Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 14

سورة الأحزاب

وَ لَوۡ دُخِلَتۡ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ اَقۡطَارِہَا ثُمَّ سُئِلُوا الۡفِتۡنَۃَ لَاٰتَوۡہَا وَ مَا تَلَبَّثُوۡا بِہَاۤ اِلَّا یَسِیۡرًا ﴿۱۴﴾

And if they had been entered upon from all its [surrounding] regions and fitnah had been demanded of them, they would have done it and not hesitated over it except briefly.

اور اگر مدینے کے اطراف سے ان پر ( لشکر ) داخل کئے جاتے پھر ان سے فتنہ طلب کیا جاتا تو یہ ضرور اسے برپا کر دیتے اور نہ لڑتے مگر تھوڑی مدت ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells us about those who said: وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِم مِّنْ أَقْطَارِهَا ثُمَّ سُيِلُوا الْفِتْنَةَ لاَتَوْهَا وَمَا تَلَبَّثُوا بِهَا إِلاَّ يَسِيرًا

جہاد سے پیٹھ پھیرنے والوں سے باز پرس ہوگی جو لوگ یہ عذر کرکے جہاد سے بھاگ رہے تھے کہ ہمارے گھر اکیلے پڑے ہیں جن کا بیان اوپر گذرا ۔ ان کی نسبت جناب باری فرماتا ہے کہ اگر ان پر دشمن مدینے کے چو طرف سے اور ہر ہر رخ سے آجائے پھر ان سے کفر میں داخل ہونے کا سوال کیا جائے تو یہ بےتامل کفر کو قبول کرلیں ... گے لیکن تھوڑے خوف اور خیالی دہشت کی بنا پر ایمان سے دست برداری کررہے ہیں ۔ یہ ان کی مذمت بیان ہوئی ہے ۔ پھر فرماتا ہے یہی تو ہیں جو اس سے پہلے لمبی لمبی ڈینگیں مارتے تھے کہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوجائے ہم میدان جنگ سے پیٹھ پھیرنے والے نہیں ۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ یہ جو وعدے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کئے تھے اللہ تعالیٰ ان کی باز پرس کرے گا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ موت وفوت سے بھاگنا لڑائی سے منہ چھپانا میدان میں پیٹھ دکھانا جان نہیں بچاسکتا بلکہ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اچانک پکڑ کے جلد آجانے کا باعث ہوجائے اور دنیا کا تھوڑا سا نفع بھی حاصل نہ ہوسکے ۔ حالانکہ دنیا تو آخرت جیسی باقی چیز کے مقابلے پر کل کی کل حقیر اور محض ناچیز ہے ۔ پھر فرمایا کہ بجز اللہ کے کوئی نہ دے سکے نہ دلاسکے نہ مددگاری کرسکے نہ حمایت پر آسکے ۔ اللہ اپنے ارادوں کو پورا کرکے ہی رہتا ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

141یعنی مدینے یا گھروں میں چاروں طرف سے دشمن داخل ہوجائیں اور ان سے مطالبہ کریں کے تم کفر و شرک کی طرف دوبارہ واپس آجاؤ، تو یہ ذرا توقف نہ کریں گے اور اس وقت گھروں کے غیر محفوظ ہونے کا عذر بھی نہیں کریں گے بلکہ فوراً مطالبہ شرک کے سامنے جھک جائیں مطلب یہ کہ کفر و شرک ان کو مرغوب ہے اور اس کی طرف لپک... تے ہیں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ١٩] یعنی اگر اتحادی کافر انھیں مسلمانوں سے لڑنے کی دعوت دیتے تو یہ فوراً ان کی بات مان کر مسلمانوں سے لڑنے کو تیار ہوجاتے اور ایک منٹ کی بھی تاخیر نہ کرتے۔ اس وقت انھیں قطعاً یہ خیال نہ آتا کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں اور اگر ہم اپنے گھروں کی حفاظت نہ کریں گے تو دشمن لوٹ لے گا۔ یہی بات ان کے جھوٹ ... اور نفاق کی ایک بڑی دلیل ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمْ مِّنْ اَقْطَارِهَا ۔۔ : ” دُخِلَتْ “ کی ضمیر ” مدینہ “ کی طرف جا رہی ہے، یعنی ” وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَیْھِمُ الْمَدِیْنَۃُ مِنْ جِھَاتِھَا أَيْ وَلَوْ دَخَلَ الْأَحْزَابُ عَلَیْھِمُ الْمَدِیْنَۃَ ۔ “ ” الفتنۃ “ سے مراد کفرو شرک اور مسلمانوں کے خلا ف جنگ ہے، یعنی اگر کفار شہر...  میں داخل ہو کر ان منافقین کو دعوت دیتے کہ آؤ دوبارہ ہمارے ساتھ کفر میں واپس آجاؤ اور ہم سے مل کر مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے لڑو تو وہ فوراً ان کی پیش کش قبول کرتے اور ذرا دیر نہ کرتے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْہِمْ مِّنْ اَقْطَارِہَا ثُمَّ سُىِٕلُوا الْفِتْنَۃَ لَاٰتَوْہَا وَمَا تَلَبَّثُوْا بِہَآ اِلَّا يَسِيْرًا۝ ١٤ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) ... یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ قطر القُطْرُ : الجانب، وجمعه : أَقْطَارٌ. قال تعالی: إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطارِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الرحمن/ 33] ، وقال : وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمْ مِنْ أَقْطارِها [ الأحزاب/ 14] وقَطَرْتُهُ : ألقیته علی قُطْرِهِ ، وتَقَطَّرَ : وقع علی قُطْره، ومنه : قَطَرَ المطر، أي : سقط، وسمّي لذلک قَطْراً ، وتَقَاطَرَ القوم : جاؤوا أرسالا کالقطْر، ومنه قِطَارُ الإبل، وقیل : الإنفاض يُقَطِّرُ الجلب .. أي : إذا أنفض القوم فقلّ زادهم قطروا الإبل وجلبوها للبیع، والقَطِرَانُ : ما يَتَقَطَّرُ من الهناء . قال تعالی: سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم/ 50] ، وقرئ : ( من قِطْرٍ آنٍ ) أي : من نحاس مذاب قد أني حرّها، وقال : آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْراً [ الكهف/ 96] أي : نحاسا مذابا، وقال : وَمِنْ أَهْلِ الْكِتابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِقِنْطارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ [ آل عمران/ 75] وقوله : وَآتَيْتُمْ إِحْداهُنَّ قِنْطاراً [ النساء/ 20] والْقَنَاطِيرُ جمع القَنْطَرَةِ ، والقَنْطَرَةُ من المال : ما فيه عبور الحیاة تشبيها بالقنطرة، وذلک غير محدود القدر في نفسه، وإنما هو بحسب الإضافة کا لغنی، فربّ إنسان يستغني بالقلیل، وآخر لا يستغني بالکثير، ولما قلنا اختلفوا في حدّه فقیل : أربعون أوقيّة . وقال الحسن : ألف ومائتا دينار، وقیل : ملء مسک ثور ذهبا إلى غير ذلك، وذلک کا ختلافهم في حدّ الغنی، وقوله : وَالْقَناطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ [ آل عمران/ 14] أي : المجموعة قنطارا قنطارا، کقولک : دراهم مدرهمة، ودنانیر مدنّرة . ( ق ط ر ) القطر کے معنی جانب اور طرف کے ہیں اس کی جمع ا اقطار ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطارِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الرحمن/ 33] اگر تمہیں قدرت ہو کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمْ مِنْ أَقْطارِها [ الأحزاب/ 14] اور اگر فوجیں اطراف مدینہ سے ان پر آ دخل ہوں ۔ قطرتہ کسی کو پہلو پر گر ادینا ۔ اسی سے قطر المطر کا محاورہ ہے جس کے معنی بارشبر سنے کے ہیں اور اسی وجہ سے بارش کو قطر کہا جاتا ہے ۔ تقا طر القوم لوگ بارش کے قطروں کی طرح پیہم آئے اسی سے اونٹوں کی قطار کہا جاتا ہے مثل مشہور ہے ۔ النقاض یقطر الجلب یعنی توشہ ختم ہوجائے تو عمدہ اونٹ بھی فروخت کے لئے منڈی میں لے جاتے ہیں ۔ القطران کے معنی پگهلی ہوئی رال یا گیند ھک کے ہیں قرآن پاک میں ہے سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم/ 50] ان کے کرتے گند ھک کے ہوں گے ۔ ایک قراءت میں قطرآ ن ہے جس کے معنی پگھلے ہوئے گرم تانبے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْراً [ الكهف/ 96]( اب ) میرے پاس تانبا لاؤ کہ اس پر پگھلا کر ڈال دوں یہاں قطرا کے معنی پگھلا ہوا تا نبا کے ہیں ۔ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ لبث لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] ، ( ل ب ث ) لبث بالمکان کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔ يسير واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء/ 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب/ 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج/ 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب/ 14] الیسیر والمیسور سہل اور آسان قرآن میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء/ 28] تو ان سے نر می سے بات کہدیا کرو ۔ اور کبھی یسیر کے معنی حقیر چیز بھی آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب/ 30] اس کو دونی سزا دی جائیگی اور یہ بات خدا کو آسان ہے میں لفظ یسیرا کے معنی آسان اور سہل کے ہیں اور آیت وما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب/ 14] اور اس کے لئے بہت کم توقف کریں میں اس کے معنی بہت کم عرصہ کے ہیں  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اگر منافقین پر مدینہ منورہ میں اس کے سب اطراف سے کوئی لشکر آگھسے اور ان سے شرک کا ساتھ دینے کو کہے تو یہ فورا ہی اس کو قبول کرلیں گے اور اس کے قبول کرنے میں ذرا بھی دیر نہ کریں یا یہ کہ پھر اس بات کے قبول کرنے کے بعد یہ لوگ مدینہ میں بہت ہی کم ٹھہریں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ { وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَیْہِمْ مِّنْ اَقْطَارِہَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَۃَ لَاٰتَوْہَا } ” اور اگر کہیں ان پر دشمن گھس آئے ہوتے مدینہ کے اطراف سے ‘ پھر ان سے مطالبہ کیا جاتا فتنے (ارتداد) کا ‘ تو وہ اسے قبول کرلیتے “ اگر خدانخواستہ کفار و مشرکین کے لشکر واقعی مدینہ میں داخل ہوجاتے اور وہ ان...  منافقین کو علانیہ ارتداد اور مسلمانوں سے جنگ کی دعوت دیتے تو ایسی صورت حال میں یہ لوگ بلا تردد ان کی بات مان لیتے۔ { وَمَا تَلَبَّثُوْا بِہَآ اِلَّا یَسِیْرًا } ” اور اس میں بالکل توقف نہ کرتے مگر تھوڑا سا۔ “ چونکہ ایمان ابھی ان کے دلوں میں راسخ ہوا ہی نہیں تھا ‘ اس لیے جونہی انہیں ایمان کے دعوے سے پھرنے کا موقع ملتا وہ فوراً ہی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بری الذمہ ہونے کا اعلان کردیتے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26 "Urged to treachery": Urged by the disbelievers to join them to vanquish the Muslims after entering the city as conquerors.

