Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 22

سورة الأحزاب

وَ لَمَّا رَاَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡاَحۡزَابَ ۙ قَالُوۡا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۫ وَ مَا زَادَہُمۡ اِلَّاۤ اِیۡمَانًا وَّ تَسۡلِیۡمًا ﴿ؕ۲۲﴾

And when the believers saw the companies, they said, "This is what Allah and His Messenger had promised us, and Allah and His Messenger spoke the truth." And it increased them only in faith and acceptance.

اور ایمانداروں نے جب ( کفار کے ) لشکروں کو دیکھا ( بے ساختہ ) کہہ اٹھے! کہ انہیں کا وعدہ ہمیں اللہ تعالٰی نے اور اس کے رسول نے دیا تھا اور اللہ تعالٰی اور اس کے رسول نے سچ فرمایا اور اس ( چیز ) نے ان کے ایمان میں اور شیوۂ فرماں برداری میں اور اضافہ کر دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَمَّا رَأَى الْمُوْمِنُونَ الاَْحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ... And when the believers saw the Confederates, they said: "This is what Allah and His Messenger had promised us; and Allah and His Messenger had spoken the truth." Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, and Qatadah said: "They mean what Allah said in Surah Al-Baqarah: أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَأءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُواْ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلاَ إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ Or think you that you will enter Paradise without such (trials) as came to those who passed away before you! They were afflicted with severe poverty and ailments and were so shaken that even the Messenger and those who believed along with him said, "When (will come) the help of Allah!" Yes! Certainly, the help of Allah is near! (2:214) meaning, `this is the trial and test that Allah and His Messenger promised us would be followed by the help and victory of Allah that is near.' Allah says: وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ (and Allah and His Messenger had spoken the truth). ... وَمَا زَادَهُمْ إِلاَّ إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا And it only added to their faith and to their submissiveness. This indicates that faith can increase and strengthen in accordance with people's circumstances, as the majority of scholars stated: faith can increase and decrease. We have stated this at the beginning of our commentary on Al-Bukhari, praise be to Allah. وَمَا زَادَهُمْ (And it only added) means, at that time of stress and difficulty. إِلاَّ إِيمَانًا (to their faith) in Allah, وَتَسْلِيمًا (and to their submissiveness). means their submission to His commands and their obedience to His Messenger.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

221یعنی منافقین نے دشمن کی کثرت تعداد اور حالات کی سنگینی دیکھ کر کہا تھا کہ اللہ اور رسول کے وعدے فریب تھے، ان کے برعکس اہل ایمان نے کہا کہ اللہ اور رسول نے جو وعدہ کیا ہے کہ امتحان سے گزارنے کے بعد تمہیں فتح و نصرت سے ہمکنار کیا جائے گا، وہ سچا ہے۔ 222یعنی حالات کی شدت اور ہولناکی نے ان کے ایمان کو متزلزل نہیں کیا، بلکہ ان کے ایمان میں جذبہ اطاعت اور تسلیم و رضا میں مذید اضافہ کردیا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں اور ان کے مختلف احوال کے اعتبار سے ایمان اور اس کی قوت میں کمی بیشی ہوتی ہے جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٣١] آپ کا بنو غطفان کو اتحادیوں سے توڑنے کا خیال اور انصار کا جواب :۔ منافقوں کے کردار پر تبصرہ کرنے کے بعد اللہ نے مسلمانوں کا کردار بیان فرمایا۔ کہ جوں جوں ان پر مشکلات پڑتی ہیں اور حالات سنگین ہوتے جاتے ہیں توں توں ان کا حوصلہ بڑھتا جاتا ہے۔ ان کے اللہ پر توکل اور ان کے ایمان میں بھی مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ انھیں خوب معلوم ہوتا ہے کہ ان مشکلات کا مقابلہ ہم نے ہی کرنا ہے۔ پھر جو کام ہماری بساط سے باہر ہو تو اس وقت ضرور اللہ کی مدد ہمارا ساتھ دے گی۔ پھر جب اللہ کی مدد فی الواقع ان کو پہنچ جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اور بھی زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ چناچہ جب بنو قریظہ بھی عہد شکنی کرکے اتحادی لشکروں سے مل گئے اور مسلمانوں کے لئے اندر بھی اور باہر بھی خطرہ پیدا ہوگیا تو اس وقت رسول اللہ کے ذہن میں ایک تجویز آئی جو محض انصار کی دلجمعی کی خاطر تھی۔ وہ تجویز یہ تھی کہ بنو غطفان۔۔ جو ایک انتہائی لالچی اور حریص قبیلہ تھا اور ان کی سیاست کا سنہری اصول محض پیسہ کا حصول تھا ان کو مدینہ کی تہائی پیداوار کا لالچ دے کر انھیں اتحادیوں سے کاٹ دیا جائے اور وہ اپنا قبیلہ لے کر واپس چلے جائیں۔ چونکہ یہ قبیلہ سخت جنگجو تھا لہذا اس کی واپسی سے باقی سارے لشکر میں عام بددلی پھیل جانے کا امکان تھا۔ چناچہ اس سلسلہ میں آپ نے قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ اور قبیلہ خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کو بلا کر ان سے مشورہ کیا۔ دونوں نے یک زبان ہو کر پوچھا : && یہ اللہ کا حکم ہے یا آپ ہماری رائے لینا چاہتے ہیں ؟ اگر اللہ کا حکم ہے تو سر آنکھوں پر اور اگر آپ یہ کچھ ہماری خاطر کرنا چاہتے تو ہمیں یہ بات قطعاً منظور نہیں۔ واللہ ہم نے شرک کی حالت میں بھی ان لوگوں کو ایک دانہ تک نہ دیا۔ اب مسلمان ہو کر کیوں دیں گے۔ ان کے لئے ہمارے پاس صرف تلوار ہے && انصاری سرداروں کے اس جواب سے آپ خوش ہوگئے اور فرمایا : && یہ اللہ کا حکم نہیں یہ تو میں نے صرف تمہاری دلجمعی کی خاطر سوچا تھا && (الرحیق المختوم اردو ص ٤٨٧)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ ۔۔ : کفار کے لشکروں کی کثرت تعداد، محاصرے کی سختی، سردی اور بھوک کی شدت اور بنو قریظہ کی عہد شکنی کی وجہ سے جب حالات نہایت سنگین ہوگئے تو اس وقت منافقوں کا اور شکوک و شبہات کے مریض مسلمانوں کا حال اوپر بیان ہوا کہ انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کے وعدے محض فریب تھے، اب مخلص مومنوں کا حال بیان ہوتا ہے کہ انھوں نے ان سختیوں کو دیکھ کر کہا کہ یہ تو آزمائش، تنگی اور تکلیف کے وہی مرحلے ہیں جن کے آنے کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے پہلے ہی خبر دے رکھی ہے اور جن پر صبر کے بعد اس کی نصرت کا وعدہ ہے، جیسا کہ فرمایا : اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۭ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ) [ البقرۃ : ٢١٤ ] ” یا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ ابھی تک تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، انھیں تنگی اور تکلیف پہنچی اور وہ سخت ہلائے گئے، یہاں تک کہ وہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے اللہ کی مدد کب ہوگی ؟ سن لو ! بیشک اللہ کی مدد قریب ہے۔ “ وَصَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ : یعنی اللہ اور اس کے رسول نے آزمائش کا جو وعدہ کیا تھا وہ سچا تھا اور اس پر صبر کے بعد مسلمانوں کی فتح و نصرت اور کفار کی شکست کا وعدہ بھی سچا تھا، جو سورة بقرہ (٢١٤) میں ” اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ“ کے الفاظ کے ساتھ کیا گیا اور اس سے پہلے مکہ میں نازل ہونے والی سورة قمر (٤٥) میں ” سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ “ کے الفاظ کے ساتھ کیا گیا تھا۔ وَمَا زَادَهُمْ اِلَّآ اِيْمَانًا وَّتَسْلِيْمًا : یعنی وہ پہلے سے بھی زیادہ ایمان میں پختہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام ماننے والے بن گئے۔ یہ آیت دلیل ہے کہ آدمی کے ایمان میں زیادتی اور کمی ہوتی ہے۔ امام بخاری (رض) نے صحیح بخاری میں آٹھ آیات اور متعدد احادیث سے یہ بات مدلل فرمائی ہے۔ ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو صریح آیات و احادیث کے باوجود مصر ہیں کہ ایمان میں نہ کمی ہوتی ہے، نہ زیادتی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ۝ ٠ ۙ قَالُوْا ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَصَدَقَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ۝ ٠ ۡوَمَا زَادَہُمْ اِلَّآ اِيْمَانًا وَّتَسْلِــيْمًا۝ ٢ ٢ۭ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ حزب الحزب : جماعة فيها غلظ، قال عزّ وجلّ : أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] ( ح ز ب ) الحزب وہ جماعت جس میں سختی اور شدت پائی جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] دونوں جماعتوں میں سے اس کی مقدار کسی کو خوب یاد ہے وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

مومن کا ایمان آزمائشوں میں مزید پختہ ہوتا ہے قول باری ہے (ولمارای المومنون الاحزاب قالوا ھذا ما وعد نا اللہ ورسولہ۔ اور جب اہل ایمان نے لشکروں کو دیکھا تو کہنے لگے کہ یہی وہ (موقع) ہے جس کی ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے خبر دی تھی) ایک قول کے مطابق مسلمانوں سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ جب مشرکین کے مقابلہ پر اتریں گے انہیں ان پر کامیابی حاصل ہوجائے گی اور وہ ان پر چھا جائیں گے ۔ جس طرح یہ قول باری ہے (لیظھرہ علی السلاین کلد تاکہ وہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے) ۔ قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد وہ وعدہ ہے جو اس قول باری میں ان سے کیا گیا تھا (ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ ولما یاتکم مثل الذین خلوا مین قبلکم کیا تم نے یہ خیال کیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجائو گے جبکہ ابھی تمہارے پاس ان لوگوں کی مثال نہیں آئی ہے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں) قول باری ہے (ومازادھم الا ایمانا وتسلیما۔ اور اس سے ان کے ایمان وطاعت میں ترقی ہی ہوئی) آزمائش کے موقعہ پر صحابہ کرام کی کیفیت کی اس آیت میں عکاسی کی گئی ہے۔ اس آزمائش کی گھڑی میں ان کا یقین اور پختہ ہوگیا اور ان کی بصیرت میں چمک پیدا ہوگی۔ اللہ پر ایمان رکھنے والے اصحاب بصیرت کی یہی کیفیت ہوتی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اب اللہ تعالیٰ بااخلاص مومنین کا ذکر فرماتے ہیں کہ جب ان حضرات نے کفار مکہ یعنی ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کے لشکروں کو دیکھا تو کہنے لگے یہ وہی موقع ہے جس کی چند دنوں پہلے اللہ اور اس کے رسول نے خبر دی تھی کہ تقریبا دس دن کے اندر اندر کفار کی چڑھائی ہوگی اور کفار کے لشکروں کو دیکھنے کے بعد ان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے فرمان پر ان کے یقین میں اور اضافہ ہوگیا اور اللہ اور رسول کی اطاعت میں اور ترقی ہوگئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ { وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ } ” اور جب اہل ِایمان نے دیکھا ان لشکروں کو “ { قَالُوْا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَصَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ } ” تو انہوں نے کہا کہ یہی تو ہے جس کا ہم سے وعدہ کیا تھا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ‘ اور بالکل سچ فرمایا تھا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے۔ “ ان کے دلوں نے فوراً ہی گواہی دے دی کہ یہ وہی صورت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بہت پہلے ہمیں ان الفاظ میں متنبہ ّکر دیا تھا : { وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ } (البقرۃ : ١٥٥) ” اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف اور بھوک سے ‘ اور مالوں اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سے۔ “ بلکہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو ہمیں یہاں تک خبردار کردیا تھا : { لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْقف وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَذًی کَثِیْرًا } (آل عمران : ١٨٦) ” (مسلمانو یاد رکھو ! ) تمہیں لازماً آزمایا جائے گا تمہارے مالوں میں بھی اور تمہاری جانوں میں بھی ‘ اور تمہیں لازماً سننا پڑیں گی بڑی تکلیف دہ باتیں ‘ ان لوگوں سے بھی جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور مشرکین سے بھی۔ “ یہاں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ محاصرے کی جس صورت حال پر منافقین نے { مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا۔ کے الفاظ میں تبصرہ کیا تھا اسی صورت حال پر مومنین کا تبصرہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ یعنی ایک ہی صورت حال میں دونوں فریقوں کا رد عمل مختلف بلکہ متضاد تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی انسان کے عمل اور اس کے رویے ّکا انحصار اس کے دل کی کیفیت پر ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کو سورة البقرۃ کی آیت ٢٦ میں قرآن کریم کے حوالے سے یوں واضح کیا گیا ہے : { یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًالا وَّیَہْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًاط } یعنی اللہ تعالیٰ اس قرآن کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت عطا کرتا ہے۔ { وَمَا زَادَہُمْ اِلَّآ اِیْمَانًا وَّتَسْلِیْمًا } ” اور اس (واقعہ) نے ان میں کسی بھی شے کا اضافہ نہیں کیا مگر ایمان اور فرمانبرداری کا۔ “ یعنی یہ آزمائش مسلمانوں کے ایمان اور جذبہ تسلیم و رضا میں مزید اضافہ کرگئی۔ محاصرے کے پورے عرصے کے دوران میں ہر قسم کی مصیبت اور پریشانی کے سامنے وہ ع ” سر ِتسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے “ کے نعرئہ مستانہ کی عملی تصویر بنے رہے۔ گویا مومن تو ہر حال میں خوش اور مطمئن رہتا ہے۔ اللہ کے راستے میں اس کی کوششیں دنیا میں ہی بار آور ہوں یا اس جدوجہد میں اس کی جان چلی جائے ‘ وہ دونوں صورتوں میں سرخرو ٹھہرتا ہے۔ سورة التوبہ کی آیت ٥٢ میں ان دونوں صورتوں کو اَلْحُسْنَـیَیْن (دو بھلائیاں) قرار دیا گیا ہے : { قُلْ ہَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلآَّ اِحْدَی الْحُسْنَـیَیْنِط } ” (اے مسلمانو ! ان منافقین سے) کہو کہ تم ہمارے بارے میں کس شے کا انتظار کرسکتے ہو ؟ سوائے دو بھلائیوں میں سے ایک کے ! “ یعنی تبوک کی اس مہم کے دوران میں جو صورت بھی ہمارے درپیش ہو ہمارے لیے اس میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔ اگر فتح یاب ہو کر لوٹے تو دنیا کی کامیابیاں پائیں گے اور اگر شہید ہوگئے تو جنت کی ابدی نعمتوں سے نوازے جائیں گے۔ (سورۃ التوبہ ٩ ہجری میں سورة الاحزاب کے چار سال بعد نازل ہوئی۔ ) یہ راستہ دراصل عشق کا راستہ ہے اور اس راستے کے مسافروں کی نظر ظاہری مفاد کے بجائے اپنے محبوب کی رضا پر ہوتی ہے۔ حالات موافق و سازگار ہوں یا مخدوش و نامساعد ‘ وہ اس کی پروا کیے بغیر اپنے محبوب کی خوشنودی کے لیے سر گرم عمل رہتے ہیں۔ بقول غالب : ؎ ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے بے نیازی تری عادت ہی سہی !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

36 After drawing attention to the model of the Holy Prophet, Allah now presents the model of his Companions so that the character of the false claimants to faith and of the sincere followers of the Messenger is clearly contrasted. Although both were alike apparently in the affirmation of the faith, both were counted as Muslims, and both attended at the Prayers, they were separated from each other as soon as the time of the trial approached, and it became clear who were loyal to Allah and His Messenger and who were Muslims only in name. 37 Here, one should keep verse 12 in view. There it was said that when the hypocrites and the people with diseased hearts found themselves surrounded by a huge force of ten to twelve thousand men from the front and by the Bani Quraizah from behind, they openly started saying: "The promises that Allah and His Messenger had made with us were nothing but a delusion. We were promised that if we believed in Allah's religion, His succour would be at our back and we would rule Arabia and the world outside and all the wealth of Caesar and Chosroes will be ours, but here we are that the whole of Arabia is bent upon exterminating us, and there is no sign yet of the armies of the angels in sight, who would save us and protect us against this grave calamity." Now they are being told: "One meaning of the promise of Allah and His Messenger was that which was understood by these false claimants to faith. The other meaning is that which is understood by the sincere and true Muslims. When they saw the storms of danger gathering, they too remembered the promises of Allah, but these promises did not mean that as soon as they affirmed the faith they would overwhelm and subdue the whole world without the slightest effort, and the angels would come to perform their coronation, but the promises actually meant that they would have to pass through severe trials, endure extreme hardships and afflictions, offer supreme sacrifices; then only will AIlah bless them with His grace and they will be granted successes of the world and the Hereafter, which Allah has promised His believing servants. "Do you think that you will enter Paradise without undergoing such trials as were experienced by the believers before you? They met with adversity and afflictions and were so shaken by trials that the Prophet of the time and his followers cried out: `When will Allah's help come?" - "Yes, Allah's help is near." (AI-Baqarah: 214). "Do the people think that they will be left alone after they have once said, `We have believed', and they will not be tested ? The fact is that We have put to the test all those who have gone before them. Surely, Allah has to see who are the truthful and who the liars. " (AI-`Ankabut: 2-3). 38 That is, "On seeing the hard, times of affliction approaching they did not waver in their faith but were strengthened in it all the mote, and instead of giving uP Allah's obedience they became ready to resign and surrender to Him whatever they had with complete conviction and satisfaction of the heart. " Here, one should fully understand that faith and resignation is indeed a quality of the self which is put to trial and test at every command and demand of the Faith. At every step in life man comes across situations where the Faith either enjoins something or forbids something, or requires one to make sacrifices of life and wealth and time and desires of the self. At every such occasion the faith and conviction of the person who deviates from obedience will suffer decline and the faith and conviction of him who submits to the command and demand will be strengthened and enhanced. Although in the beginning a man becomes a believer and Muslim only by embracing the fundamental creed (Kalimah) of Islam, yet his state of faith does not remain static but is open to both deterioration and development. Decline in sincerity and the spirit of obedience causes it to deteriorate; so much so that constant retrogression may cause the person to reach the last limits of the faith where the slightest move backward may turn him from a believer to a