Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 36

سورة الأحزاب

وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ مِنۡ اَمۡرِہِمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیۡنًا ﴿ؕ۳۶﴾

It is not for a believing man or a believing woman, when Allah and His Messenger have decided a matter, that they should [thereafter] have any choice about their affair. And whoever disobeys Allah and His Messenger has certainly strayed into clear error.

اور ( دیکھو ) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا ( یاد رکھو ) اللہ تعالٰی اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Reason for Revelation Imam Ahmad recorded that Abu Barzah Al-Aslami said: "Julaybib was a man who used to enter upon women and joke with them. I said to my wife, `Do not let Julaybib enter upon you, for if he enters upon you I shall do such and such.' If any of the Ansar had a single female relative, they would not arrange a marriage for her until they found out whether the Prophet wanted to marry her or not. The Prophet said to one of the Ansar: زَوِّجْنِي ابْنَتَك (Give me your daughter for marriage). He said, `Yes, O Messenger of Allah, it would be an honor and a blessing.' He said, إِنِّي لَسْتُ أُرِيدُهَا لِنَفْسِي (I do not want her for myself). He said, `Then for whom, O Messenger of Allah?' He said, لِجُلَيْبِيب (For Julaybib). He said, `O Messenger of Allah, let me consult her mother.' So he went to the girl's mother and said, `The Messenger of Allah is proposing marriage for your daughter.' She said, `Yes, it would be a pleasure.' He said, `He is not proposing to marry her himself, he is proposing on behalf of Julaybib.' She said, `What! Julaybib No, by Allah, we will not marry her to him.' When he wanted to get up and go to the Messenger of Allah to tell him what the girl's mother had said, the girl asked, `Who is asking for my hand!' So her mother told her, and she said, `Are you refusing to follow the command of the Messenger of Allah? Follow his command, for I will not come to any harm.' So her father went to the Messenger of Allah and said, `Deal with her as you wish.' So he married her to Julaybib. Then the Messenger of Allah went out on one of his military campaigns, and after Allah had granted him victory, he said to his Companions, may Allah be pleased with them, هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَد (See whether there is anybody missing), They said, `We have lost so-and-so, and so-and-so.' He said, انْظُرُوا هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَد (See if there is anybody missing). They said, `No one.' He said: لَكِنَّنِي أَفْقِدُ جُلَيْبِيبًا (But I see that Julaybib is missing). He said: فَاطْلُبُوهُ فِي الْقَتْلَى (Go and look for him among the dead). So they looked for him, and found him beside seven of the enemy whom he had killed before he was himself killed. They said, `O Messenger of Allah, here he is, beside seven of the enemy whom he had killed before he was himself killed.' The Messenger of Allah came and stood beside him and said, قَتَلَ سَبْعَةً وَقَتَلُوهُ هَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْه He killed seven before he was himself killed. He belongs to me and I belong to him. He said this two or three times, then the Messenger of Allah carried him in his arms and held him while his grave was dug, then he placed him in his grave. It was not mentioned that he washed him, may Allah be pleased with him." Thabit, may Allah be pleased with him, said: "There was no widow among the Ansar who was more sought after for marriage than that girl." Ishaq bin Abdullah bin Abi Talhah asked Thabit, "Do you know how the Messenger of Allah prayed for that girl?" He told him: "He said, اللَّهُمَّ صُبَّ عَلَيْهَا الْخَيْرَ صَبًّا وَلاَ تَجْعَلْ عَيْشَهَا كَدًّا O Allah, pour blessings upon her and do not make her life hard And this is how it was; there was no widow among the Ansar who was more sought after for marriage than her." This is how it was recorded by Imam Ahmad, in full. Muslim and An-Nasa'i recorded the story of his death in Al-Fada'il. Al-Hafiz Abu Umar bin Abd Al-Barr mentioned in Al-Isti`ab that when the girl said in her seclusion, `Are you refusing to follow the command of the Messenger of Allah ' -- This Ayah was revealed: وَمَا كَانَ لِمُوْمِنٍ وَلاَ مُوْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ... It is not for a believer, man or woman, when Allah and His Messenger have decreed a matter that they should have any option in their decision. It was narrated that Tawus asked Ibn Abbas about praying two Rak`ahs after `Asr and he told him not to do that. Ibn Abbas recited: وَمَا كَانَ لِمُوْمِنٍ وَلاَ مُوْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ (It is not for a believer, man or woman, when Allah and His Messenger have decreed a matter that they should have any option in their decision). This Ayah is general in meaning and applies to all matters, i.e., if Allah and His Messenger decreed a matter, no one has the right to go against that, and no one has any choice or room for personal opinion in this case. Allah says: فَلَ وَرَبِّكَ لاَ يُوْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِى أَنفُسِهِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيماً But no, by your Lord, they can have no faith, until they make you judge in all disputes between them, and find in themselves no resistance against your decisions, and accept (them) with full submission. (4:65) Hence the issue of going against it is addressed in such strong terms, as Allah says: ... وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَلاً مُّبِينًا And whoever disobeys Allah and His Messenger, he has indeed strayed into a plain error. This is like the Ayah: فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَـلِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ And let those who oppose the Messenger's commandment, beware, lest some Fitnah should befall them or a painful torment be inflicted on them. (24:63)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو رد کرنا گناہ عظیم ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ کا پیغام لے کر حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس گئے ۔ انہوں نے کہا میں اس سے نکاح نہیں کروں گی آپ نے فرمایا! ایسا نہ کہو اور ان سے نکاح کر لو ۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ اچھا پھر کچھ مہلت دیجئے میں سوچ لوں ۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ وحی نازل ہوئی اور یہ آیت اتری ۔ اسے سن کر حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ۔ یا رسول اللہ! کیا آپ اس نکاح سے رضامند ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔ تو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ بس پھر مجھے کوئی انکار نہیں ، میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہیں کروں گی ۔ میں نے اپنا نفس ان کے نکاح میں دے دیا اور روایت میں ہے کہ وجہ انکار یہ تھی کہ نسب کے اعتبار سے یہ بہ نسبت حضرت زید کے زیادہ شریف تھیں ۔ حضرت زید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے ۔ حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت عقبہ بن ابو معیط کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ صلح حدیبیہ کے بعد سب سے پہلے مہاجر عورت یہی تھی ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنا نفس آپ کو ہبہ کرتی ہوں ۔ آپ نے فرمایا مجھے قبول ہے ۔ پھر حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح کرا دیا ۔ غالباً یہ نکاح حضرت زینب رضی اللہ عنہ کی علیحدگی کے بعد ہوا ہو گا ۔ اس سے حضرت ام کلثوم ناراض ہوئیں اور ان کے بھائی بھی بگڑ بیٹھے کہ ہمارا اپنا ارادہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کا تھا نہ کہ آپ کے غلام سے نکاح کرنے کا ، اس پر یہ آیت اتری بلکہ اس سے بھی زیادہ معاملہ صاف کر دیا گیا اور فرما دیا گیا کہ ( اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ ۭ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا Č۝ ) 33- الأحزاب:6 ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ اولیٰ ہیں ۔ پس آیت ( وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا 36؀ۭ ) 33- الأحزاب:36 ) خاص ہے اور اس سے بھی جامع آیت یہ ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک انصاری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنی لڑکی کا نکاح جلیبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کردو ۔ انہوں نے جواب دیا کہ اچھی بات ہے ۔ میں اس کی ماں سے بھی مشورہ کرلوں ۔ جا کر ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا ، ہم نے فلاں فلاں ان سے بڑے بڑے آدمیوں کے پیغام کو رد کردیا اور اب جلیبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکاح کر دیں ۔ انصاری اپنی بیوی کا یہ جواب سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جانا چاہتے ہی تھے کہ لڑکی جو پردے کے پیچھے سے یہ تمام گفتگو سن رہی تھی بول پڑی کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو رد کرتے ہو؟جب حضور اس سے خوش ہیں تو تمہیں انکار نہ کرنا چاہیے ۔ اب دونوں نے کہا کہ بچی ٹھیک کہہ رہی ہے ۔ بیچ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس نکاح سے انکار کرنا گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام اور خواہش کو رد کرنا ہے ، یہ ٹھیک نہیں ۔ چنانچہ انصاری سیدھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کیا آپ اس بات سے خوش ہیں؟ آپ نے فرمایا! ہاں میں تو اس سے رضامند ہوں ۔ کہا پھر آپ کو اختیار ہے آپ نکاح کر دیجئے ، چنانچہ نکاح ہو گیا ۔ ایک مرتبہ اہل اسلام مدینہ والے دشمنوں کے مقابلے کے لئے نکلے ، لڑائی ہوئی جس میں حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے انہوں نے بھی بہت سے کافروں کو قتل کیا تھا جن کی لاشیں ان کے آس پاس پڑی ہوئی تھیں ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے خود دیکھا ان کا گھر بڑا آسودہ حال تھا ۔ تمام مدینے میں ان سے زیادہ خرچیلا کوئی نہ تھا ۔ ایک اور روایت میں حضرت ابو بردہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ کی طبیعت خوش مذاق تھی اس لئے میں نے اپنے گھر میں کہہ دیا تھا کہ یہ تمہارے پاس نہ آئیں ۔ انصاریوں کی عادت تھی کہ وہ کسی عورت کا نکاح نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ یہ معلوم کرلیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بابت کچھ نہیں فرماتے ۔ پھر وہ واقعہ بیان فرمایا جو اوپر مذکور ہوا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت جلیبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سات کافروں کو اس غزوے میں قتل کیا تھا ۔ پھر کافروں نے یک مشت ہو کر آپ کو شہید کر دیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو تلاش کرتے ہوئے جب ان کی نعش کے پاس آئے تو فرمایا سات کو مار کر پھر شہید ہوئے ہیں ۔ یہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں ۔ دو یا تین مرتبہ یہی فرمایا پھر قبر کھدوا کر اپنے ہاتھوں پر انہیں اٹھا کر قبر میں اتارا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک ہی ان کا جنازہ تھا اور کوئی چار پائی وغیرہ نہ تھی ۔ یہ بھی مذکور نہیں کہ انہیں غسل دیا گیا ہو ۔ اس نیک بخت انصاریہ عورت کے لئے جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی عزت رکھ کر اپنے ماں باپ کو سمجھایا تھا کہ انکار نہ کرو ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی تھی کہ اللہ اس پر اپنی رحمتوں کی بارش برسا اور اسے زندگی کے پورے لطف عطا فرما ۔ تمام انصار میں ان سے زیادہ خرچ کرنے والی عورت نہ تھی ۔ انہوں نے جب پردے کے پیچھے سے اپنے والدین سے کہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات رد نہ کرو اس وقت یہ آیت ( وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا 36؀ۭ ) 33- الأحزاب:36 ) نازل ہوئی تھی ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت طاؤس نے پوچھا کہ عصر کے بعد دو رکعت پڑھ سکتے ہیں؟ آپ نے منع فرمایا اور اسی آیت کی تلاوت کی پس یہ آیت گو شان نزول کے اعتبار سے مخصوص ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے ہوتے ہوئے نہ تو کوئی مخالفت کر سکتا ہے نہ اسے ماننے نہ ماننے کا اختیار کسی کو باقی رہتا ہے ۔ نہ رائے اور قیاس کرنے کا حق ، نہ کسی اور بات کا ۔ جیسے فرمایا ( فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا 65؀ ) 4- النسآء:65 ) ، یعنی قسم ہے تیرے رب کی لوگ ایمان دار نہ ہوں گے جب تک کہ وہ آپس کے تمام اختلافات میں تجھے حاکم نہ مان لیں ۔ پھر تیرے فرمان سے اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی نہ رکھیں بلکہ کھلے دل سے تسلیم کر لیا ۔ صحیح حدیث میں ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو گا جب تک کہ اس کی خواہش اس چیز کی تابعدار نہ بن جائے جسے میں لایا ہوں ۔ اسی لئے یہاں بھی اس کی نافرمانی کی برائی بیان فرما دی کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے والا کھلم کھلا گمراہ ہے ۔ جیسے فرمان ہے ( فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 63؀ ) 24- النور:63 ) یعنی جو لوگ ارشاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خلاف کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ ایسا نہ ہو ان پر کوئی فتنہ آپڑے یا انہیں درد ناک عذاب ہو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

361یہ آیت حضرت زینب (رض) کے نکاح کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی۔ حضرت زید بن حارثہ (رض) ، جو کہ اصلا عرب تھے، لیکن کسی نے انھیں بچپن میں زبردستی پکڑ کر بطور غلام بیچ دیا تھا لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت خدیجہ کے نکاح کے بعد حضرت خدیجہ نے انھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہبہ کردیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں آزاد کر کے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے نکاح کے لئے اپنی پھوپھی زاد حضرت زینب کو نکاح کا پیغام بیجھا، جس پر انھیں اور ان کے بھائی کو خاندانی وضاحت کی بنا پر تامل ہوا، کہ زید ایک آزاد کردہ غلام ہیں اور ہمارا تعلق ایک اونچے خاندان سے ہے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور رسول کے فیصلے کے بعد کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنا اختیار بروئے کار لائے۔ بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ سر تسلیم خم کردے چناچہ یہ آیت سننے کے بعد حضرت زینب وغیرہ نے اپنی رائے پر اصرار نہیں کیا باہم نکاح ہوگیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٥٥] آزاد شدہ غلاموں کا معاشرہ میں مقام :۔ اس سورة کے آغاز میں پہلے بتایا جاچکا ہے کہ عرب معاشرہ میں کثیر تعداد غلاموں کی تھی۔ اور غلاموں کو ایک حقیر اور دوسرے درجہ کی مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ اگر کوئی غلام آزاد کردیا جاتا، جسے مولیٰ کہا جاتا تھا، تو بھی آزاد لوگوں کا معاشرہ اسے اپنے آپ میں جذب کرنے کے لئے تیار نہ ہوتا تھا۔ اسلام اس معاشرتی بگاڑ کی اصلاح کرنا چاہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ اس اصلاح کا آغاز نبی کی ذات اور اس کے گھرانہ سے کیا جائے۔ خ سیدہ زینب کا اللہ اور اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنا :۔ آپ کا ایک غلام زید بن حارثہ تھا جسے آپ نے آزاد کرنے کے بعد اسے اپنا متبنّی بھی بنا لیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود آزاد لوگ اسے معاشرتی لحاظ سے اپنے برابر کا درجہ دینے کو تیار نہ تھے۔ آپ نے زید کے لئے اپنی پھوپھی زاد بہن زینب کا رشتہ طلب کیا۔ تو ان لوگوں کو یہ بات توہین آمیز معلوم ہوئی اور سخت ناگوار گزری۔ اسی وجہ سے ان لوگوں نے رشتہ دینے سے انکار کردیا۔ مگر اللہ کو منظور تھا کہ یہ کام ضرور ہونا چاہئے۔ اسی ضمن میں یہ آیت نازل ہوئی۔ چناچہ آپ نے یہ آیت سیدہ زینب بنت جحش کو سنائی تو انہوں نے اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا اور یہ رشتہ قبول کرلیا۔ اور سیدنا زید کا زینب بنت جحش سے نکاح ہوگیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ ۔۔ : ” الْخِـيَرَةُ “ ” تَخَیَّرَ یَتَخَیَّرُ “ (تفعّل) کا مصدر ہے، جیسا کہ ” تَطَیَّرَ “ کا مصدر ” اَلطِّیَرَۃُ “ ہے۔ اہل علم فرماتے ہیں، اس وزن پر اس باب سے یہی دو مصدر آتے ہیں۔ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ اپنی بیویوں کو اپنے ساتھ رہنے کا یا اپنے سے الگ ہونے کا اختیار دیں، تاکہ واضح ہوجائے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ذات کے لیے کسی کو تکلیف نہیں دینا چاہتے۔ اب فرمایا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ جس طرح بیویوں کو ساتھ رہنے یا جدا ہونے کا اختیار دیا گیا، اس طرح ہر آدمی کو ہر کام میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم ماننے یا نہ ماننے کا اختیار ہے۔ بلکہ کچھ کام ایسے ہیں جن میں کسی مومن مرد یا مومن عورت کو اپنی مرضی کا اختیار نہیں، یہ وہ کام ہیں جن کا اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول واضح حکم دے دیں اور اسے کرنے یا نہ کرنے کی گنجائش نہ دیں۔ اگر وہ خود ہی گنجائش دے دیں تو الگ بات ہے، جیسا کہ بریرہ (رض) لونڈی تھیں تو مغیث (رض) کے نکاح میں تھیں، جب وہ آزاد ہوئیں تو خاوند کے غلام ہونے کی وجہ سے انھیں اس کی زوجیت میں رہنے یا نہ رہنے کا اختیار حاصل ہوگیا۔ بریرہ (رض) نے اس سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عباس (رض) سے فرمایا : ( یَا عَبَّاسُ ! أَلَا تَعْجَبُ مِنْ حُبِّ مُغِیْثٍ بَرِیْرَۃَ ، وَ مِنْ بُغْضِ بَرِیْرَۃَ مُغِیْثًا )” اے عباس ! کیا تمہیں مغیث کی بریرہ سے محبت اور بریرہ کی مغیث سے نفرت پر تعجب نہیں ہوتا ؟ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا : ( لَوْ رَاجَعْتِہِ ؟ ) ” کاش ! تو اس سے رجوع کرلیتی ؟ “ اس نے کہا : ” یا رسول اللہ ! کیا آپ مجھے حکم دے رہے ہیں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّمَا أَنَا أَشْفَعُ ) ” میں تو صرف سفارش کر رہا ہوں۔ “ اس نے کہا : ( فَلَا حَاجَۃَ لِيْ فِیْہِ ) [ بخاري، الطلاق، باب شفاعۃ النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) في زوج بریرۃ : ٥٢٨٣ ] ” مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ “ ” اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا “ کا یہی مطلب ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے فیصلہ کن حکم آجائے تو کسی مسلمان کو اپنا اختیار استعمال کرنے کی کسی صورت میں گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ” کَان “ کے ساتھ ” مَا “ نافیہ کی مزید تاکید ہو رہی ہے، کیونکہ ” کَان “ کے ساتھ نفی کا استمرار اور اس کی ہمیشگی مقصود ہے۔ یعنی کسی مومن مرد یا مومن عورت کو کبھی بھی یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول۔۔ 3 اکثر مفسرین نے اس آیت کی شان نزول یہ لکھی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی پھوپھی امیمہ بنت عبد المطلب کی بیٹی زینت بنت جحش (رض) کو اپنے متبنٰی اور آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ (رض) کے ساتھ نکاح کے لیے کہا تو انھوں نے یہ کہہ کر کہ میں حسب میں اس سے بہتر ہوں، انکار کردیا۔ اس پر یہ آیت اتری تو وہ نکاح پر رضا مند ہوگئیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید (رض) کے ساتھ ان کا نکاح کردیا۔ ابن کثیر (رض) نے اس شان نزول کی دو روایتیں ذکر فرمائی ہیں، پہلی عوفی عن ابن عباس (رض) ہے، جو طبری نے روایت کی ہے، اس کی سند ضعیف ہے۔ دوسری ابن لہیعہ عن ابن ابی عمرہ عن عکرمہ عن ابن عباس (رض) ہے، اسے بھی طبری نے روایت کیا ہے اور یہ بھی ابن لہیعہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی یقینی نہیں کہ زینب (رض) کا نکاح زید (رض) سے ہجرت کے بعد ہوا تھا، جب کہ یہ سورت مدنی ہے۔ ابن عاشور نے اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ یہ نکاح ہجرت سے پہلے مکہ میں ہوچکا تھا اور ابن کثیر نے مقاتل بن حیان کا جو قول نقل کیا ہے کہ زینب (رض) زید (رض) کے پاس ایک سال کے قریب رہیں، ثابت نہیں، کیونکہ مقاتل تبع تابعی ہیں، انھوں نے اس بات کو نقل کرنے والے تابعی کا ذکر کیا ہے نہ صحابی کا۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری (رض) لکھتے ہیں : ” اصول شریعت کی رو سے دیکھا جائے تو گو نکاح کرنا ایک شرعی حکم ہے، مگر یہ بات کہ نبی کسی خاص عورت کو کسی خاص مرد، یا کسی خاص مرد کو کسی خاص عورت سے نکاح کرنے پر شرعی طور پر مامور کرے صحیح نہیں، یعنی نبی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تو فلاں مرد سے شادی کر اور اگر وہ عورت نہ مانے تو نافرمان قرار پائے۔ ہمارے اس دعویٰ پر بریرہ (رض) کی حدیث قوی شہادت ہے (جو اسی آیت کی تفسیر میں گزر چکی ہے) ۔ “ (تفسیر ثنائی) اس لیے بہتر یہی ہے کہ یہ کہنے کے بجائے کہ زینب (رض) نے اس آیت کے نزول سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم ماننے سے انکار کردیا تھا، اس آیت کو اسی طرح اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی اطاعت کی تاکید سمجھا جائے، جس طرح یہ تاکید اسی سورت کے شروع میں اس سے بھی جامع الفاظ میں گزر چکی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ ) [ الأحزاب : ٦ ] ” یہ نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا ہے۔ “ 3 ابن کثیر (رض) فرماتے ہیں : ” یہ آیت تمام احکام کے لیے عام ہے کہ اللہ اور اس کا رسول جب کسی چیز کا فیصلہ فرما دیں تو نہ کسی کے لیے اس کی ممانعت جائز ہے، نہ اسے ماننے یا نہ ماننے کا اختیار کسی کو باقی رہتا ہے، نہ اس کے مقابلے میں کسی قیاس یا رائے یا قول اقوال کی کوئی حیثیت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا) [ النساء : ٦٥ ] ” پس نہیں ! تیرے رب کی قسم ہے ! وہ مومن نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ تجھے اس میں فیصلہ کرنے والا مان لیں جو ان کے درمیان جھگڑا پڑجائے، پھر اپنے دلوں میں اس سے کوئی تنگی محسوس نہ کریں جو تو فیصلہ کرے اور تسلیم کرلیں، پوری طرح تسلیم کرنا۔ “ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۔۔ : اس میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی شدید وعید ہے۔ دوسری جگہ فرمایا : (ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ) [ النور : ٦٣ ] ” سو لازم ہے کہ وہ لوگ ڈریں جو اس کا حکم ماننے سے پیچھے رہتے ہیں کہ انھیں کوئی فتنہ آپہنچے، یا انھیں دردناک عذاب آپہنچے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary It has been repeatedly explained earlier that the majority of injunctions appearing in Surah Al-Ahzab relate to the reverence, love and perfect obedience of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) or to the prohibition of causing any pain to him. The verses cited above have also been revealed in connection with some incidents of this nature. One such incident related to Sayyidna Zayd Ibn Harithah who was the slave of someone. It was during the days of Jahiliyyah that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had bought him from the famous bazaar of ` Ukaz. He was still very young at that time. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had freed him after purchasing him, and further honored him by adopting him as his son as was the common practice under the Arab custom of the time and went on to bring him up. In Makkah al-Mukarramah, he was called by the name of Zayd Ibn Muhammad. The Qur&an declared it to be an erroneous custom of the Jahiliyyah and prohibited the calling of the so-called or adopted son of a person as his &son& and ordered that he should be attributed to his real father. Revealed in this connection were verses that have appeared earlier within this Surah: ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ (Call them by (the name of) their (real) fathers - 5) After the revelation of these injunctions, the noble Sahabah abandoned the practice of calling him by the name of Zayd Ibn Muhammad and started attributing him to his father, Harithah. A subtle point Not even the name of the greatest of the great Sahabi - of course, except that of the blessed prophets - was ever mentioned throughout the Qur&an with the sole exception of Sayyidna Zayd Ibn Harithah! Some respected elders while describing the wisdom behind it have said that the attribution of his parentage to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) when severed under the injunction of the Qur&an had him deprived of a great personal honor. However, Allah Ta’ ala had it compensated by mentioning him in the Qur&an by name. Thus, the word: زَید (Zayd), being a word of the Qur&an, has its own distinct status. On every letter of this word, in accordance with the promise in Hadith, ten good deeds are recorded in the Book of Deeds. So, when his name is recited in the Qur&an, the reciter gets thirty good deeds in return just for pronouncing his name! Even the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) used to give him respect. Sayyidah ` A&ishah (رض) says, &Whenever he has sent him on a military expedition, it is invariably him that he has made the commander of the forces.& (Ibn Kathir) A lesson to remember This, in a nutshell, was the reality of slavery at the advent of Islam when slaves were educated and trained till they became achievers and whoever from them proved his class and capability was given the rank of leaders. When Zayd Ibn Harithah grew to be a young man, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) chose Sayyidah Zainab bint Jahsh, the daughter of his paternal aunt for marriage with him. A formal proposal of marriage was sent. Since Sayyidna Zayd was branded with the conventional label of being a freed slave, Sayyidah Zainab and her brother, ` Abdullah Ibn Jahsh rejected this proposal on the basis that they were nobler than him in terms of family and lineage. Revealed upon this incident was the verse: مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ (And it is not open for a believing man or a believing woman - 36). The instruction given there is: When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) orders someone to do something as an obligation, it becomes obligatory for that person to do it. The choice of not doing it does not remain valid under Islamic Law - even if the required act may not be obligatory or necessary in its origin. But, once he does order someone to do that, it become incumbent and obligatory on him. And should someone not do so, his or her action has been termed as open error at the end of the verse. When Sayyidah Zainab bint Jahsh (رض) and her brother heard this verse, they retracted from their rejection and agreed to the proposal of marriage. Thus, the marriage was solemnized. The dower of the bride was paid by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) on behalf of Sayyidna Zayd which was ten dinars [ equal to approximately 4 tolas of gold), (equal to approximately 18-1/2 tolas of silver), one beast of burden, complete pair of ladies dress, 15 mudd (approximately 25 kilos) of flour and 10 mudd (approximately 5 kilos) of dates (Ibn Kathir). The well-known event in the background of the revelation of this verse is, according to the majority of commentators, no other but this very account of the marriage of Sayyidah Zainab bint Jahsh (Ibn Kathir, Qurtubi and Mazhari). Ibn Kathir and some other commentators have also reported two additional events of this nature. There too, it has been said that the cited verse has been revealed in the background of those events. One of these events is about Sayyidna Julaibib (رض) whose proposal to marry the daughter of an Ansari Sahabi was turned down by the father and his family. When this verse was revealed, they agreed and the marriage was solemnized. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) made a du&a (prayer) for extended means of livelihood for them. The noble Companions say that Allah had placed such barakah in their home that it was known to be the most generously kept home of Madinah at-Tayyibah. Later, Sayyidna Julaibib (رض) met with his shahadah in a Jihad. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) bathed and shrouded his body with his own blessed hands. A similar event relating to Umm Kulthum bint &Uqbah Ibn Abi Mu&ait has been reported in Hadith narrations (Ibn Kathir, Qurtubi) and there is no contradiction in them. It is possible that several events of this nature may have been the cause of the revelation of the verse. The Injunction to consider the principle of کفو (kuf) in marriage The reason why Sayyidah Zainab bint Jahsh (رض) and her brother ` Abdullah had initially rejected the proposal of marriage with Sayyidna Zayd Ibn Harithah was that the two of them had no familial and lineal homogeneity, which is desirable even in the sight of the Shari&ah. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said that girls should be married in their کفو (kuf&: equal, alike, matching) (to be explained later). Therefore, a question arises here as to why the excuse of Sayyidah Zainab and her brother was not accepted in this case? The answer is that the equality, rather equalness (کَفَاءت :kafa’ ah) and likeness of spouses in their religion is certainly incumbent and necessary for the validity of the marriage. The marriage of any Muslim girl with any disbeliever is not halal (lawful) under the consensus of the Muslim ummah - even if the girl agrees to it. The reason is that this is not simply the right of a woman which may be dropped at her pleasure. Instead, it is the right of Allah and a Divinely imposed duty. On the contrary, equality of the spouses in financial and lineal status is the right of the girl and in the matter of lineal equality, the guardians too have right along with the girl. If a sane and adult girl, despite being from a wealthy family, were to drop her right by agreeing to marry some pauper, the choice is hers. And in lineal equality, if the girl and her guardians, all of them, abandon this right for the sake of some other major expedient consideration and agree to the proposal of marriage from a person who is lesser than them in terms of lineage and family status, then, they have the right to do so. In fact, should this be in view of higher religious consideration, the act of surrendering this right is most desirable and praiseworthy. It is for this reason that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has, on several occasions, recommended that this right should be ignored and marriage should be solemnized because of higher and more beneficial religious considerations. And clear indicators set forth in the noble Qur&an prove that the right of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) on the men and women of his ummah is more than that of anyone else. In fact, it is more than that of their own self - as the Qur&an says: النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ that is, &The Prophet is closer to the believers than their own selves - 33:6.& Therefore, in the case of Sayyidah Zainab (رض) and her brother, ` Abdullah, when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) advised them to ignore their right to lineal equality and ordered them to agree to the marriage with Sayyidna Zayd Ibn Harithah (رض) ، it was their duty to bypass their personal opinion and their own rights in the face of this prophetic order. Therefore, it was on this refusal from them that this injunction of the Qur&an was revealed. As for the lineal consideration in marriage, one may ask when it was worthy of consideration in the sight of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself, why would he himself not go by it? The answer to this doubt is already clear from the earlier submission, that is, this consideration is worth surrendering in favour of other higher and more beneficial religious considerations. During the blessed period of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، several marriages were solemnized among non-equals (ghayr-kuf& ) as based on these very kinds of beneficial religious considerations which do not violate the principle. The Issue of Equality in marriage (Kaf&ah) Marriage (nikah) is a matter in which the absence of homogeneity in the temperaments of the spouses disturbs the purpose of marriage, disturbs the process of fulfilling each other&s rights and breeds mutual disputes. Therefore, the Shari` ah has ordered that kafa&ah (mutual likeness) should be taken into consideration. But, it never means that a man of high family background starts taking a man from a family lesser than him as low and mean. In Islam, the criterion of low and high is based on Taqwa and love for one&s faith. Whoever does not have it, no matter how noble his family is, he yet has no status in the sight of Allah. So, this order to take kafa&ah (mutual equality) into consideration in marriages has been given only to keep the management of matters smooth and straight. In a Hadith, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said that the nikah (marriage) of girls should invariably be through their guardians (that is, it is not appropriate even for a pubescent girl that she settles the transaction of her nikah (marriage) all by herself. Modesty demands that this matter should be handled by her parents and guardians). And he said that the nikah of girls should invariably be solemnized within their kuf& (equal, like). Though, the authority of this Hadith is weak but, with the support from the reports and sayings of the noble Sahabah, it becomes worth being used as an argument. In Kitab ul-&Athar, Imam Muhammad has reported Sayyidna ` Umar (رض) saying: |"I shall issue an operative order that no girl from some high and recognized family should be given in marriage to another having a lesser status.|" Similarly, Sayyidah ` A&ishah (رض) and Sayyidna Anas (رض) have also stressed that kafa&ah (likeness) should be taken into consideration in nikah (marriage) - as reported from several authorities. Imam Ibn Humam has also written about it in details in Fath al-Qadir. Hence, the outcome is that the consideration of kafa&ah (equalness and likeness) in nikah (marriage) is desirable in religion, so that the spouses live in accord and harmony. But, should some other important consideration, more important than this kafa&ah, come up, then, it is permissible for the woman and her guardians that they surrender this right of theirs and marry in ghayr kuf, that is, other than equal and like. Particularly so, when there is some religious consideration in sight - if so, it is better and more merit worthy to do so, as proved from several events pertaining to the noble Sahabah. Incidentally, from this we also know that these events do not negate the basic premise of the issue of kafa&ah. Allah knows best.

خلاصہ تفسیر اور کسی ایمان دار مرد اور کسی ایمان دار عورت کو گنجائش نہیں جبکہ اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا (گو وہ دنیا ہی کی بات کیوں نہ ہو وجوباً ) حکم دے دیں کہ (پھر) ان (مومنین) کو ان کے اس کام میں کوئی اختیار (باقی) رہے (یعنی اس اختیار کی گنجائش نہیں رہتی کہ خواہ کریں یا نہ کریں بلکہ عمل ہی کرنا واجب ہوجاتا ہے) اور جو شخص (بعد حکم وجوبی کے) اللہ کا اور اس کے رسول کا کہنا نہ مانے گا وہ صریح گمراہی میں پڑا اور (اس وقت کو یاد کیجئے) جب آپ (فہمائش و مشورہ کے طور سے) اس شخص سے فرما رہے تھے جس پر اللہ نے بھی انعام کیا (کہ اسلام کی توفیق دی جو انعام دینی ہے اور غلامی سے چھڑایا کہ نعمت دنیویہ ہے) اور آپ نے بھی انعام کیا (تعلیم دین فرمائی اور آزاد کیا، اور پھوپھی زاد بہن سے نکاح کرایا مراد حضرت زید ہیں کہ آپ ان کو سمجھا رہے تھے) کہ اپنی بی بی (زینب) کو اپنی زوجیت میں رہنے دے (اور اس کی معمولی خطاؤں پر نظر نہ کر کہ گاہے اس سے ناموافقت ہوجاتی ہے) اور خدا سے ڈر (اور اس کے حقوق میں بھی کوتاہی نہ کر کہ کبھی اس سے ناموافقت پیدا ہوجاتی ہے) اور (جب شکایتیں حد سے متجاوز ہوگئیں اور قرائن سے اصلاح و توافق کی امید نہ رہی تو اس وقت فہمائش کے ساتھ) آپ اپنے دل میں وہ بات (بھی) چھپائے ہوئے تھے جس کو اللہ تعالیٰ (آخر) میں ظاہر کرنیوالا تھا (مراد اس سے آپ کا نکاح ہے حضرت زینب سے جبکہ زید ان کو طلاق دے دیں جس کو حق تعالیٰ نے زوجنکہا میں قولاً اور خود نکاح کردینے سے فعلاً ظاہر فرمایا) اور (اس مشروط اور معلق ارادہ کے ساتھ ہی) آپ لوگوں (کے طعن) سے (بھی) اندیشہ کرتے تھے (کیونکہ اس وقت اس نکاح میں کسی اہم مصلحت دینیہ کا ہونا ذہن مبارک میں نہ آیا ہوگا، محض دنیوی مصلحت خاص حضرت زینب کی خیال میں ہوگی اور امور دنیویہ میں ایسا اندیشہ ہونا مضائقہ نہیں، بلکہ بعض حیثیتوں سے مطلوب ہے، جبکہ اعتراض سے دوسروں کی دین کی خرابی کا احتمال ہو اور ان کو اس سے بچانا مقصود ہو) اور ڈرنا تو آپ کو خدا ہی سے زیادہ سزاوار ہے (یعنی چونکہ واقع میں اس میں دینی مصلحت ہے، جیسا کہ آگے لکی لایکون الخ میں مذکور ہے، اس لئے خلق سے اندیشہ نہ کیجئے، چناچہ بعد اطلاع مصلحت دینیہ کے پھر اندیشہ آپ نے نہیں کیا اور ارادہ نکاح میں تو کیا اندیشہ ہوتا خود نکاح کے بعد بھی اندیشہ نہیں کیا۔ جس کا قصہ آگے ہے کہ) پھر جب زید کا اس (زینب) سے جی بھر گیا، (یعنی طلاق دے دی اور عدت بھی گزر گئی تو) ہم نے آپ سے اس کا نکاح کردیا تاکہ مسلمانوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیبیوں کے (نکاح کے) بارے میں کچھ تنگی نہ رہے جب وہ (منہ بولے بیٹے) ان سے اپنا جی بھر چکیں (یعنی طلاق دے دیں، مطلب یہ کہ اس تشریح کا اظہار مقصود تھا) اور خدا کا یہ حکم تو ہونے والا تھا ہی (کیونکہ حکمت اس کو مقتضی تھی، آگے طعن کا جواب ہے کہ) ان پیغمبر کے لئے خدا تعالیٰ نے جو بات (تکویناً یا تشریعاً ) مقرر کردی تھی اس میں نبی پر کوئی الزام (اور طعن کی بات) نہیں، اللہ تعالیٰ نے ان (پیغمبروں) کے حق میں (بھی) یہی معمول کر رکھا ہے جو پہلے ہو گزرے ہیں (کہ ان کو جس امر کی اجازت ہوتی ہے بےتکلف وہ اس کو کرتے رہے ہیں اور محل طعن نہیں بنے، ایسے ہی یہ نبی بھی محل اعتراض نہیں) اور (ان پیغمبروں کے بھی اس قسم کے جتنے کام ہوتے ہیں ان سب کے بارے میں بھی) اللہ کا حکم تجویز کیا ہوا (پہلے سے) ہوتا ہے (اور اسی کے موافق پھر ان کو حکم ہوتا ہے اور وہ عمل کرتے ہیں۔ شاید آپ کے قصہ میں اس مضمون کو لانا اور پھر انبیاء کے تذکرہ میں اس کو مکرر لانا اس طرف اشارہ ہے کہ ایسے امور مثل تمام امور تکوینیہ کے ایسے متضمن حکمت ہوتے ہیں کہ پہلے ہی سے علم الہٰی میں تجویز ہو چکتے ہیں، پھر نبی پر طعن کرنا اللہ پر طعن کرنا ہے۔ بخلاف ان امور کے جن پر خود حق تعالیٰ ملامت فرما دیں گو وہ مقدر ہونے کی وجہ سے متضمن حکمت ہوں مگر محل ملامت ہونا دلیل ہے، اس کے تضمن مفاسد کی۔ اس لئے ان مفاسد کے اعتبار سے ان پر نکیر جائز ہے۔ آگے ایک مدح خاص ہے ان پیغمبروں کی تاکہ آپ کو تسلی ہو یعنی) یہ سب (پیغمبران گزشتہ) ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچایا کرتے تھے (اگر تبلیغ قولی کے مامور ہوئے تو قولاً اور اگر تبلیغ فعلی کے مامور ہوئے تو فعلاً ) اور (اس باب میں) اللہ ہی سے ڈرتے تھے اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے (پس آپ کو بھی جب تک معلوم نہ تھا کہ یہ نکاح تبلیغ فعلی ہے اندیشہ ہونا مضائقہ نہیں، لیکن آپ کو جب یہ بات معلوم ہوگئی تو آپ بھی اندیشہ نہ کیجئے جیسا کہ مقتضا ہے شان رسالت کا۔ چناچہ اس کے انکشاف کے بعد پھر آپ نے اندیشہ نہیں کیا اور باوجودیکہ خود آپ کو تبلیغ رسالت میں کسی سے خوف نہیں ہوا، نہ اس کا احتمال تھا پھر بھی انبیاء (علیہ السلام) کا قصہ سنانا زیادہ تقویت قلب کے لئے ہے) اور (آپ کی زیادہ تسلی کے لئے فرماتے ہیں کہ) اللہ (اعمال کا) حساب لینے کے لئے کافی ہے (پھر کسی سے کا ہے کا ڈر ہے نیز آپ پر طعن کرنے والوں کو بھی سزا دے گا آپ طعن سے مغموم نہ ہوجئے) معارف و مسائل یہ بات پہلے کئی مرتبہ معلوم ہوچکی ہے کہ سورة احزاب میں زیادہ تر وہ احکام ہیں جن کا تعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم و محبت اور مکمل اطاعت سے یا آپ کو کسی قسم کی ایذاء و تکلیف پہنچانے کی ممانعت سے ہے۔ آیات مذکورہ الصدر بھی اسی سلسلے کے چند واقعات سے متعلق نازل ہوئی ہیں۔ ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ حضرت زید بن حارثہ کسی شخص کے غلام تھے۔ زمانہ جاہلیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بازار عکاظ سے خرید لیا تھا، ابھی عمر بھی کم تھی۔ آپ نے خریدنے کے بعد ان کو آزاد کر کے یہ شرف بخشا کہ عرب کے عام رواج کے مطابق ان کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا اور ان کی پرورش فرمائی۔ مکہ مکرمہ میں ان کو زید بن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ قرآن کریم نے اس کو جاہلیت کی رسم غلط قرار دے کر اس کی ممانعت کردی کہ منہ بولے بیٹے کو اس شخص کا بیٹا کہہ کر پکارا جائے، اور حکم دیا کہ اس کو اس کے اصلی باپ کی طرف منسوب کیا جائے۔ اسی سلسلے میں وہ آیات نازل ہوئیں جو اسی سورة میں پہلے آ چکی ہیں (آیت) ادعوہم لاباہم الآیہ ان احکام کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کرام نے ان کو زید بن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہنا چھوڑ دیا اور ان کے والد حارثہ کی طرف منسوخ کرنے لگی۔ ایک لطیفہ : پورے قرآن میں انبیاء (علیہم السلام) کے سوا کسی بڑے سے بڑے صحابی کا بھی نام ذکر نہیں کیا گیا بجز حضرت زید بن حارثہ کے۔ اس کی حکمت بعض حضرات نے یہی بیان کی ہے کہ ان کی نسبت ولدیت کو بحکم قرآنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قطع کیا گیا تو ان کے لئے ایک بہت بڑے اعزاز سے محرومی ہوگئی، اللہ تعالیٰ نے اس کا بدل اس طرح کردیا کہ قرآن میں ان کا نام لے کر ذکر فرما دیا۔ اور لفظ زید قرآن کا ایک لفظ ہونے کی حیثیت سے اس کے ہر لفظ پر حسب وعدہ حدیث دس نیکیاں نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہیں ان کا نام جب قرآن میں پڑھا جائے تو صرف ان کا نام لینے پر تیس نیکیاں ملتی ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کا اکرام فرماتے تھے۔ حضرت صدیقہ عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ نے جب کبھی کسی لشکر میں ان کو بھیجا ہے تو امیر لشکر انہی کو بنایا ہے۔ (ابن کثیر ) تنبیہ : یہ تھی اسلام میں غلامی کی حقیقت کہ ان کو تعلیم و تربیت دے کر جو صاحب صلاحیت ثابت ہوا اس کو مقتداؤں کا درجہ دیا۔ زید بن حارثہ جوان ہوئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے نکاح کے لئے اپنی پھوپھی کی لڑکی حضرت زینب بنت جحش کا انتخاب فرما کر پیغام نکاح دیا۔ حضرت زید پر چونکہ یہ عرفی عیب لگا ہوا تھا کہ آزاد کردہ غلام تھے۔ حضرت زینب اور ان کے بھائی عبداللہ بن جحش نے اس رشتہ سے انکار کردیا کہ ہم با اعتبار خاندان و نسب کے ان سے اشرف ہیں۔ اس واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ماکان لمومن ولامومنة الایة، جس میں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کو کسی کام کا حکم بطور وجوب دے دیں تو اس پر وہ کام کرنا واجب ہوجاتا ہے، اس کو نہ کرنے کا اختیار شرعاً نہیں رہتا اگرچہ فی نفسہ وہ کام شرعاً واجب و ضروری نہ ہو، مگر جس کو آپ نے حکم دے دیا اس کے ذمہ لازم و واجب ہوجاتا ہے اور جو ایسا نہ کرے آخر آیت میں اس کو کھلی گمراہی فرمایا ہے۔ اس آیت کو حضرت زینب بنت جحش اور ان کے بھائی نے سنا تو اپنے انکار سے باز آگئے، اور نکاح پر راضی ہوگئے۔ چناچہ یہ نکاح کردیا گیا۔ ان کا مہر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طرف سے ادا کیا۔ جو دس دینار سرخ (جو پونے چار تولہ سونا ہوتا ہے) اور ساٹھ درہم (جس کی پونے سولہ تولہ چاندی ہوتی ہے) اور ایک بار برداری کا جانور اور پورا زنانہ جوڑا اور پچاس مد آٹا (یعنی تقریباً پینتالیس سیر) اور دس مد (ساڑھے آٹھ سیر تیس ماشہ) کھجور تھا (ابن کثیر) اس آیت کے نزول کا مشہور واقعہ جمہور مفسرین کے نزدیک یہی حضرت زید اور حضرت زینب بنت جحش کے نکاح کا قصہ ہے (ابن کثیر، قرطبی، مظہری) ابن کثیر وغیرہ مفسرین نے اس طرح کے دو واقعے اور بھی نقل کئے ہیں۔ ان میں بھی یہ مذکور ہے کہ آیت مذکورہ ان واقعات کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک واقعہ حضرت جلیبیب کا ہے کہ ان کا رشتہ ایک انصاری صحابی کی لڑکی سے کرنا چاہا تو اس انصاری اور ان کے گھر والوں نے اس رشتہ اور نکاح سے انکار کردیا، جب یہ آیت نازل ہوئی تو سب راضی ہوگئے اور نکاح کردیا گیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لئے وسعت رزق کی دعا فرمائی۔ صحابہ کرام کا بیان ہے کہ اللہ نے ان کے گھر میں ایسی برکت دی تھی کہ مدینہ طیبہ کے گھروں میں سب سے زیادہ اجلا اور بڑا خرچ اس گھر کا تھا، بعد میں حضرت جلیبیب ایک جہاد میں شہید ہوگئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی تجہیز وتکفین اپنے دست مبارک سے فرمائی۔ اسی طرح کا ایک واقعہ روایات حدیث میں ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط کا منقول ہے (ابن کثیر، قرطبی) اور ان میں کوئی تضاد نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس طرح کے متعدد واقعات ہی نزول آیت کا سبب بنے ہوں۔ نکاح میں نسبی کفو کی رعایت کا حکم اور درجہ : نکاح مذکور میں حضرت زینب بنت جحش اور ان کے بھائی عبداللہ نے جو زید بن حارثہ سے نکاح کو ابتدا میں نامنظور کیا تھا، اس کی وجہ ان دونوں میں خاندانی اور نسبی کفاءت و مماثلت کا نہ ہونا تھا۔ اور یہ وجہ شرعاً خود مطلوب ہے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ لڑکیوں کا نکاح ان کے کفوء میں کرنا چاہئے (جس کی تحقیق آگے آئے گی) اس لئے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں حضرت زینب اور ان کے بھائی کا عذر کیوں مقبول نہ ہوا۔ جواب یہ ہے کہ دینی اعتبار سے کفاءت و مماثلت زوجین کی تو لازم وضروری ہے، کسی مسلمان لڑکی کا نکاح کسی کافر سے باجماع امت حلال نہیں، اگرچہ لڑکی اس پر راضی ہو۔ کیونکہ یہ صرف عورت کا حق نہیں جو اس کی رضامندی سے ساقط ہوجائے بلکہ حق اللہ اور فریضہ آلہیہ ہے بخلاف نسبی اور مالی کفاءت کے وہ لڑکی کا حق ہے، اور خاندانی کفایت کے حق میں لڑکی کے ساتھ اس کے اولیاء بھی شریک ہیں۔ اگر عاقلہ بالغہ لڑکی مالدار خاندان سے ہونے کے باوجود کسی غریب فقیر سے نکاح پر راضی ہو کر اپنا حق ساقط کر دے تو اس کو اختیار ہے اور خاندانی کفایت میں لڑکی اور اس کے اولیاء سب اس حق کو کسی دوسری اہم مصلحت کی خاطر چھوڑ کر کسی ایسے شخص سے نکاح پر راضی ہوجائیں جو نسب اور خاندان کے اعتبار سے ان سے کم درجہ ہے تو ان کو اس کا حق ہے۔ بلکہ مصالح دینیہ کے پیش نظر اس حق کو چھوڑ دینا محمود و مطلوب ہے۔ اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعدد مواقع میں اس حق کو نظرانداز کرنے اور مصالح دینیہ کی وجہ سے نکاح کردینے کا مشورہ دیا۔ اور قرآن کریم کی تصریحات سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق اپنی امت کے مرد و زن پر سب سے زیادہ ہے، بلکہ اپنے نفس سے بھی زیادہ ہے جیسا کہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے النبی اولیٰ بالمومنین من انفسہم، ” یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق مومنین پر ان کے اپنے نفوس سے بھی زیادہ ہے “ اس لئے حضرت زینب اور عبداللہ کے معاملہ میں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نسبی کفایت کے حق کو نظر انداز کر کے زید بن حارثہ سے نکاح منظور کرلینے کا حکم دے دیا تو یہ ان کا فرض تھا کہ اس حکم کے سامنے اپنی رائے اور اپنے نفس کے حقوق کو ترک کردیتے، اس لئے ان کے انکار پر قرآن کریم کا یہ حکم نازل ہوا۔ رہا یہ معاملہ کہ جب نسبی کفایت خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک قابل رعایت ہے تو خود آپ نے اس کی رعایت کیوں نہ فرمائی ؟ تو اس کا جواب بھی مذکورہ تقریر سے واضح ہوگیا کہ یہ رعایت دوسری دینی مصالح کے بالمقابل قابل ترک ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں متعدد نکاح اسی طرح غیر کفوء میں اسی قسم کی دینی مصالح کی بناء پر کئے گئے، اس سے اصل مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ مسئلہ کفاءت : نکاح ایک ایسا معاملہ ہے جس میں اگر زوجین کی طبائع میں موافقت نہ ہو تو مقاصد نکاح میں خلل آتا ہے، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے میں خلل آتا ہے، باہمی جھگڑے نزاع پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے شریعت میں کفاءت یعنی باہمی مماثلت کی رعایت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی اعلیٰ خاندان کا آدمی اپنے سے کم خاندان والے آدمی کو رذیل یا ذلیل سمجھے۔ ذلت وعزت کا اصل مدار اسلام میں تقویٰ اور دینداری ہے جس میں یہ چیز نہیں اس کو خاندانی شرافت کتنی بھی حاصل ہو اللہ کے نزدیک اس کی کوئی حیثیت نہیں، صرف انتظامی معاملات کو استوار رکھنے کے لئے نکاح میں کفاءت کی رعایت کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ لڑکیوں کا نکاح ان کے اولیاء ہی کے ذریعہ ہونا چاہئے (یعنی بالغ لڑکی کو بھی یہ مناسب نہیں کہ اپنے نکاح کا معاملہ خود طے کرے، حیا کا تقاضا یہ ہے کہ یہ کام اس کے والدین اور اولیاء کریں) اور فرمایا کہ لڑکیوں کا نکاح ان کے کفوء ہی میں کرنا چاہئے۔ اس حدیث کی سند اگرچہ ضعیف ہے، مگر صحابہ کرام کے آثار و اقوال سے اس کی تائید ہو کر حدیث قابل استدلال ہوجاتی ہے۔ امام محمد نے کتاب الآثار میں حضرت فاروق اعظم کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” میں یہ حکم جاری کروں گا کہ کسی بڑے اونچے معروف خاندان کی لڑکی کا نکاح دوسرے کم درجہ والے سے نہ کیا جائے “ اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت انس نے بھی اس کی تاکید فرمائی کہ نکاح میں کفاءت کی رعایت کی جائے، جو متعدد اسانید سے منقول ہے۔ امام ابن ہمام نے بھی فتح القدیر میں اس کی تفصیل لکھی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ نکاح میں کفاءت و مماثلت کی رعایت کرنا دین میں مطلوب ہے تاکہ زوجین میں موافقت رہے، لیکن کوئی دوسری اہم مصلحت اس کفاءت سے بڑھ کر سامنے آجائے تو عورت اور اس کے اولیاء کو اپنا یہ حق چھوڑ کر غیر کفوء میں نکاح کرلینا بھی جائز ہے۔ خصوصاً جب کہ کوئی دینی مصلحت پیش نظر ہو تو ایسا کرنا افضل و بہتر ہے جیسا کہ صحابہ کرام کے متعدد واقعات سے ثابت ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ان واقعات سے اصل مسئلہ کفاءت کی نفی نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَى اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ۝ ٠ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا۝ ٣ ٦ۭ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ خِيَرَة : الحالة التي تحصل للمستخیر والمختار، نحو القعدة والجلسة لحال القاعد والجالس الخیرۃ سے مراد وہ حالت ہے جو طالب خیر یا مختار کو حاصل ہوتی ہے جیسا کہ قعدۃ وہ جلسۃ کا لفظ قاعد اور جالس کی ہیئت اور حالت پر بولا جاتا ہے ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے عصا العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] . ( ع ص ی ) العصا ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

اللہ اور رسول کا حکم ماننا واجب ہے قول باری ہے (وما کان لمومن ولا مومنۃ اذا اقضی اللہ ورسولہ امر ا ان لیکون لھم الخیرۃ من امرھم) کسی مومن یا مومنہ کے لئے یہ درست نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی امر کا حکم دے دیں تو پھر ان کو اپنے (اس) امر میں کوئی اختیار باقی رہ جائے۔ اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے اوامروجوب پر محمول ہوتے ہیں اس لئے کہ آیت میں اس بات کی نفی کردی گئی ہے ہمیں اللہ اور اس کے رسول کے اوامر کو ترک کرنے کا کوئی اختیار ہوتا ہے۔ اگر یہ اوامروجوب پر محمول نہ ہوتے تو ہمیں ان کو ترک کرنے اور ان پر عمل کرنے کا اختیار ہوتا جبکہ آیت نے اس اختیار کی نفی کردی ہے۔ خدا اور رسول کے حکم اختیاری نہیں ہیں قول باری ہے (ومن یعص اللہ ورسولہ فقد ضل ضلا لا مبینا۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں جا پڑے گا) اوامر کے ذکر کے سلسلہ میں اس آیت کا ورود بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول کے اوامر کو ترک کرنے کا اختیار نہیں ہے، نیز یہ کہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کا تارک اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نافرمان ہے۔ پوری آیت اللہ اور اس کے رسول کے اوامر کے وجوب پر دو طرح سے دلالت کررہی ہے اول یہ کہ آیت نے اللہ اور اس کے رسول کے اوامر میں تخییر کی نفی کردی اور دوم یہ کہ امر کا تارک اللہ اور اس کے رسول کا نافرمان ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

حضرت زید اور حضرت زینب کو جبکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے آپس میں شادی کرنے کا حکم دے دیا اب دونوں کو اس کے خلاف کرنے میں کوئی اختیار نہیں رہتا۔ اور جو حکم خداوندی میں اس کے خلاف ورزی کرے وہ کھلی گمراہی میں پڑا۔ شان نزول : وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ (الخ) امام طبرانی نے سند صحیح کے ساتھ حضرت قتادہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے حضرت زید کے لیے حضرت زینب کو نکاح کا پیغام دیا وہ سمجھیں کہ آپ اپنی ذات کے لیے پیغام دے رہے ہیں جب ان کو یہ معلوم ہوا کہ آپ حضرت زید کے لیے پیغام دے رہے ہیں تو انہوں نے انکار کردیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی کسی ایمان دار مرد اور کسی ایمان دار عورت کو گنجائش نہیں۔ الخ۔ چناچہ اس آیت کے نزول کے بعد انہوں نے فورا اس چیز کو قبول کرلیا اور خود کو سپرد کردیا۔ اور ابن جریر نے عکرمہ کے واسطہ سے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ نے حضرت زینب کو حضرت زید بن حارثہ کے لیے نکاح کا پیغام دیا انہوں نے اس سے انکار کیا اور بولیں کہ میں ان سے حسب و نسب کے اعتبار سے بہتر ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ نیز ابن جریر نے عوفی کے واسطہ سے حضرت ابن عباس سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی انہوں نے عورتوں میں سب سے پہلے ہجرت کی تھی اور انہوں نے اپنی ذات کو رسول اکرم کے حوالہ کردیا تھا آپ نے حضرت زید بن حارثہ سے شادی کردی یہ چیز ان کو اور ان کے بھائی کو ناگوار گزری اور کہنے لگے کہ ہماری منشا حضور کی تھی۔ مگر آپ نے اپنے غلام سے شادی کردی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اب آئندہ آیات میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت زینب (رض) کے نکاح سے متعلق معاملے کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ پہلے رکوع میں اس مضمون کی تمہید کے طور پر ُ منہ بولے بیٹے کے بارے میں مختصر حکم آیا تھا ‘ لیکن یہاں پر اس معاملے کے تمام اہم پہلوئوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مثلاً پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم اور خواہش کے مطابق حضرت زینب (رض) کا نکاح حضرت زید (رض) بن حارثہ سے ہونا ‘ بعد میں ناچاقی کی شکایت پر بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حضرت زید (رض) کو طلاق نہ دینے کی ہدایت کرنا ‘ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ سوچنا کہ چونکہ میں نے اصرارکر کے نکاح کروایا تھا ‘ اس لیے اب اگر طلاق ہوئی تو حضرت زینب (رض) کے لیے اس کے علاوہ تلافی کی کوئی صورت نہیں ہوگی کہ میں خود ان سے نکاح کرلوں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ سوچنا کہ اگر میں خود نکاح کروں گا تو منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کرنے پر مخالفین ایک طوفان کھڑا کردیں گے۔ اگرچہ بظاہر اس میں کچھ مضائقہ نہیں تھا ‘ لیکن پھر بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے مصلحت کے خلاف سمجھتے تھے۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی شش و پنج میں تھے کہ یہ آیات نازل ہوگئیں۔ آیت ٣٦ { وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ } ” اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کے لیے روا نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو (پھر بھی انہیں یہ خیال ہو کہ) ان کے لیے اپنے اس معاملے میں کوئی اختیار باقی ہے۔ “ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید (رض) کے لیے حضرت زینب (رض) کے ساتھ نکاح کا پیغام بھجوایا تھا اور حضرت زینب (رض) اور ان کے بھائی عبداللہ (رض) بن جحش اسے منظور کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ اس آیت کے نزول کے بعد وہ فوراً آمادہ ہوگئے۔ { وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا } ” اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑگیا۔ “ اپنے سیاق وسباق کے حوالے سے اگرچہ اس فقرے کا تعلق پس منظر میں بیان کیے گئے معاملہ سے ہے ‘ لیکن اس حکم کی نوعیت ایک قاعدہ کلیہ کی ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے کے بعد بھی کسی معاملے میں یہ سمجھے کہ اب بھی اس کے پاس کوئی اختیار (option) باقی ہے تو وہ گویا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کا مرتکب ہو کر اس آیت کا مصداق ٹھہرے گا۔ حضرت زینب بنت جحش (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی بیٹی تھیں۔ اس لحاظ سے ان کا تعلق قریش کے اونچے خاندان سے تھا۔ دوسری طرف حضرت زید (رض) بن حارثہ آزاد کردہ غلام تھے۔ اگرچہ ان کا تعلق بھی عرب کے ایک شریف خاندان سے تھا ‘ لیکن غلام تو وہ بہر حال رہ چکے تھے۔ اس لیے اگرچہ اس حکم کے بعد حضرت زینب (رض) اور ان کے گھر والوں نے اس نکاح کو قبول کرلیا تھا ‘ لیکن گمان غالب یہی ہے کہ حضرت زینب (رض) خاندانی تفاوت کے معاملے میں اپنے جذبات و احساسات کی وجہ سے حضرت زید (رض) کو شوہر کے طور پر مطلوبہ ادب و احترام نہ دے سکیں۔ حضرت زید (رض) نے متعدد بار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس صورت حال کی شکایت بھی کی اور طلاق دینے کی اجازت بھی چاہی مگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر دفعہ انہیں موافقت کی کوشش کرنے کی ہدایت فرما دیتے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

65 From here begin the verses which were sent down in connection with the Holy Prophet's marriage with Hadrat Zainab. 66 Ibn 'Abbas, Qatadah, 'Ikrimah and Muqatil bin Hayyan say that this verse was sent down at the time when the Holy Prophet proposed Hadrat Zainab for Hadrat Zaid, and Zainab and her relatives did not agree. According to Ibn 'Abbas, when the Holy Prophet made the proposal, Hadrat Zainab said, "I am better than him in lineage." Ibn Sa'd says that she also said, "I do not approve him for myself. I am a Quraishite by birth. " The same sort of disapproval was expressed by her brother, 'Abdullah bin Jahsh, because Hadrat Zaid was a freed slave of the Holy Prophet and Hadrat Zainab was the daughter of his paternal aunt, Umaimah bint 'Abdul Muttalib. They did not like the Holy Prophet to propose a girl of a noble Quraishite family, who was none other than his own first cousin, for his freed slave. At this, this verse was sent down and on hearing it Hadrat Zainab and all her relatives yielded to the proposal at once. Then the Holy Prophet married them, paid ten diners and 60 dirhams from his own pocket as dower on behalf of Zaid, provided the bridal dress and sent some articles of food for domestic use. Though this verse was sent down on g special occasion, the injunction given in it is the cardinal principle of the constitutional law of Islam, and it applies to the entire Islamic system of life. According to it no Muslim individual or nation, or institution, or court or parliament or state, is entitled to use its own freedom of opinion in a matter in which Allah and His Prophet have already given a dceision. To be a Muslim means to surrender one's freedom of opinion and action before Allah and His Messenger. It would be a contradiction in terms if a person or a nation claimed to be Muslim and then reserved for itself the freedom of choice and action. No sensible person can think of combining the two contradictory attitudes together. The one who desires to remain a Muslim will inevitably have to bow down to the Command of Allah and His Prophet, and the one who is not inclined to bow will have to admit that he is not a Muslim. If he does not admit he will be regarded as a hypocrite both by God and by the people even though he might proclaim to be a Muslim at the top of his voice.

