Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 31

سورة الأحزاب

وَ مَنۡ یَّقۡنُتۡ مِنۡکُنَّ لِلّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تَعۡمَلۡ صَالِحًا نُّؤۡتِہَاۤ اَجۡرَہَا مَرَّتَیۡنِ ۙ وَ اَعۡتَدۡنَا لَہَا رِزۡقًا کَرِیۡمًا ﴿۳۱﴾

And whoever of you devoutly obeys Allah and His Messenger and does righteousness - We will give her her reward twice; and We have prepared for her a noble provision.

اور تم میں سے جو کوئی اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گی اور نیک کام کرے گی ہم اسے اجر ( بھی ) دوہرا دیں گے اور اس کے لئے ہم نے بہترین روزی تیار کر رکھی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَن يَقْنُتْ مِنكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ... And whosoever of you is obedient to Allah and His Messenger, i.e., obeys Allah and His Messenger, ... وَتَعْمَلْ صَالِحًا ... and does righteous good deeds, ... نُّوْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا We shall give her, her reward twice over, and We have prepared for her a noble provis... ion. i.e., in Paradise, for they will be in the dwellings of the Messenger of Allah in the highest reaches of `Illiyin, above the dwellings of all the people, in Al-Wasilah which is the closest of the dwellings of Paradise to the Throne.   Show more

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے عدل و فضل کا بیان فرما رہا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے خطاب کر کے فرما رہا ہے کہ تمہاری اطاعت گذاری اور نیک کاری پر تمہیں دگنا اجر ہے اور تمہارے لئے جنت میں باعزت روزی ہے ۔ کیونکہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی منزل میں ہوں گی اور...  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل اعلیٰ علیین میں ہے جو تمام لوگوں سے بالا تر ہے ۔ اسی کا نام وسیلہ ہے ۔ یہ جنت کی سب سے اعلیٰ اور سب سے اونچی منزل ہے جس کی چھت عرش اللہ ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

311یعنی جس طرح گناہ کا وبال دگنا ہوگا، نیکیوں کا اجر بھی دوہرا ہوگا جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اِذًا لَّاَذَقْنٰكَ ضِعْفَ الْحَيٰوةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ) 17 ۔ الاسراء :75) ' پھر تو ہم بھی آپ کو دوہرا عذاب دنیا کا کرتے اور دوہرا ہی موت کا '

