتے تھے۔ اس واقعہ پر سورة احزاب کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ (قرطبی) ایک دوسرا واقعہ ابن جریر نے حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ہجرت کے بعد کفار مکہ میں سے ولید بن مغیرہ اور شیبہ ابن ربیعہ مدینہ طیبہ آئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ پیش کش کی کہ ہم سب قریش مکہ کے آدھے اموال آپ کو دے دیں گے اگر آپ اپنے دعوے کو چھوڑ دیں۔ اور مدینہ طیبہ کے منافقین اور یہود نے آپ کو یہ دھمکی دی کہ اگر آپ نے اپنا دعویٰ اور دعوت سے رجوع نہ کیا تو ہم آپ کو قتل کردیں گے۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ (روح) تیسرا ایک واقعہ ثعلبی اور واحدی نے بغیر سند یہ نقل کیا ہے کہ ابو سفیان اور عکرمہ ابن ابی جہل اور ابو الاعو رسلمی اس زمانے میں جب واقعہ حدیبیہ میں کفار مکہ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مابین ترک جنگ پر معاہدہ ہوگیا تھا تو یہ لوگ مدینہ طیبہ آئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ آپ ہمارے معبودوں کا برائی سے ذکر کرنا چھوڑ دیں، صرف اتنا کہہ دیں کہ یہ بھی شفاعت کریں گے اور نفع پہنچائیں گے۔ آپ اتنا کرلیں تو ہم آپ کو اور آپ کے رب کو چھوڑ دیں گے، جھگڑا ختم ہوجائے گا۔ ان کی بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سب مسلمانوں کو سخت ناگوار ہوئی، مسلمانوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں ان سے معاہدہ صلح کرچکا ہوں اس لئے ایسا نہیں ہوسکتا۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں (روح) یہ روایات اگرچہ مختلف ہیں مگر درحقیقت ان میں کوئی تضاد نہیں، یہ واقعات بھی آیات مذکورہ کے نزول کا سبب ہو سکتے ہیں۔ ان آیتوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو حکم دئے گئے : پہلا اتق اللہ یعنی اللہ سے ڈرو، دوسرا لاتطع الکفرین، یعنی کافروں کا کہنا نہ مانو۔ اللہ سے ڈرنے کا حکم اس لئے دیا گیا کہ ان لوگوں کو قتل کرنا عہد شکنی ہے جو حرام ہے۔ اور کفار کی بات نہ ماننے کا حکم اس لئے کہ ان تمام واقعات میں کفار کی جو فرمائشیں ہیں وہ ماننے کے قابل نہیں۔ اس کی تفصیل آگے آتی ہے۔ (آیت) یایھا النبی اتق اللہ، یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاص اعزازو اکرام ہے کہ پورے قرآن میں کہیں آپ کو نام لے کر مخاطب نہیں کیا گیا، جیسا کہ دوسرے انبیاء کے خطابات میں یا آدم، یا لوح، یا ابراہیم، یا موسیٰ وغیرہ بار بار آیا ہے، بلکہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پورے قرآن میں جہاں خطاب کیا گیا وہ کسی لقب نبی یا رسول وغیرہ سے خطاب کیا گیا۔ صرف چار مواقع جن میں یہی بتلانا منظور تھا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، ان میں آپ کا نام ذکر کیا گیا ہے جو ضروری تھا۔ اس خطاب میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو حکم دیئے گئے۔ ایک خدا تعالیٰ سے ڈرنے کا، کہ مشرکین سے جو معاہدہ ہوچکا ہے اس کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے، دوسرے مشرکین اور منافقین و یہود کی بات نہ ماننے کا۔ یہاں جو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ہر گناہ سے معصوم ہیں، عہد شکنی بھی گناہ کبیرہ ہے، اور کفار و مشرکین کی وہ باتیں جو شان نزول میں اوپر بیان کی گئیں، ان کا ماننا بھی گناہ عظیم ہے تو آپ خود ہی اس سے محفوظ تھے۔ پھر اس حکم کی ضرورت کیا پیش آئی ؟ روح المعانی میں ہے کہ مراد ان احکام سے آئندہ بھی ان پر قائم رہنے کی ہدایت ہے جیسا کہ اس واقعہ میں آپ ان پر قائم رہے اور اتق اللہ کے حکم کو اس لئے مقدم کیا کہ مسلمانوں نے ان مشرکین مکہ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا جن سے معاہدہ صلح ہوچکا تھا۔ اس لئے عہد شکنی سے بچنے کی ہدایت لفظ اتق اللہ کے ذریعہ مقدم کی گئی۔ بخلاف اطاعت کفار و مشرکین کے کہ اس کا کسی نے ارادہ بھی نہ کیا تھا اس لئے اس کو موخر کیا گیا۔ اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت میں اگرچہ خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے مگر مراد امت کو سنانا ہے۔ آپ تو معصوم تھے، احکام آلہیہ کی خلاف ورزی کا آپ سے کوئی احتمال نہ تھا۔ مگر قانون پوری امت کے لئے ہے، ان کو سنانے کا عنوان یہ اختیار کیا گیا کہ خطاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا جس سے حکم کی اہمیت بڑھ گئی، کہ جب اللہ کے رسول بھی اس کے مخاطب ہیں تو امت کا کوئی فرد اس سے کیسے مستثنیٰ ہوسکتا ہے۔ اور ابن کثیر نے فرمایا کہ اس آیت میں کفار و مشرکین کی اطاعت سے منع کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ آپ ان سے مشورے نہ کریں، ان کو زیادہ مجالست کا موقع نہ دیں۔ کیونکہ ایسے مشورے اور باہمی روابط بسا اوقات اس کا سبب بن جایا کرتے ہیں کہ ان کی بات مان لی جائے تو اگرچہ ان کی بات مان لینے کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی احتمال نہ تھا مگر ان کے ساتھ ایسے روابط رکھنے اور ان کو اپنے مشوروں میں شریک کرنے سے بھی آپ کو روک دیا گیا، اور اس کو اطاعت کے لفظ سے اس لئے تعبیر کردیا کہ ایسے مشورے اور باہمی روابط عادتاً ماننے کا سبب بن جایا کرتے ہیں۔ تو یہاں درحقیقت آپ کو اسباب اطاعت سے منع کیا گیا ہے، نفس اطاعت کا تو آپ سے احتمال ہی نہ تھا۔ رہا یہ سوال کہ آیت مذکورہ میں کافروں کی طرف سے خلاف شرع اور خلاف حق باتوں کا اظہار تو کوئی بعید نہیں، ان کی اطاعت سے منع کرنا بھی ظاہر ہے۔ مگر منافقین نے اگر اسلام کے خلاف کوئی بات آپ سے کہی تو پھر وہ منافقین نہ رہے، کھلے کافر ہوگئے، ان کو الگ ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہوتی ؟ جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ منافقین نے بالکل کھول کر تو کوئی بات خلاف اسلام نہ کہی ہو مگر دوسرے کفار کی تائید اور حمایت میں کوئی کلمہ کہا ہو۔ اور منافقین کا جو واقعہ شان نزول میں اوپر بیان ہوا ہے، اگر اس کو سبب نزول قرار دیا جائے تو اس میں اشکال ہی نہیں۔ کیونکہ اس واقعہ کے اعتبار سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے روکا گیا ہے کہ ان اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے یہود سے آپ زیادہ مدارات کا معاملہ نہ کریں۔ اس آیت کے آخر میں (آیت) ان اللہ کان علیماً حکیماً ، فرما کر اس حکم کی حکمت بیان کردی گئی۔ جو اوپر دیا گیا ہے کہ اللہ سے ڈریں، اور کفار و منافقین کا کہنا نہ مانیں۔ کیونکہ عواقب امور اور نتائج کا جاننے والا اللہ تعالیٰ بڑا حکیم ہے، وہی مصالح عباد کو جانتا ہے، یہ اس لئے فرمایا کہ کفار یا منافقین کی بعض باتیں ایسی بھی تھیں جن سے شر و فساد کم ہونے اور باہمی رواداری کی فضا قائم ہونے وغیرہ کے فوائد حاصل ہو سکتے تھے۔ مگر حق تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا کہ ان لوگوں کے ساتھ یہ رواداری بھی مصلحت کے خلاف ہے، اس کا انجام اچھا نہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 17 سورة الاحزاب بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝ يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللہَ وَلَا تُطِـــعِ الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَلِــيْمًا حَكِــيْمًا۝ ١ۙ نبی النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْل... ِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک . ( ن ب و ) النبی بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» . قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ نِّفَاقُ ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة/ 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] ونَيْفَقُ السَّرَاوِيلِ معروفٌ نا فقاء الیربوع ہے یعنی جنگلی چوہے کا بل جس کے دود ھا نے ہوں نافق الیر بوع ونفق جنگی چوہیا اپنے مل کے دہانے سے داخل ہو کر دوسرے سے نکل گئی اور اسی سے نفاق ہے جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَالنَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ نیفق السراویل پا جامے کا نیفہ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان : أحدهما : إدراک ذات الشیء . والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له، أو نفي شيء هو منفيّ عنه . فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو : لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] . والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله : فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله : لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت . والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ. فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم . والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات . ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ، وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، ( ع ل م ) العلم کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔ ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے نبی کریم وقت سے پہلے وعدہ خلافی میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیے اور مکہ والوں میں سے ابو سفیان بن حرب اور عکرمہ بن ابی جہل اور ابو الاعور اسلمی کا اور مدینہ کے منافقوں میں سے عبداللہ بن ابی بن سلول اور معتب بن قشیر اور جعر بن قیس کی ان باتوں میں جس کے کرنے کے لیے یہ آپ سے کہہ رہے ہیں اتباع نہ کیجیے۔...  شان نزول : يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَلَا تُطِـعِ الْكٰفِرِيْنَ (الخ) جبیر نے بواسطہ ضحاک حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ مکہ والوں میں سے ولید بن مغیرہ اور شیبہ بن ربیعہ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس چیز پر زور دیا کہ اپنی بات سے رجوع کرلیں تو ہم آپ کو آدھے اموال دیں گے اور مدینہ منورہ میں منافقین اور یہودیوں نے آپ کو اپنے طریقہ سے رجوع نہ کرنے پر قتل کرنے کی دھمکی دی تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اے نبی اللہ سے ڈرتے رہیے اور کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ مانیے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١ { یٰٓــاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰہَ وَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) اللہ کا تقویٰ اختیار کیجیے اور کافرین و منافقین کی باتیں نہ مانیے۔ “ جس طرح لفظ امر میں ” حکم “ کے ساتھ ساتھ ” مشورہ “ کے معنی بھی پائے جاتے ہیں ‘ اسی طرح ” اطاعت ... “ کے معنی حکم ماننے کے بھی ہیں اور کسی کی بات پر توجہ اور دھیان دینے کے بھی۔ چناچہ یہاں وَلَا تُطِع کے الفاظ میں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کی باتوں پر دھیان مت دیں۔ { اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا } ” یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا ‘ کمال حکمت والا ہے۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 As we have mentioned in the introduction to the Surah, these verses were sent down at a time when Hadrat Zaid had already divorced Hadrat Zainab. , Then the Holy Prophet himself was feeling, and Allah also had inspired him with this, that that was the right time for striking at the root of the tradition and customs of ignorance regarding the adopted relations, and that he should take the initiat... ive and marry the divorced wife of his adopted son (Zaid) so that the custom was completely eradicated. But the reason why he was hesitant in this regard was the fear that this would provide a strong excuse to the disbelievers and the hypocrites; who were already burning with jealousy at his successive victories, to start a propaganda campaign against him. This fear was not due to any apprehension for personal defamation, but for the reason that it would harm Islam; it would cause mistrust of Islam among the people who were inclined towards it; it would make the neutral people to join the enemy; and it would cause the weak-minded people among the Muslims themselves to be involved in doubts and suspicions. Therefore, the Holy Prophet thought it was unwise to take a step for the eradication of a custom of ignorance, which would harm the greater interests and objectives of Islam. 