Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 45

سورة الأحزاب

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿ۙ۴۵﴾

O Prophet, indeed We have sent you as a witness and a bringer of good tidings and a warner.

اے نبی! یقیناً ہم نے ہی آپ کو ( رسول بنا کر ) گواہیاں دینے والا خوشخبریاں سنانے والا آگاہ کرنے والا بھیجا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Attributes of the Messenger of Allah Allah says: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ ... O Prophet! Verily, We have sent you, Imam Ahmad recorded that Ata' bin Yasar said that he met Abdullah bin `Amr bin Al-`As, may Allah be pleased with him, and said to him: "Tell me about the description of the Messenger of Allah in the Tawrah." He said, "Yes, by Allah, he was described in the Tawrah with some of the qualities with which he was described in the Qur'an: `O Prophet! Verily, We have sent you as witness, and a bearer of glad tidings, and a warner, a saviour to the illiterate. You are My servant and My Messenger and I have called you Al-Mutawakkil (reliant). You are not harsh or severe, or noisy in the marketplaces. You do not repay evil with evil, but you overlook and forgive. Allah will not take your soul until you make straight those who have deviated and they say La ilaha illallah, words with which blind eyes, deaf ears and sealed hearts will be opened'." It was also recorded by Al-Bukhari in the Books of Business and At-Tafsir. Wahb bin Munabbih said: "Allah revealed to one of the Prophets of the Children of Israel whose name was Sha`ya' (Isaiah); `Stand up among your people the Children of Israel and I shall cause your tongue to utter (words of) revelation. I shall send an unlettered (Prophet) from among the illiterate (people). - He will not be harsh or severe, or noisy in the marketplaces. - If he were to pass by a lamp, it would not be extinguished, because of his tranquility. - If he were to walk on reeds no sound would be heard from under his feet. - I will send him as a bearer of glad tidings and as a warner, who will never utter immoral speech. - Through him I will open blind eyes, deaf ears and sealed hearts. - I will guide him to do every good deed and I will bestow upon him every noble characteristic. - I will make tranquility his garment, righteousness his banner, piety his conscience, wisdom his speech, truthfulness and loyalty his nature, tolerance and goodness his character, truth his way, justice his conduct, guidance his leader, Islam his nation. - Ahmad is his name and through him I will guide people after they have gone astray, teach them after they have been ignorant, raise their status after they were nothing, make them known after they were unknown, increase the number (of followers of the truth) after they have been few, make them rich after they have been poor, and bring them together after they have been divided. - Through him I will bring together different nations and hearts, and reconcile opposing desires. - Through him I will save great numbers of people from their doom. - I will make his Ummah the best of peoples ever raised up for mankind; they will enjoin good and forbid evil, sincerely believing in Me Alone and accepting as truth all that My Messengers have brought. - I shall inspire them to glorify, praise and magnify Me Alone in their places of worship and in their gatherings, when they lie down and when they return home. They will pray to Me standing and sitting. - They will fight for the sake of Allah in ranks and armies. - They will go forth from their homes by the thousand, seeking My pleasure, washing their faces and limbs, girding their loins. Their sacrifice will be their blood and their holy Book will be in their hearts. - They will be like monks by night and like lions by day. - Among the members of his family and his offspring I will make those who are foremost (in faith) and believers in the truth and martyrs and righteous people. - His Ummah after him will lead people with truth and establish justice therewith. - I will give strength to those who support them and help those who pray for them, and I will inflict defeat upon those who oppose them or transgress against them or seek to take something from their hands. - I will make them the heirs of their Prophet, calling people to their Lord, enjoining what is good, forbidding what is evil, establishing regular prayer, paying the Zakah and fulfilling their promises. - Through them I will complete the goodness which I started with the first of them. This is My bounty which I bestow upon whomsoever I will, and I am the Possessor of great bounty."' ... شَاهِدًا ... as witness, means, a witness to Allah's Oneness, for there is no God except He, and a witness against mankind for their deeds on the Day of Resurrection. وَجِيْنَا بِكَ عَلَى هَـوُلاءِ شَهِيداً and We bring you as a witness against these people. (4:41) This is like the Ayah: لِّتَكُونُواْ شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا that you be witnesses over mankind and the Messenger be a witness over you. (2:143) ... وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا and a bearer of glad tidings, and a warner. means, a bearer of glad tidings to the believers of a great reward, and a warner to the disbelievers of a great punishment.

تورات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات ۔ عطابن یسار فرماتے ہیں میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتیں تورات میں کیا ہیں ؟ فرمایا جو صفتیں آپ کی قرآن میں ہیں انہی میں بعض اوصاف آپ کے تورات میں بھی ہیں ۔ تورات میں ہے اے نبی ہم نے تجھے گواہ اور خوشی سنانے والا ، ڈرانے والا امتیوں کو بچانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ تو میرا بندہ اور رسول ہے ۔ میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے تو بدگو اور فحش کلام نہیں ہے ، نہ بازاروں میں شور مچانے والا ۔ وہ برائی کے بدلے برائی نہیں کرتا بلکہ درگذر کرتا ہے ۔ اور معاف فرماتا ہے ۔ اسے اللہ تعالیٰ قبض نہیں کرے گا ۔ جب تک لوگوں کو ٹیڑھا کر دئیے ہوئے دین کو اس کی ذات سے بالکل سیدھا نہ کر دے اور وہ لا الہ الا اللہ کے قائل نہ ہو جائیں ۔ جس سے اندھی آنکھیں روشن ہو جائیں ۔ اور بہرے کان سننے والے بن جائیں ۔ اور پردوں والے دلوں کے زنگ چھوٹ جائیں ( بخاری ) ابن ابی حاتم میں ہے حضرت وہیب بن منبہ فرماتے ہیں بنی اسرائیل کے ایک نبی حضرت شعیا علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ اپنی قوم بنی اسرائیل میں کھڑے ہو جاؤ ، میں تمھاری زبان سے اپنی باتیں کہلواؤں گا ۔ میں امیوں میں سے ایک نبی امی کو بھیجنے والا ہوں جو نہ بدخلق ہے نہ بد گو ۔ نہ بازاروں میں شوروغل کرنے والا ۔ اس قدر سکون و امن کا حامل ہے کہ اگر چراغ کے پاس سے بھی گذر جائے تو وہ نہ بجھے اور اگر بانسوں پر بھی چلے تو پیر کی چاپ نہ معلوم ہو ۔ میں اسے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجوں گا ۔ جو حق گو ہوگا اور میں اس کی وجہ سے اندھی آنکھوں کو کھول دوں گا اور بہرے کانوں کو سننے والا کروں گا اور زنگ آلود دلوں کو صاف کر دوں گا ۔ ہر بھلائی کی طرف اس کی ضمیر ہوگی ۔ حکمت اس کی گویائی ہوگی ۔ صدق و وفا اس کی عادت ہو گی ۔ عفو درگذر اس کا خلق ہو گا ۔ حق اس کی شریعت ہو گی ۔ عدل اس کی سیرت ہو گی ۔ ہدایت اس کی امام ہوگی اسلام اس کا دین ہوگا ۔ احمد اس کا نام ہو گا ۔ گمراہوں کو میں اس کی وجہ سے ہدایت دوں گا ۔ جاہلوں کو اس کی بدولت علماء بنادوں گا ۔ تنزل والوں کو ترقی پر پہنچا دوں گا ۔ انجانوں کو مشہور و معروف کر دوں گا ۔ مختلف اور متضاد دلوں کو متفق اور متحد کر دوں گا ۔ جداگانہ خواہشوں کو یکسو کر دوں گا ۔ دنیا کو اس کی وجہ سے ہلاکت سے بچا لوں گا ۔ تمام امتوں سے اس کی امت کو اعلیٰ اور افضل بنادوں گا ۔ وہ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے دنیا میں پیدا کئے جائیں گے ۔ ہر ایک کو نیکی کا حکم کریں گے اور برائی سے روکیں گے ۔ وہ موحد ہوں گے ، مومن ہوں گے ، اخلاص والے ہوں گے ، رسولوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے سب کو سچ ماننے والے ہوں گے ۔ وہ اپنی مسجدوں مجلسوں اور بستروں پر چلتے پھرتے بیٹھے اٹھتے میری تسبیح حمد و ثنا بزرگی اور بڑائی بیان کرتے رہیں گے ۔ کھڑے اور بیٹھے نمازیں ادا کرتے رہیں گے ۔ دشمنان اللہ سے صفیں باندھ کر حملہ کر کے جہاد کریں گے ۔ ان میں سے ہزارہا لوگ میری رضامندی کی جستجو میں اپنا گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوں گے ۔ منہ ہاتھ وضو میں دھویا کریں گے ۔ تہمد آدھی پنڈلی تک باندھیں گے ۔ میری راہ میں قربانیاں دیں گے ۔ میری کتاب ان کے سینوں میں ہوگی ۔ راتوں کو عابد اور دنوں کو مجاہد ہوں گے ۔ میں اس نبی کی اہل بیت اور اولاد میں سبقت کرنے والے صدیق شہید اور صالح لوگ پیدا کردوں گا ۔ اس کی امت اس کے بعد دنیا کو حق کی ہدایت کرے گی ، اور حق کے ساتھ عدل و انصاف کرے گی ۔ ان کی امداد کرنے والوں کو میں عزت والا کروں گا ۔ اور ان کو بلانے والوں کی مدد کروں گا ۔ ان کے مخالفین اور ان کے باغی اور ان کے بدخواہوں پر میں برے دن لاؤں گا ۔ میں انہیں ان کے نبی کے وارث کردوں گا ۔ جو اپنے زب کی طرف لوگوں کو دعوت دیں گے ۔ نیکیوں کی باتیں بتائیں گے ، برائیوں سے روکیں گے ، نماز ادا کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے ، وعدے پورے کریں گے ، اس خیر کو میں ان کے ہاتھوں پوری کروں گا جو ان سے شروع ہوئی تھی ۔ یہ ہے میرا فضل جسے چاہوں دوں ۔ اور میں بہت بڑے فضل و کرم کا مالک ہوں ، ابن ابی خاتم میں ہے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیج رہے تھے جب یہ آیت اتری تو آپ نے انہیں فرمایا جاؤ خوشخبریاں سنانا نفرت نہ دلانا ، آسانی کرنا سختی نہ کرنا ، دیکھو مجھ پر یہ آیت اتری ہے ۔ طبرانی میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا مجھ پر یہ اترا ہے کہ اے نبی ہم نے تجھے تیری امت پر گواہ بنا کر جنت کی خوشخبری دینے والا بنا کر جہنم سے ڈرانے والا بنا کر اور اللہ کے حکم سے اس کی توحید کی شہادت کی طرف لوگوں کو بلانے والا بنا کر اور روشن چراغ قرآن کے ساتھ بنا کر بھیجا پس آپ اللہ کی وحدانیت پر کہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود نہیں گواہ ہیں ۔ اور قیامت کے دن آپ لوگوں کے اعمال پر گواہ ہوں گے ۔ جیسے ارشاد ہے ( وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِيْدًا 41؀ڲ ) 4- النسآء:41 ) یعنی ہم تجھے ان پر گواہ بنا کر لائیں گے ۔ اور آیت میں ہے کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور تم پر یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم گواہ ہیں ۔ آپ مومنوں کو بہترین اجر کی بشارت سنانے والے اور کافروں کو بدترین عذاب کاڈر سنانے والے ہیں ۔ اور چونکہ اللہ کا حکم ہے اس کی بجا آوری کے ماتحت آپ مخلوق کو خالق کی عبادت کی طرف بلانے والے ہیں ۔ آپ کی سچائی اس طرح ظاہر ہے جیسے سورج کی روشنی ۔ ہاں کوئی ضدی اڑ جائے تو اور بات ہے ، اے نبی !کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو نہ ان کی طرف کان لگاؤ اور ان سے درگذر کرو ۔ یہ جو ایذائیں پہنچاتے ہیں انہیں خیال میں بھی نہ لاؤ اور اللہ پر پورا بھروسہ کرو وہ کافی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