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :65 یہاں سے وہ آیات شروع ہوتی ہیں جو حضرت زینب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کے سلسلے میں نازل ہوئی تھیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :66 ابن عباس ، مجاہد ، قَتادہ ، عِکْرِمَہ اور مُقاتِل بن حَیّان کہتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کے لیے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کا پیغام دیا تھا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور ان کے رشتہ داروں نے اسے نامنظور کر دیا تھا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیغام دیا تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کہا ، انا خیر منہ نسباً ، میں اس سے نسب میں بہتر ہوں ۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ انہوں نے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ لا ارضاہ لنفسی وانا ایّم قریش ۔ میں اسے اپنے لیے پسند نہیں کرتی ، میں قریش کی شریف زادی ہوں ۔ اسی طرح کا اظہار نارضا مندی ان کے بھائی عبداللہ بن جَحْش رضی اللہ عنہ نے بھی کیا تھا ۔ اس لیے کہ حضرت زید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ( اُمَیْمہ بنت عبدالمطلب ) کی صاحبزادی تھیں ۔ ان لوگوں کو یہ بات سخت ناگوار تھی کہ اتنے اونچے گھرانے کی لڑکی ، اور وہ بھی کوئی غیر نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی پھوپھی زاد بہن ہے ، اور اس کا پیغام آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آزاد کردہ غلام کے لیے دے رہے ہیں ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، اور اسے سنتے ہی حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور ان کے سب خاندان والوں نے بلا تامل سر اطاعت خم کر دیا ۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح پڑھایا ، خود حضرت زید رضی اللہ عنہ کی طرف سے دس دینار اور ٦۰ درہم مہر ادا کیا ، چڑھاوے کے کپڑے دیے ، اور کچھ سامان خوراک گھر کے خرچ کے لیے بھجوا دیا ۔ یہ آیت اگرچہ ایک خاص موقع پر نازل ہوئی ہے ، مگر جو حکم اس میں بیان کیا گیا ہے وہ اسلامی آئین کا اصل الاصول ہے اور اس کا اطلاق پورے اسلامی نظام زندگی پر ہوتا ہے ، اس کی رو سے کسی مسلمان فرد ، یا قوم ، یا ادارے ، یا عدالت ، یا پارلیمنٹ ، یا ریاست کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جس معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی حکم ثابت ہو اس میں وہ خود اپنی آزادی رائے استعمال کرے ۔ مسلمان ہونے کے معنی ہی خدا اور رسول کے آگے اپنے آزادانہ اختیار سے دستبردار ہو جانے کے ہیں ۔ کسی شخص یا قوم کا مسلمان ہونا اور اپنے لیے اس اختیار کو محفوظ بھی رکھنا ، دونوں ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں ۔ کوئی ذی عقل انسان ان دونوں رویوں کو جمع کرنے کا تصور نہیں کر سکتا جسے مسلمان رہنا ہو اس کو لازماً حکم خدا و رسول کے آگے جھک جانا ہو گا ۔ اور جسے نہ جھکنا ہو اس کو سیدھی طرح ماننا پڑے گا کہ وہ مسلمان نہیں ہے ۔ نہ مانے گا تو چاہے اپنے مسلمان ہونے کا وہ کتنا ہی ڈھول پیٹے ، خدا اور خلق دونوں کی نگاہ میں وہ منافق ہی قرار پائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

31: یہ آیتِ کریمہ چند ایسے واقعات کے پسِ منظر میں نازل ہوئی جن میں حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے بعض صحابہؓ کے لئے کسی خاتون سے رشتہ دیا، مگر وہ خاتون یا اُن کے رشتہ دار شروع میں اس رشتے پر راضی نہیں ہوئے۔ حافظ ابن کثیرؒ نے یہ واقعات تفصیل سے بیان کئے ہیں، اور اِن سب میں مشترک بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جن صحابہؓ کے نکاح کا پیغام دیا تھا، اُن میں کوئی خرابی نہیں تھی، لیکن خاتون یا اُن کے گھر والوں نے صرف اپنی خاندانی یا مالی فوقیت کی وجہ سے شروع میں اُن کا رشتہ قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔ دوسری طرف حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم غالباً یہ چاہتے تھے کہ لوگ صرف اپنی خاندانی یا مالی فوقیت کی وجہ سے اچھے رشتوں سے انکار کرنے کا رجحان ختم کریں۔ اگرچہ شریعت نے نکاح میں کفات (یعنی میاں بیوی کے ہم پلہ ہونے) کا فی الجملہ اعتبار کیا ہے، لیکن اگر رشتے میں کوئی اور بڑی وجہ ترجیح موجود ہو تو عورت اور اُس کے سرپرستوں کو صرف اس بنا پر رشتے سے انکار نہیں کردینا چاہئے کہ وہ خاندانی اعتبار سے عورت کے خاندان کا ہم پلہ نہیں ہے۔ چنانچہ اِس آیت کے نازل ہونے کے بعد اُن تمام واقعات میں رشتہ منظور کرلیا گیا۔ اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تجویز ہی کے مطابق نکاح ہوا۔ اِن واقعات میں سب سے اہم واقعہ حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کا واقعہ ہے، جس کا تعلق آنے والی آیات سے بھی ہے۔ یہ شروع میں حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے غلام تھے، اور انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہبہ کردیا تھا، آپ نے انہیں آزاد کر کے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا۔ (جس کی تفصیل اگلی آیت کے حاشیہ میں آ رہی ہے)۔ چنانچہ آپ نے اپنی پھوپی کی صاحبزادی حضرت زینب بنت جحش رضی اﷲ عنہا سے ان کے نکاح کا پیغام دیا۔ حضرت زینبؓ اُونچے خاندان کی خاتون تھیں، اور اُس وقت کسی آزاد کردہ غلام سے شادی کرنا ایسی خاندانی عورت کے لئے معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے اُنہوں نے شروع میں انکار کیا۔ اِس پر یہ آیت نازل ہوئی، جس کے بعد اُنہوں نے یہ رشتہ منظور کرلیا، اور پھر حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ سے ان کا نکاح ہوگیا جس کا مہر خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ادا فرمایا۔ آیتِ کریمہ اگرچہ اِن واقعات کے پس منظر میں نازل ہوئی ہے، لیکن اس کے الفاظ عام ہیں، اور وہ شریعت کا یہ بنیادی اصول واضح کر رہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کے بعد کسی بھی مخلوق کو اپنی رائے چلانے کا اختیار نہیں رہتا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٦ تا ٤٠۔ تفسیر سدی تفسیر ابن جریر اور تفسیر ابن مردو یہ وغیرہ میں جو شان نزول ان آیتوں کی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت ٢ ؎ سے بیان کی گئی ہے (٢ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٢٠٣٧٢٠١ ج ٥۔ ) اس کا حاصل وہی ہے جو شاہ صاحب نے موضح القران میں بیان کیا ہے کہ حضرت زنیب (رض) اور ان کے راضی نہیں تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی مختصر طور پر یہ شان نزول صحیح بخاری ٣ ؎ میں بھی انس بن مالک (رض) کی روایت سے ہے (٣ ؎ صفحہ ٧٠٦ ج ٢ کتاب التفسیر۔ ) اب اس زنیب (رض) کے قصہ میں اللہ تعالیٰ نے خفگی سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ جو فرمایا ہے کہ اے نبی جس چیز کو اللہ دنیا میں ظاہر کرنا چاہتا ہے اس کو تم اپنے دل ہی دل میں کیوں چھپاتے ہو اگرچہ مفسرین نے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے طرح طرح کے معنے بیان کئے ہیں اور کچھ آثار بھی اپنے معنوں کی تائید میں ذکر کئے ہیں مگر حافظ ابن حجر (رح) نے فتح الباری ١ ؎ میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی روایت اور کوئی معنے صحیح نہیں ہیں جو تفسیر سدی اور تفسیر ابن ابی حاتم میں بیان کئے گئے ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ جس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید (رض) اور حضرت زنیب (رض) کا نکاح کیا اسی وقت اللہ تعالیٰ نے وحی خفی کے طور پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں یہ بات ڈال دی تھی کہ زمانہ جاہلیت کی یہ رسم اب آئندہ قائم نہ ہونے گی کہ متبنبیٰ بیٹا اور اصلی بیٹا شریعت میں برابر گنا جاوے اور متبنی کی بیوی متبنی لینے والے کو حلال نہ ہو اور اس رسم کو اللہ تعالیٰ زید (رض) اور زنیب (رض) کے نکاح کے برس ہی دن کے بعد یوں موقوف فرما دیوے گا کہ زید (رض) اور زنیب (رض) کے تمہارے نکاح میں آویں گی لیکن یہ رسم عرب میں ایک بڑی قدیمی رسم تھی اس واسطے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وحق خفی کی بات کو صریح آیت کے نازل ہونے سے پہلے اس خیال سے لوگوں پر ظاہر نہیں فرمایا کہ ایک قدیم رسم کے ٹوٹنے سے لوگوں میں ایک کھل بلی مچ جاوے گی اسی پر اللہ تعالیٰ کی خفگی ہوئی اس کے سوا جو کچھ مفسروں نے لکھا ہے اس سب کو حافظ ٢ ؎ ابن کثیر (رح) اور حافظ ابن حجر (رح) نے ضعیف ٣ ؎ ٹھہرایا ہے اور خود قرآن شریف سے بھی اس تفسیر کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو بات تمہارے دل میں ہے اللہ تعالیٰ اس کو ظاہر کرنے والا ہے پھر آگے اللہ تعالیٰ نے جو ظاہر فرمایا وہ یہی ہے کہ جاہلیت کی رسم موقوف اور متبنی کی بی بی کا نکاح متبنے لینے والے کو جائز ہے اگر اس کے سوا کوئی اور بات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں ہوتی مثلا نکاح سے پہلے حضرت زنیب (رض) کے نکاح کی خواہش یا ان کی الفت یا ان کی خوبصورتی کی عظمت تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے موافق ضرور اس کا ذکر قرآن شریف میں فرمایا ‘ زنیب (رض) کی ماں کا نام امیمہ بنت عبدالمطلب اور زنیب (رض) کے بھائی کا نام عبداللہ بن حجش ہے جب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں سے یہ درخواست کی کہ زنیب (رض) کا نکاح زید (رض) بن حارثہ سے کردیا جاوے تو ان لوگوں نے اس درخواست کے منظور کرنے سے انکار کیا اس پر اللہ تعالیٰ پہلی آیت نازل فرمائی اور فرمایا کہ امیمہ (رض) بنت کسی کام کا کرنا ٹھہراویں تو یہ لوگ اس کام کے پورا ہونے میں خلل ڈالیں کیوں کہ یہ خلل گناہ ہے اور جو شخص ایسا رشتہ دار زنیب (رض) کا نکاح زید بن حادثہ (رض) کے ساتھ کردینے کو راضی ہوگئے اور نکاح ہوگیا اور پھر اس نکاح کے بعد زید (رض) اور زنیب (رض) کی جب موافقت نہ ہوئی اور زید (رض) نے زینب (رض) کی بد زبانی کی شکایت اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبرو پیش کرکے زنیب (رض) کو چھوڑ دینا چاہا تو اللہ کے رسول نے یہ خیال سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید (رض) کو وہ نصیحت کی جس کا ذکر آگے کی آیت میں ہے کہ اے رسول اللہ کے تم اپنا قدم درمیان میں ہونے کے کے طور پر جو بات اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل میں ڈال دی ہے اسی اندیشہ سے اس کو زبان پر نہیں لاتے کہ لے پالک منظور ہے جس طرح اس نے ساتھ کے ساتھ دو بہنوں کے نکاح میں رکھنے کی رسم کو مٹایا پھر فرمایا زید (رض) نے جب کہ زنیب (رض) کو چھوڑ دیا ہے اور عدت کی مدت بھی گزر چکی ہے تو اللہ تعالیٰ نے زنیب (رض) کو تمہارے نکاح میں اس لیے دیا کہ مسلمان ہو کر رہتا ہے اس کے ارادہ کو کوئی روک نہیں سکتا پھر فرمایا جو بات اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے ٹھہرادی اے نبی نہ کیا کرتے تھے پھر فرمایا نیکوں کے فرما نبرداری اور بدوں کی بدگوئی کے حساب و کتاب کے لیے اللہ کا علم کافی ہے ایک دن ان سب باتوں کا حساب و کتاب ہو کر جزاوسزا کا فیصلہ ہوجاوے گا پھر فرمایا لوگوں کے زید بن محمد کہنے سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اولاد کے باپ نہیں ہوسکتے وہ تو غیروں کے حق میں اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں پھر فرمایا اللہ کا علم نکاح پر بعضے عیسائیوں نے اور ان کے دیکھا دیکھی بعضے آریوں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں طرح طرح کو بدگوئی جو کے ہے واللہ احق ان تخشاہ سے اس بدگوئی کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ نے یہ کردیا ہے کہ اے رسول اللہ نے یہ کردیا ہے کہ اے رسول اللہ کے تم کو لوگوں کی بدگوئی سے کچھ نہ ڈرنا چاہئے بلکہ تم اللہ سے ڈرو اور جس طرح اللہ کو منظور ہے کہ شرک کے زمانہ کے ایک رسم آئندہ قائم نہ رہے اس کے موافق تم کو بلاتا مل عمل کرنا چاہئے قصہ زید (رض) آریوں اور عیسائیوں کے جو بات ‘ اس فیصلہ قرآنی کے بعد اگرچہ مسلمانوں کو کسی بدگو کی بدگوئی کا کچھ اندیشہ نہیں لیکن مخالفوں کے قائل کرنے کے لیے بعضے مسلمانوں نے اس بدگوئی کا جو جواب دیا ہے اس کا خلاصہ ذیل میں بیان کیا جاتا ہے۔ (١) ملت ابراہیمی میں ساتھ کے ساتھ دو بہنوں سے نکاح کر جائز تھا اس لیے یعقوب (علیہ السلام) کے نکاح میں لیا اور راحیل یہ دو بہنیں ساتھ کے ساتھ موجود تھیں جس کا ذکر تورات کے حصہ سفر التکوین باب ٢٩ میں ہے ‘ شریعت موسوی میں ملت ابراہیمی کا یہ مسئلہ منسوخ ہوگیا جس کا ذکر توراۃ کے حصہ سفر الاحبار کے باب ١٨ میں ہے۔ (٢) صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عائشہ (رض) کی روایت اوپر گزر چکی ہے کہ لے پالک کو اصلی بیٹا قرار دینے کا طریقہ زمانہ شرک کا ایک طریقہ تھا پہلی کسی شریعت میں اس کا کوئی حکم نہیں ہے۔ (٣) لے پالک کو اصلی بیٹا قرار دینے کا طریقہ اگر پہلے کی شریعت کے حکم سے ہوتا اور قرآن سے وہ حکم منسوخ ہوجاتا تو اس صورت میں بھی عیسائی لوگ اسلام پر کچھ اعتراض نہیں کرسکتے تھے کیوں کہ مسلمان لوگ عیسائیوں کو یوں قائل کردیتے کہ جس طرح تو رات نے ملت ابرہیمی کے ایک مسئلہ کو منسوخ کیا اسی طرح قرآن نے بھی پہلے کی شریعت کے ایک مسئلہ کو منسوخ کردیا یہاں تو عیسائی لوگوں کی یہ ہٹ دھرمی ہے کہ زمانہ شرک کی ایک رسم کو قرآن نے مٹایا ہے جس سے قرآن ان کے نزدیک قابل اعتراض ہے اگرچہ اس ہٹ دھرمی کے جواب میں مسلمانوں نے بارہا تحریری اور تقریری مناظرے کر کے عیسائیوں کو یہ جتلایا کہ اگر کسی آسمانی کتبا میں اس اعتراض کی تائید کا کوئی مسئلہ ہو تو پیش کیا جائے لیکن سوا قدیمی بدگوئی کے آج تک مسلمانوں کو کوئی جواب نہیں ملا جس نتیجہ یہ ہے کہ زمانہ شرک کی ایک رسم کے مٹا دینے کا الزام عیسائیوں کی طرف سے اگر نبی آخر الزمان اور قرآن پر قائم ہوسکتا ہے تو اس سے بڑھ کر یہ الزام مسلمانوں کی طرف سے حضرت موسیٰ اور تو رات پر قائم ہوسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور تو رات نے ملت ابراہیمی کے ایک مسئلہ کو مٹا دیا۔ فرقہ آریہ کی بدگوئی کا جواب اہل اسلام نے دیا ہے اس کا خلاصہ بھی ذیل میں بیان کیا جاتا ہے۔ (١) جس طرح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق واوحی الی ھذا القرآن سے یہ جتلایا ہے کہ قرآن وہ الہامی کتاب ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور الہام کے نازل ہوئی ہے اس طرح رشیوں نے کسی وید میں یہ نہیں جتلایا کہ وید الہام کے ذریعہ رشیوں پر نازل ہوئے ہیں پھر جو فرقہ اپنی کتاب کو آسمانی کتاب نہیں ثابت کرسکتا اس کو اسمانی کتاب پر بدگوئی کا حق کیوں کر حاصل ہوسکتا ہے۔ (٢) عیسائیوں سے تو آج تک یہ نہیں ہوسکا کہ وہ اپنی بدگوئی کی بنیاد پر کسی آسمانی کتاب سے کوئی سند قائم کرتے آریہ لوگ اس بدگوائی میں اگر عیسائیوں کے مددگار بنے ہیں تو جو کام عیسائیوں سے پورا نہ ہوسکا اس کو آریہ لوگ ہی پورا کر کے دکھا دیں۔ (٣) اہل اسلام کی بعض ضعیف روایتوں کے بھروسہ پر یہ جو کہا جاتا ہے کہ نکاح سے پہلے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زنیب (رض) کو دیکھا جس سے زنیب (رض) کی الفت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں پیدا ہوگئی اس لیے باطن میں تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ چاہتے تھے کہ زید (رض) زنیب (رض) کو طلاق دے دیویں تو خود زنیب (رض) سے نکاح کرلیں اور ظاہر میں زید (رض) کو ولی رادہ کے برخلاف نصیحت کرتے تھے حالانکہ دل میں کچھ اور زبان پر کچھ یہ بات نبوت کی شان سے بہت بعید ہے اس کا جواب اوپر گزر چکا کہ معتبر علماء اسلام کے نزدیک یہ روایتیں صحت کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتی ہیں عیسائی فرقوں میں جس طرح مثلا پر ولسیٹنٹ فرقہ باقی عیسائیوں کی روایتوں کو ضعیف ٹھہرا کر نہیں مانتے اسی طرح باقی کے فرقوں کہ لوگ اس فرقہ کو نہیں مانتے یا مثلا آریہ دید کی تفسیروں میں سوائے دیا نند کی تفسیر کے اور قدیمی مفسروں کی تفسیروں کو نہیں ماننے اسی طرح اہل اسلام میں صحیح روایتوں کے پابند مسلمان ان ضعیف روایتوں کو نہیں مانتے پھر یہ کیا زبردستی ہے کہ یہ لوگ اپنے مذہبوں میں تو صحیح اور ضعیف روایتوں میں فرق پیدا کرتے ہیں اور مسلمانوں کو ضعیف روایتوں کے حوالہ سے قائل کرنا چاہتے ہیں ان لوگوں کو چاہئے کہ مسلمانوں کے قواعد کے موافق پہلے ان ضعیف روایتوں کی صحت کو ثابت کر کے یہ بحث کریں (٤) یہ جو کہا جاتا ہے کہ بغیر شرائط نکاح کے زینب (رض) کا یہ نکاح شرعی نکاح کیوں کر ہوسکتا ہے اس کا جواب اہل اسلام نے یہ دیا ہے کہ آدم اور بنی آدم سب اللہ تعالیٰ کے لونڈی غلام ہیں اور شرعی محمدی کا یہ ایک مسئلہ ہے کہ عورت کے رشتہ داروں میں سے کوئی رشتہ دار کسی عورت کو یا لونڈی کے مالکوں میں سے کوئی مالک اپنی لونڈی کو زوجنا کھا کہہ کر کسی مرد کو سونپ سہل بن سعد کی حدیث کے موافق صحیح بخاری میں اس مسئلہ کا خاص ایک باب ١ ؎ ٹھہرا کر امام بخاری نے اس مسئلہ کا ذکر کیا ہے (١ ؎ باب اذا قال الخاطب للولی زوجنی فلاتۃ فقال قد زوجتک بکذاوکذ اجازا لنکاح الخ۔ ) حاصل کلام یہ ہے کہ دنیا کے مالکھوں کی زبان سے جس لفظ کے نکلنے سے شرعی نکاح صحیح ہوجاتا ہے روبرو یہ آیت نازل ہوئی یا جتنے مسلمان اس نکاح کے ولیمہ میں شریک ہوئے جس کا ذکر انس بن مالک (رض) کی صحیح بخاری کو الزام دینے کے لیے شرع محمدی کے موافق تو کسی بحث کی گنجائش ہرگز باقی نے رہی اور عقلی بحث کا ہر مسلمان یہ جواب دے سکتا ہے کہ دینی بحث اگر محض عقل سے طے ہوسکتی ہے تو عیسائی لوگ تو رات وانجیل پر اور آریہ لوگ اپنے ویدوں پر اپنی مذہبی باتوں کا دارو مدار کیوں رکھتے ہیں۔ (٥) یہ جو کہا جاتا ہے کہ اسلام میں اس بدگوئی کے قابل نکاح کی ضرورت ہی کیا تھی اس کا جواب اوپر گذر چکا ہے کہ جس طرح تو ریت انجیل قرآن شرک کی رسمیں مٹانے کی ضرورت سے نازل ہوئے اسی طرح زمانہ شرک کی ایک رسم مٹانے کے لیے یہ آیتیں نازل ہوئیں جس میں اس نکاح کی تاکید ہے جو عیسائی اس ضرورت کا قائل نہ ہوگا اس سے پوچھا جاوے گا کہ تو رات و انجیل کس ضرورت سے نازل ہوئیں اسی طرح فرقہ آریہ کے لوگ اگر مذہبی ضرورتوں کے قائل نہ ہوں گے تو ان کے وید بلا ضرورت قرار پاویں گے اگرچہ آریوں کے گرو سوا میں دیا نند نے سیتارتھ پر کاش میں لکھا ہے کہ خاندان کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے آریہ لوگ اپنی ذات والے کا لڑکا گود میں لے کرلے پالک بنا سکتے ہیں ‘ اب یہ تو ظاہر ہے کہ مثلا ایک فقیر اپنے آپکو بادشاہ کہوے تو قانون قدرت کے موافق وہ بادشاہ نہیں ہوسکتا اسی طرح قانون قدرت کے موافق خاندان کا سلسلہ تو اسی شخص کا جاری رہے گا جس کے نطفہ سے وہ لے پالک لڑکا پیدا ہوا ہے لیکن آریہ مذہب میں یہ لے پالک کا مسئلہ ایک خیالی مسئلہ ہے جو جاری ہے اور تعجب یہ ہے کہ باوجود اس خیالی مسئلہ کی پابندی کے اس آریہ فرقہ کا دعویٰ اکثر بحثوں میں یہ ہے کہ جو مسئلہ قانون قدرت کے خلاف ہو وہ غلط ہے ‘ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ جب بےاولاد آریوں کے خاندان کا سلسلہ لے پالک سے جاری رہ سکتا ہے تو پھر نیگ ١ ؎ کے مسئلہ کی کیا ضرورت ہے۔ نیوگ کے مسئلہ کا ذکر سورة طلاق آوے گا۔ (١ ؎ آریوں کا ایک مشہور مسئلہ (ع ‘ ح )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:36) ماکان لمؤمن۔ مومن مرد کا حق نہیں ہے۔ مومن مرد کے لئے یہ درست نہیں ہے۔ قضی۔ ماضی واحد مذکر غائب، قضا وقضاء مصدر۔ قولا یا عملا کسی کام کا فیصلہ کردینا۔ اس کی چار اقسام ہوسکتی ہیں۔ (١) قضاء قولی (الٰہی) ۔ (2) قضاء قولی (بشری) ۔ (3) قضاء عملی (الٰہی) قضاء ارادی (الٰہی ) بھی ہوسکتا ہے۔ (4) قضاء عملی (بشری) ۔ (١) قضاء قولی (الٰہی) کی مثال :۔ وقضی ربک ان لا تعبدوا الا ایاہ (١ 7:23) اور تمہارے پروردگار نے ارشاد نے فرمایا۔ کہ اس کے سوا کو کی عبادت نہ کرو۔ (2) قضاء قولی (بشری) کی مثال قضی الحاکم بکذا۔ حاکم نے فلاں فیصلہ کیا۔ (3) قضاء عملی (الٰہی) کی مثال :۔ واللہ یقضی بالحق والذین یدعون من دونہ لا یقضون بشیء (40:20) اور خدا سچائی کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کچھ بھی حکم نہیں دے سکتے۔ (4) قضاء عملی (بشری) فاذا قضیتم مناسککم (2:200) پھر جب تم حج کے تمام ارکان پورے کر چکو ! اور بعض نے اس کی مندرجہ ذیل تین صورتیں تصور کی ہیں ! مثلاً (١ 7:23) نمبر (١) مندرجہ بالا۔ (ب) بمعنی الخبر مثلاً وقضینا الی بنی اسرائیل فی الکتب لتفسدن فی الارض مرتین (١ 7:4) اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں یہ خبر کردی تھی کہ تم ملک میں دو بار بڑی خرابی پیدا کروگے۔ (ج) صفۃ الفعل اذا تم : فعل کی صفت جب اس فعل کو ختم کردیا جائے یا اس کے متعلق آخری فیصلہ کردیا جائے۔ مثلاً فقضہن سبع سموت فی یومین ( ) پھر دور وز میں اس نے سات آسمان بنا دئیے (صلات کے اختلاف اور سیاق کی مناسبت سے مختلف معانی مراد ہوتے ہیں) واذا قضی اللہ ورسولہ امرا جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملہ کا فیصلہ فرما دے۔ الخیرۃ۔ اختیار ۔ خار یخیر کا مصدر ہے (باب ضرب) انتخاب کرنا۔ دو چیزوں میں سے ایک کو انتخاب کرنے کا اختیار ہونا۔ الخیرۃ مؤنث غیرحقیقی ہے لہٰذا اس کا فعل یکون (بصیغہ مذکر ) آیا ہے۔ گو بعض ق راتوں میں تکون (تاء تانیث کے ساتھ بھی آیا ہے) ۔ لہم میں ضمیر جمع مذکر غائب ہے جو مومن ومؤمنۃ کی طرف راجع ہے۔ چونکہ مومن اور مومنہ سے مراد (جملہ مومنین مومنات) ہیں اس لئے معنی کی رعایت سے جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ امرہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کا حکم، ان کا فیصلہ۔ ان کا معاملہ۔ ہم ضمیر کا مرجع اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جمع کا صیغہ تعظیما لایا گیا ہے۔ جملہ کا ترجمہ یوں ہوگا : جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملہ کا فیصلہ فرمادیں تو کسی مومن مرد یا مومن عورت کو حق نہیں پہنچتا کہ ان کے فیصلہ میں اپنی مرضی سے کام لیں۔ یا اپنا اختیار استعمال کریں) ۔ من شرطیہ ہے۔ یعص مضارع مجزوم (اصل میں یعصی تھا۔ من شرطیہ کی وجہ سے ی ساقط ہوگئی) صیغہ واحد مذکر غائب۔ من یعص۔ جو نافرمانی کرے گا۔ عصیان مصدر (باب ضرب) ۔ فقد ضل ضلالا مبینا۔ میں ف سببیت کے لئے ہے قد حرف ہے اور ماضی پر آکر اسے ماضی قریب کا معنوں میں کردیتا ہے۔ نیز ماضی کے ساتھ یہ تحقیق کے معنی دیتا ہے ۔ ضلالا یہ ضل کا مصدر ہے اور فعل کے بعد تاکید کے لئے گیا ہے۔ مبینا۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ ابانۃ مصدر سے۔ بین مادہ صریح۔ ظاہر۔ ظاہر کرنے والا۔ کھول دینے والا۔ یہاں ضلالا کی صفت میں آیا ہے اور موصوف کی مناسبت سے منصوب ہے۔ تو وہ بیشک صریح گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 کہ چاہے اس پر عمل کرے اور چاہے نہ کرے بلکہ ہرحال میں عمل کرنا ضروری ہے۔ ( دیکھئے قصص : 68)3 ابن جریر (رح) وغیرہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت کی شان نزول میں نقل کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید (رض) بن حارثہ کے لئے حضرت زینب (رض) بن حجش کو پیغام نکاح دیا۔ مگر حضرت زینب (رض) نے اپنی شان کے خلاف سمجھ کر اس نکاح سے انکار کردیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب (رض) سے فرمایا :” بلی فانکحیہ “ ( کیوں نہیں، تم ان سے ضرور نکاح کرو) اس پر حضرت زینب (رض) نے کہا : ” اچھا میں اس پر غور کروں گی “ یہ گفتگو جاری تھی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور حضرت زینب (رض) نے عرض کیا۔ ” اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے یہ فیصلہ منظور ہے۔ آیت کی شان نزول گو خاص ہے مگر اس کا حکم عام ہے اور متعدد آیات و احادیث میں اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف چلنے پر وعید آئی ہے ایک حدیث میں ہے کہ کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ اس کی خواہش میرے لائے ہوئے پیغام کے تابع نہ ہوجائے ( ابن کثیر) اس سے معلوم ہوا کہ کسی آیت یا حدیث کے مقابلے میں کسی مجتہد کی رائے پر عمل کرنا نہیں چاہیے بلکہ جونہی آیت یا حدیث ملے کسی مجتہد کی رائے پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ (فتح البیان) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 36 تا 40 الخیرۃ : اختیار امسک : روک لے مبدی : ظاہر کرنے والا وطر : حاجت زوجنا : ہم نے نکاح کردیا ادعیاء : بلاتے ہیں۔ پکارتے ہیں یبلغون : وہ پہنچاتے ہیں یخشون : وہ خوف رکھتے ہیں۔ ڈرتے ہیں حسیب : حساب لینے والا تشریح : آیت نمبر 36 تا 40 ان آیات میں حضرت زید (رض) ابن حارثہ سے حضرت زینب (رض) کا نکاح ، طلاق ، پھر اس کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت زینب (رض) کا نکاح ، منہ بولے بیٹوں کی شرعی حیثیت کے اہم ترین مسئلوں کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔ حضرت زید (رض) ابن حارثہ بنو کلب کے حارثہ ابن شراحیل کے بیٹے تھے ۔ والد کا نام سعدٰی بنت ثعلبی تھا اور ان کا تعلق قبیلہ طے کی شاخ بنی معن سے تھا ۔ جب حضرت زید آٹھ دس سال کے تھے تو ان کو والدہ ان کو ساتھ لے کر اپنے میکے روانہ ہوئیںَ راستے میں بنی قین ابن جسر نے حملہ کرکے ان کا تمام مال وا سباب لوٹ لیا اور مردوں ، عورتوں اور بچوں کو اپنا غلام بنالیا۔ ان ہی میں حضرت زید (رض) کو بھی انہوں نے اپنا غلام بنالیا تھا۔ جب عکاظ کے میلے میں ان کو فروخت کرنے کے لئے لایا گیا تو حضرت خدیجہ (رض) کے بھتیجے حکیم اب حزام نے ان کو خرید کر اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ کو تحفہ کے طور پر پیش کیا۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نکاح حضرت خدیجہ سے ہوا تو ام المومنین حضرت خدیجتہ الکبری (رض) نے حضرت زید (رض) کو ایک غلام کی حیثیت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہبہ (Gift) کردیا۔ اس طرح حضرت زید کو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کا شرف حاصل ہوا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی حضرت زید (رض) کی تربیت فرمائی اور آپ کی صلاحتیوں کو دیکھ کر ان سے محبت فرمائی۔ جب حضرت زید کے والدین کو یہ معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا مکہ مکرمہ میں ہے تو ان کے والد اور چچا حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے ار کہا کہ زید ہمارا بیٹا ہے آپ جو بھی معاوضہ طے کریں گے وہ ہم پیش کردیں گے۔ آپ زید کو آزاد کر دیجئے اور ہمارے ساتھ بھیج دیجئے۔ بنی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آپ لوگ خود زید سے پوچھ لیں اگر وہ جانا چاہتا ہے تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے لیکن اگر وہ میرے پاس رہنا چاہتا ہے تو میں ایسا آدمی ہوں کہ میرے پاس رہنا چاہے تو میں اس کو نکا دوں ۔ حضرت زید کے ولاد اور چچا نے کہا یہ تو آپ نے بہت اچھی بات کہی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس رہنا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی۔ حضرت زید (رض) نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آپ کو چھوڑ نہین جاسکتا ۔ والد اور چچا نے کہا کیا تم آزادی کے مقابلے میں غلامی پسند کرتے ہو۔ حضرت زید نے کہا میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر وہ کمالات ، اوصاف اور عظمتیں دیکھی ہیں کہ اب میں کسی اور کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ حضرت زید (رض) نے کہا میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر وہ کمالات ، اوصاف اور عظمتیں دیکھی ہیں کہ اب میں کسی اور کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ حضرت زید (رض) کا یہ جواب سن کر ان کے والد اور چچا واپس چلے گئے۔ آپ نے اسی وقت حضرت زید کو آزاد کر کے قریش کے بھرے مجمع میں اعلان کردیا کہ لوگو ! تم گواہ رہنا میں نے زید کو اپنا بیٹا بنا لیا ہے یہ مجھ سے وراثت پائے گا اور میں اس سے۔ اس کے بعد سب لوگ ان کو زید ابن محمد کہنے لگے کیونکہ اس زمانہ میں منہ بولابیٹا حقیقی اور صلبی بیٹا سمجھا جاتا تھا جو وراثت کا حق دار بھی ہوا کرتا تھا۔ اگر چہ اس دور میں یہ ایک عام بات تھی جس کا رواج تھا مگر اس کے نقصانات بھی بہت زیادہ تھے۔ اللہ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ اس رسم کو مٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کا واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو دنیا سے رنگ و نسل اور آقا و غلام کے ہر فرق کو مٹانے کے لئے مبعوث فرمائے گئے تھے آپ نے حضرت زید کا نکاح بنو قریش کی ایک آزاد ، خود مختار اور معزز خاتون جو آپ کو پھوپھی امیمہ بنت عبدالطیف کی صاحبزادی حضرت زینب تھیں ان سے کرنے کا فیصلہ فرمالیا۔ جب حضرت زینب (رض) ، ان کے گھر والوں اور قریش کو معلوم ہوا تو انہوں نے اس پر سخت اعتراض کیا کہ حضرت زید ایک آزا اد کردہ غلام تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کرکے فرمایا کہ جب اللہ اور اس کے رسو ل کسی مومن مرد یا عورت کے لئے کوئی فیصلہ کردیں تو پھر کسی کا اختیار باقی نہیں رہتا کیونکہ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی ہوئی گمراہی میں جاپڑے گا۔ اس حکم کے آنے کے بعد حضرت زینب، ان کے بھائی اور خاندان کے لوگ اس نکاح پر راضی ہوگئے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کا نکاح خود پڑھایا اور حضرت زید کی طرف سے مہر ادا کیا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ مہر دس دینار سرخ (چار تولے سونا) اور ساٹھ درہم (اٹھارہ تولے چاندی) ایک بار برداری کا جانور ، ایک زنانہ جوڑا، پچاس مد آٹا (پچیس کلو آٹا) اور دس مد (پانچ کلو ) کھجوریں دے کر رخصت کیا۔ (ابن کثیر) یہ دیکھا گیا ہے کہ اکثر میاں بیوی کے درمیان مزاجوں میں ہم آہنگی نہ ہو تو زندگی بےمزہ اور بےرونق ہو کر رہ جاتی ہے۔ حضرت زید بن حارثہ کا نکا 4 ھ میں ہوا تھا۔ مگر زیادہ عرصہ نہ گذرا تھا کہ دونوں میں بات بات پر اختلاف اور جھگڑے شروع ہوگئے یوں طلاق تک نوبت پہنچ گئی ۔ حضرت زید نے روانہ کے جھگڑوں سے تنگ آکر جب طلاق دینے کا فیصلہ کرلیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان حالات کا علم ہوا تو آپ نے ان دونوں کو اچھی طرح سمجھایا اور اللہ کے خوف سے ڈرایا مگر دونوں میں خلیج بڑھتی چلی گئی اور ایک دن حضرت زید (رض) نے حضرت زینب (رض) کو طلاق دے دی۔ اس وقت آپ کے دل میں طرح طرح کے اندیشے پیدا ہونا شروع ہوگئے جس کو ظاہر کرنا بھی مشکل تھا۔ آپ سوچتے تھے کہ جب آپ نے بنو قریش کی ایک لڑکی کا نکاح آزاد غلام سے کیا تھا اور پورے خاندان نے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے آگے اپنا سر جھکا دیا تھا مگر طلاق کے بعد یقینا پورے خاندان پر اس کا گہرا اثر پڑے گا اور سب اپنی توہین محسوس کریں گے ۔ دوسری طرف اللہ نے یہ فیصلہ فرمادیا تھا کہ اب اس رنج و غم سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عدت گذرنے کے بعد حضرت زینت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خود نکاح کرلیں تاکہ بنو قریش جس غم سے نڈھال ہیں وہ اس باہر آسکیں۔ لیکن اس میں ایک زبردست دشواری یہ تھی کہ آپ نے حضرت زید کو اپنا بیٹا بنا رکھا تھا جو اس زمانے کے دستور کے مطابق حقیقی بیٹوں کی طرح ہوتا تھا۔ اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کرنے میں کفار مشرکین کی طرف سے زبر دست پروپیگنڈے کا اندیشہ تھا۔ یہ تمام فکریں تھیں لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم یہ تھا کہ اس رسم کو آپ کے ذریعے ہی ختم کرایاجائے۔ چناچہ حضرت زینب (رض) کی عدت گذرتے ہی آپ نے حضرت زینب سے نکاح کرلیا۔ بنو قریش تو خوش تھے مگر منافقین ، کفار و مشرکین نے آپ کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفان برپا کرکے رکھ دیا کہ (حضرت ) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا۔ پروپیگنڈہ اس قدر شدید تھا کہ پرانے رسم و رواج کے دل دادہ لوگوں نے طرح طرح کی باتیں بنانا شروع کریں اس پر اللہ تعالیٰ نے آیات نازل فرمائیں اور حکم دیا کہ جب اللہ کا حکم آجائے تو پھر آپ کسی کی پرواہ نہ کریں کیونکہ آپ مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں ۔ اگر آپ اس رسم کو نہ مٹائیں گے تو پھر قیامت تک کوئی اور نبی نہیں آئے گا جو اسی بری رسم کو مٹا سکے گا ۔ اللہ تعالیٰ تمام باتوں کی حقیقت اور اس کے انجام سے پوری طرح واقف ہے۔ گویا یہ فرمایا گیا ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اللہ کے آ خری نبی اور رسول ہیں جن پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے لہذا اگر قانون اور معاشرہ میں کوئی اصلاح آپ کے زمانہ میں نہ ہوئی تو پھر آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے جو اس کمی کو پورا کرسکے گا۔ لہذا آپ اپنے اوپر برداشت کرکے اس جاہلیت کی رسم کو مٹالیں ڈالیں اور کسی کے کہنے سننے کی پر واہ نہ کریں۔ ان آیات کے سلسلہ میں چند ضروری باتیں (1) اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ ایک مومن مرد یا ایک مومن عورت کو جب اللہ اور اس کا رسول کوئی حکم دیں تو اس کے بعد سرتابی یا انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ یہ اختیار صرف اللہ اور اس کے رسول کو حاصل ہے اور کسی کو حاصل نہیں ہے لہذا اللہ و رسول کے سامنے اپنے آزادانہ اختیار کو چھوڑ دینا سب سے بڑی سعادت ہے۔ (2) قرآن کریم میں بہت سے پغمبروں کا نام لے کر ان کا ذکر کیا گیا ہے ۔ بڑے بڑے اکا صحابہ (رض) کا اشاروں میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ لیکن ان کا نام نہیں لیا گیا صرف حضرت زید (رض) ابن حارثہ کا نام لے کر ان کا ذکر فرمایا گیا ہے جو ان کی عظمت کا بہترین اظہار ہے۔ (3) حضرت زید (رض) ابن حارثہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ احسان تھا کہ آپ نے ان کی تعلیم و تربیت فرمائی۔ آپ نے ان کو اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ خاندان کی شدید مخالفت کے باوجود آپ نے ان کا نکاح اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب (رض) سے کر کے حضرت زید (رض) کی طرف سے ان کا مہر ادا کیا۔ جب دونوں میاں بیوی میں اختلاف شدت اختیار کر گئے تو آپ نے ان دونوں کو اچھی طرح سمجھایا، اللہ کے خوف سے ڈرایا اور ہر اونچ نیچ کو سمجھانے کی کوشش کی حضرت زید (رض) پر اللہ کا یہ احسان تھا کہ اس نے ان کو دولت ایمان سے مالا مال کیا۔ قرآن کریم میں ان کا نام لے کر ذکر کرنے سے ان کی عزت کو چار چاند لگا دیئے ۔ (4) جب حضرت زید (رض) نے حضرت زینب کو طلاق دے دی تو حضرت زینب کی ذہنی الجھنوں اور خاندان کی رسوائی سے آپ سخت پریشان تھے۔ جب اللہ کی طرف سے آپ کو اشارہ مل گیا کہ حضرت زینب کی عدت گذرتے ہی آپ ان سے نکاح کرلیں تو آپ کو اس سے بھی زیادہ فکر پیدا ہوگئیں کیونکہ آپ کو اس کا ڈر تھ کہ کفار و مشرکین اس نکاح پر یہ کہہ کر طعنے دیں گے کہ آپ نے اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح کرلیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب اللہ نے ایک چیز کا فیصلہ کردیا ہے اور آپ کا نکاح حضرت زینب (رض) سے کردیا تو آپ کی شان کے خلاف ہے کہ آپ اس کے بعد لوگوں کے طعنوں اور باتوں سے پریشان ہوں کیونکہ جس دل میں خوف الٰہی ہوتا ہے اس دل میں کسی دوسرے کا کوئی خوف نہیں ہوا کرتا۔ (5) آپ اگرچہ روحانی اعتبار سے ہر ایک کے باپ سے بڑھ کر ہیں مگر مردوں میں سے آپ کسی کے باپ نہیں ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے حضرت زید (رض) کو زید ابن محمد کہنا چھوڑ دیا اور آپ کو پھر سے زید (رض) ابن حارثہ کہا جانے لگا۔ (6) حضرت زید کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان نبوت فرمایا تو حضرت خدیجہ (رض) ، حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت علی مرتضیٰ کے بعد سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے ہیں۔ (7) قرآن و حدیث اور اجماع امت کا یہ متفقہ فیصلہ اور عقیدہ ہے کہ نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہر طرح کی نبوت و رسالت کی تکمیل ہوچکی ہے۔ لہذا آپ کے بعد کسی دوسرے نبی کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ اور اس کے ماننے والے تمام لوگ قطعاً کافر ہیں اور ملت اسلامیہ سے خارج ہیں اس پر تمام محدثین مفسر ین اور علماء امت متفق ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ختم نبوت کے سلسلہ میں امت کی کبھی دورائے نہیں رہی ہیں بلکہ پوری امت آج بھی اور اس سے پہلے بھی اس بات پر متفق ہے کہ آپ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں اور آپ کے بعد میں کوئی کسی طرح کا نبی آیا ہے اور نہ آئے گا۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے ماننے والے ” خاتم النبین “ کی غلط تعبیر اور تشریح کر کے جس طرح لوگوں کو جہنم کا ایندھن بنا رہے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ خاتم کا لفظ اسٹیمپ کیلئے نہیں بلکہ سیل کردینے کے لئے آیا ہے ۔ جس طرح کسی لفافے کو سیل کردیا جائے تو اس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اب یہ لفافہ بند ہوچکا ہے اور اس پر سیل لگ گئی ہے اب کوئی چیز نہ تو باہر سے اندر جاسکتی ہے اور نہ اندر سے باہر آسکتی ہے۔ ختم نبوت پو پوری امت کا پختہ یقین ہے اور وہ ان لوگوں کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں جو مرزا غلام قادیانی یا اس جیسے کسی شخص کو نبی مانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پوری امت کو اس عظیم فتنے سے محفوظ فرمائے۔ آمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ اگلی آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ جب گزشتہ آیت کے نزول پر نکاح منظور کرلیا گیا تو اتفاق سے باہم مزاجوں میں توافق نہ ہوا۔ حضرت زید (رض) نے طلاق دینا چہا، اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مشورہ کیا، آپ نے فہمائش کی کہ طلاق مت دو ، مگر جب کسی طرح موافقت نہ ہوئی آخر پھر طلاق کا عزم ظاہر کیا۔ اس وقت آپ کو وحی سے معلوم ہوا کہ زید ضرور طلاق دیں گے اور زینب کا آپ سے نکاح ہوگا، اور اس وقت مصلحت بھی یہی تھی کیونکہ اول تو یہ نکاح خلاف مرضی ہونے سے موجب رنج طبعی ہوا تھا پھر اس پر طلاق دینا اور زیادہ موجب کلفت و دل شکنی تھا، اس دل شکنی کا تدارک جس سے حضرت زینب کی اشک شوئی ہوسکتی تھی اس سے بہتر اور کوئی نہ تھا کہ حضور ان سے نکاح کر کے ان کی دلجوئی اور قدر افزائی فرمائیں۔ مگر ساتھ ہی خیال تھا طعن عوام کا، مگر حکم الہی سے نکاح ہوا، جس میں علاوہ مصلحت مذکورہ خاصہ کے مصلحت شرعیہ عامہ یہ تھی کہ متنبی کی زوجہ سے نکاح کی حلت فعل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ثابت ہوجاوے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں ذکر ہونے والے اوصاف حمیدہ کا تقاضا ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن کہلوانے کا حق نہیں رکھتا جب تک وہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کو اپنے لیے قطعی اور آخری فیصلہ تسلیم نہ کرلے۔ نبی نے معاشرے میں سماجی اونچ نیچ ختم کرنے کے لیے اپنے متبنّٰی بیٹے زید کے لیے حضرت زینب کا رشتہ اس کے قریبی رشتہ داروں سے طلب کیا زینب (رض) اور ان کے قریبی رشتہ داروں نے اسے ناپسند جانا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم قریش کے رؤسا ہیں اور زید ایک آزاد کردہ غلام ہے۔ حضرت زینب آپ کی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی بیٹی تھی انہوں نے نکاح کے پیغام کے ردعمل میں یہ الفاظ کہے کہ ” اَنَا خَیْرٌ مِنْہُ نَسَبًا “ میں زید سے نسب کے لحاظ سے اعلیٰ ہوں اس بنا پر اس نے نکاح کرنے سے انکار کردیا۔ اس پر یہ فرمان نازل ہوا۔ کہ کسی مومن مرد اور عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں فیصلہ کریں تو پھر اسے اس معاملے میں فیصلہ کرنے کا اختیار باقی رہے۔ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہوگا۔ جونہی یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ حضرت زینب اور اس کے رشتہ داروں نے اسے سنا تو انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آکر اپنی آمادگی کا اظہار کردیا۔ اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید کا نکاح حضرت زینب سے کردیا۔ تاہم ان کا آپس میں نباہ نہ ہوسکا۔ جس کا ذکر اگلی آیت میں کیا گیا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا ازواجی زندگی میں عجب واقعہ : (عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ (رض) أَنَّہٗ زَوَّجَ أُخْتَہٗ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَکَانَتْ عِنْدَہٗ مَاکَانَتْ ثُمَّ طَلَّقَھَا تَطْلِیْقَۃًلَمْ یُرَاجِعْھَا حَتَّی انْقَضَّتِ الْعِدَّۃُ فَھَوِیَھَا وَھَوِیَتْہُ ثُمَّ خَطَبَھَا مََعَ الْخُطَّابِ فَقَالَ لَہٗ یَا لُکَعْ أَکْرَمْتُکَ بِھَا وَزَوَّجْتُکَھَا فَطَلَّقْتَھَا وَاللّٰہِ لَاتُرَاجِعُ إِلَیْکَ أَبَدًا آخِرُ مَا عَلَیْکَ قَالَ فَعَلِمَ اللّٰہُ حَاجَتَہٗ إِلَیْھَا وَحَاجَتَھَا إِلٰی بَعْلِھَا فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی (وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَھُنَّ )إِلٰی قَوْلِہٖ (وَأَنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ ) فَلَمَّا سَمِعَھَا مَعْقِلٌ قَالَ سَمْعًا لِّرَبِّیْ وَطَاعَۃً ثُمَّ دَعَاہُ فَقَالَ أُزَوِّجُکَ وَأُکْرِمُکَ ) [ رواہ الترمذی : کتاب التفسیر، باب ومن سورة البقرۃ ] ” حضرت معقل بن یسار (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں مسلمانوں میں سے ایک آدمی کے ساتھ اپنی بہن کی شادی کردی وہ اس کے پاس کچھ عرصہ رہی پھر اس کے خاوندنے اسے ایک طلاق دی اور عدت گزر گئی لیکن رجوع نہ کیا۔ پھر میاں بیوی ایک دوسرے کو چاہنے لگے اس آدمی نے نکاح کے لیے آدمی بھیجا تو معقل بن یسار (رض) نے کہا ‘ کمینے ! میں نے تیری عزت کرتے ہوئے اپنی بہن کے ساتھ شادی کی اور تو نے اسے طلاق دے دی۔ اللہ کی قسم ! اب یہ کبھی بھی تیرے پاس نہیں لوٹے گی یہ آخری باری تھی۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں میاں بیوی کی خواہش کے پیش نظر آیت نازل فرمائی (وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَھُنَّ ) جب معقل بن یسار (رض) نے یہ آیت سنی تو فرمایا کہ میں نے اپنے رب کی بات کو سنا اور مان لیا۔ پھر انہوں نے اس آدمی کو بلایا اور کہا میں تیرا نکاح کرتا ہوں اور تیری عزت بھی کروں گا۔ “ مسائل ١۔ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے بعد کسی مومن مرد اور عورت کا اختیار باقی نہیں رہتا۔ ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والا واضح طور پر بھٹک جاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن ہرمؤمن اور مؤمنہ پر فرض ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم تسلیم کرے : ١۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ (الانفال : ٤٦) ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (آل عمران : ١٣٢) ٣۔ اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔ (محمد : ٣٣) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور نافرمانی سے بچو۔ (المائدۃ : ٩٢) ٥۔ اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول اور صاحب امر کی اطاعت کرو۔ (النساء : ٥٩ )

