Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 12

سورة الأحزاب

وَ اِذۡ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اِلَّا غُرُوۡرًا ﴿۱۲﴾

And [remember] when the hypocrites and those in whose hearts is disease said, " Allah and His Messenger did not promise us except delusion,"

اور اس وقت منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں ( شک کا ) روگ تھا کہنے لگے اللہ تعالٰی اور اس کے رسول نے ہم سے محض دھوکا فریب کا ہی وعدہ کیا تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And when the hypocrites and those in whose hearts is a disease said: "Allah and His Messenger promised us nothing but delusion!" Their hypocrisy became apparent, while the one in whose heart was doubt became weak, and he expressed the ideas that were in his heart because of the weakness of his faith and the difficulty of the situation. And other people said, as Allah tells us:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

121یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کا وعدہ ایک فریب تھا۔ یہ تقریباً ستر منافقین تھے جن کی زبانوں پر وہ بات آگئی جو دلوں میں تھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ١٥] منافقوں کے مسلمانوں کو طعنے :۔ جب بنو قریظہ بھی مسلمانوں سے بدعہدی پر آمادہ ہوگئے تو اب مسلمانوں کے لئے اندر اور باہر ہر طرف دشمن ہی دشمن تھے۔ اس تشویشناک صورت حال میں منافقوں نے مسلمانوں ہی کو یہ طعنے دینا شروع کردیئے کہ تم تو ہمیں یہ بتاتے تھے کہ ہمیں قیصر و کسریٰ کے خزانے ملیں گے اور یہاں یہ صورت حال ہے کہ رفع حاجت کو جانے میں بھی جان کی سلامتی نظر نہیں آتی && دراصل منافقوں کا خیال کچھ ایسا تھا کہ بس ان کے ایمان کا دعویٰ کرنے کی دیر ہے کہ آسمان سے فرشتے اتر پڑیں گے۔ اور ان کی تاج پوشی کی رسم ادا کریں گے۔ انھیں انگلی تک بھی ہلانے کی نوبت نہ آئے گی۔ انھیں یہ معلوم نہیں کہ ایمان لانے کے بعد انھیں سخت آزمائشوں کے دور سے گزرنا ہوگا۔ مصائب کے پہاڑ ان پر ٹوٹیں گے اور انھیں سردھڑ کی بازی لگانا پڑے گی۔ تب کہیں جاکر اللہ کی مدد آتی ہے۔ البتہ اس کے وعدہ کے مطابق آتی ضرور ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ ۔۔ :” يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا “ سے لے کر آیت (٢٧) تک کی آیات غزوۂ احزاب اور غزوۂ بنو قریظہ کے بعد نازل ہوئیں۔ ان میں دونوں جنگوں کا تذکرہ ہوا ہے۔ پچھلی آیت تک ایمان والوں کے خوف، آزمائش اور سخت جھنجوڑے جانے کا ذکر ہوا ہے، جس کے دوران ان کے دلوں میں طرح طرح کے گمان بھی آتے رہے، مگر ان کی زبان پر کفر یا مایوسی کا کوئی لفظ نہیں آیا۔ اب اس دوران منافقین کے رویے اور ان کی منافقانہ باتوں کا ذکر ہوتا ہے، جن سے ان کا نفاق کھل کر سب کے سامنے آگیا۔ 3 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے ساتھ ان لوگوں کا ذکر فرمایا ہے جن کے دلوں میں بیماری ہے۔ سوال یہ ہے کہ منافقین کے دلوں میں بھی تو بیماری ہے، جیسا کہ سورة بقرہ میں فرمایا : (فِىْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ ) [ البقرۃ : ١٠ ] ” ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے۔ “ تو یہاں منافقین کے بعد ” الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ“ سے کون لوگ مراد ہیں ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہاں منافقین سے مراد وہ لوگ ہیں جو پکے منافق تھے، جیسے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی۔ ان کے متعلق جو سورة بقرہ میں ” فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ“ فرمایا ہے، وہاں ” مرضٍ “ کی ” تنوین “ تعظیم و تہویل کے لیے ہے، اس لیے وہاں مراد یہ ہے کہ ان کے دلوں میں ایک بھاری بیماری ہے۔ اس آیت میں ” الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ“ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ابھی نفاق میں پختہ نہیں ہوئے تھے، بلکہ ان کے دلوں میں شک و شبہ اور نفاق کی کچھ بیماری تھی۔ گویا یہاں ” مرض “ میں تنوین تنکیر و تبعیض کے لیے ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے : (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ ) [ الحج : ١١ ] ” اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو اللہ کی عبادت ایک کنارے پر کرتا ہے۔ “ غرض اس موقع پر صرف پکے ایمان والے ثابت قدم رہے۔ رہے منافقین یا ڈھلمل یقین والے، تو ان سب کا نفاق کھل کر سامنے آگیا۔ مَّا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا : جنگ خندق کے دوران رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو کئی بشارتیں دی تھیں۔ خندق کھودنے کے دوران ایک چٹان جو کھدائی میں رکاوٹ بن گئی تھی، اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کدال ماری تو وہ تین ضربوں میں تین ٹکڑے ہوگئی اور ہر ضرب پر اس سے ایک چمک نکلی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پہلی ضرب کے ساتھ مجھے کسریٰ کے شہر اور ان کے اردگرد کے شہر اور بہت سے شہر دکھائے گئے، جنھیں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ “ وہاں موجود صحابہ نے کہا : ” یا رسول اللہ ! دعا کیجیے اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر فتح عطا فرمائے، ان کے گھر ہمیں بطور غنیمت عطا کرے اور ان کے شہر ہمارے ہاتھوں برباد کرے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا کردی اور فرمایا : ” پھر میں نے دوسری ضرب لگائی تو قیصر کے شہر اور ان کے اردگرد کی بستیاں میرے سامنے لائی گئیں، یہاں تک کہ میں نے انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ “ لوگوں نے کہا : ” یا رسول اللہ ! اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ ہمیں ان پر فتح عطا فرمائے، ان کے گھر ہمیں بطور غنیمت عطا فرمائے اور ان کے شہر ہمارے ہاتھوں برباد کرے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا کردی اور فرمایا : ” پھر میں نے تیسری ضرب ماری تو حبشہ کے شہر اور ان کے اردگرد کی بستیاں میرے سامنے لائیں گئیں، حتیٰ کہ میں نے انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ “ اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” حبشیوں کو اپنے حال پر رہنے دو جب تک وہ تمہیں تمہارے حال پر رہنے دیں اور ترکوں کو کچھ نہ کہو جب تک وہ تمہیں کچھ نہ کہیں۔ “ [ نساءي، الجہاد، باب غزوۃ الترک والحبشۃ : ٣١٧٨، و قال الألباني حسن ] جب مدینہ کو کفار نے ہر طرف سے گھیر لیا اور یہودیوں کی عہدشکنی کی وجہ سے مدینہ کے اندر سے بھی ہر وقت حملے کا خطرہ پیدا ہوگیا، تو اس وقت مسلمانوں کے لیے مزید پریشانی کا باعث یہ بات ہوئی کہ منافقین اور کچے ایمان والے لوگوں نے ایسی باتیں کہنا شروع کردیں جن سے لوگوں کے حوصلے ٹوٹ جائیں اور بددلی پھیل جائے، مثلاً یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ہمیں قیصرو کسریٰ کے شہر فتح ہونے کی بشارتیں سناتے تھے، جبکہ اب ہماری یہ حالت ہے کہ ہم قضائے حاجت کے لیے بھی باہر نہیں جاسکتے۔ معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدے کیے تھے سب دھوکا تھے۔ دراصل منافقین کا خیال یہ تھا کہ بس ایمان کا دعویٰ کرنے کی دیر ہے، آسمان سے فرشتے اتریں گے اور انھیں فتح حاصل ہوجائے گی، انھیں انگلی تک نہیں ہلانا پڑے گی، حالانکہ ایمان کے بعد آزمائش تو اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، تاکہ کھرے کھوٹے الگ الگ ہوجائیں۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” بعض منافق کہنے لگے، پیغمبر کہتا ہے کہ میرا دین پہنچے گا مشرق مغرب، یہاں جائے ضرور (قضائے حاجت) کو نہیں نکل سکتے۔ مسلمان کو چاہیے اب بھی نا امیدی کے وقت بےایمانی کی باتیں نہ بولے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Hypocrites throw taunts at Muslims for believing in their Prophet&s promises At that time, the hypocrites who were part of the digging operations of the trench, started asking other Muslims, &It is strange that you people are not surprised at what Muhammad is telling you. Is it not that he is making all those baseless promises to you in the depth of this trench being dug in Yathrib where he is claiming to be seeing the palaces of Hirah (in the South) and Mada&in (in the North)? And on top of it all, he is telling you that it is you people who are going to conquer them! Just look at yourself. Here you are, digging and digging, forgetful of all your needs. Frankly, you do not even have the time to take care of your human compulsions. Still, is it you who are going to conquer the countries of Cyrus and others?& Thereupon, it was about this very event that, in the twelfth verse cited above, it was revealed: وَاِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا (And (remember) when the hypocrites and those having malady in their hearts were saying, |"Allah and His messenger did not promise us but deceitfully; - 12). Here, in this verse, by saying: الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ those having malady in their hearts), reference is being made to the state of the same hypocrites hidden in whose hearts there was that disease of hypocrisy. Just imagine the kind of time it was, a severe trial indeed. At stake was the very faith of Muslims for they had to believe in the word of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) with the full backing of their mind and heart despite being threatened by disbelievers from all sides. They had no servants to dig their trench for them. They were doing this hard work with their own hands braving the lashing winter. The unfriendly weather, the approaching enemy factor, theirs was a general climate of fear all around. In a situation like that, it was not easy to be sure of even one&s defence and survival within whatever means were available. How could they go on from here and start believing in the good news of the conquests of the great kingdoms of Byzantine and Persia? But, the value of &Iman (faith) is the highest of all deeds for the reason that they, even when facing totally contrary causes and conditions, did not have the least doubt or qualm of conscience about what the Holy Prophet t had told them. Seniors must share every trial with their juniors - Great guidance for Muslims Who does not know that the Sahabah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) were such selfless servants of the Holy Prophet t that they never wanted to have him do the hard labor of digging the trench with them, but it was the personal initiative of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that he chose to share this hard labor with his noble companions to mollify their hearts and teach them their essential lesson to put mutual brotherhood to practice. Of course, the noble companions staked their lives for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) on the basis of his most perfect attributes as prophet and messenger of Allah, but of the many outward causes for this attachment, there was this major cause that he would be with them on all occasions facing all sorts of trials and pains like everybody else. When he did that, nobody ever thought of what we know as a class difference. There was no ruler and there was no one being ruled. There was no king around and there was no subject paying homage. Who was the man in power and who was the man from the masses? This kind of difference was unimaginable at that time. Unfortunately, from the time the Muslim wielders of power abandoned this Sunnah (the blessed practice of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) that, was the time these differences gushed forth bringing all sorts of tests and trials in their wake. The master prescription of achieving success against something hard to accomplish In the event mentioned above, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has recited the verse of the Qur&an: وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ (And the Word of your Lord is perfect in truth and justice. None is there to change His Words - al-An` am, 6:115) while striking at this invincible rock. This tells us that the recitation of this verse is a tested prescription for the resolution of something difficult. The selfless mutual cooperation of the noble Sahabah We already know that there were ten men appointed for the digging of the trench at every ten yards. But, it is obvious that some people are stronger and can finish their job sooner than others. The same was true here. The noble Sahabah who finished their allotted portion of digging would never go on to sit doing nothing and thinking that their duty was over. In fact, they would help out other Sahabah whose portion of digging was still incomplete. (Qurtubi, Mazhari) Three and a half mile long trench was completed in six days The outcome of the hard work put in by the noble Sahabah, may Allah be pleased with them all, was before everybody in six days in that such a long, wide and deep trench stood all completed within that short period of time. (Mazhari) An open miracle in the feast hosted by Sayyidna Jabir It was during the digging of this very trench that the well known event came to pass. On one of those days, when Sayyidna Jabir (رض) looked at the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، he felt deep down in his heart that he was really affected by hunger. He went to his wife and told her, |"If you have something with you, cook it. I simply cannot bear by seeing this effect of hunger on his blessed person.|" His wife said, |"We have about a sa` of barley grains in our home. I am going to grind them and make some flour.|" One sa` is equal to about three and a half kilograms in terms of our weights. So, his wife got busy with the grinding of barley, making flour, preparing dough and baking bread. There was a goat kid in the house. Sayyidna Jabir (رض) slaughtered it, cooked the meat and was ready to go out and invite the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in when his wife called out to him saying, |"Look, there is a crowd of the Sahabah with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Do something and somehow invite only the Holy Prophet alone. Please, do not put me to disgrace by causing such a big crowd of the noble Sahabah come in with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .|" Sayyidna Jabir (رض) ، acting realistically, made the actual situation fully clear before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) telling him that they had only that much of food in the house. But, as for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، he made a public announcement before the entire work force asking everyone to come to the feast at Sayyidna Jabir&s (رض) home. Sayyidna Jabir (رض) was struck with wonder. When he reached home, his wife was extremely disturbed. She asked, |"Did you tell the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) about the actual situation at home and the amount of food available?|" Sayyidna Jabir (رض) said, |"Yes, that I have told him.|" This put his wife at peace and she said, |"Then we have nothing to worry about. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is our master. Let him have it the way he wishes.|" Any more detail of the event is unnecessary at this place. It is enough to know the outcome that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) took it upon himself to distribute the bread and curry to everybody with his own blessed hands and see that they are entertained and fed satisfactorily. As a result, the whole crowd ate to their fill. And Sayyidna Jabir (رض) says that |"even after everybody having finished eating, our stock pot showed no dearth of meat, nor our kneaded flour any signs of decrease. All of us in the family ate to our heart&s content and whatever remained we sent to the neighbours.|" Thus, when the digging of the trench was finished within six days, the Confederate army arrived and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his noble Companions, may Allah be pleased with them all, went into battle formation with the Mount of Sal& thoughtfully kept towards their rear. The Jews of the tribe of Bani Quraizah break their pledge and join the Confederate aggressors That was a time when a group of three thousand ill-equipped people standing up to fight against an equipped army of some ten to twelve thousand men was something far too wild to believe. On top of all that, there came up a new factor. Out of the Confederate forces, Huyayy Ibn Akhtab, the chief of the tribe of Banu Nadir who had contributed most in rallying everyone against the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his Muslim followers, took another step. He reached Madinah and conspired to win over the Jewish tribe of Banu Quraizah over their side. The situation was that Banu Quraizah and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) already had a peace treaty signed between them. This was a solemn undertaking and the two parties naturally had no apprehensions from each other. Ka` b Ibn Asad was the chief of the tribe of Banu Quraizah. Huyayy Ibn Akhtab went to see him. When Ka&b heard about his reported arrival, he had the gate of his castle closed, so that this man would not reach him. But, Huyayy Ibn Akhtab hanged out there, he called and called and insisted that the gate be opened. Ka&b told him from inside the gate, |"We have already made a peace treaty with Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and we know of nothing from his side other than truth, honesty and strict adherence to the treaty right to this day, therefore, we are bound with this treaty and cannot join hands with you.|" For long, this dialogue between the two continued with Huyayy Ibn Akhtab insisting that the gate be opened and that Ka&b should talk to him and the later kept refusing to do that while staying inside the closed gate. But, consequently when Huyayy Ibn Akhtab challenged Ka&b&s sense of shame in that he was treating a visitor in such a crude manner, the gate was opened. Once called in, Huyayy Ibn Akhtab painted such a rosy picture of his proposals that Ka` b ultimately fell into the trap laid out by him and gave his word that he would take part in the Confederate expedition. When Ka&b related what he had done before other chiefs of his tribe, they all said in one voice, |"You did something terrible. You broke your pledge with Muslims for no reason whatsoever and that by going along with the other side you have exposed your own self to danger.