Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 72

سورة الأحزاب

اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الۡجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَ اَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا وَ حَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا ﴿ۙ۷۲﴾

Indeed, we offered the Trust to the heavens and the earth and the mountains, and they declined to bear it and feared it; but man [undertook to] bear it. Indeed, he was unjust and ignorant.

ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر زمین پراور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے ( مگر ) انسان نے اسےاٹھا لیا ، وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

How Man bore the Amanah Allah says: إِنَّا عَرَضْنَا الاَْمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الاِْنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولاً Truly, We did offer the Amanah to the heavens and the earth, and the mountains, but they declined to bear it and were afraid of it. But man bore it. Verily, he was unjust and ignorant. Al-`Awfi reported that Ibn Abbas said, "Al-Amanah means obedience. This was offered to them before it was offered to Adam, and they could not bear it. Then Allah said to Adam: `I have offered the Amanah to the heavens and the earth and the mountains, and they could not bear it. Will you take it on!' He said, `O Lord, what does it involve!' He said, `If you do good, you will be rewarded, and if you do evil, you will be punished.' So Adam took the Amanah and bore it, and this is what is referred to in the Ayah: وَحَمَلَهَا الاِْنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولاً (But man bore it. Verily, he was unjust and ignorant." Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said, "Al-Amanah means Al-Fara'id (the obligatory duties). Allah offered them to the heavens and the earth and the mountains, (on the grounds that) if they fulfilled them, He would reward them; and if they failed, He would punish them. But they did not want to do that, and they were afraid of it, not because their intention was sinful, but because of their respect for the religion of Allah, in case they could not fulfill the obligations involved. Then Allah offered it to Adam, and he accepted it with all that it entailed. This is what is referred to in the Ayah: وَحَمَلَهَا الاِْنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولاً (But man bore it. Verily, he was unjust and ignorant). meaning, he underestimated the command of Allah." This was also the view of Mujahid, Sa`id bin Jubayr, Ad-Dahhak, Al-Hasan Al-Basri and others that Al-Amanah means Al-Fara'id. Others said that it meant obedience. Al-A`mash narrated from Abu Ad-Duha from Masruq that Ubayy bin Ka`b said: "Part of Al-Amanah means that woman was entrusted with her own chastity." Qatadah said: "Al-Amanah means religion, obligatory duties and prescribed punishments." Malik narrated that Zayd bin Aslam said: "Al-Amanah means three things: prayer, fasting and performing Ghusl to cleanse oneself from sexual impurity." There is no contradiction between all of these views; they are all in agreement and all refer to responsibility and the acceptance of commands and prohibitions with their attendant conditions, which is that the one who fulfills this responsibility, will be rewarded; while the one who neglects it, will be punished. Man accepted this despite the fact that he is weak, ignorant and unjust -- except for those whom Allah helps, and Allah is the One Whose help we seek. One of the reports which deal with Al-Amanah is the Hadith recorded by Imam Ahmad from Hudhayfah, may Allah be pleased with him, who said: "The Messenger of Allah