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٤٤] اسی طرح اگر تم میں سے کوئی اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبردار بن جائے تو اسے اجر بھی دگنا ملے گا۔ یہاں تک تو ایک اصولی معاملہ تھا کہ بروں کے گناہوں کا بدلہ بھی دگنا اور اچھے اعمال کا ثواب بھی دگنا ہو۔ اور رزق کریم میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ ازواج النبی کا اصل مطالبہ خرچ میں اضافہ کا تھا کہ ا... نھیں بھی اب کھانے اور پہننے کو پہلے سے بہتر ملنا چاہئے تو اس کے جواب میں فرمایا کہ آج دنیا میں اگر تم اس معاملہ میں نبی کو پریشان نہ کرو گی اور جو مل گیا اس پر قانع اور صابر و شاکر ر ہوگی تو اس کے عوض ہم نے تمہارے لئے بہت شاندار رزق تیار کر رکھا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ يَّقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں سے فرمایا کہ جس طرح تمہارے لیے گناہ پر عذاب دگنا ہے اسی طرح اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرماں برداری اور عمل صالح پر ثواب بھی دگنا ہے، کیونکہ جس طرح تمہارے گناہ میں اللہ ا... ور اس کے رسول کی نافرمانی کے ساتھ ان کی ایذا بھی ہے، اسی طرح ان کی فرماں برداری پر اطاعت کے ساتھ ان کی خاص خوشی بھی ہے۔ دوہرے گناہ اور دوہرے ثواب کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ازواج مطہرات امت کے لیے نمونہ ہیں۔ انھیں دیکھ کر اگر کسی نے گناہ کیا تو اس کا وبال ان پر بھی ہوگا اور اگر انھیں دیکھ کر کسی نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اختیار کی تو اس کا ثواب انھیں بھی ملے گا۔ وَاَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيْمًا : ازواج مطہرات کو اختیار دینے کے حکم کا باعث ان کا خرچے میں اضافے کا مطالبہ تھا۔ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کو ترجیح دی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں بشارت دیتے ہوئے فرمایا کہ تم میں سے جو آخرت کی طلب میں اللہ اور اس کے رسول کی فرماں بردار رہے اور عمل صالح کرے، ہم نے اس کے لیے بہت عزت والا رزق تیار کر رکھا ہے۔ مفسرین نے اس رزق کریم سے مراد جنت کا رزق بیان فرمایا ہے۔ یقیناً اس سے زیادہ عزت والا رزق کوئی نہیں، مگر اس میں جنت کے علاوہ آئندہ ہونے والی فتوحات کے حوالے سے رزق کی فراخی کی بشارت بھی ہے، کیونکہ مال غنیمت بھی رزق کریم ہے، جس کے حصول میں رزق کے ساتھ فتح کی عزت بھی ہوتی ہے۔ چناچہ عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں : ” جب خیبر فتح ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے خمس میں سے ہر بیوی کو اسّی (٨٠) وسق (دو سو چالیس من) کھجوریں اور بیس (٢٠) وسق (ساٹھ من) جو دیا کرتے تھے (اور یہ وظیفہ آپ کی وفات کے بعد بھی جاری رہا) ۔ “ [ أبو داوٗد، الخراج، باب ما جاء في حکم أرض خیبر : ٣٠٠٦، و قال الألباني حسن الإسناد ] یہ الگ بات ہے کہ امہات المومنین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تربیت کے نتیجے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی طرح اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتیں اور اسی زندگی پر قناعت کرتیں جو انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دنیا پر ترجیح دیتے ہوئے اختیار کی تھی۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ يَّقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّــؤْتِہَآ اَجْرَہَا مَرَّتَيْنِ۝ ٠ ۙ وَاَعْتَدْنَا لَہَا رِزْقًا كَرِيْمًا۝ ٣١ قنت القُنُوتُ : لزوم الطّاعة مع الخضوع، وفسّر بكلّ واحد منهما في قوله تعالی: وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة/ 238] ، وقوله تعالی: كُلٌّ لَهُ قانِ... تُونَ [ الروم/ 26] قيل : خاضعون، وقیل : طائعون، وقیل : ساکتون ولم يعن به كلّ السّكوت، وإنما عني به ما قال عليه الصلاة والسلام : «إنّ هذه الصّلاة لا يصحّ فيها شيء من کلام الآدميّين، إنّما هي قرآن وتسبیح» «1» ، وعلی هذا قيل : أيّ الصلاة أفضل ؟ فقال : «طول القُنُوتِ» «2» أي : الاشتغال بالعبادة ورفض کلّ ما سواه . وقال تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً [ النحل/ 120] ، وَكانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ [ التحریم/ 12] ، أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر/ 9] ، اقْنُتِي لِرَبِّكِ [ آل عمران/ 43] ، وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ [ الأحزاب/ 31] ، وقال : وَالْقانِتِينَ وَالْقانِتاتِ [ الأحزاب/ 35] ، فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ [ النساء/ 34] . ( ق ن ت ) القنوت ( ن ) کے معنی خضوع کے ساتھ اطاعت کا التزام کرنے کے ہیں اس بناء پر آیت کریمہ : وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة/ 238] اور خدا کے آگے ادب کھڑے رہا کرو ۔ میں برض نے قانیتین کے معنی طائعین کئے ہیں یعنی اطاعت کی ھالت میں اور بعض نے خاضعین یعنی خشوع و خضوع کے ساتھ اسی طرح آیت کریمہ كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم/ 26] سب اس کے فرمانبردار ہیں ۔ میں بعض نے قنتون کے معنی خاضعون کئے ہیں اور بعض نے طائعون ( فرمانبرادار اور بعض نے ساکتون یعنی خاموش اور چپ چاپ اور اس سے بالکل خاموش ہوکر کھڑے رہنا مراد نہیں ہے بلکہ عبادت گذاری میں خاموشی سے ان کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 87 ) کہ نماز ( تلاوت قرآن اور اللہ کی تسبیح وتحمید کا نام ہے اور اس میں کسی طرح کی انسانی گفتگو جائز نہیں ہے ۔ اسی بناء پر جب آپ سے پوچھا گیا کہ کونسی نماز افضل تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 88 ) طول القنوت یعنی عبادت میں ہمہ تن منصروف ہوجانا اور اس کے ماسوا ست توجہ پھیرلینا قرآن میں ہے ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً [ النحل/ 120] بت شک حضرت ابراھیم لوگوں کے امام اور خدا کے فرمابنرداری تھے ۔ اور مریم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَكانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ [ التحریم/ 12] اور فرمانبرداری میں سے تھیں ۔ أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر/ 9] یا وہ جو رات کے وقتقں میں زمین پریشانی رکھ کر اور کھڑے ہوکر عبادت کرتا ہے ۔ اقْنُتِي لِرَبِّكِ [ آل عمران/ 43] اپنے پروردگار کی فرمانبرداری کرنا ۔ وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ [ الأحزاب/ 31] اور جو تم میں سے خدا اور اسکے رسول کی فرمنبردار رہے گی ۔ وَالْقانِتِينَ وَالْقانِتاتِ [ الأحزاب/ 35] اور فرمانبرداری مرد اور فرمانبردار عورتیں ۔ فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ [ النساء/ 34] تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ( ا ج ر ) الاجروالاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دینوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا جر تو خدا کے ذمے ہے ۔ عد ( اعداد) والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة/ 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده «1» ، فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» «2» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه . ( ع د د ) العدد الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جو کوئی تم میں سے اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گی اور جو نیک کام ہیں ان کو کرے گی تو ہم اس کو اس کا ثواب دوہرا دیں گے اور ان کے لیے جنت میں ایک عمدہ روزی تیار کر رکھی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣١ { وَمَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِہَآ اَجْرَہَا مَرَّتَیْنِ } ” اور جو کوئی تم میں سے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت پر کاربند رہے گی اور نیک عمل کرے گی تو اسے ہم دوگنا اجردیں گے “ { وَاَعْتَدْنَا لَہَا رِزْقًا کَرِیْمًا } ... ” اور اس کے لیے ہم نے عزت ّوالا رزق تیار کر رکھا ہے۔ “ جنت میں انہیں ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا جائے گا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