2 In the first very sentence, in the beginning of the discourse, AIlah removed all the apprehensions of the Holy Prophet, as if to say: "We know better what is useful and beneficial for ow Religion and what is not. We know what would be wise and what unwise in this regard. Therefore, you should not behave in a manner which would suit the disbelievers and the hypocrites, but you should behave in a manner which is according to Our W ill. You should fear Us and not the disbelievers and the hypocrites."  Show more

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :1 جیسا کہ ہم اس سورہ کے دیباچے میں بیان کر چکے ہیں ، یہ آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں جب حضرت زید رضی اللہ عنہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دے چکے تھے ۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی یہ محسوس فرماتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی یہی تھا کہ منہ بولے رشتوں کے...  معاملہ میں جاہلیت کے رسوم و اوہام پر ضرب لگانے کا یہ ٹھیک موقع ہے ، اب آپ خود آگے بڑھ کر اپنے منہ بولے بیٹے ( زید رضی اللہ عنہ ) کی مطلقہ سے نکاح کر لینا چاہیے تاکہ یہ رسم قطعی طور پر ٹوٹ جائے ۔ لیکن جس وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملہ میں قدم اٹھاتے ہوئے جھجک رہے تھے وہ یہ خوف تھا کہ اس سے کفار و منافقین کو ، جو پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پے در پے کامیابیوں سے جلے بیٹھے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف پروپیگینڈا کرنے کے لیے زبردست ہتھیار مل جائے گا ۔ یہ خوف کچھ اپنی بدنامی کے اندیشے سے نہ تھا کہ اس سے اسلام کو زک پہنچے گی ، دشمنوں کے پروپیگینڈے سے متاثر ہو کر بہت سے لوگ جو اسلام کی طرف میلان رکھتے ہیں بدگمان ہو جائیں گے ، بہت سے غیر جانبدار لوگ دشمنوں میں شامل ہو جائیں گے ، اور خود مسلمانوں میں سے کمزور عقل و ذہن کے لوگ شکوک و شبہات میں پڑجائیں گے ۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ خیال کرتے تھے کہ جاہلیت کی ایک رسم کو توڑنے کی خاطر ایسا قدم اٹھانا خلاف مصلحت ہے جس سے اسلام کے عظیم تر مقاصد کو نقصان پہنچ جائے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :2 تقریر کا آغاز کرتے ہوئے پہلے ہی فقرے میں اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اندیشوں کو رفع فرما دیا ۔ ارشاد کا منشا یہ ہے کہ ہمارے دین کی مصلحت کس چیز میں ہے اور کس چیز میں نہیں ہے ، اس کو ہم زیادہ جانتے ہیں ۔ ہم کو معلوم ہے کہ کس وقت کیا کام کرنا چاہیے اور کونسا کام خلاف مصلحت ہے ۔ لہٰذا تم وہ طرز عمل اختیار نہ کرو جو کفار و منافقین کی مرضی کے مطابق ہو ۔ ڈرنے کے لائق ہم ہیں نہ کہ کفار و منافقین ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: بعض اوقات کچھ کافر لوگ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مختلف قسم کی تجویزیں پیش کرتے تھے کہ اگر آپ ہماری فلاں بات مان لیں تو ہم آپ کی بات مان لیں گے، بعض منافقین بھی ان کی تائید کرتے کہ یہ اچھی تجویز ہے، اور اس پر عمل کرنے سے بڑی تعداد میں لوگوں کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے، حالانکہ وہ تجویز ای... مان کے تقاضوں کے خلاف ہوتی تھی، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطمینان دلایا ہے کہ ایسی تجویزوں پر کان دھرنے کے بجائے اپنے کام میں لگے رہئے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھئے، وہ خود ہی سارے معاملات ٹھیک کردے گا۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١ تا ٣۔ ان آیتوں میں اللہ کے رسول اور امت کے لوگوں کو تقویٰ کا کافروں اور رمنا فقوں کے مشورہ کے نہ ماننے کا اور ہر کام میں اللہ پر بھروسہ کرنے کا حکم ہے تقویٰ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈر کر آدمی نافرمانی کو چھوڑدے اور ثواب کی امید پر اس کی عبادت کرے پھر فرمایا اللہ ہی اس کا مستحق ہے کہ اس کے...  حکموں کو مانو اور اس کی تابعداری کرو اور ہر کام میں اللہ ہی پر بھروسہ کرو کہ وہی بندوں کے سب کام بنانے والا انجام کار سے خبردار صاحب حکمت ہے ‘ مشرکین مکہ ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد مدینہ کے منافق جو بات کہتے تھے وہ اسلام کے برخلاف ہوتی تھی مثلا سورة الانعام میں گزر چکا ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کی اور مدینہ کے منافقوں کی بات نہ ماننے کی جو نصیحت فرمائی ہے اس کی تفسیر ان قصص سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے اللہ پر بھروسہ رکھنے کی نصیحت جو ان آیتوں میں ہے اس پر عمل کرنے والے مسلمانوں کا دنیوں نتیجہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے عباس یہ تک کی خلافت ہے اور ایسے لوگوں کا آخرت کا نتیجہ صحیح بخاری کی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت ١ ؎ میں ہے (١ ؎ مشکوۃ باب التوکل والصبر فصل اول) کہ اس طرح کے ستر ہزار آدمیوں کی جماعت قیامت کے دن بغیر حساب و کتاب کے جنت میں جاویں گے۔ “  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 اس آیت میں اعلیٰ سے ادنیٰ پر تنبیہ فرمائی ہے یعنی جب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ سے ڈرتے رہنے اور کافروں اور منافقوں کی بات ماننے کی تاکید کی ہے تو دوسرے لوگوں کو بطریق اولیٰ یہ حکم ہے۔ ( ابن کثیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں ” کافر چاہتے اپنی طرف نرم کرنا اور منافق چاہتے تھے اپنی چال س... کھانی اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ پر بھروسہ ہے اس سے دانا کون ہے “ ؟ ( موضح)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة الاحزاب آیات 1 تا 8 اسرارو معارف کفار و مشرکین عرب نے انتہائی دباؤ ڈالا اور مختلف طرح سے پیشکش بھی کی کہ کم از کم مسلمانوں کو بقا کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر اپنے رب کی عظمت بیان کرتے ہیں تو ہمارے بتوں کو یا جن کو ہم معبود مانتے ہیں ان کو باطل کہنا تو چھوڑ دیں ورنہ ہم کوئی مسلمان ... زندہ نہ چھوڑیں گے۔ اسی طرح کا دباؤ مدینہ منورہ کے یہودیوں کی طرف سے بھی تھا اور مشرکین عرب بھی تمام قبائل کو جمع کر کے دس ہزار کا لشکر جرار لے آئے تو ارشاد ہوا اے میرے نبی اللہ کا تقوی اختیار کیے رکھیے اور کفار و منافقین کی کوئی بات قبول مت کیجیے یعنی ہر حال اللہ کی اطاعت پہ ثابت قدم رہیے اور اسلام پر یا احکام پر سمجھوتہ ممکن نہیں ۔ مسلمان آج کے دور میں : اور آج کے دور کی سب سے بڑی مصیبت ہی یہ ہے کہ آج کا مسلمان اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کفار کی بات مانتا ہے قانون کافرانہ معیشت سودی اور حکومت بنانے کا طریقہ کافرانہ اور غیر اسلامی اور ساتھ دعوی اسلام بھی ہے جبکہ اللہ کا حکم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب فرما کر ارشاد فرمایا گیا جس سے مراد یہ ہے کہ اس حکم سے سرتابی کی کوئی گنجائش نہیں مسلمان کو چاہیے سیدھی سیدھی اسلام کی راہ اپنائے اور اپنی امیدیں کفار سے نہ جوڑے بلکہ اللہ پر بھروسہ کرے جو ہر بات سے اور ہر حال سے ہر آن واقف اور باخبر ہے یہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ کفار کو بھی چند روز کی مہلت مل رہی ہے مگر اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ یہ اللہ کی گرفت سے بچ جائیں گے اور آپ ان احکام پر پوری طرح عمل کیجیے جن کی آپ کو وحی کی جاتی ہے کہ اللہ آپ لوگوں کے بھی ہر کام کا علم رکھتا ہے جو آپ انجام دیتے ہیں اور اسباب ظاہری کے سامنے نہ ہونے سے ہرگز مایوس نہ ہوا جائے بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھیں جب مسلمان اس کی اطاعت پر قائم رہنے کے لیے کفار کی اطاعت سے انکار کر کے انہیں للکارتے ہیں تو وہ ہر طرح سے مدد کرنے پہ قادر ہے اور اس کی شان ایسی ہے کہ اس پر بھروسہ کیا جائے اللہ نے کسی انسان کے سینے میں دو دل نہیں رکھے کہ وہ کفار سے دوستی کر کے ان سے امیدیں وابستہ رکھے اور ان کی اطاعت کرے اور اللہ پر ایمان اور اللہ سے محبت کا مدعی بھی ہو بلکہ ہر سینے میں ایک ہی دل ہے جس میں اللہ پر بھروسہ اور اللہ کی محبت ہوگی یا پھر کفر چھا رہا ہوگا۔ بیوی سے ظہار اور متبنی : آگے جاہلیت کی دو رسوم کی اصلاح مطلوب ہے جس میں بیوی سے ظہار اور متبنی بنانے کی بات ہے جن خواتین سے تم ظہار کرتے ہو یعنی یہ کہ دیا جاتا ہے کہ تو میری ماں جیسی ہے یا میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے اور اسے حرام سمجھا جاتا ہے فرمایا یہ درست نہیں تمہاری ماں صرف وہی ہے جس نے تم کو جنا اور ظہار کرنا اور بیوی کو ماں یا بہن کہنا گناہ ہے اس کا کفارہ ہے مگر بیوی مطلق حرام نہیں ہوگی کفارہ ادا کر کے حلال ہوجاتی ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے اور دوسرا رواج تھا کہ جس کسی کو منہ بولا بیٹا بنا لیتے اس پر تمام احکام وہی لاگو کرتے جو حقیقی بیٹے پر ہوتے ہیں کہ بیٹا ہی کہا بھی جاتا ہے اسی طرح اسے میراث ملتی اور جو رشتے حقیقی بیٹا ہونے کی وجہ سے قابل حرمت ہوتے ہیں ویسے ہی سمجھے جاتے چناچہ ارشاد فرمایا کہ تمہارے لے پالک بیٹے کبھی بیٹے نہیں بن جاتے نہ ان پر وہ احکام لاگو ہوتے ہیں جو حقیقی بیٹے پہ ہوتے ہیں یہ محض ایک بات ہے جو لوگ کہ دیتے ہیں اور کسی کے کہ دینے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوجاتی ۔ لے پالک کو اس کے حقیقی باپ کا بیٹا ہی کہنا چاہئیے : اللہ حق بات ارشاد فرماتے ہیں اور صحیح راستے کی طرف رہنمائی فرماتے ہیں لہذا لے پالک بیٹوں کو ان کے حقیقی باپوں کے نام سے پکارو کہ اللہ کے نذدیک یہی صحیح طریقہ ہے اور انصاف کی بات ہے لہذا یہ متبنی بنا کر اسے بیٹا کہنا اور اصلی والد سے بیخبر رکھنا درست نہیں اگر کسی نے لے پالک پال کر دل کو دھوکہ دینا ہی چاہتا ہو تو اسے اس کے باپ کی اولاد کے نام سے پکارا جائے اور اس کی ولدیت نامعلوم ہو تو وہ یا تو تمہارا دینی بھائی ہے یا پھر غلام اور نوکر ہے اس کی اس حیثیت اور حقوق کا لحاظ رکھا جائے اس حکم کے نزول سے قبل جو خطا ہوچکی اس پر گرفت نہ ہوگی لیکن اس کے بعد اگر کسی نے اپنے دل کی خواہش پوری کرنے کو ارادۃ ایسا کیا تو سخت گناہ ہے جس سے توبہ کی جائے اور اسے چھوڑ دیا جائے تو اللہ بہت بڑی بخشش کا مالک اور رحم کرنے والا ہے۔ اس میں آج کے لوگوں کو بہت غور کرنے کی ضرورت ہے جو اگر اولاد نہ ہو تو بچے گود لے لیتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ایمان والوں سے ان کی اپنی جان سے زیادہ عزیز تر اور قریبی تعلق رکھتے ہیں کہ جان سے تو محض دنیا کی حیات حاصل ہوتی ہے اگر خیر ہے تو شر بھی ہے مگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو کچھ ملا وہ خیر ہی خیر ہے اور دائمی ابدی دونوں جہانوں کے لیے ہے اسی طرح نبی (علیہ السلام) کی بیویاں سب مومنوں کی مائیں ہیں مگر وراثت کے احکام اس پر مرتب نہ ہوں گے چہ جائیکہ زبانی بیٹا کہنے پر ہوں بلکہ نسبی رشتوں اور قرابت پہ ہوں گے۔ ایذاء رسول کفر ہے : نبی (علیہ الصلوۃ والسلام) سے ہر طرح خیر ہی حاصل ہوتی ہے لہذا آپ کی اطاعت اپنی پسند پر مقدم ہوگی اور آپ کی بیویوں کی شان میں گستاخی حرام بھی ہے اور ایذاء رسول بن کر کفر ہے۔ لیکن اس پر میراث تقسیم ہوگی نہ نکاح وغیرہ کے احکام لاگو ہوں گے اسی لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں سے نکاح کی حرمت کا الگ حکم دیا گیا ہے اس آیت پر اس کا مدار نہیں ہے اسی طرح مہاجرین و انصار میں جو بھائے چارہ قائم کیا گیا تھا وراثت میں اس سے قرابت داری مقدم ہے ہاں اگر کوئی ازراہ محبت اپنی طرف سے مسلمان بھائی کو کچھ دینا چاہے تو وہ ولگ بات ہے مگر نسبی رشتے کے علاوہ وراثت نہ ہوگی کہ یہ قوانین و احکام کتاب اللہ میں لکھے ہوئے ہیں۔ یعنی طے فرما دیے گئے۔ انبیاء سے عہد : بلکہ یاد کیجیے جب ازل ہی کو احکام الہی کی اطاعت کا وعدہ آپ سے لیا گیا اور آپ کی نبوت اور ختم نبوت کا اقرار نوح ، ابراہیم موسیٰ اور عیسیٰ علیہم الصلوۃ والسلام سے لیا گیا اور سب سے خوب پختہ عہد لیا گیا جس میں کسی ترمیم کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ مرسل اور اولوالعزم : یہاں اولوالعزم رسولوں کا ذکر کیا گیا جو سلسلہ نبوت میں سنگ میل تھے ان اسماء گرامی میں آدم (علیہ السلام) بھی شامل ہیں کہ تین سو تیرہ رسول و مرسل اور پانچ اولوالعزم اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سب کے امام ہیں کہ صاحب وحی پر وحی کا اتباع اور مومن پر اپنے نبی کا اتباع واجب ہے اور اسی کی پرسش ہوگی اور کفار کے لیے بہت دردناک عذاب تیار کیا گیا ہے جو انہیں پیش آئے گا۔ ایک حد تک دنیا میں بھی اور پورے کا پورا آخرت میں۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر ( ا تا 3) ۔ اتق (توڈر۔ تقویٰ اختیار کر) ۔ لا تطع (پیچھے نہ چل۔ اطاعت نہ کر) ۔ اتبع (تو پیروی کر۔ کہنا مان) ۔ یو حی (وحی کی گئی) ۔ توکل (بھروسہ کر۔ توکل کر) ۔ وکیل (کام بنانے والا) ۔ تشریح : آیت نمبر (1 تا 3) ۔ ” حضرت آدم (علیہ السلام) سے نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ ع... لیہ وآلہ وسلم) تک جتنے بھی نبی اور رسول آئے ہیں وہ سب کے سب معصوم ہیں۔ وہ اللہ کی نگرانی میں ہوتے ہیں نہ تو وہ گناہ کرتے ہیں نہ ان سے گناہ کا ارتکاب ممکن ہے بلکہ ان کی طرف گناہ کی نسبت کرنا بھی گناہ ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوری زندگی اور اس کا ایک ایک لمحہ گواہ ہے کہ آپ نے تقویٰ اور خوف الہی کے ساتھ زندگی گذاری ہے۔ لیکن پھر بھی ارشاد فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ صرف اللہ سے ڈرئیے اور کفار و مشرکین کی کوئی بات نہ مانئے جو کچھ اللہ کے احکامات آپ پر وحی کئے جا رہے ہیں ان کی اتباع کیجئے۔ اسی ایک اللہ کی ذات پر بھروسہ کیجئے جو ہر طرح با خبر ہے اور سب کا مشکل کشا ہے۔ اس حکم کا ظاہری مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطے سے قیامت تک آنے والی امت کے ہر فرد کو بتایا جا رہا ہے کہ (1) اللہ کے سوانہ کسی سے ڈرا جائے نہ دبا جائے کیونکہ ایک اللہ سے ڈرنا ہی انسانی زندگی کی کامیاب بنیاد ہے۔ (2) دوسری بات یہ فرمائی کہ کافروں اور منافقوں کی کسی بات کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ ہر کام میں ان کی بد نیتی اور سازش شامل ہوتی ہے لہٰذا ان کی ہر حرکت سے ہوشیار رہ کر ان کی کسی بات کی اتباع اور پیروی نہ کی جائے۔ نہ ان کے مشوروں پر عمل کیا جائے ۔ نہ مشوروں میں شامل کیا جائے۔ (3) تیسری بات یہ فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ جتنے احکامات عطا فرمائے ہیں ان کی ہر حال میں پیروی کی جائے تاکہ ہر ایک کی دنیا اور آخرت سدھر سکے۔ (4) چوتھی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ ہر ایک کو اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ، اعتماد اور توکل کرنا چاہیے کیونکہ صرف ایک اللہ کی ذات ہی قابل اعتماد ہے۔ (5) پانچویں بات یہ فرمائی کہ انسان کے بگڑے ہوئے کاموں کو بنانے والا مشکل کشا صرف اللہ ہے اللہ کے سوا کوئی مشکل کشا نہیں ہے۔ ان باتوں سے اس بات کا اندازہ لاگانا مشکل نہیں ہے کہ کفار، مشرکین اور منافقین سے رواداری تو برتی جائے لیکن ان کو اپنے کاموں اور مشوروں میں شریک نہ کیا جائے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے وہ شرارت سے کوئی ایسی تجویز پیش کردیں جس سے مسلمانوں کی زندگی تباہی کے کنارے تک پہنچ جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے جب بھی کفارو مشرکین کو اپنا مخلص سمجھ کر ان کو اپنے معاملات میں شریک کیا ہے انہوں نے غلط مشورے دے کر ملت کا شیرازہ بکھیر نے میں کسر نہیں چھوڑی ہے۔ یہ کفار و مشرکین اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے خیر خواہ بن کر آتے ہیں۔ جس طرح شیطان ایک مخلص دوست کی شکل میں آیا اور اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) و حوا (علیہ السلام) کو غلط مشورہ دے کر جنت سے نکلوادیا تھا۔ تاریخ کے صفحات پر موجود ہے کہ سلطنت عثمانیہ جو ایک عظیم سپر پاور تھی۔ اس سلطنت کو تباہ کرنے کے لئے کفارو منافقین نے انسانیت، محبت اور خلوص کا بھیس بدل کر پوری سلطنت کو غلط راستے پر لگا دیا تھا۔ لارنس آف عربیہ نے تو بائیس سال تک مسلمانوں کے بھیس میں سلطنت عثمانیہ کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر کے رکھ دیا تھا۔ لہذا کفار و منافقین کو اہم اور بنیادی مشوروں میں قریب نہ آنے دیا جائے نہ ان کی کسی بات کو تسلیم کیا جائے۔ یہی خیر اور سلامتی کا راستہ ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