told us two Hadiths, one of which I have seen and the other I am still waiting to see. He told us that Al-Amanah is deeply rooted in the heart of man, then the Qur'an was revealed and they know it from the Qur'an and from the Sunnah. Then he told us that Al-Amanah will be taken away. He said, يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ فَتُقْبَضُ الاَْمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثْلَ أَثَرِ الْمَجْلِ كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلَى رِجْلِكِ تَرَاهُ مُنْتَبِرًا وَلَيْسَ فِيهِ شَيْء A man may sleep and Al-Amanah will be taken from his heart, leaving nothing but a trace like a blister left by a coal if you were to roll it over your leg -- you will see it protruding but there is nothing inside. Then he took a pebble and rolled it over his leg, then he said: فَيُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ لاَ يَكَادُ أَحَدٌ يُوَدِّي الاَْمَانَةَ حَتَّى يُقَالَ إِنَّ فِي بَنِي فُلَنٍ رَجُلً أَمِينًا حَتَّى يُقَالَ لِلرَّجُلِ مَا أَجْلَدَهُ وَأَظْرَفَهُ وَأَعْقَلَهُ وَمَا فِي قَلْبِهِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَان Then the people will start buying and selling, and hardly anyone will be paying attention to Al-Amanah, until it will be said that among the tribe of so-and-so there is a trustworthy man, and it will said of a man, `how strong he is, how nice and how wise,' and there is not even a mustard seed of faith in his heart. No doubt, there came upon me a time when I did not mind dealing (bargaining) with anyone of you, for if he was a Muslim, his Islam would compel him to pay me what is due to me, and if he was a Christian, or Jew, the Muslim official would compel him to pay me what is due to me, but today, I do not deal except with such and such person among you." It was also recorded in the Two Sahihs from the Hadith of Al-A`mash. Imam Ahmad recorded that Abdullah bin `Amr, may Allah be pleased with him, said that the Messenger of Allah said: أَرْبَعٌ إِذَا كُنَّ فِيكَ فَلَ عَلَيْكَ مَا فَاتَكَ مِنَ الدُّنْيَا حِفْظُ أَمَانَةٍ وَصِدْقُ حَدِيثٍ وَحُسْنُ خَلِيقَةٍ وَعِفَّةُ طُعْمَة There are four things, if you attain them, then whatever you miss in this world will not matter: preserving trust, speaking the truth, being of good character and moderation in eating. The Result of taking on the Amanah Allah says:

فرائض ، حدود امانت ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ امانت سے مراد یہاں اطاعت ہے ۔ اسے حضرت آدم علیہ السلام پر پیش کرنے سے پہلے زمین و آسمان اور پہاڑوں پر پیش کیا گیا لیکن وہ بار امانت نہ اٹھا سکے اور اپنی مجبوری اور معذوری کا اظہار کیا ۔ جناب باری عزاسمہ نے اسے اب حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام پر پیش کیا کہ یہ سب تو انکار کر رہے ہیں ۔ تم کہو آپ نے پوچھا اللہ اس میں بات کیا ہے؟ فرمایا اگر بجا لاؤ گے ثواب پاؤ گے اور برائی کی سزا پاؤ گے ۔ آپ نے فرمایا میں تیار ہوں ۔ آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ امانت سے مراد فرائض ہیں دوسروں پر جو پیش کیا تھا یہ بطور حکم کے نہ تھا بلکہ جواب طلب کیا تھا تو ان کا انکار اور اظہار مجبوری گناہ نہ تھا بلکہ اس میں ایک قسم کی تعظیم تھی کہ باوجود پوری طاقت کے اللہ کے خوف سے تھرا اٹھے کہ کہیں پوری ادائیگی نہ ہوسکے اور مارے نہ جائیں ۔ لیکن انسان جو کہ بھولا تھا اس نے اس بار امانت کو خوشی خوشی اٹھالیا ۔ آپ ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ عصر کے قریب یہ امانت اٹھائی تھی اور مغرب سے پہلے ہی خطا سرزد ہو گئی ۔ حضرت ابی کا بیان ہے کہ عورت کی پاکدامنی بھی اللہ کی امانت ہے ۔ قتادہ کا قول ہے دین فرائض حدود سب اللہ کی امانت ہیں ۔ جنابت کا غسل بھی بقول بعض امانت ہے ۔ زید بن اسلام فرماتے ہیں تین چیزیں اللہ کی امانت ہیں غسل جنابت ، روزہ اور نماز ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں سب کی سب امانت میں داخل ہیں ۔ تمام احکام بجا لانے تمام ممنوعات سے پرہیز کرنے کا انسان مکلف ہے ۔ جو بجالائے گا ثواب پائے گا جہاں گناہ کرے گا سزا پائے گا ۔ امام حسن بصری فرماتے ہیں خیال کرو آسمان باوجود اس پختگی ، زینت اور نیک فرشتوں کا مسکن ہونے کے اللہ کی امانت برداشت نہ کرسکا جب اس نے یہ معلوم کرلیا کہ بجا آوری اگر نہ ہوئی تو عذاب ہوگا ۔ زمین صلاحیت کے باوجود اور سختی کے لمبائی اور چوڑائی کے ڈر گئی اور اپنی عاجزی ظاہر کرنے لگی ۔ پہاڑ باوجود اپنی بلندی اور طاقت اور سختی کے اس سے کانپ گئے ۔ اور اپنی لاچاری ظاہر کرنے لگے ۔ مقاتل فرماتے ہیں پہلے آسمانوں نے جواب دیا اور کہا یوں تو ہم مطیع ہیں لیکن ہاں ہمارے بس کی یہ بات نہیں کیونکہ عدم بجا آوری کی صورت میں بہت بڑا خطرہ ہے ۔ پھر زمین سے کہا گیا کہ اگر پوری اتری تو فضل و کرم سے نواز دوں گا ۔ لیکن اس نے کہا یوں تو ہر طرح طابع فرمان ہو جو فرمایا جائے عمل کروں لیکن میری وسعت سے تو یہ باہر ہے ۔ پھر پہاڑوں سے کہا گیا انہوں نے بھی جواب دیا کہ نافرمانی تو ہم کرنے کے نہیں امانت ڈال دی جائے تو اٹھالیں گے لیکن یہ بس کی بات نہیں ہمیں معاف فرمایا جائے ۔ پھر حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کہا گیا انہوں نے کہا اے اللہ اگر پورا اتروں تو کیا ملے گا ؟ فرمایا بڑی بزرگی ہوگی جنت ملے گی رحم و کرم ہوگا اور اگر اطاعت نہ کی نافرمانی کی تو پھر سخت سزا ہوگی اور آگ میں ڈال دیئے جاؤ گے انہوں نے کہا یا اللہ منظور ہے ۔ مجاہد فرماتے ہیں آسمان نے کہا میں نے ستاروں کو جگہ دی فرشتوں کو اٹھا لیا لیکن یہ نہیں اٹھا سکوں گا یہ تو فرائض کا بوجھ ہے جس کی مجھ میں طاقت نہیں ۔ زمین نے کہا مجھ میں تونے درخت بوئے دریا جاری کئے ۔ لوگوں کو بسائے گا لیکن یہ امانت تو میرے بس کی نہیں ۔ میں فرض کی پابند ہو کر ثواب کی امید پر عذاب کے احتمال کو نہیں اٹھاسکتی ۔ پہاڑوں نے بھی یہی کہا لیکن انسان نے لپک کر اسے اٹھالیا ۔ بعض روایات میں ہے کہ تین دن تک وہ گریہ زاری کرتے رہے اور اپنی بےبسی کا اظہار کرتے رہے لیکن انسان نے اسے اپنے ذمے لے لیا ۔ اللہ نے اسے فرمایا اب سن اگر تو نیک نیت رہا تو میری اعانت ہمیشہ تیرے شامل حال رہے گی تیری آنکھوں پر میں دو پلکیں کردیتا ہوں کہ میری ناراضگی کی چیزوں سے تو انہیں بند کرلے ۔ میں تیری زبان پر دو ہونٹ بنا دیتا ہوں کہ جب وہ مرضی کے خلاف بولنا چاہے تو تو اسے بند کرلے ۔ تیری شرمگاہ کی حفاظت کیلئے میں لباس اتارتا ہوں کہ میری مرضی کے خلاف تو اسے نہ کھولے ۔ زمین و آسمان نے ثواب و عذاب سے انکار کردیا اور فرمانبرداری میں مسخر رہے لیکن انسانوں نے اسے اٹھالیا ۔ ایک بالکل غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ امانت اور وفا انسانوں پر نبیوں کی معرفت نازل ہوئیں ۔ اللہ کا کلام ان کی زبانوں میں اترا نبیوں کی سنتوں سے انہوں نے ہر بھلائی برائی معلوم کرلی ۔ ہر شخص نیکی بدی کو جان گیا ۔ یاد رکھو! سب سے پہلے لوگوں میں امانت داری تھی پھر وفا اور عہد کی نگہبانی اور ذمہ داری کو پورا کرنا تھا ۔ امانت داری کے دھندلے سے نشان لوگوں کے دلوں پر رہ گئے ۔ کتابیں ان کے ہاتھوں میں ہیں ۔ عالم عمل کرتے ہیں جاہل جانتے ہیں لیکن انجان بن رہے ہیں اب یہ امانت وفا مجھ تک اور میری امت تک پہنچی ۔ یاد رکھو اللہ اسی کو ہلاک کرتا ہے جو اپنے آپ کو ہلاک کرلے ۔ اسے چھوڑ کر غفلت میں پڑ جائے ۔ لوگو! ہوشیار رہو اپنے آپ پر نظر رکھو ۔ شیطانی وسوسوں سے بچو ۔ اللہ تمہیں آزما رہا ہے کہ تم میں سے اچھے عمل کرنے والا کون ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص ایمان کے ساتھ ان چیزوں کو لائے گا جنت میں جائے گا ۔ پانچوں وقتوں کی نماز کی حفاظت کرتا ہو ، وضو ، رکوع ، سجدہ اور وقت سجدہ اور وقت سمیت زکوٰۃ ادا کرتا ہو ۔ دل کی خوشی کے ساتھ زکوٰۃ کی رقم نکالتا ہو ۔ سنو واللہ یہ بغیر ایمان کے ہو ہی نہیں سکتا اور امانت کو ادا کرے ۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ امانت کی ادائیگی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا جنابت کا فرضی غسل ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر اپنے دین میں سے کسی چیز کی اس کے سوا امانت نہیں دی ۔ تفسیر ابن جریر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کی راہ کا قتل تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے مگر امانت کی خیانت کو نہیں مٹاتا ان خائنوں سے قیامت کے دن کہا جائے گا جاؤ ان کی امانتیں ادا کرو یہ جواب دیں گے اللہ کہاں سے ادا کریں؟ دنیا تو جاتی رہی تین مرتبہ یہی سوال جواب ہوگا پھر حکم ہوگا کہ انہیں ان کی ماں ہاویہ میں لے جاؤ ۔ فرشتے دھکے دیتے ہوئے گرا دیں گے ۔ یہاں تک کہ اس کی تہہ تک پہنچ جائیں گے تو انہیں اسی امانت کی ہم شکل جہنم کی آگ کی چیز نظر پڑے گی ۔ یہ اسے لے کر اوپر کو چڑھیں گے جب کنارے تک پہنچیں گے تو وہاں پاؤں پھسل جائے گا ۔ پھر گر پڑیں گے اور جہنم کے نیچے تک گرتے چلے جائیں گے ۔ پھر لائیں گے پھر گریں گے ہمیشہ اسی عذاب میں رہیں گے ۔ امانت وضو میں بھی ہے ۔ نماز میں بھی امانت بات چیت میں بھی ہے اور ان سب سے زیادہ امانت ان چیزوں میں ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائیں ۔ حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ آپ کے بھائی عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کیا حدیث بیان فرما رہے ہیں؟ تو آپ اس کی تصدیق کرتے ہیں کہا ہاں ٹھیک ہے ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے دو حدیثیں سنی ہیں ۔ ایک کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور دوسری کے ظہور کا مجھے انتظار ہے ایک تو یہ کہ آپ نے فرمایا امانت لوگوں کی جبلت میں اتاری گئی پھر قرآن اترا حدیثیں بیان ہوئیں ۔ پھر آپ نے امانت کے اٹھ جانے کی بابت فرمایا انسان سوئے گا جو اس کے دل سے امانت اٹھ جائے گی اور ایسا نشان رہ جائے گا جیسے کسی کے پیر پر کوئی انگارہ لڑھک کر آگیا ہو اور پھپھولا پڑگیا ہو کہ ابھرا ہوا معلوم ہوتا ہے لیکن اندر کچھ بھی نہیں ۔ پھر آپ نے ایک کنکر لے کر اسے اپنے پیر پر لڑھکا کر دکھا دیا کہ اس طرح لوگ لین دین خرید و فروخت کیا کریں گے ۔ لیکن تقریباً ایک بھی ایماندار نہ ہوگا ۔ یہاں تک کہ مشہور ہو جائے گا کہ فلاں قبیلے میں کوئی امانت دار ہے ۔ اور یہاں تک کہ کہا جائے گا یہ شخص کیسا عقلمند ، کس قدر زیرک ، دانا اور فراست والا ہے حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہ ہوگا ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں دیکھو اس سے پہلے تو میں ہر ایک سے ادھار سدھار کرلیا کرتا تھا کیونکہ اگر وہ مسلمان ہے تو وہ خود میرا حق مجھے دے جائے گا اور اگر یہودی یا نصرانی ہے تو حکومت اسلام مجھے اس سے دلوا دے گی ۔ لیکن اب تو صرف فلاں فلاں کو ہی ادھار دیتا ہوں باقی بند کردیا ہے ۔ ( مسلم وغیرہ ) مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ چار باتیں تجھ میں ہوں پھر اگر ساری دنیا بھی فوت ہو جائے تو تجھے نقصان نہیں ۔ امانت کی حفاظت ، بات چیت کی صداقت ، حسن اخلاق اور وجہ حلال کی روزی ۔ حضرت عبد اللہ بن مبارک کی کتاب الزھد میں ہے کہ جبلہ بن سحیم حضرت زیاد کے ساتھ تھے اتفاق سے ان کے منہ سے باتوں ہی باتوں میں نکل گیا قسم ہے امانت کی ۔ اس پر حضرت زیاد رونے لگے اور بہت روئے ۔ میں ڈرگیا کہ مجھ سے کوئی سخت گناہ سرزد ہوا ۔ میں نے کہا کیا وہ اسے مکروہ جانتے تھے فرمایا ہاں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے بہت مکروہ جانتے تھے اور اس سے منع فرماتے تھے ۔ ابو داؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہ ہم میں سے نہیں جو امانت کی قسم کھائے ، امانتداری جو حضرت آدم علیہ السلام نے کی اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ منافق مرد و عورت اور مشرک مرد و عورت یعنی وہ جو ظاہر میں مسلمان اور باطن میں کافر تھے اور وہ جو اندر باہر یکساں کافر تھے انہیں تو سخت سزا ملے اور مومن مرد و عورت پر اللہ کی رحمت نازل ہو ۔ جو اللہ کو اس کے فرشتوں کو اس کے رسولوں کو مانتے تھے اور اللہ کے سچے فرمانبردار رہے ۔ اللہ غفور و رحیم ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

