Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 28

سورة الأحزاب

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتَہَا فَتَعَالَیۡنَ اُمَتِّعۡکُنَّ وَ اُسَرِّحۡکُنَّ سَرَاحًا جَمِیۡلًا ﴿۲۸﴾

O Prophet, say to your wives, "If you should desire the worldly life and its adornment, then come, I will provide for you and give you a gracious release.

اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Giving the Wives of the Prophet صلى الله عليه وسلم the Choice Here Allah commands His Messenger to give his wives the choice of separating from him so that they may go to someone else with whom they can find what they want of the life of this world and its attractions, or of patiently bearing the straitened circumstances with the Prophet for which they will have a great reward with Allah. They chose Allah and His Messenger and the Home of the Hereafter, may Allah be pleased with them. Then Allah gave them the best both of this world and of the Hereafter. Al-Bukhari narrated from A'ishah, may Allah be pleased with her, the wife of the Prophet that the Messenger of Allah came to her when Allah commanded him to give his wives the choice. She said, "The Messenger of Allah started with me, and said, إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا فَلَ عَلَيْكِ أَنْ تَسْتَعْجِلِي حَتْى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْك I am going to tell you about something and you do not have to hasten to respond until you consult your parents." He knew that my parents would never tell me to leave him. Then he said: إِنَّ اللهَ تَعَالَى قَالَ (Allah says) and he recited the two Ayat: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لاَِّزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الاْإخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا

امہات المومنین سے پرسش! دین یا دنیا ؟ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ اپنی بیویوں کو دو باتوں میں سے ایک کی قبولیت کا اختیار دیں ۔ اگر تم دنیا پر اور اس کی رونق پر مائل ہوئی ہو تو آؤ میں تمہیں اپنے نکاح سے الگ کر دیتا ہوں اور اگر تم تنگی ترشی پر یہاں صبر کر کے اللہ کی خوشی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی چاہتی ہو اور آخرت کی رونق پسند ہے تو صبر و سہار سے میرے ساتھ زندگی گذارو ۔ اللہ تمہیں وہاں کی نعمتوں سے سرفراز فرمائے گا ۔ اللہ آپ کی تمام بیویوں سے جو ہماری مائیں ہیں خوش رہے ۔ سب نے اللہ کو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور دار آخرت کو ہی پسند فرمایا جس پر رب راضی ہو اور پھر آخرت کے ساتھ ہی دنیا کی مسرتیں بھی عطا فرمائیں ۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ اس آیت کے اترتے ہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور مجھ سے فرمانے لگے کہ میں ایک بات کا تم سے ذکر کرنے والا ہوں تم جواب میں جلدی نہ کرنا اپنے ماں باپ سے مشورہ کر کے جواب دینا ۔ یہ تو آپ جانتے ہی تھے کہ ناممکن ہے کہ میرے والدین مجھے آپ سے جدائی کرنے کا مشورہ دیں ۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی ۔ میں نے فوراً جواب دیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ماں باپ سے مشورہ کرنے کی کونسی بات ہے ۔ مجھے اللہ پسند ہے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پسند ہیں اور آخرت کا گھر پسند ہے ۔ آپ کی اور تمام بیویوں نے بھی وہی کیا جو میں نے کیا تھا اور روایت میں ہے کہ تین دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ دیکھو بغیر اپنے ماں باپ سے مشورہ کئے کوئی فیصلہ نہ کر لینا پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا جواب سنا تو آپ خوش ہوگئے اور ہنس دیئے ، پھر آپ دوسری ازواج مطہرات کے حجروں میں تشریف لے گئے ان سے پہلے ہی فرما دیتے تھے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے تو یہ جواب دیا ہے وہ کہتی تھیں یہی جواب ہمارا بھی ہے ۔ فرماتی ہیں کہ اس اختیار کے بعد جب ہم نے آپ کو اختیار کیا تو اختیار طلاق میں شمار نہیں ہوا ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو بکر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونا چاہا لوگ آپ کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے اور آپ اندر تشریف فرما تھے اجازت ملی نہیں ۔ اتنے میں حضرت عمر بھی آگئے اجازت چاہی لیکن انہیں بھی اجازت نہ ملی تھوڑی دیر میں دونوں کو یاد فرمایا گیا ۔ گئے دیکھا کہ آپ کی ازواج مطہرات آپ کے پاس بیٹھی ہیں اور آپ خاموش ہیں ۔ حضرت عمر نے کہا دیکھو میں اللہ کے پیغمبر کو ہنسا دیتا ہوں ۔ پھر کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ آپ دیکھتے میری بیوی نے آج مجھ سے روپیہ پیسہ مانگا میرے پاس تھا نہیں جب زیادہ ضد کرنے لگیں تو میں نے اٹھ کر گردن ناپی ۔ یہ سنتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمانے لگے یہاں بھی یہی قصہ ہے دیکھو یہ سب بیٹھی ہوئی مجھ سے مال طلب کر رہی ہیں؟ ابو بکر حضرت عائشہ کی طرف لپکے اور عمر حضرت حفصہ کی طرف اور فرمانے لگے افسوس تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ مانگتی ہو جو آپ کے پاس نہیں ۔ وہ تو کہئے خیر گذری جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک لیا ورنہ عجب نہیں دونوں برگ اپنی اپنی صاحبزادیوں کو مارتے ۔ اب تو سب بیویاں کہنے لگیں کہ اچھا قصور ہوا اب سے ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز اس طرح تنگ نہ کریں گی ۔ اب یہ آیتیں اتریں اور دنیا اور آخرت کی پسندیدگی میں اختیار دیا گیا ۔ سب سے پہلے آپ حضرت صدیقہ کے پاس گئے انہوں نے آخرت کو پسند کیا جیسے کہ تفصیل وار بیان گذر چکا ۔ ساتھ ہی درخواست کی کہ یارسول اللہ آپ اپنی کسی بیوی سے یہ نہ فرمائیے گا کہ میں نے آپ کو اختیار کیا ۔ آپ نے جواب دیا کہ اللہ نے مجھے چھپانے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ میں سکھانے والا آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں مجھ سے تو جو دریافت کرے گی میں صاف صاف بتا دوں گا ۔ حضرت علی کا فرمان ہے کہ طلاق کا اختیار نہیں دیا گیا تھا بلکہ دنیا یا آخرت کی ترجیح کا اختیار دیا تھا لیکن اس کی سند میں بھی انقطاع ہے اور یہ آیت کے ظاہری لفظوں کے بھی خلاف ہے کیونکہ پہلی آیت کے آخر میں صاف موجود ہے کہ آؤ میں تمہارے حقوق ادا کردوں اور تمہیں رہائی دے دوں اس میں علماء کرام کا گو اختلاف ہے کہ اگر آپ طلاق دے دیں تو پھر کسی کو ان سے نکاح جائز ہے یا نہیں؟ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ جائز ہے تاکہ اس طلاق سے وہ نتیجہ ملے یعنی دنیا طلبی اور دنیا کی زینت و رونق وہ انہیں حاصل ہو سکے واللہ اعلم ۔ جب یہ آیت اتری اور جب اس کا حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات امہات المومنین رضوان اللہ علیہن کو سنایا اس وقت آپ کی نوبیویاں تھیں ۔ پانچ تو قریش سے تعلق رکھتی تھیں عائشہ ، حفصہ ، سودہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہن اور صفیہ بنت جی قبیلہ نضر سے تھیں ، میمونہ بنت حارث ہلالیہ تھیں ، زینب بنت حجش اسدیہ تھیں اور جویریہ بنت حارث جو مصطلقیہ تھیں رضی اللہ عنہن وارضاھن اجمعین ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٤٠] بیویوں کا آپ سے خرچ کا مطالبہ :۔ یہاں سے ایک بالکل نیا موضوع شروع ہوتا ہے۔ اموال غنیمت سے جب مسلمانوں میں کچھ آسودگی آگئی۔ تو ازواج مطہرات نے بھی آپ سے کچھ زائد اخراجات کا مطالبہ کردیا۔ حالات کے مطابق ان کا یہ مطالبہ کچھ ایسا ناجائز بھی نہ تھا۔ کیونکہ دوسرے سب مسلمان آسودہ ہو رہے تھے۔ مگر آپ کی فقرپسند طبیعت پر بیویوں کا یہ مطالبہ سخت شاق گزرا۔ اور آپ نے اسی کبیدگی طبع کی بنا پر ایک ماہ کے لئے اپنی بیویوں سے کنارہ کش رہنے کا ارادہ کرلیا جیسا کہ درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے : ١۔ سیدنا جابر (رض) کہتے ہیں کہ : سیدنا عمر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں آئے اور اجازت چاہی، آپ نے انھیں اندر آنے کی اجازت دے دی۔ سیدنا عمر نے دیکھا کہ آپ کے پاس آپ کی بیویاں غمگین اور خاموش بیٹھی ہیں۔ آپ نے فرمایا : && یہ میرے گرد بیٹھی خرچ کا مطالبہ کر رہی ہیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو && پھر آپ نے ان سے ایک مہینہ کے لئے علیحدگی اختیار کرلی۔ (بخاری۔ کتاب النکاح باب موعظۃ الرجل ابنتہ) خ واقعہ ایلاء کی تفصیل :۔ ٢۔ سیدنا عمر کہتے ہیں میں اور میرا ایک انصاری پڑوسی بنی امیہ بن زید کے گاؤں میں جو مدینہ کے بالائی دیہات میں سے ایک گاؤں ہے، رہا کرتے۔ اور باری باری آپ کے پاس آیا کرتے۔ ایک دن وہ آتا اور ایک دن میں۔ جب میں آتا تو اس دن کی ساری خبر وحی جو آپ پر نازل ہوتی اسے بتاتا اور جس دن وہ آتا تو وہ بھی ایسا ہی کرتا ایک دن میرا انصاری ساتھی اپنی باری کے دن آیا تو واپس آکر زور سے میرا دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا : && عمر ہیں ؟ && میں گھبرا کر باہر آیا تو کہنے لگا : && آج ایک بڑا حادثہ ہوگیا، (آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی) میں حفصہ (رض) کے پاس گیا تو وہ رو رہی تھی۔۔ && (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب التناؤب فی العلم) ٣۔ سیدنا عمر فرماتے ہیں کہ : && مجھے میرے ایک انصاری ہمسایہ نے ایک دن خبر دی کہ رسول اکرم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ میں حفصہ (رض) کے پاس گیا تو وہ رو رہی تھی۔ میں نے اسے پوچھا : && کیا رسول اللہ نے تمہیں طلاق دے دی ؟ && وہ کہنے لگیں : && میں نہیں جانتی اور وہ اس جھروکے میں الگ ہو بیٹھے ہیں && میں وہاں سے (مسجد میں) چلا گیا اور اسود (دربان) سے کہا کہ عمر کے لئے اندر آنے کی اجازت حاصل کرو && لڑکا اندر گیا پھر باہر آکر کہنے لگا : && میں نے آپ کا ذکر کیا تھا مگر آپ نے کوئی جواب نہیں دیا && میں پھر مسجد کی طرف چلا گیا۔ لوگ وہاں منبر کے اردگرد بیٹھے رو رہے تھے۔ میں ان کے پاس بیٹھ گیا، مگر مجھ پر پھر وہی فکر غالب آئی۔ میں لڑکے کے پاس آیا اور کہا : && عمر کے لئے اجازت حاصل کرو && لڑکا اندر گیا۔ پھر اس نے باہر آکر مجھے کہا : && میں نے آپ کا ذکر کیا تھا۔ مگر آپ نے کوئی جواب نہیں دیا && میں پھر مسجد میں آیا اور بیٹھ گیا۔ پھر مجھ پر وہی فکر غالب ہوئی۔ میں لڑکے پاس آیا اور کہا : && عمر کے لئے اجازت مانگ && لڑکا اندر گیا، پھر باہر آکر کہنے لگا : && میں نے آپ کا ذکر کیا کوئی جواب نہیں دیا && جب میں وہاں سے لوٹ آیا تو اس وقت لڑکے نے مجھے پکارا کہ آجاؤ۔ تمہارے لئے اجازت مل گئی میں اندر گیا تو اس وقت آپ ایک بوریے پر تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ کے پہلوؤں میں بوریے کے نشان پڑگئے ہیں۔ میں نے پوچھا : && یارسول اللہ ! آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ؟ && آپ نے فرمایا : && نہیں && میں نے اللہ اکبر پکارا۔ پھر کہا : یارسول اللہ ! آپ دیکھئے۔ ہم قریشی لوگ اپنی عورتوں کو دبا کر رکھتے تھے پھر جب ہم مدینہ آئے تو ایسے لوگ دیکھے جنہیں ان کی بیویاں دبا کر رکھتی ہیں۔ ہماری عورتیں بھی ان کی عادات سیکھنے لگیں۔ میں ایک دن اپنی بیوی پر ناراض ہوا تو وہ مجھے جواب دینے لگی جو مجھے برا لگا تو وہ کہنے لگی : برا کیوں مناتے ہو۔ اللہ کی قسم ! آپ کی بیویاں آپ کو جواب دیتی ہیں۔ اور کئی تو رات تک خفا رہتی ہیں۔ میں نے حفصہ (رض) سے پوچھا : && کیا تو بھی آپ کو جواب دیتی ہے ؟ && وہ کہنے لگیں && ہاں ! اور ہم میں سے کوئی تو رات بھر آپ سے خفا رہتی ہے && میں نے کہا : && تم میں سے جس نے یہ کام کیا وہ نامراد ہوئی اور نقصان اٹھایا۔ کیا تم اس بات سے ڈرتی نہیں کہ رسول اللہ کی ناراضگی کی وجہ سے اللہ بھی ان سے ناراض ہوجائے گا اور وہ تباہ ہوجائے گی && اس بات پر نبی اکرم مسکرائے۔ پھر اپنی بیٹی حفصہ (رض) سے کہا && حفصہ ! تم رسول اللہ کو کبھی جواب نہ دینا اور نہ ہی ان سے کچھ مطالبہ کرو۔ بلکہ جو تم چاہو مجھ سے مانگ لیا کرو اور کسی دھوکہ میں نہ رہنا کیونکہ تمہاری ساتھی عائشہ (رض) تم سے خوبصورت اور رسول اللہ کی چہیتی ہے && اس بات پر رسول اللہ دوبارہ مسکرائے۔ پھر میں نے آپ سے کہا : && یارسول اللہ ! میں آپ کا جی بہلاؤں ؟ && آپ نے فرمایا : && ٹھیک ہے، میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو مجھے اس گھر میں کچھ نظر نہ آیا۔ بجز تین چمڑوں کے، میں نے کہا : && یارسول اللہ ! اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ آپ کی امت کو کشادگی بخشے۔ اللہ نے روم اور فارس کو کشادگی دی ہے۔ حالانکہ وہ اس کی عبادت بھی نہیں کرتے۔ یہ سن کر آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا : خطاب کے بیٹے ! کیا تم ابھی تک شک میں پڑے ہو۔ ان لوگوں کو تو ان کی نیکیوں کا بدلہ دنیا میں ہی مل گیا ہے && سیدنا عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ ایک مہینہ بھر اپنی بیویوں کے پاس نہ گئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر عتاب اور قسم کے کفارہ کا حکم دیا۔ سیدہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب انتیس دن گزر گئے تو آپ ہمارے پاس آئے۔ && (ترمذی۔ باب التفسیر۔ سورة تحریم)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۧيٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ ۔۔ : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے اور مال غنیمت میں سے خمس کا اختیار رکھنے کے باوجود سب کچھ ضرورت مندوں پر خرچ کردیتے۔ نتیجہ اس کا گھر میں تنگی و ترشی کے ساتھ گزارا تھا۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں : ( مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ مِنْ طَعَامِ بُرٍّ ثَلَاثَ لَیَالٍ تِبَاعًا حَتّٰی قُبِضَ ) [ بخاري، الرقاق، باب کیف کان عیش النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و أصحابہ۔۔ : ٦٤٥٤ ] ” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر والوں نے، جب سے آپ مدینہ میں آئے، تین دن پے در پے گندم کا کھانا سیر ہو کر نہیں کھایا، یہاں تک کہ آپ فوت ہوگئے۔ “ عائشہ (رض) ہی نے بیان فرمایا : ( مَا أَکَلَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ أَکْلَتَیْنِ فِيْ یَوْمٍ إِلَّا إِحْدَاھُمَا تَمْرٌ ) [ بخاري، الرقاق، کیف کان عیش النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔ : ٦٤٥٥ ] ” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر والوں نے کسی دن دو دفعہ کھانا نہیں کھایا، مگر ان میں سے ایک دفعہ صرف کھجور ہوتی تھی۔ “ عائشہ (رض) نے اپنے بھانجے عروہ سے فرمایا : ( ابْنَ أُخْتِيْ ! إِنْ کُنَّا لَنَنْظُرُ إِلَی الْہِلاَلِ ثَلاَثَۃَ أَہِلَّۃٍ فِيْ شَہْرَیْنِ ، وَمَا أُوْقِدَتْ فِيْ أَبْیَاتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ نَارٌ فَقُلْتُ مَا کَانَ یُعِیْشُکُمْ ؟ قَالَتِ الْأَسْوَدَان التَّمْرُ وَ الْمَاءُ إِلاَّ أَنَّہُ قَدْ کَانَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ جِیْرَانٌ مِنَ الْأَنْصَارِ کَانَ لَہُمْ مَنَاءِحُ ، وَکَانُوْا یَمْنَحُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مِنْ أَبْیَاتِہِمْ ، فَیَسْقِیْنَاہُ ) [ بخاري، الرقاق، باب کیف کان عیش النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔ : ٦٤٥٩ ] ” بھانجے ! ہم چاند دیکھتے تھے، دو مہینوں میں تین چاند، اس حال میں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھروں میں آگ نہیں جلی ہوتی تھی۔ “ میں نے کہا : ” پھر تمہیں کیا چیز زندہ رکھتی تھی ؟ “ کہا : ” دو سیاہ چیزیں، کھجور اور پانی، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انصار میں سے کچھ پڑوسی تھے جن کے پا س دودھ والے جانور تھے اور وہ اپنے گھروں سے (کچھ دودھ ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بطور تحفہ دے دیا کرتے تھے اور آپ ہمیں وہ پلا دیتے۔ “ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : ( کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ یَبِیْتُ اللَّیَالِيَ الْمُتَتَابِعَۃَ طَاوِیًا وَ أَھْلُہُ لَا یَجِدُوْنَ عَشَاءً ) [ ترمذي، الزھد، باب ما جاء في معیشۃ النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و أھلہ : ٢٣٦٠، وقال الألبانی حسن ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کئی راتیں خالی پیٹ گزار دیتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر والوں کو شام کا کھانا نہیں ملتا تھا۔ “ عائشہ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بستر کے متعلق بتایا : ( کَانَ فِرَاشُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مِنْ أَدَمٍ ، وَحَشْوُہُ مِنْ لِیْفٍ ) [ بخاري، الرقاق، باب کیف کان عیش النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔ : ٦٤٥٦ ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بستر چمڑے کا تھا، جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ “ لطف یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس حال پر خوش تھے اور آپ نے اسے اللہ تعالیٰ سے مانگ کرلیا تھا۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوْتًا ) [ مسلم، الزکاۃ، باب في الکفاف و القناعۃ : ١٠٥٥ ] ” اے اللہ ! آل محمد کا رزق گزارے کے برابر کر دے۔ “ انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَللّٰہُمَّ أَحْیِنِيْ مِسْکِیْنًا وَ أَمِتْنِيْ مِسْکِیْنًا وَاحْشُرْنِيْ فِيْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، فَقَالَتْ عَاءِشَۃُ لِمَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! ؟ قَالَ إِنَّھُمْ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ أَغْنِیَاءِھِمْ بِأَرْبَعِیْنَ خَرِیْفًا ) [ ترمذي، الزھد، باب ما جاء أن فقراء المھاجرین۔۔ : ٢٣٥٢ ] ” اے اللہ ! مجھے مسکین ہونے کی حالت میں زندہ رکھنا، مسکین ہونے کی حالت میں موت دے اور مسکینوں کی جماعت سے اٹھا۔ “ عائشہ (رض) نے پوچھا : ” یا رسول اللہ ! یہ کیوں ؟ “ آپ نے فرمایا : ” وہ جنت میں اپنے اغنیاء سے چالیس (٤٠) سال پہلے جائیں گے۔ “ ظاہر ہے زندگی کا یہ معیار نہایت صبر آزما اور مشکل ہے، اس معیار زندگی میں آپ کے ساتھ ازواج مطہرات بھی شریک تھیں۔ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ : بنوقریظہ کے اموال اور دوسری فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی حالت کچھ بہتر ہوگئی تو انصار و مہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں نے بھی نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کردیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی صورت اپنی زہد و قناعت کی زندگی ترک کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ بیویوں کے اصرار پر آپ کو سخت رنج اور صدمہ ہوا اور آپ نے قسم کھالی کہ میں ایک ماہ تک تمہارے پاس نہیں آؤں گا۔ اسے ” ایلاء “ کہتے ہیں۔ (دیکھیے بقرہ : ٢٢٦، ٢٢٧) پھر آپ پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ابوبکر (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہونے کی اجازت لینے کے لیے آئے تو دیکھا کہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازے پر بیٹھے ہیں، ان میں سے کسی کو اجازت نہیں ملی۔ خیر ابوبکر (رض) کو اجازت مل گئی، وہ اندر آگئے، پھر عمر (رض) اجازت کے لیے آئے، انھیں بھی اجازت مل گئی۔ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے ہیں اور آپ کے گرد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں ہیں، آپ غمگین اور خاموش ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا : ” میں ضرور کوئی ایسی بات کروں گا جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہنساؤں گا۔ “ چناچہ وہ کہنے لگے : ” یا رسول اللہ ! کبھی آپ خارجہ کی بیٹی (میری بیوی) کو دیکھتے، اس نے مجھ سے خرچہ مانگا تو میں نے اٹھ کر اس کی گردن دبا دی۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس پڑے اور فرمانے لگے : ” یہ سب میرے اردگرد بیٹھی ہیں، جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، یہ مجھ سے خرچہ مانگتی ہیں۔ “ تو ابوبکر (رض) عائشہ (رض) کی گردن دبانے کے لیے کھڑے ہوگئے اور عمر (رض) حفصہ (رض) کی گردن دبانے کے لیے اٹھے۔ دونوں کہہ رہے تھے کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ مانگتی ہو جو آپ کے پاس نہیں ہے۔ وہ دونوں کہنے لگیں : ” اللہ کی قسم ! ہم کبھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ چیز نہیں مانگیں گی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نہ ہو۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے ایک ماہ یا انتیس دن علیحدہ رہے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل ہوئی : (یٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا ) [ الأحزاب : ٢٨ ] [ مسلم، الطلاق، باب بیان أن تخییرہ امرأتہ۔۔ : ١٤٧٥ ] اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا : صحیح بخاری میں عمر (رض) سے مروی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ بیویوں سے ایک ماہ تک علیحدہ رہنے کی قسم کا ایک باعث حفصہ (رض) کا عائشہ (رض) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا راز بتانا بھی تھا، جس کا ذکر سورة تحریم میں ہے۔ اسی حدیث میں ہے کہ جب انتیس دن گزر گئے تو سب سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عائشہ (رض) کے پاس تشریف لائے۔ انھوں نے آپ سے کہا : ” آپ نے تو ہمارے ہاں ایک ماہ تک نہ آنے کی قسم کھائی تھی اور ابھی انتیس راتیں گزری ہیں، میں انھیں اچھی طرح گنتی رہی ہوں۔ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ مہینا انتیس دنوں کا ہے۔ “ اور وہ مہینا تھا بھی انتیس دنوں کا۔ عائشہ (رض) نے کہا : ” پھر اللہ تعالیٰ نے اختیار دینے کی آیت نازل فرمائی تو سب بیویوں سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے پوچھا، فرمایا : ” میں تم سے ایک بات کہنے لگا ہوں، کوئی حرج نہیں کہ اس کے جواب میں جلدی نہ کرو اور اپنے ماں باپ سے مشورہ کرلو۔ “ عائشہ (رض) نے کہا : ” میں خوب جانتی تھی کہ میرے ماں باپ مجھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جدا ہونے کی رائے کبھی نہیں دیں گے۔ “ پھر آپ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ ۔۔ اجرا عظیما) [ الأحزاب : ٢٨، ٢٩ ] میں نے کہا : ” کیا میں اس کے متعلق اپنے ماں باپ سے مشورہ کروں گی ؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول کو اور آخرت کے گھر کو چاہتی ہوں۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی باقی بیویوں کو بھی اختیار دیا، انھوں نے بھی وہی بات کہی جو عائشہ (رض) نے کہی تھی۔ [ بخاري، المظالم، باب الغرفۃ و العلیۃ ۔۔ : ٢٤٦٨ ] 3 ابن کثیر نے عکرمہ کا قول نقل فرمایا ہے کہ اس وقت آپ کے نکاح میں نو (٩) بیویاں تھیں، پانچ قریش سے تھیں : عائشہ، حفصہ، ام حبیبہ، سودہ اور ام سلمہ (رض) اور بنو نضیر سے صفیہ بنت حیی، بنو ہلال سے میمونہ بنت حارث، بنو اسد سے زینب بنت جحش اور بنو المصطلق سے جویریہ بنت الحارث (رض) ۔ 3 عائشہ (رض) فرماتی ہیں : ” ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اختیار دیا، ہم نے اللہ اور اس کے رسول کو پسند کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے ہم پر کچھ شمار نہیں کیا۔ “ [ بخاري، الطلاق، باب من خیّر أزواجہ۔۔ : ٥٢٦٢ ] اس سے معلوم ہوا اختیار دینے کے بعد بیوی خاوند کے پاس رہنا پسند کرے تو اس سے کسی قسم کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ : ” تَعَالَیْنَ “ (آؤ) ” عَلَا یَعْلُوْ “ سے باب تفاعل میں سے جمع مؤنث امر حاضر کا صیغہ ہے۔ اصل اس کا یہ ہے کہ کوئی شخص اونچی جگہ کھڑا ہو کر کسی سے کہے اوپر آؤ، پھر کسی کو بھی بلانے کے لیے ” تَعَالَ “ (آؤ) استعمال ہونے لگا۔ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا : آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے لیے دو چیزوں میں سے ایک چیز پسند کرلو، پہلی یہ کہ اگر تم دنیا کی زندگی، اس کی زیب و زینت اور آرائش کو پسند کرتی ہو تو میرے ساتھ تمہارے رہنے کی کوئی صورت نہیں، پھر آؤ میں تمہیں کچھ سامان دے دیتا ہوں (جس کا طلاق دیتے وقت اپنی حیثیت کے مطابق دینے کا حکم ہے، جسے ” متعہ طلاق “ کہتے ہیں۔ دیکھیے سورة بقرہ : ٢٣٦ تا ٢٤١) اور تمہیں اچھے طریقے سے چھوڑ دیتا ہوں، یعنی کوئی طعن و تشنیع کیے یا کوئی تکلیف دیے بغیر طلاق دے کر آزاد کردیتا ہوں۔ دوسری چیز کا ذکر اگلی آیت میں ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Out of the objectives of this Surah, the most important is the stress placed on avoiding everything that may cause pain to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . In addition to that, there is a reiteration of instructions to obey him and seek his pleasure. Mentioned in connection with the event of the battle of al-Ahzab appearing immediately earlier was the pain caused to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) at the hands of the disbelievers and hypocrites. Along with it, also mentioned there was their ultimate disgrace and the victory and success that came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) on every occasion. Also praised there were sincere believers who sacrificed what they had at the instance of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and it was said that they would have high ranks in the Hereafter. In the verses cited above, the blessed wives of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) have been particularly taught to be careful that no word or deed that issues forth from them goes on to cause pain to him. And this is possible only when they devote themselves and become totally obedient to Allah and His Messenger. Some injunctions in this connection have been given by addressing the blessed wives directly. As for giving the choice of the taking of divorce to the blessed wives in the initial verses, it is limited to one or some incidents that came from the side of the blessed wives. These were contrary to the intent of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) which caused pain to him. One of these incidents is reported from Sayyidna Jabir (رض) and appears in the Sahih of Muslim and elsewhere as well. It is said there that the blessed wives got together and asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that their sustenance allowance should be increased. Abu Hayyan explains it in Tafsir al-Bahr ul-Muhit by saying that the victories of Banu Nadir and Banu Quraizah after the battle of al-Ahzab coupled with the distribution of spoils had generated a certain improved economic wellbeing among common Muslims. At that time, the blessed wives thought the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) would have also set aside a share for himself in the spoils. Therefore, they appealed to him jointly saying, |"ya RasulAllah, the wives of Cyrus and Caesar are laden with all sorts of valuable ornaments and dresses and have maids appointed to serve them while you see how hungry and ill-clad we are. Therefore, some liberal treatment in our case seems to be in order now.|" When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) heard this demand from the blessed wives that they should be treated at par with the life styles of kings and the worldly-wise rich, he was grieved about how much they had missed to appreciate the worth and value of living in the home of a prophet of Allah. On their part, the blessed wives never thought that their submission would cause pain to him. It was simply because of the wellbeing of common Muslims around them that they had also thought of the same for themselves. Abu Hayyan says that the description of this incident after the battle of al-Ahzab also supports the likelihood that this very demand of the wives became the cause of the choice of divorce given to them. According to some Hadith narratives, following the event of having a honey drink while at the home of Sayyidah Zainab (رض) which will appear in detail later under the commentary on Surah At-Tahrim, 66:1-5, in Ma’ ariful-Qur&an, Volume VIII- a situation created by the mutual sense of importance among the blessed wives became the cause of this choice of divorce. If both of these happened close in time to each other, then, it is also not remote to believe that they both could be the cause. But, the words of the Verse of Choice (1) are more supportive of the understanding that some financial demand had become its cause - for it was said in this verse: إِن كُنتُنَّ تُرِ‌دْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا (If you intend (to have the pleasure of worldly life and its charm - 28). (1). The &Verse of Choice& is the title of the verse 29 cited above where the blessed wives of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) are given a choice either to seek divorce from him or to remain with him, seeking the pleasure of Allah and His Messenger. This verse gave all blessed wives of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) the choice to either accept to continue living with him as their husband in the condition he is in (that is, in his straightened economic condition), or become free from him through divorce. If they were to take the first option, they will deserve greater reward and higher ranks in the Hereafter as compared to other women. And if they were to take the second option, that is, taking a divorce, they will not have to face any displeasure as customary with worldly people. In fact, they would be given a send-off with honor, and parting gifts in accordance with Sunnah. Tirmidhi reports from Umm al-Mu&minin Sayyidah ` A&ishah (رض) |"When this verse of choice was revealed, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) disclosed it to me before any other wife. Before reciting the verse, he said: I am going to tell you something. But, you do not have to make haste in giving your response. You should rather consult your parents and then respond. Sayyidah ` A&ishah (رض) says, |"This was his special favour to me that he prohibited me from expressing my opinion without having consulted my parents first, because he was certain that my parents would never advise me to opt for separation from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . When I heard this verse, I immediately submitted before him, |"Do I have to go and consult my parents in this matter? As for me, I choose Allah and His Messenger and the Home of the Hereafter.