Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 66

سورة الأحزاب

یَوۡمَ تُقَلَّبُ وُجُوۡہُہُمۡ فِی النَّارِ یَقُوۡلُوۡنَ یٰلَیۡتَنَاۤ اَطَعۡنَا اللّٰہَ وَ اَطَعۡنَا الرَّسُوۡلَا ﴿۶۶﴾

The Day their faces will be turned about in the Fire, they will say, "How we wish we had obeyed Allah and obeyed the Messenger."

اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے ۔ ( حسرت و افسوس سے ) کہیں گے کہ کاش ہم اللہ تعالٰی اور رسول کی اطاعت کرتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

On the Day when their faces will be turned over in the Fire, they will say: "Oh, would that we had obeyed Allah and obeyed the Messenger." means, they will be dragged into the Fire on their faces and their faces will be contorted in Hell, and in that state they will wish that they had been among those who had obeyed Allah and His Messenger in this world. Allah describes how they will be in the Hereafter: وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّـلِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ يلَيْتَنِى اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلً يوَيْلَتَا لَيْتَنِى لَمْ أَتَّخِذْ فُلَناً خَلِيلً لَّقَدْ أَضَلَّنِى عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَأءَنِى وَكَانَ الشَّيْطَـنُ لِلِنْسَـنِ خَذُولاً And the Day when the wrongdoer will bite at his hands, he will say: "Oh! Would that I had taken a path with the Messenger. Ah! Woe to me! Would that I had never taken so-and-so as an intimate friend! He indeed led me astray from the Reminder after it had come to me. And Shaytan is to man ever a deserter in the hour of need." (25:27-29) رُّبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْ كَانُواْ مُسْلِمِينَ How much would those who disbelieved wish that they had been Muslims. (15:2) And here too, Allah tells us that when they are in this state, they will wish that they had obeyed Allah and His Messenger in this world: وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ : یہ بیان کرنے کے بعد کہ کوئی سفارش کرنے والا یا مددگار ان سے عذاب نہیں ہٹا سکے گا، اب بیان فرمایا کہ ان کے جسم کے اعضا میں سے کوئی عضو بھی دوسرے عضو کو آگ سے نہیں بچا سکے گا۔ دنیا میں چہرے پر آنے والی کسی ضرب یا آگ کی لپٹ سے ہاتھ ڈھال بن جاتا ہے، یا آدمی سرجھکا لیتا ہے، مگر وہاں چہرے اور آگ کے درمیان کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکے گی۔ دیکھیے سورة انبیاء (٣٩) ، زمر (٢٤) اور سورة قمر (٤٨) پھر جب چہرے کا یہ حال ہوگا، جو جسم کا سب سے باشرف حصہ ہے تو ددسرے اعضا کا کیا حال ہوگا ! ؟ 3 آگ میں چہرے الٹ پلٹ کیے جانے کے ذکر سے مقصود ان کی بری حالت کی منظر کشی ہے کہ اگرچہ چہروں کو چاروں طرف سے آگ نے گھیر رکھا ہوگا، اس کے باوجود انھیں الٹ پلٹ بھی کیا جائے گا، تاکہ نئی سے نئی آگ کے سامنے آتے رہیں اور ایک جگہ سے اگر تکلیف میں کوئی کمی ممکن ہو تو وہ بھی نہ ہو سکے۔ (دیکھیے توبہ : ٣٥) نئے سے نئے عذاب کے لیے چہروں کے الٹ پلٹ کیے جانے کے ساتھ چمڑوں کی مسلسل تبدیلی کا عمل بھی جاری رہے گا۔ دیکھیے سورة نساء (٥٦) [ اَللّٰھُمَّ إِنَّا نَعُوْذُ بِکَ مِنَ النَّارِ وَ مِنْ حَالِ أَھْلِ النَّارِ ] يَقُوْلُوْنَ يٰلَيْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا : ” لَیْتَ “ (کاش) کا لفظ تمنی کے لیے ہوتا ہے، یعنی ایسی چیز کی خواہش جو ممکن نہ ہو۔ ابن کثیر نے فرمایا، اس حال میں جب کہ ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کیے جا رہے ہوں گے، وہ تمنا کریں گے کہ کاش ! دنیا میں انھوں نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور رسول کی اطاعت کی ہوتی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے میدان حشر میں ان کا حال بیان فرمایا : (وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰي يَدَيْهِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا يٰوَيْلَتٰى لَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيْلًا لَقَدْ اَضَلَّنِيْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَاۗءَنِيْ ۭ وَكَان الشَّيْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا ) [ الفرقان : ٢٧ تا ٢٩ ] ” اور جس دن ظالم اپنے دونوں ہاتھ دانتوں سے کاٹے گا، کہے گا اے کاش ! میں رسول کے ساتھ کچھ راستہ اختیار کرتا۔ ہائے میری بربادی ! کاش کہ میں فلاں کو دلی دوست نہ بناتا۔ بیشک اس نے تو مجھے نصیحت سے گمراہ کردیا، اس کے بعد کہ میرے پاس آئی اور شیطان ہمیشہ انسان کو چھوڑ جانے والا ہے۔ “ اور فرمایا : (رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ ) [ الحجر : ٢ ] ” بہت بار چاہیں گے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، کاش ! وہ کسی طرح کے مسلم ہوتے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْہُہُمْ فِي النَّارِ يَقُوْلُوْنَ يٰلَيْتَنَآ اَطَعْنَا اللہَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا۝ ٦٦ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ ليت يقال : لَاتَهُ عن کذا يَلِيتُهُ : صرفه عنه، ونقصه حقّا له، لَيْتاً. قال تعالی: لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمالِكُمْ شَيْئاً [ الحجرات/ 14] أي : لا ينقصکم من أعمالکم، لات وأَلَاتَ بمعنی نقص، وأصله : ردّ اللَّيْتِ ، أي : صفحة العنق . ولَيْتَ : طمع وتمنٍّ. قال تعالی: لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا [ الفرقان/ 28] ، يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] ، يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [ الفرقان/ 27] ، وقول الشاعر : ولیلة ذات دجی سریت ... ولم يلتني عن سراها ليت «1» معناه : لم يصرفني عنه قولي : ليته کان کذا . وأعرب «ليت» هاهنا فجعله اسما، کقول الآخر :إنّ ليتا وإنّ لوّا عناء«2» وقیل : معناه : لم يلتني عن هواها لَائِتٌ. أي : صارف، فوضع المصدر موضع اسم الفاعل . ( ل ی ت ) لا تہ ( ض ) عن کذا لیتا ۔ کے معنی اسے کسی چیز سے پھیر دینا اور ہٹا دینا ہیں نیز لا تہ والا تہ کسی کا حق کم کرنا پوا را نہ دینا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمالِكُمْ شَيْئاً [ الحجرات/ 14] تو خدا تمہارے اعمال میں سے کچھ کم نہیں کرے گا ۔ اور اس کے اصلی معنی رد اللیت ۔ یعنی گر دن کے پہلو کو پھیر نے کے ہیں ۔ لیت یہ حرف طمع وتمنی ہے یعنی گذشتہ کوتاہی پر اظہار تاسف کے لئے آتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا [ الفرقان/ 28] کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] اور کافر کہے کا اے کاش میں مٹی ہوتا يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [ الفرقان/ 27] کہے گا اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رستہ اختیار کیا ہوتا ۔ شاعر نے کہا ہے ( 406 ) ولیلۃ ذات وجی سریت ولم یلتنی عن ھوا ھا لیت بہت سی تاریک راتوں میں میں نے سفر کئے لیکن مجھے کوئی پر خطر مر حلہ بھی محبوب کی محبت سے دل بر داشت نہ کرسکا ( کہ میں کہتا کاش میں نے محبت نہ کی ہوتی ۔ یہاں لیت اسم معرب اور لم یلت کا فاعل ہے اور یہ قول لیتہ کان کذا کی تاویل میں سے جیسا کہ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( 403 ) ان لینا وان لوا عناء ۔ کہ لیت یا لو کہنا سرا سرباعث تکلف ہے بعض نے کہا ہے کہ پہلے شعر میں لیت صدر بمعنی لائت یعنی اس فاعلی ہے اور معنی یہ ہیں کہ مجھے اس کی محبت سے کوئی چیز نہ پھیر سکی ۔ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» . قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جس روز ان کے چہرے دوزخ میں الٹ پلٹ کیے جائیں گے تو پیشوا اور ان کے پیروکارو یوں کہتے ہوں گے کاش ہم ایمان لائے ہوتے اور رسول کی بات قبول کیے ہوتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٦ { یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْہُہُمْ فِی النَّارِ } ” جس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کیے جائیں گے “ { یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰہَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا } ” (اس وقت) وہ کہیں گے : ہائے کاش ! ہم نے اطاعت کی ہوتی اللہ کی اور اطاعت کی ہوتی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:66) تقلب مضارع مجہول واحد مونث غائب۔ تقلیب (تفعیل) مصدر۔ جس کے معنی کسی چیز کے ایک حال سے دوسرے حال پر متغیر کرنے اور پلٹنے کے ہیں تقلب وجوہہم ان کے چہرے الٹ پلٹ کئے جائیں گے۔ یقولون اطعنا اللہ واطعنا الرسولا۔ وجوھہم میں ضمیر ہم سے حال ہے یعنی ان کے چہرے (آگ میں) الٹ پلٹ کئے جائیں گے اور حال یہ ہوگا کہ وہ کہہ رہے ہوں گے ۔ اے کاش ہم نے اطاعت کی ہوتی رسول کی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ یلیتنا۔ یا حرف ندا۔ لیت حرف مشبہ بالفعل (تمنا کے لئے مستعمل ہوتا ہے) نا اسم اے کاش ہم۔ اطعنا۔ ماضی جمع متکلم اطاعۃ (افعال) مصدر۔ طوع مادہ۔ ہم نے حکم مانا۔ ہم نے اطاعت کی۔ الرسولا۔ میں آخر کا الف اشباع کا ہے اصل میں الرسول تھا۔ نیز ملاحظہ ہو الظنونا (33:10) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی چہروں کے بل گھسیٹے جاویں گے کبھی چہرہ کی اس کروٹ کبھی اس کروٹ۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کی جہنم میں حالت اور فریادیں۔ جہنمیوں کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا جہنمی سانس لینے کی غرض سے جہنم کی آگ سے منہ نکال کر آہ و زاریاں کرتے ہوئے کہیں گے ہائے کاش ! ہم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے کہ اے ہمارے رب ہم نے سرداروں اور بڑوں کی پیروی کی اور گمراہ ہوئے۔ اے ہمارے رب ہماری درخواست ہے کہ ہمارے سیاسی اور مذہبی پیشواؤں کو دوگنا عذاب کیجیے اور ان پر بڑی سے بڑی پھٹکار کیجئے۔ قرآن مجید کے دوسرے مقام پر یہ وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی فریاد کے مقابلے میں فرمائے گا کہ تم سب کو دوگنا عذاب ہے لیکن تمہیں معلوم نہیں۔ ( الاحزاب : ٣٨) فہم القرآن جلد دوم سورة الاعراف کی آیت ٣٨ میں وضاحت موجود ہے کہ انہیں دوگنا عذاب کیوں دیا جائے گا کیونکہ یہ لوگ خود بھی گمراہ تھے اور اپنی اولاد اور آنے والی نسلوں کی گمراہی کا بھی سبب بنے تھے اس لیے حکم ہوگا کہ سب کے لیے دوگنا عذاب ہے۔ اور تم سب کے سب جہنم میں جلتے رہو گے۔ آج تمہاری کوئی بھی مدد نہیں کرسکے گا یہاں تک کہ شیطان بھی انہیں کہہ دے گا کہ آج میں تمہارا کچھ نہیں کرسکتا۔ ( ابراہیم : ٢٢) (عَنْ بِلَالٍ بْنِ الْحَارِثِ الْمُزَنِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ أَنَّہُ مَنْ أَحْیَا سُنَّۃً مِنْ سُنَّتِی قَدْ أُمِیتَتْ بَعْدِی فَإِنَّ لَہُ مِنَ الأَجْرِ مِثْلَ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أُجُورِہِمْ شَیْءًا وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَۃَ ضَلاَلَۃٍ لاَ یَرْضَاہَا اللَّہُ وَرَسُولُہُ کَانَ عَلَیْہِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِہَا لاَ یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ أَوْزَار النَّاسِ شَیْءًا )[ رَوَاہٗ التِّرْمَذِیُّ : باَبُ مَا جَاءَ فِی الأَخْذِ بالسُّنَّۃِ وَاجْتِنَابِ الْبِدَعِ ] ” حضرت بلال بن حارث مزنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے میری سنت کو اس کے مٹ جانے کے بعدجاری کیا اس کو اس نیکی کا اجر بھی اور بعد میں عمل کرنے والوں کے برابر بھی اجر ملے گا لیکن ان کے اجر میں سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔ جس نے ایسا طریقہ رائج کیا جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند نہیں۔ اس کو اس کا گناہ ہوگا اور بعد میں اس کا ارتکاب کرنے والوں کا گناہ بھی اسے ملے گا مگر ان کے گناہوں سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔ “ مسائل ١۔ جہنمی جہنم میں آہ وزاریاں کرتے ہوئے اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے۔ ٢۔ جہنمی اپنے بڑوں پر پھٹکار بھیجیں گے۔ ٣۔ گناہ کرنے والوں کو اپنے اور دوسروں کے گناہوں کی بھی سزا ملے گی۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کا ایک دوسرے پر پھٹکار کرنا : ١۔ اس دن اللہ تعالیٰ انہیں جمع کرے گا اور وہ خیال کریں گے گویا کہ وہ دنیا میں دن کی ایک گھڑی ہی ٹھہرے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو پہچان لیں گے۔ (یونس : ٤٥) ٢۔ جب سارے جہنم میں جمع ہوجائیں گے تو پچھلے پہلوں کے بارے میں کہیں گے انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا۔ (الاعراف : ٣٨) ٣۔ تم پر اللہ کی مار تمہاری وجہ سے اس مصیبت کا ہمیں سامنا کرنا پڑا ہے۔ (ص : ٦٠) ٤۔ اے کاش آپ ظالموں کو دیکھتے جب وہ اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے اور ایک دوسرے کی بات کا جواب دیں گے۔ (سبا : ٣١) ٥۔ جب وہ جہنم میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو کمزور بڑوں کو کہیں گے کہ یقیناً ہم تو تمہارے پیچھے چلنے والے تھے، تو کیا تم ہم سے آگ کا کوئی حصہ ہٹاسکتے ہو ؟ “ (المومن : ٤٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

66۔ وہ دن قابل ذکر ہے جس دن ان منکروں کے منہ اور ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے اور یہ منکر آرزو کرتے ہوں گے کاش ہم نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی ہوتی اور رسول کا کہا مانا ہوتا ۔ الٹ لپٹ کا مطلب یا تو یہ ہے کہ جب ان کو گھسیٹ گھسیٹ کر جہنم میں لے جائیں گے تو ان کے چہرے الٹ لپٹ ہوتے ہوں گے۔ جیساکہ عام قاعدہ ہے کہ جب کسی کو اضطرار اً گھسیٹ کرلے جائو تو اس کا منہ کبھی دائیں جانب اور کبھی بائیں جانب ہوجاتا ہے کبھی سیدھا اور کبھی اوندھا ہوجاتا ہے۔ صاحب معالم نے یہی مطلب بیان کیا ہے اور سورة قمر کی آیت یوم یسبحبون فی النار کے مناسب ہے یا یہ مطلب ہے کہ جہنم میں الٹ پلٹ ہونگے آپ کے جوش اور آگ کے فوران کے باعث اس میں ابلتے ہوں گے اور جلنے کی حالت میں ان کے چہرے الٹ پلٹ ہو رہے ہوں گے ، جیسا کہ صاحب مدارک نے فرمایا ہے۔ بہر حال اس دن اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنی کی تمنا کرتے ہونگے۔