|" Ka&b too was affected by their comments and even repented for what he had done. But, things had gone out of his control by that time and this very pledge-breaking finally went on to become the cause of the destruction of Banu Quraizah as it would be mentioned later. At that particular time, when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the noble Sahabah got this information, they were shocked by this breach of trust from Banu Quraizah. What worried them most was the strange situation created for them. They had a trench dug across the line of the marching forces of the Confederates who were coming from outside Madinah. But, these Banu Quraizah people were right there inside Madinah. How were they going to defend against them? About this when the Qur&an says that the disbelieving forces of the Confederate army had overtaken you: مِّنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ (from above you and from below you -10), Tafsir authorities say that the expression: فَوق (from above) means the Banu Quraizah and those who came from below them (اَسفَل) mean the rest of the Confederates. To find out the reality of this breach of trust and to assess the correct situation in the whole matter, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) sent a deputation comprising Sayyidna Sa&d Ibn Mu’ adh (رض) ، the chief of the Ansar tribe of Aws and Sayyidna Sa&d Ibn ` Ubadah, the chief of the tribe of Khazraj, to Ka` b in order to talk to him about the matter. The instruction given to them was that should the event of this breach of trust turn out to be incorrect, they were to tell the whole truth before all the Sahabah openly. And should it turn out to be true, they should, on their return, say something ambivalent which will be a message only we shall understand while the rest of the Sahabah will remain safe from facing any panic because of it. When both these elders named Sa&d reached there, they saw open proofs of the breach of pledge all over which even went to the extent of hot exchanges of words between them and Ka&b. On their return, following the instructions given to them earlier, they reported back their findings in unclear words and thus informed the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that the event of the breaking of the pledge was true. At the time when the Jewish tribe of Banu Quraizah, once an ally of Muslims, also joined the war against them, something else started happening. The hypocrisy of people who posed to be a part of the Muslim community lost its cover. Some of them became far too vocal and started saying things against the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as was mentioned earlier in: وَاِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ (and when said the hypocrites - 12). Then, they were others who cooked up all sorts of excuses to run away from the battlefield and sought the permission of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to do that - which has been mentioned in verse 13: اِنَّ بُيُوْتَنَا عَوْرَةٌ (Our homes are vulnerable). Now according to the present state of the battle front, the Confederate forces could not march in because of the trench with the Muslim army positioned on the other side. There was almost a continuous exchange of arrows between them all the time. This state of affairs dragged on for nearly a month. They could neither confront each other in some open or decisive battle, nor could they turn heedless towards the opponent for any extended period of time. Day and night, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his noble Sahabah would stand guard by the trench. Although, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was personally involved in this hard task like everybody else, yet the thought that all his companions were suffering from extreme anxiety due to this impasse was very painful for him. A strategic plan of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) It was already in the knowledge of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that the chief of the tribe of Ghitfan had joined hands with these Jews as tempted by the greed of having the fruits and dates of Khaibar. He sent an emissary to the two chiefs of the tribe of Ghitfan, ` Uyaynah &Ibn Hisn and Abu al-Harith Ibn ` Amr, with the message: |"If you leave the battlefield with your men, we shall give you one-third of the fruit of Madinah.|" This negotiation was still on. The two chief had agreed and a peace treaty was close to be signed. But, as was his wont and habit, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) decided to consult the noble Sahabah in this matter. He called the two Sa&ds, the chiefs of the tribe of Aws and Khazraj, that is, Sayyidna Sa&d Ibn ` Ubadah and Sa&d Ibn Muadh, and sought their advice. The Faith, the Sense of Shame and the Granite of a Determination shown by a Sahabi of the Rasul of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Both of them said, |"Ya RasulAllah, if you have orders from Allah Ta’ ala to do this thing, then, we cannot dare say anything. We shall accept. If not, tell us: Is it your personal opinion or you have devised this as a measure to save us from all this hardship and suffering?|" The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"Neither is there a Divine order for it, nor do I have any personal inclination to do so. In fact, I have come up with this via media in view of your pain and suffering because you are surrounded from all sides. So, I simply wished to shatter the power of the adversary in this manner without losing any time.|" Sayyidna Sa&d Ibn Mu` adh (رض) said, |"Ya RasulAllah, when we worshipped idols, we did neither know Allah nor did we worship Him. At that time, these people could not dare look at a single fruit of our city with greedy eyes - except that they be our guests and we offer some of it to them by way of hospitality, or that they would buy it from us and take it away with them. Today, when Allah Ta’ ala has, in His infinite grace, given us the ability of knowing Him, and has bestowed upon us the honor of Islam, shall we, on this day, let these people have our fruits and our wealth and our properties? We need no peace and compromise from them. As for us, we are not going to give them anything but the cutting edge of our swords - to the extent that Allah Ta’ ala Himself gives the ultimate verdict between us and them.|" When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) heard Sayyidna Sa&d (رض) and saw this high determination and this great enthusiasm in the matter of his &Iman, he cast that thought of his aside and said, |"You now have the right to do what you wish.|" Sayyidna Sa` d (رض) took the peace treaty document from his blessed hands and erased the writing on it because it was not signed yet. ` Uyaynah and Harith, the chiefs of the Ghitfan tribes who were present in the meeting ready to sign this treaty found themselves personally unnerved in their hearts at this demonstration of power and determination from the noble Companions of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The wound received by Sayyidna Sa&d Ibn Mu&adh (رض) and his prayer On the other side, the activity of throwing arrows and stones on each other continued unabated. Sayyidna Sa&d (رض) had gone into the fortress of Banu Harithah to see his mother where women had been housed under security. Sayyidah ` A&ishah (رض) says, |"At that time, I too was in the same fortress and the injunctions of hijab for women were yet to be enforced. I saw that Sa&d Ibn Mu&adh (رض) was wearing a small coat of mail from which his hands were protruding out rather awkwardly and his mother was telling him to make haste, go and join the men fighting with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . I said to his mother, |"A larger coat of mail would have been better for him. I apprehend that his hands and feet showing out of his coat of mail may be exposed to danger.|" His mother said, |"It does not matter. Whatever Allah has to do is what has to happen.|" When Sayyidna Mu&adh (رض) reached the battlefield, he was hit by an arrow which cut through his medial arm vein. At that time, Sayyidna Mu&adh رضی اللہ تعالیٰ عنہ made the following prayer: |"0 Allah, if there is yet another attack by the Quraish destined to come against the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، please keep me alive for that, because I have no worthwhile wish left in me but that I fight the people who have caused all sorts of pain to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، expelled him from his homeland and falsified his person and mission. And if, in Your ultimate knowledge, this process of war has come to an end, please bless me with the death of a martyr in the way of Allah - but, let not death come to me until such time that the treachery of Bani Quraizah is avenged as the parting delight of my eyes.|" Allah Ta’ ala answered both these prayers from him. This event of al-Ahzab was made to be the last attack of the disbelievers. After that, began the period of Muslim victories. First came Khaibar, then Makkah al-Mukarramah and then other areas. As for the event relating to Banu Quraizah, it follows later as to how they were brought forth as captives and their case was entrusted with none else but Sayyidna Sa&d Ibn Mu` adh (رض) for the final verdict. It was in accordance with his verdict that their men were killed and their women and children were taken prisoners. During this event of al-Ahzab, the noble Sahabah (رض) and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had to maintain an all-night vigilance throughout the trench area. The slightest relaxation at any time had to be broken at the faintest sound of commotion from any side. In fact, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) would himself put his arms back on and come out in the battle area. Umm ul-Mu&minin Sayyidah Umm Salamah (رض) says, |"Every single night, this would happen several times that he would come in for a little rest and then heard some sound and went out immediately. The same thing happened again. The moment he would put his back for rest, he would hear some sound and leave as usual.|" Umm al-Mu&minin Sayyidah Umm Salamah (رض) ، also says, |"I have been with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in many battles such as Muraisi&, Khaibar, Hudaibiyah, the battles of the conquest of Makkah and Hunain. None of these caused more hardship on the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as did the battle of Khandaq. Muslims also received a lot more wounds in this battle. Then, they were hit by the severity of the winter chill as well. Furthermore, their circumstances were extremely straightened in terms of food and water available to them. (Mazhari) The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had to miss four Salahs in this Jihad One of those days, the confronting disbelievers decided to launch a joint and simultaneous attack and force their way ahead by somehow crossing the trench. Once they had resolved to do that, they threw themselves dauntlessly against the Muslims and their archers rained their arrows so incessantly that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his noble Sahabah (رض) had to remain so engaged throughout the day that they did not find any respite to even make their Salah. As a result, four Salahs missed during the day had to be performed at the time of ` Isha&. The prayers of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) When things became unbearably hard on Muslims, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) prayed against the Confederate forces of the disbelievers, doing that for three days consecutively on Monday, Tuesday and Wednesday inside Masjid al-Fath imploring Allah Ta’ ala to bring defeat on the Confederates and victory for Muslims. It was on the third day, on Wednesday between Zuhr and ` Asr that the prayer was answered. Pleased, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) came to his noble Sahabah (رض) and gave them the glad tiding of victory. They say that after that time no Muslim faced any hardship any more. (Mazhari) The unraveling of the causes of victory In the combined forces of the enemy, the tribe of Ghitfan was a power to reckon with. It was the most perfect power of Allah Ta’ ala that put the light of faith in the heart of Nu&aim Ibn Masud who, as destiny would have it, was one of them. He presented himself before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، confessed to his faith in Islam and told him that no one from among his people is aware of the fact that he has become a Muslim. Then, he wished that he be told as to how he could serve Islam. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) told him, ` You being all alone here would not be able to do anything worthwhile. If you can go back to your people, be with them and still do something in defence of Islam, then, go ahead and do it.& Nu&aim Ibn Mas&ud was an intelligent man. He conceived of a plan of action in his heart and sought the permission of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to be given the choice of saying what is expedient when he reaches those people. He gave the permission. From here, Nu&aim Ibn Masud (رض) went to see the tribe of Banu Quraizah with whom he had age-old relations since the time of Jahiliyyah. He said to them: &0 people of Banu Quraizah, you know that I am an old friend of yours.& They said, &We have, no doubt about your friendship.& After that, Sayyidna Nu&aim Ibn Masud (رض) addressed the chiefs of Banu Quraizah as a well-wisher and asked them, &You know that none of us be they the Quraish of Makkah or our tribe of Ghitfan or the several other Jewish tribes - have their homes here. If these people face defeat and run, they do not lose much. Your case is different from all of them. Madinah is your home. Your women and your properties are all here. Now, if you were to participate in the war effort with them and if, later, when these people taste defeat and run, what would happen to you? Would you be able to fight against the Muslims all by yourselves? Therefore, as one who wishes the best for you, I advise you not to take part in the joint war effort with them until such time that they do not put with you a certain number of their selected chiefs as ransom and guarantee that they would not throw you all at the mercy of Muslims and run.& The people of Banu Quraizah found this advice good. They appreciated it and said so before him. After that, Nu&aim Ibn Masud (رض) reached the Quraish chiefs and said to them, &You know that I am your friend and that I have nothing to do with Muhammad t. I have a little bit of information with me. Being one who wishes well for you, it is necessary that I pass on that information to you - of course, on the condition that you will not disclose my name as its source. Here is that information: The Jews of the tribe of Banu Quraizah have now regretted their decision after they had concluded their pact with you. They have sent a message to Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) about it telling him that they will be willing to go along with him subject to the condition that they would hand over some chiefs of the tribes of Quraish and Ghitfan and that he would then put them to the sword. Once that was done, they would join hands with him and fight against all of them. Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has accepted this proposal made by them. Now the Banu Quraizah were going to demand that you put some of your chiefs as ransom with them and it was upto them to figure out what they were going to do in their case. After that, Nu&aim Ibn Mas` ud (رض) went to his own tribe, Ghitfan and to them, he passed on the same information. Concurrent to this, Abu Sufyan appointed ` Ikrimah Ibn Abi Jahl on behalf of the tribe of Quraish and Warqa& Ibn Ghitfan on behalf of the tribe of Ghitfan to the mission of going to Banu` Quraizah and telling them that their war supplies were diminishing and their men were getting tired of having to fight continuously. So, according to the provision of their pact, they were looking forward to their help and participation. The tribe of Banu Quraizah, acting in the light of &their& (latest) understanding of the pact, told them that they will not take part in the war effort with them until such time that some chiefs from both of their tribes have been placed in their custody as ransom (guarantee, hostage). ` Ikrimah and Warqa&, the two emissaries carried the message back to Abu Sufyan. As a result, the chiefs of Quraish and Ghitfan came to believe that the information given by Sayyidna Nu&aim Ibn Masud (رض) was correct. So they sent a return message to Banu Quraizah telling them that they were not going to let them have any of their men. Now it was up to them. If they wished they could join the war effort with them and if they did not, they were free not to. When Banu Quraizah saw this state of affairs, their belief in what Nu` aim& Ibn Masud (رض) had said became all the more firm. It was in this manner that Allah Ta’ ala caused a rift in the ranks of the enemy through a person who came from their camp and soon after they lost their foothold on the battlefield. Along with it there came another calamity upon them. Allah Ta’ ala caused a cold stormy wind overtake them which uprooted their tents and blew their cooking pots from their stoves. As for these, they were only outward causes generated by Allah Ta’ ala to make them desert the battlefield. More came in the form of His angels who were sent to put awe in their hearts inwardly too. These two things have been mentioned at the beginning of the verses cited above as follows: فَأَرْ‌سَلْنَا عَلَيْهِمْ رِ‌يحًا وَجُنُودًا لَّمْ تَرَ‌وْهَا (and We sent upon them a wind, and the forces (of angels) you did not see - 9). As a consequence, they had no choice but to run. The event of Sayyidna Hudhaifah (رض) going into enemy lines and reporting back about conditions prevailing there On the other side, when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) heard the report of what Nu&aim Ibn Masud (رض) had accomplished and how a rift was caused among the Confederate forces, he was strongly inclined towards the idea of someone from among the Muslims going into the enemy lines and returning with the much needed intelligence about the enemy formations and intentions. But, this severe and chilly wind storm that was sent upon the enemy, however, did affect the whole of Madinah and Muslims too were affected by it. The chill was bitter. The time was night. The noble Sahabah were, after the heavy grind of a long day, sitting all shattered because of the confrontation, huddled together feeling the pinch of bitter cold. Addressing the gathering, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"Is there someone who would stand up and go into the enemy lines and bring some news about them and may Allah Ta’ ala admit him into Jannah?