45۔ 1 بعض لوگ شاہد کے معنی حاضر و ناظر کے کرتے ہیں جو قرآن کے اصل لفظ سے معنوی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کی گواہی دیں گے، ان سے بھی جو آپ پر ایمان لائے اور ان کی بھی جنہوں نے تکذیب کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت والے دن اہل ایمان کو ان کے اعضائے وضو سے پہچان لیں گے جو چمکتے ہونگے، اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیگر انبیاء (علیہم السلام) کی گواہی دیں گے کہ انہوں نے اپنی اپنی قوموں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا اور یہ گواہی اللہ کے دیئے ہوئے یقینی علم کی بنیاد پر ہوگی۔ اس لئے نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیاء (علیہم السلام) کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے ہیں، یہ عقیدہ تو احکام قرآنی کے خلاف ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٧٢] نبی کی شہادت کی تین صورتیں :۔ وہ گواہی یہ ہے کہ اس کائنات کا خالق ومالک اور معبود برحق صرف ایک اللہ ہے دوسرا کوئی اس الوہیت اور حاکمیت میں شریک نہیں۔ اور نبی کی یہ گواہی تین طرح سے ہوتی ہے ایک یہ کہ نظام کائنات کے مطالعہ سے وہ خود اس نتیجہ پر پہنچتا ہے اور بعض انبیاء کو ملکوت السمٰوات والارض دکھائی اور اس کی سیر بھی کرائی جاتی ہے تاکہ جس شہادت کے وہ داعی بننے والے ہیں اس کا انھیں عین الیقین حاصل ہو۔ دوسری گواہی ان کی دعوت پر سب سے پہلے ان کا اپنا عمل ہوتا ہے۔ یعنی ان کی عملی زندگی اس بات پر گواہ ہوتی ہے کہ نبی جو شہادت دے رہا ہے وہ درست اور برحق ہے۔ اور تیسری شہادت وہ قیامت کے دن اپنی امت کے حق میں اور منکروں کے خلاف دیں گے۔ [ ٧٣] یعنی ایمان لانے والوں کو یہ بشارت دیتا ہے کہ ان سے مصائب کے بادل چھٹ جانے والے ہیں اور عنقریب اللہ تعالیٰ مومنوں کو اپنی فتح و نصرت سے سرفراز فرمائے گا اور مرنے کے بعد انھیں جنت اور اس کی نعمتیں میسر آنے والی ہیں۔ اسی طرح وہ دعوت حق کے مخالفین کو دنیا میں بھی ان کے برے انجام اور ذلت و خواری سے ڈراتا ہے اور آخرت میں جہنم کے عذاب سے بھی۔ اور یہ بشارت اور وعید وہ اپنی طرف سے نہیں دے رہا بلکہ وہ ہماری طرف سے اس بات پر مامور ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا : ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پانچ صفات بیان فرمائیں، جن سے وہ عظیم الشان مراتب معلوم ہوتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فائز فرمایا اور ان ذمہ داریوں پر روشنی پڑتی ہے جو رسول کی حیثیت سے آپ پر عائد ہوتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے آپ کو اتنے عالی مراتب عطا فرمائے ہیں کہ آپ کے مخالفین جتنے بہتان باندھ لیں اور جتنی زبان درازی کرلیں، آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ اس لیے آپ اپنا فرض منصبی ادا کرتے رہیں اور ان کی باتوں کی پروا مت کریں۔ ان میں سب سے پہلی صفت ” شَاهِدًا “ ہے۔ یہ شہادت دو طرح سے ہے، ایک دنیا میں اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور سچا دین صرف اسلام ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗىِٕمًۢا بالْقِسْطِ ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ) [ آل عمران : ١٨، ١٩ ] ” اللہ نے گواہی دی کہ بیشک حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، اس حال میں کہ وہ انصاف پر قائم ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ بیشک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوری دنیا کے سامنے اپنے قول اور عمل کے ساتھ اس بات کی شہادت دی۔ دوسری آخرت کو شہادت، یعنی قیامت کے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے تمام پیغام امت کو پہنچا دیے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۢ بِشَهِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِيْدًا) [ النساء : ٤١ ] ” پھر کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور تجھے ان لوگوں پر گواہ لائیں گے۔ “ اور فرمایا : (وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا) [ البقرۃ : ١٤٣ ] ” اور اسی طرح ہم نے تمہیں سب سے بہتر امت بنایا، تاکہ تم لوگوں پر شہادت دینے والے بنو اور رسول تم پر شہادت دینے والا بنے۔ “ 3 بعض حضرات نے ” شاھداً “ کے لفظ کو یہ معنی پہنانے کی کوشش کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے تمام اعمال دیکھ رہے ہیں اور ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔ ورنہ دیکھے بغیر شہادت کیسے دے سکتے ہیں ؟ مگر یہ بات غلط ہے، کیونکہ انبیاء ( علیہ السلام) کا کام بندوں کے اعمال پر شہادت دینا نہیں کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں، بلکہ ان کا کام اس بات کی گواہی دینا ہے کہ بندوں تک حق پہنچا دیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے صاف فرمایا : ( يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ۭ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا ۭاِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ ) [ المائدۃ : ١٠٩ ] ” جس دن اللہ رسولوں کو جمع کرے گا، پھر کہے گا تمہیں کیا جواب دیا گیا ؟ وہ کہیں گے ہمیں کچھ علم نہیں، بیشک تو ہی چھپی باتوں کو بہت خوب جاننے والا ہے۔ “ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ عیسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھیں گے کہ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا معبود بنا لینا ؟ تو وہ عرض کریں گے : (وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ ۭواَنْتَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ ) [ المائدۃ : ١١٧ ] ” اور میں ان پر گواہ تھا جب تک ان میں رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر نگران تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے۔ “ یہ آیات اس بات کی صریح دلیل ہیں کہ انبیاء لوگوں کے اعمال پر گواہ نہیں ہوں گے، پھر وہ کس چیز کے گواہ ہوں گے ؟ اللہ تعالیٰ نے خود اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : (كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا) [ البقرۃ : ١٤٣ ] ” اور اسی طرح ہم نے تمہیں سب سے بہتر امت بنایا، تاکہ تم لوگوں پر شہادت دینے والے بنو اور رسول تم پر شہادت دینے والا بنے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امت پر شہادت دیں گے اور آپ کی امت لوگوں پر شہادت دے گی۔ اگر یہ شہادت اعمال کی ہو تو شہادت دینے کے لیے پوری امت کا حاضر و ناظر ہونا لازم آتا ہے اور اگر امت کے لوگ صرف اس شہادت کے لیے بلائے جائیں گے کہ خالق کا پیغام اس کی مخلوق تک پہنچ گیا تو یقیناً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اسی بات کی شہادت دیں گے۔ مزید دلائل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١٤٣) اور سورة مائدہ (١١٧) کی تفسیر۔ وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا : یہ دوسری اور تیسری صفت ہے، یعنی آپ ایمان والوں کو یہ بشارت دینے والے ہیں کہ عنقریب ان سے مصائب کے بادل چھٹ جانے والے ہیں اور جلد ہی اللہ تعالیٰ انھیں اپنی فتح و نصرت سے سرفراز فرمائے گا اور مرنے کے بعد انھیں جنت کی ابدی نعمتیں اور اللہ کا دیدار میسر ہونے والا ہے۔ اسی طرح آپ حق کا انکار کرنے والوں کو دنیا میں ان کے برے انجام اور ذلت و خواری سے ڈرانے والے ہیں اور آخرت میں جہنم کے دائمی عذاب سے بھی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Special Attributes of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْ‌سَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرً‌ا وَنَذِيرً‌ا ﴿٤٥﴾ وَدَاعِيًا إِلَى اللَّـهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَ‌اجًا مُّنِيرً‌ا ﴿٤٦﴾ O prophet, We have sent you as a witness and a bearer of good news and a warner and as one who calls (people) towards Allah with His permission, and as a luminous lamp. (33:45-46) The text here reverts to the special perfect attributes of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Five attributes have been mentioned here - &Shahid&, &mubashshir&, |"nadhir&, da` i ila Allah&. &siraj munir&. &Shahid& (a witness) means that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) will be a witness of the ummah on the Day of Judgment according to a hadith narrated by Sayyidna Abu Said al-Khudri (رض) and reported by Bukhari, Nasa` i and Tirmidhi. It is mentioned in some parts of that Hadith that on the Day of Judgment when Sayyidna Nuh (علیہ السلام) will be presented before Allah, he will be asked whether he had conveyed Allah&s Message to his Ummah. He will reply that he did. Then his Ummah will be presented and they will deny having received any message of Allah. Then Sayyidna Nuh (علیہ السلام) will be asked whether he has any witness to his claim of having conveyed the message of truth, and he will reply that Muhammad and his Ummah are witnesses. Some narrations have it that he will present the Ummah of Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as witness and this Ummah will give evidence in his favour. At this, the Ummah of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) will argue &How can they, who were not even born at that time, give evidence in our case?& Now the Ummah of Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) will be asked to substantiate their evidence and they will answer that no doubt they were not born at that time but they were told about it by their Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in whom they believe and trust. At this time the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) will be asked to give testimony regarding the veracity of his Ummah&s statement. Briefly, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) through his testimony, will confirm and verify the statement of his Ummah that, of course, he had given them that news. Another general meaning of being a witness for the Ummah may be that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) will give evidence about the good and bad deeds of all the individuals of his Ummah. And this evidence would be on the basis that the deeds of the Ummah are presented before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) every morning and evening daily; some narrations state that the deeds are presented once a week. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) thus recognizes each and every individual of his Ummah by their deeds and as such he will be made witness for the Ummah on the Doomsday. (Ibn al-Mubarak from Sa&id Ibn al- Musayyab, Mazhari) &Mubashshshir& means bearer of good news, and as such the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is the announcer of the good news of Paradise for the righteous people of his Ummah. &Nadhir& means the one who warns; thus the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) also puts the fear of Allah&s punishment in the hearts of his Ummah in case they violate or disobey the injunctions of Shari&ah.