45 The reason for giving a double punishment for a sin and a double reward for a good work is that those whom Allah honours with a high rank in society generally become the leaders of men and the majority of the people follow them for good or for evil. Thus, their evil does not remain their own evil but becomes the cause of a people's degeneration, and their goodness does not remain them own goodn... ess but becomes the cause of the true success of many other people also. Therefore, when they commit evil they are punished for their own as well as for others degeneration, and whcn they do good they are not only rewarded for their own good works but also for this that they guided others also to do good. This verse also gives the principle that the greater the degree of prohibition and trust in respect of somebody and something the greater and more serious will be the crime of violating that prohibition and trust and the greater will be the punishment for it. For example, drinking in the mosque is a much morc serious crime than drinking privately in the house, and therefore, it will entail a severer punishment. Likewise, committing adultery with the prohibited relations is a far morc serious crime than committing it with another woman, and therefore, will call for a severer punishment.  Show more

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :45 گناہ پر دوہرے عذاب اور نیکی پر دوہرے اجر کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ انسانی معاشرے میں کسی بلند مرتبے پر سرفراز فرماتا ہے وہ بالعموم لوگوں کے رہنما بن جاتے ہیں اور بندگان خدا کی بڑی تعداد بھلائی اور برائی میں انہی کی پیروی کرتی ہے ۔ ان کی برائی تنہا انہی...  کی برائی نہیں ہوتی بلکہ ایک قوم کے بگاڑ کی موجب بھی ہوتی ہے اور ان کی بھلائی صرف انہی کی انفرادی بھلائی نہیں ہوتی بلکہ بہت سے انسانوں کی فلاح کا سبب بھی بنتی ہے ۔ اس لیے جب وہ برے کام کرتے ہیں تو اپنے بگاڑ کے ساتھ دوسروں کے بگاڑ کی بھی سزا پاتے ہیں ۔ اور جب وہ نیک کام کرتے ہیں تو انہیں اپنی نیکی کے ساتھ اس بات کی جزا بھی ملتی ہے کہ انہوں نے دوسروں کو بھلائی کی راہ دکھائی ۔ اس آیت سے یہ اصول بھی نکلتا ہے کہ جہاں جتنی زیادہ حرمت ہو گی اور جس قدر زیادہ امانت کی توقع ہو گی ، وہاں اسی قدر زیادہ ہتک حرمت اور ارتکاب خیانت کا جرم شدید ہو گا اور اسی قدر زیادہ اس کا عذاب ہو گا ۔ مثلاً مسجد میں شراب پینا اپنے گھر میں شراب پینے سے شدید تر جرم ہے اور اس کی سزا زیادہ سخت ہے ۔ محرمات سے زنا کرنا غیر عورت سے زنا کی بہ نسبت اشد ہے اور اس پر زیادہ سخت عذاب ہو گا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

