Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
--- |
--- |
--- |
--- |
--- |
--- |
اَلْوَعْدُ: (وعدہ کرنا) کا لفظ خیر وشر (یعنی اچھے اور برے وعدہ) دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں وَعَدَ یَعِدُ وَعْدَا وَّمَوْعِدَا وَمِیْعَادًا استعمال ہوتا ہے۔مگر اَلْوَعِیْدُ کا لفظ خاص کر شر (یعنی دھمکی اور تہدید) کے لئے بولا جاتا ہے اور اس معنی میں باب اَوْعَدَ (تَوَعَّدَ) استعمال ہوتا ہے اور وَاعَدْتُہٗ (مُفَاعَلَۃ) وَتَوَاعَدْنَا) (تفاعل) کے معنی باہم عہدوپیمان کرنا کے ہیں قرآن کریم میں وَعْدٌ کا لفظ خیر وشر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے (چنانچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا) (اِنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُمۡ وَعۡدَ الۡحَقِّ ) (۱۴۔۲۲) جو وعدہ خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا (اَفَمَنۡ وَّعَدۡنٰہُ وَعۡدًا حَسَنًا) (۲۸۔۶۱) بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا۔ (وَعَدَکُمُ اللّٰہُ مَغَانِمَ کَثِیۡرَۃً ) (۴۸۔۲۰) خدا نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا:۔ (وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا) (۲۴۔۵۵) جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ان سے خدا کا وعدہ ہے۔الغرض اس قسم کی بہت سی آیات ہیں جن میں وَعَدَ کا لفظ خیر کے متعلق استعمال ہوا ہے اور وعدہ شر یعنی وعید کے معنی میں فرمایا۔ (وَ یَسۡتَعۡجِلُوۡنَکَ بِالۡعَذَابِ وَ لَنۡ یُّخۡلِفَ اللّٰہُ وَعۡدَہٗ) (۲۲۔۴۷) اور یہ لوگ تم سے عذاب کے لئے جلدی کررہے ہیں اور خدا اپنا وعدہ ہرگز خلاف نہیں کرے گا۔کفار چونکہ آنحضرتﷺ سے عذاب کے جلد آنے کا مطالبہ کرتے تھے اس لئے لَنْ یُّخْلِفَ اﷲُ وَعْدَہٗ میں وَعْدٌ بمعنی وَعْیَدٌ ہوگا نیز فرمایا:۔ (قُلۡ اَفَاُنَبِّئُکُمۡ بِشَرٍّ مِّنۡ ذٰلِکُمۡ ؕ اَلنَّارُ ؕ وَعَدَہَا اللّٰہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا) (۲۲۔۷۲) کہہ دو کہ میں تم کو اس سے بھی بری چیز بتاؤں؟وہ دوزخ کی آگ ہے جس کا خدا نے کافروں سے وعدہ کیا ہے۔ (اِنَّ مَوۡعِدَہُمُ الصُّبۡحُ) (۱۱۔۸۱) ان کے عذاب کے وعدے کا وقت صبح ہے۔ (فَاۡتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ ) (۷۔۷) تو جس چیز سے ہمیں ڈراتے ہو اسے لے آؤ۔ (وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعۡضَ الَّذِیۡ نَعِدُہُمۡ) (۱۰۔۴۶) اگر ہم کوئی عذاب جس کا ان لوگوں سے وعدہ کرتے ہیں تمہاری آنکھوں کے سامنے (نازل) کریں۔ (فَلَا تَحۡسَبَنَّ اللّٰہَ مُخۡلِفَ وَعۡدِہٖ رُسُلَہٗ ) (۱۴۔۴۷) تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے۔اس کے خلاف کرے گا۔ (اَلشَّیۡطٰنُ یَعِدُکُمُ الۡفَقۡرَ ) (۲۔۲۶۸) اور دیکھنا شیطان (کا کہا نہ ماننا وہ) تمہیں تنگدستی کا خوف دلاتا ہے۔اور کبھی وعد کا لفظ عام معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی بیک وقت خیروشر دونوں معنی مراد ہوتے ہیں۔چنانچہ آیت کریمہ:۔ (اَلَاۤ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ) (۱۰۔