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :26 یعنی اگر شہر میں داخل ہو کر فاتح کفار ان منافقین کو دعوت دیتے کہ آؤ ہمارے ساتھ مل کر مسلمانوں کو ختم کر دو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: یعنی یہ منافق لوگ اس وقت تو یہ بہانہ بنارہے ہیں کہ ہمارے گھروں کی دیواریں نیچی ہیں، اور وہ غیر محفوظ ہیں، لیکن اگر دشمن مدینہ منورہ میں چاروں طرف سے داخل ہوجائے اور ان سے فرمائش کرے کہ تم بھی مسلمانوں کے خلاف ہمارے ساتھ جنگ میں شامل ہوجاؤ تو دشمن کا پلہ بھاری دیکھ کر یہ ان کے ساتھ جاملیں گے اور ... اس وقت انہیں اپنے گھروں کے غیر محفوظ ہونے کا خیال نہیں آئے گا۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:14) ولو دخلت علیہم ۔ دخلت ماضی مجہول جس کا مفعول ، مالم یسلم فاعلہ البیوت ہے : ای ولو دخلت البیون علیہم میں ہم ضمیر جمع مذکر غائب ان قائلین کے متعلق ہے جو کہتے تھے ان بیوتنا عورۃ۔ دخلت علیہم : دخلت علی فلان دارہ (فلاں کے خلاف اس کے گھر میں مداخلت کی گئی) سے ہے۔ بمعنی اگر ان قائلین یعنی چھٹی کی ... درخواست کرنے والوں کے خلاد (دشمن کی فوجیں مختلف اطراف سے ان کے گھروں میں) داخل کردی جاتیں) ۔ ثم سئلوا الفتنۃ۔ پھر (دشمن کی طرف سے) ان سے (مسلمانوں کے خلاف) فتنہ و فساد کا سوال کی جاتا۔ لاتوھا توبہ بلانامل منظور کرلیتے۔ لام تاکید ہے ھا الفتنۃ کے لئے ہے) مطلب یہ ہے کہ اگر کہیں کافروں کا لشکر مدینہ میں (یا ان کے گھروں میں) داخل ہوجائے اور ان منافقوں سے کہے کہ آو ہم تم مل کر مسلمانوں سے مقابلہ کریں تو یہ لوگ بلاتائل آمادہ ہوجائیں۔ مسلمانوں کی ماٹھ کھڑے ہوں اور اس وقت ذرا خیال نہ کریں کہ آخراب غیر محفوظ گھروں کی کون حفاظت کرے گا۔ یہ سب ان کی انتہائی مذمت میں ارشاد ہو ریا ہے۔ (تفسیر الماجدی) وما تلبثوابھا۔ ماضی جمع مذکر غائب تلبث (تفعل) مصدر۔ انہوں نے توقف نہ کیا۔ انہوں نے دیر نہ کی۔ وہ نہ ٹھرے ۔ انہوں نے ڈھیل نہ کی لبث مادہ۔ اس باب سے صرف اسی آیۃ میں استعمال ہوا ہے باقی جگہ قرآن مجید میں باب سمع سے آیا ہے۔ بمعنی ٹھہرنا۔ قیام کرنا۔ بھا میں ب ظرفیہ ہے اور ھا کی ضمیر بیوت کی طرف راجع ہے۔ ترجمہ :۔ اور وہ (ان گھروں میں) تھوڑا وقت) ہی ٹھہرتے۔ یسیرا۔ صفت مشبہ کا صیغہ واحد مذکر منصوب۔ یسر مادہ ۔ تھوڑا۔ آسان۔ سہل آہستہ۔ کانوا عاھدوا۔ ماضی بعید کا صیغہ جمع مذکر گا ئب۔ انہوں نے وعدہ کیا ہوا تھا وہ وعدہ کرچکے تھے۔ یولون۔ مضارع جمع مذکر غائب تولیۃ (تفعیل ) مصدر پیٹھ دکھا کر بھاگنا۔ الادبار : دبر کی جمع ، پیٹھیں۔ لا یولون الادبار۔ (کہ) وہ پیٹھ پھیر کر نہیں بھاگیں کے۔ وکان عہد اللہ مسئولا۔ کان فعل ناقص عھد اللہ مضاف مضاف الیہ مل کر اسم ۔ مسئولا : کان کی خبر۔ اور اللہ سے کئے ہوئے وعدہ کی بازپرس ہوتی ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی یہ کہیں کہ آئو ہمارے ساتھ مل کر مسلمانوں کا خاتمہ کردو۔