ومن یقنت منکن للہ ورسولہ (33:3 ١) ومن یقنت : میں وائو عاطفہ ہے جملہ ہذا کا عطف جملہ سابقہ پر ہے من شرطیہ ہے یقنت مضارع مجزوم (بوجہ شرط) واحد مذکر غائب۔ مذکر کا صیغہ من کی رعایت سے لایا گیا ہے۔ قنت یقنت (باب نصر) قنوتا۔ خشوع و خضوع کرنا۔ خاکساری کرنا۔ مطیع ہونا۔ اطاعت کرنا۔ نماز میں دعا کرنا۔ (دعائے...  قنوت) ومن یقنت اور جو تابعداری کرے گی ۔ منکن۔ من بیانیہ ہے تبعیض کے لئے نہیں ہے۔ کن ضمیر جمع مؤنث حاضر۔ تم میں سے۔ وتعمل۔ وائو عاطفہ ہے۔ تعمل مضارع مجزوم بوجہ شرط واحد مؤنث غائب، صیغہ تانیث رعایت معنی کے لحاظ سے۔ تعمل کا عطف یقنت پر ہے۔ اور جو عمل کرے گی۔ وتعمل عملا صالحا اور جو تم میں سے نیک عمل کرے گی ! نؤتھا۔ مضارع جمع متکلم ھا ضمیر واحد مؤنث غائب جواب شرط تو ہم اس کو دیں گے۔ ایتاء (افعال) مصدر۔ اجرھا۔ مضاف مضاف الیہ۔ مل کر نؤت کا مفعول۔ اس عورت کا ثواب ۔ اس عورت کے عمل کا اجر۔ مرتین۔ دو مرتبہ۔ دو بار۔ دو چند، دوہرا (دوسروں کی نسبت دوگنا) مثلی ثواب غیرھا۔ اعتدنا۔ ماضی جمع متکلم اعتاد (افعال) مصدر سے۔ ہم نے تیار کر رکھا ہے۔ عدد مادہ۔ اعتاد اصل میں اعداد تھا۔ دال اول کو تاء میں بدل دیا گیا ہے۔ الاعداد (افعال) کے معنی ہیں تیار کرنا۔ مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقائ۔ اور اعددت لک ھذا کے معنی ہیں۔ میں نے یہ چیز تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو حسب ضرورت اس سے لے سکتے ہو۔ اعد اور اعتد ہم معنی ہیں مثلاً واعد لہم جنت (9: ١ 00) اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں اور واعتدنا لہم عذابا الیما (4: ١ 8) ایسے لوگوں کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اعتدنا (اعتاد) مادہ ع ت د سے بھی مشتق ہوسکتا ہے العتاد کے معنی ضرورت کی چیزوں کا ذخیرہ کرلینا ہے اور یہی معنی ہیں اعداد کے اور اعتدنا کے اور اعتدنا کا عطف نؤتھا پر ہے۔ رزقا کریما۔ موصوف وصفت۔ عمدہ نعمت۔ عزت والی روزی۔ صفت موصوف مل کر اعتدنا کا مفعول۔ رزق سے مراد محض کھانے پینے والی اشیاء ہی نہیں یہ ایک وسیع المعانی لفظ ہے۔ اور ہر قسم کی نعمتوں کو شامل ہے۔ نؤتھا۔ اجرھا اور اعتدنا لھا میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع اسم موصول من ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی جس طرح تمہارے مقام کے بلند ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ نافرمانی کی صورت میں دگنا عذاب ہوا اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ نیکی اور تابعداری کی صورت میں دگنا اجر ملے۔2 اور اس سے بڑی نعمت اور کیا ہوگی کہ جنت کے اعلیٰ مقام ( وسیلہ) میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہینگی۔ ( ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ازواج مطہرات کا مقام اور اجروثواب۔ اکیسویں پارے کا اختتام اس فرمان پر ہوا کہ اے نبی کی ازواج ! اگر تم میں سے کسی نے بےحیائی کا ارتکاب کیا تو اسے دوگنی سزا دی جائے گی ہاں جو تم میں ” اللہ “ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گی۔ اسے دوہرا ثواب اور بہترین رزق دیا جائے گا۔ کیونکہ تمہارا...  مقام عام مسلمان عورتوں جیسا نہیں بلکہ تم ان سے ممتاز مقام کی حامل ہو۔ کیونکہ تمہارے گھروں میں ” اللہ “ کی آیات کا نزول ہوتا ہے اور اس کا رسول شب وروز تمہارے گھروں میں تشریف فرما ہوتا ہے۔ لہٰذا تمہیں ہر حال میں ” اللہ “ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا اور مسلمان عورتوں کے لیے نمونہ بننا چاہیے۔ دین اسلام کی اشاعت اور ترقی پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح دکھائی دیتی ہے کہ دین کا بیشتر حصہ بالخصوص ازواجی اور گھریلو زندگی کے مسائل کی اشاعت اور ترویج امہات المؤمنین کے ذریعے ہی عمل میں آئی ہے۔ اسی لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چار بیویوں کی قید سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ ازواج مطہرات کو معلوم تھا کہ ہمارے فرائض مسلمان خواتین سے بہت زیادہ ہیں اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہر بیوی نے اپنے خاندان میں تبلیغ دین کے لیے محنت فرمائی اور اپنے عزیز و اقرباء کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پاکیزہ زندگی سے آگاہ کیا۔ جس کے نتیجہ میں ان کے خاندان کے لوگ حلقہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اس طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواجی زندگی اسلام کی ہمہ جہت ترقی میں بہترین ذریعہ ثابت ہوئی۔ قرآن مجید نے امہات المؤمنین کے حوالے سے یہ اصول واضح فرمایا ہے کہ جس شخص کی ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے اگر وہ دین کی اشاعت میں محنت کرے گا تو اس کا اجر بھی دوگنا ہوگا۔ اسی اصول کے پیش نظر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہرقل کو یہ تحریر فرمایا تھا۔ (فَإِنِّی أَدْعُوکَ بِدِعَایَۃِ الإِسْلاَمِ ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ ، وَأَسْلِمْ یُؤْتِکَ اللَّہُ أَجْرَکَ مَرَّتَیْنِ ، فَإِنْ تَوَلَّیْتَ فَعَلَیْکَ إِثْمُ الأَرِیسِیِّینَ ) [ رواہ البخاری : باب دُعَاء النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَی الإِسْلاَمِ وَالنُّبُوَّۃِ ] ” میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام قبول کرلے تو سلامت رہے گا اور اللہ تعالیٰ تجھے دوہرا اجر عطاکرے گا اگر تو نے اعراض کیا تو تیری رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہوگا۔ “ (عَنْ جَرِےْرٍ (رض) قَالَ کُنَّا فِی صَدْرِ النَّھَارِ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ٌ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہُ اَجْرُھَا وَاَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہٖ مِنْ غَےْرِ اَنْ یُّنْقَصَ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیءٌ وَمَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً سَیِّءَۃً کَانَ عَلَےْہِ وِزْرُھَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہٖ مِنْ غَےْرِ اَنْ یُّنْقَصَ مِنْ اَوْزَارِھِمْ شَیءٌ) [ رواہ مسلم : باب الحث علی الصدقۃ ولو بشق تمرۃ او کلمۃ طیبۃ وانہا حجاب من النار ] حضرت جریر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم دن کے پہلے پہررسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھے۔ آپ نے فرمایا کہ جس نے اسلام میں نیکی کی ابتدا کی جب تک لوگ اس پر عمل کرتے رہیں گے اسے اپنا اور دوسروں کے برابر ثواب ملتا رہے گا۔ جبکہ لوگوں کے اجر میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوگی۔ اور جس نے اسلام میں کسی برے کام کی بنیاد رکھی اس کو اپنا بھی اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی برابر گناہ ہوتا رہے گا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ ” حضرت ابوبردہ (رض) نے اپنے والد گرامی کو نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہوئے سنا سرکاردو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین طرح کے افراد کو دوہرا اجر عطا کیا جائے گا ان میں سے ایک وہ ہوگا جس کے پاس لونڈی ہو اس نے اسے اچھی طرح تعلیم دی اور اس کو ادب سکھایا اچھے انداز سے اس کی تربیت کی پھر وہ اس کو آزاد کردے اور اس سے نکاح کرلے۔ دوسرا یہود و نصاریٰ کا وہ شخص جو اپنے دین میں پکا تھا اور بعد ازاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آیا اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے تیسرا وہ شخص جو غلام ہے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے ہوئے اپنے مالک کے کام اور خدمت میں اس کی خیرخواہی کرتا ہے۔ “ [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر، بَاب فَضْلِ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابَیْنِ ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ازواج مطہرات کو دوگنا اجر عنایت فرمائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ازواج مطہرات کو رزق کریم سے سرفراز کرے گا۔ ٣۔ ازواج مطہرات کا مقام اور مرتبہ امت کی خواتین سے بلند وبالا ہے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا : (وَمَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِھَآ اَجْرَھَا مَرَّتَیْنِ وَاَعْتَدْنَا لَھَا رِزْقًا کَرِیْمًا) (اور تم میں سے جو عورت اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گی اور نیک عمل کرے گی ہم اسے اس کا دوہرا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لیے رزق ک... ریم تیار کیا ہے۔ ) صاحب بیان القرآن لکھتے ہیں علت اس تضعیف اجر اور اسی طرح تضعیف و زر کی جو اس کے قبل ارشاد ہے شرف زوجیت نبی ہے جس پر (یٰنِسَآء النَّبِیِّ ) دال ہے کیونکہ اہل خصوصیت کا عصیان بھی اوروں کے عصیان سے اشد ہوتا ہے اسی طرح ان کی اطاعت بھی اوروں کی اطاعت سے زیادہ مقبول ہوتی ہے پس وعدہ وعید دونوں میں وہ دوسروں سے ممتاز ہوتے ہیں اور خصوصاً مقام کلام میں یہ کہنا ممکن ہے کہ حضرات ام المومنین سے خدمت و اطاعت کا صدور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب کو راحت افزا زیادہ ہوگا پس آپ کی راحت رسانی موجب اجر تھی زیادہ راحت رسانی موجب زیادتی اجر ہوگئی، علی ہذا اس کی ضد میں سمجھنا چاہیے۔ ایک ہی مرتبہ حضرات ازواج مطہرات (رض) کی طرف سے خرچہ میں اضافہ اور خوشحالی کی بات اٹھائی گئی اس پر آیات بالا نازل ہوگئیں، اس کے بعد کوئی واقعہ اس قسم کا پیش نہیں آیا جس میں خرچہ کی تنگی کا سوال اٹھایا گیا ہو، ازواج مطہرات برابر زندگی بھر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری میں اور عبادت الٰہی میں لگی رہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث کو اور آپ کی تعلیمات کو آگے بڑھاتی رہیں۔ (رضی اللّٰہ عنھن وارضاھنّ )  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