|" Then, after me, this command of the Qur&an was announced to all blessed wives. All of them said what I had said first (that is, none of them elected to have worldly affluence against the honor of being the wives of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .|" (Tirmidhi said: This Hadith is Hasan Sahih). (1). The &Verse of Choice& is the title of the verse 29 cited above where the blessed wives of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) are given a choice either to seek divorce from him or to remain with him, seeking the pleasure of Allah and His Messenger. Special Note Choice of Divorce can be given to a woman in two different forms: (1) That the power of divorce is entrusted with the woman, that is, if she wishes, she can divorce herself and become free. (2) That the power of giving divorce, though, remains in the hands of the husband, yet the husband gives her a promise that when she will wish, he will divorce her. (in the first case, as soon as the wife opts for divorce, she becomes divorced automatically without any act on the part of the husband. But in the latter case, divorce is not effected merely by the woman opting for it unless the husband divorces her. In the case of the cited verse (28), some commentators are of the view that the choice given to the wives of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was of the first form, while others have maintained that it was of the second form. The esteemed author of Bayan ul-Qur&an has commented that the verse has both probabilities. Until one of the two stands determined on the authority of some definitive text, there is no need to determine any form on one&s own.& Ruling This verse (28) tells us when there is no congruity between the temperaments of the married couple, the desirable approach is to give the wife the option to live with the husband while being content with whatever state he is in, otherwise, she should be allowed to leave honorably according to Sunnah with divorce and gift of pairs of apparel. In this case, what can be proved from the cited verse (28) is its desirability only. There is no proof to support its obligation. Some leading Muslim jurists have argued in favour of the obligatory nature of this verse and, on the same basis, they have given the wife of a penniless man, who is incapable of providing living expenses for her, the right to secure a divorce from the court. Full details of this issue have been given in Ahkam ul-Qur&an, Part V, under this very verse.1 (1. This work in Arabic is available from Maktaba-e-Darul-&Uloom, the publishers of the present Tafsir ]

خلاصہ تفسیر اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنی بیبیوں سے فرما دیجئے (تم سے دو ٹوک بات کہی جاتی ہے تاکہ ہمیشہ کے لئے قصہ ایک طرف ہو وہ بات یہ ہے کہ) تم اگر دنیوی زندگی (کی عیش) اور اس کی بہار چاہتی ہو تو آؤ (یعنی لینے کے لئے متوجہ ہو) میں تم کو کچھ (مال و) متاع (دنیوی) دے دوں (یا تو مراد اس سے وہ جوڑا ہے جو مطلقہ مدخولہ کو بوقت طلاق دینا مستحب ہے یا مراد نان نفقہ عدت کا ہے، یا دونوں کو شامل ہے) اور (متاع دے کر) تم کو خوبی کے ساتھ رخصت کروں (یعنی موافق سنت کے طلاق دے دوں تاکہ جہاں چاہو جا کر دنیا حاصل کرو) اور اگر تم اللہ کو چاہتی ہو اور (مطلب اللہ کو چاہنے کا اس جگہ یہ ہے کہ) اس کے رسول کو (چاہتی ہو، یعنی فقر و افلاس کی موجودہ حالت کے ساتھ رسول کے نکاح میں رہنا چاہتی ہو) اور عالم آخرت (کے درجات عالیہ) کو (چاہتی ہو جو کہ زوجیت رسول پر مرتب ہونے والے ہیں) تو (یہ تمہاری نیک کرداری ہے اور) تم میں نیک کرداروں کے لئے اللہ تعالیٰ نے (آخرت میں) اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے (یعنی وہ ثواب جو مخصوص ہی زوجات نبی کے لئے کہ اور نیک بیبیوں کے اجر سے وہ عظیم ہے۔ اور جس سے زوجیت نبی کو اختیار نہ کرنے کی صورت میں محرومی ہوگی، گو عموم دلائل سے مطلق ایمان و اعمال صالحہ کے ثمرات اس صورت میں بھی حاصل ہوں گے۔ یہاں تک تو مضمون تخییر کا ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ازواج کو اختیار دیا گیا کہ موجودہ حالت پر قناعت کر کے آپ کی زوجیت میں رہنا پسند کریں، یا پھر آپ سے طلاق حاصل کرلیں، آگے حق تعالیٰ ان کو خود خطاب کر کے وہ احکام فرماتے ہیں جو بصورت اختیار زوجیت واجب الاہتمام ہوں گے۔ ارشاد ہے کہ) اے نبی کی بیبیو ! جو تم میں کھلی ہوئی بےہودگی کرے گی (مراد اس سے وہ معاملہ ہے جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تنگ و پریشان ہوں تو) اس کو (اس پر آخرت میں) دوہری سزا دی جائے گی (یعنی دوسرے شخص کو اس عمل پر جتنی سزا ملتی اس سے دوہری سزا ہوگی) اور یہ بات اللہ کو (بالکل) آسان ہے (یہ نہیں کہ دنیوی حکام کی طرح احیاناً سزا بڑھانے سے کسی کی عظمت اس کو مانع ہوجاوے، اور اس سزا کے بڑھنے کی وجہ ابھی تضعیف اجر کی تقریر میں آتی ہے) اور جو کوئی تم میں اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گی (یعنی جن امور کو اللہ تعالیٰ نے واجب فرمایا ہے ان کو ادا کرے گی اور خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زوج ہونے کے جو حقوق اطاعت وغیرہ واجب ہیں وہ ادا کرے گی کیونکہ حیثیت رسالت کے حقوق اللہ کی اطاعت میں داخل ہوگئے) اور (امور غیر واجبہ میں سے جو) نیک کام (ہیں ان کو) کرے گی تو ہم اس کو اس کا ثواب (بھی) دوہرا دیں گے اور ہم نے اس کے لئے (علاوہ دوہرے اجر موعود کے) ایک (خاص) عمدہ روزی (جو جنت میں ازواج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مخصوص ہے اور جو صلہ عمل سے زائد ہے) تیار کر رکھی ہے (اطاعت کی صورت میں دوہرے اجر اور ترک اطاعت پر دوہرے عذاب کی وجہ شرف زوجیت نبی ہے جس پر ینساء النبی دال ہے۔ کیونکہ اہل خصوصیت کی کوتاہی بھی اوروں کی کوتاہی سے اشد ہوتی ہے۔ اسی طرح ان کی اطاعت بھی اوروں کی اطاعت سے زیادہ مقبول ہوتی ہے۔ پس وعدہ وعید دونوں ہیں وہ دوسروں سے ممتاز ہوتے ہیں۔ اور خصوصاً مقام کلام میں یہ کہنا ممکن ہے کہ حضرات امہات المومنین سے خدمت اور اطاعت کا صدور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب کو راحت افزا زیادہ ہوگا پس آپ کی راحت رسانی موجب زیادتی اجر ہوگئی، علیٰ ھذا اس کی ضد میں سمجھنا چاہئے، یہاں تک ازواج سے آپ کے حقوق کے متعلق خطاب تھا آگے عام احکام کے متعلق زیادہ اہتمام کے لئے خطاب ہے کہ) اے نبی کی بیبیو (محض اس بات پر مت بھول جانا کہ ہم نبی کی بیبیاں ہیں اور اس لئے عام عورتوں سے ممتاز ہیں، یہ نسبت اور شرف ہمارے لئے بس ہے، سو یہ وسوسہ مت کرنا یہ بات صحیح ہے کہ) تم معمولی عورتوں کی طرح نہیں ہو (بیشک ان سے ممتاز ہو مگر مطلقاً نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ایک شرط بھی ہے وہ یہ کہ) اگر تم تقویٰ اختیار کرو (تب تو واقعی اس نسبت کے سبب تم کو اوروں سے فضیلت حاصل ہے، حتیٰ کہ ثواب مضاعف ملے گا اور اگر یہ شرط مستحق نہیں تو یہی نسبت بالعکس دوہرے عذاب کا سبب بن جائے گی، جب یہ بات ہے کہ نسبت بلا تقویٰ ہیچ ہے) تو (تم کو احکام شرعیہ کی پوری پابندی کرنا چاہئے عموماً اور ان احکام مذکورہ آیت آئندہ کی خصوصاً ، اور وہ احکام یہ ہیں کہ) تم (نامحرم مرد سے) بولنے میں (جب کہ بضرورت بولنا پڑے) نزاکت مت کرو (اس کا مطلب یہ نہیں کہ قصداً نزاکت مت کرو کیونکہ اس کا برا ہونا تو بدیہی ہے دوسری مخاطب یعنی ازواج مطہرات میں اس کا احتمال نہیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جیسے عورتوں کے کلام کا فطری انداز ہوتا ہے کہ کلام میں نرمی اور نزاکت طبعی ہوتی ہے، اس انداز کو مت برتو) کہ (اس سے) ایسے شخص کو (طبعاً ) خیال (فاسد پیدا) ہونے لگتا ہے، جس کے قلب میں خرابی (اور بدی) ہے (بلکہ ایسے موقع پر تکلف اور اہتمام سے اس فطری انداز کو بدل کر گفتگو کرو) اور قاعدہ (عفت) کے موافق بات کو (یعنی ایسے انداز سے جس میں خشکی اور روکھا پن ہو کہ یہ حافظ عفت ہے، اور یہ بد اخلاقی نہیں ہے۔ بد اخلاقی وہ ہے جس سے کسی کے قلب کو ایذاء پہنچے اور طمع فاسد کے روکنے سے ایذاء لازم نہیں آتی۔ اس میں تو بولنے کے متعلق حکم فرمایا) اور (آگے پردہ کے متعلق ارشاد ہے اور امر مشترک دونوں میں فقط عفت ہے یعنی) تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو (مراد اس سے یہ ہے کہ محض کپڑا اوڑھ لپیٹ کر پردہ کرلینے پر کفایت مت کرو بلکہ پردہ اس طریقہ سے کرو کہ بدن مع لباس نظر نہ آئے، جیسا کہ آج کل شرفاء میں پردہ کا طریقہ متعارف ہے کہ عورتیں گھروں ہی سے نہیں نکلتیں، البتہ مواقع ضرورت دوسری دلیل سے مستثنیٰ ہیں) اور (آگے اسی حکم کی تاکید کے لئے ارشاد ہے کہ) قدیم زمانہ جہالت کے دستور کے موافق مت پھرو (جس میں بےپردگی رائج تھی گو بلافحش ہی کیوں نہ ہو، اور قدیم جاہلیت سے مراد وہ جاہلیت ہے جو اسلام سے پہلے تھی، اور اس کے مقابلہ میں ایک مابعد کی جاہلیت ہے کہ بعد تعلیم و تبلیغ احکام اسلام کے ان پر عمل نہ کیا جائے۔ پس جو تبرج بعد اسلام ہوگا وہ جاہلیت اخرٰی ہے، اس لئے تشبیہ میں تخصیص جاہلیت اولیٰ ہی ظاہر ہے، کیونکہ مشبہ و مشتبہ بہ کا تغائر ضروری ہے۔ مطلب یہ کہ جاہلیت اخریٰ جاری کر کے جاہلیت اولیٰ کا اقتداء نہ کرو جس کے مٹانے کو اسلام آیا ہے۔ یہاں تک احکام متعلقہ عفت کے تھے) اور (آگے دوسرے شرائع کا ارشاد ہے کہ) تم نمازوں کی پابندی رکھو اور زکوٰة (اگر نصاب کی مالک ہو) دیا کرو (کہ دونوں اعظم شعائر سے ہیں، اس لئے ان کی تخصیص کی گئی) اور (بھی جتنے احکام ہیں اور تم کو معلوم ہیں سب میں) اللہ کا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کہنا مانو (اور ہم نے جو تم کو ان احکام کے اس التزام اور اہتمام کا مکلف فرمایا ہے تو تمہارا ہی نفع ہے کیونکہ) اللہ تعالیٰ کو (ان احکام کے بتانے سے تشریعاً ) یہ منظور ہے کہ اے (پیغمبر کے) گھر والو تم سے (معصیت و نافرمانی کی) آلودگی کو دور رکھے، اور تم کو (ظاہراً و باطناً وعملاً وخلقاً بالکل) پاک صاف رکھے (کیونکہ علم بالا حکام کے سبب مخالفت سے جو کہ موجب آلودگی اور مانع تطہیر ہے بچنا ممکن ہے) اور (چونکہ ان احکام پر عمل واجب ہے اور عمل موقوف ہی احکام کے جاننے اور ان کے یاد رکھنے پر اس لئے) تم ان آیات آلہیہ (یعنی قرآن) کو اور اس علم (احکام) کو یاد رکھو جس کا تمہارے گھروں میں چرچا رہتا ہے (اور یہ بھی پیش نظر رکھو کہ) بیشک اللہ تعالیٰ راز داں ہے (کہ اعمال قلوب کو بھی جانتا ہے اور) پورا خبردار ہے (کہ پوشیدہ اعمال کو بھی جانتا ہے، اس لئے ظاہراً و باطناً سراً و علانیةً امتثال اور امر اور اجتناب نواہی کا اہتمام واجب ہے) معارف ومسائل اس سورة کے مقاصد میں سے اہم مقصد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذاء سے اور ہر ایسی چیز سے بچنے کی تاکید ہے جس سے آپ کو تکلیف پہنچے، نیز آپ کی اطاعت اور رضا جوئی کے موکد احکام ہیں۔ غزوہ احزاب کا تفصیلی واقعہ جو اوپر گزرا ہے اس میں کفار و منافقین کی طرف سے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذائیں پہنچیں ان کا ذکر اور اس کے ساتھ انجام کار موذی کفار و منافقین کا ذلیل و خوار ہونا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہر موقع پر فتح مند اور کامیاب ہونا ذکر کیا گیا ہے، اور اس کے ساتھ ہی مومنین مخلصین جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم و اشارہ پر اپنا سب کچھ قربان کردیا، ان کی مدح وثناء اور درجات آخرت کا بیان تھا۔ مذکورہ الصدر آیات میں خاص ازواج مطہرات کو تعلیم ہے کہ وہ خصوصاً اس کا اہتمام کریں کہ آپ کو ان کے کسی قول و فعل سے ایذا نہ پہنچے، اور یہ جبھی ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مکمل اطاعت میں لگ جائیں۔ اس سلسلے کے چند احکام ازواج مطہرات کو خطاب کر کے بتلائے گئے ہیں۔ شروع آیات میں جو ازواج مطہرات کو طلاق لینے کا اختیار دینا مذکور ہے، اس کا ایک یا چند واقعات ہیں جو ازواج مطہرات کی طرف سے پیش آئے، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منشاء کے خلاف تھے، جن سے بلا قصد و اختیار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچی۔ ان واقعات میں سے ایک واقعہ وہ ہے جو صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت جابر کی روایت سے مفصل آیا ہے، اس میں مذکور ہے کہ ازواج مطہرات نے جمع ہو کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا مطالبہ کیا کہ ان کا نان نفقہ بڑھایا جائے۔ تفسیر بحر محیط میں ابوحیان نے اس کی تشریح یہ بیان کی ہے کہ غزوہ احزاب کے بعد بنو نضیر پھر بنو قریظہ کی فتوحات اور اموال غنیمت کی تقسیم نے عام مسلمانوں میں ایک گونہ خوشحالی پیدا کردی تھی۔ ازواج مطہرات کو اس وقت یہ خیال ہوا کہ ان اموال غنیمت میں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابھی اپنا حصہ رکھا ہوگا، اس لئے انہوں نے جمع ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ، یہ کسریٰ و قیصر کی بیبیاں طرح طرح کے زیورات اور قیمتی لباسوں میں ملبوس ہیں، اور ان کی خدمت کے لئے کنیزیں ہیں، اور ہمارا حال فقر وفاقہ کا آپ دیکھتے ہیں، اس لئے اب کچھ توسیع سے کام لیا جائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے یہ مطالبہ سنا کہ ان کے ساتھ وہ معاملہ کیا جائے جو بادشاہوں اور دنیا داروں میں ہوتا ہے تو آپ کو اس سے بہت رنج ہوا کہ انہوں نے بیت نبوت کی قدر نہ پہچانی۔ ازواج مطہرات کو خیال نہ تھا کہ اس سے آپ کو ایذا پہنچے گی، عام مسلمانوں میں مالی وسعت دیکھ کر اپنے لئے بھی وسعت کا خیال دل میں آ گیا تھا۔ ابوحیان نے فرمایا کہ اس واقعہ کو غزوہ احزاب کے واقعہ کے بعد بیان کرنے سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ ازواج کا یہ مطالبہ ہی تخییر طلاق کا سبب بنا۔ بعض روایات حدیث میں حضرت زینب کے گھر میں شہد پینے کا واقعہ جو آگے سورة تحریم میں مفصل آئے گا اس میں ازواج کی باہمی غیرت کے سبب جو صورت پیش آئی وہ تخییر طلاق کی سبب بنی۔ اگر یہ دونوں چیزیں قریبی زمانے میں پیش آئی ہوں تو یہ بعید نہیں کہ دونوں ہی سبب ہوں، لیکن آیت تخییر کے الفاظ سے زیادہ تائید اسی کی ہوتی ہے کہ ازواج مطہرات کی طرف سے کوئی مالی مطالبہ اس کا سبب بنا ہے۔ کیونکہ اس آیت میں فرمایا ہے۔ (آیت) ان کنتن تردن الحیوٰة الدنیا وزینتہا الاٰیة۔ اس آیت نے سب ازواج مطہرات کو اختیار دے دیا کہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودہ حالت یعنی معاشی عسرت و تنگی کے ساتھ آپ کی زوجیت میں رہنا قبول کریں یا پھر آپ سے طلاق کے ساتھ آزاد ہوجائیں۔ پہلی صورت میں ان کو عام عورتوں کی نسبت سے بہت زیادہ اجر عظیم اور آخرت کے خاص درجات عالیہ عطا ہوں گے، اور دوسری صورت یعنی طلاق لینے میں بھی ان کو دنیا کے لوگوں کی طرح کسی تلخی و تکلیف کی نوبت نہیں آئے گی، بلکہ سنت کے مطابق کپڑوں کا جوڑا وغیرہ دے کر عزت کے ساتھ رخصت کیا جائے گا۔ ترمذی نے ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت تخییر نازل ہوئی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے اظہار و اعلان کی ابتداء مجھ سے فرمائی اور آیت سنانے سے پہلے فرمایا کہ میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں، مگر تم اس کے جواب میں جلدی نہ کرنا، بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کر کے جواب دینا۔ صدیقہ فرماتی ہیں کہ یہ مجھ پر خاص عنایت تھی کہ مجھے والدین سے مشورہ کے بغیر اظہار رائے سے آپ نے منع فرمایا کیونکہ آپ کو یقین تھا کہ میرے والدین مجھے کبھی یہ رائے نہ دیں گے کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مفارقت اختیار کرلوں۔ میں نے جب یہ آیت سنی تو فوراً عرض کیا کہ کیا میں اس معاملے میں والدین سے مشورہ لینے جاؤ ں ؟ میں تو اللہ کو اور اس کے رسول کو اور دار آخرت کو اختیار کرتی ہوں۔ پھر میرے بعد سب ازواج مطہرات کو قرآن کا یہ حکم سنایا گیا سب نے وہی کہا جو میں نے اول کہا تھا (کسی نے بھی دنیا کی فراخی کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجیت کے مقابلے میں قبول نہ کیا (قال الترمذی ہذا حدیث حسن صحیح) فائدہ : اختیار طلاق کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ طلاق کا اختیار عورت کے سپرد کردیا جائے، اگر وہ چاہے تو خود اپنے نفس کو طلاق دے کر آزاد ہوجائے۔ دوسرے یہ کہ طلاق شوہر ہی کے ہاتھ میں رہے کہ اگر عورت چاہے تو وہ طلاق دے دے۔ آیت مذکورہ میں بعض مفسرین نے پہلی صورت کو اور بعض نے دوسری کو اختیار کیا ہے۔ سیدی حکیم الامة نے بیان القرآن میں فرمایا کہ صحیح بات یہ ہے کہ آیت کے الفاظ میں دونوں احتمال ہیں، جب تک صریح نص سے ایک کی تعیین نہ ہوجائے اپنی طرف سے کسی صورت کو متعین کرنے کی ضرورت نہیں۔ مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب زوجین کی طبیعتوں میں مناسبت نہ ہو تو مستحب یہ ہے کہ بیوی کو اختیار دیا جائے کہ شوہر کی موجودہ حالت پر قناعت کر کے ساتھ رہنا چاہے تو رہے ورنہ سنت کے مطابق طلاق دے کر کپڑے کے جوڑے دے کر عزت کے ساتھ رخصت کردیا جائے۔ آیت مذکورہ سے اس معاملہ کا استحباب ہی ثابت کیا جاسکتا ہے وجوب پر کوئی دلیل نہیں۔ بعض ائمہ فقہاء نے اس آیت سے وجوب پر استدلال کیا ہے، اور اسی بناء پر ایسے مفلس آدمی کی بیوی کو عدالت کی طرف سے طلاق دینے کا حق دیا ہے جو بیوی کو نفقہ دینے پر قادر نہیں۔ اس مسئلہ کی پوری تفصیل احکام القرآن حزب خامس میں اسی آیت کے تحت میں بزبان عربی مذکور ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 20 يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَہَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا۝ ٢٨ نبی النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک . ( ن ب و ) النبی بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں یعنی مرد اور عورت ۔ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] ، دنا اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں متع الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی: وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] ، ( م ت ع ) المتوع کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔ سرح السَّرْحُ : شجر له ثمر، الواحدة : سَرْحَةٌ ، وسَرَّحْتُ الإبل، أصله : أن ترعيه السَّرْحَ ، ثمّ جعل لكلّ إرسال في الرّعي، قال تعالی: وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ [ النحل/ 6] ، والسَّارِحُ : الرّاعي، والسَّرْحُ جمع کا لشّرب «2» ، والتَّسْرِيحُ في الطّلاق، نحو قوله تعالی: أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] ، وقوله : وَسَرِّحُوهُنَّ سَراحاً جَمِيلًا [ الأحزاب/ 49] ، مستعار من تَسْرِيحِ الإبل، کالطّلاق في كونه مستعارا من إطلاق الإبل، واعتبر من السّرح المضيّ ، فقیل : ناقة سَرْحٌ: تسرح في سيرها، ومضی سرحا سهلا . والْمُنْسَرِحُ : ضرب من الشّعر استعیر لفظه من ذلك . ( س ر ح) السرح ایک قسم کا پھلدار درخت ہے اس کا واحد سرحۃ ہے اور سرحت الابل کے اصل معنی تو اونٹ کو سرح ، ، درخت چرانے کے ہیں بعدہ چراگاہ میں چرنے کے لئے کھلا چھوڑ دینے پر اس کا استعمال ہونے لگا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ [ النحل/ 6] اور جب شام کو انہیں ( جنگل سے ) لاتے ہو اور جب صبح کو ( جنگل ) چرانے لے جاتے ہو تو ان سے تمہاری عزت وشان ہے ۔ اور چروا ہے کو ، ، سارح کہاجاتا ہے اس کی جمع سرح ہے جیسے شارب کی جمع شرب ( اور راکب کی جمع رکب ) آتی ہے اور تسریح کا لفظ طلاق دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا : أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ۔ اور اسی طرح آیت : وَسَرِّحُوهُنَّ سَراحاً جَمِيلًا[ الأحزاب/ 49] اور ان کو کچھ فائدہ ( یعنی خرچ ) دے کر اچھی طرح سرے رخصت کردو ۔ میں بھی سرحوھن کے معنی طلاق دینے کے ہیں اور یہ تسریح سے مستعار ہے جس کے معنی جانوروں کو چرنے کے لئے چھوڑ دینا کے ہیں ۔ جیسا کہ خود طلاق کا لفظ اطلاق الابل ( اونٹ کا پائے بند کھولنا) کے محاورہ سے مستعا رہے ۔ اور کبھی سرح ، ، میں تیز روی کے معنی کا اعتبار کر کے تیز رو اور سہل رفتار اونٹنی کو ناقۃ سرح کہاجاتا ہے اور اسی سے بطور ستعارہ شعر کے ایک بحر کا نام منسرح رکھا گیا ہے ۔ جمیل الجَمَال : الحسن الکثير، وذلک ضربان : أحدهما : جمال يخصّ الإنسان في نفسه أو بدنه أو فعله . والثاني : ما يوصل منه إلى غيره . وعلی هذا الوجه ما روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ اللہ جمیل يحبّ الجمال» «2» تنبيها أنّه منه تفیض الخیرات الکثيرة، فيحبّ من يختص بذلک . وقال تعالی: وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل/ 6] ، ويقال : جَمِيلٌ وجَمَال علی التکثير . قال اللہ تعالی: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف/ 83] ( ج م ل ) الجمال کے معنی حسن کثیر کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے ۔ (1) وہ خوبی جو خاص طور پر بدن یا نفس یا عمل میں پائی جاتی ہے ۔ (2) وہ خوبی جو دوسرے تک پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہے اسی معنی میں مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا (66) ان اللہ جمیل يحب الجمال ۔ کہ اللہ جمیل ہے اور جمال کو محبوب رکھتا ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے خیرات کثیرہ کا فیضان ہوتا ہے لہذا جو اس صفت کے ساتھ متصف ہوگا ۔ وہی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوگا ۔ اور قرآن میں ہے :۔ وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل/ 6] اور جب شام کو انہیں جنگل سے لاتے ہو ۔۔ تو ان سے تمہاری عزت و شان ہے ۔ اور جمیل و جمال وجمال مبالغہ کے صیغے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف/ 83] اچھا صلہ ( کہ وہی ) خوب ( ہے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ازواج کو اختیار دے دیا کہ چاہیں نکاح ہی میں رہیں یا طلاق لے لیں قول باری ہے (یایھا النبی قل لازواجک ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا و زینتھا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی بہار کو مقصود رکھتی ہو) تاآخر آیت۔ ہمیں عبداللہ بن محمد المروزی نے روایت بیان کی ، انہیں حسن بن ابی الربیع الجر جانی نے ، انہیں معمر نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے، وہ فرماتی ہیں کہ جب آیت (وان کنتن تردن اللہ ورسولہ۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کو مقصود رکھتی ہو) نازل ہوئی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے پہلے میرے پاس آئے اور فرمایا : عائشہ (رض) ! میں تم سے ایک بات کہتا ہوں، اس کے متعلق جلد بازی سے کام نہ لینا بلکہ اپنے والدین سے مشوروہ کرلینا۔ “ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اللہ کو یہ معلوم تھا کہ میرے والدین مجھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جدا ہوجانے کا کبھی مشورہ نہیں دیں گے۔ بہرحال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بات مکمل کرکے (یایھا النبی قل لازواجک) تا اخر آیت مجھے سنائی۔ میں نے عرض کیا : میں کیوں اپنے والدین سے مشورہ لوں، میں تو اللہ ، اس کے رسول اور دار آخرت کو مقصود رکھتی ہوں۔ “ حسن بن ابی الربیع جرجانی کے علاوہ دوسرے راوی نے عبدالرزاق سے روایت کی ہے کہ معمر نے کہا مجھے ایوب نے خبر دی کہ حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا۔” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اپنی بیویوں کو اختیار دیں گے تو میں آپ کی رفاقت اختیار کروں گی۔ “ یہ سن کر آپ نے فرمایا : ” مجھے تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ تکلیف پہنچانے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہے۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت میں اختیار دینے کا جو حکم مذکور ہے اس کے مفہوم کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا اور آخرت میں سے ایک کے انتخاب کا اختیار دیا تھا کیونکہ قول باری ہے (ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا) تا قول باری (وان کنتن تردن اللہ ورسولہ والداء الاخرۃ) ۔ دوسرا حضرات کا قول ہے کہ یہ بات نہیں بلکہ انہیں طلاق کے انتخاب کا اختیار دیا گیا تھا اور شرط یہ تھی کہ اگر وہ دنیا اور اس کی زیب وزینت کو پسند کرلیں تو گویا انہوں نے طلاق کا انتخاب کرلیا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن واسر حکن سراحا جمیلا) اگر تم دنیوی زندگی اور اس کو بہار کو مقصود رکھتی ہو تو آئو میں تمہیں کچھ متاع دنیوی دے دلا کر خوبی کے ساتھ رخصت کردوں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سے دنیا اختیار کرنے کا طلاق اختیار کرنا قرار دیا۔ یہ حضرات اس پر اس روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں جو مسروق نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کی ہے کہ جب ان سے ایک شخص کے متعلق پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو اختیار دے دیا تھا تو انہوں نے فرمایا : ہمیں بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اختیار دیا تھا ، کیا یہ اختیار طلاق کی صورت میں تبدیل ہوگیا تھا ؟ “ بعض طرق کے الفاظ یہ ہیں ” ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار کرلیا تھا۔ آپ نے اسے طلاق شمار نہیں کیا تھا۔ “ ان حضرات نے مزید کہا ہے کہ یہ بات ثابت نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اس اختیار کے سوا اور کوئی اختیار دیا ہو جس کا آیت میں حکم دیا گیا تھا۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب زیر بحث آیت نازل ہوئی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : عائشہ (رض) ! میں تم سے ایک بات کہتا ہوں، اس کے متعلق جلد بازی نہ کرنا بلکہ اپنے والدین سے اس بارے میں مشورہ کرلینا۔ “ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اللہ کو یہ معلوم تھا کہ میرے والدین مجھے آپ سے علیحدگی کا کبھی مشورہ نہیں دیں گے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بات ختم کرکے آیت تلاوت کی۔ اس پر حضرت عائشہ (رض) نے کہا : ” میں تو اللہ، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دار آخرت کو مقصود رکھتی ہوں۔ “ ان حضرات کا کہنا ہے کہ اس روایت میں بھی کئی وجوہ سے اس بات پر دلالت ہورہی ہے کہ آپ نے انہیں دنیا اور آخرت میں سے ایک کے انتخاب کا نیز طلاق لینے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عقد میں باقی رہنے میں سے ایک کو پسند کرلینے کا اختیار دیا تھا۔ کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ (رض) سے فرمایا تھا : اس معاملہ میں جلد بازی نہ کرنا بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کرلینا۔ “ اور یہ بات تو واضح ہے کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو اختیار کرلینے کے لئے باہمی مشورے نہیں ہوتے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مشورہ طلب کرنے کے معاملہ طلاق لے لینے یا عقد نکاح میں باقی رہنے میں سے ایک کے انتخاب کے ساتھ تعلق رکھتا تھا۔ پھر حضرت عائشہ (رض) کا یہ قول کہ ” اللہ کو علم تھا کہ میرے ماں باپ مجھے آپ سے علیحدگی اختیار کرنے کا کبھی مشورہو نہیں دیں گے۔ “ نیز یہ قول کہ ” میں اللہ، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دار آخرت کو مقصود رکھتی ہوں۔ “ یہ تمام باتیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ آیت طلاق اور نکاح کے درمیان تخییر کی مقتضی ہے جن حضرات کے نزدیک آیت میں طلاق کی تخییر نہیں ہے وہ قول باری (ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن واسرحکن سراحا جمیلا) سے استدلال کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے نبی کو صرف انہیں طلاق دینے کا حکم دیا ہے بشرطیکہ وہ دنیا کا انتخاب کرلیں۔ لیکن یہ بات دنیا کے انتخاب کی صورت میں ان پر وقوع طلاق کی موجب نہیں ہے جس طرح مثلاً کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے ” اگر تو فلاں چیز کا انتخاب کرلے تو تجھے طلاق “ اس کی مراد اس سے یہ ہوتی ہے کہ بیوی جب اس چیز کا انتخاب کرلے گی تو وہ نئے سرے سے اسے طلاق دے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت لامحالہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدگی اور آپ کے عقد میں رہنے کے درمیان تخییر کی مقتضی ہے کیونکہ قول باری (وان کنتن تردن اللہ ورسولہ والدار الاخرۃ) اس پر دلالت کررہا ہے کہ قول باری (ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا) میں ان کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدگی اختیار کرنے کی بات بھی پوشیدہ تھی۔ کیونکہ مذکورہ بالا پہلی آیت میں جس اختیار کر ذکر ہے اس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت اور دارآخرت کو اختیار کرنا مراد ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سلسلہ تلاوت میں پہلی دفعہ جس اختیار کا ذکر ہے وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدگی کا اختیار تھا۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (فتعالین امتعکن) اور ظاہر ہے کہ بیوی کو متعہ کی صورت میں نقد وجنس اسی صورت میں دی جاتی ہے جب وہ طلاق کا انتخاب کرلے اور مطلقہ بن جائے۔ قول باری (واسرحکن) سے طلاق کے بعد انہیں ان کے گھروں سے رخصت کردینا مراد ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (اذا نکحتم المومنات ثم طلقتموھن۔ جب تم مومنات سے نکاح کرو اور پھر انہیں طلاق دے دو ) تاقول باری (سراجاً جمیلا۔ اچھی طرح رخصت کردو) یہاں طلاق کے بعد متعہ دینے کا ذکر ہوا اور تشریح کے لفظ سے انہیں اچھی طرح گھر سے رخصت کرنا مرا د لیا گیا ہے۔ کوئی شخص اپنی بیوی کو اختیار دے کر میرے نکاح میں رہنا ہے یا نہیں، تو کیا طلاق واقع ہوگی ؟ ایک شخص اگر اپنی بیوی کو اختیار دے دیتا ہے تو اس مسئلے میں سلف کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی (رض) کا قول ہے کہ اگر عورت نے شوہر کا انتخاب کرلیا یعنی اس کے عقد میں رہنے کا ارادہ ظاہر کیا تو اس پر ایک رجعی طلاق واقع ہوجائے گی اور اگر شوہر کے مقابلہ میں اپنی ذات کا انتخاب کرلیا تو ایک بائن طلاق واقع ہوجائے گی۔ حضرت علی (رض) سے زادان نے یہی روایت کی ہے۔ ابوجعفر نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ پہلی صورت میں اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور دوسری صورت میں ایک بائن طلاق واقع ہوجائے گی۔ حضرت عمر (رض) اور حضرت عبداللہ (رض) کا قول ہے کہ اگر شوہر بیوی کو اختیار دے دے اور اس سے کہے کہ ” امرک بیدک “ (اب تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے) اگر وہ اپنی ذات کا انتخاب کرے گی تو اس پر ایک رجعی طلاق واقع ہوگی اور اگر شوہر کا انتخاب کرے گی تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ حضرت زید بن ثابت (رض) نے خیار کے مسئلے میں فرمایا کہ اگر وہ شوہر کا انتخاب کرے گی تو اس پر کوئی طلاق نہیں ہوگی لیکن اگر وہ اپنی ذات کا انتخاب کرے گی تو اس پر تین طلاق واقع ہوجائے گی۔ اگر شوہر نے اسے ” امرک بیدک “ کہا ہو اور اس نے اپنی ذات کا انتخاب کرلیا ہو تو اس صورت میں اس پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگی۔ اس مسئلے میں فقہاء امصار کے مابین بھی اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف امام محمد اور امام زفر کا قول ہے کہ اگر وہ شوہر کو اختیار کرلے گی تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر اپنی ذات کا انتخاب کرے گی تو ایک بائن طلاق واقع ہوجائے گی بشرطیکہ شوہر نے تخییر کے اندر طلاق کا ارادہ کیا ہو۔ تاہم تین طلاق واقع نہیں ہوگی خواہ شوہر اس تعداد کا ارادہ کیوں نہ کرچکا ہو۔ ان حضرات نے ” امرک بیدک “ کی صورت میں بھی یہی کہا ہے البتہ اس صورت میں اگر شوہر تین طلاق کا ارادہ کرے گا تو بیوی پر تین طلاق واقع ہوجائے گی۔ ابن ابی لیلیٰ ، سفیان ثوری اوزاعی کا قول ہے کہ خیار کی صورت ہیں اگر وہ اپنے شوہر کو اختیار کرے گی تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر اپنی ذات کا انتخاب کرے گی تو اس پر ایک طلاق واقع ہوجائے گی اور شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار ہوگا۔ امام مالک کا قول ہے کہ خیار کی صورت میں اگر عورت اپنی ذات کا انتخاب کرلیتی ہے تو اس پر تین طلاق واقع ہوجائے گی اور اگر وہ اپنی ذات کو ایک طلاق دے گی تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ امام مالک نے ” امرک بیدک “ کی صورت میں کہا ہے کہ اگر عورت یہ کہے کہ میرا ارادہ ایک طلاق کا ہے تو اس پر ایک طلاق واقع ہوجائے گی تاہم شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار باقی رہے گا لیکن خیار کی صورت میں اگر شوہر کہے کہ اس نے صرف، ایک طلاق کا ارادہ کیا تھا تو اس کے اس قول کی تصدیق نہیں کی جائے گی۔ اگر شوہر نے یہ کہا ہو۔ ” اختاری تطلیقۃ “ (ایک طلاق کا انتخاب کرلو) پھر عورت نے طلاق دے دی ہو تو یہ ایک طلاق رجعی ہوگی۔ لیث بن سعد نے خیار کی صورت کے متعلق کہا ہے کہ اگر عورت اپنے شوہر کو اختیار کرے تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر اپنی ذات کا انتخاب کرلے تو اس پر ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ امام شافعی نے ” اختادی “ نیز ” امرک بیدک “ کی صورت میں کہا ہے کہ اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی الا یہ کہ شوہر اس سے طلاق کا ارادہ کرچکا ہو۔ اگر شوہر نے طلاق کا ارادہ کیا ہو اور بیوی کہے کہ میں نے اپنی ذات کا انتخاب کرلیا ہے یہ کہتے ہوئے بیوی بھی اگر طلاق کا ارادہ کرے گی تو اس پر طلاق واقع ہوجائے گی اور اگر بیوی طلاق کا ارادہ نہیں کرے گی تو اس پر طلاق واقع نہیں ہوگی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ تخییر فی نفسہٖ طلاق نہیں ہے نہ صریحاً نہ کنایۃً ۔ اس بنا پر ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ تخییر کی صورت میں تین طلاقیں واقع نہیں ہوتیں خواہ شوہر نے ان کا ارادہ کیوں نہ کیا ہو۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازواج مطہرات کو اختیار دیا تھا سب نے آپ کی ذات کو اختیار کرلیا لیکن یہ اختیار طلاق نہیں کہلایا۔ نیز خیار صرف طلاق کے ساتھ خاص نہیں ہوتا اس میں دوسری باتیں بھی شامل ہوتی ہیں اس لئے خیار طلاق پر دلالت نہیں کرتی۔ مخالفین کے نزدیک اس کی حیثیت اس فقرے جیسی نہیں ہے جو شوہر اپنی بیوی سے کہتا ہے یعنی ” اعتدی “ (تو عدت گزار) اس فقرے سے اگر شوہر طلاق کا ارادہ کرتا ہے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے کیونکہ عدت طلاق کی بنا پر واجب ہوتی ہے اس لئے اس لفظ میں طلاق پر دلالت موجود ہے۔ فقہاء نے خیار کو بالاتفاق اس وقت طلاق قرار دیا ہے جب عورت اپنی ذات کا انتخاب کرے ۔ فقہاء کے اتفاق کے علاوہ اس کی یہ دلیل بھی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ازواج مطہرات کو اختیار دیا تھا تو سب جانتے ہیں کہ یہ اختیار علیحدگی اختیار کرنے اور عقد نکاح میں باقی رہنے کے درمیان تھا۔ اگر اس صورت میں ازواج مطہرات اپنی ذات کا انتخاب کرلیتیں تو علیحدگی واقع ہوجاتی۔ اگر اپنی ذات کا انتخاب کرلینے کے بعد بھی علیحدگی واقع نہ ہوتی تو تخییر بےمعنی ہوتی۔ نکاح کے اندر پیدا ہونے والے خیار کی تمام صورتوں مثلاً نامرد اور محبوب (مقطوع الذکر) کی بیویوں کے خیار کے ساتھ درج بالا خیار کو تشبیہ دے کر یہ مسئلہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر اس خیار میں عورت اپنی ذات کا انتخاب کرلے تو علیحدگی واقع ہوجائے گی۔ اسی بنا پر اس خیار کے نتیجے میں فقہاء کے نزدیک تین طلاق واقع نہیں ہوتی کیونکہ اصول کے اندر پیدا ہونے والے خیار کی صورتوں میں تین طلاق واقع نہیں ہوتی۔ فصل نا ونفقہ مہیا نہ کر سکنا اس زمرے میں نہیں آتا ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ بعض حضرات اس آیت سے ایجاب خیار اور اس عورت کی علیحدگی پر استدلال کرتے ہیں جس کا شوہر نان ونفقہ دینے سے عاجز ہوگیا ہو کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دیا گیا اور آپ نے آخرت اور فقر کو اختیار کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی بیویوں کی تخییر کا حکم دیا۔ چنانچہ ارشاد ہوا (یایھا النبی قل لا زواجک ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا) تا آخر آیت۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ان حضرات نے آیت سے جو استدلال کیا ہے اس پر آیت کی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ازواج مطہرات سے علیحدگی کا جو اختیار دیا تھا وہ اس شرط پر معلق رکھا گیا تھا کہ ازواج مطہرات دنیاوی زندگی اور اس کی بہار کا انتخاب کرلیں۔ اب یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ہماری عورتوں میں اگر کوئی دنیاوی زندگی اور اس کی بہار کا انتخاب کرلے تو یہ بات اس کے شوہر سے اس کی علیحدگی کی موجب نہیں بنتی۔ جب وہ سبب جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکور تخییر کو واجب کردیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا دوسرے شوہروں کی بیویوں میں تخییر کا موجب نہیں ہے تو اس صورت میں یہ سبب ایک عورت اور اس کے نان ونفقہ دینے سے عاجز شوہر کے درمیان تفریق پر دلالت نہیں کرے گا۔ نیزحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دنیا کی بجائے آخرت اور دولتمندی کی بجائے فقر کو اختیار کرلینے سے یہ بات واجب نہیں ہوتی کہ آپ زاواج مطہرات کے نان ونفقہ سے عاجز تھے کیونکہ ایک شخص فقیر ہونے کے باوجود اپنی بیویوں کے نان ونفقہ پر قدرت رکھتا ہے۔ کسی اہل علم نے یہ دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی اس قسم کی کوئی روایت موجود ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ازواج مطہرات کوئی نان ونفقہ مہیا کرنے سے عاجز تھے۔ اس کے برعکس یہ روایات موجود ہیں کہ آپ ازواج مطہرات کے لئے سال بھر کی خوراک کا ذخیرہ کرلیتے تھے۔ اس لئے جس شخص نے بھی اپنے مذکورہ قول پر اس آیت سے استدلال کیا ہے وہ دراصل آیت کے حکم سے ہی ناواقف ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے نبی آپ اپنی بیویوں سے فرما دیجیے کہ اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی بہار چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں مطلقہ جوڑہ دے دوں اور تمہیں سنت کے مطابق طلاق دے دوں۔ شان نزول : يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ (الخ) امام مسلم، امام احمد اور امام نسائی نے ابو الزبیر کے واسطہ سے حضرت جابر سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رسول اکرم کی خدمت میں باریابی کی اجازت لینے کے لیے حاضر ہوئے انہیں اجازت نہیں دی گئی پھر حضرت عمر نے حاضر ہو کر اجازت طلب کی مگر ان کو بھی نہ ملی اس کے بعد دونوں حضرات کو اجازت مل گئی۔ چناچہ دونوں اند حاضر ہوئے رسول اکرم تشریف فرما تھے اور آپ کے چاروں طرف ازواج مطہرات بیٹھی ہوئی تھیں اور آپ خاموش تھے۔ حضرت عمر نے اپنے دل میں کہا کہ میں حضور سے کوئی ایسی بات کرتا ہوں کہ ممکن ہے آپ کو ہنسی آجائے، چناچہ حضرت عمر اپنی بیوی کے بارے میں کہنے لگے یا رسول اللہ اگر زید کی بیٹی مجھ سے نفقہ کا مطالبہ کرے تو میں اس کی گردن توڑ دوں یہ سن کر رسول اکرم مسکرانے لگے حتی کہ آپ کے سامنے کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔ آپ نے فرمایا یہ سب جو میرے اردگرد بیٹھی ہیں یہ نفقہ ہی کی درخواست کر رہی ہیں۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق، حضرات عائشہ کو مارنے کے لیے اور حضرت عمر حضرت حفصہ کو مارنے کے لیے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ تم رسول اکرم سے ایسی چیز مانگ رہی ہو جو آپ کے پاس نہیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اختیار کی آیت نازل فرمائی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ سے ابتدا فرمائی اور فرمایا کہ میں تم سے ایک بات کہتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ تم اس میں جلدی نہ کرو۔ جب تک کہ اپنے والدین سے اس بارے میں مشورہ نہ کرلو۔ حضرت عائشہ نے عرض کیا وہ کیا بات ہے آپ نے ان کے سامنے آیت مبارکہ تلاوت فرمائی۔ یہ سن کو وہ بولیں کیا اس چیز کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کروں گی بلکہ میں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی کو پسند کرتی ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس رکوع کے مضمون کا ربط پہلے رکوع کے مضمون کے ساتھ ہے۔ دراصل یہ پورا مضمون معاشرتی اصلاحات سے متعلق ہے جس کی پہلی قسط کے طور پر کچھ احکام یہاں اس سورت میں بیان ہوئے ہیں جبکہ ان احکام کی دوسری قسط سورة النور میں ہے جو ایک سال بعد ٦ ہجری میں نازل ہوئی۔ ان اصلاحات میں عورتوں کے پردے کے بارے میں احکام بھی شامل ہیں۔ اس سے پہلے عرب میں عورتوں کے پردے کا رواج نہیں تھا۔ باہر نکلتے ہوئے عورتیں اگرچہ ایک بڑی سی چادر لپیٹ کر نکلتی تھیں لیکن وہ سر ڈھانپنے اور چہرہ چھپانے کا اہتمام نہیں کرتی تھیں۔ اسی طرح گھروں کے اندر بھی غیر محرم مردوں کا بےتکلف آنا جانا رہتا تھا اور گھر کی خواتین ان مردوں سے پردہ نہیں کرتی تھیں۔ چناچہ اس معاملے میں تدریجاً اصلاحی احکام دیے گئے اور charity begins at home کے اصول کے مطابق پردے کے ابتدائی حکم میں سب سے پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواجِ مطہرات (رض) کو مخاطب کیا گیا۔ قبل ازیں آیت ٢١ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات میں ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ گویا ایک باپ کی حیثیت سے ‘ ایک بیٹے کی حیثیت سے ‘ داماد کی حیثیت سے ‘ سسر کی حیثیت سے ‘ قاضی القضاۃ کی حیثیت سے ‘ سپہ سالار کی حیثیت سے ‘ سربراہ مملکت کی حیثیت سے ‘ امام ‘ خطیب ‘ ّمعلم ‘ مربی ‘ مزکی ‘ غرض ہر قابل ذکر حیثیت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور زندگی میں ایک کامل نمونہ ہے۔ لیکن بنیادی طور پر یہ نمونہ مردوں کے لیے ہے۔ مرد ہونے کی حیثیت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں عورتوں اور عورتوں کے نسوانی معاملات کے لیے تو مکمل نمونہ دستیاب نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لیے عورتوں کی راہنمائی کے لیے ضروری تھا کہ کسی عورت کے کردار کو بطور نمونہ پیش کیا جاتا۔ چناچہ یہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اُسوئہ مبارک کا ذکر فرمانے کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواجِ مطہرات (رض) کو خصوصی طور پر مخاطب کر کے گویا ان کے کردار کو دنیا بھر کی عورتوں کے لیے اسوہ بنانا مقصود ہے۔ یعنی جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات امت کے لیے اسوہ ہے عین اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواجِ مطہرات (رض) خصوصی طور پر خواتین ِاُمت کے لیے مثال اور نمونہ ہیں۔ اسی بنا پر انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ اگر تم نیکی کرو گی تو دوگنا اجر پائو گی ‘ اور اگر (خدانخواستہ) تم سے کوئی غلطی سرزد ہوئی تو اس کی سزا بھی تمہیں دوگنا ملے گی۔ اس لیے کہ اب تم لوگوں کی زندگیاں دنیا بھر کی مسلمان خواتین کے لیے اسوہ ہیں اور مسلمان خواتین کو رہتی دنیا تک تمہاری پیروی کرنا ہے ۔ آیت ٢٨{ یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لاَزْوَاجِکَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَہَا } ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو “ { فَتَعَالَـیْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَاُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا } ” تو آئو میں تمہیں کچھ مال و متاع دے کر اچھے طریقے سے رخصت کر دوں۔ “ یہ آیات واقعہ ایلاء سے متعلق ہیں۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ جب فتوحات کے باعث مدینہ میں کثرت سے مال غنیمت آنا شروع ہوا تو مجموعی طور پر مسلمانوں کے ہاں خوشحالی آنا شروع ہوگئی۔ ان حالات میں بربنائے طبع بشری ازواجِ مطہرات (رض) کی طرف سے بھی تقاضا آیا کہ اب ان کے نفقات بھی بڑھائے جائیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مطالبے کو سخت ناپسند فرمایا اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد کے ساتھ ایک بالا خانے میں منتقل ہوگئے اور ایک ماہ تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی کسی بھی اہلیہ محترمہ کے پاس نہ جانے کی قسم کھالی۔ جونہی یہ خبر لوگوں تک پہنچی تو مدینے میں گویا ایک کہرام مچ گیا۔ ہر کوئی پریشان تھا اور ہر کسی کے ذہن میں سوال تھا کہ اب کیا ہوگا ؟ کیا حضرت ابوبکر (رض) کی بیٹی حضرت عائشہ (رض) کو طلاق ہوجائے گی ؟ کیا حضرت عمر (رض) کی بیٹی حضرت حفصہ (رض) کو طلاق ہوجائے گیـ؟ شوہر کی طرف سے بیوی کے ساتھ کسی وجہ سے قطع تعلقی کی قسم کھا لینے کو فقہ کی اصطلاح میں ” ایلاء “ کہا جاتا ہے۔ اس کا حکم سورة البقرۃ میں اس طرح آیا ہے : { لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآئِہِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَۃِ اَشْہُرٍج فَاِنْ فَآ ئُ وْ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ} ” جو لوگ اپنی بیویوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھا بیٹھتے ہیں ‘ ان کے لیے چار ماہ کی مہلت ہے ‘ پس اگر وہ رجوع کرلیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ “ زیر مطالعہ آیات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایلاء فرمانے کے بعد نازل ہوئیں۔ ان آیات کی ہدایات کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازواجِ مطہرات (رض) کو واضح طور پر اختیار دے دیا کہ وہ دوراستوں میں سے جو راستہ چاہیں قبول کرلیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

41 The verses from here to 35 were sent down in the period contiguous to the Battle of the Trench and the raid on Bani Quraizah, whose background we have touched upon in the Introduction to this Surah. According to a tradition related in Muslim on the authority of Hadrat Jabir bin `Abdullah, "One day when Hadrat Abu Bakr and Hadrat 'Umar visited the Holy Prophet, they saw that his wives were sitting around him and he was quiet. Addressing Hadrat `Umar, he said: `They are sitting around me as you see: they are asking for money for household expenditure'." At this both the Companions rebuked their daughters and said, "Why do you embarrass the Holy Prophet and demand from him that which he does not have." This event shows how hard pressed the Holy Prophct was economically at that time and how distressed and embarrassed he was feeling at his wives' demand for domestic expenditure during the period when a bitter conflict was going on between Islam and paganism.