۵۵) اور یہ بھی سن رکھو کہ خدا کا وعدہ سچا ہے۔ (اِنَّ مَا تُوۡعَدُوۡنَ لَاٰتٍ) (۶۔۱۳۴) کچھ شک نہیں کہ جو وعدہ تم سے کیا جاتا ہے وہ وقوع میں آنے والا ہے۔میں قیامت کے روز جزائے اعمال کا وعدہ مراد ہے کہ اگر اعمال اچھے ہوں گے تو نتائج بھی خوشگوار ہوں گے اگر برے ہوں گے تو نتائج بھی تباہ کن ہوں گے۔ اَلْمَوْعِدُ وَالْمِیْعَادُ:یہ دونوں لفظ کبھی مصدر اور کبھی اسم ظرف بن کر استعمال ہوتے ہیں اور اسم ظرف ہونے کی صورت میں ان سے وعدہ کا زمانہ یا مقدم وعدہ مراد ہے چنانچہ فرمایا: (فَاجۡعَلۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکَ مَوۡعِدًا) (۲۰۔۵۸) تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو۔ (بَلۡ زَعَمۡتُمۡ اَلَّنۡ نَّجۡعَلَ لَکُمۡ مَّوۡعِدًا) (۱۸۔۴۸) لیکن تم نے یہ خیال کررکھا تھا کہ ہم نے تمہارے لئے قیامت کا کوئی وقت مقرر ہی نہیں کیا۔ (مَوۡعِدُکُمۡ یَوۡمُ الزِّیۡنَۃِ ) (۲۰۔۵۹) (موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ) آپ کے لئے یوم زینت کا وعدہ ہے۔ (بَلۡ لَّہُمۡ مَّوۡعِدٌ لَّنۡ یَّجِدُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖ مَوۡئِلًا ) (۱۸۔۵۸) مگر ان کے لئے ایک وقت مقرر کررکھا ہے کہ اس کے عذاب سے کوئی پناہ کی جگہ نہ پائیں گے۔ (قُلۡ لَّکُمۡ مِّیۡعَادُ ) (۳۴۔۳۰) کہہ دو کہ تم سے ایک دن کا وعدہ ہے۔ (وَ لَوۡ تَوَاعَدۡتُّمۡ لَاخۡتَلَفۡتُمۡ فِی الۡمِیۡعٰدِ) (۸۔۴۲) اگر تم جنگ کے لئے آپس میں قرارداد کرلیتے تو وقت معین پر جمع ہونے میں تقدیم و تاخیر ہوجاتی اور لفظ مُوَاعَدَۃ (مفاعلۃ) کے متعلق فرمایا: (وَ لٰکِنۡ لَّا تُوَاعِدُوۡہُنَّ سِرًّا ) (۲۔۲۳۵) مگر پوشیدہ طور پر ان سے قول و قرار نہ کرنا۔ (وَ وٰعَدۡنَا مُوۡسٰی ثَلٰثِیۡنَ لَیۡلَۃً ) (۷۔۱۴۲) اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام سے تیس رات کی میعاد مقرر کی۔ (وَ اِذۡ وٰعَدۡنَا مُوۡسٰۤی اَرۡبَعِیۡنَ لَیۡلَۃً ) (۲۔۵۱) اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام سے چالیس رات کی میعاد مقرر کی۔ان دونوں آیتوں میں ثَلَاثِیْنَ وَاَرْبَعِیْنَ وَاعَدْنَا کی ظرف نہیں ہیں بلکہ مفعول بہ ہیں اور ان کا مضاف مخذوف ہے یعنی اِنْقَضَائَ ثَلَاثِیْنَ وَاَرْبَعِیْنَ یعنی تیس اور چالیس رات کے گزرنے کا وعدہ کیا اور آیت۔ (وَ وٰعَدۡنٰکُمۡ جَانِبَ الطُّوۡرِ الۡاَیۡمَنَ ) (۲۰۔۸۰) اور (تو رات دینے کے لئے) تم سے کوہ طور کی داہنی طرف مقرر کی۔میں بھی یہی تاویل ہوگی یعنی یہاں جَانِبَ الطُّوْرِ الْاَیْمَنَ ظرف نہیں ہے بلکہ مفعول بہ ہے اور اس کا مضاف محذوف ہے یعنی اِتْیَانَ جَانِبِ الطُّوْرَ الْاَیْمَن۔اور آیت (وَ الۡیَوۡمِ الۡمَوۡعُوۡدِ) (۸۵۔۲) اور اس دن کی جس کا وعدہ ہے میں یوم موعود سے قیامت مراد ہے جیسا کہ آیت۔ (مِیۡقَاتِ یَوۡمٍ مَّعۡلُوۡمٍ) (۵۶۔۵۰) سب ایک روز مقرر کے وقت پر جمع کیے جائیں گے۔میںمیقات یوم معلوم قیامت کا دن مراد ہے۔اور اَلْاِیْعَادُ (افعال) بمعنی تہدید کے متعلق فرمایا:۔ (وَ لَا تَقۡعُدُوۡا بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوۡعِدُوۡنَ وَ تَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ) (۷۔۸۶) اور ہر راستے پر مت بیٹھا کرو کہ تم ڈراتے اور راہ خدا سے روکتے ہو۔اور لفظ وعید کے متعلق ارشاد ہے۔ (ذٰلِکَ لِمَنۡ خَافَ مَقَامِیۡ وَ خَافَ وَعِیۡدِ) (۱۴۔۱۴) یہ اس شخص کے لئے جو قیامت کے روز میرے سامنے کھڑے ہوئے سے ڈرے اور میرے عذاب سے خوف کرے۔ (فَذَکِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مَنۡ یَّخَافُ وَعِیۡدِ) (۵۰۔۴۵) پس جو ہمارے عذاب کی وعید سے ڈرے اس کو قرآن پاک سے نصیحت کرتے رہو۔ (لَا تَخۡتَصِمُوۡا لَدَیَّ وَ قَدۡ قَدَّمۡتُ اِلَیۡکُمۡ بِالۡوَعِیۡدِ) (۵۰۔۲۸) ہمارے حضور میں ردوکد نہ کرو۔ہم تمہارے پاس پہلے ہی عذاب کی وعید بھیج چکے تھے۔اور محاورہ ہے۔رَأَیْتُ اَرْضَھُمْ وَاعِدَۃَ:یعنی ان کی زمین سے اچھی پیداوار کی امید ہے۔یَوْمٌ وَاعِدٌ:بہت گرم یا بہت سرد دن۔ وَعِیْدُ الْفَحْلِ:حملہ کے وقت نر اونٹ کا بڑبڑانا اور آیت:۔ (وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ) (۲۴۔۵۵) اور جو لوگ تم سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنادے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا،میں لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ الخ وعدہ کی تفسیر ہے۔جیسا کہ آیت:۔ (یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ ٭ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ) (۴۔۱۱) خدا تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصہ کے برابر ہے۔میں جملہ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِ الْاُنْثَیَیْنِ:وصیت کی تفسیر واقع ہوا ہے۔اور آیت۔ (وَ اِذۡ یَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحۡدَی الطَّآئِفَتَیۡنِ اَنَّہَا لَکُمۡ ) (۸۔۷) اس وقت کو یاد کرو جب تم سے خدا وعدہ کرتا تھا کہ دو گروہوں میں سے ایک گروہ تمہارا مسخر ہوجائے گا۔میں اَنَّھَالَکُمْ اِجْدَی الْطَائِفَتَیْنِ سے بدل ہے اور اصل عبادت یوں ہے۔وَعَدَکُمُ اﷲ اَنَّ اِحْدَی الطَّآئِفَتَیْنِ لَکُمْ یعنی یا تو قافلہ ہاتھ لگے گا اور یا لشکر سے مقابلہ ہوگا اور مال غنیمت حاصل ہوگا۔ اَلْعِدَۃ:یہ وَعْدٌ سے اسم ہے اور اسکی جمع عِدَاتٌ آتی ہے اور وعد کا لفظ مصدر ہے جس کی جمع نہیں آتی اور وَعَدْتُ دو مفعول کو چاہتا ہے اور دوسرا مفعول ظرف زمان،مکان یا کوئی اور چیز ہوتی ہے جیسے وَعَدْتُ زَیْدًا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ اَوْ مَکَانَ کَذَا اَوْ اَنْ اَفْعَلَ کَذَا وغیرہ۔پس آیت وَاعَدْنَا مُوْسٰی اَرْبَعِیْنَ لَیْلِۃَ میں وَاعَدْنَا کا دوسرا مفعول اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً نہیں ہوسکتا کیونکہ وعدہ کا وقوع اربعین کے اندر نہیں ہوا بلکہ اس کے بعد ہوا ہے لہذا اس کا دوسرا مفعول اِنْقَضَائَ الْاَرْبَعِیْنَ یَا تَمَامِ الْاَرْبَعِیْنَ ہوگا ورنہ اس کے بغیر کلام صحیح نہیں ہوسکتا۔
Surah:33Verse:37 |
حاجت کو
necessary (formalities)
|
|
Surah:33Verse:37 |
حاجت کو
necessary (formalities)
|