10۔ مضامین سورت میں مابہ الاشتراک دلالت ہے جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی منصوریت و محبوبیت و خصوصیت و اکرمیت عنداللہ لوجوہ مختلفہ اور آپ کے وجوب تعظیم بطرق مکتثرہ و حرمت ایذاء بانواع متشتتہ علی الناس پر باقی مضامین یا اس کے مقدمات ہیں یا متممات۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن سورۃ السجدۃ کا اختتام اس فرمان پر ہوا کہ ہٹ دھرم لوگوں سے اعراض کرنا چاہیے الاحزاب کا آغاز اس بات سے کیا کہ ہٹ دھرم اور جاہلوں سے صرف اعراض ہی نہیں کرنا بلکہ ان کی مخالفت کو بھی خاطر میں نہیں لانا۔ لہٰذاے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو ہر حال میں وحی الٰہی کی اتباع کرنا ہے۔ مکہ معظم... ہ میں آپ کے مخالف مشرکین تھے۔ مدینہ تشریف آوری کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا واسطہ، یہود اور منافقوں سے پڑا۔ جو صبح و شام آپ کے خلاف سازشیں کرتے اور نئے سے نیا الزام لگاتے اور اسے پھیلاتے رہتے تھے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی پھوپھی زاد بہن سیدہ زینب (رض) کا نکاح اپنے متبنّٰی بیٹے زید (رض) بن حارثہ کے ساتھ کیا تاکہ مسلم معاشرے میں طبقاتی اونچ نیچ ختم کی جاسکے۔ سیدہ زینب (رض) ذہنی طور پر حضرت زید (رض) کے ساتھ نکاح کرنے کے حق میں نہ تھیں۔ مگر اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم سمجھ کر آمادہ ہوگئیں۔ لیکن معاشرتی امتیاز اور طبیعتیں نہ ملنے کی وجہ سے نباہ مشکل ہوا۔ حضرت زید (رض) گاہے گاہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گھر یلو حالات عرض کرتے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیار اور محبت سے سمجھاتے کہ جس طرح بھی ممکن ہوسکتا ہے نباہ کرنا چاہیے۔ اس کوشش کے باوجود رشتہ ٹوٹ جاتا ہے جونہی یہ رشتہ منقطع ہوا ” اللہ “ کا حکم ہوا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ زینب کو اپنے حرم میں شامل کرلیں تاکہ زینب کی دلجوئی کے ساتھ ایک اور رسم کا خاتمہ ہوسکے۔ اس زمانے میں لوگ متبنّٰی بیٹے کی بیوی کو حقیقی بہو کا درجہ دیتے تھے متبنّٰی کی مطلقہ کے ساتھ نکاح کرنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بڑی آزمائش اور مخالفوں کے لیے پراپیگنڈہ کا ایسا بہانہ تھا جس کا دفاع کرنا اس وقت کے حالات کے مطابق انہتائی مشکل تھا اس لیے اس سورة کی ابتداہی ان الفاظ سے ہوئی کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار اور مشرکین کے پیچھے لگنے کی بجائے آپ کو صرف ” اللہ تعالیٰ “ سے ڈرنا چاہیے اللہ تعالیٰ ہر قسم کے حالات کو اچھی طرح جانتا ہے اور اس کے ہر حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ اس لیے آپ کو اپنے رب کی وحی کی پیروی کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال اور معاملات سے اچھی طرح باخبر ہے اس پر بھروسہ کیجئے وہ ہر معاملے میں کافی ہے یعنی اسے معلوم ہے کہ میں نے اپنے بندے کا دفاع کس طرح کرنا ہے جب وہ کسی کی حفاظت اور دفاع کا فیصلہ کرتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا بال برابر بھی نقصان نہیں کرسکتی۔ ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ زید بن حارثہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سیدہ زینب (رض) کی شکایت لے کر آئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید کو فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو نہ چھوڑو۔ سیدہ عائشہ (رض) کہتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر کسی چیز کو چھپانے والے ہوتے تو آپ اس بات کو چھپاتے۔ راوی بیان کرتے ہیں سیدہ زینت (رض) اسی بنیاد پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دوسری ازواج مطہرات پر فخر کیا کرتی تھیں کہ تمہارے نکاح تمہارے اہل و عیال نے کیے لیکن۔ میرے نکاح کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر فرمایا ہے۔ “ [ رواہ البخاری : باب وکان عرشہ علی الماء ] مسائل ١۔ مسلمان کو صرف ایک ” اللہ “ سے ڈرنا اور اسی کے حکم کی اتباع کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال سے اچھی طرح باخبر ہے۔ ٣۔ اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے جو اس پر بھروسہ کرتا ہے ” اللہ “ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یایھا النبی اتق اللہ۔۔۔۔۔ وکفی باللہ وکیلا (1 – 3) یہ اس سورة کا آغار ہے جس میں اس نئے اسلامی معاشرے کی اخلاقی اور اجتماعی زندگی کی تنظیم نو کی گئی ہے۔ یہ آغاز ہی بتاتا ہے کہ اسلامی نظام زندگی کا مزاج کیا ہے اور وہ قواعد اور اصول کیا ہیں جن پر اسلامی نظام عملا قائم ہے۔ وہ تصورات کیا ہیں جن کی وجہ س... ے وہ مسلمانوں کے ضمیر و اخلاق پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسلام محض ہدایات اور وعظ نہیں ہے۔ نہ اسلام محض چند اخلاقی تعلیمات کا نام ہے ، نہ اسلام صرف قوانین کا مجوعہ ہے۔ نہ وہ محض رسم و رواج کا نام ہے۔ اسلام دراصل مذکورہ بالا تمام چیزوں کا مجموعہ ہے۔ لیکن یہ سب چیزیں بھی اسلام نہیں ہیں ۔ اسلام دراصل سرتسلیم خم کردینے کا نام ہے۔ اللہ کی مشیت اور اللہ کی خواہش کے سامنے سرتسلیم خم کردینا۔ اللہ کی تقدیر کے سامنے جھکنا اور سب سے اول بات یہ کہ اللہ کے احکام اوامرو نواہی کے ماننے کے لیے تیار ہوجانا۔ اللہ انسانوں کے لیے جو نظام تجویز کرتا ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرے ، بغیر ادھر ادھر توجہ کرنے کے ، اور اس کے سوا کسی اور طرف رخ کرنے کے۔ بغیر اس کے کہ اللہ کے سوا کسی اور قوت پر بھروسہ کیا جائے ۔ اسلام کا بنیادی شعور یہ ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ وہ ایک ایسے قانون قدرت کا تابع ہے جو خود انسان اور اس کے اردگرد پھیلی ہوئی پوری کائنات کو کنڑول کرتا ہے۔ یہ نظام افلاک و کواکب کو بھی کنڑول کرتا ہے اور تمام وجود کو بھی کنٹرول کرتا ہے خواہ خفیہ ہو یا ظاہر ہو۔ غائب ہو یا حاضر ہو۔ انسان اسے سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہو۔ اس یقین کے ساتھ کہ ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے صرف اللہ کے احکام کا اتباع کرنا ہے اور ان کاموں سے روکنا ہے جن سے رکنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ ان اسباب اور ذرائع کو استعمال کرنا ہے جو اللہ نے ان کیلئے فراہم کیے ہیں اور پھر ان نتائج کا انتظار کرنا ہے جو اللہ نے نکالنے ہیں۔ یہ وہ قاعدہ ہے جس کے اوپر تمام شریعتیں اور تمام قوانین قائم ہوتے ہیں ، رسم و رواج قائم ہوتے ہیں ، آداب و اخلاق قائم ہوتے ہیں یعنی وہ عقیدہ جو ضمیر و شعور میں ہوتا ہے وہ انسانی زندگی میں عملاً ظہور پذیر ہو اور انسان کی زندگی میں اس کے عملی آثار موجود ہوں کہ انسان کا نفس اللہ کے سامنے جھک گیا ہے اور وہ اسلامی نظام حیات کے مطابق زندگی بسر کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام سے شریعت پھوٹتی ہے۔ اس شریعت پر بھی ایک پورا نظام زندگی استوار ہوتا ہے اور یہ تینوں امور باہم مربوط اور ہم جسم ہوتے ہیں۔ یہ ہے اسلام۔ چناچہ اس سورة کا آغاز اس سے ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے کے لیے جدید قانون سازی کی جائے یعنی اللہ سے ڈرنا۔ خطاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے کیونکہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی اس جدید معاشرے کے منظم اعلیٰ تھے۔ یایھا النبی اتق اللہ (33: 1) ” اے نبی ، اللہ سے ڈرو “۔ اللہ سے ڈرنا اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ اللہ ہمارے اوپر نگران ہے اور وہ بہت جلیل القدر ہے۔ یہ اسلام کا بنیادی شعور اور بنیادی قاعدہ ہے۔ تقویٰ ہی انسان کے اندر ایک پاسبان ہوتا ہے جو انسان کو اللہ کے احکام کی پیروی پر مائل کرتا ہے۔ چناچہ تقویٰ ہی کی وجہ سے اسلامی نظام زندگی عملاً قائم ہوتا ہے۔ دوسرا حکم آیا ہے کہ کافروں اور منافقوں کی خواہشات کی اطاعت نہ کرو۔ ان کی تجاویز اور ان کی ہدایات کو نظر انداز کرو ، نہ ان سے رائے لو اور نہ ان کے اصرار کو تسلیم کرو۔ ولا تطع الکفرین والمنفقین (33: 1) ” کفار اور منافقین کی اطاعت نہ کرو “۔ اللہ کے احکام کی اطاعت کرنے کا حکم یہاں بعد میں آتا ہے۔ اس سے بھی پہلے کہا گیا کہ کفار اور منافقین کی اطاعت نہ کرو ، اس لیے کہ اس دور میں کفار اور منافقین کی طرف مسلمانوں اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بہت ہی دباؤ تھا۔ اس لیے یہاں حکیم دیا گیا کہ آئندہ اسلامی معاشرے کی عملی تنظیم میں بھی ان کی کوئی بات نہ سنو اور ان کے دباؤ کے آگے نہ جھکو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو اس وقت کے حالات کے مطابق حکم دیا گیا لیکن تحریک اسلامی کو ہر زمان و مکان میں یہی کرنا چاہئے کہ جہاں اپنی حکومت قائم ہو تو وہاں غیروں کی آراء و تجاویز کو قبول نہ کرو تاکہ اسلامی نظام حیات خالص اپنی پالیسی پر آگے بڑھے اور وہ کسی غیر کی پالیسی کے دباؤ میں نہ ہو۔ کسی مسلمان کو یہ دھوکہ نہ کھانا چاہئے کہ ان کفار اور منافقین کے پاس مہارت ہے اور وہ علم و تجربہ رکھتے ہیں جس طرح آج کل اپنے لیے اپنی کمزوری کے دور میں یہ وجہ جواز تلاش کرتے ہیں اس لیے کہ اللہ ہی علیم و حکیم ہے۔ اس نے مسلمانوں کو جو نظام زندگی دیا ہے وہ اس نے علم و حکمت کی اساس پر دیا ہے۔ اس میں کوئی فتور اور قصور نہیں ہے اور لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی علم و حکمت نہیں ہے۔ اور اس کے بعد متصلا یہ حکم دیا جاتا ہے۔ واتبع ما یوحی الیک من ربک (33: 2) ” اور پیروی کرو اس بات کی جس کا اشارہ تمہارے رب کی طرف سے تمہیں کیا جارہا ہے “۔ کیونکہ مسلمانوں کے لیے ہدایات اللہ سے آیا کرتی ہیں۔ کفار اور منافقین کی طرف سے نہیں۔ مسلمان خدا کا اتباع کرتے ہیں کسی اور کا نہیں۔ اس آیت کی طرز تعبیر ہی میں بعض گہرے اشارات پائے جاتے ہیں یعنی اتباع کرو اس بات کی جو تمہارے طرف وحی (اشارہ) کی جا رہی ہے ، خصوصیت کے ساتھ۔ پھر یہ اشارہ رب کی طرف سے ہے۔ گویا یہاں یہ خاص اشارات کئے جا رہے ہیں ، ان کو سمجھو۔ اور یہ اشارات اللہ مطاع کی طرف سے ہیں۔ ان اللہ کان بما تعملون خبیرا (33: 2) ” اللہ ہر اس بات سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ اللہ جو ہدایات دیتا ہے وہ اعلیٰ درجے کے علم اور مہارت پر مبنی ہیں۔ وہ تمہارے اعمال کی حقیقت سے باخبر ہے۔ تمہارے رجحانات اور تمہاری خواہشات سے باخبر ہے۔ اور آخری ہدایت یہ ہے کہ و توکل علی اللہ وکفی باللہ وکیلا (33: 3) ” اللہ پر توکل کرو ، اللہ ہی وکیل ہونے کے لیے کافی ہے “ یہ بات اہم نہیں ہے کہ کفار و منافقین تمہارے ساتھ ہیں یا تمہارے خلاف ہیں۔ نہ ان کی مکاریوں اور سازشوں کو کوئی حیثیت ہے۔ اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دو ، اللہ تمہارے معاملات کے اندر اپنے علم ، اپنی خبرداری اور مہارت سے تصرف کرے گا۔ معاملات کو اللہ پر چھوڑ دینا ہی وہ چیز ہے جس پر آخر کار انسان کا دل مطمئن ہوکر شرح صدر حاصل کرلیتا ہے اور وہ اپنے حدود وقیود سے باخبر ہوجاتا ہے۔ اپنے حدود سے باہر کے معاملات کو اللہ پر چھوڑ دیتا ہے۔ اپنی حدود پر رک جاتا ہے اور آگے کی بات ، بات والے پر چھوڑ دیتا ہے۔ نہایت اطمینان ، پورے بھروسے اور پورے یقین کے ساتھ اپنے حصے کا کام کرتا ہے۔ یہ تین عناصر ، خدا کا خوف ، وحی الٰہی کا پورا اتباع اور اللہ وحدہ پر بھروسہ یہ کسی بھی داعی کے اصل زاد راہ ہیں۔ بشرطیکہ وہ کفار اور منافقین سے کٹ جائے۔ یہ عناصر دعوت اسلامی کو اپنے منہاج پر قائم رکھتے ہیں یعنی اللہ سے (خوف) اللہ کی طرف سے آنے والے حکم کا اتباع اور اللہ پر بھروسہ۔ یہ ہدایات ایک زبردست ، گہرے تبصرے پر رقم ہوتی ہیں اور یہ تبصرہ ایک حسی مشاہدے پر مبنی ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیے اور اس پر توکل کیجیے، کافروں اور منافقوں کی بات مانئے یہاں سے سورة احزاب شروع ہو رہی ہے، اَحْزَابْ حِزْب کی جمع ہے جو گروہ کے معنی میں آتا ہے، ٥ ھ میں قریش مکہ اور بہت سے قبائل اور جماعتیں سب مل کر مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے مدینہ طیبہ پر چڑھ آئے تھے۔ چونکہ ان کے بہت سے گر... وہ تھے اس لیے اس غزوہ کا نام غزوۂ احزاب معروف ہوا۔ اور چونکہ اس موقع پر خندق بھی کھودی گئی تھی (اور ظاہری اسباب میں وہی تمام گروہوں کے حملہ سے محفوظ ہونے کا ذریعہ بنی) اس لیے اس غزوہ کو غزوۂ خندق بھی کہا جاتا ہے۔ تفسیر روح المعانی میں حضرت ابن عباس (رض) سے سورة الاحزاب کا سبب نزول نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اہل مکہ میں سے ولید بن مغیرہ اور شیبہ بن ربیعہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اگر آپ اپنی دعوت کو چھوڑ دیں، تو ہم آپ کو اپنا آدھا مال دے دیں گے، اور ادھر مدینہ طیبہ کے یہودیوں اور منافقوں نے یہ دھمکی دی کہ آپ نے اگر اپنی بات نہ چھوڑی تو ہم آپ کو قتل کردیں گے، اس پر سورة الاحزاب نازل ہوئی۔ اوپر تین آیات کا ترجمہ ذکر کیا گیا ہے، ان میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے کہ آپ برابر تقویٰ پر قائم و دائم رہیے، کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانیے اور آپ کے رب کی طرف سے آپ پر جو وحی کی جاتی ہے اس کا اتباع کرتے رہیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ آپ اللہ پر بھروسہ رکھیں، اللہ کافی ہے اللہ کارساز ہے، وہ کارساز ہونے کے لیے کافی ہے، اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے، دشمنوں نے جو آپ کو مال کی پیشکش کی ہے اور جو قتل کی دھمکی دی ہے اسے اس کا علم ہے، اللہ تعالیٰ حکیم بھی ہے جو کچھ وجود میں آتا ہے اس میں حکمت ہے، دشمنوں نے آپ کو جو پیشکش کی ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے جس میں سے ایک یہ ہے کہ آپ مضبوطی کے ساتھ اللہ کے دین پر جمے رہیں اور وحی کا اتباع کرتے رہیں تاکہ آپ کے اندر مزید قوت اور توکل کی شان پیدا ہوجائے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ یا ایہا النبی الخ صلح حدیبیہ کے بعد مشرکین و منافقین کا ایک وفد جو ابو سفیان، عکرمہ بن ابو جہل، عبداللہ بن ابی اور معتب بن قشیر وغیرہ پر مشتمل تھاحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا۔ اے محمد ! ہم تم سے یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمارے معبودوں کو برائی سے یاد کرنا چھوڑ دو ۔ اور صر... ف اتنی بات مان لو کہ وہ عندہ اللہ شفیع ہیں اور نفع پہنچا سکتے ہیں تو تمہیں آزادی ہے کہ بیشک تم اپنے خدائے واحد کی عبادت کرو، اور دوسرے احکام کی تبلیغ کرو، ہم تم سے کوئی تعرض نہ کریں گے۔ یہ بات آپ کو بہت ناگوار گذری اس پر یہ آیتیں نازل ہوئی۔ قالو الرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارفض ذکر الہتنا وقل انھا تشفع و تنفع و ندعک وربک فشق ذلک علی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والمومنین وھموا بقتلھم فنزلت (روح ج 21 ص 143) وکذا فی المعالم والخازن وغیرہما۔ مشرکین چاہتے تھے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر نرم ہوجائیں تو وہ بھی اپنا رویہ نرم کرلیں گے۔ لیکن اللہ نے آپ کو اس معاملہ میں نرمی اختیار کرنے سے منع فرما دیا اور حکم دیا کہ تبلیغ توحید میں ذرہ برابر کوتاہی یا نرمی نہ ہونے پائے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ودوا لو تدھن فیدھنون (القلم) اور مائدہ میں فرمایا بلغ ما انزل الیک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ اور بنی اسرائیل میں ارشاد لقد کدت ترکن الیہم شیئا قلیلا اذا لاذقنک ضعف الحیوۃ و ضعف المماۃ الخ۔ یہ آیتیں تین اوامر اور ایک نہی پر مشتمل ہیں۔ 3:۔ اتق اللہ الخ۔ یہ پہلا امر ہے یعنی تقوی اور خوف خدا پر قائم رہیں اور اللہ کے احکام کے خلاف ہرگز کوئی قدم نہ اٹھائیں والمقصود الدوام والثبات علیہا (روح ج 21 ص 143) ۔ ولا تطع الکفرین الخ یہ نہی ہے کہ کفار اور منافقین نے آپ سے جو نرمی کرنے کا مطالبہ کیا ہے آپ ان کی بات ہرگز نہ مانیں اور مسئلہ توحید بیان کرنے میں ہرگز ان کی رو رعایت نہ فرمائیں اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے اگر آپ کی نرمی سے ان کے ایمان لانے کا امکان ہوت تو آپ کو نرمی کرنے سے روکا نہ جاتا ودل بقولہ ان اللہ کان علیما حکیما علی انہ کان یمیل الیہم استدعاء لھم الی الاسلما ای لو علم اللہ عز وجل ان میلک الیہم فیہ منفعۃ لما نھاک عنہ لانہ حکیم (قرطبی ج 14 ص 115) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1۔ اے نبی ! اللہ سے ڈرتے رہیے اور کافروں اور منافقوں کا کہنانہ مانیے بلا شبہ اللہ تعالیٰ کمال علم اور کمال حکمت کا مالک ہے ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرتبہ کی بلندی کی رعایت رکھتے ہوئے آپ کا نام لیکر خطاب نہیں فرمایا یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غایت عظمت اور غایت شرافت کی دلیل ... ہے کہ آپ کو یا احمد یا محمد نہیں کیا گیا بلکہ یا یھا النبی اور یا ایھا الرسول پر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ڈرتے تو ہیں اس وصف پر ہمیشہ قائم رہے یہی مطلب آگے جو امر کے صیغے آ رہے ہیں ان کا سمجھنا چاہئے۔ یہ مطلب نہیں کہ آپ خدا سے ڈرتے نہ تھے اس لئے ڈرنے کا حکم دیا گیا ، نیز مخالفین کو سنانا ہے کہ ہمارے پیغمبر تو ان اوصاف پر قائم رہیں گے اور تم احکا خداوندی کی تعمیل سے خائب و خاسررہو گے کافروں اور منافقوں کا ذکر اس لئے فرمایا کہ مکہ کے بعض کافر مدینہ کے بعض منافقوں کے مکان میں آ کر مقیم ہوئے آپ ؐ سے انم طلب کیا آپ نے امن دیدیا ۔ اس کے بعد باہمی مشورے سے طے کر کے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اگر آپ ہمارے بتوں کے متعلق یہ تسلیم کرلیں کہ وہ قیامت میں شفاعت کریں گے اور نفع دیں گے اور آپ ان کا ذکر چھوڑ دیں تو ہم آپ سے کوئی تعارض نہ کریں گے ۔ آپ اپنے پروردگار کی آزادنہ عبادت کرتے رہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سن کر ملول ہوئے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ مکہ کے کافروں اور مدینہ کے منافقوں کا کہنا نہ مانیئے اور ان کی اطاعت نہ کیجئے اور اس عدم اطاعت پر قائم رہیے۔  Show more