hypocrite. Contrary to this, the more sincere a person is, the more perfect his obedience and the greater his devotion and dedication to the cause of the true Faith, the stronger and more sound will he grow in faith and may even attain the supreme rank of the truthful. But this increase and decrease in the faith has only the moral significance which can be judged and reckoned by none but Allah. As for the man, faith is simply the act of affirmation by which a Muslim enters Islam and is regarded as a Muslim as long as he remains steadfast to it. In this regard we cannot say that so and so is half a Muslim, or one-third a Muslim, and another one double a Muslim or triple a Muslim. Likewise, in legal rights the Muslims are equal and alike. It cannot be that one is regarded a greater believer and given more rights and another one a lesser believer and given less rights. In these aspects there can be no question of the increase and decrease in the faith, and in fact, in this very sense has Imam Abu Hanifah said: "Faith in Islam neither increases nor decreases. "

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :36 رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کی طرف توجہ دلانے کے بعد اب اللہ تعالیٰ صحابۂ کرام کے طرز عمل کو نمونے کے طور پر پیش فرماتا ہے تاکہ ایمان کے جھوٹے مدعیوں اور سچے دل سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اختیار کرنے والوں کا کردار ایک دوسرے کے مقابلہ میں پوری طرح نمایاں کر دیا جائے ۔ اگرچہ ظاہری اقرار ایمان میں وہ اور یہ یکساں تھے ۔ مسلمانوں کے گروہ میں دونوں کا شمار ہوتا تھا اور نمازوں میں دونوں شریک ہوتے تھے ۔ لیکن آزمائش کی گھڑی پیش آنے پر دونوں ایک دوسرے سے چھٹ کر الگ ہو گئے اور صاف معلوم ہو گیا کہ اللہ اور اس کے رسول کے مخلص وفادار کون ہیں اور محض نام کے مسلمان کون ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :37 اس موقع پر آیت نمبر ۱۲ کو نگاہ میں رکھنا چاہیے ۔ وہاں بتایا گیا تھا کہ جو لوگ منافق اور دل کے روگی تھے انہوں نے دس بارہ ہزار کے لشکر کو سامنے سے اور بنی قریظہ کو پیچھے سے حملہ آور ہوتے دیکھا تو پکار پکار کر کہنے لگے کہ سارے وعدے جو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہم سے کیے تھے محض جھوت اور فریب نکلے کہا تو ہم سے یہ گیا تھا کہ دین خدا پر ایمان لاؤ گے تو خدا کی تائید تمہاری پشت پر ہو گی ، عرب و عجم پر تمہارا سکہ رواں ہو گا ، اور قیصر و کسریٰ کے خزانے تمہارے لیے کھل جائیں گے ۔ مگر ہو یہ رہا ہے کہ سارا عرب ہمیں مٹا دینے پر تل گیا ہے اور کہیں سے فرشتوں کی وہ فوجیں آتی نظر نہیں آرہیں جو ہمیں اس سیلاب بلا سے بچا لیں ۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے وعدوں کا ایک مطلب تو وہ تھا جو ان جھوٹے مدعیان ایمان نے سمجھا تھا ۔ دوسرا مفہوم وہ ہے جو ان صادق الایمان مسلمانوں نے سمجھا ۔ خطرات امنڈتے دیکھ کر اللہ کے وعدے تو ان کو بھی یاد آئے ، مگر یہ وعدے نہیں کہ ایمان لاتے ہی انگلی ہلائے بغیر تم دنیا کے فرمانروا ہو جاؤ گے اور فرشتے آ کر تمہاری تاجپوشی کی رسم ادا کریں گے ، بلکہ یہ وعدے کہ سخت آزمائشوں سے تم کو گزرنا ہو گا ، مصائب کے پہاڑ تم پر ٹوٹ پڑیں گے ، گراں ترین قربانیاں تمہیں دینی ہوں گی ، تب کہیں جا کر اللہ کی عنایات تم پر ہوں گی اور تمہیں دنیا اور آخرت کی وہ سرفرازیاں بخشی جائیں گی جن کا وعدہ اللہ نے اپنے مومن بندوں سے کیا ہے : اَمْ حَسِبْتُمْ اَن تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ ۔ ط مَسَّتْھُمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ مَتٰی نَصْرُاللہِ ۔ ط ۔ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ O ( البقرہ ۔ آیت ۲۱٤ ) کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں بس یونہی داخل ہو جاؤ گے ؟ حالانکہ ابھی وہ حالات تو تم پر گزرے ہی نہیں جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکے ہیں ۔ ان پر سختیاں اور مصیبتیں آئیں اور وہ ہلا مارے گئے یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھی پکار اٹھے کہ کب آئے گی اللہ کی مدد ۔ ۔ سنو ، اللہ کی مدد قریب ہے ۔ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوُلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَo وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَo ( العنکبوت: ۲ ۔ ۳ ) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس یہ کہنے پر وہ چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور انہیں آزمایا نہ جائیگا ؟ حالانکہ ہم نے ان سب لوگوں کو آزمایا ہے جو ان سے پہلے گزرے ہیں ۔ اللہ کو تو یہ ضرور دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :38 یعنی اس سیلاب بلا کو دیکھ کر ان کے ایمان متزلزل ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھ گئے ، اور اللہ کی فرماں برداری سے بھاگ نکلنے کے بجائے وہ اور زیادہ یقین و اطمینان کے ساتھ اپنا سب کچھ اس کے حوالے کر دینے پر آمادہ ہو گئے ۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ایمان و تسلیم دراصل نفس کی ایک ایسی کیفیت ہے جو دین کے ہر حکم اور ہر مطالبے پر امتحان میں پڑ جاتی ہے ۔ دنیا کی زندگی میں ہر ہر قدم پر آدمی کے سامنے وہ مواقع آتے ہیں جہاں دین یا تو کسی چیز کا حکم دیتا ہے ، یا کسی چیز سے منع کرتا ہے ، یا جان اور مال اور وقت اور محنت اور خواہشات نفس کی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے ۔ ایسے ہر موقع پر جو شخص اطاعت سے انحراف کرے گا اس کے ایمان و تسلیم میں کمی واقع ہو گی ، اور جو شخص بھی حکم کے آگے سر جھکا دے گا اس کے ایمان و تسلیم میں اضافہ ہو گا ۔ اگرچہ ابتداءً آدمی صرف کلمۂ اسلام کو قبول کر لینے سے مومن و مسلم ہو جاتا ہے ۔ لیکن یہ کوئی ساکن و جامد حالت نہیں ہے جو بس ایک ہی مقام پر ٹھہری رہتی ہو ، بلکہ اس میں تنزل اور ارتقاء دونوں کے امکانات ہیں ۔ خلوص اور اطاعت میں کمی اس کے تنزل کی موجب ہوتی ہے ۔ یہاں تک کہ ایک شخص پیچھے ہٹتے ہٹتے ایمان کی اس آخری سرحد پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے یک سر مو بھی تجاوز کر جائے تو مومن کے بجائے منافق ہو جائے اس کے برعکس خلوص جتنا زیادہ ہو ، اطاعت جتنی مکمل ہو اور دین حق کی سر بلندی کے لیے لگن اور دھن جتنی بڑھتی چلی جائے ، ایمان اسی نسبت سے بڑھتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ آدمی صدّیقیّت کے مقام تک پہنچ جاتا ہے لیکن یہ کمی و بیشی جو کچھ بھی ہے اخلاقی مراتب میں ہے جس کا حساب اللہ کے سوا کوئی نہیں لگا سکتا بندوں کے لیے ایمان بس ایک ہی اقرار تصدیق ہے جس سے ہر مسلمان داخل اسلام ہوتا ہے اور جب تک اس پر قائم رہے ۔ مسلمان مانا جاتا ہے ۔ اس کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ آدھا مسلمان ہے اور یہ پاؤ ، یا یہ دوگنا مسلمان ہے اور یہ تین گنا ۔ اسی طرح قانونی حقوق میں سب مسلمان یکساں ہیں ، یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی کو ہم زیادہ مومن کہیں اور اس کے حقوق زیادہ ہوں ، اور کسی کو کم مومن قرار دیں اور اس کے حقوق کم ہوں ۔ ان اعتبارات سے ایمان کی کمی و بیشی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا اور دراصل اسی معنی میں امام ابو حنیفہ نے یہ فرمایا ہے کہ الایمان لا یزید ولا ینقص ، ایمان کم و بیش نہیں ہوتا ۔ ( مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد۲ ، الانفال ، حاشیہ ۲ ، جلد پنجم ، الفتح ، حاشیہ ۷ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٢‘ ٢٣۔ مسلمانوں کا دل بڑھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مختصر طور پر حضرت انس بن نضر کے قصہ کا ذکر فرمایا ہے جنگ احد کے ذکر میں اس قصہ کا تذکرہ گزر چکا ہے صحیح بخاری کی انس بن مالک (رض) سے جو اس قصہ کی روایت سورة آل عمران میں گزر چکی ہے ١ ؎ اس کا حاصل یہ ہے (١ ؎ تیز دیکھئے تفسیر ابن کثیر زیر تفسیر ہذا) کہ انس بن مالک (رض) کے چچا انس (رض) بن نضر کسی ضرورت کے سبب سے بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہوسکتے تھے اس واسطے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ اگر بدر کی لڑائی کے بعد پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی لڑائی کا موقع پیش آوے گا تو یہ بڑی جانبازی سے خوب دل کھول کر لڑیں گے جنگ بدر کے بعد جب احد کی لڑائی کا موقع پیش آیا تو انس بن نضر (رض) مسلمانوں کے لشکر میں موجود تھے اور مسلمانوں کی شکست کے وقت اللہ تعالیٰ سے انہوں نے سب مسلمانوں کی طرف سے عذر خواہی کی اور اپنا عہد پورا کرنے کو تلوارے کر دشمن کے لشکر کی طرف بڑھے اور سعد بن معاذ (رض) ان کو راستہ میں ملے تو انہوں نے سعد (رض) سے کہا کہ احد پہاڑ کی جانب سے مجھ کو جنت کی خوشبو آتی ہے اور نہایت جو انمردی کر کے دشمنوں سے لڑے اور کچھ اوپر اسی ٨٠ زخم کھا کر شہید ہوئے اس قصہ کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے یاد دلایا ہے کہ سب مسلمانوں نے جس طرح اللہ کے رسول سے دین کی لڑائی میں جان بازی کرنے کا عہد کیا ہے انس بن نضر (رض) کی طرح ان کو اس اپنے عہد پر قائم رہنا چاہئے اور منافقوں کے بہکانے میں ہرگز نہیں آنا چاہئے مجاہد کے قول کے موافق حب کے معنے عہد کے ہیں ‘ جو لوگ انس بن نضر کی طرح احد کی لڑائی میں شہید تو نہیں ہوئے مگر اس خندق کی لڑائی میں ثابت قدم رہے ان کی یہ تفریف فرمائی کہ وہ بھی اپنی جانبازی کے عہد پر قائم اور عد کے پورا کرنے کے منتظر تھے اس لیے اس لڑائی میں انہوں نے منافقوں کی طرح اپنے عہد کو نہیں بدلا آخر آیت میں عہد کو سچا کرنے والوں کا اور بدعہدی کرنے والوں کا نتیجہ ذکر فرمایا کہ عہد کو سچا کرنے والوں کے لیے عقبیٰ میں اجر ہے اور بدعہدی کرنے والوں کے لیے عذاب ‘ بدعہدی کرنے والوں میں بعضے لوگ اللہ کے علم میں توبہ کرنے والے بھی تھے اس لیے فرمایا ان میں سے جن کو اللہ چاہے گا آیندہ بدعہدی سے توبہ کرنے کی ان کو تو فقر دے گا اور یہ بھی فرمایا کہ توبہ سے پہلے کے گناہوں کے معاف کردینے میں اللہ بڑا مہربان ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کھا کر فرمایا کہ غفور رحیمی کی صفت اللہ تعالیٰ کو ایسی پیاری ہے کہ اگر دنیا کے موجودہ لوگ گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ بجائے ان کے اور ایسے لوگوں کو پیدا کرتا کہ وہ گناہ کر کے توبہ استغفار کرتے اور اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو بخشش دیتا۔ یہ حدیث ان اللہ کان غفورا رحم یا کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر یہ منافق آیندہ اپنی عادتوں سے توبہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے پچھلے گناہوں کو ضرور معاف کر دے گا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:22) من المؤمنین میں من تبعیضیہ ہے اور مومنین سے مراد مطلقا ان سے ہے جو اخلاص سے ایمان لائے ہوئے تھے۔ رجال صاحب ضیاء القرآن رقمطراز ہیں :۔ رجال پر تنوین تعظیم کی ہے اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو قوت و مردانگی میں بےنظیر تھے۔ یقال فلان رجل فی رجال ای کامل الرجولیۃ بینھم (المنجد) یعنی اہل ایمان میں سے ایسے جواں مرد اور پاکباز عشاق بھی ہیں ۔ جنہوں نے اپنے رب کریم سے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کر دکھایا۔ بعض کے نزدیک یہ حضرات انس بن نضیر، عثمان بن فعان، طلحہ بن عبید اللہ، سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ، حمزہ ، مصعب بن عمر وغیرہ تھے (رض) اجمعین۔ یہ حضرات بعض وجوہ کی بنا پر جنگ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے جس کا ان کو ازحد افسوس تھا۔ انہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اب کوئی ایسا موقعہ آیا تو وہ اپنی جانبازی کے جوہر دکھائیں گے۔ صدقوا ما عاھدو اللہ علیہ : صدقوا۔ ماضی جمع مذکر غائب ۔ صدق (باب نصر) سے مصدر۔ انہوں نے سچ کر دکھایا۔ صدق فی الحدیث سچ بولنا۔ وصدق فی الوعد۔ وعدہ پورا کرنا۔ وصدق فی القتال۔ بےجگری سے لڑنا۔ ما موصولہ ہے۔ عاھدوا اللہ علیہ۔ جس کے متعلق انہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا۔ معاھدۃ (مفاعلۃ) سے۔ منھم میں بھی من تبعیضیہ ہے۔ بعض ۔ کچھ، ہم ضمیرجمع مزکر غائب ان مؤمنین کے لئے ہے جس کا اشارہ ما عاھدوا اللہ علیہ میں ہے یا رجال جو اس سے قبل مذکور ہے۔ من موصولہ ہے۔ قضی تحیہ۔ قضی ماضٰ واحد مذکر غائب قضاء (باب ضرب) قضی یقضی قضاء پورا کرنا۔ ادا کرنا۔ مثلا قضی حاجتہ اس نے ضرورت کو پورا کیا۔ قضی وطرہ اپنی مراد کو پہنچا۔ قضی الصلوۃ نماز کو ادا کرنا۔ نحب نذر کو ادا کیا۔ اس نے اپنی منت پوری کردی۔ کبھی نحب سے کنایۃ موت مراد لی جاتی ہے کیونکہ موت بھی ہر جاندار کے گلے میں نذر کی طرح لازم ہے سو قضی نحبہ یا قضی اجلہ سے مراد موت آجانا ہے۔ یہاں مراد یہ ہے کہ ان میں کچھ ایسے تھے جو اپنی نذر پوری کرچکے۔ یعنی شیادت پاگئے۔ (مثلاً حضرت حمزہ اور حضرت مصعب بن عمیر (رض) وغیرہ) ومنھم من (اوپر مذکور ہوا) ینظر مضارع واحد مذکر غائب انتظار (افتعال) مصدر۔ وہ انتظار میں ہے۔ وہ منتظر ہے۔ اور ان میں وہ بھی ہیں جو راہ دیکھ رہے ہیں (کہ کب شہادت کی سعادت انہیں نصیب ہو) ان میں حضرت عثمان اور حضرت طلحہ وغیرہ (رض) ہیں۔ ما بدلوا تبدیلا۔ مافتی منفی جمع مذکر غائب ، انہوں نے نہیں بدلا۔ تبدیل (تفعیل) مصدر ۔ مصدر منصوب تاکید کے لئے یالا گیا ہے۔ یعنیوی اپنے ارادہ و عہد پر ثابت قدم اور پختہ ہیں انہوں نے ہرگز اپنا ارادہ نہیں بدلا۔ تفسیر ماجدی میں ہے کہ تبدیلا تنوین تصغیر کے لئے ہے یعنی کسی نوع ، کسی قسم کی ادنی تبدیلی بھی ان میں نہیں ہوئی۔ اس جملہ کا عطف صدقوا پر ہے اور ضمیر فاعل کا مرجع منتظرین ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 کہ اللہ تمہیں آزمائے گا اور پھر جب تم ثابت قدمی دکھائے گے تو تمہاری مدد گا۔ ( ابن کثیر) ۔ یہ وعدہ قرآن کی متعدد آیات میں مذکور ہے۔ ( دیکھئے سورة بقرہ آیت 214 و سورة عنکبوت آیت 2، 3) مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی کے ذریعہ مسلمانوں کو خوشخبری دی کہ عنقریب اللہ تعالیٰ ان پر رسیح یعنی آندھی بھیجے گا اور یہ مرعوب ہو کر بھاگ جائیں گے چناچہ مسلمانوں نے سن کر یہ کہا ( ھذا ما وعدنا اللہ۔۔۔۔ ) (قرطبی)8 وہ پہلے سے زیادہ ایمان میں پختہ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عاشق زاد و اطاعت گزار ہوگئے۔ اس آیت میں اس چیز کی دلیل ہے کہ ایمان کم اور زیادہ ہوتا ہے اور یہی اہلحدیث کا مذہب ہے۔ ( وحیدی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یہ وصف تو سب مومنین میں مشترک ہے اور بعض اوصاف مومنین میں خاص بھی ہیں جس کا بیان آگے ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نمونہ پیش کرنے اور اس کی اہمیت ذکر کرنے کے بعد صحابہ کرام (رض) کا کردار پیش کیا جاتا ہے۔ ” الْمُؤْمِنُوْنَ “ سے مراد صحابہ کرام ] کی جماعت ہے جنہوں نے موسم کی شدت، افراد کی قلت، انتہائی غربت، دشمن کا خوف، داخلی، خارجی مصائب اور مسائل کے باوجود اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس یقین کے ساتھ ساتھ دیا کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو بھی ہمارے ساتھ وعدہ کیا وہ سچ ثابت ہوا اور ہوگا۔ مصائب اور مسائل نے ان کے ایمان میں کمزوری پیدا کرنے کی بجائے اضافہ ہی کیا ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے مال و جان کی قربانی دے کر اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پورا کردیا ہے جو باقی ہیں وہ اپنے عہد پر قائم رہتے ہوئے شہادت کا انتظار کررہے ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ قول وفعل میں سچے لوگوں کو ان کی سچائی کی جزا دے گا اور منافقت پر قائم رہنے والوں کو سز ادے گا اگر منافق اپنی منافقت سے باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ ان پر مہربانی فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ جنگ کے دوران آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کردار آپ ہر حال میں سب مسلمانوں کے لیے واجب الاتباع نمونہ ہیں : جنگ کی سب سے زیادہ ذمہ داری سپہ سالار پر ہوتی ہے۔ غزوہ خندق میں مسلمانوں کے سپہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے۔ دشمن کی کثرت مسلمانوں کی تعداد اور خوراک کی قلت، حالات کی سنگینی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پائے ثبات میں ذرہ بھر بھی لغزش پیدا نہ کرسکی۔ مسلمانو ! تمہارا کردار بھی ایسا ہی ہونا چاہیے اور تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کو بطور نمونہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ جنگ میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں رسول کی ذات تمہارے لیے نمونہ ہونی چاہیے اس مختصر جملہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور اتباع کو تمام مسلمانوں پر لازم اور واجب قرار دیا گیا ہے۔ سیدنا انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ میرا نام میرے چچا انس بن نضر کے نام پر رکھا گیا تھا۔ وہ جنگ بدر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حاضر نہ ہو سکے اور یہ بات ان پر بہت شاق گزرتی تھی اور اس نے کہا کہ اللہ کی قسم ! اب اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حاضر ہونے کا موقع آیا تو اللہ تعالیٰ دیکھ لے گا کہ میں کیا کچھ کرتا ہوں۔ راوی کہتا ہے کہ پھر وہ ڈر گئے اور ان الفاظ کے علاوہ کچھ اور لفظ کہنا مناسب نہ تھا۔ جب اگلے سال احد کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حاضر ہوئے تو انہیں راستے میں سعد بن معاذ (رض) ملے۔ انہوں نے پوچھا ابو عمر کہاں جاتے ہو ؟ انس (رض) کہنے لگے۔ ” واہ میں تو احدپہاڑ کے پار جنت کی خوشبو پا رہا ہوں۔ چناچہ وہ بڑی جرأت سے لڑے۔ حتیٰ کہ شہید ہوگئے اور ان کے جسم پر ضربوں، نیزوں اور تیروں کے اسی (٨٠) سے زیادہ زخم پائے گئے۔ میری پھوپھی ربیع بنت نضرنے کہا کہ ” میں اپنے بھائی کی نعش کو صرف اس کے پوروں سے پہچان سکی اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (رواہ ترمذی : ابواب التفسیر) حیی بن اخطب نے بنو قریظہ کو کس طرح بدعہدی پر آمادہ کیا : اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی ایسی مدد فرمائی کہ عام لڑائی کی نوبت ہی نہ آنے دی اور کفار کے محاصرہ کو اٹھانے کے لیے یخ بستہ ہوا اور فرشتے بھیج دئیے۔ یہود میں اور مکہ کے اتحادیوں میں پھوٹ ڈال دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن بدحواس ہو کر بھاگ کھڑا ہوا۔ بھلا اللہ کی زبردست قوت کے سامنے کون ٹھہر سکتا ہے ؟ یہود بنو قریظہ تھے جو مسلمانوں کے معاہد تھے۔ بنو قینقاع اور بنی نضیر کی جلا وطنی کے بعد مدینہ میں یہود کا یہی قبیلہ باقی رہ گیا تھا۔ کیونکہ یہ قبیلہ دوسروں کی نسبت قدرے شریف اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والا تھا۔ جب بنونضیر کو خیبر کی طرف جلا وطن کردیا گیا اور جنگ احزاب کی تیاریاں شروع ہوگئیں تو بنو نضیر کا رئیس حیی بن اخطب رات کی تاریکیوں میں بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد کے پاس گیا۔ کعب کو اندازہ ہوگیا تھا کہ حیی مجھے مسلمانوں سے عہد شکنی پر آمادہ کرنے کے لیے آیا ہے۔ لہٰذا اس نے دروازہ ہی نہ کھولا۔ حیی نے اس سے کچھ چکنی چپڑی باتیں کیں تو آخر اس نے دروازہ کھول دیا۔ حیی کہنے لگا کعب میں تمہارے پاس زمانے کی عزت اور چڑھتا ہوا سمندر لے کر آیا ہوں۔ ان لوگوں نے مجھ سے عہدوپیمان کیا ہے کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں کا صفایا کیے بغیر یہاں سے نہ ٹلیں گے۔ اس کے جواب میں جو کچھ کعب نے کہا وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ اس نے کہا حیی واللہ تم میرے پاس زمانے کی ذلت اور برسا ہوا بادل لے کر آئے ہو جو صرف گرج چمک رہا ہے۔ تم پر افسوس مجھے میرے حال پر چھوڑ دو ۔ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں صدق وصفا کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ ( ابن ہشام) مگر حیی نے کعب کو سبز باغ دکھا دکھا کر بالآخر بدعہدی پر مجبور کر ہی لیا وہ کہنے لگا اگر قریش محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاتمہ کیے بغیر ہی واپس چلے گئے تو میں بھی تمہارے ساتھ قلعہ بند ہوجاؤں گا اور واپس نہیں جاؤں گا پھر جو انجام تمہارا ہوگا وہی میرا ہوگا۔ اس شرط پر کعب بھی اتحادیوں میں شامل ہوگیا۔ یہود کا انجام اور ان کا سیدنا سعد بن معاذ (رض) کو حکم تسلیم کرنا : یہودیوں کے پاس وافر مقدار میں راشن موجود تھا اور انہوں نے مسلمانوں کے استیصال کے لیے ڈیڑھ ہزار تلواریں، دو ہزار نیزے تین سو زرہیں اور پانچ سو ڈھالیں بھی تیار کر رکھی تھیں۔ مگر وقت پر کوئی چیز بھی ان کے کام نہ آئی۔ انہوں نے صرف ٢٥ دن کے محاصرہ کے بعد اس شرط پر ہتھیار ڈال دیے کہ ان کے حق میں جو بھی فیصلہ ان کے حلیف سعد بن معاذ کریں گے وہ انہیں منظور ہوگا۔ حالانکہ ان کے پاس قلعہ میں اس قدر راشن موجود تھا کہ اگر وہ چاہتے تو پورا سال قلعہ بند رہ کر آسانی سے گزارا کرسکتے تھے مگر ان کے ضمیر نے انہیں جلد ہی بےچین کردیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کی دھاک بٹھا دی۔ بنو قریظہ کا انجام : سیدنا سعد بن معاذ (رض) کو جنگ احزاب میں کاری زخم لگا تھا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے کہ (عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ أُصِیْبَ سَعْدٌ یَوْمَ الْخَنْدَقِ فِیْ الأَکْحَلِ ، فَضَرَبَ النَّبِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَیْمَۃً فِی الْمَسْجِدِ لِیَعُوْدَہُ مِنْ قَرِیْبٍ ، فَلَمْ یَرُعْہُمْ وَفِیْ الْمَسْجِدِ خَیْمَۃٌ مِنْ بَنِیْ غِفَارٍ إِلاَّ الدَّمُ یَسِیْلُ إِلَیْہِمْ فَقَالُوْا یَا أَہْلَ الْخَیْمَۃِ ، مَا ہَذَا الَّذِیْ یَأْتِیْنَا مِنْ قِبَلِکُمْ فَإِذَا سَعْدٌ یَغْذُوْ جُرْحُہُ دَمًا، فَمَاتَ فِیْہَا)[ رواہ بخاری : کتاب الصلوٰۃ، باب الخیمۃ فی المسجد للمرضی وغیرہم ] ” سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جنگ خندق میں سعد بن معاذ (رض) کو ہفت اندام کی رگ میں تیر لگا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد میں ہی ان کے لیے خیمہ لگوادیا۔ تاکہ ان کی عیادت کرتے رہیں۔ مسجد میں بنو غفار کا خیمہ بھی تھا۔ جب سیدنا معاذ (رض) کا خون بہہ کر ان کے خیمہ کی طرف آیا تو وہ ڈر کر کہنے لگے اے خیمہ والو ! یہ کیا ہے جو تمہاری طرف سے بہہ کر ہماری طرف آرہا ہے دیکھا تو سعد (رض) کے زخم سے خون بہہ رہا تھا بالآخر اسی زخمی سے وہ چل بسے۔ “ مسائل ١۔ صحابہ کرام ] نے ہر حال میں اپنے رب سے کیے ہوئے وعدے پورے کیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ صحابہ کرام (رض) اور اپنے قول وفعل میں سچے مسلمانوں کو جزائے خیر دے گا۔ ٣۔ منافقت سے تائب ہونے والے کو اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن سچائی اور اس کی جزا : ١۔ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مدد کی وہی سچے ہیں۔ (الحشر : ٨) ٢۔ اللہ تعالیٰ سچوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے گا۔ (الاحزاب : ٢٤) ٣۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ نبیوں، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ (النساء : ٦٩) ٤۔ قیامت کے دن سچے لوگوں کو ان کی سچائی کا صلہ دیا جائے گا۔ (المائدۃ : ١١٩) ٥۔ سچے مومن وہ ہیں جو اپنے مال اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ (الحجرات : ١٥) ٦۔ اے ایمان والو سچے لوگوں کا ساتھ دو ۔ (التوبۃ : ١١٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولما را المؤمنون ۔۔۔۔۔ ایمانا وتسلیما (23) ” “۔ اس جنگ میں مسلمان جس خوف سے دوچار ہوئے وہ اس قدر عظیم تھا ، اور اس غزوہ میں جو دکھ ان کو پہنچا اس قدر شدید تھا ، اور اس واقعہ میں وہ جس بےچینی کا شکار ہوئے ، وہ اس قدر سخت تھی کہ وہ ہلا مارے گئے اور قرآن نے اس کے لیے زلزالا شدیدا (33: 11) کا لفظ استعمال کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ھنالک ابتلی المومنون وزلزلوا زلزالا شدیدا (33: 11) ” یہاں مومنین کو آزمایا گیا اور وہ ہلا مارے گئے “۔ یہ لوگ بہرحال انسان تھے اور انسان کی قوت برداشت بہرحال محدود ہوتی ہے ۔ اللہ بھی انسان کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا۔ اگرچہ ان کو پورا پورا یقین تھا کہ آخری فتح ہماری ہی ہوگی۔ اور رسول اللہ نے ان کو بشارت بھی دے دی تھی اور یہ بشارت نہ صرف عرب بلکہ یمن ، شام اور مشرق و مغرب کی فتح کی تھی۔ لیکن ان حقائق کے باوجود موجودہ ہولناک حالات نے انہیں ہلا کر رکھ دیا تھا اور وہ مسلسل کرب اور خوف محسوس کرتے تھے۔ سلمان کن حالات میں تھے اور کس قدر سہمے ہوئے تھے ، اس کی تصویر حضرت حذیفہ ابن ایمان کی روایت سے بہت وضاحت سے معلوم ہوتی ہے ۔ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حالت کیا تھی اور ان کی اندرونی حالت کیا تھی۔ ” حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ (رض) سے کہتے ہیں کون ہے وہ شخص جو کھڑا ہو اور جائے اور دشمن کے لشکر کے اندر جاکر معلوم کرے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ اس کے لیے شرط ہے کہ وہ واپس آئے گا۔ میں اللہ سے دعا کروں گا کہ اللہ اسے میرے ساتھ جنت میں رکھے “۔ باوجود اس کے کہ اس شخص کی واپسی کی بھی ضمانت ہے اور اس کے لیے جنت کی دعاء کی بھی ضمانت ہے ، لیکن کوئی بھی خود اٹھ کر نہیں آتا۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین بار دہراتے ہیں۔ آخر میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت حذیفہ (رض) کا نام لے کر پکارتے ہیں اور حذیفہ (رض) بھی فرماتے ہیں کہ جب میرا نام لے لیا گیا تو اب میرے لیے جانے کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ صحابہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ موقف انتہائی خوف کی حالت ہی میں اختیار کرسکتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات ان کی طاقت سے زیادہ تھی۔ لیکن اس زلزال شدید کے باوجود ، اور آنکھیں پتھرانے کے باوجود جان کی بےچینی کے باوجود ، ان لوگوں کا اللہ کے ساتھ ایک غیر منقطع تعلق تھا۔ وہ سنن الہیہ کو اس حد تک جانتے تھے کہ وہ کسی وقت بھی ان نظروں سے اوجھل نہ ہوتی تھیں اور ان کو سنن الہیہ پر غیر متزلزل بھروسہ تھا کہ اللہ کے یہ سنن ناقابل تغیر ہیں اور جب ان کے مطابق اسباب فراہم ہوں تو نتائج ضرور ان کے مطابق نکلیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مومنین نے یہ سمجھ لیا کہ اس شدید خوف اور ہلا مارنے کے بعد اب نصرت قریب آگئی ہے کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ اللہ نے فرمایا ہے۔ ام حسبتم ان تدخلوا ۔۔۔۔۔ نصر اللہ قریب (حوالہ) ” کیا تم یہ گمان رکھتے ہو کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے اور تم پر دہ حالات نہ آئیں گے جو تم سے پہلے لوگوں پر آئے۔ ان پر سختیاں آئیں ، مصیبتیں آئیں اور وہ ہلا مارے گئے حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے “۔ اور اب چونکہ وہ ہلا مارے گئے ہیں لہٰذا نصر الٰہی قریب ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کہا : ” یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اللہ اور اس کے رسول کی بات سچی تھی “۔ (اس واقعہ نے ان کے ایمان اور ۔۔۔ کو اور زیادہ کردیا) ۔ ھذا ما وعدنا اللہ ورسولہ (33: 22) ” یہ وہی چیز ہے جس کو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے وعدہ کیا تھا “۔ یہ خوف ، یہ بےچینی ، اور یہ کپکپی ، یہ تنگی وہ چیزیں ہیں جن پر ہم سے نصرت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ لہٰذا نصرت آنے ہی والی ہے۔ وصدق اللہ ورسولہ (33: 22) ” اور اللہ اور رسول کی بات بالکل سچی تھی “۔ یعنی اللہ اور رسول نے نصرت الٰہی کی آمد کے لیے جو علامات رکھی تھیں ، وہ سچ تھیں اور اب وہ علامات ظاہر ہو رہی ہیں تو بھی سچی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دل اللہ کی نصرت کے آنے پر مطمئن ہوگئے۔ وما زادھم الا ایمانا وتسلیما (33: 22) ” اس واقعہ نے ان کے ایمان اور سپردگی کو اور زیادہ کردیا “۔ بہرحال وہ انسان اور بشر تھے اور بشری جذبات سے وہ بھی پا نہ ہوسکتے تھے۔ بشری کمزوریاں ان کے ساتھ بھی لگی ہوئی تھیں۔ ان سے شریعت کا مطالبہ یہ نہ تھا کہ وہ بشر سے زیادہ بوجھ اٹھائیں۔ دائرہ بشریت کے اندر ہی ان کو رہنا تھا۔ اور شریعت کی خصوصیات اور علامات کا ان کے اندر پایا جانا حکمت خداوندی تھا۔ اس لیے ان کو پیدا کیا گیا تھا تاکہ وہ بشر ہوتے ہوئے کام کریں اور بشریت کے علاوہ کوئی اور جنس نہ ہوں۔ نہ ملائکہ ہوں اور نہ شیاطین ہوں۔ نہ جانور ہوں اور نہ پتھر ہوں۔ وہ بشر تھے۔ اس لیے ان پر خوف بھی طاری ہوتا تھا اور انہیں پریشانی بھی لاحق ہوتی تھی اور تنگی بھی محسوس کرتے تھے۔ اگر خطرہ حد برداشت سے زیادہ ہوجاتا تو ان پر پکپ کی بھی طاری ہوتی تھی ۔ لیکن ان کمزوریوں کے باوجود مضبوط رسی سے ان کا ربط تھا۔ وہ اللہ سے باندھے ہوئے تھے اور اللہ ان کو گرنے سے بچا رہا تھا۔ ازسرنو امیدیں ان کے اندر پیدا فرماتا ہے اور نا امیدی سے ان کو بچاتا تھا۔ اس لیے وہ انسانیت کی تاریخ میں ایک منفرد مثال تھے۔ ایسی مثال جس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ جس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اس حقیقت کا ادراک کریں تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ پوری انسانی تاریخ کے انسانوں میں ایک ایسا نمونہ بھی تھا اور کبھی بشریت اس معیار تک بھی پہنچی تھی۔ یہ بشر تھے ، فرشتے نہیں تھے ، ان میں کمزوریاں بھی تھیں اور قوت بھی تھی اور ان کا اعزاز اور معیار یہ ہے کہ انہوں نے بشریت کو اس قدر اونچے معیار تک پہنچا دیا یوں کہ دائرہ بشریت کے اندر رہتے ہوئے وہ اس قدر بلند معیار تک پہنچ گئے۔ جن ہم دیکھیں کہ ہمارے اندر کمزوری آگئی ہے یا ہمارے قدم متزلزل ہوگئے ہیں ، یا ہم ڈرگئے ہیں ، یا ہم پر تنگی کا وقت آگیا ہے۔ ہولناک اور خطرناک حالات سے دوچار ہوگئے ہیں تو ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے اور ہمیں چیخ و پکار نہ شروع کردینا چاہئے کہ ہائے مارے گئے۔ لیکن ہمیں یہ موقف بھی نہ اختیار کرنا چاہئے کہ یہ کمزوریاں تو خیر القرون میں بھی تھیں اور یہ ہماری فطرت کا حصہ ہیں اور ہم بلکہ تمام انسانوں سے اچھے لوگوں میں بھی تھیں ، اس لیے کہ ایک مضبوط رسی بھی ہے ، یہ مضبوط رسی آسمان سے تعلق کی رسی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ پر بھروسہ کریں۔ اس کی رسی کو تھا میں اور اعتماد اور اطمینان کو واپس لوٹائیں اور ہمارے جب قدم متزلزل ہوجائیں تو ہم سمجھ لیں کہ اب اللہ کی نصرت آنے والی ہے تاکہ ہم ثابت قدم رہیں۔ ہمیں استقرار حاصل ہو اور نہایت ہی قوت سے ازسرنو راہ حق پر چل پڑیں۔ آغاز اسلام میں اللہ نے صحابہ کرام کی جو ٹیم تشکیل دی تھی اسے یہی توازن عطا کردیا گیا تھا۔ یہ ایک منفرد ٹیم تھی۔ اس ٹیم کی تعریف خود قرآن بار بار کرتا ہے کہ اس ٹیم نے کیا کیا کارنامے سر انجام دئیے ۔ کس طرح ثابت قدم رہے۔ ان میں سے بعض تو اللہ کے ہاں پہنچ گئے اور بعض انتظار میں ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

29:۔ ولما را المومنون الخ، منافقین کے نفاق، ان کی بزدلی اور ان کی شرارتوں کا ذکر کرنے کے بعد اب مخلصین کے اخلاص و ایثار اور ان کے ثبات و استقلال کا ذکر کیا جاتا ہے۔ مخلص مومنوں نے جب دیکھا کہ کفار و مشرکین کی فوجیں مدینہ پر چڑھ آئی ہیں تو وہ فوراً بول اٹھے کہ یہ وہی آزمائش ہے جس کی اللہ اور اس کے رسول نے خبر دی تھی اور وہ خبر سچی تھی جس کی صداقت ہم نے آنکھوں سے دیکھ لی۔ اور ان کی فوجوں کو دیکھ کر ان کا ایمان ویقین اور مضبوط ہوگیا۔ کیونکہ انہیں یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی فوجوں کے مقابلے میں ان کی مدد کرے گا اور تسلیم و اطاعت کا جذبہ اور بڑھ گیا۔ وعدہ سے مراد سورة بقرہ کی یہ آیت ہے ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ ولما یاتکم مثل الذین خلوا من قبلکم (قرطبی و روح) ۔ اس آیت سے مسلمان سمجھ گئے تھے کہ ان پر اللہ کی طرف سے کوئی کڑی آزمائش آنے والی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

22۔ اور ان مومنین کاملین نے جب کفار کے لشکروں کو دیکھا تو کہنے لگے یہ وہی موقعہ ہے اور وہی منظر ہے جس کا ہم کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے وعدہ دیا تھا اور جس کی خبر دی تھی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا تھا اس واقعہ نے ان ایمان والوں کے ایمان اور شیوہ ٔ اطاعت کو اور بڑھا دیا ۔ اللہ کا وعدہ تو شاید وہی جو سورة بقرہ میں گزر چکا ۔ ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ ولما یاتکم مثل الذین خلوا من قبلکم الایۃ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ اشاد جو عبد اللہ عباس (رض) سے منقول ہے کہ آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ احزاب آنے والے ہیں تمہاری طرف آخر نو راتوں میں یا دس میں غرض یہ کہ منافقوں کی حالت تو وہ تھی جو مذکور ہوئی۔ اور اہل ایمان کی حالت یہ تھی کہ جب انہوں نے لشکروں کو دیکھا تو صاف کہہ دیا کہ یہ معرکہ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطلاع کے مطابق ہو رہا ہے اور جو کچھ اللہ اور اسکے رسول نے فرمایا تھا وہ سچ ہی تھا اور وہی ہو کر رہا ۔ اس واقعہ نے ان میں ایمان اور اطاعت گزاری کا جذبہ اور بڑھادیا لشکروں کا دیکھنا ایمان میں پختگی اور فرماں برداری میں اضافہ کا موجب ہوا۔ اوپر کی آیتوں میں منافقوں کی عہد شکنی کا ذکرآیا تھا اب مؤمنین کے ایفاء عہد کا ذکر فرمایا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں وعد ہ اللہ کا یہ کہ فرمایا تھا تکلیف پائو گے کافروں کے ہاتھ سے آخر تم کو غلبہ ہے اور یہ ہے کہ رسول نے فرمایا آٹھ دس دن میں تم پر فوجیں آتی ہیں ۔ 12