31۔ اور جو عورت تم میں سے اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گی اور نیک اعمال کرتی رہے گی تو ہم اس کو اس کا بھی دو مرتبہ یعنی دوہرا اجر دیں گے اور مزید برآں ہم نے اس عورت کیلئے خاص اور با عزت روزی تیار کر رکھی ہے۔ یعنی تم کو جو نبی کی زوجیت کا شرف حاصل ہے اس کی بنا پر ورزر بھی اور اجر ... بھی دوہرا اور ظاہر ہے کہ ان کا نشوز جس طرح اذیت پیغمبر کا موجب ہے اسی طرح ان کی خدمت اور اطاعت آپ کی راحت کا سبب ہوگی۔ تو پیغمبر کے ستانے کا جس طرح عذاب زیادہ اسی طرح آپ کو راحت اور آرام پہنچانے کا ثواب زیادہ دوہرے کا مطلب وہی کو جتنا اس فعل کا ثواب کسی اور کو ملے اس سے دگنا ان کو ملے رزق کریم سے مراد جنت ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ بڑے درجے کو لازم ہے کہ نیکی کا ثواب دونا اور برائی کا عذاب دونا ، پیغمبر کو بھی فرمایا ۔ لا زقنک ضعف الحیوۃ۔ 12۔ یہ آیت سورة بنی اسرائیل میں گزر چکی ہے اور وہاں ہم نے ایک ہلکا سا اشارہ بھی کردیا ہے۔  Show more