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :41 یہاں سے نمبر ۳۵ تک کی آیات جنگ احزاب اور بنی قریظہ سے متصل زمانے میں نازل ہوئی تھیں ۔ ان کا پس منظر ہم دیباچہ میں مختصراً بیان کر آئے ہیں ۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبد اللہ اس زمانے کا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے گرد بیٹھی ہیں اور آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) خاموش ہیں ۔ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خطاب کر کے فرمایا : ھُنَّ کَمَا تَرٰی یَسْألْنَنِی النفقۃ ، یہ میرے گرد بیٹھی ہیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو ۔ یہ مجھ سے خرچ کے لیے روپیہ مانگ رہی ہیں ۔ اس پر دونوں صاحبوں نے اپنی اپنی بیٹیوں کو ڈانٹا اور ان سے کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنگ کرتی ہو اور وہ چیز مانگتی ہو جو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس نہیں ہے ۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس وقت کیسی مالی مشکلات میں مبتلا تھے اور کفر و اسلام کی انتہائی شدید کشمکش کے زمانے میں خرچ کے تقاضے مزاج مبارک پر کیا اثر ڈال رہے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٨ تا ٣٢۔ بنو قریظہ کے قصہ کے بعد اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بی بیوں کا ذکر اس سبب سے آیا کہ بنو قریظہ کا اکثر مال اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہاجرین کو دے دیا تھا جس کے سبب سے مہاجرین کو کسی قدر آسودگی ہوگئی تھی۔ مہرجرین کی یہ آسودگی دیکھ کر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بی بیوں کو بھی آسودگی کا خیال ہوا اور انہوں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نان نفقہ کی مقدار میں کچھ زیادتی کردینے کی خواہش پیش کی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خواہش کے پورا کردینے کو اپنے اختیار سے باہر دیکھا اس لیے ان کی خواہش کو سن کر آپ کو ایک طرح کا رنج ہوا اسی رنج کے سبب سے آپ نے مہینہ بھر تک گھر میں نہ آنے کی قسم کھائی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے اس رنج کے فیصلہ کے طور پر یہ آیتیں نازل فرمائی ‘ یہ شان نزول جابربن عبداللہ (رض) کی روایت سے صحیح مسلم ٣ ؎ میں ہے (٣ ؎ مشکوۃ ص ٢٨١ باب عشرۃ النسائ ‘ الخ) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بی بیوں کے نان نفقہ کے معاملہ میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ قسم کھائی تھی کہ مہینہ بھر تک آپ گھر میں نہ آویں گے صحیح بخاری ١ ؎ ومسلم میں حضرت عمر (رض) کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کو جو روایت ہے (١ ؎ صفحہ ٧٨١ ج ٢ باب موعظۃ الرجل ابنتہ لحال زوجہا۔ ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حفصہ (رض) کے معاملہ میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ قسم کھائی تھی کہ مہینہ بھر تک آپ گھر میں نہ آویں گے اور اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ اس بات میں تو ان دونوں حدیثوں کا مضمون ایک ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو قسم کھائی تھی اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں مگر قسم کھانے کا سبب دونوں روایتوں میں الگ الگ ہے حافظ ابن حجر (رح) نے فتح الباری ٢ ؎ میں اس اختلاف کے بیان کو یوں رفع کردیا ہے (٢ ؎ صفحہ ٢٩٩ ج ٤ طبع دہلی۔ ) کہ دونوں سببوں کے مجموعہ پر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ قسم کھائی اور آپ کی قسم کے فیصلہ کے طور پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ اس تفسیر میں ایک جگہ گزر چکا ہے کہ چند باتوں کے مجموعہ پر اکثر آتیں نالز ہوئی ہیں حضرت حفصہ (رض) کے قصہ کی پوری تفصیل تو سورة التحریم میں آوے گی مگر صحیح بخاری ومسلم کی حضرت عائشہ (رض) کی روایت ٣ ؎ کے موافق اس قصہ کا حاصل یہ ہے (٣ ؎ مشکوۃ ص ٢٨٣ باب الخلع والطلاق۔ ) کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر حضرت زنیب (رض) کے حجرہ میں جا کر بیٹھا کرتے تھے اور بار ہا حضرت زنیب آنحضتر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خاطر داری کے طور پر شہد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے رکھا کرتی تھیں اور آپ وہ شہد چاٹا کرتے تھے حضرت عائشہ (رض) اور حفصہ (رض) کو یہ امرنا گوار ہوا اس لیے ان دونوں نے مپس میں صلاح کر کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ میں سے اوپری بو آتی ہے یہ بات سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زنیب (رض) کے حجرہ میں زیادہ بیٹھنے اور شہد کے چاٹنے کی قسم کھائی اور حضرت حفصہ (رض) کو منع کیا کہ اس قسم کے کھانے کا تذکرہ کسی سے نہ کرنا اس ممانعت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مطلب یہ تھا کہ اس کا چرچہ ہو کر حضرت زنیب (رض) کو اس کا رنج ہوگا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے حجرہ میں زیادہ بیٹھنا چھوڑ دیا حضرت عمر (رض) کے حوالہ سے ضحرت عبداللہ بن عباس (رض) کی حدیث جو اوپر گزری اس میں یہ ہے کہ حضرت حفصہ (رض) نے اس ممانعت کی پابندی نہیں کی اور اسی پر خفا ہو کر مہینہ بھرتک گھر میں نہ آنے کی قسم اللہ بی بیوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی رونق چاہتی ہو تو آؤفائدہ دوں میں تم کو اور رخصت کرو تم کو رخصت کرنا اچھا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی رونق کی خواہش رسول کے گھر میں پوری نہیں ہوسکتی اس لیے آؤتم کو کچھ دے کر طلاق دے دی جاوے پھر فرمایا اگر تم اللہ اور اس کے رسول کو اور آخرت کی بہبودی کو چاہتی ہو تو اللہ تعالیٰ نے رکھ چھوڑا ہے واسطے نیکی کرنے والیوں کی تم میں سے اجر بڑا ان دونوں امر میں سے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات نے اللہ کو اور اس کے رسول کی رضا مندی کو اختیار کیا اور دنیا کی زندگی پر آخرت کے گھر کو ترجیح دی بعد اس کے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دنیا کی خوبی اور آخرت کے ثواب کو جمع کردیا صحیح بخاری ١ ؎ میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے (١ ؎ صفحہ ٧٩١ جلد ٢ باب من خیر لنساء الخ۔ ) جس کا حاصل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے پیغمبر صلعم کو ازواج مطہرات کے دنیا یا آخرت کو پسند کرنے کا اختیار دیا تو اللہ کے رسول پہلے پہل میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا میں تم کو ایک بات بتاتا ہوں مگر تم اپنے ماں باپ کے مشورہ بغیر اس کے جواب میں جلدی نہ کرنا اس کے بعد حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان آیات کو مجھے سنایا میں نے عرض کیا میں تو اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو چاہتی ہوں دوسری روایت ٢ ؎ میں بخاری (رح) نے اس قدر اور زیادہ بیان کیا ہے (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٨٠ ج ٣۔ ) کہ اس کے بعد آپ کی سب ازواج نے ایسا ہی کیا جیسے میں نے کیا پھر فرمایا (رح) اے نبی کو عورتوں جو لاوے تم میں سے کوئی بےحیائی ظاہر دوچند ہو اس کو عذاب اور ہے یہ اللہ پر آسان اور جو کوئی تم میں سے اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے اور کام بھی اچھے کرے دیں ہم اس کو اجر دو بار اور تیار کی ہم نے اس کے واسطے روزی عزت کی “ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کو جنہوں نے خدا اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو پسند کیا خاص حکم فرمایا وہ یہ ہی ہے کہ ان میں سے جو کھیلی بےحیائی کرے گی اس کے واسطے دوچند عذاب ہے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کا قول ٣ ؎ ہے (٣ ؎ تفسیر ابن کثیرص ٤٨١ ج ٣) کہ یہاں بیحیائی سے مرادنا فرمانی ٤ ؎ ہے (٤ ؎ یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بحیثیت خاوند ‘ عدم اطاعت (ع ‘ ح) غرض کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بی بیاں بڑے مرتبہ والیا تھیں تو بھی مناسب تھا کہ ان کے قصور کو بھی سخت ٹھہرایا جاوے کیوں کہ ان کی حفاظت اسی میں ہے مجاہد (رح) کا قول ہے کہ دوچند عذاب سے مقصود دنیا اور آخرت کا عذاب ہے اب آگے فرمایا اے نبی کی بی بیو اگر تم اللہ سے ڈر کر نیک کام کرتی ر ہوگی تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہارا مرتبہ امت کی نیک عورتوں سے دنیا اور عقبیٰ میں بڑھ کر ہے کیوں کہ دنیا میں درجہ میں تمہارا مقام ہوگا اور جب امت کے ہر مرد کو حکم ہے کہ وہ اپنی ماں کے برابر تمہاری عزت کرے کسی بدکار مرد سے تم ایسی دبی ہوئی عورتوں کی سی بات نہ کرو جس سے اس بدکار شخص کے دل میں کوئی برا خیال پیدا ہو اور اسلام سے پہلے جس طرح عورتیں اپنا بناؤسنگار اجنبی مردوں کو دکھاتی پھرتی تھیں اس طرح کی عادت بھی تم میں نہیں ہونی چاہئے بلکہ تم تو اپنے گھروں میں بیٹھ کر نماز زکوۃ اور اسی طرح کے اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کے کاموں میں لگی رہو۔ سورة النساء میں گزر چکا ہے کہ اللہ کے بندوں میں سب سے بڑا مرتبہ انبیاء کا ہے ان کے بعد صدیقوں کا ان کے بعد شہیدوں کا اور پھر عام نیک لوگوں کا۔ صدیق وہ ہیں جن میں وحی کی صداقت کا مادہ زیادہ ہو صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی وہ حدیث بھی ایک جگہ گزر چکی ہے۔ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ کو اللہ تعالیٰ نے سب انبیاء پر فضیلت دی ہے سورة النور میں یہ بھی گزر چکا ہے کہ اچھے لوگوں کے نکاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے اچھی عورتوں کو منتخب کیا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ کہ جب انبیاء سب بندوں میں اور خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب انبیاء میں افضل ہیں تو جن بی بیوں کو اللہ تعالیٰ نے افضل الانبیاء کے نکاح کے لیے منتخب کیا ہے ان کی فضیلت کا کیا ٹھکانا ہے اسی واسطے فرمایا ان کی فضیلت کے موافق ان کا اجر بھی دوگنا ہے اور اس فضیلت میں بوٹا لگانے کی صورت میں سزا بھی دوگنی ہے اور اللہ کی قدرت کے آگے نوح (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) کی بیولوں کی طرح کسی نبی کی نافرمان بیوی کو سزا میں پکڑلینا کچھ مشکل نہیں وقلن قولا معر وفاط اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر مرد سے بات کرنے میں شریعت کی پابندی کا لحاظ رکھو وقرن فی بیوتکن میں بعضے سلف نے قرن کو وقار سے لیا ہے اور بعضوں نے قرار سے پہلی صورت میں یہ معنے ہیں کہ اے نبی کی بیویو تم اپنے گھروں میں عزت اور وقار سے بیٹھی رہو کوئی بات اپنے رتبہ کے برخلاف نہ کرو دوسری صورت میں یہ معنے ہیں کہ بلا ضرورت گھروں کے باہر نہ نکلو ‘ اس سورة میں آگے پر دہ کا حکم ہے اس لیے آیت میں یہ ٹکڑا گویا پردہ کی پیش بندی ہے صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) سے اور صحیح مسلم میں حضرت عائشہ (رض) سے جو روایتیں ١ ؎ ہیں (١ ؎ مشکوۃ ص ٤٨١ باب لاتقوم الساعۃ الاعلی شرار الناس۔ ) ان کا حاصل یہ ہے کہ اسلام سے پہلے جس طرح بت پرستی دنیا میں پھیلی ہوئی تھی قیامت کے قریب دنیا میں وہی حال پھر ہوجاویگا اسلام سے پہلے کی حالت کو الجاھلیۃ الاولیٰ جو فرمایا اس کا مطلب ان روایتوں سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے قریب دوسری دفعہ نادانی کا زمانہ پھر آنے والا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی طلاق دے دوں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج نے دیکھا کہ لوگ آسودہ ہوئے چاہا کہ ہم بھی آسودہ ہوں۔ بعض نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ نفقہ اور متاع کا مطالبہ کیا، اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملال ہوا اور ایک ماہ تک کے لئے ایلا کرلیا یعنی قسم کھالی کہ تم سے مقاربت نہیں کروں گا۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک بالا خانہ میں تنہائی اختیار فرما لی کا ایک ماہ کے بعد یہ اور اگلی آیت نازل ہوئی۔ ( شوکانی و موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 28 تا 34 اسرار ومعارف جب یہ فتوحات حاصل ہوئیں تو مال غنیمت بھی ملا اور صابہ کرام رضہ اللہ عنہ کے معاشی حالات بھی کافی حد تک سدھر گئے مگر کاشانہ نبوی پر وہی حال تھا کہ کبھی بھی ایک دن دونوں وقت کا کھانا پیٹ بھر کر میسر نہ ہوتا تھا اور مہینوں چولہا نہ جلا کرتا تھا ازواج مطہرات نے باہمی مشورہ کر کے عرض کیا کہ اب تو اللہ نے فراخی بخشی ہے تو ساری غنیمت سحابہ میں نہ بٹ جائے بلکہمہ میں بھی کچھ آسانی اور فراخی عطا ہو اور گھر کے لیے کچھ نہ کچھ عطا ہوا کرے کہ یہ عسرت اور تنگدستی نہ رہے مگر یہ بات اپنی ذات اور اپنے گھر کے لیے آپ کو پسند نہ آئی اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور ازواج مطہرات کو اختیار دیا گیا کہ وہ موجودہ تنگی و عسرت کی حالت میں بھی آپ کا ساتھ نباہنا چاہتی ہیں یا الگ ہونا چاہیں تو بھی اختیار ہے۔ طلاق کا اختیار : یہاں سے علما نے ثابت فرمایا ہے کہ عورت کو طلاق کا اختیار دیا جاسکتا ہے کہ اگر نہ رہنا چاہے تو خود پر طلاق جاری کرلے اور یا پھر اختیار مرد کے پاس رہے اگر عورت مطالبہ کرے تو طلاق دے کر فارغ کردے دونوں صورتوں میں جائز ہے۔ تو ارشاد ہوتا ہے : اے نبی اپنی بیویوں سے کہ دیجیے کہ اگر انہیں دنیا کی آسودگی اور مال و دولت چاہیے تو دنیا اس گھر میں آنے سے رہی ہاں تمہیں مال و دولت دے کر بہت مناسب طریقے سے الگ کر کے رخصت کردیا جائے یعنی طلاق لے کر الگ ہوجاؤ۔ حضرت عائشہ رضہ اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ آپ نے سب سے پہلے مجھے فرمایا کہ میں ایک بات کہنے چلا ہوں مگر جواب دینے سے پہلے والدین سے مشورہ کرلینا تو یہ آیت سنائی فرماتی ہیں میں نے عرض کیا بھلا اس میں مشورہ کیسا میں تو اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں اور پھر باقی سب کو سنائی گئی تو سب نے یہی جواب دیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت عائشہ سے بہت محبت تھی اور جانتے تھے کہ والدین سے مشورہ کریں گی تو وہ کبھی الگ ہونے کو نہ کہیں گے۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آخرت کی زندگی میں بلندی درجات کو اختیار کرتی ہو تو یہ بہت اعلی نیکی ہے اور یہ نیکی اپنانے والیوں کو بہت ہی بڑا اجر عطا ہوگا ۔ مقربین کی خطا پر زیادہ سزا مرتب ہوتی ہے : اور اے ازواج نبی اگر تم ہی غلط کام کرنے لگو تو یہ نہ سمجھا جائے کہ مقرب بندہ کو گناہ کی اجازت ہے بلکہ تم لوگوں کو دو گناہ سزا دی جائے گی یا تمہاری خطا کو دو گناہ کردیا جائے گا اور اللہ کو ایسا کرنا کچھ مشکل نہیں۔ یہاں سے بائیسواں پارہ شروع ہوتا ہے اور تم میں سے جو کوئی اللہ کی اطاعت اور اللہ کے رسول کا اتباع اختیار کرے گا اور عمل صالح اپنائے گا تو اس کی نیکیاں بھی دوگنی کردی جائیں گی اور اس کو روزی بھی نہایت عزت و وقار سے نصیب ہوگی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ ازواج النبی دنیا کی خواتین سے افضل ہیں : اے نبی کی بیویو تم دنیا کی سب عورتوں سے فضیلت رکھتی ہو کہ کوئی خاتون اس پہلو سے تمہاری مثل نہیں اس لیے تمہیں لازم ہے کہ اللہ کا تقوی اختیار کرو ۔ عورت کی آواز : اور عورت کی آواز کا پردہ تو نہیں مگر ایسی صورت میں کہ کسی کو اس کی طرف گناہ کی رغبت ہو جائز نہیں حتی کہ نماز میں اگر عورت کو پتہ چلے کہ امام بھول رہا ہے تو بول کر لقمہ نہ دے بلکہ ہاتھ کی پشت پر ہاتھ مار کر مطلع کرے چہ جائیکہ آج ایک طبقہ طبلہ اور سارنگی پہ چلا گیا تو دوسرے ٹی وی پہ نعت سنانے لگیں اور سب سے الگ ایک طبقہ حکومت اور سلطنت کی امامت کبری پر قابض ہوگیا۔ یاللعجب۔ جاہلیت کا زمانہ اور پردہ : زمانہ جاہلیت کی طرح بےپردہ اور بلا ضرورت نمائش کے لیے نہ پھر اکیجیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے کے دور کو عہد جاہلیت کہا گیا ہے کہ اسلام کی آمد جہالت کے خلاف تھی اور اس زمانہ میں عورتیں اچھے لباس اور زیورات پہن کر پھرا کرتی تھیں جس سے امارت اور شان و شوکت کا اظہار مقصود ہوتا تھا اسلام نر اس سب کام سے روک دیا اور ازواج النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دے کر ثابت کردیا کہ کسی بھی مسلمان خاتون کے لیے لاضرورت گھر سے نکلنا جائز نہیں ہاں ضرورت سے منع نہیں فرمایا مگر اس میں بھی برج یعنی شان و شوکت کا اظہار اور زیورات و لباس کی نمائش نہ ہو بلکہ شرعی پردہ کر کے نکلے۔ اور گھر میں عبادات ادا کرے بدنی بھی مالی بھی اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں کمربستہ رہے اور حکم آپ کو اس لیے دیا جارہا ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر طرح کی چھوٹی سے چھوٹی خطا بھی دور کر دے اور تمہیں پاک صاف کردے۔ طہارت تشریعی اور تکوینی یہ پاک صاف کرنا شرعی اعتبار سے ہے جو صحابہ اور اہل اللہ کو نصیب ہوتی ہے کہ اللہ ان کی حفاظت فرما کر گناہ سے محفوظ رکھتا ہے یہ تکوینی نہیں ہوتی کہ جیسے نبی تکوینی طور پر معصوم ہوتا ہے۔ یہ صرف خاصہ نبوت ہے اور کسی کو معصوم ماننا یا نبی ماننا برابر ہے۔ اہل بیت : شیعہ کا یہاں سے آئمہ کے معصوم ہونے کا استدلال باطل ہے حق بات تو یہ ہے کہ یہ آیات ازواج مطہرات کے حق میں نازل ہوئیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی۔ فاطمہ اور حسنین کریمین رضہ اللہ عنہ کو اس میں شامل کرنے کی دعا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باقی تین بیٹیاں اس کے نزول سے قبل فوت ہوچکی تھی ورنہ اہل بیت کا اطلاق ہی ان افراد خانہ پر ہوتا ہے جن کا نان نفقہ صاحب خانہ کے ذمہ ہو۔ اور اسی طرح قرن فی بیوتکن سے مراد حضرت عائشہ پر اعتراض کہ آپ حج پر کیوں تشریف لے گئیں یا بصرہ کیوں گئیں درست نہیں کہ وہاں محض اظہار شوکت کے لیے باہر پھرنے سے منع فرما یا ہے۔ حج سے نہیں اور حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں بھی دوسری ازواج مطہرات نے حج ادا فرمائے نیز آپ کے ساتھ آپ کے محرم بھی تھے اور آہنی ہودج میں پردہ میں سفر فرمایا۔ اسی طرح آپ کو مکہ مکرمہ میں شہادت عثمان اور مدینہ پر روافض کے قبضہ اور مسلمانوں کی بےبسی حضرت علی کی مجبوری کی خبر ہوئی تو بصرہ تشریف لے گئیں جہاں اسلامی قوت تھی اور افواج جمع تھیں حضرت علی کو روافض نے چلنے پر مجبور کردیا ورنہ بصرہ جانے سے روکنے میں خود حضرت حسن اور حسین بھی تھے بصرہ میں سرے سے جنگ نہیں ہوئی بلکہ باتیں ہوئیں اور طے پا گیا کہ سب قوت یکجا کرکے قاتلان عثمان سے قصاص لیا جائے جس پر تیسرے روز علی الصبح روافض نے اچانک حملہ کردیا اور یوں بیخبر ی میں دونوں طرف کے لوگوں کو لڑا دیا بات صاف ہونے تک بہت سے لوگ شہید ہوچکے تھے اور روافض کا ایک گروہ الگ ہو کر خارجہ کہ لایا جو بعد میں بھی حضرت علی رضہ اللہ عنہ سے لڑا۔ اور لڑائی کے وقت حضرت عائشہ سرے سے ہودج میں موجود نہ تھیں اگر یہ جنگ تھی تو غنیمت کس نے لی اور جنگی قیدی کون بنے یا منقوکین کا کیا فیص کہ کیا گیا ؟ یہ سب کچھ روافض کی سازش تھی اور حضرت علی کا یہ کارنامہ کہ اس دور میں روافض کی سازشوں کا مقابلہ کر کے امت مسلمہ کو کا نہ جنگی سے بچا لیا بہت بڑا کارنامہ ہے رہے روافض تو یہ ہمیشہ سے امت مسلمہ کے دشمن جھوٹے اور چالباز ہیں ان کے دلائل میں بھی جھوٹ اور بودا پن موجود ہوتا ہے ان کی روایات پہ توجہ ہی نہ کی جانی چاہیے۔ اور اے ازواج النبی اللہ کی آیات کو یاد کرو جو تمہارے گھروں میں پڑھی جاتی ہیں جن کے نزال کے مقام تمہارے کاشانے ہیں اور جن میں حقیقی حکمت و دانائی موجود ہے اس لیے اللہ اس باریک ترین خیال سے بھی واقف ہے جو لمحہ بھر کے لیے دور کہیں دل کی گہرائی میں گزر جاتا ہے اور اللہ ہر چیز سے باخبر ہیں۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 28 تا 34 کنتن : تم ہو تعالین : تم سب آجاؤ امتع : میں سامان دوں گا اسرح : چھوڑ دوں گا۔ رخصت کردیتا ہوں یضعف : وہ دو گنا کردے گا یقنت : اطاعت کرے گی، جھکے گی مرتین : دو مرتبہ۔ دوھرا۔ دوگنا اتقیتن : تم پرہیزگاری اختیار کرو لا تخضعن : نرمی نہ کرو۔ لوچ پیدا نہ کرو یطمع : وہ لالچ کرے گا قرن : ٹکی رہیں۔ جمی رہیں تبرج : ابھر کر آنا۔ جسم اور چہرہ کی نمائش کرنا الرجس : گندگی ۔ آلودگی اھل البیت : گھر والے۔ اہل خانہ یتلی : تلاوت کیا گیا خبیر : خبر رکھنے والا۔ اللہ کی صفت تشریح آیت نمبر 28 تا 34 اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کو ” احسنہ “ فرمایا ہے یعنی آپ کی زندگی کا ہر عمل امت کے لئے رہبر و رہنما ہے۔ آپ کے فیض صحبت اور تربیت سے آپ کے جاں نثار صحابہ کرام (رض) کی زندگیاں بھی دوسروں کے لئے بھی منیارہ نور بن گئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ازواج مطہرات کو براہ راست خطاب فرما کر ان کو ایک ایسا اعزاز عطا فرمایا ہے جو کسی نبی اور رسول کی ازواج کو بھی نصیب نہ ہوسکا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ازواج مطہرات کو اہل بیت رسول فرما کر ان کی شان میں چار چاند لگا دیئے ہیں ۔ چونکہ آپ کی ازواج مطہرات کی زندگیاں بھی ساری امت کے لئے مثال تھیں اس لئے اللہ نے چاہا کہ ان کی زندگیوں کے اس میل کچیل کو دور فرما کر پاک صاف کردیں جس سے ان کے کردار میں کہیں بھی کمزوری باقی نہ رہے۔ قرآن کریم کی آیات سے توبہ بات بالکل واضح ہے کہ امت کی ان ماؤں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اہل بیت قرار دیا گیا ہے لیکن معتبر احایث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) ، حضرت علی (رض) ، حضرت فاطمہ ، حضرت حسن (رض) ، اور حضرت حسین (رض) کو ایک چادر میں لے کر فرمایا کہ اے اللہ آپ گواہ رہیے گا یہ بھی میرے اہل بیت میں سے ہیں۔ اب ہم سب اہل سنت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام ازواج مطہرات اور حضرت علی (رض) ، حضرت فاطمہ (رض) ، حضرت حسن (رض) ، اور حضرت حسین (رض) یہ سب اہل بیت رسول ہیں۔ ان تمام آیات کی مزید وضاحت سے پہلے اس پس منظر کو ذہن میں کھئے گا کہ جب بنو قریظہ کو بری طرح شکست ہوگئی اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مسلسل فتوحات عطا فرمائیں۔ خاص طور پر خیبر فتح ہونے کے بعد وہاں کی تمام زمینوں اور مال و دولت کو صحابہ کرام (رض) میں تقسیم کردیا گیا تو ایک طویل عرصہ تک فقر و فاقہ کی زندگی گذارنے والے صحابہ کرام (رض) کے گھروں میں رونق آگئی اور ایک خوش حالی کا دورہ شروع ہوگیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کی پوری زندگی ایک عظیم مشن کو حاصل کرنے کے لئے انتہائی غربت و افلاس اور فقر و فاقہ میں گذری تھی اور ام المومنین حضرت عائشہ (رض) کی ایک روایت کے مطابق کہ ہمارے گھروں میں کبھی کبھی آگ جلائے ہوئے ایک ایک مہینہ گذر جاتا تھا ہم صرف کھجوریں ، ستو اور پانی پر گذارہ کیا کرتے تھے ۔ اگر کہیں سے ہدیہ کے طور پر گوشت آجاتا تو اس کو پکا لیا جاتا تو کھجوریں اور پانی پر ہی گذارا لیا جاتا تھا۔ جب صحابہ کرام (رض) کی زندگیوں میں خیبر کی زرخیز زمینوں اور فتوحات سے کچھ خوش حالی کا دور شروع ہوا تو ایک دن تمام ازواج مطہرات جن کی تعداد اس وقت چار تھی حضرت عائشہ (رض) ، حضرت حفصہ (رض) ، حضرت سودہ (رض) اور حضرت ام سلمہ (رض) انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ آج جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں گے تو ان سے یہ درخواست کریں گی کہ اس خوش حالی میں سے ان کو بھی کچھ حصہ دیا جائے تاکہ وہ بھی کچھ فراغت کے ساتھ اپنی زندگی گذارسکیں۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو ان تمام ازواج مطہرات نے آپ کی خدمت اقدس میں عرض کردیا کہ ہمارے لئے بھی خوش حالی کا سامان کردیا جائے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سنا تو آپ کی طبیعت پر کچھ گرانی چھاگئی اور آپ علیحدہ ایک کمرے میں ایک مہینے کے لئے قیام پذیر ہوگئے ۔ اس صورتحال سے صحابہ کرام (رض) خاص طور پر حضرت ابوبکر صدیق (رض) ، اور حضرت عمر (رض) نے اپنی بیٹیوں کو ہر طرح سمجھا یا ، ڈانٹ ڈپٹ بھی کی مگر وہ اپنے اس مطالبہ پر قائم رہیں۔ اس موقع پر سورة پر سورة الاحزاب کی یہ آیات ناز ل ہوئیں۔ جن میں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کے لئے صاف صاف اعلان فرمادیا تھا کہ دو راستوں میں سے ایک راستہ اختیار کرلیں۔ اگر دنیا کی راحت ، اس کا آرام و دولت کی طلب گار رہیں تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کہہ دیجئے کہ میرا اور تمہار راستہ الگ الگ ہے ۔ میں تمہیں کچھ دے دلا کر نہایت عزت سے رخصت کردیتا ہوں اور اگر اللہ اور اس کے رسول کی رضامندی اور آخرت کی ابدی زندگی اور اس کی راحتیں مطلوب ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ ان کو دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے گا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ ان آیات کے نازل ہونے کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تم سے ایک بات کا ذکر کرنے والا ہوں تم جواب میں جلدی نہ کرنا اپنے والدین سے بھی مشورہ کرلینا اس کے بعد جواب دینا۔ پھر آپ نے مذکورہ آیات پڑھ کر سنائیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے فوراً جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں والدین سے مشورہ کا کیا سوال ہے ؟ مجھے اللہ ، اس کا رسول اور آخرت کا گھر پسند ہے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ (رض) کا جواب سنا تو خوش ہوگئے اور آپ ہنس پڑے۔ پھر اس بقیہ تینوں ازواج کے پاس بھی تشریف لے گئے۔ سب کا جواب وہی تھا جو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا تھا ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے امہات المومنین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو تم میں سے جو بھی اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور عمل صالح اختیار کرے گی تو اس کو دوگنا اجر وثواب دیا جائے گا۔ چونکہ اے ازواج النبی تمہاری زندگیاں دوسروں کے لئے مثال ہیں اس لئے تمہاری ایک غلطی بھی اللہ کے نزدیک دوہری سزا کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کے بعد ازواج مطہرات اور قیامت تک آنے والی تمام خواتین کے لئے جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ (1) سب سے پہلے آپ کی ازواج کو خظاب کرتے ہوئے فرمایا اے ازواج النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تمہاری حیثیت عام عورتوں کی طرح نہیں ہے ۔ تمہارے ہر عمل کو دوسرے دیکھ کر اس کی نقل کرتے ہیں لہذا اگر حسن عمل پیش کیا جائے تو اس پر دو ہرا اجر وثواب دیا جائے گا اور اگر کسی کمزوری کا مظاہرہ کیا گیا تو اس کی سزا بھی دوگنی دی جائے گی۔ (2) دوسری ہدایت یہ دی گئی کہ اگر تم اپنے دلون میں اللہ کا خوف رکھتی ہو تو غیر مردوں سے بات کرتے وقت تہذیب و شاستگی کے ساتھ ایسا رو کھا اور غیر جذباتی انداز اختیار کرو جس میں ایسی نرمی اور بےتکلفی نہ ہو جس سے بعض ذہنی مریض کیس غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں۔ چونکہ اللہ نے عورت کی آواز میں نرمی اور بےتکلفی نہ ہو جس سے بعض ذہنی مریض کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں ۔ چونکہ اللہ نے عورت کی آواز میں نرمی اور خوبصورتی رکھی ہے اس لئے عبادات میں بھی حکم دیا ہے کہ وہ اپنی آواز کو دھیما رکھیں ۔ (ا) فرمایا کہ عورتیں اذان اور اقامت نہ کہیں۔ (2) آواز سے تلاوت کرنے کو منع کیا گیا ہے اس لئے عورت کو امامت کی اجازت نہیں ہے۔ (3) نامحرم مرد کو سلام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ (4) اگر نماز کے دوران امام قرات میں یا کسی رکن ادا کرنے میں کوتاہی کر جائے تو مرد زور سے اللہ اکبر ، سبحان اللہ کہ کر امام کو صحیح کرنے کا اشارہ کرسکتے ہیں لیکن اگر تصیح کرنے والی عورت ہو تو وہ اپنے ہا تھ کی پشت پر دوسرا ہاتھ ما رکر امام کو آگاہ کرے گی مگر زبان سے نہ کہے گی۔ (5 ) حج اور عمرہ میں عورتوں کو تلبیہ زور سے پڑھنے کی اجازت نہیں ہے آہستہ آہستہ پڑھیں۔ ان کے علاوہ اور بہت سے احکام ہیں جن کو فقہ کی کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ (3) تیسری ہدایت یہ دی گئی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ٹک کر رہیں ۔ بلا کسی شدید ضرورت کے گھروں سے نہ نکلیں۔ اگر نکلنا ہو تو شریعت کی تمام پابندیوں کے ساتھ باہر نکلیں ۔ خواتین فرض نمازیں اپنے گھروں میں ادا کریں کیونکہ ان کے لئے اسی میں بہت اجروثواب رکھا گیا ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ عورت کا گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں جاکر نماز پر ھنے سے زیادہ افضل ہے ۔ حضرت ام حمید ساعد یہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا دل چاہتا ہے کہ میں آپ کے ساتھ (جماعت سے مسجد میں ) نماز ادا کروں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مجھے معلوم ہے کہ تمہیں میرے ساتھ یعنی میرے پیچھے نماز پڑھنے کی خواہش ہے مگر تمہاری وہ نماز جو تم اپنے گھر کے اندر کے حصے میں پڑھو وہ اس نماز سے افضل ہے جو تم اپنے باہر کے دلان میں پڑھتی ہو اور باہر کے دلان میں تمہارا نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تم اپنے گھر کے صحن میں پڑھو اور پنے گھر کے صحن میں تمہارا نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے جو تم اپنے قبیلے والی مسجد میں (جو گھر سے قریب ہے ) نماز پڑھو اور اپنے قبیلے والی مسجد میں تمہارا نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تم میری مسجد میں آکر نماز ادا کرو۔ (معارف القرآن) (4) چوتھی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ دور جاہلیت کی طرح بےپردہ اور بنائو سنگھار کرکے باہر نہ نکلیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ” تبرج جاہلیت “ پسند نہیں ہے۔ یعنی ابھر کر سامنے آنا۔ اپنے جسم ، زیور ، کپڑے اور چہرے کی نمائش کرنا ، اس طرح چلنا جس سے خوامخواہ بھی لوگ متوجہ ہوجائیں اس کو ” تبرج جاہلیت ــ“ فر ما یا گیا ہے جس میں اسلام آنے سے پہلے لوگ مبتلا تھے اور عورتیں بےپردہ بےبا کانہ انداز سے اپنے جسم و لباس کی نمائش کرتی پھرتی تھیں۔ (5) پانچویں ہدایت یہ دی گئی ہے کہ خاص طور پر ازواج مطہرات اور تمام خواتین نمازوں کی پابندی کریں کیونکہ نماز دین کا ایک مضبوط ستون ہے ۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر ساری روحانی، اخلاقی ، معاشرتی، ، معیشی، اور تہذیبی و تمدنی زندگی کی عمارت تعمیر کی جاتی ہے۔ (6) چھٹی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ اگر وہ صاحب نصاب ہوں تو زکواۃ ادا کریں یعنی وہ زکواۃ سے مشتنیٰ نہیں ہیں ان کو بھی عام مسلمانوں کی طرح زکواۃ ادا کرنا ہوگی۔ (7) ساتویں ہدایت یہ دی گئی ہے کہ شریعت کے جتنے احکامات ہیں ان میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اطاعت و فرماں برداری کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ ساتوں ہدایات دے کر فرمایا کہ اے اہل بیت رسول اگر تم نے اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی کامل اتباع کی تو اللہ تمہارے گھرانے کو ظاہری اور باطنی ہر اعتبار سے پاک و صاف فرمادے گا اور ہر طرح کی آلودگی سے تمہیں بچا لے گا ۔ ان آیات میں اگر چہ خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات سے کیا گیا ہے لیکن یہ تمام احکامات پوری امت کی تمام خواتین کے لئے ہیں کیونکہ جب ازواج مطہرات بھی اللہ کے احکامات کی پابند ہیں تو پھر عام مسلمان عورتیں اس سے مستشنیٰ کیسے ہوسکتی ہیں ؟ احکامات پر پوری طرح عمل کرنا ہر مومن مرد اور ہر مومن عورت پر فرض ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ ازواج مطہرات (رض) کے کچھ زائد سامان دنیوین تقاضے کے ساتھ مانگنے سے جس کو وہ غلطی سے زائد نہ سمجھی تھیں آپ کے قلب مبارک کو ایذا پہنچی، حتی کہ آپ ناخوش ہو کر ایک مہینے کے لئے سب سے الگ ہوگئے، یہ آیتیں اس کے متعلق حضرات امہات المومنین کی فہمائش کے لئے ارشاد ہوئیں۔ اور غالبا اس مانگنے کی وجہ یہ ہوئی ہو کہ فتح خیبر وغیرہ سے کسی قدر مالی وسعت حاصل ہوگئی تھی تو اپنے خیال میں وہ اس کو موجب تکلیف نہیں سمجھیں۔ اور یہ قصہ بعد فتح خیبر کے واقع ہوا۔ چناچہ اس وقت حضرت صفیہ (رض) بھی آپ کے نکاح میں تھیں جو خیبر سے حاصل ہوئی تھیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آیت ٢١ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امت کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے اس کے بعد غزوہ احزاب کا اختتام اور انجام بیان کیا اب اہل بیت کے حوالے سے نبی کریم کا اسوہ بیان کیا جاتا ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیویوں سے فرماؤ۔ کہ اگر تم دنیا اور اسکی آرائش وزیبائش چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں حسب توفیق دے کر اچھے طریقے کے ساتھ رخصت کرتا ہوں اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو پسند کرتی ہو تو یقین کرو کہ اللہ تعالیٰ نے نیک لوگوں کے لیے بہترین اجر تیار کر رکھا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے باپ تھے اور ازواج مطہرات گھر یلو خواتین تھیں انہیں کیا معلوم کہ صحابہ کرام (رض) کے معاشی حالات کیسے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک سربراہ کو اپنے ساتھیوں اور آئندہ نسلوں کے لیے نمونہ بننا ہوتا ہے۔ چند آیات پہلے یہ حقیقت بیان ہوچکی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ بنائے گئے ہیں ظاہر بات ہے کہ نمونہ تو وہی ذات ہوسکتی ہے جس کا ظاہر، باطن، گھریلو اور پبلک زندگی کا ایک ایک لمحہ امت کے لیے مثال ہو۔ امّہات المومنین نے آپ سے جب خوشحالی کا مطالبہ کیا تو آپ کو یہ بات اس قدر ناگوار گزری کہ آپ ایک مہینہ کے لیے ان سے الگ تھلگ ہوگئے۔ یہاں تک کہ یہ بات مشہور ہوگئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) زُوْجَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَخْبَرَتْہُ اَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جَآَءَ ہَا حِیْنَ اَمَرَ اللّٰہُ اَنْ یُخْیِّرَ اَزْوَاجَہٗ فَبَدَاءَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ اِنِّیْ ذَاکِرٌ لَّکَ اَمْرًا فَلَا عَلَیْکِ اَنْ تَسْتَعْجِلِیْ حَتّٰی تَسْتَاْمِرِیْ اَبَوَیْکِ وَقَدْ عَلِمَ اَنَّ اَبَوَیَّ لَمْ یَکُوْنَا یَاْمُرَانِیْ بِفَرَاقِہٖ قَالَتْ ثُمَّ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ قَالَ یَاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِاَزْوَجِکَ اِلٰی تَمَامِ الْاٰیَتَیْنِ فَقُلْتُ لَہٗ فَفِیْ اَیْ ہَذَا اَسْتَاْمِرُ اَبَوَیَّ فَاِنِّیْ اُرِیْدُ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ )[ رواہ البخاری : کتاب التفسیر باب قولہیا ایھا النبی قل لازواجک ] ” سیدہ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں اللہ تعالیٰ نے جب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ اپنی بیویوں کو اختیار دے دیں تو آپ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا میں تیرے سامنے ایک معاملہ رکھنے لگا ہوں اور اس میں جلدی نہ کرنا یہاں تک کہ اپنے والدین سے مشورہ کرلو۔ سیدہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ آپ کو علم تھا کہ میرے والدین مجھے آپ سے جدا ہونے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اے نبی اپنی بیویوں سے کہہ دیں۔ دو آیات تلاوت کیں تو میں نے عرض کی کہ کیا اس بارے میں، میں اپنے والدین سے مشوہ کروں ؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو ترجیح دیتی ہوں۔ “ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ذات اور اپنے گھر والوں کے لیے دنیا کی زیبائش پسند نہیں کرتے تھے۔ ٢۔ میاں، بیوی کے درمیان علیحدگی احسن طریقہ سے ہونی چاہیے۔ ٣۔ نیک بیوی کے لیے لازم ہے کہ وہ دنیا کی بجائے آخرت کو پسند کرے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے کن لوگوں کے لیے بہترین اجرتیار کر رکھا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو ان کے اعمال کا بہترین صلہ دے گا۔ (التوبۃ : ١٢١) ٢۔ اللہ تعالیٰ صابر لوگوں کو ان کے صبر کی بہترین جزا دے گا۔ (النحل : ٩٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ نیکوں کو ان کے اعمال سے بہتر جزا دے گا۔ (العنکبوت : ٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مزیداجر عطا کرے گا۔ (النور ؛ ٣٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ نیکوں کے اعمال سے بہتر صلہ عطاکریں گے۔ (النحل : ٩٧) ٦۔ اللہ صبر کرنے والوں اور توکل کرنے والوں کو بہترین اجر عطا فرمائے گا۔ (العنکبوت : ٥٩) ٧۔ ایمان لانے والوں، نماز قائم کرنے والوں اور زکٰوۃ دینے والوں کے لیے اللہ کے ہاں اجر ہے۔ (البقرۃ : ٢٧٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات (رض) کو نصائح ضروریہ۔ آیت کریمہ (یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ سے عَظِیْمًا) تک کا سبب نزول حضرات مفسرین کرام نے یہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ زیادہ خرچہ ملنے کی درخواست کی، اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نو بیویاں تھیں۔ (١) عائشہ بنت ابوبکر صدیق۔ (٢) حفصہ بنت عمر۔ (٣) ام حبیبہ بنت ابی سفیان۔ (٤) ام سلمہ بنت ابی امیہ۔ (٥) سودہ بنت زمعہ۔ (٦) زینب بنت جحش۔ (٧) میمونہ بنت حارث۔ (٨) صفیہ بنت حی بن اخطب۔ (٩) جویریہ بنت حارث۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کا یہ مطالبہ اچھا نہ لگا (بڑوں کی بڑی باتیں ہیں، وہ سید الاولین والآخری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں تھیں انہیں آپ کے ساتھ صبر و شکر کے ساتھ رہنا چاہیے تھا اور بعض مرتبہ جو فاقہ کی نوبت آجاتی تھی اس کو درجات کی بلندی کے لیے برداشت کرنا چاہیے تھا اور خرچہ کا سوال زبان پر نہیں لانا چاہیے تھا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے انہوں نے خرچہ کا سوال کیا تو آپ نے قسم کھالی کہ ایک مہینہ تک ان کے پاس نہیں جاؤں گا، حضرات صحابہ میں یہ مشہور ہوگیا کہ آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے، اس پر حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا کہ میں اس کی خبر لاتا ہوں، انہوں نے خدمت عالی میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں مسجد میں گیا تو دیکھا کہ وہاں مسلمان موجود ہیں اور یوں کہہ رہے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے، آپ نے فرمایا میں نے طلاق نہیں دی، عرض کیا تو کیا میں مسلمانوں کو یہ بات بتادوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا چاہو تو بتادو ! حضرت عمر (رض) نے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر پکار کر اعلان کردیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ازواج کو طلاق نہیں دی۔ جب انتیس دن گزر گئے تو آیت تخییر یعنی (یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ ) (آخر تک) نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ اپنی بیویوں سے فرما دیجیے کہ تم دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں دنیا کا سامان دے دیتا ہوں اور ساتھ ہی تمہیں خوبصورتی کے ساتھ چھوڑ دوں گا یعنی اپنے نکاح میں نہیں رکھوں گا اور اگر تم اللہ کو اور اس کے رسول کو چاہتی ہو اور آخرت کی طلبگار ہو تو تم سمجھ لو کہ اللہ نے نیک کام کرنے والی عورتوں کے لیے اجر عظیم تیار فرمایا ہے، یعنی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ زندگی گزارتی رہو، اچھے اعمال کرتی رہو تو تمہیں اللہ تعالیٰ اجر عظیم عطا فرمائے گا (اس صورت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جدائی کا کوئی مسئلہ نہیں) جب آیت تخییر نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت شریفہ کے مضمون کے مطابق اپنی بیویوں کو اختیار دے دیا کہ اگر چاہو تو دنیا کا سامان لے لو اور ساتھ ہی یہ سمجھ لو کہ میں تمہیں طلاق دے دوں گا اور اگر چاہو تو میرے ہی پاس رہو لیکن اس صورت میں مطلوبہ اخراجات کا کوئی وعدہ نہیں، ہاں یہ وعدہ ہے کہ نیک کام کرتی رہو گی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر عظیم دیا جائے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے فرمایا کہ میں تمہارے سامنے ایک بات پیش کرتا ہوں جب تک اپنے ماں باپ سے مشورہ نہ کرلو جواب دینے میں جلدی نہ کرنا (آپ کو معلوم تھا کہ ان کے والدین انہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جدا ہونے کا مشورہ نہیں دے سکتے تھے) یہ فرما کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ (رض) کو دونوں آیتیں سنا دیں جن میں اختیار دینے کا مضمون ہے، حضرت عائشہ (رض) بہت سمجھدار اور مزاج شناس نبوت تھیں فوراً عرض کیا کیا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں اپنے ماں باپ سے مشورہ لوں گی ؟ میں اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو اختیار کرتی ہوں اور ساتھ ہی یوں بھی عرض کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوسری بیویوں میں کسی کو میرے جواب سے مطلع نہ فرمائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اللہ نے مجھے تکلیف میں ڈالنے والا اور تکلیف میں پڑنے والا بناکر نہیں بھیجا مجھے تو سکھانے والا اور سہولت کا طریقہ بتانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اس کے بعد آپ نے باقی آٹھ ازواج مطہرات کے سامنے بھی آیت بالا کا مضمون پیش فرمایا ان سب نے بھی یہی جواب دیا کہ ہم اللہ کو اور اس کے رسول کو اور دار آخرت کو اختیار کرتی ہیں۔ جب انتیس دن گزر گئے تو آپ عائشہ (رض) کے پاس تشریف لے گئے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے تو یہ قسم کھائی تھی کہ پورے ایک ماہ ہمارے ہاں تشریف نہیں لائیں گے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ مہینہ انتیس دن کا تھا، انتیس دن گزر گئے نیا مہینہ شروع ہوگیا۔ جب آپ کی تمام بیویوں نے اللہ اور اس کے رسول کو اور دار آخرت کو اختیار کرلیا تو آپ کے چہرۂ انور پر خوشی کے انوار ظاہر ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی قدر دانی فرمائی۔ (معالم التنزیل ٣: ص ٥٢٥، ٥٢٦، صحیح بخاری ج ٢ ص ٧٠٥، صحیح مسلم ص ٤٨٠ تا ٤٨٢) فائدہ : بیوی کو اگر طلاق کا اختیار دیا جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ طلاق کا اختیار عورت کے سپرد کردیا جائے، اگر وہ چاہے تو اپنے اوپر طلاق واقع کرکے آزاد ہوجائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ مرد طلاق کو اپنے ہی ہاتھ میں رکھے اور عورت سے یوں کہے کہ اگر تو چاہے تو میں تجھے طلاق دے دوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو اپنی بیویوں کو اختیار دیا تھا وہ یہی دوسری صورت تھی یعنی بطور مشورہ ایک بات پیش فرمائی تھی، اگرچہ بعض اکابر نے فرمایا کہ آیت کے سیاق میں دونوں کا احتمال ہے، حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اختیار دیا تھا ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہنا منظور کرلیا اور آپ کی زوجیت اختیار کرلی، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اختیار دے دینا کسی بھی طلاق میں شمار نہیں کیا گیا۔ آئمہ اربعہ کا یہی مذہب ہے کہ محض اختیار دے دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ صحیح مسلم میں تخییر کو طلاق میں شمار نہیں کیا گیا، اس کے ذیل میں امام نووی (رض) لکھتے ہیں : فی ھذا الاحادیث دلالۃ المذھب مالک والشافعی وابی حنیفۃ واحمد وجماھیر العلماء زوجتہ فاختارتہ لم یکن ذٰلک طلاقاً ولا یقع بہ فرقۃ وروی عن علی وزید بن ثابت والحسن واللیث بن سعد ان نفس التخییر یقع بہ طلقۃ بائنۃ سواء اختارت زوجھا ام لا وحکاہ الخطابی والنقاش عن مالک قال القاضی لا یصح ھذا عن مالک ثم ھو مذھب ضعیف مردود بھذا والاحادیث الصریحۃ وبعل القائلین بہ لم تبلغھم ھذہ الاحادیث۔ واللّٰہ اعلم۔ ” ان احادیث میں حضرت امام مالک، امام شافعی، امام ابو حنیفہ، امام احمد اور جمہور علماء کے مذہب کے دلیل ہے اگر کسی نے اپنی بیوی کو اختیار دیا تو محض یہ اختیار دینا طلاق نہیں ہوگا اور نہ اس سے فرقت ہوتی ہے۔ حضرت علی، حضرت زید، حضرت حسن اور حضرت لیث بن سعد (رض) سے مروی ہے کہ نفس تخییر سے طلاق بائنہ واقع ہوجاتی ہے خواہ عورت نے اپنے آپ کو اختیار کیا ہو یا نہ کیا ہو اور اس بات کو خطابی اور نقاش نے امام مالک سے نقل کیا ہے۔ قاضی فرماتے ہیں حضرت امام مالک سے یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ پھر یہ کہ یہ مذہب ضعیف ہے اور ان مذکورہ صریح احادیث کی وجہ سے مردود ہے۔ شاید اس مذہب کے قائلین کو یہ احادیث نہیں پہنچیں۔ “ حنفیہ میں سے صاحب ہدایہ نے لکھا ہے کہ کوئی شخص طلاق کی نیت سے اپنی بیوی سے اِخْتَارِیْ (تو اختیار کرلے) کہہ دے یا یوں کہہ دے کہ تو اپنے نفس کو طلاق دیدے تو جب تک وہ اپنی مجلس میں رہے گی اسے طلاق دینے کا اختیار رہے گا، اگر مجلس سے اٹھ گئی یا وہیں بیٹھے بیٹھے کسی کام میں لگ گئی (جس سے اعراض سمجھا جاتا ہو) تو اس کے ہاتھ سے اختیار جاتا رہا، اگر اِخْتَارِیْ کے جواب میں (جبکہ شوہر نے طلاق کی نیت سے کہا ہو) عورت نے یوں کہہ دیا کہ اخترت نفسی (میں اپنی جان کو اختیار کرتی ہوں) تو ایک بائن طلاق واقع ہوجائے گی۔ (باب تفویض الطلاق)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

33:۔ یا ایہا النبی الخ، یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دوسرا خطاب ہے اس میںحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیں کہ اگر دنیا کی عیش اور شان و شوکت چاہتی ہو تو یہ چیز تمہیں میرے گھر میں نہیں مل سکتی آؤ میں تمہیں طلاق دے کر اور جوڑا دے کر رخصت کردیتا ہوں۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کو اور آخرت کی عیش کو پسند کرتی ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا بہت بڑا اجر وثواب عطا فرمائے گا۔ حضرت شیخ قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں پہلے مومنوں سے فرمایا کہ وہ رسم جاہلیت کو توڑنے میں پیغمبر (علیہ السلام) کا ساتھ دیں اور کفار و منافقین کی مخالفت کا مقابلہ کریں اور ہرگز نہ ڈریں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے۔ اب ازواج مطہرات کو تلقین فرمائی فرمائی کہ تم بھی کفار و منافقین کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر اس بارے میں پیغمبر (علیہ السلام) کے خلاف لب کشائی نہ کرنا اور پیغمبر (علیہ السلام) نے جو کچھ کیا ہے، یعنی اپنے متبنی کی مطلقہ سے نکاح کرلیا ہے اس میں آپ کی تائید کرنا اور اس کو دل و جان سے تسلیم کرنا۔ کیونکہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں۔ آپ نے جو کچھ کیا ہے اللہ کے حکم سے کیا ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئیحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عائشہ (رض) کو سنائی اور فرمایا اس بارے میں جلدی نہ کرو۔ اپنے والدین سے مشورہ کرلو۔ حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ کے بارے میں میں والدین سے مشورہ کروں ؟ میں اللہ اور اللہ کے رسول کو دنیا کی عیش وزینت پر ترجیح دیتی ہوں، باقی ازواج مطہرات نے بھی یہی جواب دیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

28۔ اے نبی آپ اپنی ازواج یعنی بیویوں سے فرما دیجئے اگر تم دنیا کی زندگی کا عیش اور اس زندگی کی بہار اور ساز و سامان چاہتی ہو تو آئو میں تم کو کچھ مال و متاع دیدوں اور تم کو خوش اسلوبی کے ساتھ رخصت کر دوں ۔ مال و متاع شاید اس سے وہ جوڑا مراد ہو جو مطلقہ عورت کو دیا جاتا ہے ، خیبر کی فتح کے بعد جیسا کہ ہم نے کہا مسلمان کچھ آسودہ اور مرفہ الحال ہوگئے تھے ازواج مطہرات نے متفقہ طور پر نان و نفقہ کی زیادتی کا مطالبہ کردیا ۔ ازواج مطہرات کی تعداد اس وقت نو تھی ۔ عائشہ بنت ابوبکر ، حفصہ بنت عمر ، ام حبیبہ بنت ابو سفیان ، ام سلمہ بنت امیہ ، سودہ بن زمعہ ، زینب بنت حجش ، میمونہ بنت حارث ، صفیہ بنت حییی بن اخطب ، جو ریہ بن حارث۔ ان میں سے پہلی پانچ قریشی ہیں چھٹی اسدیہ ہیں ، ساتویں ہلالیہ ، آٹھویں خیبر کی ، نویں مصطلقیہ ہیں ۔ جب یہ مطالبہ ہوا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نا خوش ہوئے اور آپ نے ایک ماہ کیلئے سب سے علیحدگی اختیار کرلی اور قسم کھالی کہ ایک ماہ تک گھر میں نہ جائوں گا۔ لوگوں میں مختلف چرچے ہونے لگے کوئی کہتا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دیدی کوئی کہتا علیحدگی اختیارفرمائی ہے ان افواہوں سے حضرت صدیق (رض) اور حضرت فاروق (رض) بہت پریشان تھے گھر میں اپنی اپنی لڑکیوں کو دھمکاتے تھے کہ تم نے یہ کیا کیا ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی گھر میں تشریف نہ لے جاتے تھے صرف مسجد کے برابر جو بالا خانہ تھا اس پر قیام فرماتے کسی کو اوپر جانے کی اجازت نہ تھی آخر صدیق اکبر اور عمر فاروق اعظم نے اجازت طلب کی ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کو اجازت دی جب یہ بالا خانے پر گئے تو حضرت عمر (رض) نے سرکار کی توجہ منتقل کرنے کی غرض سے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر میری بیوی خارجہ مجھ سے میری حیثیت سے زیادہ نفقہ طلب کرتی تو میں اس کو خوب مارتا ۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرائے اور فرمایا دیکھ لو یہ میرے گرد بیٹھی ہیں اور مجھ سے وہ چیز طلب کرتی ہیں جس کے دینے کی مجھ کو مقدرت نہیں ہے۔ اس پر حضرت صدیق اکبر (رض) ا عائشہ کو اور حضرت عمر فاروق (رض) نے حفصہ (رض) کو اٹھ کر مارنا شروع کیا اور ان سے کہا تم کیوں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ چیز طلب کرتی ہو جس کو ادا کرنے کی آپ مقدرت نہیں رکھتے۔ تب ازواج نے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ ہم کبھی ایسی کوئی چیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے طلب نہیں کریں گے جو آپ کے پاس نہ ہو۔ اسی واقعہ میں یہ آیت تخییر نازل ہوئی۔