6 اس وقت یہ ہرگز عذر پیش نہ کریں کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں حالانکہ ان کے گھر اس وقت کھلے پڑے ہوں گے کیونکہ لڑائی خود شہر میں ہو رہی ہوگی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 14 تا 17 دخلت : داخل کردیا گیا۔ اقطار : کنارے۔ اطراف سئلوا : سوال کیا گیا ما تلبثوا : دیر نہ لگائیں گے لا یولون : وہ پیٹھ نہ پھیریں گے۔ لا تمتعون : تم فائدہ نہ اٹھا سکو گے یعصم : وہ بچاتا ہے لا یجدون : وہ نہ پائیں گے نصیر : مددگار تشریح آیت نمبر 14 تا 17 گذشتہ آیات سے ... غزوہ احزاب کے متعلق بیا کیا جارہا ہے اب ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جب منافقین نے کفار و مشرکین کو آندھی اور طوفان کی طرح آتے دیکھا تو وہ گھبرائے گئے اور میدان جنگ سے بھاگنے کے راستے اور بہانے تلاش کرنے لگے ۔ اس کے بر خلاف وہ اہل ایمان جو اللہ کی ذات پر مکلمل بھروسہ اور ایمان رکھتے تھے انہوں نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ اللہ ان کی ہر حال میں مدد فرمائے گا انہیں یقین تھا کہ اگر وہ اسلام دشمنوں کے مقابلے میں ڈٹے رہے اور اپنی جانوں کی بازی لگا دی تو اللہ انہیں دنیا اور آخرت میں سرخ رو فرمائے گا۔ انہیں معلوم تھا کہ اس وقت اس محاذ جنگ سے بھاگ جانا دنیا اور آخرت کی رسوائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے متعلق فرمایا کہ ان کا یہ حال ہے اگر کوئی ( اللہ و رسول کا ) دشمن مدینہ کے اطراف سے اندر داخل ہو کر کہنے لگے کہ تم اہل ایمان سے الگ ہو جائو اور ہمارے ساتھ مل کر لڑ و اور برپا کر دو تو یہ فرار کے راستے ڈھونڈنے والے ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوجائیں گے اور اہل ایمان سے لڑنے کے لئے نکل کھڑے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میدان جنگ سے بھاگنے کے بہانے تلاش کرنے والے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے جنگ احد کے موقع پر ندامت اور شرمندگی کے ساتھ اس بات کا پکا وعدہ کیا تھا کہ اب وہ میدان جنگ سے پیٹھ پھر کر نہ بھا گیں گے۔ اب ان کا وہ عہد معاہدہ کیا ہوا ؟ فرمایا کہ وعدے اور عہد کے خلاف کرنے والوں کو اس کا جواب تو دینا ہوگا اور اپنی عہد شکنی کی سزا کے لئے بھی تیار رہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ان لوگوں سے یہ تو پوچھئے کی یہ لوگ جس موت اور قتل کے خوف سے بھاگ پھر رہے ہیں کیا یہ لوگ ہمیشہ اسی دنیا میں رہیں گے ؟ ان کو موت نہ آئے گی ؟ یاد رکھیں جب موت آئے گی تو کیا وہ موت سے بچ سکیں گے ؟ ہرگز نہیں۔ اللہ کا پورا اختیار ہے کہ وہ اگر کسی کو فائدہ دینا چاہے تو اس سے کوئی نہیں روک سکتا اور اگر وہ اس کو کسی خسارے یا نقصان میں مبتلا کردے تو سوائے اللہ کی حمایت اور مدد کے اور کون اس کو بچا سکے گی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولو دخلت علیھم ۔۔۔۔۔۔ الا یسیرا (14) یہ ہے ان منافقین کی اندرونی تصویر۔ دشمن ابھی تو مدینہ سے باہر ہے۔ ابھی تو وہ شہر کے اندر گھسنے نہیں پایا۔ اگرچہ حالات بہت ہی خوفناک تھے لیکن ابھی تو حملہ آور باہر ہی پڑے تھے۔ کوئی خطرہ ابھی واقع نہ ہوا تھا ۔ اگر لشکر مدینہ کے اطراف سے حمہ آور ہوجاتا اور پھر سئ... لوا الفتنۃ (33: 14) ” پھر ان کو فتنے کی دعوت دی جاتی یعنی ان سے مطالبہ کیا جاتا کہ تم مرتد ہوجاؤ تو یہ لوگ فوراً مرتد ہوجاتے اور کچھ دیر نہ کرتے اور نہ ہی کوئی تردد کرتا۔ الا قلیلا یعنی اگر دیر کرتے تو تھوڑی ہی دیر کرتے یا ان میں سے قلیل لوگ تردد کرتے۔ یعنی مرتد ہونے سے قبل کچھ دیر کے لیے سوچتے ۔ یہ ہے نقشہ ڈھیلے عقیدے اور نظریہ کا ہے۔ یہ گہری کمزوری ہے اس کے ساتھ یہ مقابلہ نہیں کرسکتے۔ یوں قرآن مجید ان کی حقیقت کا اظہار کرتا ہے اور ان کی اندرونی کیفیت سے پردہ اٹھا دیتا ہے اور اس کے بعد ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے عہد توڑ دیا اور وعدے کے خلاف ورزی کردی۔ یہ عہد کس کے ساتھ تھا ؟ یہ عہد انہوں نے اللہ کے ساتھ کیا تھا کہ بھاگیں گے نہیں۔ ان کے ساتھ یہ پہلے بھی ہوچکا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

تیسری آیت میں ان لوگوں کی فتنہ پردازی کا تذکرہ فرمایا (وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَیْھِمْ مِّنْ اَقْطَارِھَا) (الآیۃ) (اگر مدینہ کے اطراف سے کوئی لشکر ان پر گھس آئے پھر ان سے فتنے کا سوال کیا جائے تو یہ ضرور فتنے کو منظور کرلیں گے) مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ جو گھروں کے غیر محفوظ ہونے کا بہانہ کرکے آپ (صلی اللہ ع... لیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لے کر راہ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں ان کا مقصد مسلمانوں کے ساتھ شریک قتال ہونے سے منہ موڑنا ہے۔ اگر کافروں کا کوئی لشکر ان کے پاس پہنچ جائے اور وہ ان سے یہ کہے کہ چلو مسلمانوں سے لڑو تو یہ ضرور ان کی بات مان لیں گے اور اپنے گھروں میں بہت ہی کم ٹھہریں گے بس کافروں کے کہتے ہی چل پڑیں گے یا اتنی دیر لگائیں گے جتنی دیر میں ہتھیار لے لیں، اس وقت انہیں گھروں کی حفاظت کا خیال بالکل نہیں رہے گا، انہیں مسلمانوں سے دشمنی ہے اور کافروں سے محبت ہے۔ (قال صاحب الروح ان طلبھم الاذن فی الرجوع لیس لاختلال بیوتھم بل لنفاقھم وکراھتھم نصرتک) (تفسیر روح المعانی کے مصنف (رح) فرماتے ہیں ان کا واپسی کی اجازت مانگنا واقعتہً کوئی گھروں کے نقصان کے اندیشہ کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ ان کے منافق ہونے اور تیری مدد کو ناپسند کرنے کی وجہ سے تھا۔ ) آیت کریمہ کی دوسری طرح بھی تفسیر کی گئی ہے، صاحب روح المعانی فرماتے ہیں، (والوجوہ المحتملۃ فی الاٰیات کثیرۃ کما لا یخفیٰ من لہ ادنیٰ تأمل وما ذکرناہ اولاً ھو الاظھر فی ما أریٰ ) (آیات میں کئی سارے احتمالات موجود ہیں جیسا کہ ذرا غور بھی کرنے والے آدمی پر مخفی نہیں ہے جو ہم نے سب سے پہلے توجیہ ذکر کی ہے میرے خیال میں وہی زیادہ راجح ہے۔ )  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ ولو دخلت الخ، یہ منافقین کے نفاق اور فساد باطن کی ایک نہایت عمدہ تمثیل ہے۔ دخلت کا نائب فاعل بیوت کی ضمیر ہے۔ اقطارھا کی ضمیر مدینہ سے کنایہ ہے۔ الفتنۃ سے مراد قتال ہے۔ فرض کرو اگر یہ منافقین اپنے گھروں میں موجود ہوں اور مدینہ کی چاروں سمتوں سے فسادی لوگ ان کے گھروں میں آگھسیں، پھر پیغمبر (علیہ...  السلام) کے علاوہ کوئی اور شخص ان کو فتنہ و فساد کی خاطر لڑائی کی دعوت دے تو اپنے گھروں کو اس طرح خطرے میں چھوڑ کر فورًا فتنے کی آگ میں کود پڑیں گے اور ذرا توقف و تامل کریں گے اس لیے یہ گھروں کے خطرے میں ہونے کا عذر محض جہاد اور نصرت اسلام سے جان بچانے کے لیے کر رہے ہیں یا فتنہ سے مراد شرک ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر مشرکین ان کے گھروں میں جا گھسیں اور انہیں شرک کرنے پر آمادہ کریں تو یہ لوگ بلا توقف فورًا شرک کرنے لگیں گے۔ اور کفر کو قبول کرلیں گے۔ یہ ہے ان کے ایمان کی کمزوری کا حال (روح) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

14۔ اور اگر مدینہ کے تمام اطراف و جوانب سے یہ لشکر ان کے سروں پر آ چڑھتا پھر ان سے فتنے اور فساد میں شریک ہونے کا مطالبہ کیا جاتا تو یہ اس فساد کی شرکت کو منظورکر لیتے اور بلا توقف اس فتنے میں شریک ہوجاتے اور نہ ڈھیل کرتے اس کے قبول کرنے میں مگر تھوڑی سی یعنی یہ لوگ جو گھروں کے غیر محفوظ ہونے کا بہا... نہ بنا رہے ہیں ۔ یہ شاید بنو حارثہ اور بنو سلمہ کے لوگ تھے ان کا جواب فرمایا کہ اگر یہی لشکر یا اس جیسا کوئی دوسرا لشکر مدینے کے اطراف و جوانب سے ان پر آ گھسے یا ان جہات مختلفہ سے ان کے مکانوں میں گھس آئے اور ان سے فتنے میں شریک ہونے کا مطالبہ کیا جائے یعنی فتنہ یہ کہ مسلمانوں پر حملہ کرو ، یا یہ کہ مرتدہو جائے اور کفر اختیارکروتو بلا توقف یہ لوگ فتنے میں شریک ہوجاتے اور ذرا دیر نہ لگاتے مگر تھوڑی دیر یعنی سوال و جواب میں جتنی دیر لگتی بس اس سے زیادہ ویران کے شریک ہونے میں نہل گتی یا یہ کہ ان مکانوں میں زیادہ دیر نہ ٹھہرتے اور فوراً شریک ہوجاتے اور ہوسکتا ہے کہ اگر یہ ایسا کرتے تو اپنے مکانوں میں زیادہ دن نہ رہتے اور عذاب سے ہلاک کردیئے جاتے ۔ ( واللہ اعلم) مطلب یہ ہے کہ ان بیوتنا عورۃ کہنے والے ایمان میں اتنے کمزور ہیں کہ اگر کوئی لشکر مدینے میں داخل ہوجائے اور ان سے یہ مطالبہ کرے تو یہ جھٹ قبول کرلیں اور مان لیں ، مفسرین نے کئی طرح معنی بیان کئے ہیں ہم نے تیسیر میں سب کا خلاصہ کردیا ہے بعض حضرات نے یہ خلاصہ بیان کیا ہے کہ جہاد میں توقف کرتے ہیں اور خانہ جنگی اور جنگ نفسانی پیش آجائے تو توقف نہ کریں ۔ ( واللہ اعلم بالصواب)  Show more