Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 63

سورة الأحزاب

یَسۡئَلُکَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَۃِ ؕ قُلۡ اِنَّمَا عِلۡمُہَا عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ مَا یُدۡرِیۡکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ تَکُوۡنُ قَرِیۡبًا ﴿۶۳﴾

People ask you concerning the Hour. Say," Knowledge of it is only with Allah . And what may make you perceive? Perhaps the Hour is near."

لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے! کہ اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے ، آپ کو کیا خبر بہت ممکن ہے قیامت بالکل ہی قریب ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

No One knows when the Day of Resurrection will come except Allah Allah says: يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّهِ ... People ask you concerning the Hour, say: "The knowledge of it is with Allah only. Here Allah tells His Messenger that he cannot know when the Hour will come, and if people ask him about that, He instructs him to refer the matter to Allah, may He be exalted, as Allah says in Surah Al-A`raf, even though that was revealed in Makkah and this Surah was revealed in Al-Madinah. Allah continues to tell him to refer this matter to the One Who knows about it, but He tells him that it is at hand, as He says: ... وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا What do you know It may be that the Hour is near! This is like the Ayat: اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ The Hour has drawn near, and the moon has been cleft asunder. (54:1) اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَـبُهُمْ وَهُمْ فِى غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ Draws near for mankind their reckoning, while they turn away in heedlessness. (21:1) أَتَى أَمْرُ اللَّهِ فَلَ تَسْتَعْجِلُوهُ The Event (the Hour) ordained by Allah will come to pass, so seek not to hasten it. (16:1) The Curse on the Disbelievers and its Eternity and their Regret Then Allah says:

قیامت قریب تر سمجھو ۔ لوگ یہ سمجھ کر کہ قیامت کب آئے گی ۔ اس کا علم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے ۔ آپ سے سوال کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے سب کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی معلوم کروا دیا کہ اس کا مطلق مجھے علم نہیں یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ۔ سورۃ اعراف میں بھی یہ بیان ہے اور اس سورت میں بھی پہلی سورت مکے میں اتری تھی یہ سورت مدینے میں نازل ہوئی ۔ جس سے ظاہر کرا دیا گیا کہ ابتدا سے انتہا تک قیامت کے صحیح وقت کی تعیین آپ کو معلوم نہ تھی ۔ ہاں اتنا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو معلوم کرا دیا تھا کہ قیامت کا وقت ہے قریب ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ Ǻ۝ ) 54- القمر:1 ) اور آیت میں ہے ( اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ Ǻ۝ۚ ) 21- الأنبياء:1 ) اور ( اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ Ǻ۝ ) 16- النحل:1 ) وغیرہ ، اللہ تعالیٰ نے کافروں کو اپنی رحمت سے دور کردیا ہے ان پر ابدی لعنت فرمائی ہے ۔ دار آخرت میں ان کیلئے آگ جہنم تیار ہے جو بڑی بھڑکنے والی ہے ، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے نہ کبھی نکل سکیں نہ چھوٹ سکیں اور وہاں نہ کوئی اپنا فریاد رس پائیں گے نہ کوئی دوست و مددگار جو انہیں چھڑالے یا بچاسکے ، یہ جہنم میں منہ کے بل ڈالے جائیں گے ۔ اس وقت تمنا کریں گے کہ کاش کہ ہم اللہ رسول کے تابعدار ہوتے ۔ میدان قیامت میں بھی ان کی یہی تمنائیں رہیں گی ہاتھ کو چباتے ہوئے کہیں گے کہ کاش ہم قرآن حدیث کے عامل ہوتے ۔ کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا ۔ اس نے تو مجھے قرآن و حدیث سے بہکا دیا فی الواقع شیطان انسان کو ذلیل کرنے والا ہے اور آیت میں ہے ( رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ Ą۝ ) 15- الحجر:2 ) عنقریب کفار آرزو کریں گے کہ کاش کہ وہ مسلمان ہوتے ، اس وقت کہیں گے کہ اے اللہ ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے علماء کی پیروی کی ۔ امراء اور مشائخین کے پیچھے لگے رہے ۔ رسولوں سے اختلاف کیا اور یہ سمجھا کہ ہمارے بڑے راہ راست پر ہیں ۔ ان کے پاس حق ہے آج ثابت ہوا کہ درحقیقت وہ کچھ نہ تھے ۔ انہوں نے تو ہمیں بہکا دیا ، پروردگار تو انہیں دوہرا عذاب کر ۔ ایک تو انکے اپنے کفر کا ایک ہمیں برباد کرنے کا ۔ اور ان پر بدترین لعنت نازل کر ۔ ایک قرأت میں کبیراً کے بدلے کثیراً ہے مطلب دونوں کا یکساں ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی ایسی دعا کی درخواست کی جسے وہ نماز میں پڑھیں تو آپ نے یہ دعا تعلیم فرمائی ( اللھم انی ظلمت نفسی ظلما کثیرا و انہ ولا یغفرالذنوب الا انت فاغفرلی مغفرۃ من عندک وارحمنی انک انت الغفور الرحیم ) یعنی اے اللہ میں نے بہت سے گناہ کئے ہیں ۔ میں مانتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی انہیں معاف نہیں کرسکتا پس تو اپنی خصوصی بخشش سے مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کر تو بڑا ہی بخشش کرنے والا اور مہربان ہے ۔ اس حدیث میں بھی ظلما کثیراً اور کبیراً دونوں ہی مروی ہیں ۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ دعا میں کثیراً کبیراً دونوں لفظ ملالے ۔ لیکن یہ ٹھیک نہیں بلکہ ٹھیک یہ ہے کہ کبھی کثیراً کہے کبھی کبیراً دونوں لفظوں میں سے جسے چاہے پڑھ سکتا ہے ۔ لیکن دونوں کو جمع نہیں کرسکتا ، واللہ اعلم ۔ حضرت علی کا ایک ساتھی آپ کے مخالفین سے کہہ رہا تھا کہ تم اللہ کے ہاں جاکر یہ کہو گے کہ ( ربنا انا اطعنا ) الخ ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٤] چونکہ قیامت کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں اور اس کا متعین وقت بتانا بھی مصلحت الٰہی کے خلاف ہے۔ لہذا اس کا وقت معین کسی کو نہیں بتایا گیا اور کافر اور منافق یہ سوال بار بار اس لئے کرتے رہتے تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کو زچ کرنے کے لئے ایک شغل بنایا ہوا تھا۔ جس سے ان کی مراد محض پیغمبر اسلام اور دعوت اسلام کا مذاق اڑانا اور اضحوکہ بنانا ہوتا تھا اسے وہ محض ایک خالی خولی دھمکی سمجھتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يَسْـَٔـــلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ : قرطبی نے فرمایا : ” ان سوال کرنے والوں سے مراد وہی پیغمبر کو ایذا دینے والے، دل کے بیمار، منافق اور جھوٹی خبریں اڑانے والے لوگ ہیں، جن کا پیچھے ذکر ہوا، جب ان کو عذاب مہین سے ڈرایا جاتا تو وہ کہتے ” اَلسَّاعَۃُ “ عذاب کی وہ گھڑی، یعنی قیامت کب ہے ؟ مقصد ان کا پوچھنا نہیں تھا، بلکہ اس کا انکار اور مذاق اڑانا اور پیغمبر کو لاجواب کرنا تھا کہ انھیں اتنا بھی علم نہیں کہ قیامت کب ہوگی۔ “ دیکھیے سورة اعراف (١٨٧) ، طٰہٰ (١٥) ، نمل (٦٦) ، نازعات (٤٢ تا ٤٤) اور سورة ملک (٢٥ تا ٢٧) وغیرہ۔ ۭ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ : یعنی اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے اور اگر اللہ تعالیٰ نے اس کا علم دوسرے تمام لوگوں کی طرح مجھ سے بھی مخفی رکھا ہے تو اس سے میرے صدق پر کچھ اثر نہیں پڑتا اور نہ نبی ہونے کی یہ شرط ہے کہ وہ غیب دان ہو اور ان باتوں کو بھی جانتا ہو جو اللہ تعالیٰ نے اسے نہیں بتائیں۔ ۭ وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُوْنُ قَرِيْبًا : یعنی اگرچہ اس کے متعین وقت کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، پھر بھی یہ جان لو کہ وہ بہت نزدیک ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اقتربت الساعۃ وانشق القمر) [ القمر : ١ ] ” قیامت بہت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔ “ اور فرمایا : (اِقْتَرَبَ للنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ ) [ الأنبیاء : ١ ] ” لوگوں کے لیے ان کا حساب بہت قریب آگیا اور وہ بڑی غفلت میں منہ موڑنے والے ہیں۔ “ اور فرمایا : (اتی امر اللہ فلا تستعجلوہ) [ النحل : ١ ] ” اللہ کا حکم آگیا، سو اس کے جلد آنے کا مطالبہ نہ کرو۔ “ اور سہل بن سعد (رض) فرماتے ہیں : ( رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ قَالَ بِإِصْبَعَیْہِ ھٰکَذَا بالْوُسْطٰی وَالَّتِیْ تَلِي الْإِبْھَامَ بُعِثْتُ وَالسَّاعَۃُ کَھَاتَیْنِ ) [ بخاري، التفسیر، باب سورة : ( والنازعات ) : ٤٩٣٦ ] ” میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا، آپ نے اپنی دو انگلیوں درمیانی اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : ” مجھے اور قیامت کو اس طرح (ساتھ ساتھ) بھیجا گیا ہے۔ “ 3 یہاں ایک سوال ہے کہ ” الساعۃ “ مؤنث کی خبر ” قریبا “ مذکر کیوں ہے ؟ جواب کے لیے دیکھیے سورة اعراف کی آیت (٥٦) : (ان رحمت اللہ قریب من المحسنین) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Those hostile to Allah and the Messenger were warned of and alerted to curse and punishment in the present world and in the Hereafter while many factions among the disbelievers, in their own place, simply denied the eventuality of any Qiyamah (Doomsday) or &Akhirah (Hereafter) and, because of their denial, used to mockingly ask: When would that Qiyamah come? An answer to their question has been given in the cited verse, that the Doomsday may be in near future. It has been said so because nobody knows the exact date of the Doomsday, and therefore everyone should be prepared for it as if it were very close. Another reason for its being declared as close is that after facing the horrible incidents of Qiyamah the entire worldly life of thousands of years will seem to be very short (and the Qiyamah very close to it).