|" Of course, this was a gathering of Sahabah who would have normally staked their lives at his call. But, the objective conditions prevailing with them were such that no one could stand up. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) got busy with Salah. After remaining busy with Salah for a while, he addressed the gathering again saying, |"Is there someone here who would bring me some news from the enemy lines and receive Jannah in return for it?|" This time too, silence prevailed over the entire gathering. No one rose. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) got busy with Salah once again. After some time, it was the third time that he made the same appeal, |"Whoever does it shall be in Jannah with me.|" But, everyone was so broken down from fatigue, hunger and chill and so utterly helpless that no one could still bring himself up to rise. The narrator of the hadith, Sayyidna Hudhaifah Ibn Yaman (رض) ، says, &at that time the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) called me by name and said, |"Hudhaifah, you go.|" My condition was no different from the others. But, once I was ordered by name, I had no option but to obey. I stood up while my whole body was shivering with bitter cold. He passed his blessed hand over my head and my face and said, |"Go into the enemy lines and just bring back some news and do nothing before you return to me.|" Then he prayed for my safety. I picked up my bow and arrows, tied up my own clothes on my body and took my way towards them. When I started moving ahead from here, I noticed something strange. The shivering sensation that had me in its grips while I was in the tent was all gone. Actually, I was walking as if one was inside a hot bath all the way up to enemy camp. Once there, I saw that the wind storm had uprooted their tents and upturned their cooking pots. Abu Sufyan was seated by the make-shift fire place relaxing before the heat. When I saw this (a sitting target), I trained my bow and arrow over my shoulders and was about to shoot Abu Sufyan with my arrow, I remembered the order given by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : &Do nothing before you return back to me.& Abu Sufyan was absolutely within the striking range of my arrow, but it was in consideration of this order of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that I disengaged my arrow from the bow. Disturbed by the condition around him, Abu Sufyan wanted to announce the plan to withdraw. But, in order to do that, it was necessary that he should talk to responsible people from among the combined armed forces. The night was dark and the place was desolate. The danger of a snooping spy nearby who may overhear what they were talking about was very much present. Therefore, Abu Sufyan did something smart. Before starting to talk, he asked the whole gathering to recognize the person sitting next to everyone so that no one who is not one of them would be able to hear what they said.& Sayyidna Hudhaifah (رض) says, |"Now, I was scared. What if the person sitting next to me were to ask me: Who are you? If so, my cover will blow up.& It was with great presence of mind and courage that he himself took the initiative, and slapping the hand of the person sitting next to him, he himself asked: Who are you? The man said, &Strange that you do not know me. I am so and so the son of so and so.& He was a member of the tribe of Hawazin. Thus, Sayyidna Hudhaifah (رض) was saved by Allah Ta&ala from being arrested on the spot. When Abu Sufyan ensured it that the gathering was that of his own people and that there was no stranger present among them, he related the disturbing conditions around them, how the tribe of Banu Quraizah had committed a breach of pledge and the extent to which their war supplies had shrunk. After having recounted the situation, he said: In my opinion, all of us should now leave and go back and I too am going back. Immediately thereafter, a state of panic hit the Confederate army and everyone started going back. Sayyidna Hudhaifah (رض) says, |"As I started going back from there, I felt as if I had some sort of a hot bath around me that was shielding me from the bitter chill. When I reached the home base, I found the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) busy with Salah. When he turned for Salam, I reported the event. Pleased with this happy news, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) started laughing - to the extent that, in the darkness of the night, his blessed teeth were seen shining. After that, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) made room for me close to his feet and covered my body with a part of the sheet he had wrapped around him until I went to sleep in that condition. When morning came, he himself woke me up saying: قُم یا نَومَان (&Up 0 big sleeper! ) Good News after the ambition of the disbelievers is shattered According to a narration of Sayyidna Sulayman Ibn Surad (رض) appearing in the Sahih of al-Bukhari, when the Confederate forces retreated, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: الاٰن نغزُوھُم وَ لَا یَغزونَنَا نَحنُ نَسِرُ اِلَیھِم (بخاری) Now, they shall not attack us, instead, we will attack them and run over their territory - )al-Bukhri as in Mazhari (. After having said that, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his noble Sahabah returned to the city of Madinah and it was only after a month that Muslims formally disarmed themselves. A special note This event pertaining Sayyidna Hudhaifah (رض) appears in the Sahih of Muslim. It is an example-setter of great class as well as a bearer of many elements of guidance and miracles of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Those who ponder over it would themselves find these out, therefore, any more details are not needed. The Battle of Banu Quraizah The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had just about reached Madinah when suddenly came Sayyidna Jibra&il al-Amin (علیہ السلام) in the guise of the Sahabi, Sayyidna Dihyah Ibn Khalifah al-Kalbi (رض) and said, |"Even though you people have disarmed yourselves but the angels have not. Allah Ta’ ala commands you to attack Banu Quraizah and I am going right there ahead of you.|" To announce this in Madinah, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) sent a proclaimer who proclaimed this order of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) before the people making sure that it reaches everyone. The order was: لَا یُصَلِّینَ اَحَدُ العَصَر اِلَّا فِی بَنِی قُرَیظَۃَ (Let no man make his Salah of ` Asr until he reaches Banu Quraizah). All Companions got ready for this second Jihad immediately and marched towards Banu Quraizah. On their way came the time of ` Asr. Some of them, following the outward sense of the prophetic order, did not make their Salah of ` Asr en-route - instead, made it only after having reached the designated destination of Banu Quraizah. And there were others who thought that objective of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was to reach Banu Quraizah within the time for ` Asr. So, they thought, if they made their Salah en route and reached there within the time for ` Asr, then, it would not be contrary to the order of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Thus, they made their Salah of ` Asr as it became due while still en route. In the difference of Mujtahids, no side is sinful or blameworthy When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was informed about this difference in the practical compliance of his order on the part of the noble Sahabah, he put no blame on any of the two parties; in fact, he approved of both. From here, the religious scholars of the Muslim community have deduced the principle that none of the different sayings of Mujtahid ` Ulama& who are Mujtahids in the real sense of the term and have the required expertise and ability of Ijtihad (arriving at a Shari&ah-based religious solution of problems at the highest conceivable level) can be called &sin& or &blameworthy.& For both such differing sides, reward is recorded against their action as based on their respective Ijtihad. At the time of marching out for Jihad against Banu Quraizah, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) handed over the Muslim flag to Sayyidna ` Ali al-Murtada (رض) . Hearing about the coming of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and his noble Sahabah, the Banu Quraizah decided to shut themselves into their fort. The Islamic army laid a siege around it. The Speech of Ka&b, the Chief of Banu Quraizah Ka&b, the Chief of the tribe of Banu Quraizah who had broken the pledge given to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in favor of a compact with the Confederates, assembled his people together, told them about the delicate situation and presented three possible solutions of the problem: |"To begin with, the first option is that you all embrace Islam and follow Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) because, and I tell you on oath, you already know that he is in the right and the prophecy of his coming is there in your Torah which you recite. If you were to do this, not only that you will find safety for your life, property and children in this mortal world but also that your Hereafter too will turn out to be good and correct. The second option is that you start by first killing your women and children with your own hands and then go on to fight and kill them with all power at your command until such time that all of you are also killed in the process. The third option is that you make a surprise attack on Muslims on the day of Sabbath - for Muslims know that fighting and killing on the day of Sabbath is unlawful in our religion. Therefore, they would not be expecting an attack from our side on that particular day. Now, if we were to launch a sudden attack, it is possible that we may succeed.|" After having heard this address of their chief, Ka&b, his people replied that they will never accept the first option of embracing Islam, because they did not want to abandon the Torah and start believing in some other Book. As for the second option, what wrong had their women and children done that they go about killing them? As for the third option, it was by itself against the commandment of the Torah and their religion. They could not do that too. After that, all of them reached an agreement that they would lay down their arms before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and be ready to accept whatever he decided about them. Present there were some Ansari Sahabah belonging to the tribe of Aws. They had an age-old pact with Banu Quraizah. So these Sahabah from the tribe of Aws requested the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that these people may be handed over to them. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"Would you like me to entrust their case with one of your own chiefs?|" When they agreed, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"He is your chief, Sa&d Ibn Mu` adh. I entrust this matter with him for a judgment.|" Everyone approved of it. Sayyidna Sa&d Ibn Mu’ adh (رض) was fatally wounded during the battle of Khandaq (the Trench) by an arrow. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had housed him in a tent pegged within the compound of the Masjid so that he could be attended to. According to the order of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، the verdict on the prisoners from Banu Quraizah was left up to him. The verdict that he gave was that the warring young from them should be killed and women, children and the aged should be treated as prisoners of war which is well-recognized in Islam. This very verdict was enforced. Soon after this verdict, the wound of Sayyidna Sa&d Ibn Muadh (رض) started bleeding suddenly. Therefrom he died. Allah Ta’ ala answered both prayers made by him - that there would be no attack from the Quraish against the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in the future, and that the Banu Quraizah would receive the punishment for their treachery which Allah caused to come upon them precisely through him. Some of those earmarked for killing were set free because of having embraced Islam. ` Atiyyah al-Qurazi, well-known among the Sahabah, is one of them. Also among them, there was Zubayr Ibn Bata. His freedom was specially requested from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) by the Sahabi, Sayyidna Thabit Ibn Qays Ibn Shammas (رض) . The reason was that Zubayr Ibn Bata had done a favour to him during the days of the Jahiliyyah when, in the battle of Bu` ath, Thabit Ibn Qays had fallen a prisoner in the hands of Zubayr Ibn Bata who had simply cut the locks of his hair on the head and let him go free. He had not killed him. Return of favour and national pride: Two unique models After having received the order for the release of Zubayr Ibn Bata, Sayyidna Thabit Ibn Qays went to him and said, |"I have done it to return your favor you had done to me during the battle of Bu’ ath.|" Zubayr Ibn Bata said, |"There is no doubt that one gentleman deals with another gentleman just like that. But, please tell me what for would a man whose entire family is no more there like to stay alive?|" When Sayyidna Thabit Ibn Qays heard this, he presented himself before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and submitted that the life and honor of his family and children may also be spared. In his grace, he approved of it. When he informed Zubayr Ibn Bata about it, he took another step forward saying, |"0 Thabit, now tell me how a man with a family would stay alive if he is left with nothing to support it?|" Sayyidna Thabit Ibn Qays returned to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) once again and arranged to have whatever wealth or property he had also given back to him. Up to this point, narrated here was the case of the gentleness and gratitude of a true Muslim as demonstrated by Sayyidna Thabit Ibn Qays. Now, we can go to have a look at what happened on the other side. When Zubayr Ibn Bata was fully satisfied after having earned his freedom and the freedom of his family and children as well as his wealth and property, he asked Sayyidna Thabit Ibn Qays about the chiefs of the Jewish tribes: |"What happened to Ibn Abi al-Huqaiq whose face was like a Chinese mirror?|" He said that he was killed. Then, he asked, |"What became of the Banu Quraizah chiefs, Ka` b Ibn Quraizah and ` Amr Ibn Quraizah?|" He told him that they too were killed. Then he asked about another two groups. In response, he was informed that all of them were killed. Hearing this, Zubayr Ibn Bata said to Sayyidna Thabit Ibn Qays, |"You have returned the favor done to you and you have fulfilled your responsibility as due. But, I am not going to rehabilitate myself on my property after they are no more. Include me among them.|" He meant that he too should be killed. Sayyidna Thabit Ibn Qays refused to kill him. After that, it was on his insistence that some other Muslim killed him. (Qurtubi) This was the national pride or sense of communal shame demonstrated by a disbeliever, a kafir who, even after having been given everything back, did not like to continue living without his companions. Here we have two models of conduct demonstrated by a believer and a disbeliever, a mu&min and a kafir. Both belong to significant historical record. This victory against Banu Quraizah had taken place in the fifth year of Hijrah towards the end of the month of Dhulqa&dah and the beginning of Dhul-Hijjah. (Qurtubi) A special note of caution That the battle of al-Ahzab and Banu Quraizah have been taken up here in a somewhat detailed manner is because of two factors. (1) First of all, the Qur&an has itself opted to describe it in details spread over two sections. (2) Then, there is another reason for it. These events carry many instructions about different departments of life and they also spell out many clear miracles and lessons. These have been highlighted in the text of the present commentary under bold headings. Once we come to know the whole event, the translation of the meanings of the verses given above under the Arabic text, along with the footnotes, would become easier to understand. There are a few things that should, however, be taken note of: Firstly, mention has been made of extreme hardships faced by Muslims in this battle. One state of the anxiety of believers has been pointed to in the words: تَظُنُّونَ بِاللَّـهِ الظُّنُونَا ( and you were thinking about Allah all sorts of thoughts. - 10) These thoughts refer to scruples that emerge in one&s heart beyond his control at the time of acute anxiety under which one may feel death as near with no hope of deliverance left, or at other occasions like that. Such non-voluntary apprehensions and scruples are neither contradictory of the perfection of &Iman (faith) nor that of one&s nearness to Allah (wilayah). Nevertheless, they do point out to the extent of the severity of distress and anxiety under which scruples had started creeping into the hearts of even the noble Sahabah who, otherwise, were virtual mountains of fortitude.