72۔ 1 جب اللہ تعالیٰ نے اہل اطاعت کا اجر وثواب اور اہل مصیت کا وبال اور عذاب بیان کردیا تو اب شرعی احکام اور اس کی صعوبت کا تذکرہ فرما رہا ہے۔ امانت سے وہ احکام شرعیہ اور فرائض و واجبات مراد ہیں جن کی ادائیگی پر ثواب اور ان سے اعراض و انکار پر عذاب ہوگا۔ جب یہ تکالیف شرعیہ آسمان اور زمین پر پیش کی گئیں تو وہ ان کے اٹھانے سے ڈر گئے۔ لیکن جب انسان پر یہ چیز پیش کی گئی تو وہ اطاعت الٰہی (امانت) کے اجر وثواب اور اس کی فضیلت کو دیکھ کر اس بار گراں کو اٹھانے پر آمادہ ہوگیا۔ احکام شریعہ کو امانت سے تعبیر کر کے اشارہ فرما دیا کہ ان کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے۔ پیش کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ اور آسمان اور زمین اور پہاڑوں نے کس طرح اس کا جواب دیا ؟ اور انسان نے کس طرح قبول کیا ؟ اس کی پوری کیفیت نہ ہم جان سکتے ہیں اور نہ اسے بیان کرسکتے ہیں۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ نے اپنی ہر مخلوق کیلئے ایک خاص قسم کا احساس و شعور رکھا ہے، گو ہم اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ تو ان کی بات سمجھنے پر قادر ہے، اس نے ضرور اس امانت کو ان پر پیش کیا ہوگا جسے قبول کرنے سے انہوں نے انکار کردیا۔ اور یہ انکار انہوں نے سرکشی و بغاوت کی بنا پر نہیں کیا بلکہ اس میں یہ خوف کار فرما تھا کہ اگر ہم اس امانت کے تقاضے پورے نہ کرسکے تو اس کی سزا ہمیں بھگتنی ہوگی۔ انسان چونکہ جلد باز ہے۔ اس نے عذاب کے پہلو پر زیادہ غور نہیں کیا اور حصول فضیلت کے شوق میں اسے نے ذمے داری کو قبول کرلیا۔ 72۔ 2 یعنی بار گراں اٹھا کر اس نے اپنے نفس پر ظلم کا ارتکاب اور اس کے مقتضیات سے اعراض یا اس کی قدر و قیمت سے غفلت کر کے جہالت کا مظاہرہ کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٠] امانت کا بار جو انسان نے اٹھا لیا :۔ امانت سے مراد بار خلافت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا تھا کہ && میں دنیا میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں && اللہ تعالیٰ نے آسمان، زمین اور پہاڑوں جیسی عظیم الجثہ مخلوق کو پیدا کرکے ان سے پوچھا : بتاؤ اگر میں تمہیں قوت ارادہ و اختیار عطا کردوں اور تمہیں عقل وتمیز کی قوت بھی بخش دوں تو بتاؤ تم میرا خلیفہ بننے کو تیار ہو ؟ تمہیں وہی کام کرنا ہوگا جو میں کہوں تمہیں نافرمانی کے اختیار کے باوجود میرے احکام پر کاربند رہنا اور اسے نافذ کرنا ہوگا تو یہ تینوں قسم کی عظیم الجثہ مخلوق اس بار عظیم کو اٹھانے سے ڈرگئی اور اسے تسلیم نہ کیا۔ لیکن ان کے مقابلہ میں ضعیف البنیان مخلوق جو ایک منٹ سانس نہ چلنے سے مر بھی سکتی ہے۔ اس بار عظیم کو اٹھانے کے لئے تیار ہوگئی۔ حضرت انسان نے بڑی جرأت سے کہہ دیا کہ مجھے اگر قوت تمیز، عقل و فہم اور ارادہ و اختیار دے دیا جائے تو میں اس بار کو اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انسان سے اس بات پر عہد بھی لیا۔ جو عہد الست بربکم کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مکالمہ زبان حال سے ہوا تھا یا قال سے ؟ یا یہ محض تمثیلی انداز ہے ؟ یہ باتیں تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ البتہ اتنا معلوم ہے کہ عہد الست تاقیامت پیدا ہونے والے انسان کی ارواح سے لیا گیا تھا اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ انسان میں خلیفہ بننے اور نظام خلافت کو رائج کرنے کی صلاحیت بالقوہ موجود ہے۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مکلف مخلوق ایک نہیں بلکہ دو ہیں۔ ایک انسان دوسرے جن لیکن یہاں صرف انسان کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ اس لئے کہ جتنی استعداد اللہ تعالیٰ نے انسان میں رکھی ہے جنوں میں نہیں رکھی۔ اشرف المخلوقات انسان ہے، جن نہیں۔ لہذا جن اس مکالمہ میں بالتبع شامل ہیں۔ بالاصل نہیں۔ [١١١] ظَلُوْم اور جھول دونوں ہی مبالغہ کے صیغے ہیں۔ یعنی انسان بڑا ہی ظالم اور بڑا ہی جاہل ہے جو اس نے یہ بار امانت اٹھا لیا۔ وہ ظالم تو اس لحاظ سے ہے کہ تمام مخلوق میں سب سے بلند منصب پر فائز ہونے کی خواہش کی وجہ سے اس نے اس ذمہ داری کو قبول تو کرلیا مگر اس دارالامتحان دنیا میں آکر وہ کچھ دنیا کی رنگینیوں اور دلفریبیوں میں اس قدر محو و مستغرق ہوگیا کہ اسے یہ خیال بھی نہیں آتا کہ وہ کتنی بڑی عظیم ذمہ داری اپنے سر پر لادے ہوئے ہے۔ اس طرح جو امانت اس کے سپرد کی گئی تھی اس میں وہ خیانت کا مرتکب ہوا۔ اور جاہل اس لحاظ سے ہے کہ اس کی ساری توجہ اسی بات کی طرف رہی کہ اسے تمام مخلوق میں سے سب سے اونچا اعزاز ملنے والا ہے۔ مگر اس اعزاز کی ذمہ داریوں کا اندازہ کرنے سے قاصر رہا۔ اکثر انسانوں نے یہ جاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کہ اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے سے اس پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ ۔۔ : کائنات میں اللہ تعالیٰ کے دو قسم کے احکام جاری و ساری ہیں، ایک اس کا حکم ” کُنْ “ (ہو جا) ہے، جب وہ کسی چیز کو یہ حکم دیتا ہے تو وہ ہوجاتی ہے، ممکن نہیں کہ وہ اس کے حکم کے مطابق نہ ہو۔ اسے کونی حکم کہتے ہیں۔ دوسرا حکم وہ ہے جس میں اس نے اختیار دے دیا ہے کہ جسے حکم دیا گیا ہے چاہے تو کرے اور چاہے تو نہ کرے۔ ساتھ ہی تعمیل پر ثواب کا وعدہ اور عمل نہ کرنے پر عذاب کی وعید ہے، اسے شرعی حکم کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ان شرعی احکام و فرائض کا نام ” امانت “ ہے۔ جنّ و انس کو چھوڑ کر باقی پوری کائنات اللہ تعالیٰ کے کونی احکام کی پابند ہے۔ ان میں سے کسی کو اللہ کی نافرمانی کا اختیار ہی نہیں۔ نہ وہ نافرمانی کرتے ہیں، نہ کرسکتے ہیں۔ انسان بعض چیزوں میں دوسری مخلوقات کی طرح کونی احکام کا پابند ہے، مثلاً اس کا پیدا ہونا، اس کے جسم کے تمام نظام، سانس کی آمدورفت، دل کی دھڑکن، جوانی، بڑھاپے، صحت، بیماری، زندگی اور موت کے مراحل اس کے اختیار میں نہیں، البتہ بعض چیزوں یعنی شرعی احکام میں اسے اختیار دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں اس کے لیے ثواب یا عذاب رکھا گیا ہے۔ اس آیت میں امانت سے مراد شرعی احکام، یعنی فرائض و محرمات ہیں جو انسان پر عائد کیے گئے ہیں۔ ترجمان القرآن ابن عباس (رض) نے اس کی یہی تفسیر فرمائی ہے، چناچہ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ان کا قول نقل کیا ہے : ” اَلْأَمَانَۃُ الْفَرَاءِضُ (اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ ) إِنْ أَدَّوْہَا أَثَابَہُمْ ، وَ إِنْ ضَیَّعُوْہَا عَذَّبَہُمْ ، فَکَرِہُوْا ذٰلِکَ ، وَ أَشْفَقُوْا مِنْ غَیْرِ مَعْصِیَۃٍ ، وَ لٰکِنْ تَعْظِیْمًا لِّدِیْنِ اللّٰہِ أَنْ لَّا یَقُوْمُوْا بِہَا، ثُمَّ عَرَضَہَا عَلٰی آدَمَ ، فَقَبِلَہَا بِمَا فِیْہَا، وَ ہُوَ قَوْلُہُ : (وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ ۭ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا ) غُرًّا بِأَمْرِ اللّٰہِ “ [ طبري : ٢٨٩١٩، ٢٨٩١٧ ] ” امانت سے مراد فرائض ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا کہ اگر وہ انھیں ادا کریں گے تو وہ انھیں ثواب دے گا اور اگر انھوں نے وہ ضائع کیے تو انھیں عذاب دے گا۔ تو انھوں نے اسے ناپسند کیا اور اس سے ڈر گئے، کسی نافرمانی کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے دین پر عمل کو بہت بڑا سمجھتے ہوئے کہ وہ اس پر قائم نہیں رہ سکیں گے، پھر ان (فرائض) کو آدم (یعنی انسان) پر پیش کیا تو اس نے ان کو اس (ثواب و عذاب) سمیت قبول کرلیا جو ان میں تھا۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول کا یہی مطلب ہے : (وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ ۭ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا )” اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بیشک وہ ہمیشہ سے بہت ظالم بہت جاہل ہے۔ “ یعنی وہ اللہ کے حکم سے غافل ہے۔ “ صحابہ اور تابعین سے جتنی تفسیریں آئی ہیں وہ سب اس میں آجاتی ہیں، جو ابن عباس (رض) نے فرمایا، مثلاً ابن کثیر میں ہے کہ ابی بن کعب (رض) نے فرمایا : ” عورت کو اس کی شرم گاہ کا امانت دار بنایا گا۔ “ بعض نے کہا : ” اس سے مراد غسل جنابت ہے۔ “ زید بن اسلم نے فرمایا : ” مراد نماز، روزہ اور غسل جنابت ہے۔ “ خلاصہ یہ کہ تمام اوامرو نواہی، فرائض و محرمات انسان کے لیے اللہ کی طرف سے امانت ہیں اور یہ امانت اتنی عظیم اور بھاری چیز ہے کہ آسمان و زمین اور پہاڑوں نے اتنی بڑی مخلوقات ہونے کے باوجود اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے۔ 3 بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ بات تمثیلی طور پر بیان کی گئی ہے، یعنی اتنی بڑی مخلوقات میں یہ ذمہ داری اٹھانے کی استعداد نہیں جو انسان میں موجود ہے، ورنہ ایسا نہیں کہ واقعی اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، زمین اور پہاڑ کے سامنے امانت پیش کی ہو اور انھوں نے اسے قبول نہ کیا ہو۔ مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ تاویل کی ضرورت تب ہوتی ہے جب ظاہری معنی مراد لینا ممکن نہ ہو، جب کہ زمین و آسمان اور پہاڑوں میں ادراک اور سمجھ کا ہونا، ان کا اللہ کی تسبیح کرنا، ان کا رونا اور خوش ہونا متعدد آیات و احادیث سے ثابت ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٧٣) ، بنی اسرائیل (٤٤) ، نور (٤١) ، حشر (٢١) ، نحل (٤٨) ، دخان (٢٩) اور سورة حم السجدہ (٢١) ۔ 