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 191 ایک نظر میں یہ سبق بھی اسلامی سوسائٹی اور اسلامی جماعت کے درمیان باہم روابط کو مضبوط کرنے کے لیے ہے۔ یہ سبق دراصل اسلامی سوسائٹی سے رسم تنبیت کو ختم کرنے اور نئے اسلامی معاشرے میں روابط کو اپنے حقیقی اصولوں پر قائم کرنے کیلئے ہے۔ اللہ نے اس رسم کو ختم کرنے کے لئے ، اس کا عملی آغاز خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کرایا۔ اہل عرب کے اندر یہ رواج تھا کہ جس طرح بیٹے کی مطلقہ حرام ہوتی ہے اسی طرح معبنی (منہ بولے بیٹے) کی مطلقہ بھی اس شخص پر حرام سمجھی جاتی تھی۔ اسلامی معاشرے میں معبنی کی مطلقہ عورت کو حلال قرار دینے کے لیے کسی مثال اور نظیر کا پایا جانا ضروری تھا۔ کسی مثال کے بغیر محض قانون بنانے سے یہ تبدیلی ممکن نہ تھی۔ چناچہ اللہ نے اس غرض کیلئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتخاب کیا اور یہ اس قدر عظیم بوجھ تھا جس طرض رسالت کا بوجھ ہوتا ہے۔ اس واقعہ کا جو رد عمل ہوا اس نے ثابت کردیا کہ رسول اللہ کے سوا کوئی اور شخص اس رسم کو نہیں توڑ سکتا تھا۔ یہ رسم معاشرے میں بہت سی گہری جڑیں رکھتی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کسی کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ ایسا انوکھا اور نامانوس کام کرسکے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد جو طویل تبصرہ آیا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کا تعلق خدا سے کیسا ہونا چاہئے۔ آپس میں کس طرح ہونا چاہئے اور ان کے درمیان نبی کے فرائض کے حوالے سے ان کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ یہ سب اقدامات لوگوں کی آسانی کے لیے کیے گئے اور اس لیے کیے گئے کہ لوگ تسلیم و رضا سے اللہ کے احکام کو دل کی خوشی کے ساتھ قبول کریں۔ اس واقعہ کے بیان سے قبل یہ اصول بیان کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم ماننا لازمی ہے۔ اگر اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی فیصلہ کردیں تو پھر مسلمانوں کو کسی بھی ایسے معاملے میں چوں چرا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اس سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسم عربوں کے اندر گہری جڑیں رکھتی تھی اور اسے آسانی سے ختم کرنا ممکن نہ تھا ۔ یہ ایک سخت رسم تھی۔ درس نمبر 191 تشریح آیات 36 ۔۔۔ تا۔۔۔ 48 وما کان لمؤمن ولا مؤمنۃ ۔۔۔۔۔۔۔ فقد ضل ضللا مبینا (36) روایات میں آتا ہے کہ یہ آیت زینب بنت جحش (رض) کے بارے میں اتری ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاہا جماعت مسلمہ کے اندر جو طبقاتی فرق پایا جاتا ہے اسے پاش پاس کردیا جائے اور لوگ اسی طرح برابر ہوجائیں جس طرح ایک کنگھی کے دندانے ہوتے ہیں۔ تقویٰ کے سوا کسی کو دوسروں پر فضیلت حاصل نہ ہو۔ اس دور میں آزاد کردہ غلاموں کو ” موالی “ کہتے ہیں۔ اور یہ لوگ عام لوگوں سے ذرا کم تر سمجھے جاتے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آزاد کردہ غلام زید ابن حادثہ ان میں سے ایک تھے۔ ان کو رسول اللہ نے معبنی بنا دیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ مثال قائم کرنا چاہی کہ بنو ہاشم کی ایک شریف زادی کے ساتھ اس کا نکاح کردیا جائے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قریبی بھی تھی یعنی زینب بنت جحش (رض) کا نکاح زید سے کردیا جائے ، تاکہ یہ طبقاتی فرق ختم ہوجائے اور یہ کام وہ خود اپنے خاندان میں کردیں۔ یہ بات یہاں نوٹ کرنا چاہئے کہ جس طرح معبنی کی رسم پختہ اور شدید تھی اسی طرح معاشرے میں آزاد شدہ غلاموں کو بھی کم درجے کے لوگ سمجھا جاتا تھا۔ اس فرق کو بھی خود حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عملی قدم ہی سے ختم کیا جاسکتا تھا تاکہ جماعت اس کی تقلید کرے اور پوری انسانیت ایک ہی راہ پر گامزن ہوجائے۔ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) سے عوفی کی ایک روایت نقل کی ہے کہ زیر تفسیر آیت ما کان ۔۔۔۔۔ کی شان نزول یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید ابن حارثہ کے لیے ایک دوشیزہ کے لیے پیغام دینا چاہا تو آپ زینب بنت جحش اسدیہ کے پاس گئے۔ آپ نے ان کو پیغام دیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں اس کے ساتھ نکاح نہیں کرنا چاہتی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اس کے ساتھ نکاح کرلو۔ اس پر اس نے کہا کہ میں اس پر غور کروں گی۔ یہ بات ہو رہی تھی کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ وما کان لمؤمن ۔۔۔۔۔۔ ورسولہ امرا (33: 36) تو اس پر زینب نے کہا رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ اس کو پسند کرتے ہیں کہ میرا نکاح اس کے ساتھ ہو تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں میں نے تو یہ فیصلہ کردیا ہے۔ تو اس پر اس نے کہا اچھا مجھے یہ رشتہ منظور ہے۔ میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کی نافرمانی نہیں کروں گی۔ میں نے اپنے آپ کو اس کے نکاح میں دے دیا۔ ابن صیعہ نے ابو عمرہ سے ، عکرمہ سے ، ابن عباس (رض) سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زینب بنت جحش کا رشتہ زید ابن حارثہ کے لیے طلب کیا۔ اس نے اسے پسند نہ کیا اور کہا میں اس سے حسب و نسب میں برتر ہوں ، یہ ایک سخت مزاج عورت تھی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ وما کان لمؤمن ولا مومنۃ (33: 36) یہی تفسیر مجاہد ، قتادہ ، مقاتل ابن حیان نے کی ہے کہ یہ آیت زینب بنت جحش کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس وقت نازل ہوئی جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا رشتہ زید ابن حارثہ کے لیے طلب فرمایا۔ پہلے اس نے انکار کیا اور پھر قبول کرلیا۔ ابن کثیر نے تفسیر میں ایک دوسری روایت بھی نقل کی ہے کہ عبد الرحمن ابن زیاد ابن اسلم کا کہنا یہ ہے کہ یہ آیت ام کلثوم بنت عقبہ ابن ابو معیط کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ صلح حدیبیہ کے بعد پہلی عورت تھی جو ہجرت کرکے آگئی تھی۔ اس نے اپنا نفس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بخش دیا تھا۔ تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اچھا میں نے قبول کرلیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے زید ابن حارثہ کے نکاح میں دے دیا (شاید زینب کے فراق کے بعد) اس پر یہ عورت اور اس کا بھائی ناراض ہوگئے۔ انہوں نے کہا ہم نے تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بخشا تھا ، انہوں نے اپنے غلام کو بخش دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ وما کان لمؤمن ۔۔۔۔۔ ورسولہ امرا (33: 36) وہ کہتے ہیں ، قرآن میں اس سے بھی زیادہ جامع حکم آیا ہے النبی اولیٰ بالمؤمنین من انفسھم (33: 6) ” نبی تمام مومنین کے لیے ان کی جانوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں “ انہوں نے کہا کہ پہلی آیت خاص ہے اور یہ جامع ہے۔ امام احمد نے ایک تیسری روایت بھی نقل کی ہے۔ عبد الرزاق سے ” معمر سے “ ثابت نباتی سے ، حضرت انس (رض) سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصاریوں کی ایک عورت کے بارے میں جلیبیب کے لیے اس عورت کے والد کو پیغام بھیجا تو اس شخص نے کہا کہ میں اس کی ماں سے مشورہ کرتا ہوں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، اچھا مشورہ کرلیں۔ یہ شخص بیوی کے پاس گیا اور اس نے اس کا تذکرہ کیا تو عورت نے کہا خدا کی قسم حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جلبیب کے علاوہ کوئی نہیں ملا۔ اور ہم نے تو فلاں فلاں کا پیغام رد کیا ہے۔ یہ لڑکی پردے میں سن رہی تھی۔ یہ شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نکلنے لگا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے انکار کر دے۔ تو اس لڑکی نے کہا کیا تم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کو رد کر رہے ہو۔ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے لیے اس بات کو پسند کرتے ہیں تو منظور کرلو۔ گویا اس نے اپنے والدین سے برتر رویہ اختیار کیا۔ دونوں نے کہا یہ ٹھیک کہتی ہے تو یہ شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا کہ اگر آپ راضی ہیں تو ہم راضی ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تو راضی ہوں۔ کہتے ہیں اس نے لڑکی جلیبیب کو نکاح کر کے دے یہ ایک آزاد کردہ غلام تھا۔ ہم نے یہاں تیسری روایت کو بھی نقل کردیا ہے جس کا تعلق جلیبیب سے تھا۔ کیونکہ اس کا تعلق ایک ایسی مہم سے ہے جس کے ذریعے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاندانی روایات کی ذہنیت کو توڑنا چاہتے تھے کیونکہ اسلام معاشرتی مساوات قائم کرنا چاہتا تھا۔ اس مہم کا مقصد یہ تھا کہ اسلامی سوسائٹی کو جدید تصورات پر استوار کیا جائے۔ اس کرہ ارض کی زندگی کے لیے اسلام نے جو قدریں وضع کیں ان کے مطابق اسلام نے لوگوں کے فضول روایاتی بندھنوں سے آزاد کرنے کا جو بیڑا اٹھایا تھا اس مہم کا تعلق اس روح سے تھا۔ بہرحال آیت کی عبارت کسی مخصوص واقعہ سے عام ہے۔ اس کا تعلق رسم تبنی کے منانے سے بھی ہوسکتا ہے۔ اس سے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ معبنی کی مطلقہ کے ساتھ نکاح جائز ہے اور اس واقعہ سے بھی ہوسکتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زینب سے نکاح کرلیا جبکہ زید نے اسے طلاق دے دی۔ اس پر مدینہ میں ایک غلغلہ بلند ہوگیا اور آج بھی بعض دشمنان اسلام اس کو بنیاد بنا کر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تنقید کرتے ہیں۔ اسی واقعہ کے اوپر انسانوں کی تہیں چڑھاتے ہیں۔ چاہے سبب نزول وہ ہو جو ان روایات میں ایا ہے یا زینب بنت جحش کے ساتھ آپ کا نکاح ہو۔ لیکن یہ اصول بہت عام ہے کہ اللہ و رسول جو فیصلہ کردیں اس کے بعد مسلمانوں کو اس موضوع پر کوئی اختیار نہیں رہتا۔ غرض اسلامی نظریہ حیات کے بنیادی عناصر میں سے یہ عنصر ایسا تھا جو پہلی جماعت مسلمہ کے دلوں میں پوری طرح بیٹھ گیا تھا۔ ان کے دلوں میں اس کا یقین آگیا تھا ، اور ان کا شعور اس میں ڈوب گیا تھا۔ یہ عنصر کیا تھا ، یہ کہ ان کے اختیار میں ، اسلام لانے کے بعد ، اب کچھ بھی نہیں رہا۔ وہ بذات خود ، ان کی تمام مملوکات ، اور ان کے جذبات سب کے سب اللہ کے اختیار میں ہیں ، وہ جس طرح چاہے ، ان کو بھر دے اور یہ کہ ان کی حیثیت وہی ہے جس طرح اس کائنات کی ہے۔ وہ اس کا حصہ ہیں۔ اور اللہ اسے جس طرح چاہتا ہے ، چلاتا ہے۔ جس طرح اللہ اس کائنات کی دوسری چیزوں کو چلاتا ہے اور اس عظیم وجود کے چلانے میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جو فرائض مقرر کر دئیے ہیں وہ ان کے مطیع ہیں۔ ان کے لیے اس عظیم اسٹیج پر جو کردار متعین کردیا گیا ہے وہ اسے پورا پورا ادا کریں گے۔ ان کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنے لیے خود کوئی کردار متعین کریں۔ کیونکہ جو قصہ انہوں نے پیش کرنا ہے وہ خود اس سے زیادہ خبردار نہیں ہیں۔ نیز وہ اپنے لئے کوئی حرکت یا کردار خود پسند نہیں کرتے ۔ اس طرح کسی بھی کھیل کا پورا کھیل بگڑ جاتا ہے ۔ وہ اس کھیل کے ڈائریکٹر نہیں ہیں۔ یہ تو کردار ہیں اور ڈائریکٹر کے مطیع فرمان ہیں۔ ان کے ساتھ ان کے کردار کا معاوضہ طے شدہ ہے۔ یہ اپنا کردار ادا کریں اور معاوضہ باقی ان کو کوئی چوں و چرا کا اختیار نہیں ہے۔ انہوں نے اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کردیا ہے۔ اسلامی نظام کے تمام اجزاء کو قبول کرلیا ہے۔ اس لیے معاہدے کے بعد اب ان کے پاس ان کے اختیار میں کوئی چیز باقی نہیں ہے اور جس طرح یہ کائنات حکم الٰہی سے چل رہی ہے یہ شریعت الہیہ کے مطابق چلیں۔ اپنی تمام حرکات میں اپنا متعین کردار ادا کریں اور اپنے مدار میں اس طرح چلیں جس طرح کر ات اپنے اپنے مدارات میں چلتے ہیں نہ ادھر نہ ادھر نہ آگے نہ پیچھے۔ تمام دوسرے کر ات کے توازن کے ساتھ۔ ان لوگوں نے سر تسلیم خم کردیا ، ان سب حادثات کے لیے جو تقدیر الٰہی نے ان کے لیے مقدر کر دئیے ہیں۔ ان کا اندرونی شعور اس بات کو تسلیم کرچکا ہے کہ جو کچھ پیش آتا ہے اللہ کے حکم سے پیش آتا ہے ایک شخص کے لیے ہر حادثہ ، ہر مالت اللہ کی آواردہ ہے اور وہ مانتے ہوئے خوشی خوشی سے ، نہایت اطمینان سے اللہ کی تقدیر کو قبول کرتا رہے۔ آہستہ آہستہ ان کی حالت یہ ہوگئی کہ وہ اللہ کے فیصلوں کو نہ سمجھتے تھے۔ جب ان پر نازل ہوجاتے۔ نہ وہ ظاہر داری کرتے ہوئے جزع و گزع سے اپنے آپ کو بچاتے تھے یا وہ کوئی تکلیف محسوس کرتے تھے مگر صبر و مصابرت سے کام لے کر خاموش ہوجاتے تھے بلکہ ان کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ فیصلوں کا استقبال کرتے تھے جیسے وہ پہلے سے خبردار ہوں اور ان کے انتظار میں ہوں۔ جو فیصلہ آرہا ہے وہ ان کے حس و شعور میں ہے۔ ان کو معلوم ہے اور ان کے ضمیر کی آواز ہے۔ کوئی اچنبھا کوئی انوکھا پن اور کوئی بدک ان کے اندر نہ پید ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یہ نہ چاہتے کہ آسمانوں کی رفتار ذرا تیز ہوجائے اور وہ کام جلدی سے ہوجائیں جو وہ چاہتے تھے۔ اور وہ یہ نہ چاہتے تھے کہ کچھ واقعات جلدی وقوع پذیر ہوں تاکہ ان کی بعض ضروریات پوری ہوجائیں۔ وہ اپنے طریقے کے مطابق تقدیر الٰہی کے ساتھ ساتھ چلتے تھے ۔ اور یہ تقدیر الٰہی جہاں ان کو پہنچا دیتی تھی وہ اس پر راضی ہوجاتے تھے ، خوش ہوتے تھے ۔ ان کے پاس جو کچھ تھا ، وہ اس راہ میں خرچ کر رہے تھے۔ جان تک قربان کردیتے تھے ، مال خرچ کردیتے تھے ، نہ جلدی کرتے ، نہ تنگی محسوس کرتے ، نہ غرور کرتے اور نہ حسرت کرتے۔ ان کو پوری طرح یقین تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے ، یہ اللہ کا فیصلہ ہے ، جو اللہ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے اور ہر کام کے لیے ایک وقت متعین ہے اور ریکارڈ شدہ معیاد ہے۔ ان کے قدم پوری طرح اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے اٹھتے تھے۔ ان کی حرکات اللہ کی ڈائریکشن کے مطابق تھیں۔ وہ امن ، بھروسے اور یقین کا پورا شعور رکھتے تھے۔ وہ نہایت سادگی ، نرمی اور آسانی سے تقدیر کے ساتھ چلتے تھے۔ اس تسلیم و رضا کا یہ اثر نہ تھا کہ وہ عمل نہ کریں یا ان کے پاس جو کچھ تھا ، اسے سب کا سب لٹا دیں ، یا وقت اور جدوجہد میں عقیدہ تقدیر میں کوئی کمی کریں۔ وہ اسباب سے قطع نظرنہ کرتے تھے۔ وہ ایسی باتیں اپنے اوپر نہ لیتے تھے جس کی ان کے اندر قدرت نہ ہو۔ مالا یطاق ہوں۔ وہ بشریت اور اس کے حدود وقیود سے بھی نہ نکلتے تھے۔ ضعیف بھی تھے ، قوی بھی تھے۔ وہ ان باتوں کا دعویٰ نہ کرتے تھے جو ان میں نہ تھیں ، وہ اس بات کو پسند نہ کرتے تھے کہ ایک کام انہوں نے نہ کیا ہو اور اس پر ان کی تعریف کی جائے ، نہ وہ ایسی باتوں کا دعویٰ کرتے تھے جو انہوں نے کی نہ ہوں۔ اللہ کی تقدیر کے سامنے مطلقاً سر تسلیم خم کردیتے اور پھر عملاً جدوجہد کرتے جہاں ان کی طاقت ہو۔ ہر کام کے درمیان انہوں نے ایک حسین توازن قائم کردیا تھا اور جو بات ان کی استطاعت میں تھی ، وہ کرتے تھے۔ جماعت اول کے کردار میں یہ توازن نہایت مکمل تھا۔ اور یہ توازن ان کا خصوصی امتیاز تھا۔ یہی توازن تھا جس کی وجہ سے وہ اس عظیم امانت کے اٹھانے کے اہل ہوئے ، جس کے اٹھانے سے پہاڑوں نے بھی انکار کردیا تھا۔ اسلام کی جماعت اول نے اپنی زندگی میں ان معجزات کو دکھایا اور حقیقت بنا دیا۔ یہ اس توازن کے مرہون منت تھے۔ اس وقت کے انسانی معاشرے ہی میں یہ معجزات رونما ہوئے۔ یہ معجزات کہ اس جماعت کی حرکات اور اعمال کسی طرح متوازن تھے کہ یہ جماعت افلاک کی طرح منظم تھی اور مربوطی کے ساتھ حرکت پذیر تھی۔ ان کے اقدامات اور اعمال اسی طرح تھے جس طرح زمانے کی گردش مربوط ہے۔ یہ لوگ فطرت کے ساتھ متصادم نہ تھے اور نہ الجھتے تھے کہ گردش زمانہ ان کو الجھادے بلکہ وہ نظام قضا و قدر جس کا ایک حصہ گردش زمانی ہے ، اس کے ساتھ چلتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک نہایت ہی مختصر عرصے میں وہ نتائج پیدا کر دئیے جو تاریخ پیدا نہ کرسکی۔ یہ انقلاب یوں برپا ہوا کہ وہ اپنے عمل میں اس پوری کائنات کی حرکت کے ساتھ چلتے تھے۔ اللہ کی تقدیر کے مطابق قدم اٹھاتے تھے۔ یہی انقلاب تھا جس نے معجزات صادر کیے۔ یہ معجزات اس ذات نے پیدا کیے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ جس نے کواکب و افلاک کو پیدا کیا اور جس نے پہلی جماعت کو اس طرح راضی برضائے تقدیر الٰہی کیا جس طرح افلاک تقدیر العزیز العلیم سے سر مو انحراف نہیں کرسکتے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی طرف قرآن کریم کی بیشتر آیات اشارہ کر رہی ہیں۔ اللہ فرماتے ہیں انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشآء ” تم ہدایت نہیں دے سکتے جن کو محبوب سمجھو بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ، ہدایت دیتا ہے “۔ اور دوسری جگہ ہے : لیس علیک ھداھم ولکن یھدی من یشآء ” تم پر ان کی ہدایت کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ، ہدایت دیتا ہے “۔ دوسری جگہ ان الھدی ھدی اللہ ” ہدایت اللہ ہی کی ہدایت ہے “۔ یہ ہے ہدایت اپنی عظیم حقیقت کے حوالے سے اور اپنے وسیع مفہوم میں۔ یعنی یہ راہنمائی کہ اس عظیم کائنات میں انسان کا مقام کیا ہے اور یہ کہ اس کی حرکت ، حرکت کائنات سے ہم آہنگ ہوجائے۔ انسانی جدوجہد اس وقت تک بار آور نہیں ہوسکتی جب تک انسان کا دل اس مفہوم میں ہدایت یافتہ نہ ہو۔ ایک فرد کی جدوجہد اس کائنات کی حرکت کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو۔ اور جب تک انسانی شعور و ضمیر تقدیر الٰہی پر راضی نہ ہو ، بایں مفہوم کہ یہاں جو واقعہ ہوتا ہے ، وہ اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے۔ اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی یہ آیت وما کان لمومن ولامومنۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔ من امرھم (33: 36) ” کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے “۔ کسی مخصوص واقعہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ یہ زیادہ عام ، شامل اور کامل اصول ہے اور دور رس نتائج کا حامل ہے۔ یہ اسلامی نظام کا ایک بنیادی دستوری اصول ہے۔ اس کے بعد زینت بنت جحش کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاملہ آتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم ہوجائے تو اس پر عمل کرنا لازم ہے، خلاف ورزی کرنا جائز نہیں عرب میں یہ دستور تھا کہ دوسروں کی اولاد کو بیٹا بنالیا کرتے تھے اور جو شخص بیٹا بناتا تھا اسی کی طرف نسبت کرکے اِبْنِ فُلاَنٍ کہتے تھے، اور ایک رواج یہ بھی تھا کہ لوگ چلتے پھرتے کسی بچہ کو لے کر کسی شہر میں لے جاتے جہاں کوئی پہچانتا نہ ہوتا وہاں اسے اپنا غلام بنا کر بیچ دیتے تھے۔ زید بن حارثہ (رض) کا تعارف زید بن حارثہ (رض) اپنی والدہ کے ساتھ ننھیال جا رہے تھے کہ کچھ لوگوں نے ان پر قبضہ کرلیا جبکہ ان کی عمر آٹھ سال تھی، پھر انہیں مکہ معظمہ لے آئے اور سوق بنی عکاظ میں (جو مکہ معظمہ کے قریب ایک بازار لگتا تھا) میں اپنا غلام بتا کر فروخت کردیا، حکیم بن حزام بن خویلد نے اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ (رض) کے لیے چار سو درہم میں خرید لیا، جب حضرت خدیجہ (رض) نے انہیں اپنا بیٹا بنالیا اور انہیں زید بن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام سے بلایا جانے لگا۔ حضرت زید بن حارثہ کے والد کو پتہ چلا کہ میرے بیٹے کو فلاں قوم کے لوگوں نے مکہ معظمہ میں لے جاکر بیچ دیا ہے اور وہ وہاں موجود ہے تو وہ حضرت زید (رض) کو چھڑانے کے لیے مکہ معظمہ آئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ آپ اس کے عوض اتنا اتنا مال لے لیں اور اسے چھوڑ دیں تاکہ ہم اسے اپنے ساتھ لے جائیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر وہ تمہارے ساتھ جانا گوارہ کرے تو مفت میں ہی لے جاؤ ہمیں کوئی پیسہ دینے کی ضرورت نہیں، زید کے والد نے کہا : (لقد زدتنا علی النصفۃ) یہ بات تو آپ نے انصاف سے بھی آگے بڑھ کر فرما دی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رواج کے مطابق نہ چھوڑنے کا بھی حق تھا اور پیسے لے کر چھوڑ دینا آپ کا کرم تھا لیکن جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرما دیا کہ مفت میں ہی لے جاؤ تو یہ تو کرم بالائے کرم اور احسان پر احسان ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید سے فرمایا کہ جانتے ہو یہ کون ہیں ؟ عرض کیا یہ میرے والد ہیں اور یہ میرے چچا ہیں، آپ نے فرمایا تم مجھے بھی جانتے ہو اور انہیں بھی پہچانتے ہو، میری صحبت میں اٹھ چکے ہو اب تمہیں اختیار ہے کہ چاہو تو میرے پاس رہو چاہو تو اپنے گھر چلے جاؤ، اس پر انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس رہنے کو ترجیح دی اور اپنے باپ کے ساتھ جانا گوارا نہ کیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق عالیہ، حسن سلوک اور شفقت و محبت کے سامنے انہوں نے اپنے باپ کے ساتھ جانا اور کنبہ و قبیلہ میں رہنا منظور نہ کیا اور عرض کیا کہ آپ میرے لیے باپ اور چچا کی جگہ ہیں، باپ اور چچا نے کہا اے زید افسوس کی بات ہے کہ تم نے آزادی کے مقابلہ میں غلامی کو پسند کیا اور اپنے باپ اور چچا اور سب گھر والوں پر کسی دوسرے شخص کو ترجیح دیتے ہو، حضرت زید (رض) نے کہا کہ ہاں میں نے ان میں ایسی صفات دیکھی ہیں کہ ان کو جانتے ہوئے کسی دوسرے کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ یہ پورا واقعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبوت سے سرفراز کیے جانے سے پہلے کا ہے، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت عطا کی گئی تو جن حضرات نے قبول اسلام کی طرف سبقت کی ان میں حضرت زید بن حارثہ (رض) بھی تھے، ایک اور قول کے مطابق مردوں میں سے وہ سب سے پہلے فرد تھے جنہوں نے قبول اسلام کی طرف سبقت کی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی باندی بر کہ حبشیہ سے ان کا نکاح کردیا تھا جن کی کنیت ام ایمن تھی، یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے والد ماجد کی میراث میں (اور ایک قول کے مطابق والدہ کی میراث میں) ملی تھیں اور یہی وہ خاتون ہیں جو آپ کی والدہ ماجدہ کی وفات کے بعد مقام ابوا سے آپ کو چھوٹی سی عمر میں مکہ معظمہ لے کر آئی تھیں، حضرت ام ایمن (رض) سے حضرت اسامہ بن زید پیدا ہوئے جنہیں (حبٌ رسول اللّٰہ) ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیارا) کہا جاتا تھا۔ ایک عرصہ تک حضرت زید (رض) کو زید بن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کہا جاتا رہا پھر جب قرآن مجید کی آیت (اُدْعُوْھُمْ لِاٰبَآءِھِمْ ھُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ ) نازل ہوئی (جو کہ اسی سورت کے پہلے رکوع کی آیات میں سے ہے) تو زید بن حارثہ کہا جانے لگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جو منہ بولے بیٹے ہیں ان کی نسبت ان کے باپوں کی طرف کرو۔ زید بن حارثہ (رض) سے زینب بنت جحش (رض) کا نکاح اور طلاق پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید بن حارثہ کا نکاح اپنی پھوپھی کی بیٹی زینب بنت جحش (رض) کے ساتھ کردیا تھا، حضرت زینب (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمانے پر اس نکاح کو قبول تو کرلیا تھا لیکن باہمی مزاج میں موافقت نہ ہوئی، حضرت زید (رض) چاہتے تھے کہ ان کو طلاق دے دیں لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں اس سے باز رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں روکے رکھو لیکن انہوں نے طلاق دے ہی دی، جب انہوں نے طلاق دے دی تو اللہ تعالیٰ نے بنت جحش (رض) کا نکاح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کردیا۔ یہاں اسی کو فرمایا (فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْھَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَھَا) (جب زید نے ان سے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے اس سے آپ کا نکاح کردیا) جب یہ آیت نازل ہوگئی تو آپ بلا اذن و اجازت حضرت زینب (رض) کے پاس تشریف لے گئے اس سے پہلے بھی (زید کی طلاق کی عدت گزرنے کے بعد) آپ نے حضرت زید (رض) ہی کو اپنا پیغام دے کر بھیجا تھا لیکن حضرت زینب (رض) نے جواب میں یوں کہہ دیا تھا کہ میں استخارہ کرکے جواب دوں گی۔ اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت زینب (رض) کا نکاح کردیا، اس پر وہ بھی فخر کیا کرتی تھیں اور دوسری ازواج مطہرات سے کہا کرتی تھیں کہ تمہارے نکاح تمہارے اولیاء نے کیے اور میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے کیا۔ اس ساری تفصیل کو سامنے رکھ کر آیات بالا کی تفسیر سمجھئے، آیت کریمہ (وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ ) کا ترجمہ دیکھ لیجیے جو اوپر مذکور ہوا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زید بن حارثہ کے نکاح کا پیغام لے کر حضرت زینب بنت جحش (رض) کے پاس تشریف لے گئے، انہوں نے عرض کیا کہ میں ان سے نکاح نہیں کروں گی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم انکار نہ کرو ان سے نکاح کرلو، کہنے لگیں کہ اچھا میں پھر اپنے نفس سے مشورہ کرلوں یعنی مجھے سوچ و بچار کا موقع دیا جائے، ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آیت کریمہ (وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ ) (آخر تک) نازل فرما دی، اور حضرت زینب (رض) نے عرض کردیا کہ میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی نہ کروں گی میں نے زید سے اپنا نکاح کردیا۔ مفسر ابن کثیر (رض) نے اپنی تفسیر میں یہ سبب نزول لکھا ہے (جلد ٣ ص ٤٨٩) اور تفسیر روح المعانی میں ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زینب بنت جحش (رض) کو زید بن حارثہ کے لیے پیغام دیا تو انہوں نے کہا کہ زید میرے میل کے نہیں میں مرتبہ کے اعتبار سے ان سے بہتر ہوں، اور ان کے بھائی عبد اللہ بن جحش بھی یہی بات کہنے لگے (یہ انہوں نے اس لیے کہا کہ حضرت زید (رض) پر غلامی کا دھبہ لگ گیا تھا اور قریشی بھی نہ تھے) پھر جب آیت کریمہ نازل ہوگئی تو دونوں بہن بھائی راضی ہوگئے۔ (جلد ٢٢: ص ٢٣) آیت شریفہ کا سبب نزول گو خاص ہے لیکن اس کا مفہوم عام ہے جیسا کہ دیگر آیات کے اسباب نزول کے بارے میں مفسرین یہی فرماتے ہیں۔ آیت کریمہ سے واضح طور پر معلوم ہوگیا کہ کسی بھی مومن مرد اور عورت کے لیے یہ گنجائش نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی حکم آجائے تو اس کے کرنے نہ کرنے کا اختیار باقی رہے، جو حکم مل جائے اس پر عمل کرنا ہی کرنا ہے، اسلام سراپا فرمانبرداری کا نام ہے، یہ جو آج کل لوگوں کا طریقہ ہے کہ مسلمانی کے دعویدار بھی ہیں لیکن احکام شرعیہ پر عمل کرنے کو تیار نہیں، یہ اہل ایمان کا طریقہ نہیں، جب قرآن حدیث کی کوئی بات سامنے آتی ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ آج کل اس پر عمل نہیں ہوسکتا (العیاذ باللہ) معاشرت اور معاملات اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں قصداً و ارادۃً قرآن حدیث کے خلاف چلتے ہیں یہ سراسر بےدینی ہے، جیسا کہ آیت کریمہ کے ختم پر فرمایا : (وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا) (اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے سو وہ کھلی ہوئی گمراہی میں جاپڑا) فرائض اور واجبات کو چھوڑنے کی تو کوئی گنجائش نہیں ہے اور سنن و نوافل کی ادائیگی کی بھی حرص کرنا چاہیے، جس کا فرمانبرداری کا مزاج نہیں ہوتا تو وہ پہلے سنتوں سے بچتا ہے پھر واجبات چھوڑنے لگتا ہے پھر فرائض کی ادائیگی کا اہتمام ختم ہوجاتا ہے حتیٰ کہ شیطان وسوسے ڈال کر ایمان سے بھی ہٹانے کی کوشش کرتا ہے، خیریت اسی میں ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے حکم ملا ہے دل و جان سے قبول کرے، نیم دروں نیم بروں، مسلمان بھی ہیں اور نہیں بھی، یہ گمراہی کا طریقہ ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

38:۔ وما کان الخ، یہ ترک اطاعت پر تخویف و تہدید ہے مومن مرد و عورت دل و جان سے اسے تسلیم کرنے میں توقف نہ کرے جو اللہ اور رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

36۔ اور کسی ایماندار مرد اور کسی ایماندار عورت کو یہ بات لائق اور مناسب نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کام کا حکم دے دے تو پھر ان مومن مردوں یا عورتوں کو اس کام کا کوئی اختیار باقی رہے اور جو کوئی شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کا مرتکب ہوا تو یقینا وہ کھلی ہوئی گمراہی میں پڑا ۔ یعنی جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا حکم کر دے تو بھی مومن مرد یا مومن عورت کو اختیار شرعی باقی نہیں رہتا کہ چاہے اس کام کو کرے یا نہ کرے بلکہ اس حکم کی تعمیل واجب ہوتی ہے اور جو کوئی اس حکم کے بجا لانے میں سرتابی یا پس و پیش کرے گا تو ایسا کرنے والا صریح گمراہی میں مبتلا ہوگا یعنی حکم کی تعمیل میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ یہ شاید تمہید ہے حضرت زینب (رض) کی طلاق اور نکاح کی جیسا کہ شروع سورت میں بیان ہوا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت زینب (رض) رسول خدا کی پھوپھی کی بیٹی اور قوم میں اشراف ، حضرت نے چاہا کہ ان کو نکاح کردیں زید بن حارث سے یہ زید اصل عرب تھے ظالم پکڑے گئے لڑکن میں شہر مکہ میں بکے ۔ حضرت نے مول لیا دس برس کی عمر میں ان کے باپ بھائی خبر پا کر آئے مانگنے کو حضر ن دینے پر راضی ہوئے یہ گھر جانے پر راضی نہ ہوئے ۔ حضرت کی محبت سے پھر حضرت نے ان کو بیٹا کرلیا اسلام سے پہلے اس وقت کے رواج کے موافق حضرت زینب اور ان کے بھائی راضی نہ ہوئے اس بات پر یہ آیت اتری پھر نکاح کردیا۔ 12۔ حضرت زینب بنت حجش (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی امیمہ کے بطن سے ہیں ان کے بھائی کا نام عبد اللہ بن حجش ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلی مرتبہ پیام دیا تو عبد اللہ راضی ہوگئے تھے پھر انکار کیا اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ پہلی مرتبہ کے پیام کو یہ سمجھتے کہ شاید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے لئے چاہتے ہیں مگر جب ان کو معلوم ہوا کہ آپ زید بن حارث کیلئے طلب کرتے ہیں تو انہوں نے انکار کردیا کیونکہ اس زمانے کا رواج تھا کہ قریشی لڑکی کسی ایسے شخص کے نکا ح میں نہیں دی جاتی تھی جو غلام رہ چکا ہو اور ظاہر ہے کہ زید پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زر خرید غلام تھے بعد میں آپ نے اس کو آزاد کر کے لیے پالک بیٹا بنا لیا تھا۔ اس حکم کے بعد عبد اللہ (رض) اور زینب (رض) زید کے ساتھ نکاح کرنے پر رضا مند ہوئے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم دینے کے بعد کوئی چارہ نہ رہا ۔ جب حضرت زینب (رض) سے زید (رض) کا نکاح ہوا تب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پاس سے دس دینار اور ساٹھ درہم ایک اوڑھنی ایک کرتا ، ایک تہبند ، ایک چادر ، پچاس مدغلہ اور تیس صاع کھجوریں حضرت زینب (رض) کو بھیجیں اور یہ نکاح ہوگیا لیکن مزاجوں میں موافقت نہ ہوئی وہ قریشی لڑکی زید کو خاطر میں نہ لاتی تھی زید ملول ہوتے تھے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر بیوی کے برے برتائو اور کج خلقی کی شکایت کرتے تھے غرض جو غیر کفو اور بےجوڑ رشتوں میں باتیں ہوا کرتی ہیں وہ ہوتی تھیں کبھی وہ یہ بھی کہتے تھے کہ میں طلاق دے دیتا ہوں۔ غرض ! ا ن پیچیدگیوں کی وجہ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت متامل تھے زید (رض) کو سمجھاتے تھے کہ طلاق نہ دے پھر یہ بھی سوچتے تھے کہ اگر اس نے طلاق دیدی تو زینب (رض) کے تالیف قلوب کی کیا صورت ہوگی غرض اس کا بیان آگے آتا ہے۔