خلاصہ تفسیر یہ (منکر) لوگ آپ سے قیامت کے متعلق (منکرانہ) سوال کرتے ہیں (کہ کب ہوگی) آپ (ان کے جواب میں) فرما دیجئے کہ اس (کے وقت) کی خبر بس اللہ ہی کے پاس ہے اور آپ کو کیا خبر (کہ کب ہے، البتہ اجمالاً ان لوگوں کو جان رکھنا چاہئے کہ) عجب نہیں کہ قیامت ابھی واقع ہوجائے (کیونکہ جب کوئی وقت معین نہیں تو قریب زمانے میں اس کے واقع ہوجانے کا بھی احتمال نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جس کا مقتضاء یہ تھا کہ یہ لوگ انجام سے ڈرتے اور اس کی تیاری میں لگتے، منکرانہ سوالات اور استہزاء سے بچتے۔ اور قیامت کو قریب فرمانے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ قیامت ہر روز قریب ہی ہوتی جا رہی ہے، اور جو چیز سامنے سے آ رہی ہو اس کو قریب ہی سمجھنا دانشمندی ہے۔ اور اس لحاظ سے بھی قیامت کو قریب کہا جاسکتا ہے کہ قیامت کے ہولناک واقعات اور اشتداد کے پیش نظر یہ ساری دنیا کی عمر بھی قلیل نظر آوے گی، اور ہزاروں سال کی یہ مدت چند روز کے برابر محسوس ہوگی) بیشک اللہ تعالیٰ نے کافروں کو رحمت سے دور کر رکھا ہے، اور ان کے لئے آتش سوزاں تیار کر رکھی ہے، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے (اور) نہ کوئی یار پائیں گے اور نہ کوئی مددگار جس روز ان کے چہرے دوزخ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے (یعنی چہروں کے بل گھسیٹے جائیں گے کبھی چہرے کی اس کروٹ پر کبھی دوسری کروٹ پر، اور اس وقت غایت حسرت سے) یوں کہیں گے اے کاش ! ہم نے (دنیا میں) اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور ہم نے رسول کی اطاعت کی ہوتی (تو آج اس مصیبت میں مبتلا نہ ہوتے) اور (حسرت کے ساتھ اپنے گمراہ کرنے والوں پر غصہ آئے گا تو) یوں کہیں گے کہ ہمارے رب ہم اپنے سرداروں کا، (یعنی اہل حکومت کا) اور اپنے بڑوں کا (جن میں کسی دوسری وجہ سے یہ صفت پائی جاتی تھی کہ ان کی بات ماننا اور اتباع کرنا ہمارے ذمے داری تھی) کہنا مانا تھا سو انہوں نے ہم کو (سیدھے) رستہ سے گمراہ کیا تھا اے ہمارے رب ان کو دوہری سزا دیجئے اور ان پر بڑی لعنت کیجئے (یہ ایسا مضمون ہے جیسا سورة اعراف کے چوتھے رکوع میں پہلے آ چکا ہے (آیت) ربنا ھولاء اضلونا فاتہم عذاباً ضعفاً فی النار، جس کا جواب اسی آیت میں یہ بیان فرمایا ہے لکل ضعف۔ معارف ومسائل سابقہ آیات میں اللہ و رسول کی مخالفت کرنے والوں کو دنیا اور آخرت میں لعنت و عذاب کی وعید سنائی گئی تھی، اور کفار کے بہت سے فرقے خود قیامت اور آخرت ہی کے منکر تھے اور انکار کی وجہ سے بطور استہزاء کے پوچھا کرتے تھے کہ وہ قیامت کب آئے گی ؟ آخر سورة میں ان کا جواب مذکورہ آیات میں دیا گیا ہے، جن کی تفسیر اوپر آ چکی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَسْـَٔـــلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَۃِ۝ ٠ ۭ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللہِ۝ ٠ ۭ وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ تَكُوْنُ قَرِيْبًا۝ ٦٣ ساعة السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] ( س و ع ) الساعۃ ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) دری الدّراية : المعرفة المدرکة بضرب من الحیل، يقال : دَرَيْتُهُ ، ودَرَيْتُ به، دِرْيَةً ، نحو : فطنة، وشعرة، وادَّرَيْتُ قال الشاعر : وماذا يدّري الشّعراء منّي ... وقد جاوزت رأس الأربعین والدَّرِيَّة : لما يتعلّم عليه الطّعن، وللناقة التي ينصبها الصائد ليأنس بها الصّيد، فيستتر من ورائها فيرميه، والمِدْرَى: لقرن الشاة، لکونها دافعة به عن نفسها، وعنه استعیر المُدْرَى لما يصلح به الشّعر، قال تعالی: لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق/ 1] ، وقال : وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 111] ، وقال : ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری/ 52] ، وكلّ موضع ذکر في القرآن وما أَدْراكَ ، فقد عقّب ببیانه «1» ، نحو وما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة/ 10- 11] ، وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر/ 2- 3] ، وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة/ 3] ، ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار/ 18] ، وقوله : قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس/ 16] ، من قولهم : دریت، ولو کان من درأت لقیل : ولا أدرأتكموه . وكلّ موضع ذکر فيه : وَما يُدْرِيكَ لم يعقّبه بذلک، نحو : وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس/ 30] ، وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری/ 17] ، والدّراية لا تستعمل في اللہ تعالی، وقول الشاعر : لا همّ لا أدري وأنت الدّاري فمن تعجرف أجلاف العرب ( د ر ی ) الدرایۃ اس معرفت کو کہتے ہیں جو کسی قسم کے حیلہ یا تدبیر سے حاصل کی جائے اور یہ دریتہ ودریت بہ دریۃ دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ( یعنی اس کا تعدیہ باء کے ساتھ بھی ہوتا ہے ۔ اور باء کے بغیر بھی جیسا کہ فطنت وشعرت ہے اور ادریت بمعنی دریت آتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ع اور شعراء مجھے کیسے ہو کہ دے سکتے ہیں جب کہ میں چالیس سے تجاوز کرچکاہوں قرآن میں ہے ۔ لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق/ 1] تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے کے بعد کوئی ( رجعت کی سبیلی پیدا کردے ۔ وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 111] اور میں نہیں جانتا شاید وہ تمہارے لئے آزمائش ہو ۔ ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری/ 52] تم نہ تو کتاب کو جانتے تھے ۔ اور قرآن پاک میں جہاں کہیں وما ادراک آیا ہے وہاں بعد میں اس کا بیان بھی لایا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة/ 10- 11] اور تم کیا سمجھتے کہ ہاویہ ) کیا ہے ؟ ( وہ ) دھکتی ہوئی آگ ہے ۔ وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر/ 2- 3] اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ۔ وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة/ 3] اور تم کو کیا معلوم ہے کہ سچ مچ ہونے والی کیا چیز ہے ؟ ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار/ 18] اور تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیسا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس/ 16] یہ بھی ) کہہ و کہ اگر خدا چاہتا تو ( نہ تو ) میں ہی یہ کتاب ) تم کو پڑھکر سناتا اور نہ وہی تمہیں اس سے واقف کرتا ۔ میں سے ہے کیونکہ اگر درآت سے ہوتا تو کہا جاتا ۔ اور جہاں کہیں قران میں وما يُدْرِيكَآیا ہے اس کے بعد اس بیان مذکور نہیں ہے ( جیسے فرمایا ) وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس/ 30] اور تم کو کیا خبر شاید وہ پاکیزگی حاصل کرتا ہے ۔ وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری/ 17] اور تم کیا خبر شاید قیامت قریب ہی آپہنچی ہو یہی وجہ ہے کہ درایۃ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال نہیں ہوتا اور شاعر کا قول ع اے اللہ ہی نہیں جانتا اور تو خوب جانتا ہے میں جو اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوا ہے بےسمجھ اور اجڈ بدر دکا قول ہے ( لہذا حجت نہیں ہوسکتا ) الدریۃ ( 1 ) ایک قسم کا حلقہ جس پر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی ہے ۔ ( 2 ) وہ اونٹنی جسے شکار کو مانوس کرنے کے لئے کھڑا کردیا جاتا ہے ۔ اور شکار اسکی اوٹ میں بیٹھ جاتا ہے تاکہ شکا کرسکے ۔ المدوی ( 1 ) بکری کا سینگ کیونکہ وہ اس کے ذریعہ مدافعت کرتی ہے اسی سے استعارہ کنگھی یا بار یک سینگ کو مدری کہا جاتا ہے جس سے عورتیں اپنے بال درست کرتی ہیں ۔ مطعن کی طرح مد سر کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بہت بڑے نیزہ باز کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ عنبر میں زکوۃ نہیں ہے وہ ایک چیز ہے جسے سمندر کنارے پر پھینک دیتا ہے ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ «3» ، وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] ( ق ر ب ) القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یہ لوگ آپ سے قیام قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ فرما دیجیے کہ اس وقت کی خبر تو بس اللہ ہی کے پاس ہے اور آپ کو اس کی کیا خبر کیا عجب کہ قیامت جلد ہی واقع ہوجائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٣ { یَسْئَلُکَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَۃِ } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ “ { قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللّٰہِ } ” کہہ دیجیے کہ اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے۔ “ { وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ تَـکُوْنُ قَرِیْبًا } ” اور تمہیں کیا معلوم ‘ شاید کہ قیامت قریب ہی آچکی ہو۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

116 The Holy Prophet was generally asked this question by the disbelievers and the hypocrites. By this they did not mean to obtain any knowledge but they did so out of fun and jest. As a matter of fact, they did not believe in the coming of the Hereafter at aII; they regarded its concept as an empty threat only. They did not ask about the time of its coming so that they could set their affairs right, but what they really meant was : "O Muhammad, we have been doing everything to frustrate your mission, and you have not been able to do any harm to us so far; now Iet us know as to when will Resurrection take place when we will be taken to task by Allah."

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :116 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال عموماً کفار و منافقین کیا کرتے تھے ۔ اور اس سے ان کا مقصد علم حاصل کرنا نہ تھا بلکہ وہ دل لگی اور استہزاء کے طور پر یہ بات پوچھا کرتے تھے ۔ دراصل ان کو آخرت کے آنے پر یقین نہ تھا ۔ قیامت کے تصور کو وہ محض ایک خالی خولی دھمکی سمجھتے تھے ۔ وہ قیامت کے آنے کی تاریخ اس لیے دریافت نہیں کرتے تھے کہ اس کے آنے سے پہلے وہ اپنے معاملات درست کر لینے کا ارادہ رکھتے ہوں ، بلکہ انکا اصل مطلب یہ ہوتا تھا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تمہیں نیچا دکھانے کے لیے یہ کچھ کیا ہے اور آج تک تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے ہو ، اب ذرا ہمیں بتاؤ تو سہی کہ آخر وہ قیامت کب برپا ہو گی جب ہماری خبر لی جائے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٣ تا ٧١۔ ان آیتوں میں ارشاد ہے کہ اے رسول اللہ کے تمہیں سنا نے کو جو لوگ گھڑی گھڑ تم سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کب ہوگی تم ان کو جواب دو کہ اس کا علم خدا کو ہے اور تم کو کیا خبر شائد قریب ہو جیسا اور جگہ فرمایا اقترب للناس حسابھم وھم فی غفلۃ معرضون جس کا مطلب یہ ہے کہ کہ نزدیک آیا لوگوں کے حساب کا وقت اور وہ غفلت میں ہیں پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے کافروں کو اپنی رحمت سے اور پھینک دیا ہے اور تیار کر رکھا ہے ان کے لیے دھکتی آپ کو ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اس میں اور نہ پادیں گے کافر کسی کو اپنا دوست اور مددگار جو عذاب سے ان کو چھوڑادے پھر فرمایا جس دن وہ آگ میں اوندھے منہ چالے جاویں گے کہیں گے کاش ہم دنیا میں اللہ کی اور اللہ کے رسول کی تابعداری کرتے ‘ طاؤس کا قول ہے کہ سادتنا سے مراد اشراف لوگ ہیں اور کبرائنا سے علماء مراد ہیں ان کے پیرو لوگ کہیں گے اے پروردگار ہمارے ہم نے تابعداری کی اپنے امیروں اور برے علماء کی اور تیرے رسول کا کہا نہ مانا اس لیے دنیا میں ہم گمراہ رہے اے پروردگار دگنا عذاب اور لعنت کر ان کے حشر اور قیامت کے منکر لوگ مسخراپن کے طور پر قیامت کی جلدی جو کرتے تھے ان کو ڈرایا کہ قیامت کے دن ایسے لوگوں کا یہ برا انجام ہوگا ‘ یہ طاؤس بن کیسان حسن بصر کے رتبے کے ثقہ تابعینوں میں ہیں اور حدیث کی سب کتابوں میں ان سے روایتیں ہیں۔ علی بن طلحہ حضرت بن عباس (رض) سے روایت ١ ؎ کرتے ہیں (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٢٢ ج ٣ و تفسیر الدر المنثور ص ٢٢٤ ج ٥) کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس آیت میں امانت کا جو ذکر ہے اس سے مرادوہ باتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے انسان پر فرض کیا ہے جن کے ادا کرنے سے انسان کی نجات ہوسکتی ہے نہیں تو انسان کے لیے بڑی خرابی ہے حاصل کلام یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے صححت قول کے موافق امانت کے لفظ میں وہ سب حقوق داخل ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ذمہ کئے ہیں مثلا توحید عبادت اور اس لفظ میں وہ حقوق بھی داخل ہیں جو ندوں پر شریعت نے لگائے ہیں مثلا امانت کی چیز یا مانیر ہوئی چیز کا نیک نیتی سے واپس کرنا ان سب حقوق کو امانت داری سے ادا کرنے کی امانت کو اللہ تعالیٰ نے آسمان زمین اور پہاڑوں کے روبرو پیش کیا تھا اور فرمایا تھا کہ اگر اس امانت کو تم پورے طور پر ادا کرو گے تو تم کو بڑا اجر ملے گا اور اگر تم اس امانت کو پورے طور پر ادا کرسکو گئے تو تم کو سخت عذاب بھگتنا پڑے گا اس طرح سے وہ ب ڈرے اور اس امانت کو انہوں نے قبول نہیں کیا پھر اللہ تعالیٰ نے اس امانت کو حضرت آدم (علیہ السلام) کے روبرو پیش کیا انہوں نے اپنے لیے اپنی اولاد کے لیے اس امانت میں خیانت کرے گی اور اس امانت کو پوری طرح سے ادا نہ کرسکے گی اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان بڑا نادان ہے بغیر انجام کے سوچے اتنا بڑا بوجھ اپنے سرپرلے لیا اور پھر انسان کی تسکین کے لی یہ بھی فرمادیا کہ جو شخص اس امانت میں کسی طرح کی خیانت کرنے کے بعد تو بہ استغفار کرے گا تو اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے ہاں جو شخص مرتے دم تک اسی خیانت میں شرک اور نفاق کے سبب سے گرفتار رہے گا تو وہ بلاشک عذاب آخری میں پکڑا جاوے گا۔ ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالہ سے شداد بن اوس (رض) کی معتبر روایت اوپر ٢ ؎ ایک جگہ گزر چکی ہے (٢ ؎ بحوالہ مشکوۃ باب استحباب لمال والعمر للطاعۃ فصل دوسری۔ ) کہ جو شخص عمر پھر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کاموں میں لگا رہا ہے اور موت سے پہلے موت کے بعد کا کچھ سامان نہ کرے گا وہ بڑا نادان ہے حاصل مطلب یہ ہے کہ دنیا کے انتظام کو دیکھ کر ہر صاحب عقل شخص سمجھ سکتا ہے کہ اتنا بڑا انتظام کھیل تماشے کے طور پر نہیں ہے بلکہ اس انتظام انجام وہی ہے جس کے سمجھانے کے لیے آسمانی کتابیں لے کر اللہ کے رسول دنیا میں آئے ہیں کہ دنیا کے ختم ہوجانے کے بعد پھر دوبارہ پیدا ہونا اور نیک وبد کی جزا وسزا ضروری ہے تاکہ دنیا کا پیدا ہونا ٹھکانے سے لگ جائے جو شخص سمجھانے کے بعد بھی اس انجام کا منکر یا اس سے غافل ہے وہ بڑانادان ہے یہ حدیث ظلوماجھولا کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ اپنی پیدایش کے انجام سے بیخبر ہیں وہ بڑے نادان ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:63) الساعۃ۔ القیامۃ۔ ما یدریک۔ ما موصول استفہامیہ ۔ موضع رفع میں مبتدا یدریک خبر۔ مضارع واحد مذکر غائب ادراء مصدر (افعال) درء مادہ۔ ثلاثی مجرد میں باب ضرب سے آتا ہے ۔ (مصدر۔ درایۃ) ادراء بتلانا۔ آگاہ کرنا۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر تجھے کون بتلائے تجھے کون چیز اطلاع دے۔ بمعنی تجھ کو کیا معلوم ۔ تجھے کوئی چیز نہیں سمجھا سکتی۔ تو کیا جانے : لعل۔ شاید۔ قریبا۔ ای فی وقت قریب۔ یعنی شاید (روز قیامت ) قریب الوقت ہی ہو ۔ آنے ہی والا ہو۔ ظرفیت کی وجہ سے منصوب ہے اور اس طرع کا استعمال کلام عرب میں اکثر ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 مفسرین کہتے ہیں کہ یہ سوال کرنیوالے وہی منافق اور جھوٹی خبریں پھیلانے والے اور پیغمبر کو ایذا دینے والے لوگ تھے جب ان کو عذاب کی دھمکی دی گئی تو وہ بطور استہزاء اور تکذیب کے سوال کرنے لگے۔ ( قرطبی، شوکانی)3 یعنی اگر قیامت کا علم اللہ تعالیٰ نے مجھ سے مخفی رکھا ہے تو اس سے میری صداقت پر کچھ اثر نہیں پڑتا اور نہ نبی ہونے کی یہ شرط ہی ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے تعلیم کے بغیر غیب دان بھی ہو۔4 اس میں ان کے لیے وعید ہے کہ قیامت یقینا آئے گی اور اس کا وقت کچھ دور نہیں ہے۔ ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی اٹھا کر فرمایا :” بعثت انا والساعۃ کھاتین “ کہ میری بعثت اور قیامت ان دو انگلیوں کے مثل ہے (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 63 تا 68 ما یدری : (تجھے) کیا خبر ہے ؟ سعیر : جہنم۔ بھڑکتی آگ تقلب : الٹ پلٹ دی جائے گی یلیتنا : اے کاش کہ ہم اطعنا : ہم نے اطاعت کی سادتنا : ہمارے بڑے ۔ ہمارے سردار ضعفین : دوگنا۔ دوہرا العن : لعنت کر۔ رحمت سے دور کردے کبیر : بڑا تشریح : آیت نمبر 63 تا 68 کفار ومشرکین کو جب قیامت کے ہولناک دن سے ڈرایا جاتا تھا وہ قیامت کا کچھ علم رکھنے کے باوجود ڈھیٹ بن کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑانے کے لئے کہتے تھیے کہ تم جس قیامت کا بار بار ذکر کرکے ہمیں ڈراتے ہو وہ قیامت آخر کب آئے گی ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کہہ دیجئے کہ مجھے یہ تو معلوم نہیں ہے کہ قیامت کب آئے گی کیونکہ اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ۔ ممکن ہے کہ وہ قیامت بہت رور نہ ہو اور قریب آگئی ہو۔ یہ سوال کرنے والے منافقین اور یہودی لوگ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت قریب ہو یا دور بہر حال ایک دن آکر رہے گی ۔ اس کی فکر کی ضرورت نہیں ہے جس بات پر غور کرنا چاہیے وہ یہ کہ ان کفار و مشرکین نے اس دن کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے کیونکہ وہ دن بہت ہی ہیبت ناک ہوگا جس میں اپنے بھی غیر بن جائیں گے ۔ کوئی کسی کی مدد نہ کرسکے گا ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہوگی بلکہ وہ گمراہ سردار اور معاشرہ کے بڑے لوگ جن پر انہیں ناز تھا اور وہ ان کے کہنے پر چلتے تھے وہ بھی اپنے ماننے والوں کی مدد سے صاف انکار کردیں گے اور اس کے بعد ان کو اوندھنے منہ گھسیٹ کر جہنم کی بھڑکتی آگ میں پھینک دیا جائے گا ۔ اس وقت انہیں افسوس ہوگا کہ کاش ہم اللہ اور اس کے رسول کی بات مانتے ان کی اطاعت کرتے تو یہ بد ترین دین دیکھنا نصیب نہ ہوتا اور ہم ہر طرح کی کامیابیاں حاصل کرلیتے ۔ جب سار حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی تو وہ اللہ کی بار گاہ میں عرض کریں گے کہ اے اللہ ہمارے سردار اور بڑے لوگ وہیں جنہوں نے ہمیں راہ حق سے بھٹکا کر سچائیوں سے دور کردیا تھا۔ الہی ان کو دگنا عذاب دیا جائے گا اور ان کو رحمت سے دور کرکے ان پر لعنتیں بر سائی جائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ وہ لوگ کہیں یا نہ کہیں اللہ کے دوگنے عذاب سے نہ یہ سردار بچ سکیں اور نہ وہ لوگ جو انکا کہا مان کر کفر و شرک میں بتلا تھے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جن لوگوں کے دلوں میں منافقت اور بےحیائی کی بیماری ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ قیامت پر بھی یقین نہیں رکھتے۔ اگر ان کا قیامت پر یقین ہو تو وہ بےحیائی اور منافقت سے باز آجائیں۔ اگر منافقین کا قیامت پر سچا ایمان ہو تو وہ ایسی حرکات سے اجتناب کریں۔ ان کا قیامت پر یقین نہیں ہے اس لیے یہ لوگ معاشرے میں بےحیائی پھیلاتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بار بار سوال کرتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی۔ اس پر آپ کو حکم ہوا کہ دلائل کے تکرار کی بجائے آپ اس موقعہ پر بس اتنا فرمائیں کہ قیامت کے برپا ہونے کا دن صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ انہیں یہ بھی ارشاد فرمائیں کہ تمہیں کیا خبر ! کہ قیامت قریب ہی آپہنچی ہو۔ جس طرح منافقوں اور بےحیاؤں پر دنیا میں اللہ کی لعنت برستی ہے اسی طرح ہی ان پر قیامت کے دن پھٹکار ہوگی اور ان کے لیے جہنم کی آگ تیار کی گئی یہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ وہاں نہ ان کے دوست کام آئیں گے اور نہ ہی ان کی کوئی مدد کرنے والا ہوگا۔ قیامت قریب آچکی ہے یہ زمین و آسمانوں پر بھاری ہوگی : (اِقْتَرَبَ للنَّاسِ حِسَابُھُمْ وَ ھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ مَا یَاْتِیْھِمْ مِّنْ ذِکْرٍ مِّنْ رَّبِّھِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْہُ وَ ھُمْ یَلْعَبُوْنَ ) [ الانبیاء : ١، ٢] ” لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا ہے اور وہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو نصیحت آتی ہے اس کو مشکل سے سنتے ہیں اور کھیل کود میں پڑے رہتے ہیں۔ “ ” آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ یہ کب واقع ہوگی ؟ فرمادیں اس کا علم میرے رب کے پاس ہے اسے اس کے وقت پر اس کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا وہ آسمانوں اور زمین پر بھاری ہوگئی ہے اور تم پر اچانک آئے گی۔ “ (الاعراف : ١٨٧) جہنم کی آگ : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُوقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی احْمَرَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی ابْیَضَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی اسْوَدَّتْ فَہِیَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَۃٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ جہنم ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک ہزار سال تک دوزخ کی آگ کو بھڑکا یا گیا یہاں تک کہ وہ سرخ ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک جلایا گیا تو وہ سفید ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک جلایا گیا یہاں تک کہ وہ سیاہ ہوگئی اب اس کا رنگ سیاہ ہے۔ “ مسائل ١۔ منافقین کو قیامت کے قائم ہونے پر یقین نہیں آتا۔ ٢۔ قیامت ہر صورت برپا ہو کر رہے گی۔ ٣۔ قیامت کے منکروں پر اللہ کی لعنت برستی ہے۔ ٤۔ منکرین قیامت کے لیے جہنم کی آگ بھڑکائی جا چکی ہے۔ ٥۔ جہنم میں ان کا کوئی دوست اور مددگار نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے برپا ہونے کے دلائل : ١۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ آج کس کی بادشاہی ہے ؟۔ (المومن : ١٦) ٢۔ قیامت کے دن اللہ ہی کی بادشاہی ہوگی۔ (الفرقان : ٢٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ مخلوق کو دوبارہ لوٹائے گا تاکہ نیک وبد کو جزا وسزا مل سکے۔ ( یونس : ٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ کا قیامت قائم کرنے کا وعدہ برحق ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (النحل : ٣٨) ٥۔ اے لوگو ! اللہ سے ڈر جاؤ بیشک قیامت کا زلزلہ بہت ہی سخت ہوگا۔ (الحج : ١) ٦۔ قیامت کے دن اللہ ہی فیصلے صادر فرمائے گا۔ (الحج : ٥٦) ٧۔ قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں دے سکے گا۔ (الانفطار : ١٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 193 ایک نظر میں یہ اس سورة کا آخری سبق ہے ، اس میں لوگوں کے اس سوال کا جواب دیا گیا ہے جو وہ قیامت کے بارے میں کرتے تھے اور قیام قیامت کے لیے مطالبے کرتے تھے بلکہ دراصل ان کو وقوع قیامت کے بارے میں شک تھا۔ جواب یہ دیا جاتا ہے کہ قیام قیامت کا معاملہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ البتہ اس کا وقت بہت دور بھی ہے اور ممکن ہے کہ وہ اچانک ہی تمہیں آلے اور تم غفلت میں ڈوبے رہو۔ اس کے بعد مناظر قیامت میں سے ایک ایسا منظر پیش کیا جاتا ہے جو وقوع قیامت کا مطالبہ کرنے والوں کے لیے ہرگز مسرت بخش نہیں ہے۔ جب ان کے چہرے جہنم میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے اور اس وقت وہ اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معصیت پر سخت نادم ہوں گے ، جب وہ اپنے لیڈروں اور پیشواؤں کے لیے دگنا عذاب طلب کریں گے۔ یہ اس قدر شرمسار کنندہ منظر ہے کہ کوئی شتابی کرنے والا ہرگز اسے پسند نہ کرے گا۔ اب اس منظر سے ان کو واپس لاکر پھر اس دنیا میں قوم موسیٰ کی مثال ان کے سامنے پیش کی جاتی ہے کہ اس قوم نے بھی موسیٰ (علیہ السلام) کو اذیت دی تھی اور پھر اللہ نے حضرت موسیٰ کو ان کے لگائے ہوئے الزام سے بری کردیا تھا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک عملی واقعہ تھا۔ اشارہ اس طرح ہے کہ مدینہ میں جو لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف باتیں کرتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رینب کے ساتھ نکاح کرکے عربوں کے رواج کے خلاف کیا ہے۔ ایسا ہی کوئی الزام حضرت موسیٰ پر بھی تھا اور مومنین سے کہا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں سیدھی بات کیا کریں اور اشارہ و کنایہ میں الزمات عائد نہ کیا کریں تاکہ اللہ تمہارے اعمال و اخلاق کو درست کر دے۔ تمہارے گناہوں کو معاف کر دے اور جو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے گا ، اللہ ان کو بہت بڑی کامیابنی عطا کرے گا۔ سورة کا خاتمہ ایک عظیم تبصرے پر ہوتا ہے یہ کہ زمین و آسمان نے دعوت قرآنی کی امانت کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کردیا لیکن انسان نے اس عظیم ذمہ داری کو قبول کرلیا تاکہ اللہ کی اسکیم پایہ تکمیل تک پہنچے۔ لوگوں کے اعمال پر جزاء و سزا مرتب ہو اور انسان اپنے لیے جو راہ اختیار کرتا ہے اس پر اس کا محاسبہ اور جزاء و سزا ہو۔ لیعذب اللہ المنفقین ۔۔۔۔۔ وکان اللہ غفوراً رحمیا (33: 73) ” تاکہ اللہ منافق مردوں اور عورتوں اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے اور مومن مردوں اور عورتوں کی توبہ قبول کرے اور اللہ درگزر فرمانے والا اور رحیم ہے “ درس نمبر 193 تشریح آیات 63 ۔۔۔ تا۔۔۔ 73 یسئلک الناس عن ۔۔۔۔۔۔ تکون قریبا (63) اہل مکہ مسلسل قیامت کے دن کے بارے میں رسول خدا سے پوچھتے رہتے تھے ، کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے قیامت کے حالات بڑی تفصیل سے بیان کیے تھے اور ان کو قیامت سے بہت زیادہ ڈرایا تھا۔ اور قرآن کریم نے قیامت کے مناظر اس قدر طوالت سے ذکر کیے کہ یوں نظر آنے لگا کہ شاید یہ مناظر آنکھوں کے سامنے ہیں۔ اے پیغمبر ، آپ سے یہ لوگ قیامت کے وقت وقوع کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ ان کی خواہش یہ ہے کہ یہ جلدی واقع ہوجائے اور یہ لوگ جلدی اس لیے کر رہے تھے کہ ان کو دراصل اس کے وقوع میں شک تھا۔ یا جلدی کا مطالبہ کرکے دراصل وہ تکذیب کرنا چاہتے تھے یا قیامت کے ساتھ مزاح کرنا چاہتے تھے۔ ہر سائل کا سوال اس کی نفسیات کے اعتبار سے تھا ، جس کے جو خیالات تھے اور جس کے جو واعتقادات تھے وہ اپنے اعتقاد کے مطابق سوال کرتا۔ قیام قیامت کا علم ایک ایسا غیب ہے جو خاصہ خدا ہے اور اللہ نے اپنی مخلوقات میں سے کسی کو بھی اسکی اطلاع نہیں دی ، نہ رسولوں کو نہ ملائکہ مقربین کو۔ عبد اللہ ابن عمر سے جو حدیث حقیقت ایمان اور حقیقت اسلام کے بارے میں وارد ہے ، اس میں ہے کہ ہم لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص نمودار ہوا ، بالکل سفید لباس میں۔ بالکل اس پر سفر کے آثار میں سے کوئی علالت نہ تھی ہم میں سے کوئی اسے نہ پہچانتا تھا۔ وہ رسول اللہ کے سامنے بیٹھ گیا اور اپنے زانو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زانوؤں کے ساتھ ملا دئیے۔ اپنے ہاتھ آپ کو رانوں پر رکھ دئیے اور کہا اے محمد ! بتائیے اسلام کیا ہے ؟ تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ نماز پڑھے ، زکوٰۃ دے اور رمضان کے روزے رکھے اور حج کرے اگر راستے کی طاقت ہو تو اس نے کہا : ” آپ نے سچ کہا “۔ ہم نے تعجب کیا کہ عجیب شخص ہے خود پوچھتا ہے اور خود ہی تصدیق کرتا ہے۔ پھر اس نے پوچھا ایمان کیا ہے ؟ تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ کہ تو اللہ پر ایمان لائے ، اس کے ملائکہ ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں ، قیامت کے دن ، اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لے آئے “۔ تو اس نے کہا : آپ نے درست کیا۔ اس کے بعد اس نے پوچھا ، پھر احسان کے معنی کیا ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا یہ کہ تو اپنے رب کی عبادت اس طرح کرے کہ تو اسے دیکھ رہا ہے ، اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے ہی دیکھ رہا ہے۔ پھر اس نے سوال کیا مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے ؟ تو آپ نے فرمایا پوچھے جانے والا پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے اور یہ تمہارے پاس آئے تمہیں تمہارا دین سکھا رہے تھے۔ مسئول عنہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے اور سائل جبرئیل تھے۔ دونوں کا علم برابر تھا یعنی قیامت کے بارے میں دونوں نہ جانتے تھے۔ قل انما علمھا عند اللہ (33: 63) ” کہو اس کا علم اللہ ہی کو ہے “۔ اور یہ اللہ کی خصوصیت ہے اور اللہ اس کے بارے میں منفرد ہیں اور اللہ کی مخلوق میں سے کسی کو اس کا علم نہیں۔ یہ اللہ کی حکمت ہے کہ اس نے اس کا علم کسی کو نہیں دیا۔ ہماری سمجھ میں اسی قدر حکمت آتی ہے کہ لوگ اس سے ہر وقت ڈرتے رہیں اور ہر وقت اس کی توقع کرتے رہیں اور اس کے اچانک آجانے کی تیاری میں لگے رہیں۔ یہ تو ان لوگوں کے لیے ہے جن کو اللہ نے اس کے ذریعے بھلائی کی راہ کی طرف پھیر دیا اور اس کے دل میں قیامت کا ڈر پیدا کردیا۔ رہے وہ لوگ جو اس سے غافل ہیں اور ہر وقت اس کی تیاری میں لگے نہیں رہتے تو وہ لوگ اپنے آپ سے خیانت کرتے ہیں اور اپنے آپ کو آگ سے نہیں بچاتے۔ ایسے لوگوں کے سامنے اللہ نے اس کے مناظر رکھے ، اس سے ڈرایا اور اسے غیب قرار دیا جو رات اور دن کے کسی وقت بھی آسکتی ہے۔ وما یدریک لعل الساعۃ تکون قریبا (33: 63) ” شاید کہ وہ قریب ہی آلگی ہو “۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے وہ بھی دوزخ میں اپنے سرداروں پر لعنت کریں گے اور ان کے لیے دوہرے عذاب کی درخواست کریں گے کافروں اور منافقوں کے سامنے جب قیامت کا ذکر آتا تھا تو اس کے واقع ہونے کا انکار کرتے ہوئے یوں کہتے تھے۔ یہ تو بتاؤ کہ قیامت کب آئے گی ؟ اللہ تعالیٰ نے جواب میں ارشاد فرمایا (اِنَّمَا عِلْمُھَا عِنْدَ اللّٰہِ ) کہ اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے، اس کے واقع ہونے کا وقت متعین کرکے اللہ تعالیٰ نے کسی کو نہیں بتایا نہ کسی فرشتہ کو نہ کسی نبی کو، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ واقع ہی نہ ہوگی، اس کا وقوع مقرر اور مقدر ہے، اس کے آنے میں دیر لگنا اور تمہارے سامنے واقع نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ واقع نہ ہوگی۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب فرمایا : (وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ تَکُوْنُ قَرِیْبًا) (اور آپ کو اس کی کیا خبر عجب نہیں کہ قیامت قریب ہی زمانہ میں واقع ہوجائے) جب آپ کو اس کا وقت مقرر معلوم نہیں اور قرب وقوع کا ہر وقت احتمال ہے تو ان جھٹلانے والوں کو تو بطریق اولیٰ اس کا وقت مقرر معلوم نہیں جب ہمیشہ قریب الوقوع ہونے کا احتمال ہے تو ان پر لازم ہے کہ اس سے ڈرتے رہیں اور تیاری کرتے رہیں نہ یہ کہ جلدی مچائیں، مذاق اڑائیں، اس میں خطاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے اور تنبیہ ہے منکرین کو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

65:۔ یسئلک الناس الخ، یہ تخویف اخروی ہے۔ مشرکین ازراہ طنز و استہزاء سوال کرتے تھے کہ قیامت کب آئے گی فرمایا جواب میں کہہ دو آئے گی ضرور لیکن اس کے آنے کا معین وقت صرف اللہ ہی کو معلوم ہے۔ اس کے سوا کسی کو اس کا علم نہیں تمہیں کیا معلوم شاید قیامت قریب ہی ہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

63۔ اے پیغمبر یہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں یعنی یہ کہ وہ کب واقع ہوگی آپ فرما دیجئے کہ قیامت کا علم تو بس اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے اور آپ کو اس کی کیا خبر کہ وہ کب ہے شایدوہ قیامت قریب ہی آ لگی ہو ۔ یہ سوال آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بطور استہزا اور بطور مذاق اکثر کیا گیا ہے یہاں بھی شاید ان منافقوں نے جن کا ذکراوپر ہوا ہے انہوں نے کیا ہو۔ بہرحال ! سوال کا مطلب صاف ہے کہ بتائو تم قیامت کا خوف بہت دلایا کرتے ہو آخر وہ کب آئے گی اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ اسکے واقع ہونے کا علم تو اللہ تعالیٰ ہی کو ہے آپ کو اس کی کیا خبر کہ وہ کب واقع ہوگی اور جب آپ کو اس کے وقت کا علم نہیں اور اس کا آنا یقینی ہے تو اجمالا ً اتنا سمجھ لینا چاہئے کہ عجیب نہیں وہ قیامت قریب ہی آجائے۔ کیونکہ جب کسی کے آنے کی تاریخ مقرر نہ ہو تو اس امرکا اندیشہ ہے کہ کل ہی آجائے یا قریب ۔ اس لئے فرمایا کہ تمہارا دور بھی اللہ کے نزدیک قریب ہی ہے۔ انھم یرونہ بحیداً ونراہ قریبا ً معارج یعنی یہ اس کو دورخیال کرتے ہیں اور ہم اس کو قریب دیکھ رہے ہیں ۔ بہر حال ! منکروں کا یہ سوال معاندانہ ہوتا تھا ورنہ تحقیق حال کیلئے مخلصانہ سوال بعض مسلمانوں کا بھی ثابت ہے جیسا کہ احادیث میں آتا ہے۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کسی مسلمان نے دریافت کیا یا رسول اللہ قیامت کب ہے آپ نے فرمایا تو نے قیامت کیلئے کیا سامان تیار کیا ہے اس نے عرض کیا یا رسول اللہ کچھ سامان سوائے اس کے مہیا نہیں کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہوں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو جسکو دوست رکھتا ہے اس کے ساتھ ہوگا اس بشارت آمیز جواب سے مسلمان بہت خوش ہوئے کیونکہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیک لوگوں سے محبت کرنے والے قیامت میں انہی کے زمرے میں ہوں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں شاید یہ بھی منافقوں نے ہتھ کھنڈا پکڑا ہوگا جس چیز کا جواب نہیں وہی سوال کریں بار بار اس پر یہاں ذکر کردیا۔ 12