منافقین کی طعنہ زنی اور مسلمانوں کا بےنظیر یقین ایمانی : اس وقت جو منافقین خندق کی کھدائی میں شامل تھے، وہ کہنے لگے کہ تمہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات پر حیرت و تعجب نہیں ہوتا۔ وہ تمہیں کیسے باطل اور بےبنیاد وعدے سنا رہے ہیں کہ یثرب میں خندق کی گہرائی کے اندر انہیں حیرہ اور مدائن کسریٰ کے محلات نظر آ رہے ہیں، اور یہ کہ تم لوگ ان کو فتح کرو گے۔ ذرا اپنے حال کو تو دیکھو کہ تمہیں اپنے تن بدن کا تو ہوش نہیں، پیشاب پاخانے کی ضرورت پوری کرنے کی مہلت نہیں، تم ہو جو کسریٰ وغیرہ کے ملک کو فتح کرو گے۔ اس واقعہ پر آیات مذکور الصدر میں یہ نازل ہوا (آیت) اذایقول المنفقون والذین فی قلوبہم مرض ما وعدنا اللہ و رسولہ الاغروراً ، اس آیت میں الذین فی قلوبہم مرض میں بھی انہی منافقین کا حال بیان کیا گیا ہے جن کے دلوں میں نفاق کا مرض چھپا ہوا تھا۔ غور کیجئے کہ اس وقت مسلمانوں کے ایمان اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبر پر پورے یقین کا کیسا امتحان تھا کہ ہر طرف سے کفار کے نرغہ اور خطرے میں ہیں، خندق کھودنے کے لئے مزدور اور خادم نہیں، خود ہی محنت ایسی حالت میں برداشت کر رہے ہیں کہ سخت سردی نے سب کو پریشان کر رکھا ہے۔ ہر طرف خوف ہی خوف ہے۔ بظاہر اسباب اپنے بچاؤ اور بقاء پر یقین کرنا بھی آسان نہیں، دنیا کی عظیم سلطنت روم وکسریٰ کی فتوحات کی خوش خبری پر یقین کس طرح ہو ؟ مگر ایمان کی قیمت سب اعمال سے زیادہ اسی بنا پر ہے کہ اسباب و حالات کے سراسر خلاف ہونے کے وقت بھی ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد میں کوئی شک وشبہ پیدا نہ ہوا۔ واقعہ مذکورہ میں امت کے لئے خاص ہدایت کہ بڑوں کو چھوٹوں کی ہر تکلیف ومشقت میں شامل رہنا چاہئے : ایسے جاں نثار خادم تھے جو کسی حال میں یہ نہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی اس مزدور کی محنت شاقہ میں ان کے شریک ہوں۔ مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کی دل جوئی اور امت کی تعلیم کے لئے اس محنت و مزدوری میں برابر کا حصہ لیا۔ صحابہ کرام کی جانثاری، آپ کے اوصاف کمال اور نبوت و رسالت کی بنیاد پر تو تھی ہی، مگر ظاہر اسباب میں ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ ہر محنت و مشقت اور تنگی و تکلیف میں آپ سب عوام کی طرح ان میں شریک ہوتے تھے۔ حاکم و محکوم، بادشاہ و رعیت اور صاحب اقتدار عوام کی تفریق کا کوئی تصور وہاں نہ پیدا ہوتا۔ اور جب سے مخلوق اسلام نے اس سنت کو ترک کیا اس وقت سے یہ تفرقے پھوٹے، اور طرح طرح کے فتنے اپنے دامن میں لائے۔ مشکلات پر عبور حاصل کرنے کا نسخہ : واقعہ مذکورہ میں اس ناقابل تسخیر چٹان پر ضرب لگانے کے ساتھ آیت قرآن (آیت) تمت کلمة ربک صدقاً وعدلاً لا مبدل لکلمة تلاوت فرمائی، اس سے معلوم ہوا کہ کسی مشکل کو حل کرنے کے لئے اس آیت کی تلاوت ایک مجرب نسخہ ہے۔ صحابہ کرام کا ایثار اور تعاون و تناصر : اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ خندق کی کھدائی کے لئے ہر چالیس گز پر دس آدمی مامور تھے، مگر یہ ظاہر ہے کہ بعض لوگ قوی اور جلد کام کرلینے والے ہوتے ہیں۔ صحابہ کرام میں سے جن حضرات کا اپنا حصہ کھدائی کا پورا ہوجاتا تو یہ سمجھ کر خالی نہ بیٹھتے تھے کہ ہماری ڈیوٹی پوری ہوگئی، بلکہ دوسرے صحابہ جن کا حصہ ابھی مکمل نہیں ہوا تھا ان کی مدد کرتے تھے۔ (قرطبی، مظہری) ساڑھے تین میل لمبی خندق چھ دن میں مکمل ہوگئی : صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جدوجہد اور کوشش کا نتیجہ چھ روز میں سامنے آ گیا، کہ اتنی طویل اور چوڑی اور گہری خندق کی چھ روز میں تکمیل ہوگئی۔ (مظہری) حضرت جابر کی دعوت میں ایک کھلا ہوا معجزہ : اسی خندق کی کھدائی کے دوران وہ مشہور واقعہ پیش آیا کہ ایک روز حضرت جابر نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھ کر یہ محسوس کیا کہ بھوک کے سبب آپ متاثر ہو رہے ہیں اپنی اہلیہ سے جا کر کہا کہ تمہارے پاس کچھ ہو تو پکا لو، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھوک کا اثر دیکھا نہیں جاتا۔ اہلیہ نے بتلایا کہ ہمارے گھر میں ایک صاع بھر جو رکھے ہیں میں ان کو پیس کر آٹا بناتی ہوں۔ ایک صاع ہمارے وزن کے اعتبار سے تقریباً ساڑھے تین سیر کا ہوتا ہے۔ اہلیہ پیسنے پکانے میں لگی، گھر میں ایک بکری کا بچہ تھا حضرت جابر نے اس کو ذبح کر کے گوشت تیار کیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلانے کے لئے چلے۔ تو اہلیہ نے پکار کر کہا کہ دیکھئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بہت بڑا مجمع صحابہ کا ہے، صرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی طرح تنہا بلا لائیں، مجھے رسوا نہ کیجئے کہ صحابہ کرام کا بڑا مجمع چلا جائے۔ حضرت جابر نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوری حقیقت حال عرض کردی کہ صرف اتنا کھانا ہے، مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پورے لشکر میں اعلان فرما دیا کہ چلو جابر کے گھر دعوت ہے۔ حضرت جابر حیران تھے۔ گھر پہنچے تو اہلیہ نے سخت پریشانی کا اظہار کیا اور پوچھا کہ آپ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اصل حقیقت اور کھانے کی مقدار بتلا دی تھی ؟ جابر نے فرمایا کہ ہاں میں بتلا چکا ہوں تو اہلیہ محترمہ مطمئن ہوئیں کہ پھر ہمیں کچھ فکر نہیں، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مالک ہیں جس طرح چاہیں کریں۔ واقعہ کی تفصیل اس جگہ غیر ضروری ہے، اتنا نتیجہ معلوم کرلینا کافی ہے کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دست مبارک سے روٹی اور سالن سب کو دینے اور کھلانے کا اہتمام فرمایا، اور پورے لشکر نے شکم سیر ہو کر کھایا۔ اور حضرت جابر فرماتے ہیں کہ سب مجمع کے فارغ ہونے کے بعد بھی نہ ہماری ہنڈیا میں کچھ گوشت کم نظر آتا تھا اور نہ گوندھے ہوئے آٹے میں کوئی کمی معلوم ہوتی تھی۔ ہم سب گھروالوں نے بھی شکم سیر ہو کر کھایا باقی پڑوسیوں میں تقسیم کردیا۔ اس طرح چھ روز میں جب خندق سے فراغت ہوگئی تو احزاب کا لشکر آپہنچا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام نے جبل سلع کو اپنی پشت کی طرف رکھ کر فوج کی صف بندی کردی۔ یہود بنی قریظہ کی عہد شکنی اور احزاب کے ساتھ شرکت : اس وقت دس بارہ ہزار کے باسامان لشکر کے ساتھ تین ہزار بےسروسامان لوگوں کا مقابلہ بھی عقل و قیاس میں آنے کی چیز نہ تھی اس پر ایک اور نیا اضافہ ہوا کہ احزاب میں قبیلہ بنو نضیر کے سردار حیی بن اخطب نے جس نے سب کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کی دشمنی پر جمع کرنے میں بڑا کام کیا تھا، مدینہ پہنچ کر یہود کے قبیلہ بنو قریظہ کو بھی اپنے ساتھ ملانے کا منصوبہ بنایا۔ بنو قریظہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مابین ایک صلح نامہ پر دستخط ہوچکے تھے اور معاہدہ مکمل ہو کر ایک دوسرے سے بےفکر تھے۔ بنو قریظہ کا سردار کعب بن اسد تھا۔ حیی بن اخطب اس کے پاس پہنچا۔ جب کعب کو اس کے آنے کی خبر ملی تو اپنے قلعہ کا دروازہ بند کرلیا کہ حیی اس تک نہ پہنچ سکے۔ مگر حیی بن اخطب نے آوازیں دیں اور دروازہ کھولنے پر اصرار کیا۔ کعب نے اندر ہی سے جواب دے دیا کہ ہم تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صلح کرچکے ہیں، اور ہم نے آج تک ان کی طرف سے معاہدہ کی پابندی اور صدق و سچائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا، اس لئے ہم اس معاہدہ کے پابند ہیں، آپ کے ساتھ نہیں آسکتے۔ دیر تک حیی بن اخطب دروازہ کھولنے اور کعب سے باتیں کرنے پر اصرار کرتا رہا اور یہ اندر سے ہی انکار کرتا رہا۔ مگر بالآخر جب کعب کو بہت عار دلایا تو اس نے دروازہ کھول کر حیی کو بلایا اس نے بنو قریظہ کو وہ سبز باغ دکھائے کہ بالآخر کعب اس کی باتوں میں آ گیا اور احزاب میں شرکت کا وعدہ کرلیا۔ اور کعب نے جب اپنے قبیلہ کے دوسرے سرداروں کو یہ بات بتلائی تو سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ تم نے غضب کیا کہ مسلمانوں سے بلا وجہ عہد شکنی کی اور ان کے ساتھ لگ کر اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال دیا۔ کعب بھی ان کی بات سے متاثر ہوا اور اپنے کئے پر ندامت کا اظہار کیا۔ مگر اب بات اس کے قبضہ سے نکل چکی تھی اور بالآخر یہی عہد شکنی بنو قریظہ کی ہلاکت و بربادی کا سبب بنی جس کا ذکر آگے آئے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو اس کی اطلاع ملی تو اس وقت میں ان کی عہد شکنی سے سخت صدمہ پہنچا اور بہت بڑی فکر اس کی لاحق ہوگئی کہ احزاب کے راستہ پر تو خندق کھودی گئی تھی، مگر یہ لوگ تو مدینہ کے اندر تھے، ان سے بچاؤ کیسے ہو۔ قرآن کریم میں جو اس جملہ کے متعلق فرمایا ہے کہ لشکر احزاب کے کفار تم پر چڑھ آئے تھے (آیت) من فوقکم ومن اسفل منکم اس کی تفسیر میں بعض ائمہ تفسیر نے یہی فرمایا ہے کہ فوق کی جانب سے مراد بنو قریظہ ہیں اور اسفل سے آنے والے باقی احزاب ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عہد شکنی کی حقیقت اور صحیح صورت حال معلوم کرنے کے لئے انصار کے قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ اور قبیلہ خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ کو بصورت وفد کعب کے پاس بھیجا کہ اس سے گفتگو کریں اور یہ ہدایت دے دی کہ اگر عہد شکنی کا واقعہ غلط ثابت ہوا تو سب صحابہ کے سامنے کھل کر بیان کردینا اور صحیح ثابت ہو تو آ کر گول مول بات کہنا جس سے ہم سمجھ لیں اور عام صحابہ کرام میں سراسیمگی پیدا نہ ہو۔ یہ دونوں بزرگ سعد نامی وہاں پہنچے تو عہد شکنی کے سامان کھلے دیکھے۔ ان کے اور کعب کے درمیان سخت کلامی بھی ہوئی، واپس آ کر حسب ہدایت گول مول بات کہہ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عہد شکنی کا واقعہ صحیح ہونے سے باخبر کردیا۔ اس وقت جب کہ یہود کا قبیلہ بنو قریظہ جو مسلمانوں کا حلیف تھا وہ بھی برسر جنگ آ گیا تو جو نفاق کے ساتھ مسلمانوں میں شامل تھے ان کا نفاق بھی کھلنے لگا۔ بعض نے تو کھل کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف باتیں کہنا شروع کردیں، جیسا کہ اوپر گزرا (آیت) اذیقول المنفقون، اور بعض نے حیلے بہانے بنا کر میدان جنگ سے بھاگ جانے کے لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت مانگی جس کا ذکر آیات مذکورہ (ان بیوتنا عورة) میں آیا ہے۔ اب محاذ جنگ کی یہ صورت تھی کہ خندق کی وجہ سے احزاب کا لشکر اندر نہ آسکتا تھا۔ اس کے دوسرے کنارہ پر مسلمانوں کا لشکر تھا۔ دونوں میں ہر وقت تیر اندازی کا سلسلہ رہتا تھا۔ اسی حال میں تقریباً ایک مہینہ ہوگیا کہ نہ کھل کر کوئی فیصلہ کن جنگ ہوتی تھی اور نہ کسی وقت بےفکری، دن رات صحابہ کرام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خندق کے کنارے اس کی حفاظت کرتے تھے۔ اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی بنفس نفیس اس محنت ومشقت میں شریک تھے، مگر آپ پر یہ بات بہت شاق تھی کہ صحابہ کرام سب کے سب سخت اضطراب اور بےچینی میں ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک جنگی تدبیر : آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم میں یہ بات آ چکی ہے کہ قبیلہ غطفان کے رئیس نے ان یہودیوں کے ساتھ شرکت خیبر کے پھل اور کھجور کی طمع میں کی ہے۔ آپ نے غطفان کے دو سردار عیینہ ابن حصن اور ابو الحارث بن عمرو کے پاس قاصد بھیجا کہ ہمیں تمہیں مدینہ طیبہ کا ایک تہائی پھل دیں گے، اگر تم اپنے ساتھیوں کو لے کر میدان سے واپس چلے جاؤ۔ یہ گفتگو درمیان میں تھی اور دونوں سردار راضی ہوچکے تھے قریب تھا کہ معاہدہ صلح پر دستخط ہوجائیں، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حسب عادت ارادہ کیا کہ صحابہ کرام سے اس معاملہ میں مشورہ لیں۔ قبیلہ اوس و خزرج کے دو بزرگ سعدین یعنی سعد بن عبادہ اور سعد بن معاذ کو بلا کر ان سے مشورہ لیا۔ حضرت سعد کی غیرت ایمانی اور عزم شدید : دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ کو اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا ہے تو ہمارے کچھ کہنے کی مجال نہیں ہم قبول کریں گے ورنہ بتائیں کہ یہ آپ کی طبعی رائے ہے۔ یا آپ نے ہمیں مشقت و تکلیف سے بچانے کے لئے یہ تدبیر کی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نہ امر الٰہی اس کا ہے، اور نہ میری اپنی طبیعت کا تقاضا ہے بلکہ صرف تمہاری مصیبت و تکلیف کو دیکھ کر یہ صورت اختیار کی ہے، کیونکہ تم لوگ ہر طرف سے گھرے ہوئے ہو۔ میں نے چاہا فریق مقابل کی قوت کو اس طرح فوراً توڑ دیا جائے۔ حضرت سعد بن معاذ نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم جس وقت بتوں کو پوجتے تھے اللہ تعالیٰ کو نہ پہچانتے تھے نہ اس کی عبادت کرتے تھے، بجز اس کے کہ وہ ہمارے مہمان ہوں، اور مہمانی کے طور پر ہم ان کو کھلا دیں یا پھر ہم سے خرید کرلے جائیں۔ آج جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی معرفت عطا فرمائی اور اسلام کا اعزاز عطا فرمایا، کیا آج ہم ان لوگوں کو اپنا پھل اور اپنے اموال دے دیں گے، ہمیں ان کی مصالحت کی کوئی حاجت نہیں، ہم تو ان کو تلوار کے سوا کچھ نہیں دیں گے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما دیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد کی اولوالعزمی اور غیرت ایمانی کو دیکھ کر اپنا یہ ارادہ چھوڑ دیا اور فرمایا کہ تمہیں اختیار ہے جو چاہو کرو۔ سعد نے صلح نامہ کا کاغذ ان کے ہاتھوں سے لے کر تحریر مٹا دی، کیونکہ ابھی اس پر دستخط نہیں ہوئے تھے۔ غطفان کے سردار عیینہ اور حارث جو خود اس صلح کے لئے تیار ہو کر مجلس میں موجود تھے، صحابہ کرام کی یہ قوت وشدت دیکھ کر خود بھی اپنے دلوں میں متزلزل ہوگئے۔ حضرت سعد بن معاذ کا زخمی ہونا اور ان کی دعا : ادھر خندق کے دونوں طرفوں سے تیر اندازی اور پتھراؤ کا سلسلہ جاری رہا۔ حضرت سعد بن معاذ، بنی حارثہ کے قلعہ میں جہاں عورتوں کو محفوظ کردیا گیا تھا، اپنی والدہ کے پاس گئے تھے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں بھی اس وقت اسی قلعہ میں تھی، اور عورتوں کے پردے کے احکام اس وقت تک نہ آئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ سعد بن معاذ ایک چھوٹی زرہ پہنے ہوئے ہیں جس میں سے ان کے ہاتھ نکل رہے تھے اور ان کی والد ان سے کہہ رہی ہیں کہ جاؤ جلدی کرو، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لشکر میں شامل ہوجاؤ۔ میں نے ان کی والدہ سے کہا کہ ان کے لئے کوئی بڑی زرہ ہوتی تو بہتر تھا۔ مجھے ان کے ہاتھ پاؤں کا خطرہ ہے، جو زرہ سے نکلے ہوئے ہیں۔ والدہ نے کہا کچھ مضائقہ نہیں اللہ کو جو کچھ کرنا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔ حضرت سعد بن معاذ لشکر میں پہنچے تو ان کو تیر لگا جس نے ان کی رگ الحل کو کاٹ ڈالا۔ اس وقت حضرت سعد نے یہ دعا کی کہ یا اللہ اگر آئندہ بھی قریش کا کوئی حملہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ پر ہونا مقدر ہے تو مجھے اس کے لئے زندہ رکھئے، کیونکہ اس سے زیادہ میری کوئی تمنا نہیں کہ میں اس قوم سے مقابلہ کروں جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذائیں پہنچائیں، وطن سے نکالا اور آپ کی تکذیب کی۔ اور اگر آئندہ آپ کے علم میں جنگ کا یہ سلسلہ ختم ہوچکا ہے تو آپ مجھے موت شہادت عطا فرمائیں، مگر اس وقت تک مجھے موت نہ آئے جب تک کہ بنی قریظہ سے ان کی غداری کا انتقام لے کر میری آنکھیں ٹھنڈی نہ ہوجائیں۔ حق تعالیٰ نے آپ کی یہ دونوں دعائیں قبول فرمائیں۔ اس واقعہ احزاب کو کفار کا آخری حملہ بنادیا۔ اس کے بعد مسلمانوں کی فتوحات کا دور شروع ہوا۔ پہلے خیبر پھر مکہ مکرمہ اور پھر دوسرے بلاد فتح ہوئے۔ اور بنو قریظہ کا واقعہ آگے آتا ہے کہ وہ گرفتار کر کے لائے گئے اور ان کے معاملہ کا فیصلہ حضرت سعد بن معاذ ہی کے سپرد کیا گیا۔ ان کے فیصلہ کے مطابق ان کے جوان قتل کئے گئے اور عورتیں بچے قید کر لئے گئے۔ اس واقعہ احزاب میں صحابہ کرام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رات بھر خندق کی دیکھ بھال کرنی پڑتی تھی۔ اگر کسی وقت آرام کے لئے لیٹے بھی تو ذرا کسی طرف سے شورو شغب کی آواز آئی تو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلحہ باندھ کر میدان میں جاتے تھے۔ حضرت ام سلمہ ام المومنین فرماتی ہیں کہ ایک رات میں کئی کئی مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ آپ ذرا آرام کرنے کے لئے تشریف لائے اور کوئی آواز سنی تو فوراً باہر تشریف لے گئے، پھر آرام کے لئے ذرا کمر لگائی اور پھر کوئی آواز سنی تو باہر تشریف لے گئے۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں بہت سے غزوات غزوہ مریسیع، خیبر، حدیبیہ، فتح مکہ اور غزوہ حنین میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہی ہوں، آپ پر کسی غزوہ میں ایسی شدت اور مشقت نہیں ہوئی، جیسی غزوہ خندق میں پیش آئی۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کو زخم بھی بہت لگے، سردی کی شدت سے بھی تکلیف اٹھائی، اس کے ساتھ کھانے پینے کی ضروریات میں بھی تنگی تھی۔ (مظہری) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چار نمازیں اس جہاد میں قضا ہوئیں : ایک روز مقابل کفار نے یہ طے کیا کہ سب مل کر یکبارگی حملہ کرو اور کسی طرح خندق کو عبور کر کے آگے پہنچو۔ یہ طے کر کے بڑی بےجگری سے مسلمانوں کے مقابلہ میں آگئے، اور سخت تیز اندازی کی۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو دن بھر ایسا مشغول رہنا پڑا کہ نماز کے لئے بھی ذرا سی مہلت نہ ملی، چار نمازیں عشاء کے وقت میں پڑھی گئیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعاء جب مسلمانوں پر شدت کی انتہا ہوگئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احزاب کفار کے لئے بد دعا کی اور تین روز پیر، منگل، بدھ میں مسجد فتح کے اندر مسلسل احزاب کی شکست و فرار اور مسلمانوں کی فتح کے لئے دعا کرتے رہے۔ تیسرے روز بدھ کے دن ظہر و عصر کے درمیان دعا قبول ہوئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاداں وفرحاں صحابہ کرام کے پاس تشریف لائے۔ فتح کی بشارت سنائی۔ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ اس وقت کے بعد سے کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پیش نہیں آئی۔ (مظہری) کشود کار اور فتح کے اسباب کا آغاز : دشمنوں کی صفوف میں قبیلہ غطفان ایک بڑی طاقت تھی۔ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ نے انہی میں سے ایک شخص نعیم ابن مسعود کے دل میں ایمان ڈال دیا، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر انہوں نے اپنے اسلام کا اظہار کیا۔ اور بتلایا کہ ابھی تک میری قوم میں سے کسی کو یہ معلوم نہیں کہ میں مسلمان ہوچکا ہوں، اب مجھے فرمائیں کہ میں اسلام کی کیا خدمت کروں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم اکیلے آدمی یہاں کوئی خاص کام نہ کرسکو گے، اپنی قوم میں واپس جا کر انہی میں مل کر اسلام سے مدافعت کا کوئی کام کرسکو تو کرو۔ نعیم ابن مسعود ذہین سمجھدار آدمی تھے۔ ایک منصوبہ دل میں بنا لیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی اجازت چاہی کہ میں ان لوگوں میں جا کر جو مصلحت دیکھوں کہوں آپ نے اجازت دے دی۔ نعیم بن مسعود یہاں سے بنو قریظہ کے پاس گئے جن کے ساتھ زمانہ جاہلیت میں ان کے قدیم تعلقات تھے۔ ان سے کہا کہ اے بنو قریظہ تم جانتے ہو کہ میں تمہارا قدیم دوست ہوں۔ انہوں نے اقرار کیا کہ ہمیں آپ کی دوستی میں کوئی شبہ نہیں، اس کے بعد حضرت نعیم ابن مسعود نے بنو قریظہ کے سرداروں سے ناصحانہ اور خیر خواہانہ انداز میں سوال کیا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ قریش مکہ ہوں یا ہمارا قبیلہ غطفان یا دوسرے قبائل یہود وغیرہ، ان کا یہاں وطن نہیں، یہ اگر شکست کھا کر بھاگ جائیں تو ان کا کوئی نقصان نہیں، تمہارا معاملہ ان سب سے مختلف ہے۔ مدینہ تمہارا وطن ہے، تمہاری عورتیں اور اموال سب یہاں ہیں۔ اگر تم نے ان لوگوں کے ساتھ جنگ میں شرکت کی اور بعد میں یہ لوگ شکست کھا کر بھاگ گئے، تو تمہارا کیا بنے گا، کیا تم تنہا مسلمانوں کا مقابلہ کرسکو گے ؟ اس لئے میں تمہاری خیر خواہی سے یہ مشورہ دیتا ہوں کہ تم لوگ ان کے ساتھ اس وقت تک شریک جنگ نہ ہو جب تک یہ لوگ اپنے خاص سرداروں کی ایک خاص تعداد تمہارے پاس رہن نہ رکھ دیں تاکہ وہ تم کو مسلمانوں کے حوالہ کر کے نہ بھاگ جائیں بنو قریظہ کو ان کا یہ مشورہ بہت اچھا معلوم ہوا، اس کی قدر کی اور کہا کہ آپ نے بہت اچھا مشورہ دیا۔ اس کے بعد نعیم بن مسعود قریشی سرداروں کے پاس پہنچے، اور ان سے کہا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ میں آپ کا دوست ہوں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بری ہوں، مجھے ایک خبر ملی ہے تمہاری خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ میں وہ خبر تمہیں پہنچا دوں بشرطیکہ آپ لوگ میرے نام کا اظہار نہ کریں۔ وہ خبر یہ ہے کہ یہود بنی قریظہ تمہارے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد اپنے فیصلہ پر نادم ہوئے اور اس کی اطلاع محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یہ کہہ کر بھیج دی ہے کہ کیا آپ ہم سے اس شرط پر راضی ہو سکتے ہیں کہ ہم قریش اور غطفان کے چند سرداروں کو آپ کے حوالے کردیں کہ آپ ان کی گردن مار دیں، پھر ہم آپ کے ساتھ مل کر ان سے جنگ کریں۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی بات کو قبول کرلیا ہے۔ اب بنو قریظہ تم سے بطور رہن کے تمہارے کچھ سرداروں کا مطالبہ کریں گے، اب آپ لوگ اپنے معاملہ کو سوچ لیں۔ اس کے بعد نعیم ابن مسعود اپنے قبیلہ غطفان میں گئے، اور ان کو یہی خبر سنائی۔ اس کے ساتھ ہی ابو سفیان نے قریش کی طرف سے عکرمہ بن ابی جہل کو اور غطفان کی طرف سے ورقہ ابن غطفان کو اس کام کے لئے مقرر کیا کہ وہ بنو قریظہ سے جا کر کہیں کہ اب ہمارا سامان جنگ بھی ختم ہو رہا ہے، اور ہمارے آدمی بھی مسلسل جنگ سے تھک رہے ہیں، ہم آپ کے معاہدے کے مطابق آپ کی امداد اور شرکت کے منتظر ہیں۔ بنو قریظہ نے ان کو اپنی قرار داد کے مطابق یہ جواب دیا کہ ہم تمہارے ساتھ جنگ میں اس وقت تک شریک نہیں ہوں گے جب تک تم دونوں قبیلوں کے چند سردار ہمارے پاس بطور رہن (یرغمال) کے نہ پہنچ جائیں۔ عکرمہ اور ورقہ نے یہ خبر ابوسفیان کو پہنچا دی تو قریش اور غطفان کے سرداروں نے یقین کرلیا کہ نعیم بن مسعود نے جو خبر دی تھی وہ صحیح ہے۔ اور بنو قریظہ سے کہلا بھیجا کہ ہم ایک آدمی بھی اپنا آپ کو نہیں دیں گے، پھر آپ کا دل چاہے تو ہمارے ساتھ جنگ میں شرکت کریں اور نہ چاہیں تو نہ کریں۔ بنو قریظہ کا یہ حال دیکھ کر اس بات پر جو نعیم ابن مسعود نے کہی تھی اور زیادہ یقین ہوگیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے دشمن گروہ میں سے ایک شخص کے ذریعہ ان کے آپس میں پھوٹ ڈال دی اور ان لوگوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ اس کے ساتھ دوسری آسمانی افتاد ان پر یہ آئی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک سخت اور برفانی ہوا ان پر مسلط کردی، جس نے ان کے خیمے اکھاڑ پھینکے، ہنڈیاں چولہوں سے اڑا دیں۔ یہ تو ظاہری اسباب اللہ تعالیٰ نے ان کے پاؤں اکھاڑنے کے لئے پیدا فرما دیئے تھے اس پر مزید اپنے فرشتے بھیج دیئے جو باطنی طور پر ان کے دلوں پر رعب طاری کردیں، ان دونوں باتوں کا ذکر آیات مذکورہ کے شروع میں بھی اس طرح فرمایا گیا ہے (آیت) فارسلنا علیہم ریحاً وجنوداً ثم تروھا، ” یعنی ہم نے بھیج دی ان کے اوپر ایک تندرست ہوا اور بھیج دیئے فرشتوں کے لشکر “ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اب ان لوگوں کے لئے بھاگ کھڑے ہونے کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔ حضرت حذیفہ کا دشمن کے لشکر میں جانے اور خبر لانے کا واقعہ : دوسری طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نعیم ابن مسعود کی کارگزاری اور احزاب کے درمیان پھوٹ کے واقعات کی خبر ملی تو ارادہ فرمایا کہ اپنا کوئی آدمی جا کر دشمن کے لشکر اور ان کے ارادوں کا پتہ لائے۔ مگر وہ سخت برفانی ہوا جو دشمن پر بھیجی گئی تھی بہرحال پورے مدینہ پر حاوی ہوئی، اور مسلمان بھی اس سخت سردی سے متاثر ہوئے۔ رات کا وقت تھا، صحابہ کرام دن بھر کی محنت و مقابلہ سے چور چور سخت سردی کے سبب سمٹے ہوئے بیٹھے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجمع کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کون ہے جو کھڑا ہو اور دشمن کے لشکر میں جا کر ان کی خبر لائے، اور اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل فرمائے، جاں نثار صحابہ کا مجمع تھا مگر حالات نے ایسا مجبور کر رکھا تھا کہ کوئی کھڑا نہیں ہوسکا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں مشغول ہوگئے اور کچھ دیر نماز میں مشغول رہنے کے بعد پھر مجمع کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہے کوئی شخص جو دشمن کے لشکر کی مجھے خبر لا دے اور اس کے عوض میں جنت حاصل کرے۔ اس مرتبہ بھی پورے مجمع میں سناٹا رہا، کوئی نہیں اٹھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر نماز میں مشغول ہوگئے اور کچھ دیر کے بعد پھر تیسری مرتبہ وہی خطاب فرمایا کہ جو ایسا کرے گا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ مگر پوری قوم دن بھر کے سخت تھکان اور کئی وقت کے فاقہ اور بھوک سے اور اوپر سے سردی کی شدت سے ایسی بےبس ہو رہی تھی کہ پھر بھی کوئی نہ اٹھا۔ حضرت حذیفہ بن یمان راوی حدیث فرماتے ہیں کہ اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا نام لے کر فرمایا کہ حذیفہ تم جاؤ۔ حالت میری بھی سب جیسی تھی، مگر نام لے کر حکم دینے پر اطاعت کے سوا چارہ نہ تھا۔ میں کھڑا ہوگیا، اور سردی سے میرا تمام بدن کانپ رہا تھا۔ آپ نے اپنا دست مبارک میرے سر اور چہرے پر پھیرا اور فرمایا کہ دشمن کے لشکر میں جاؤ اور مجھے صرف خبر لا کردو اور میرے پاس واپس آنے سے پہلے کوئی کام نہ کرو۔ اور پھر آپ نے میری حفاظت کے لئے دعا فرمائی۔ میں نے اپنی تیر کمان اٹھائی اور اپنے کپڑے اپنے اوپر باندھ لئے اور ان کی طرف روانہ ہوگیا۔ جب یہاں سے روانہ ہوا تو عجیب ماجرا یہ دیکھا کہ خیمے کے اندر بیٹھے ہوئے جو سردی سے کپکپی طاری تھی وہ ختم ہوگئی، اور میں اس طرح چل رہا تھا جیسے کوئی گرم حمام کے اندر ہو، یہاں تک کہ میں ان کے لشکر میں پہنچ گیا۔ میں نے دیکھا کہ ہوا کے طوفان نے ان کے خیمے اکھاڑ دیئے تھے اور ہانڈیاں الٹ دی تھیں۔ ابو سفیان آگ کے پاس بیٹھ کر آگ سینک رہے تھے۔ میں نے یہ دیکھ کر اپنا تیر کمان مستحکم کیا اور ابوسفیان پر تیر پھینکنے ہی والا تھا کہ مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان یاد آ گیا۔ کہ کچھ کام وہاں سے واپس آنے تک نہ کرنا۔ ابو سفیان بالکل میری زد میں تھے، مگر اس فرمان کی بنا پر میں نے اپنا تیر الگ کرلیا۔ ابوسفیان حالات سے پریشان ہو کر واپسی کا اعلان کرنا چاہتے تھے، مگر اس کے لئے ضروری تھا کہ قوم کے ذمہ داروں سے بات کریں۔ رات کی تاریکی اور سناٹے میں یہ خطرہ بھی تھا کہ کوئی جاسوس موجود ہو اور ان کی بات سن لے۔ اس لئے ابو سفیان نے یہ ہوشیاری کی کہ بات کرنے سے پہلے سارے مجمع کو کہا کہ ہر شخص اپنی برابر والے آدمی کو پہچان لے تاکہ کوئی غیر آدمی ہماری بات نہ سن سکے۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ اب مجھے خطرہ ہوا کہ میری برابر کا آدمی جب مجھ سے پوچھے گا کہ تو کون ہے ؟ تو میرا راز کھل جائے گا۔ انہوں نے بڑی ہوشیاری اور دلیری سے خود مسابقت کر کے اپنے برابر والے آدمی کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر پوچھا تم کون ہو ؟ اس نے کہا تعجب ہے تم مجھے نہیں جانتے، میں فلاں ابن فلاں ہوں۔ وہ قبیلہ ہوازن کا آدمی تھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت حذیفہ کو گرفتاری سے بچا دیا۔ ابو سفیان نے جب یہ اطمینان کرلیا کہ مجمع اپنا ہی ہے، کوئی غیر نہیں ہے تو اس نے پریشان کن حالات اور بنو قریظہ کی بد عہدی اور سامان جنگ ختم ہوجانے کے واقعات سنا کر کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ اب آپ سب واپس چلیں اور میں بھی واپس جا رہا ہوں اسی وقت لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور سب واپس جانے لگے۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ میں یہاں سے واپس چلا تو ایسا محسوس ہوا کہ میرے گرد کوئی گرم حمام ہے جو مجھے سردی سے بچا رہا ہے۔ واپس پہنچا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز میں مشغول پایا۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو میں نے واقعہ کی خبر دی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس خبر مسرت سے خوش ہو کر ہنسنے لگے۔ یہاں تک کہ رات کی تاریکی میں آپ کے دندان مبارک چمکنے لگے۔ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اپنے قدموں میں جگہ دی اور جو چادر آپ اوڑھے ہوئے تھے اس کا ایک حصہ مجھ پر ڈال دیا، یہاں تک کہ میں سو گیا۔ جب صبح ہوگئی تو آپ نے ہی یہ کہہ کر مجھے بیدار فرمایا کہ قم یا نومان، ” کھڑا ہوجا اے بہت سونے والے “ آئندہ کفار کے حوصلے پست ہوجانے کی خوشخبری : صحیح بخاری میں حضرت سلیمان بن صرد کی روایت ہے کہ احزاب کے واپس جانے کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ” یعنی اب وہ ہم پر حملہ آور نہ ہوں گے بلکہ ہم ان پر حملہ کریں گے اور ان کے ملک پر چڑھائی کریں گے “ (مظہری) یہ ارشاد فرمانے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام شہر مدینہ میں واپس آگئے، اور ایک مہینہ کے بعد مسلمانوں نے اپنے ہتھیار کھولے۔ تنبیہ : حضرت حذیفہ (رض) کا یہ واقعہ صحیح مسلم میں ہے اور یہ مستقلاً ایک درس عبرت ہے، جو بہت سی ہدایات اور معجزات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مشتمل ہے۔ غور کرنے والے خود معلوم کرلیں گے، تفصیل لکھنے کی ضرورت نہیں۔ غزوہ بنو قریظہ : ابھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام مدینہ میں واپس پہنچے ہی تھے کہ اچانک جبرائیل امین (علیہ السلام) حضرت دحیہ کلبی صحابی کی صورت میں تشریف لائے اور فرمایا کہ اگرچہ آپ لوگوں نے اپنے ہتھیار کھول دیئے ہیں مگر فرشتوں نے اپنے ہتھیار نہیں کھولے، اللہ تعالیٰ کا آپ کو یہ حکم ہے کہ آپ بنو قریظہ پر حملہ کریں اور میں آپ سے آگے وہیں جا رہا ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ میں اعلان کرنے کے لئے ایک منادی بھیج دی جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ حکم لوگوں کو سنایا اور پہنچایا۔ لایصلین احد العصر الا فی بنی قریظة، ” یعنی کوئی آدمی عصر کی نماز نہ پڑھے جب تک کہ بنو قریظہ میں نہ پہنچ جائے۔ “ صحابہ کرام سب کے سب اس دوسرے جہاد کے لئے فوراً تیار ہو کر بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستہ میں عصر کا وقت آیا تو بعض حضرات نے حکم نبوی کے ظاہر کے موافق راستہ میں نماز عصر ادا نہیں کی، بلکہ منزل مقرر بنو قریظہ میں پہنچ کر ادا کی۔ اور بعض نے یہ سمجھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقصد عصر کے وقت میں بنو قریظہ پہنچ جانا ہے، ہم اگر نماز راستہ میں پڑھ کر عصر کے وقت میں وہاں پہنچ جائیں تو یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے منافی نہیں۔ انہوں نے نماز عصر اپنے وقت پر راستہ میں ادا کرلی۔ مجتہدین کے اختلاف میں کوئی جانب گناہ یا منکر نہیں ہوتی جس پر ملامت کی جائے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ کرام کے اس اختلاف عمل کی خبر دی گئی، تو آپ نے دونوں فریق میں سے کسی کو ملامت نہیں فرمائی، بلکہ دونوں کی تصویب فرمائی۔ اس سے علماء امت نے یہ اصول اخذ کیا ہے کہ علمائے مجتہدین جو حقیقتاً مجتہد ہوں اور اجتہاد کی صلاحیت رکھتے ہوں ان کے اقوال مختلفہ میں سے کسی کو گناہ اور منکر نہیں کہا جاسکتا، دونوں فریقوں کے لئے اپنے اپنے اجتہاد پر عمل کرنے میں ثواب لکھا جاتا ہے۔ بنو قریظہ سے جہاد کے لئے نکلنے کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جھنڈا حضرت علی مرتضیٰ (رض) کے سپرد فرمایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے آنے کی خبر سن کر بنو قریظہ قلعہ بند ہوگئے۔ اسلامی لشکر نے قلعہ کا محاصرہ کرلیا۔ بنو قریظہ کے رئیس کعب کی تقریر : بنو قریظہ کا سردار کعب جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عہد توڑ کر احزاب کے ساتھ معاہدہ کیا تھا، اس نے اپنی قوم کو جمع کر کے حالات کی نزاکت بیان کرتے ہوئے تین صورتیں عمل کی پیش کیں : اول یہ کہ تم سب کے سب اسلام قبول کرو اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع ہوجاؤ کیونکہ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم سب لوگ جانتے ہو کہ وہ حق پر ہیں، اور تمہاری کتاب تورات میں ان کی پیشن گوئی موجود ہے، جو تم پڑھتے ہو۔ اگر تم نے ایسا کرلیا تو دنیا میں اپنی جان و مال اور اولاد کو محفوظ کرلو گے اور آخرت بھی درست ہوجائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تم اپنی اولاد اور عورتوں کو پہلے خود اپنے ہاتھ سے قتل کردو، اور پھر پوری طاقت سے مقابلہ کرو یہاں تک کہ تم بھی سب مقتول ہوجاؤ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ یوم السبت (ہفتہ کے دن) تم مسلمانوں پر یکبارگی حملہ کردو، کیونکہ مسلمان جانتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں یوم السبت میں قتل حرام ہے، اس لئے وہ ہماری طرف سے اس دن میں بےفکر ہوں گے، ہم ناگہانی طور پر حملہ کریں تو ممکن ہے کہ کامیاب ہوجائیں۔ کعب رئیس قوم کی یہ تقریر سن کر قوم کے لوگوں نے جواب دیا کہ پہلی بات یعنی مسلمان ہوجانا یہ تو ہم ہرگز قبول نہیں کریں گے، کیونکہ ہم تورات کو چھوڑ کر اور کسی کتاب کو نہ مانیں گے۔ رہی دوسری بات تو عورتوں بچوں نے کیا قصور کیا ہے کہ ہم ان کو قتل کردیں۔ باقی تیسری بات خود حکم تورات اور ہمارے مذہب کے خلاف ہے، یہ بھی ہم نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد سب نے اس پر اتفاق کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہتھیار ڈال دیں اور آپ ان کے بارے میں جو فیصلہ فرما دیں اس پر راضی ہوجائیں۔ انصاری صحابہ کرام میں جو لوگ قبیلہ اوس سے متعلق تھے ان کے اور بنو قریظہ کے درمیان قدیم زمانے میں معاہدہ رہا تھا تو اوسی صحابہ کرام نے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں کو ہمارے حوالے کردیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کیا تم اس پر راضی ہو کہ میں ان کا معاملہ تمہارے ہی ایک سردار کے سپرد کر دوں۔ یہ لوگ اس پر راضی ہوگئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ تمہارے سردار سعد بن معاذ ہیں، اس کا فیصلہ میں ان کے سپرد کرتا ہوں۔ اس پر سب لوگ راضی ہوگئے۔ حضرت سعد بن معاذ کو واقعہ خندق میں تیر کا زخم شدید پہنچا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی تیمار داری کے لئے مسجد کے احاطہ میں ایک خیمہ لگوا کر اس میں ٹھہرا دیا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق بنو قریظہ کے قیدیوں کا فیصلہ ان پر چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ ان میں سے جو جنگ کرنے والے جوان ہیں وہ قتل کردیئے جائیں اور عورتوں، بچوں، بوڑھوں کے ساتھ جنگی قیدیوں کا معاملہ کیا جائے جو اسلام میں معروف ہے۔ یہی فیصلہ نافذ کردیا گیا، اور اس فیصلے کے فوراً بعد ہی حضرت سعد بن معاذ کے زخم سے خون بہہ پڑا، اسی میں ان کی وفات ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دونوں دعائیں قبول فرمائیں ایک یہ کہ آئندہ قریش کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی حملہ نہ ہوگا، دوسرے بنو قریظہ کی غداری کی سزا ان کو مل جائے وہ اللہ نے انہی کے ذریعہ دلوا دی۔ جن کو قتل کرنا تجویز ہوا تھا ان میں سے بعض مسلمان ہوجانے کی وجہ سے آزاد کردیئے۔ عطیہ قرظی جو صحابہ کرام میں معروف ہیں انہی لوگوں میں سے ہیں۔ انہی لوگوں میں زبیر بن باطا بھی تھے۔ ان کو حضرت ثابت بن قیس بن شماس صحابی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کر کے آزاد کرا دیا، جس کا سبب یہ تھا کہ زبیر بن باطا نے ان پر زمانہ جاہلیت میں ایک احسان کیا تھا۔ وہ یہ کہ جاہلیت کے زمانے کی جنگ بعاث میں ثابت بن قیس قید ہو کر زبیر بن باطا کے قبضہ میں آگئے تھے، زبیر بن باطا نے ان کے سر کے بال کاٹ کر ان کو آزاد کردیا قتل نہیں کیا تھا۔ احسان کے بدلے اور غیرت قومی کے دو عجیب نمونے : حضرت ثابت بن قیس زبیر بن باطا کی رہائی کا حکم حاصل کر کے ان کے پاس گئے اور کہا کہ میں نے یہ اس لئے کیا ہے کہ تمہارے اس احسان کا بدلہ کر دوں، جو تم نے جنگ بعاث میں مجھ پر کیا تھا۔ زبیر بن باطا نے کہا کہ بیشک شریف آدمی دوسرے شریف کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیا کرتا ہے۔ مگر یہ تو بتلاؤ کہ وہ آدمی زندہ رہ کر کیا کرے گا جس کے اہل و عیال نہ رہے ہوں۔ یہ سن کر ثابت بن قیس حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ان کے اہل و عیال کی جان بخشی کردی جائے، آپ نے قبول فرما لیا۔ زبیر بن باطا کو اس کی اطلاع دی تو یہ ایک قدم اور آگے بڑھے۔ کہ ثابت یہ تو بتلاؤ کہ کوئی انسان صاحب عیال کیسے زندہ رہے گا جب اس کے پاس کوئی مال نہ ہو۔ ثابت بن قیس پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور ان کا مال بھی ان کو دلوا دیا۔ یہاں تک تو ایک مومن کی شرافت اور احسان شناسی کا قضیہ تھا جو حضرت ثابت بن قیس کی طرف سے ہوا۔ اب دوسرا رخ سنئے کہ زبیر بن باطا کو جب اپنے اور اپنے اہل و عیال کی آزادی اور اپنے مال و متاع سب واپس مل جانے کا اطمینان ہوچکا تو اس نے حضرت ثابت بن قیس سے قبائل یہود کے سرداروں کے متعلق سوال کیا اور پوچھا کہ ابن ابی الحقیق کا کیا ہوا جس کا چہرہ چینی آئینہ جیسا تھا۔ انہوں نے بتلایا کہ وہ قتل کردیا گیا۔ پھر پوچھا کہ بنی قریظہ کے سردار کعب بن قریظہ اور عمرو بن قریظہ کا کیا انجام ہوا ؟ انہوں نے بتلایا کہ یہ دونوں بھی قتل کردیئے گئے، پھر دو جماعتوں کے متعلق سوال کیا اس کے جواب میں ان کو خبر دی گئی کہ وہ سب قتل کردیئے گئے۔ یہ سن کر زبیر بن باطا نے حضرت ثابت بن قیس سے کہا کہ آپ نے اپنے احسان کا بدلہ پورا کردیا، اور اپنی ذمہ داری کا حق ادا کردیا، مگر میں اب اپنی زمین جائیداد کو ان لوگوں کے بعد آباد نہیں کروں گا، مجھے بھی انہی لوگوں کے ساتھ شامل کردو، یعنی قتل کر ڈالو۔ ثابت بن قیس نے اس کو قتل کرنے سے انکار کردیا، پھر اس کے اصرار پر کسی دوسرے مسلمان نے اس کو قتل کیا۔ (قرطبی) یہ ایک کافر کی غیرت قومی تھی جس نے سب کچھ ملنے کے بعد اپنے ساتھیوں کے بغیر زندہ رہنا پسند نہ کیا، ایک مومن ایک کافر کے یہ دونوں عمل ایک تاریخی یادگار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بنو قریظہ کی یہ فتح ہجرت کے پانچویں سال میں ماہ ذی قعدہ کے آخر اور ذی الحجہ کے شروع میں ہوئی ہے۔ (قرطبی) تنبیہ : غزوہ احزاب و بنو قریظہ کو اس جگہ کسی قدر تفصیل سے لانے کی ایک وجہ تو خود قرآن کریم کا ان کو تفصیل سے دو رکوع میں بیان فرمانا ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ان واقعات میں زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق بہت سی ہدایات اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات بینات اور بہت سی عبرتیں ہیں، جن کو اس قصے میں عنوانات دے کر واضح کردیا گیا ہے۔ اس پورے واقعہ کے معلوم کرلینے کے بعد آیات مذکورہ کی تفسیر کے لئے خلاصہ تفسیر مذکور کا دیکھ لینا کافی ہے، کسی مزید تشریح کی ضرورت نہیں رہتی، صرف چند باتیں قابل نظر ہیں۔ اول یہ کہ اس غزوہ میں مسلمانوں پر شدت اور مختلف قسم کی تکلیفوں میں مبتلا ہونے کا ذکر فرما کر اس اضطراب کے عالم میں ایک حال تو مومنین کا بتلایا گیا ہے کہ تظنون باللہ الظنونا، یعنی تم لوگ اللہ کے ساتھ مختلف قسم کے گمان کرنے لگے تھے۔ ان گمانوں سے مراد غیر اختیاری وساوس ہیں جو اضطراب کے وقت انسان کے دل میں آیا کرتے ہیں کہ موت اب آ ہی گئی، اب نجات کی صورت نہیں رہی وغیرہ وغیرہ۔ ایسے غیر اختیاری خطرات و وساوس نہ کمال ایمانی کے منافی ہیں نہ کمال ولایت کے۔ البتہ ان سے مصیبت و اضطراب کی شدت کا ضرور پتہ لگتا ہے۔ کہ صحابہ کرام جیسے جبل استقامت کے دلوں میں بھی وسوسے آنے لگے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا۝ ١٢ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ نِّفَاقُ ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة/ 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] ونَيْفَقُ السَّرَاوِيلِ معروفٌ نا فقاء الیربوع ہے یعنی جنگلی چوہے کا بل جس کے دود ھا نے ہوں نافق الیر بوع ونفق جنگی چوہیا اپنے مل کے دہانے سے داخل ہو کر دوسرے سے نکل گئی اور اسی سے نفاق ہے جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَالنَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ نیفق السراویل پا جامے کا نیفہ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ مرض الْمَرَضُ : الخروج عن الاعتدال الخاصّ بالإنسان، وذلک ضربان : الأوّل : مَرَضٌ جسميٌّ ، وهو المذکور في قوله تعالی: وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور/ 61] ، وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة/ 91] . والثاني : عبارة عن الرّذائل کالجهل، والجبن، والبخل، والنّفاق، وغیرها من الرّذائل الخلقيّة . نحو قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] ، أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور/ 50] ، وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة/ 125] . وذلک نحو قوله : وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْياناً وَكُفْراً [ المائدة/ 64] ويشبّه النّفاق والکفر ونحوهما من الرذائل بالمرض، إما لکونها مانعة عن إدراک الفضائل کالمرض المانع للبدن عن التصرف الکامل، وإما لکونها مانعة عن تحصیل الحیاة الأخرويّة المذکورة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 64] ، وإمّا لمیل النّفس بها إلى الاعتقادات الرّديئة ميل البدن المریض إلى الأشياء المضرّة، ولکون هذه الأشياء متصوّرة بصورة المرض قيل : دوي صدر فلان، ونغل قلبه . وقال عليه الصلاة والسلام : «وأيّ داء أدوأ من البخل ؟» «4» ، ويقال : شمسٌ مریضةٌ: إذا لم تکن مضيئة لعارض عرض لها، وأمرض فلان في قوله : إذا عرّض، والتّمریض القیام علی المریض، وتحقیقه : إزالة المرض عن المریض کالتّقذية في إزالة القذی عن العین . ( م ر ض ) المرض کے معنی ہیں انسان کے مزاج خصوصی کا اعتدال اور توازن کی حد سے نکل جانا اور یہ دوقسم پر ہے ۔ مرض جسمانی جیسے فرمایا : وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور/ 61] اور نہ بیمار پر کچھ گناہ ہے ۔ وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة/ 91] اور نہ بیماروں پر ۔ دوم مرض کا لفظ اخلاق کے بگڑنے پر بولا جاتا ہے اور اس سے جہالت بزدلی ۔ بخل ، نفاق وغیرہ جیسے اخلاق رزیلہ مراد ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] ان کے دلوں میں کفر کا مرض تھا ۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور/ 50] گناہ ان کے دلوں میں بیماری ہے یا یہ شک میں ہیں ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة/ 125] اور جن کے دلوں میں مرض ہے ۔ ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْياناً وَكُفْراً [ المائدة/ 64] اور یہ ( قرآن پاک) جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اس سے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور کفر بڑھے گا ۔ اور نفاق ، کفر وغیرہ اخلاق رذیلہ کی ( مجاز ) بطور تشبیہ مرض کہاجاتا ہے ۔ یا تو اس لئے کہ اس قسم کے اخلاق کسب فضائل سے مائع بن جاتے ہیں ۔ جیسا کہ بیماری جسم کو کامل تصرف سے روک دیتی ہے ۔ اور یا اس لئے اخروی زندگی سے محرومی کا سبب بنتے ہیں ۔ جس قسم کی زندگی کا کہ آیت کریمہ : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 64] اور ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے کاش کہ یہ لوگ سمجھتے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور یا رذائل کو اس چونکہ ایسے اخلاق بھی ایک طرح کا مرض ہی ہیں اس لئے قلب وصدر میں کینہ و کدورت پیدا ہونے کے لئے دوی صدر فلان وبخل قلبہ وغیر محاورات استعمال ہوتے ہیں ایک حدیث میں ہے : وای داء ادوء من ا لبخل اور بخل سے بڑھ کر کونسی بیماری ہوسکتی ہے ۔ اور شمس مریضۃ اس وقت کہتے ہیں جب گردہ غبار یا کسی اور عاضہ سے اس کی روشنی ماند پڑجائے ۔ امرض فلان فی قولہ کے معنی تعریض اور کنایہ سے بات کرنے کے ہیں ۔ المتریض تیمار داری کرنا ۔ اصل میں تمریض کے معنی مرض کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ۔ تقذبۃ کی طرح سے جس کے معنی آنکھ سے خاشاگ دور کرنا کے ہیں ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ غرر يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ «5» ، وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا [ الأنعام/ 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ «1» ، والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ» «2» . والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل : فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة «3» ، فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها . ( غ ر ر ) غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢{ وَاِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا } ” اور جب کہہ رہے تھے منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا کہ نہیں وعدہ کیا تھا ہم سے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مگر دھوکے کا۔ “ یعنی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے جو وعدے کیے تھے وہ محض فریب نکلے۔ ہمیں تو انہوں نے سبز باغ دکھا کر مروا دیا۔ ہم سے تو کہا گیا تھا کہ اللہ کی مدد تمہارے شامل حال رہے گی اور قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں تمہارے قدموں میں ڈھیر ہوجائیں گی ‘ مگر اس کے برعکس آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم قضائے حاجت کے لیے بھی باہر نکلنے سے عاجز ہیں۔ ظاہر ہے اس دور میں آج کل کی طرز کے بیت الخلاء تو تھے نہیں ‘ چناچہ محاصرے کے دوران اس نوعیت کے جو مسائل پیدا ہوئے ان پر منافقین نے خوب واویلا مچایا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

22 That is, "Promises to the effect that the believers will get Allah's support and succour and will be helped to attain victory in the end. "