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خاص صفات : (آیت) یایہا النبی انا ارسلنک شاہداً ومبشراً اونذیراً ، وداعیاً الیٰ اللہ باذنہ وسراجاً منیراً ، یہ پھر عود ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خاص صفات کمال اور مناقب کی طرف، اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پانچ صفات کا ذکر فرمایا۔ شاہد، مبشر، نذیر، داعی الی اللہ، سراج، منیر، شاہد سے مراد یہ ہے کہ آپ قیامت کے روز امت کے لئے شہادت دیں گے جیسا کہ صحیح بخاری، نسائی، ترمذی وغیرہ میں حضرت ابوسعید خدری سے ایک طویل حدیث روایت ہے جس کے بعض جملے یہ ہیں کہ قیامت کے روز نوح (علیہ السلام) پیش ہوں گے تو ان سے سوال کیا جائے گا کہ کیا آپ نے ہمارا پیغام اپنی امت کو پہنچا دیا تھا وہ عرض کریں گے کہ میں نے پہنچا دیا، پھر ان کی امت پیش ہوگی، وہ اس سے انکار کرے گی کہ ان کو اللہ کا کوئی پیغام نہیں پہنچا ہے۔ اس وقت حضرت نوح (علیہ السلام) سے پوچھا جائے گا کہ آپ جو پیغام حق پہنچانے کا دعویٰ کرتے ہیں اس پر کوئی آپ کا شاہد بھی ہے ؟ وہ عرض کریں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت گواہ ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ گواہی میں امت محمدیہ کو پیش کریں گے، یہ امت ان کے حق میں گواہی دے گی، تو امت نوح (علیہ السلام) ان پر یہ جرح کرے گی کہ یہ ہمارے معاملہ میں کیسے گواہی دے سکتے ہیں، یہ تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، ہمارے زمانے سے بہت طویل زمانے کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ اس جرح کا جواب امت محمدیہ سے پوچھا جائے گا، وہ یہ جواب دے گی کہ بیشک ہم اس وقت موجود نہیں تھے، مگر ہم نے اس کی خبر اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی تھی، جس پر ہمارا ایمان و اعتقاد ہے۔ اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کی امت کے اس قول کی تصدیق کے لئے شہادت لی جائے گی۔ خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی شہادت کے ذریعہ اپنی امت کی تصدیق و توثیق فرمائیں گے کہ بیشک میں نے ان کو یہ اطلاع دی تھی۔ اور امت پر شاہد ہونے کا ایک مفہوم عام یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے سب افراد کے اچھے برے اعمال کی شہادت دیں گے۔ اور یہ شہادت اس بنا پر ہوگی کہ امت کے اعمال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہر روز صبح و شام اور بعض روایات میں ہفتہ میں ایک روز پیش ہوتے ہیں، اور آپ امت کے ایک ایک فرد کو اس کے اعمال کے ذریعہ پہچانتے ہیں۔ اس لئے قیامت کے روز آپ امت کے شاہد بنائے جائیں گے۔ (رواہ ابن المبارک عن سعید بن المسیب، مظہری) اور مبشر کے معنی بشارت دینے والا، مراد یہ ہے کہ آپ اپنی امت کے نیک با شرع لوگوں کو جنت کی خوش خبری سنانے والے ہیں۔ اور نذیر کے معنی ڈرانے والا، مراد یہ ہے کہ آپ امت کے لوگوں کو در صورت خلاف ورزی و نافرمانی کے عذاب سے ڈرانے والے بھی ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۝ ٤٥ۙ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ شَّهِيدُ وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] ، وقوله : أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، أي : يشهدون ما يسمعونه بقلوبهم علی ضدّ من قيل فيهم : أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ، وقوله : أَقِمِ الصَّلاةَ إلى قوله : مَشْهُوداً أي : يشهد صاحبه الشّفاء والرّحمة، والتّوفیق والسّكينات والأرواح المذکورة في قوله : وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء/ 82] ، وقوله : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة/ 23] ، فقد فسّر بكلّ ما يقتضيه معنی الشهادة، قال ابن عباس : معناه أعوانکم وقال مجاهد : الذین يشهدون لكم، وقال بعضهم : الذین يعتدّ بحضورهم ولم يکونوا کمن قيل فيهم شعر : مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وقد حمل علی هذه الوجوه قوله : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص/ 75] ، وقوله : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات/ 7] ، أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت/ 53] ، وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] ، فإشارة إلى قوله : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر/ 16] ، وقوله : يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] ، ونحو ذلک ممّا نبّه علی هذا النحو، والشَّهِيدُ : هو المحتضر، فتسمیته بذلک لحضور الملائكة إيّاه إشارة إلى ما قال : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت/ 30] ، قال : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید/ 19] ، أو لأنهم يَشْهَدُونَ في تلک الحالة ما أعدّ لهم من النّعيم، أو لأنهم تشهد أرواحهم عند اللہ كما قال : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران/ 169- 170] ، وعلی هذا دلّ قوله : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ، وقوله : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج/ 3] ، قيل : الْمَشْهُودُ يوم الجمعة وقیل : يوم عرفة، ويوم القیامة، وشَاهِدٌ: كلّ من شهده، وقوله : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود/ 103] ، أي : مشاهد تنبيها أن لا بدّ من وقوعه، والتَّشَهُّدُ هو أن يقول : أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أنّ محمدا رسول الله، وصار في التّعارف اسما للتّحيّات المقروءة في الصّلاة، وللذّكر الذي يقرأ ذلک فيه . شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے اور آیت کریمہ ؛ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہوکر سنتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ سنتے ہیں ان کے دل اس کی شہادت دیتے ہیں ۔ بخلاف ان لوگوں کے جن کے متعلق فرمایا ہے ۔: أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو ( گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَقِمِ الصَّلاةَ ۔۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور ملائکہ ہے ۔ میں قرآن کے مشہود ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی قرات کرنے والے پر شفاء رحمت ، توفیق ، سکینت اور ارواح نازل ہوتی ہیں ۔ جن کا کہ آیت ؛ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء/ 82] اور ہم قرآن کے ذریعہ سے وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور آیت : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة/ 23] اور جو تمہارے مددگار ہیں ان کو بلا لو ۔ میں شھداء کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں جن پر معنی شہادت مشتمل ہے ۔ چناچہ ابن عباس نے اس کے معنی اعوان یعنی مددگار کے کئے ہیں اور مجاہدہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جو تمہارے حق میں گواہی دیں ۔ اور بعض نے شہداء سے وہ لوگ مراد لئے ہیں ۔ جن کے موجود ہونے کو قابل قدر اور معتبر سمجھا جائے یعنی وہ ایسے لوگ نہ ہوں جن کے متعلق کہا گیا ہے ( البسیط) (269) مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وہ پیچھے رہتے ہیں اور لوگ اپنے معاملات کا فیصلہ کرلیتے ہیں وہ غیر حاضر اور بیخبر ہوتے ہیں اور ان کو اس بات کو علم تک نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص/ 75] اور ہم امت میں سے گواہ نکال لیں گے ۔ میں بھی شہید کا لفظ انہی معانی پر حمل کیا گیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات/ 7] اور وہ اس سے آگاہ بھی ہے ۔ أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت/ 53] کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے باخبر ہے ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور ( حق ظاہر کرنے کو ) خدا ہی کافی ہے ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ک حق تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر/ 16] اور کوئی چیز خدا سے مخفی نہیں رہے گی ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] وہ تو چھپے بھید اور پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ علی ہذالقیاس متعدد آیات ایسی ہیں جو اس معنی ( یعنی علم باری تعالیٰ کے محیط ہونے ) پر دال ہیں ۔ اور قریب المرگ شخص کو بھی شہید کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس فرشتے حاضر ہوتے ہیں چناچہ آیت کریمہ : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت/ 30] آلایۃ ان پر فرشتے اتریں گے اور کہیں گے کہ خوف نہ کرو ۔ میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ اور فرمایا ۔ وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید/ 19] اور اپنے پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ان کے لئے ان کے اعمال کا صلہ ہوگا ۔ اور شھداء کو شھداء یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حالت نزع میں ان نعمتوں کا مشاہدہ کرلیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تیار کی ہیں اور یا اس لئے کہ ان کے ارواح باری تعالیٰ کے ہاں حاضر کئے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمایا : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران/ 169- 170] اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے اور ان کو مردہ مت سمجھنا اور آیت کریمہ : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْاور پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے اور آیت کریمہ : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج/ 3] اور حاضر ہونے والے کی اور جو اس کے پاس حاضر کیا جائے اس کی قسم۔ میں بعض نے کہا ہے کہ مشھود سے یوم جمعہ مراد ہے اور بعض نے یوم عرفہ مراد لیا ہے ۔ اور بعض نے یوم قیامت اور شاھد سے ہر وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو اس روز میں حاضر ہوگا اور آیت کریمہ : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود/ 103] اور یہی وہ دن ہے جس میں خدا کے روبرو حاضرکئے جائینگے ۔ میں مشھود بمعنی مشاھد ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ وہ دن ضرور آکر رہے گا ۔ التشھد کے معنی اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ پڑھنے کے ہیں اور عرف میں تشہد کے معنی التحیات اور ان اذکار کے ہیں جو حالت تشہد ( جلسہ ) میں پڑھے جاتے ہیں ۔ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٥۔ ٤٦) اے نبی اکرم ہم نے آپ کو اس شان کے ساتھ بھیجا ہے کہ آپ اپنی امت پر تبلیغ رسالت کے گواہ ہوں گے اور آپ مومنین کو جنت کی خوشخبری دینے والے ہیں اور کافروں کو دوزخ سے ڈرانے والے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کی اطاعت کی طرف اس کے حکم سے بلانے والے ہیں اور آپ ایک روشن چراغ کے مانند ہیں کہ آپ کی ہر حالت پیروی کے قابل ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٥ { یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا } ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یقینا ہم نے بھیجا ہے آپ کو گواہ بنا کر اور بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا۔ “ اس آیت کے الفاظ نبوت اور رسالت کے درمیان ربط وتعلق کو بھی واضح کر رہے ہیں۔ نبوت اور رسالت کے تعلق یا فرق کو کسی شخص کے کسی محکمے کے لیے منتخب ہونے اور پھر اس محکمے کے اندر کسی مخصوص منصب پر اس کے ” تقرر “ کی مثال سے سمجھنا چاہیے۔ مثلاً جو لوگ مقابلے کے امتحان میں کامیاب قرار پاتے ہیں وہ سی ایس پی کیڈر (cadre) کے لیے منتخب ہوجاتے ہیں۔ لیکن محض اس کیڈر میں منتخب ہوجانے سے ان میں سے کسی کو نہ تو کوئی اختیار ملتا ہے اور نہ ہی کسی پر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن جب ان میں سے کسی کا کسی منصب یا عہدے پر تقرر کردیا جاتا ہے ‘ مثلاً کسی جگہ ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے تعینات کردیا جاتا ہے ‘ تو اس منصب کے اختیارات بھی اسے حاصل ہوجاتے ہیں اور اس سے متعلقہ ذمہ داریاں بھی اس کے کندھوں پر آجاتی ہیں۔ اس مثال کے حوالے سے یوں سمجھئے کہ نبوت ایک ” کیڈر “ ہے ‘ جبکہ رسالت ایک خصوصی ” تقرر “۔ یعنی نسل ِانسانی میں سے جو لوگ نبوت کے لیے منتخب ہوئے وہ سب انبیاء قرار پائے۔ لیکن جب ان میں سے کسی نبی کو کسی خاص قوم کی طرف بھیجا گیا تو انہیں رسالت مل گئی اور اس ” تقرر “ کے بعد وہ رسول بن گئے۔ اسی اصول کے تحت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا ظہور پہلی وحی کے ساتھ ہوا ‘ جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا آغاز اس وقت ہوا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باقاعدہ تبلیغ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ پہلی وحی ان آیات پر مشتمل تھی : { اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ ۔ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ۔ ” پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے پید ا کیا۔ اس نے پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے۔ پڑھئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب بہت کریم ہے۔ وہ ذات جس نے (علم) سکھایا قلم کے ذریعے۔ اس نے سکھایا انسان کو وہ کچھ جو وہ نہیں جانتا تھا۔ “ ان پانچ آیات کے اندر نہ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تبلیغ کا کوئی حکم دیا گیا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی اور ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس لیے بجا طور پر سمجھا جاسکتا ہے کہ اس وحی کے ذریعے صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا ظہور ہوا تھا ‘ جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا آغاز اس وحی سے ہوا : { یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ ۔ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ ۔ (المدثر) ” اے چادر میں لپٹنے والے ! اٹھئے اور خبردار کیجیے ‘ اور اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے “۔ ان آیات میں گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں تک پیغام پہنچانے کا واضح حکم دے کر باقاعدہ ” رسالت “ کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ چناچہ زیر مطالعہ آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” نبی “ کی حیثیت سے مخاطب کر کے منصب ِرسالت عطا کرنے کے ذکر (یٰٓـاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ ) سے جہاں نبوت اور رسالت کا فرق واضح ہوجاتا ہے وہاں اس نکتے کی بھی وضاحت ہوجاتی ہے کہ پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت عطا ہوئی اور بعد میں رسالت۔ آیت میں رسالت کے حوالے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جن تین ذمہ داریوں (شہادت علی الناس ‘ تبشیر اور انذار) کا ذکر کیا گیا ہے ان کی وضاحت قرآن کی بہت سی دوسری آیات میں بھی ملتی ہے۔ سورة البقرۃ کی آیت ١٤٣ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ” شہادت “ کی ذمہ داری کے حوالے سے یوں فرمایا گیا : { وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّـتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًاط } ” اور (اے مسلمانو ! ) اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک امت ِوسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو “۔ سورة الحج کی آخری آیت میں بھی یہ مضمون ان ہی الفاظ میں آیا ہے ‘ البتہ الفاظ کی ترتیب ذرا مختلف ہے : { لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ } ” تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔ “ اسی طرح تبشیر اور انذار کے حوالے سے بھی قرآن میں بہت سی آیات آئی ہیں ‘ صیغہ واحد میں بھی اور جمع کے صیغہ میں بھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

81 After admonishing the Muslims, Allah now addresses a few words of consolation to His Prophet, as if to say: `We have blessed you with such and such a high rank and raised you to an exalted place of honour. Your opponents will not be able to harm you in any way by their propaganda campaign of slander and calumny. Therefore, you should not take their mischief to heart, nor give any weight to their propaganda. You should continue doing the duties of your mission, and Iet them utter whatever nonsense they like. " Along with this, incidentally, the other people, both the believers and the unbelievers, also have been told that the person they have to deal with is not an ordinary man but a great personality, whom Allah has raised to the highest ranks of honour and glory. 82 The meaning of the Prophet's being a "witness" is very vast. It includes three kinds of evidence: (1) Verbal evidence, i.e. the Prophet should bear out the truth of the realities and principles on which Allah's Religion is based and tell the world plainly that they are the truth and all that is opposed to them is falsehood. He should rise to proclaim without hesitation and fear the Being of Allah and His Unity, the existence of the angels, the corning down of Revelation, the occurrence of life-after-death, the Hell and Heaven, all arc realities, even if they appear strange to the world, and the people mock the one presenting them, or call him a madman. Likewise, the Prophet should openly present before the people the concepts, values, principles and rules pertaining to morality and civilization and social life that God has revealed to him, and reject as wrong all the concepts and ways which are prevalent and are opposed to them, even if the whole world rejects them as wrong and violates them in practice. Similarly, the Prophet should proclaim as lawful what is lawful in Allah's Law even if the whole world regards it as unlawful, and should proclaim as unlawful whatever is unlawful in Allah's Law even if the world regards it as lawful and pure. (2) Practical evidence: That is, the Prophet in his own life should practically demonstrate all that he has been commissioned to present before the world. His life should be free from every shade of that which he calls evil, and his own character should clearly reflect that which he calls good; he should be the foremost in carrying out what he regards as obligatory, and most cautious in refraining from what he calls sinful. He should exert his utmost to enforce the code of life which he calls Divine. His own character and conduct should bear out how sincere and truthful he is in his invitation; and his own self should be such a model of his teaching that anyone who sees him should know what kind of a man he wants to produce by the Faith to which he invites the world, what kind of a character he wants to instil in him and what system of life he wants to be established through him in the world. (3) Evidence in the Hereafter That is, when the Court of Allah is established in the Hereafter, the Prophet should give evidence to prove that he had conveyed to the people the whole message, without making any alteration or change in it, that had been entrusted to him, and that he had shown no slackness in making the truth manifest before them, by word and by deed. On the basis of this evidence it will be determined what reward the believers deserve and what punishment the disbelievers deserve From this one can havc an idea of how great a responsibility had Allah placed upon the Holy Prophet by raising him to the position of a "witness", and how great should be the personality worthy of that high position. Evidently, there has been no slackness whatever on the part of the Holy Prophet in the matter of giving evidence with regard to the Faith, verbally as well as practically. That is why in the Hereafter he will be able to testify that he had made the Truth plain to the people, and that is how Allah's argument will be established against them; otherwise, if, God forbid, there had been any slackness on the pan of the Prophet in providing evidence, he could neither be a witness against them in the Hereafter nor could any case be established against the deniers of the truth. Some people havc tried to give a different interpretation to the word witness". They say that the Holy Prophet in the Hereafter will bear witness to the acts and deeds of the people. From this they conclude that the Holy Prophet is watching and witnessing the acts of all the people; otherwise he could not bear the witness. But according to the Qur'an this interpretation is absolutely wrong. The Qur'an tells us that Allah has arranged a different system for recording the acts of the people. For this purpose His angels are preparing the conduct-book of every person. (See in this connection Surah Qaf: 17-18, and Al-Kahf: 49). After this He will make the people's own limbs also to bear witness against them. (Ya Sin: 65, Ha Mim As-Sajdah: 20-21). As for the Prophets, they are not to testify to the acts of the people, but to give evidence to prove that they had conveyed the Truth to the people. The Qur'an clearly says: "On the Day when Allah will assemble aII the Messengers, He will ask: 'What was the response you received?' They will answer, `We have no knowledge: You alone havc the full knowledge of all that is hidden'." (AI-Ma`idah: 109) In the same connection, the Quran says about the Prophet Jesus that when he will be questioned about the deviation of the Christians, he will say: "I was a witness to their conduct as long as I remained among them, but after You recalled me. You watched over them." (AI-Ma'idah: 117) These verses clearly show that the Prophets will not be witnesses in regard to the acts of the people. As to what they will bear witness to the Qur'an gives an equally clear answer: "O Muslims, We have made you a community of the 'Golden Mean' so that you may be witnesses in regard to mankind and the Messenger may be a witness in regard to you." (AI-Baqarah: 143) "(O Muhammad, warn them of) the Day when We shall call a witness from among every community to testify against it. And We shall call you to testify against these people." (An-Nahl: 89) This shows that on the Day of Resurrection the Holy Prophet's evident in its nature will not be any different from the evidence for bearing which the Holy Prophet's community and the witnesses in regard to every other community will be summoned. Evidently, if it be an evidence in regard to the acts, then the omnipresence of all of them also becomes necessary. And if these witnesses will be called to give evidence to confirm that the Creator's message had reached His creation, inevitably the Holy Prophet also will be called upon to give a similar evidence. The same is supported by the Hadith which Bukhari. Muslim, Tirmidhi. Ibn Majah, lmam Ahmad and others have related on the authority of 'Abdullah bin 'Mas'ud, 'Abdullah bin 'Abbas, Abu ad-Darda', Anas bin Malik and many other Companions (may Allah be pleased with them all), whose common theme is this: 'The Holy Prophet on the Day of Resurrection will sec some of his Companions bing brought, but instead of caning to him they will either be going or being pushed to the other side. Thereupon the Holy Prophet will say: 'O Allah, they are my Companions!' Allah will say: 'You do not know what misdeeds they committed after you'." This theme has been reported by numerous Companions and with so many chains of authorities that there remains no doubt about its authenticity. This proves that the Holy Prophet is not at aII a witness to each individual of his community acid to each of his acts. As for the hadith which says that the acts of the people of his Ummah are presented before him, it does not in any way contradict this, because its purport is that Allah keeps him informed of the affairs of his Ummah, which does not mean that the Holy Prophet is actually witnessing the acts of every person. 83 One should note that a person's giving the good news of a good end for belief and righteous acts and the warning of an evil end for disbelief and evil acts, in his personal capacity, is a different thing, and another's being appointed by Allah as a bearer of the good news and a warner is quite another thing. The one who is appointed to this office by Allah necessarily possesses an authority to give the good news and administer the warnings due to which his good news and his warnings are invested with legality. His giving a good news for an act has the meaning that the Greatest of alI Judges, Who has sent him, approves of the act and holds it worthy of a reward; so, it is certainly imperative or obligatory or commendable in nature, and its doer will surely get a reward. On the other hand, his giving a warning of an evil end for an act has the meaning that the Sovereign forbids that act; so, it is certainly sinful and unlawful, and its doer will surely be punished. The good news and warnings of the one who is not divinely appointed cannot ever be invested with such an authority.