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :22 یعنی اس امر کے وعدے کہ اہل ایمان کو اللہ کی تائید و نصرت حاصل ہو گی اور آخر کار غلبہ انہی کو بخشا جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13: مستند روایات میں ہے کہ حضرت سلمان فارسی (رض) جس جگہ خندق کھود رہے تھے وہاں ایک سخت چٹان بیچ میں آگئی جو کسی طرح ٹوٹ نہیں رہی تھی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع ہوئی تو آپ بہ نفس نفیس وہاں تشریف لے گئے، اور اپنے دست مبارک میں کدال لے کر یہ آیت پڑھی : وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا : اور کدال سے چٹان پر ضرب لگائی تو ایک تہائی چٹان ٹوٹ گئی اور اس میں سے ایک روشنی نمودار ہوئی جس میں آپ کو یمن اور کسری کے محلات دکھائے گئے، پھر دوسری ضرب لگاتے وقت آپ نے اسی آیت کو پورا پڑھا وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَعَدْلًا : اس پر چٹان کا ایک حصہ ٹوٹا اور دوبارہ روشنی ظاہر ہوئی جس میں آپ نے روم کے محلات دیکھے، پھر تیسری ضرب پر چٹان پوری ٹوٹ گئی، اس موقع پر آپ نے فرمایا کہ مجھے یمن، ایران اور روم کے محلات دکھاکر یہ بشارت دی گئی ہے کہ یہ سارے ملک میری امت کے ہاتھوں فتح ہوں گے، منافقین نے یہ سنا تو کہا کہ حالت تو یہ ہے کہ خود اپنے شہر کا بچاؤ کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے، اور خواب یہ دیکھے جارہے ہیں کہ ایران اور روم ہمارے ہاتھوں فتح ہوں گے، مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں منافقین کی اس بات کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:12) واذا یقول المنفقون۔ اس کا عطف اذزاعت الابصار پر ہے۔ یا اس کی تقدیر یوں بھی ہوسکتی ہے اذکراذ یقول المنفقون یاد کر جب منافقین کہہ رہے تھے۔ والذین فی قلوبھم مرض اور وہ جن کے دلوں میں مرض تھا۔ اس سے مراد منافقین کے علاوہ کوئی گردہ تھا جن کی طرف منافقین مائل تھے تاکہ ان کے مشتبہ ظاہر کیا جاوے یا اس سے مرادوی ضعیف الاعتقاد مسلم تھے جو عنقریب ہی ایمان لائے تھے۔ یا اس سے مراد خود منافقین بھی ہوسکتے ہیں اور عطف محض تغایر و صف کے لئے ہے۔ ما وعدنا اللہ میں ما نافیہ ہے۔ غرورا مصدر و اسم ، جھوٹی امید۔ دھوکہ ۔ دھوکہ دینا۔ غر بھولا ۔ فریب خوردہ۔ ناتجربہ کار۔ منصوب بوجہ مفعول ہونے کے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 کہتے ہیں کہ تقریباً ستر منافقین تھے جو اس قسم کی باتیں کرنے لگے۔ ( فتح القدیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : غزوہ احزاب میں منافقوں کا کردار۔ منافقت انسان کے دل کی بیماری ہے جس کے اثرات انسان کے اخلاق اور کردار پر ضرور ظاہر ہوتے ہیں بالخصوص اسلام اور مسلمانوں پر مشکل وقت آئے تو منافق کی منافقت ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی ایسے موقعہ پر منافق کی ہمدردیاں کفار اور مشرکین کے ساتھ ہوجایا کرتی ہیں۔ غزوہ احد کے موقع پر منافقوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس وقت ساتھ چھوڑا جب کفار احد کے مقام پر پڑاؤ ڈال چکے تھے۔ غزوہ احزاب کے موقع پر بھی منافقوں کی ہمدردیاں مدینہ کے یہودیوں اور اہل مکہ کے ساتھ تھیں۔ منافقوں نے دیکھا کہ دس ہزار کا لشکر مدینہ پر امڈ آیا ہے اور مسلمان اپنے بچاؤ کے لیے خندق کھودنے پر مجبور ہوگئے ہیں، مدینہ کے یہودی بھی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیے ہوئے عہد کو توڑ چکے ہیں تو منافقوں نے مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے اور انہیں محاذ سے واپس لانے کے لیے یہ کہنا شروع کیا کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم سے جو فتح کا وعدہ کیا ہے وہ سراسر دھوکہ اور فراڈ ہے۔ منافق مسلمانوں کو یہ بھی کہتے کہ خندق چھوڑو اور اپنے گھروں کو واپس لوٹ چلو۔ دکھلاوے کے طور پر جو منافق نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے ان کی حالت یہ تھی کہ وہ ٹولیوں کی صورت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں درخواست کر رہے تھے کہ ہمیں میدان جنگ سے واپس جانے دیجیے۔ کیونکہ مدینہ میں ہمارے گھروں کو شدید خطرہ ہے۔ حالانکہ ان کے گھروں کو کوئی خطرہ نہیں تھا وہ صرف جنگ سے فرار چاہتے تھے یاد رہے کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ میں سب کے گھروں کی حفاظت پر کچھ لوگ مامور کر رکھے تھے۔ اس کے باوجود منافق اپنے گھر غیر محفوظ ہونے کا بہانہ بنا کر آپ سے اجازت لیتے رہے ان کے دل کی کیفیت یہ تھی کہ اگر دشمن کی فوج مدینہ میں گھس کر ان سے تعاون چاہتی تو معمولی توقف کے بعد منافق ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے پر تیار ہوجائے۔ ایسے لوگوں کو یہ وارننگ دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری بدعہدی کے بارے میں تم سے ضرور بازپرس کرے گا۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے۔ “ [ رواہ البخاری : باب علامۃ المنافق ] (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَاءِرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیْرُإِ لٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً وَ إِلٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً ) [ رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین وأَحکامھم ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان پھرتی ہے کبھی ایک ریوڑ کی طرف جاتی ہے کبھی دوسرے کی طرف۔ “ ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو صحابہ کرام (رض) نے عرض کی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ کون سے گناہ ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ‘ جادو کرنا ‘ ناحق کسی جان کو قتل کرنا ‘ سود کھانا ‘ یتیم کا مال کھانا ‘ میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا اور پاکدامن ‘ مومن ‘ بیخبر عورتوں پر تہمت لگانا۔ “ [ رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ إن الذین یأکلون أموال الیتامی ظلما ] (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَّا قَالَ لَاإِیْمَانَ لِمَنْ لَّآ أَمَانَۃَ لَہٗ وَلَادِیْنَ لِمَنْ لَّا عَھْدَ لَہٗ ) [ رواہ احمد : مسند أنس بن مالک ] ” حضرت انس (رض) فرماتے ہیں ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ ارشاد فرماتے تو اکثر فرماتے کہ جو امانت دار نہیں وہ ایمان دار نہیں اور جو بدعہد ہے وہ دین دار نہیں۔ “ ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن ہر عہد شکن انسان کی دبر کے نزدیک جھنڈا ہوگا۔ ایک روایت میں ہے ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن جھنڈا ہوگا، جو اس کی عہد شکنی کے بقدر بلند کیا جائے گا۔ خبردار ! سربراہ مملکت سے بڑھ کر کسی کی عہد شکنی بڑی نہیں ہوتی۔ “ [ رواہ مسلم : باب تحریم الغدر ] مسائل ١۔ منافق جھوٹے بہانے بنا کر مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ ٢۔ منافق مسلمانوں میں انتشار اور بددلی پیدا کرتا ہے۔ ٣۔ منافق وعدہ خلافی کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی کرنے والے کو ضرور پوچھے گا۔ تفسیر بالقرآن عہد کو پورا کرنے کا حکم : ١۔ اللہ کے بندے وعدہ ایفاء کرتے ہیں۔ (البقرۃ : ١٧٧) ٢۔ اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پورا کرو۔ (الانعام : ١٥٢) ٣۔ ایماندار اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا عہد پورا کرتے ہیں۔ (الرعد : ٢٠) ٤۔ اللہ کے عہد کا ایفاء ضروری ہے۔ (النحل : ٩١) ٥۔ قیامت کے دن ایفائے عہد کے بارے میں سوال ہوگا۔ (الاسراء : ٣٤) ٦۔ اے ایمان والوں عہد پورے کرو۔ (المائدہ : ١) ٧۔ جو اللہ کا وعدہ پورا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ (البقرۃ : ٤٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منافقین کی بد عہدی اور شرارتیں یہ نو آیات کا ترجمہ ہے جس میں منافقین کی قولی اور عملی غداری کا تذکرہ فرمایا ہے اور ان کی مخالفانہ اور بزدلانہ حرکتوں کو بیان کیا ہے۔ پہلی آیت میں یہ بتایا ہے کہ منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض تھا (جو ضعیف الاعتقاد تھے) انہوں نے یوں کہا کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا ہے وہ محض ایک دھوکہ ہے، مفسرین نے لکھا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خندق کھودتے وقت بشارت دی کہ تم حیرہ کے محل اور کسریٰ کے شہر اور یمن کے شہر اور روم کے محل فتح کرو گے، تو اس پر منافقین نے کہا لو دیکھ لو ! یہاں کیا مصیبت پڑی ہوئی ہے، خندق کھودی جا رہی ہے، ذرا بھی باہر نہیں جاسکتے، اگر یہاں سے جائیں تو قتل ہوجائیں حال تو یہ ہے لیکن بشارتیں یوں دی جا رہی ہیں کہ یوں شہر فتح ہوں گے اور ایسے محلات پر قبضہ ہوگا، کچھ نہیں یہ سب دھوکہ ہی دھوکہ ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ (وَ اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ ) نازل فرمائی۔ یہاں جو یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ وہ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دل سے مانتے ہی نہیں تھے پھر انہوں نے (مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ) کیسے کہا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ منافق کا کوئی دین نہیں ہوتا وہ نہ دیکھی باتیں کرتا ہے، کیونکہ وہ لوگ بظاہر اسلام کے مدعی تھے اور حضرات صحابہ (رض) کے سامنے یہ بات کہہ رہے تھے اس لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہ تھا کہ آپ کو رسول ماننے کا دم بھریں لیکن انہوں نے یہ نہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف دھوکہ دہی کی نسبت کریں گے تو مسلمان ہمیں کیسے مسلمان مانیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ واذ یقول الخ، یہ اذ زاغت پر معطوف ہے (روح) ۔ والذین فی قلوبھم مرض سے منافقین ہی مراد ہیں اور عطف تغایر و صف کی سے ہے۔ جوز ان یکون المراد بہم المنافقین انفسہم والعطف لتغایر الوصف (روح ج 21 ص 158) ۔ غزوہ خندق میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک پتھر کو توڑنے کے لیے اس کو ضرب لگائی تو اس میں سے بجلی کی سی روشنی اور چمک نمودار ہوئی۔ اس وقت آپ نے تمام صحابہ (رض) کو فارس، روم، یمن اور حبشہ کی فتح کی خوشخبری دی۔ یہ بات منافقین نے بھی سنی تو بطور استہزاء و تمسخر کہنے لگے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں قیصر و کسری کے خزانوں پا پر قابض ہونے کی خبر دیتا ہے۔ اور آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم قضائے حاجت کے لیے بھی باہر نہیں جاسکتے۔ اس لیے یہ ویسے ہی ہوائی اور جھوٹے وعدے ہیں۔ اس آیت میں منافقین کی اس شر انگیز گفتگو کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایسی باتوں منافقین کی غرض یہ تھی کہ مسلمانوں میں بد دلی پیدا ہو۔ اور ان کی حوصلہ شکنی ہو۔ وذلک ان طعمۃ بن ابیرق و معتب بن قشیر وجماعۃ نحو امن سبعین رجلا قالوا یوم الخندق کیف عیدنا کنوز کسری وقیصر ولا یستطیع احدنا ان یتبرز (قرطبی ج 14 ص 147) ۔ غرورا ای باطلا من القول (قرطبی) یعنی یہ وعدہ (عیاذا باللہ) سراسر جھوٹا ہے۔ قال الشیخ (رح) غرورا ای وعدا صاحب غرور ای کذب۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

12۔ اور یہ وہ وقت تھا جبکہ منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ اور بیماری ہے یوں کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ صرف فریب اور محض دھوکا تھا۔ منافقوں کا ہمیشہ قاعدہ ہے کہ امتحان کے وقت ان کے منہ سے کمزوری اور کفر کی باتوں کا اظہار ہوتا ہے چناچہ ان ہی لوگوں کے منہ سے یہ نکلا کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ نہیں کیا مگر فریب اور دھوکہ دیا ۔ منافقین اور والذین فی قلوبھم مرض میں عطف تفسیری ہے منافقین اور وہ لوگ جن کے دل میں نفاق کا مرض ہے بعض نے کہا والذین فی قلوبھم مرض سے وہ کم سمجھ لوگ مراد ہیں جو منافقین کے شبہ ڈالنے سے جلدی متاثر ہوجاتے ہیں جس منافق نے یہ کہا تھا اس کا نام معقب بن قشیر ہے اس نے کہا تھا کہ محمد ؐ کہتا ہے کہ میرا دین روم اور فارس تک پہنچے گا اور یہاں حالت یہ ہے کہ جائے ضرور کو نکلنا مشکل ہے ۔ روم اورفارس کے خزانے تو بہت دور ہیں یہاں تو چند سیر غلہ دینے کی استطاعت بھی نہیں ہے یہ وعدہ سوائے فریب کے اور کچھ نہیں ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں بعض منافق کہنے لگے پیغمبر کہتا ہے کہ میرا دین پہنچے گا مشرق اور مغرب یہاں جائے ضرور کو نہیں نکل سکتے۔ مسلمانوں کو چاہئے اب بھی ناامیدی کے وقت بےایمانی کی باتیں نہ بولیں ۔ 12