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :81 مسلمانوں کو نصیحت کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو خطاب کر کے چند کلمات تسکین ارشاد فرماتا ہے ۔ مقصود کلام یہ ہے کہ آپ کو ہم نے یہ کچھ مراتب عالیہ بخشے ہیں ، آپ کی شخصیت اس سے بہت بلند ہے کہ یہ مخالفین اپنے بہتان و افترا کے طوفان اٹھا کر آپ کا کچھ بگاڑ سکیں ۔ لہٰذا آپ نہ ان کی شرارتوں سے رنجیدہ ہوں اور نہ ان کے پروپیگینڈے کو پر کاہ کے برابر بھی کوئی وقعت دیں ۔ اپنے فرائض منصبی ادا کیے جائیے اور انہیں جو کچھ ان کا جی چاہے بکنے دیجیے ۔ ان کے ساتھ ضمناً تمام خلق کو ، جس میں مومن و کافر سب شامل ہیں ، یہ بتایا گیا ہے کہ ان کا سابقہ کسی معمولی انسان سے نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی شخصیت سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بلند ترین مقام پر سرفراز فرمایا ہے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :82 نبی کو گواہ بنانے کا مفہوم اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے جس میں تین قسم کی شہادتیں شامل ہیں ۔ ایک قولی شہادت ، یعنی یہ کہ اللہ کا دین جن حقائق اور اصولوں پر مبنی ہے ، نبی ان کی صداقت کا گواہ بن کر کھڑا ہو اور دنیا سے صاف صاف کہہ دے کہ وہی حق ہیں اور ان کے خلاف جو کچھ ہے باطل ہے ۔ خدا کی ہستی اور اس کی توحید ، ملائکہ کا سجود ، وحی کا نزول ، حیات بعد الموت کا وقوع اور جنت و دوزخ کا ظہور خواہ دنیا کو کیسا ہی عجیب معلوم ہو اور دنیا ان باتوں کے پیش کرنے والے کا مذاق اڑائے یا اسے دیوانہ کہے ، مگر نبی کسی کی پروا کیے بغیر اٹھے اور ہانک پکار کر کہہ دے کہ یہ سب کچھ حقیقت ہے اور گمراہ ہیں وہ لوگ جو اسے نہیں مانتے ۔ اسی طرح اخلاق اور تہذیب اور تمدن کے جو تصورات اقدار ، اصول اور ضابطے خدا نے اس پر منکشف کیے ہیں ، انہیں اگر ساری دنیا غلط کہتی ہو اور ان کے خلاف چل رہی ہو تب بھی نبی کا کام یہ ہے کہ انہی کو علی الاعلان پیش کرے اور ان تمام خیالات اور طریقوں کو غلط قرار دے جو ان کے خلاف دنیا میں رائج ہوں ۔ اسی طرح جو کچھ خدا کی شریعت میں حلال ہے نبی اس کو حلال ہی کہے خواہ ساری دنیا اسے حرام سمجھتی ہو ، اور جو کچھ خدا کی شریعت میں حرام ہے نبی اس کو حرام ہی کہے خواہ ساری دنیا اسے حلال و طیب قرار دے رہی ہو ۔ دوسرے عملی شہادت ، یعنی یہ کہ نبی اپنی پوری زندگی میں اس مسلک کا عملاً مظاہرہ کرے جسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے وہ اٹھا ہے ۔ جس چیز کو وہ برائی کہتا ہے اس کے ہر شائبے سے اس کی زندگی پاک ہو ۔ جس چیز کو وہ بھلائی کہتا ہے ، اس کی اپنی سیرت میں وہ پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہو ۔ جس چیز کو وہ فرض کہتا ہے اسے ادا کرنے میں وہ سب سے بڑھ کر ہو ۔ جس چیز کو وہ گناہ کہتا ہے اس سے بچنے میں کوئی اس کی برابری نہ کر سکے ۔ جس قانون حیات کو وہ خدا کا قانون کہتا ہے اسے نافذ کرنے میں وہ کوئی کسر نہ اٹھا رکھے ۔ اس کا اپنا اخلاق و کردار اس بات پر گواہ ہو کہ وہ اپنی دعوت میں کس قدر سچا اور کتنا مخلص ہے ۔ اور اس کی ذات اس کی تعلیم کا ایسا مجسم نمونہ ہو جسے دیکھ کر ہر شخص معلوم کر لے کہ جس دین کی طرف وہ دنیا کو بلا رہا ہے وہ کس معیار کا انسان بنانا چاہتا ہے ، کیا کردار اس میں پیدا کرنا چاہتا ہے ، اور کیا نظام زندگی اس سے برپا کرانا چاہتا ہے ۔ تیسرے اخروی شہادت ، یعنی آخرت میں جب اللہ کی عدالت قائم ہو اس وقت نبی اس امر کی شہادت دے کہ جو پیغام اس کے سپرد کیا گیا تھا وہ اس نے بےکم و کاست لوگوں تک پہنچا دیا اور ان کے سامنے اپنے قول اور عمل سے حق واضح کر دینے میں اس نے کوئی کوتاہی نہیں کی ۔ اسی شہادت پر یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ ماننے والے کس جزا کے ، اور نہ ماننے والے کس سزا کے مستحق ہیں ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شہادت کے مقام پر کھڑا کر کے اللہ تعالیٰ نے کتنی بڑی ذمہ داری آپ پر ڈالی تھی اور وہ کیسی عظیم شخصیت ہونی چاہیے جو اس مقام بلند پر کھڑی ہو سکے ۔ ظاہر بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دین حق کی قولی اور عملی شہادت پیش کرنے میں ذرہ برابر بھی کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ہے ، تبھی تو آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ شہادت دے سکیں گے کہ میں نے لوگوں پر حق پوری طرح واضح کر دیا تھا ، اور تبھی اللہ کی حجت لوگوں پر قائم ہو گی ۔ ورنہ اگر معاذاللہ آپ ہی سے یہاں شہادت ادا کرنے میں کوئی کسر رہ گئی ہو تو نہ آپ آخرت میں ان پر گواہ ہو سکتے ہیں اور نہ منکرین کے خلاف مقدمہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ بعض لوگوں نے اس شہادت کو یہ معنی پہنانے کی کو شش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخرت میں لوگوں کے اعمال پر شہادت دیں گے ، اور اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام اعمال کو دیکھ رہے ہیں ، ورنہ بے دیکھے شہادت کیسے دے سکیں گے ۔ لیکن قرآن مجید کی رو سے یہ تاویل قطعاً غلط ہے ۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کے لوگوں کے اعمال پر شہادت قائم کرنے کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا ہی انتظام فرمایا ہے ۔ اس غرض کے لیے اس کے فرشتے ہر شخص کا نامۂ اعمال تیار کر رہے ہیں ( ملاحظہ ہو ق ٓ ، آیات ۱۷ ۔ ۱۸اور الکہف ۔ آیت ۱٤۹ ) اور اس کے لیے وہ لوگوں کے اپنے اعضاء سے بھی گواہی لے لے گا ( یٰسٓ٦۵ ۔ حم السجدہ ۲۰ ۔ ۲۱ ) رہے انبیاء علیم السلام ، تو ان کا کام بندوں کے اعمال پر گواہی دینا نہیں بلکہ اس بات پر گواہی دینا ہے کہ بندوں تک حق پہنچا دیا گیا گیا تھا ۔ قرآن صاف فرماتا ہے : یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَآ اُجِبْتُمْ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ ۔ ( المائدہ ۔ ۱۰۹ ) جس روز اللہ تمام رسولوں کو جمع کرے گا ، کہ تمہاری دعوت کا کیا جواب دیا گیا ، تو وہ کہیں گے کہ ہم کو کچھ خبر نہیں ، تمام غیب کی باتوں کو جاننے والے تو آپ ہی ہیں ۔ اور اسی سلسلے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ جب ان سے عیسائیوں کی گمراہی کے متعلق سوال ہو گا تو وہ عرض کریں گے : وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْداً مَّادُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ ۔ ( المائدہ ۔ ۱۱۷ ) میں جب تک ان کے درمیان تھا اسی وقت تک ان پر گواہ تھا ۔ جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ ہی ان پر نگراں تھے ۔ یہ آیات اس باب میں بالکل صریح ہیں کہ انبیا علیہم السلام اعمال خلق کے گواہ نہیں ہوں گے ۔ پھر گواہ کس چیز کے ہو نگے ؟ اس کا جواب قرآن اتنی ہی صراحت کے ساتھ یہ دیتا ہے : وَکذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّتہً وَّسَطاً لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلیَ النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْداً ۔ ( البقرہ ۔ ۱٤۳ ) اور اے مسلمانو ! اسی طرح ہم نے تم کو ایک امت وَسَط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہوں ۔ وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَھِیْداً عَلَیْھِمْ مِّنْ اَنْفُسِھِمْ وَجِئْنَا بِکَ شَھِیْداً عَلیٰ ھٰٓؤُلَآءِ ۔ ( النحل ۔ ۸۹ ) اور جس روز ہم ہر امت میں انہی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو ان پر گواہی دے گا اور ( اے محمد ) تمہیں ان لوگوں پر گواہ کی حیثیت سے لائیں گے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت اپنی نوعیت میں اس شہادت سے مختلف نہ ہو گی جسے ادا کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو اور ہر امت پر گواہی دینے والے شہداء کو بلایا جائے گا ۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ شہادت اعمال کی ہو تو ان سب کا بھی حاضر و ناظر ہونا لازم آتا ہے ۔ اور اگر یہ گواہ صرف اس امر کی شہادت دینے کے لیے بلائے جائیں گے کہ خلق تک اس کے خالق کا پیغام پہنچ گیا تھا تو لامحالہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی غرض کے لیے پیش ہوں گے ۔ اسی مضمون کی تائید وہ احادیث بھی کرتی ہیں جن کو بخاری ، مسلم ، ترمذی ، ابن ماجہ امام احمد وغیرہم نے عبداللہ بن مسعود ، عبداللہ بن عباس ، ابو الدرداء ، انس بن مالک اور بہت سے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے ، جن کا مشترک مضمون یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے روز اپنے بعض اصحاب کو دیکھیں گے کہ وہ لائے جا رہے ہیں ، مگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنے کے بجائے دوسرے رخ پر جا رہے ہوں گے یا دھکیلے جا رہے ہوں گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیکھ کر عرض کریں گے کہ خدایا ، یہ تو میرے صحابی ہیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے بعد انہوں نے کیا کرتوت کیے ہیں ۔ یہ مضمون اتنے صحابہ سے اتنی کثیر سندوں کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ اس کی صحت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ۔ اور اس سے یہ بات صریحاً ثابت ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے ایک ایک شخص اور اس کی ایک ایک حرکت کے شاہد قطعاً نہیں ہیں ۔ رہی وہ حدیث جس میں یہ ذکر آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کی امت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں ، تو وہ کسی طرح بھی اس مضمون سے متعارض نہیں ہے ۔ اس لیے کہ اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کے حالات سے باخبر رکھتا ہے ۔ اس کے یہ معنی کب ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر شخص کے اعمال کا عینی مشاہدہ فرما رہے ہیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :83 یہاں اس فرق کو ملحوظ رکھیے کہ کسی شخص کا بطور خود ایمان و عمل صالح پر اچھے انجام کی بشارت دینا اور کفر وبد عملی پر برے انجام سے ڈرانا اور بات ہے اور کسی کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبشر و نذیر بنا کر بھیجا جانا بالکل ہی ایک دوسری بات ۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس منصب پر مامور ہو وہ تو اپنی بشارت اور اپنے انذار کے پیچھے لازماً ایک اقتدار رکھتا ہے جس کی بنا پر اس کی بشارتوں اور اس کی تنبیہوں کو قانونی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے ۔ اس کا کسی کام پر بشارت دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ جس احکم الحاکمین کی طرف سے وہ بھیجا گیا ہے وہ اس کام کے پسندیدہ اور مستحق اجر ہونے کا اعلان کر رہا ہے ، لہٰذا وہ فرض یا واجب یا مستحب ہے اور اس کا کرنے و الا ضرور اجر پائے گا ۔ اور اس کا کسی کام کے برے انجام کی خبر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ قادر مطلق اس کام سے منع کر رہا ہے لہٰذا وہ ضرور گناہ اور حرام ہے اور یقیناً اس کا مرتکب سزا پائے گا ۔ یہ حیثیت کسی غیر مامور کی بشارت اور تنبیہ کو کبھی حاصل نہیں ہو سکتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٥ تا ٥٠۔ مسند اما احمد اور صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ٣ ؎ ہے (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٩٦ ج ٣) جس کا حاصل یہ ہے کہ جو صفتیں نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس پہلی آیت میں ہیں وہی صفتیں آپ کی تورات میں ہیں مسند امام احمد صحیح بخاری ترمذی وغیرہ کی روایتوں سے سورة بقرہ میں گزر چکا ٤ ؎ ہے (٤ ؎ صفحہ ١٢٨ جلد اول تفسیر ہذا۔ ) کہ سوائے امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کے اور نبیوں کی امتیں اپنے انبیاء کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو جھٹلادیں گے اور یہ کہویں گے کہ ہم کو کسی نبی نے اللہ کا حکم نہیں پہنچایا آخر قرآن کے حوالہ سے نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کی اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گواہی پر یہ معاملہ طے ہوگا اور سب اللہ کے روسل سچے ٹھہریں گے اسی کو فرمایا کہ اے نبی تم کو اللہ نے دنیا میں گواہ بنا کر بھیجا ہے مبشر اونذیرا کے معنے فرما نبرداروں کو جنت کی خوشخبری سنانا اور نافرمانوں کو دوزخ کے عذاب سے ڈرانا اور جو ڈر کر راہ راست پر مجاویں ان کو اللہ کے فضل اور مہربانی کا امید دار کرنا ‘ پھر فرمایا جو کافر اور منافق تمہارے رسالت کے کام میں فتور ڈالیں تو اے رسول اللہ کے ان کا کہنا نہ سنو اور ان کی جہالت کی باتوں پر صبر کر کے اپنے کام کے پورا کرنے میں اللہ پر بھروسہ رکھو اللہ تمہارا کام بنانے والا ہے داعیا الی اللہ باذنہ کا یہ مطلب ہے کہ تم اللہ کے حکم سے لوگوں کو نیک راستہ سکھاتے ہو ‘ سراجا منیرا کا یہ مطلب ہے کہ جو تمہاری نصیحت پر عمل کرے گا اس کا دل نور ایمان سے روشن ہوجاوے گا ‘ پھر فرمایا اے ایمان والو ! جب تم نکاح کرو ایمان والیوں کو پھر طلاق دو ان کو پہلے اس سے کہ تم ان سے دل نور ایمان سے روشن ہوجاوے گا پھر فرمایا اے ایمان والو ! جب تم نکاح کرو ایمان والیوں کو پھر طلاق دو ان کو پہلے اس سے کہ تم ان سے دل نور ایمان سے روشن ہوجاوے گا پھر فرمایا اے ایمان والو ! جب تم نکاح کر وامیان والیوں کو پھر طلاق دو ان کو پہلے اس سے کہ تم ان سے صحبت کرو تو ان پر تمہارا کچھ حق عدب کے پورا کرنے کا نہیں ہے ان کو فائدہ پہنچا کر اچھی طرح رخصت کرو مطلب یہ ہے کہ صحبت سے پیشتر جب تم طلاق دو تو پھر عورتوں کو عدت میں بٹھانے کا کچھ حق نہیں کہ تم ان سے عدت کے دنوں کو گنتی پوری کر اؤیہ مسئلہ اتفاقی ہے کسی کا اس میں خلاف نہیں کہ صحبت سے پیشتر طلاق دی جاوے تو عورت کو اختیار ہے کہ فی الفور جس سے چاہے نکاح کر لیوے ایسی عورت کو کچھ فائدہ اپنی حیثیت کے موافق دے کر اچھی طرح رخصت کر دو صحیح بخاری ١ ؎ میں ہے (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٩٨ ج ٣‘) کہ پیغمبر صلعم نے امیمہ نبت شراحیل سے نکاح کیا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی طرف ہاتھ بڑھا یا تو اس کو یہ بات ناپسند ہوئی اس پر حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو اسید سے فرمایا کہ اس کو کچھ کپڑے دے دوعلی بن ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ اگر عورت کا مہر دے چکے ہو وہ اللہ نے تم پر حلال کردیں ہیں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بی بیوں کا مہر پانچ سودر ہم تھا مگر اس حکم سے تین بی بیاں مستثنیٰ ہیں ایک تو ام حبیبہ (رض) کہ ان کا مہر نجاشی بادشاہ حبشہ نے چار سو دینا دیا دوسری صفیہ (رض) کہ ان کو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے قیدیوں میں سے پسند کر کے ان کا مہر انہیں آزاد کرنے کو ٹھہرایا ‘ تیسری جو یر یہ بنت حارث (رض) کہ حضرت نے ان کو کچھ مال دے کر ان سے عقد کرلیا ٢ ؎ پھر فرمایا اے نبی اللہ نے تم کو وہ عورتیں بھی جائز کردیں ہیں (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٩٩ ج ٣۔ ) جو تم نے غنیمت کے مال سے لی ہیں اور چچا اور پھوپھیاں اور خالہ اور ماموں کی بیٹیاں جنہوں نے ہجرت کی وہ بھی حلال کردیں نصاریٰ حب تک عورت مرد کے درمیان سات پشت یا زیادہ کا فاصلہ نہ ہوتا تو نکاح درست نہ جانتے تھے اور یہود بھانیل بھتیجی کو بھی حلال سمجھتے تھے اس شریعت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ میں یہ بات قائم نہ رہی پھر فرمایا اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر کوئی ایماندار عورت اپنے آپ کو تمہیں بخشش دیوے اور تم چاہتے (رح) ہو اس سے نکاح کرنا تو تم کو اس سے بغیر مہر کے نکاح کرنا درست ہے یہ بات خاص تمہارے لیے ہے اور ایمان والوں کے لیے نہیں ہے امام احمد امام بخاری مسلم ترمذی نسائی اور ابوداؤ (نے سہل بن سعد (رض) سے روایت کیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک عورت نے عرض کیا کہ میں نے اپنی جان آپ کو بخش دی پھر دیر تک کھڑی رہی اس کے بعد ایک شخص نے اٹھ کر عرض کیا یارسول اللہ اگر آپ کو اس کی حاجت نہیں تو اس کا نکاح مجھ سے کر دیجئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تیرے پاس مہر کے واسطے کوئی چیز ہے اس نے عرض کیا میرے پاس تو یہی تہ بند ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تو نے اس کو اپنی چادر دے دی تو تو بےچادر بیٹھا رہے گا گا کوئی چیز تلاش کر کے لیے آ اس نے عرض کیا مجھے کچھ بھی نہیں ملتا آپ نے فرمایا کچھ ڈھونڈ کرلے آ اور کچھ نہیں تو لو ہے کی ایک انگوٹھی ہی سہی پھر اس نے ڈھونڈا مگر اسے کچھ بھی نہیں ملا تو حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور سے دریافت کیا کہ تجھے کچھ قرآن بھی یاد ہے اس نے کئی سورتیں بتائی یہ سن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس قدر تجھے قرآن یاد ہے اس کے بدلے میں نے اس عورت کا نکاح تجھ سے کردیا یہ حدیث خالصۃ لک من دون المومنین کی گویا تفسیر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی عورت اپنے آپ کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالہ میں سونپ کر بغیر مہر کے نکاح پر راضی ہو اور اللہ کے رسول اس عورت کا نکاح کسی دوسرے شخص سے کرنا چاہیں تو اس نکاح میں مہر کی ضرورت ہے ‘ قرآن کی آیتوں کو مہر ٹھہرا کر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو یہ نکاح پڑھایا اس میں ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک (رح) کا اختلاف ہے جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں ہے ‘ اب آگے فرمایا اے رسول اللہ کے تمہارے نکاح کے حکموں کے علاوہ امت کے مسلمانوں کے نکاحوں کے احکام جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے ہیں وہ بھی اللہ کے علم کے موافق ہیں کہ کسی مسلمان کو چار عورتیں سے زیادہ نکاح میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے اور ان کے ہر ایک نکاح میں عورت کے وارث کی اجازت اور گواہوں کی گواہی ضرور ہے اور لونڈیوں کو صحبت میں رکھنے کی ان کو اجازت ہے پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے یہ نکاح کے احکام اس واسطے تفصیل وار نازل فرمائے ہیں کہ اے نبی تم کو اور تمہاری امت کے مسلمان لوگوں کو اس باب میں کچھ تنگی نہ رہے اور ان احکام کے نازل ہونے سے پہلے یہ لوگ جو بےاحتیاطی کرچکے اس کو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:45) شاھدا۔ بطور گواہ کے۔ مبشرا بطور مومنون کو جنت کی خوشخبری دینے والے کے نذیرا کافروں کو دوزخ کی آگ سے ڈرانے والے کے داعیا لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے والا سراجا منیرا بطور ایک روشن چراغ کے۔ جس کے نور ہدایت سے ہر کوشش کرنے والا سیدھی راہ پاسکے۔ سب بوجہ مال ہونے کے منصوب ہیں۔ سراجا منیرا۔ ترکیب توصیفی ہے۔ السراج کے معنی ہیں وہ چیز جو تیل اور بتی سے روشن ہوتی ہے (مراد چراغ) مجازا ہر روشن چیز کو سراج کہا جاتا ہے چناچہ قرآن مجید میں ہے و جعل الشمس سراجا (7 ١: ١ 6) اور اس نے سورج کو چراغ (کی مانند روشن ) بنایا۔ منیرا۔ اسم فاعل واحد مذکرسراجا کی صفت ہو کر موصوف کی رعایت سے منصوب آیا ہے یہ انارۃ (افعال، مصدر (مادہ نور) سے ہے باب افعال کا ابتدائی ھمزہ کبھی متعدی بنانے کے لئے آتا ہے اور کبھی صاحب ماخذ ہونے کو ظاہر کرتا ہے مثلاً اشرکت النعل میں نے جوتی شراک دار (تسمہ والی) بنائی۔ اسی لئے انارۃ کے معنی روشن کرنا بھی ہے اور روشنی والا بھی۔ اسی بناء پر منیرا کے معنی ہوئے خود روشن اور دوسروں کو روشن کرنے والا بھی۔ اور سراجا منیرا۔ ایسا چراغ جو خود بھی روشن ہو اور دوسروں کو روشن کرنے والا بھی ہو۔ اسی سلسلہ میں صاحب ضیاء القرآن نے مولانا ثناء اللہ پانی پتی کا حوالہ نقل کیا ہے :۔ انہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کان بلسانہ داعیا الی اللہ تعالیٰ وبقلبہ وقالبہ کان مثل السراج یتلون المؤمنون بالوانہ ویتنورون بانوارہ۔ یعنی حضور اپنی زبان فیض ترجمان سے تو داعی تھے اور اپنے قلب مبارک اور قالب منور کی وجہ سے سراج منیر تھے اہل ایمان اس آفتاب کے رنگوں میں رنگے جاتے تھے اور اس کے انوار سے درخشاں وتاباں ہوتے ہیں تفسیر ماجدی میں ہے کہ :۔ مفسرین قدیم نے لکھا ہے کہ بجائے آفتاب کے چراغ سے تشبیہ دینے میں یہ نکتہ ہے کہ نور آفتاب گو تیز وقوی ہوتا ہے لیکن اس کا فیضان ضعیف ہے اپنا سا کسی کو نہیں بنا سکتا بخلاف اس کے چراغ سے صدہا ہزارہا چراغ جلتے چلے جاتے ہیں۔ چناچہ فیضان رسول سے قیامت تک امت میں اولیا و ابرار ہوتے رہیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے قول و عمل سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دیں اور قیامت کے دن اپنی امت کے گواہ ہوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اللہ کا پیغام بےکم وکاست پہنچا دیا تھا، بلکہ دوسری امتوں کو بھی گواہی دیں گے کہ ان کے انبیاء ( علیہ السلام) نے ان تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ ( دیکھئے سورة بقرہ آیت 143)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 45 تا 48 شاھد : گواہی دینے والا مبشر : خوشخبری دینے والا نذیر : ڈرانے والا۔ آگاہ کرنے والا داعی : بلانے والا ۔ پکارنے والا سراج : سورج۔ چراغ منیر : روشن کرنے والا لا تطع : پیچھے نہ چل۔ نہ کسی سے دبو دع : چھوڑ دے اذی : تکلیفیں تشریح : آیات نمبر 45 تا 48 امہات المومنین (رض) اور ان کے بعد تمام اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ وہ پوری طرح اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و فرماں برداری کرتے رہیں۔ کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے رہیں اور دشمنان اسلام کے غلط اور بےبنیاد پرو پیگنڈے سے کسی شک و شبہ میں مبتلا نہ ہوں۔ اب ان آیات میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار و مشرکین کی طرف سے دی گئی ذہنی اور فکری اذیتوں کے جواب میں تسلی دیتے ہوئے خطاب کیا گیا ہے کہ آپ ان باتوں سے رنجیدہ نہ ہوں کیونکہ ہر وہ شخص جو اپنے مقصد اور مشن کو پھیلانے میں پر خلوص ہوتا ہے اس کو اسی طرح کی تکلیفوں اور اذیتوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے گویا یہ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اے ہمارے حبیب اللہ نے آپ کو انتہائی بلند مقام، رتبہ اور اعلیٰ صفات کا پیکر بنایا ہے۔ یہ کفار، مشرکین اور منافقین کتنی ہی سازشیں کر ڈالیں آپ کو انتہائی بلند مقام ، رتبہ اور اعلیٰ صفات کا پیکر بنایا ہے۔ یہ کفار مشرکین اور منافقین کتنی ہی سازشیں کر ڈالیں آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا آخری رسول بنا کر بھیجا ہے ۔ آپ کی شان یہ ہے کہ جب سارے انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کی امتیں سخت پریشانی میں ہوں گی تو قیامت کے دن آپ سب پر گواہی دینے والے ہوں گے ۔ ہر نیک عمل کرنے والے کو خوش خبری دینے والے اور بدکاروں کو ان کے برے انجام سے ڈرانے والے، اللہ کے حکم سے لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے والے اور سورج کی طرح چمک کر روشنی بکھیر نے والوں میں سے ہیں۔ نہ تو آپ کفار و مشرکین سے دبیں نہ ان کی ایذارسانیوں پر رنجیدہ ہوں ۔ آپ اللہ پر بھروسہ کیجئے کیونکہ وہی ایک ذات ہے جو ہر ایک کی مشکل کو حل کرنے والی اور ہر ایک کا کام بنانے والی ذات ہے ۔ اللہ وہ جو کسی کے سہاروں کا محتاج نہیں ہے۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اہل ایمان کو اس بات کی خوش خبری سنا دیجئے کہ ان کا اللہ ان پر بہت ہی فضل و کرم کرنے والا ہے۔ یوں تو قرآن کریم اور احادیث میں آپ کے بہت سے صفائی نام آئے ہیں بعض علماء نے تو ان کی تعداد ایک ہزار تک بتائی ہے لیکن ان آیات میں آپ کی چند صفات کا ذکر فرمایا گیا ہے جس کی تفصیل یہ ہے۔ شاہد : گواہی دینے والا۔ آپ جو کچھ کہتے ہیں وہی کرتے ہیں اور اپنے عمل سے اس کی تصدیق کرنے والے ہیں۔ چونکہ آپ کو ہر روز امت کے احوال کا علم دیا جاتا ہے اس لئے آپ اپنی امت کے حالات بھی کے بھی گواہی دینے والے ہیں۔ احادیث میں آتا ہے کہ آپ قیامت کے دن سارے پغمبروں اور ان کی امتوں کی گواہی دینے والے ہوں گے تمام پغمبروں نے اللہ کا پیغام اپنی امتوں تک ٹھیک ٹھیک پہنچادیا تھا۔ (بخاری و ترمذی) ۔ آپ اپنی امت کے لئے اس بات پر گواہی دیں گے کہ کون سیدھے راستے پر تھا اور کون کھلی ہوئی گمراہی میں بھٹکتا رہا تھا۔ غرضیکہ اللہ کی طرف سے دی گئی تمام معلومات کی بنیاد پر گواہی دینے والے ہوں گے۔ مبشرا : خوش خبری دینے والا۔ وہ لوگ جو دنیا میں ایمان اور عمل صالح کی زندگی اختیار کریں گے ان کو جنت کی ابدی راحتوں اور بہترین انجام کی خوش خبری دینے والے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو اس بات کی خوش خبری دینے والے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے نیک اعمال کے سبب اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائیں گے۔ نذیرا : ڈرانے والا۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ کفار ، مشرکین ، منافقین اور بدکاروں کو ان کی نا فرمانیوں پر جو بد ترین سزائیں دی جائیں گی ان کے برے انجام سے ڈرانے والے بھی ہیں۔ اور جو لوگ اس دنیا میں اپنے برے انجام سے بیخبر آنکھیں بند کئے ہوئے چل رہے ہیں آپ ان کو اس بات سے آگاہ کرنے والے ہیں کہ اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو ان کو جہنم کا ایندھن بننے سے کوئی روک نہ سکے گا۔ داعی الی اللہ : اللہ کی اجازت سے اللہ کی طرف بلانے والا۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو اللہ کے دین اور آخرت کی طرف بلانے اور بہترین انجام کی خوش خبری دینے والے ہیں ۔ اس کا مفہوم یہ بھی ہے کہ آپ اگر لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے والے ہیں تو وہ اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے نہیں بلکہ محض اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے اللہ کی طرف بلا رہے ہیں ۔ سراجا منیرا : روشن چراغ ، چمکتا سورج، یعنی آپ کی ذات اس روشن چراغ یا چمکتے سورج کی طرح ہے جو زندگی کے اندھیرو میں بھٹکنے والوں کو روشنی کی طرف بلاتے اور راہ ہدایت دکھاتے ہیں۔ ان تمام صفات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لا تعداد صفات کا مالک بنایا ہے جو اپنے مقصد اور مشن میں انتہائی مخلص ہیں لہذا ان کی اتباع اور پیروی کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا ہے کہ آپ اہل ایمان کو خوش خبری سنا دیجئے کہ ان کا مالک اللہ ہے اور وہ انتہائی مہربان اور رحم وکرم کرنے والا ہے ۔ دوسرے یہ کہ کفار مشرکین سے دب کر بات نہ کریں ان کی اذیتوں اور تکلیفوں پر پریشان ہوں بلکہ آپ اپنے اللہ پر بھروسہ کیجئے جو سب کے کام بنانے والا ہے اور ہر ایک کی مشکل کو دور کرنے والا ہے ۔ تسلی دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ جب آپ اللہ پر بھروسہ کر کے آگے قدم بڑھائیں گے تو وہ وقت بہت دور نہیں ہے جب یہی کفار و مشرکین آپ کے قدموں میں جھکنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو ” اللہ “ کی یاد دلانے اور اس کی توحید کی شہادت دینے کے لیے مبعوث کیے گئے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس لیے مبعوث فرمایا گیا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو ” اللہ “ کے حکم کے مطابق ” اللہ ” کی طرف بلائیں اور ” اللہ “ کی توحید کی دعوت اور شہادت دیں اور لوگوں کو ” اللہ “ کی یاد کی تلقین کریں۔ جو لوگ اس دعوت کو قبول کریں انہیں دنیا و آخرت میں کامیابی اور اللہ تعالیٰ کے عظیم فضل کی خوشخبری سنائیں۔ جو اس دعوت کا انکار کریں انہیں ان کے برے انجام سے ڈرائیں اور جو لوگ دعوت کے راستے میں رکاوٹ بنیں وہ کافر ہوں یا منافق انہیں انکے حال پر چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنا مشن جاری رکھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے مشن کو کامیاب فرمائے گا کیوں کہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے اپنے بندے کے لیے کافی ہے۔ یہاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کو سراج منیر قرار دیا گیا ہے۔ یعنی ہدایت کا چمکتا ہوا سورج جس سے کفر و شرک کی تاریکیاں چھٹ گئیں اور نور ہدایت سے فضا منور ہوگئی گویا کہ آپ نور ہدایت تھے نور مجسم نہ تھے۔ اس حقیقت کے باوجود کچھ علماء نے اپنے باطل عقیدہ کی بناء پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نورمجسم لکھا ہے حالانکہ نوع ذات کے اعتبار سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسان تھے اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں شامل ہیں جو شخص آپ کے پیکر خاکی کو نور مجسم کہتا ہے وہ کفر و شرک کی بات کرتا ہے کیونکہ قرآن مجید نے بار بار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشر کہا ہے۔ (قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا) [ الکہف : ١١٠] ” اے نبی فرمادیں میں تو تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہے۔ اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور عبادت میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔ “ شاہد : کچھ مفسرین نے اس جہالت کا مظاہرہ کیا ہے کہ انسان جو بھی عمل کرتا ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے عمل پر گواہ ہوتے ہیں اور قیامت کے دن لوگوں کے ہر عمل پر شہادت دیں گے۔ حالانکہ عقل و نقل کے لحاظ سے یہ بات سو فیصد غلط ہے یہ ایسا عقیدہ اور بات ہے کہ جس کا کوئی صحابی (رض) بھی قائل نہ تھا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو توحید کی شہادت اور حق کی گواہی دینے والا بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔ ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنوں کو خوشخبری دینے والے اور کفار اور منافقوں کو انتباہ کرنے والے تھے۔ ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نور مجسم نہیں بلکہ نورہدایت تھے۔ ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو اللہ کے حکم سے اللہ کی طرف بلانے والے تھے۔ ٥۔ کفار اور منافقوں کی مخالفت کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کو اپنے فضل عظیم کی بشارت دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت و شان : ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخی کرنے والے کافر ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (البقرۃ : ١٠٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شاہد، مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ (الفتح : ٨) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منصب لوگوں پر شہادت قائم کرنا ہے۔ (المزمل : ١٥) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے انبیاء ( علیہ السلام) اپنی اپنی امت کے بارے میں گواہی دیں گے۔ (النساء : ٤١) ٥۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاہد اور مبشر بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ (الاحزاب : ٤٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یایھا النبی انا ارسنک ۔۔۔۔۔۔ وکفی باللہ وکیلا (45 – 48) نبی کا فریضہ منصبی یہ ہے کہ آپ لوگوں پر گواہ ہوں لہٰذا لوگوں کو ایسا عمل کرنا چاہئے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اچھی شہادت دینے کے قابل ہوں کیونکہ آپ نے سچی شہادت دینی ہے۔ اصل واقعہ سے کوئی تغیر و تبدیلی آپ نے نہیں کرنی ہے۔ رسول تو خوشخبری دینے والے ہیں ان لوگوں کو جو اچھے کام کرتے ہیں۔ نیک لوگوں کے لیے اللہ کی رحمت انتظار میں ہے اور غافل اور بےراہ رو لوگوں کو ڈرانے والے ہیں کہ ان کیلئے سخت عذاب ہے تاکہ وہ بیچارے غفلت میں نہ مارے جائیں اور اگر سزا دی جائے تو وارننگ کے بعد۔ وداعیا الی اللہ (33: 46) ” اور اللہ کی طرف بلانے والا بنا کر بھیجا ہے “۔ اس لیے نہیں بھیجا کہ صرف تمہاری دنیا اچھی ہے۔ تم دنیا میں برتر ہوجاؤ اور قومی وقار تمہارا بلند ہو۔ نہ جاہلی عصبیات کے لئے اسے داعی بنایا ہے۔ نہ مال غنیمت کے حصول کے لئے اٹھایا ہے۔ نہ نظام مملکت کا قیام مطلوب ہے۔ صرف دعوت الی اللہ ان کا منشور و مطلوب ہے اور یہ کام اللہ کے حکم سے انہوں نے شروع کیا ہے۔ نہ یہ اپنی طرف سے ہے اور نہ رضا کارانہ ہے۔ نہ آپ اپنی طرف سے یہ کام بطور رضا کار کرتے ہیں۔ یہ سب کام اللہ کے حکم سے ہے۔ وسراجا منیرا (33: 46) ” آپ روشن چراغ ہیں “۔ آپ ظلمتوں کو دور کرنے والے ہیں۔ شہادت کو قائم کرتے ہیں۔ راستہ متعین کرتے ہیں اور لوگوں کے لیے ایسے رہنما ہیں جس طرح سراج منیر ہوتا ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح روشنی لے کر آئے ۔ یہ روشنی ایک واضح تصور تھا ، ایک واضح نظریہ اور عقیدہ تھا ، جس نے پوری کائنات کو منور کردیا۔ اس کائنات اور انسان کا ربط واضح کردیا اور اس کائنات میں انسان کے مقام و مرتبہ کو متعین کیا۔ ان اقدار کی وضاحت کی جن پر یہ کائنات قائم ہے۔ انسان کا مقصد ، اس کی غرض ، اور اس کے حصول کا طریقہ متعین کیا۔ نہایت ہی واضح اسلوب میں اور نہایت ہی فطری انداز میں۔ اس طرح کہ بات انسان کے دل کی گہرائیوں تک اتر جاتی ہے۔ مشکل سے مشکل مسائل اور زندگی کے نشیب و فراز میں پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کو آسان ترین طریقوں سے حل کردیا گیا ہے۔ مکرر اس بات کی تفصیل دی جاتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داریوں میں اس بات کا اضافہ کیا جاتا ہے کہ آپ مومنین کے لیے مبشر ہیں۔ وبشر المومنین بان لھم من اللہ فضلا کبرا (33: 47) ” بشارت دے دو ان لوگوں کو جو تم پر ایمان لائے کہ ان کے لیے اللہ کا بہت بڑا فضل ہے “۔ اس سے قبل آیت یایھا النبی انا ارسلنک شاھدا ومبشرا ونذیرا (33: 45) ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گواہ ، مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے) میں مجملاً آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبشر کہا گیا تھا اور یہ تفصیل اس لیے دی ہے کہ مومنین یقین کرلیں کہ ان پر اللہ کا بہت بڑا فضل و کرم ہوگا اور یہ جو ان کے لیے قوانین اور ضوابط تیار ہو رہے ہیں اور نبی اپنے عمل سے ان کے لیے جو راہ و رسم وضع کر رہے ہیں یہ آخر کار ان کے لیے خوشخبری اور عظیم فضل و کرم کی بشارت ہوں گے۔ اس خطاب میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ آپ کافروں اور منافقوں کی کسی معاملے میں اطاعت کریں اور مومنین اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ لوگ جو اذیت دیتے ہیں اس کی بھی کوئی پرواہ نہ کریں۔ صرف اللہ وحدہ پر توکل کریں۔ وہی تمہارے لیے کافی مددگار ہے۔ ولا تطع الکفرین ۔۔۔۔۔ وکفی باللہ وکیلا (33: 48) ” اور ہرگز نہ دبو کافروں اور منافقین سے ، کوئی پرواہ نہ کرو ان کی اذیت رسانی کی۔ اور بھروسہ کرلو اللہ پر ، اللہ ہی اس کے لئے کافی ہے کہ آدمی اپنے معاملات اس کے سپرد کردے “۔ یہ وہی خطاب ہے جو سورة کے آغاز میں بھی تھا ۔ اس سے قبل کہ وہاں قانون سازی کا آغاز کیا جاتا اور جدید انتظامی ہدایات دی جاتیں ۔ یہاں البتہ یہ بات زیادہ ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کافروں اور منافقوں کی اذیت رسانی کی کوئی پرواہ نہ کریں اور نہ ان کی پیروی کسی معاملے میں کریں اور نہ کسی معاملے میں ان پر اعتماد کریں۔ کیونکہ اللہ وحدہ قابل اعتماد ہے۔ وکفی باللہ وکیلا (33: 48) ” اللہ ہی اس کے لیے کافی ہے کہ آدمی اپنے معاملات اس کے سپرد کر دے “۔ یوں زید اور زینب (رض) کے واقعہ اور منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے ساتھ نکاح کے جواز کے مسئلہ کی تمہید اور تبصرہ دونوں طویل ہیں اور یہ عملی مثال جسے پیش کرنے کے فریضے کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی بہت بھاری محسوس سمجھ رہے تھے۔ اس لیے اس میں اللہ کی طرف سے تشریح اور لوگوں کی حوصلہ افزائی کی ضرورت تھی۔ ان معاملات میں تعلق باللہ کو مضبوط کرنے کی ضرورت تھی تاکہ بندہ اللہ کے احسان اور رحمت کا گہرا شعور حاصل کرلے اور ان احکام کو خوشدلی سے وصول کرے ، قبول کرے اور تسلیم و رضا کے ساتھ ان پر عمل پیرا ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات جمیلہ : یہ چار آیات کا ترجمہ ہے، پہلی دو آیتوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات بیان فرمائی ہیں اور تیسری آیت میں آپ کو بشارت دینے کا حکم دیا ہے اور چوتھی آیت میں کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننے کا اور ان سے جو تکلیفیں پہنچیں ان کی طرف دھیان نہ دینے کا اور اللہ پر بھروسہ کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ اول تو یوں فرمایا ہے (یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا) کہ اے نبی ہم نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا ہے، شاہد گواہ کو کہتے ہیں، سورة بقرہ میں فرمایا ہے (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا) (اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک ایسی جماعت بنا دیا جو اعتدال والی ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ اور رسول تم پر گواہ ہوجائے) اور سورة نساء میں فرمایا (فَکَیْفَ اِذَاجِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآءِ شَھِیْدًا) (سو کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان پر گواہ بنائیں گے) اور سورة حج میں فرمایا (لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ) (تاکہ رسول تم پر گواہ ہوجائے اور تم لوگوں کے مقابلہ میں گواہ بن جاؤ۔ ) ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ آپ قیامت کے دن اپنے سے پہلی امتوں کے بارے میں گواہی دیں گے، سورة بقرہ اور سورة نساء کی آیات کے ذیل میں جو کچھ ہم نے لکھا ہے اس کی مراجعت فرما لیں۔ (انوار البیان جلد دوم) پھر فرمایا (وَّمُبَشِّرًا) کہ آپ کو بشارت دینے والا بنا کر بھیجا، اہل ایمان کو ایمان کے منافع اور اعمال صالحہ کے اجر وثواب کی خوشخبری دینا آپ کے کار مفوضہ میں شامل ہے۔ وَّ نَذِیْرًا اور آپ کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔ جیسا کہ اہل ایمان کو بشارت دینا آپ کے فرائض منصبی میں سے ہے اسی طرح اہل کفر اور اہل معصیت کو ڈرانا اور وعیدیں سنانا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے ذمہ کیا گیا ہے۔ عرب و عجم کے لیے، تمام ادیان والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشیر ونذیر بنا کر بھیجا، سورة سباء میں ارشاد فرمایا : (وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا) (اور ہم نے تو آپ کو تمام لوگوں کے واسطے پیغمبر بناکر بھیجا ہے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام انسانوں کو اور تمام اہل ادیان کو ایمان قبول کرنے پر آخرت کی بھلائی کی بشارت دی اور ایمان سے منحرف اور منکر ہونے پر آخرت کے عذاب سے باخبر فرمایا، یہود و نصاریٰ بھی اسی میں شامل ہیں جو اپنے پاس دین سماوی ہونے کے مدعی ہیں، سورة مائدہ میں فرمایا : (یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلٰی فَتْرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَ نَا مِنْ بَشِیْرٍ وَّلَا نَذِیْرٍ فَقَدْ جَآءَ کُمْ بَشِیْرٌ وَّنَذِیْرٌ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) (اے اہل کتاب تمہارے پاس یہ رسول آپہنچے جو کہ تم کو صاف صاف بتلاتے ہیں ایسے وقت میں کہ رسولوں کا سلسلہ موقوف تھا تاکہ تم یوں نہ کہنے لگو کہ ہمارے پاس کوئی بشیر اور نذیر نہیں آیا سو تمہارے پاس بشیر اور نذیر آچکے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتے ہیں۔ ) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشیر اور نذیر کی صفات عظیمہ سے متصف فرمایا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاہد بھی بتایا ہے، توریت شریف میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ صفات بیان فرمائی گئی ہیں۔ صحیح بخاری جلد ١ ص : ٢٨٥ میں حضرت عطا بن یسار سے مروی ہے کہ انہوں نے بیان کیا میں نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے ملاقات کی اور عرض کیا کہ توریت میں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت بیان کی گئی ہے اس سے مجھے باخبر فرمائیے، انہوں نے فرمایا جو آپ کی صفات قرآن شریف میں بیان کی گئی ہیں ان میں سے بعض صفات توریت میں مذکور ہیں۔ (یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا) اے نبی ہم نے آپ کو گواہ بنا کر اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا۔ (یہ الفاظ قرآنیہ کا ترجمہ ہے) اور توریت میں مزید یہ باتیں بھی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امیین یعنی عرب کی حفاظت کرنے والا بناکر بھیجا، تو میرا بندہ ہے میں نے تیرا نام متوکل رکھا تو درشت خو اور سخت مزاج نہیں ہے اور بازاروں میں شور مچانے والا نہیں اور جو برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتا لیکن معاف کرتا ہے اور بخش دیتا ہے اور اللہ اسے نہیں اٹھائے گا جب تک کہ اس کے ذریعہ کجی والی ملت کو سیدھی نہ کردے اس طرح سے کہ وہ لوگ لا الہ الا اللہ کہیں اور اس کے ذریعے ان کی اندھی آنکھوں کو کھول دے گا اور بہرے کانوں کو اور غلاف چڑھے ہوئے قلوب کو کھول دے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

46:۔ یا ایہا النبی الخ، یہ آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پانچواں خطاب ہے۔ میرے پیغمبر ! میں نے تجھے اس لیے رسول بنا کر بھیجا ہے تاکہ حق کو کھول کر بیان کرے۔ سننے والوں کو خوشخبری دے اور منکرین کو عذاب سے ڈرائے اور میں نے تجھے توحید کی دعوت کے لیے اور کفر و شرک کے اندھیروں میں سراج منیر بنا کر بھیجا ہے اس لیے آپ حق بات کو واضح کر کے بیان کریں۔ اگرچہ کفار و مشرکین اور منافقین مخالفت کریں۔ مثلا متبنی کی مطلقہ سے نکاح کرنے کے بارے میں صاف اعلان کردیں کہ یہ جائز ہے اور مخالفین کی مخالفت کی ذرا بھر پرواہ نہ کریں۔ شاھدا کلمہ توحید کا اقرار و اعلان کرنے والا اور وحدانیت کی شہادت دینے والا، قیل المراد شاھدا بان لا الہ الا اللہ (روح ج 22 ص 45) ثانیہا انہ شاھد ان لا الہ الا اللہ (کبیر ج 6 ص 88) ۔ داعیا الی اللہ، اللہ کی توحید کی طرف بلانے والا قال ابن عباس شہادۃ ان لا الہ الا اللہ (بحر جلد 7 ص 238) ۔ الدعا الی اللہ ھو تبلیغ التوحید و الاخذ بہ و مکافحۃ الکفرۃ (قرطبی ج 14 ص 200) ۔ سراجا منیرا ای ھادیا من ظلم الضلالۃ (ایضا ص 201) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

45۔ اے نبی یقینا ہم نے آپ کو اس شان کا رسول بنا کر بھیجا ہے کہ آپ گواہی دینے والے ہیں اور آپ بشارت اور خوشخبری بنانے والے ہیں اور ڈرانے والے ہیں۔