3 شاہ عبدالقادر نے ” ظَلُوْماً جَھُوْلاً “ کا ترجمہ ” بےترس نادان “ کیا ہے اور پھر لکھتے ہیں : ” یعنی اپنی جان پر ترس نہ کھایا۔ امانت کیا ؟ پرائی چیز رکھنی اپنی خواہش کو روک کر، زمین و آسمان میں اپنی خواہش کچھ نہیں، یا ہے تو وہی ہے جس پر قائم ہیں۔ آسمان کی خواہش پھرنا، زمین کی خواہش ٹھہرنا۔ انسان میں خواہش اور ہے اور حکم خلاف اس کے۔ اس پرائی چیز کو برخلاف اپنے جی کے تھامنا بڑا زور چاہتا ہے۔ اس کا انجام یہ کہ منکروں کو قصور پر پکڑنا اور ماننے والوں کا قصور معاف کرنا۔ اب بھی یہی حکم ہے کہ کسی کی امانت کوئی جان کر ضائع کرے تو بدلا ہے اور بےاختیار ضائع ہو تو بدلا نہیں۔ “ (موضح) شاہ صاحب کے کلام کا آخری حصہ (اس کا انجام یہ۔۔ ) اگلی آیت ”ۙ لِّيُعَذِّبَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِيْنَ “ کی تفسیر ہے۔ 3 لفظ امانت جس طرح ان فرائض اور اوامرو نواہی پر بولا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان پر عائد ہوئے اور اس نے انھیں قبول کیا، اسی طرح اس صفت پر بھی بولا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں رکھی ہے، جس کی بدولت وہ ہر حق والے کو اس کا حق ادا کرتا اور ان فرائض کو ادا کرتا ہے جو حق تعالیٰ نے اس پر عائد کیے ہیں۔ چناچہ حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو حدیثیں بیان کیں، ان میں سے ایک میں نے دیکھ لی ہے اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں بیان فرمایا : ( أَنَّ الْأَمَانَۃَ نَزَلَتْ فِيْ جَذْرِ قُلُوْبِ الرِّجَالِ ، ثُمَّ عَلِمُوْا مِنَ الْقُرْآنِ ، ثُمَّ عَلِمُوْا مِنَ السُّنَّۃِ ) ” یعنی امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ میں اتری، پھر انھوں نے اسے قرآن سے سیکھا، پھر انھوں نے سنت سے سیکھا۔ “ حذیفہ (رض) نے فرمایا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اس کے اٹھائے جانے کے متعلق بتایا، فرمایا : ( یَنَام الرَّجُلُ النَّوْمَۃَ فَتُقْبَضُ الْأَمَانَۃُ مِنْ قَلْبِہِ ، فَیَظَلُّ أَثَرُہَا مِثْلَ أَثَرِ الْوَکْتِ ، ثُمَّ یَنَام النَّوْمَۃَ فَتُقْبَضُ فَیَبْقٰی أَثَرُہَا مِثْلَ الْمَجْلِ ، کَجَمْرٍ دَحْرَجْتَہُ عَلٰی رِجْلِکَ فَنَفِطَ ، فَتَرَاہُ مُنْتَبِرًا، وَ لَیْسَ فِیْہِ شَيْءٌ، فَیُصْبِحُ النَّاسُ یَتَبَایَعُوْنَ فَلَا یَکَادُ أَحَدٌ یُؤَدِّي الْأَمَانَۃَ ، فَیُقَالُ إِنَّ فِيْ بَنِيْ فُلاَنٍ رَجُلاً أَمِیْنًا وَ یُقَال للرَّجُلِ مَا أَعْقَلَہُ وَ مَا أَظْرَفَہُ وَ مَا أَجْلَدَہُ وَ مَا فِيْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِنْ إِیْمَانٍ ) [ بخاري، الرقاق، باب رفع الأمانۃ : ٦٤٩٧ ] ” آدمی سوئے گا تو اس کے دل سے امانت اٹھا لی جائے گی اور اس کا نشان ہلکے سے داغ کی طرح رہ جائے گا۔ پھر ایک اور دفعہ سوئے گا تو (مزید) اٹھا لی جائے گی، تو اس کا نشان ایک چھالے کی طرح رہ جائے گا، جیسے تو کوئی انگارا اپنے پاؤں پر لڑھکائے تو ایک چھالا پھول آتا ہے، تم اسے ابھرا ہوا دیکھتے ہو، حالانکہ اس میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ حال یہ ہوجائے گا کہ صبح اٹھ کر لوگ خریدو فروخت کریں گے اور قریب نہیں ہوگا کہ کوئی بھی امانت ادا کرے، حتیٰ کہ کہا جائے گا کہ فلاں قبیلے میں ایک امانت دار آدمی ہے اور کہا جائے گا کہ فلاں آدمی کس قدر عقل مند، کس قدر ذہین اور کتنا مضبوط ہے، حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان نہیں ہوگا۔ “ 3 لفظ ” امانت “ کا ایک اور مفہوم بھی ہے، بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ حَلَفَ بالْأَمَانَۃِ فَلَیْسَ مِنَّا ) [ أبو داوٗد، الإیمان والنذور، باب کراھیۃ الحلف بالأمانۃ : ٣٢٥٣، و قال الألباني صحیح ] ” جس نے امانت کی قسم اٹھائی وہ ہم میں سے نہیں۔ “ اس حدیث میں امانت سے کیا مراد ہے، اکثر شارحین حدیث نے فرمایا کہ آدمی کی طرح اس کی امانت بھی چونکہ مخلوق ہے اور مخلوق کی قسم کھانا جائز نہیں، اس لیے اس پر یہ سخت حکم لگایا گیا ہے۔ مگر میری دانست میں اس کا مصداق عیسائیوں کی شریعت کے عقائد و احکام پر مشتمل وہ کتاب ہے جو ان کے بادشاہ قسطنطین کے زمانہ میں اس کے حکم سے تین سو اٹھارہ پادریوں نے تصنیف کی تھی اور اس کا نام ” اَلْأَمَانَۃُ الْکَبِیْرَۃُ “ رکھا تھا۔ جس میں بہت سی حلال چیزوں کو حرام اور حرام کو حلال کردیا گیا۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں : ” انھوں نے اس کا نام ” اَلْأَمَانَۃُ الْکَبِیْرَۃُ “ رکھا، حالانکہ درحقیقت وہ ” اَلْخِیَانَۃُ الْحَقِیْرَۃُ “ ہے۔ “ تفسیر ابن کثیر میں اس کی تفصیل سورة آل عمران کی آیات (٥٥ تا ٥٨) اور سورة روم کی ابتدائی آیات اور کئی اور مقامات کی تفسیر میں موجود ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق کہ ” امت مسلمہ بھی یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پر چل پڑے گی “ ہماری امت کے بعض بادشاہوں نے بھی اپنے زمانے کے علماء کے ذمے یہ ذمہ داری لگائی کہ وہ شریعت کے احکام کے لیے کتاب تصنیف کریں، مگر ان علماء نے کتاب و سنت کے بجائے اقوال جمع کر کے اسے شریعت کے قوانین قرار دیا اور شاید ہی کوئی اللہ کی حد باقی رہی ہو جسے انھوں نے حیلے بہانے سے ختم نہ کیا ہو۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا اس امت پر احسان عظیم ہے کہ آسمانی ہدایت قرآن و سنت کی صورت میں محفوظ ہے۔ اس لیے لوگوں کے اقوال کو شریعت اسلام قرار دینے والے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے اور ان شاء اللہ کامیاب ہو بھی نہیں سکیں گے۔ مختصر یہ کہ امانت نامی کتاب، جسے عیسائی مقدس کتاب سمجھتے اور اس کی قسم اٹھاتے تھے، مسلمانوں کو نہایت سختی کے ساتھ اس کی قسم کھانے سے منع کردیا گیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Emphasis has been placed in this entire Surah on the reverence of the Messenger of Allah and on the obligation of obeying him. Now in the later part of the Surah, the great station and rank of this obedience has been identified. Here, the obedience to Allah and His Messenger and the implementation of their commands has been expressed through the word: amanah: (Trust), the reason of which will appear later. What does |"amanah|" mean? What is meant by the word: amanah at this place? many views of the leading exegetes among Sahabah and Tabi` in, and others, have been reported to answer this question. Different things have been held to be the &amanah&, such as, Islamic Legal Obligations, Protection of Chastity, Properties held under Trust, Removal of Impurity through having bath, Salah, Zakah Fasting, Hajj etc. Therefore, the majority of commentators have said that all areas of religious conduct are included in it. (Qurtubi) In Tafsir Mazhari, it was said: The whole package of all obligations and prohibitions set by the Shari’ ah is amanah. In Al-Bahr-ul-Muhit, Abu Hayyan said: اَلظَّاھِرُ اَنَّھا کُلُّ مَا یؤتَمَنُ علیہِ مِن اَمرِ وَ نَھیِ وَ شَانِ دِینِ و دُنیَا وَالشَّرعُ کُلُّہ، اَمَاںَۃُ وَ ھٰذَا قَولُ الجَمھُورِ Apparently everything one is trusted with (by the Shari&ah) from obligations and prohibitions, and every state of life which relates to this world or the Hereafter - in fact, the Shari’ ah, all of it, is amanah. And this is the position the majority of Muslim scholars has taken. In short, amanah (trust) means to be obligated with the precepts and injunctions of the Shari` ah and being under command to carry these out. Once this is accomplished to the best of one&s ability, the eternal blessings of Jannah (Paradise) have been promised, and on any contravention or shortcoming, there shall be the punishment of Jahannam (Hell). Some early commentators have said that amanah (trust) refers to the capability of fulfilling the heavy responsibility placed by Divine injunctions, something that depends on a particular degree of reason and awareness - and moving forward therein and deserving Divine vice-regency depends on this very capability. The species of creation that do not have this capability, no matter how high or superior their placement, simply cannot advance from their given place. For this reason, the skies and the earth, even angels, have no inherent ability to go forward from the place they are in. Everything from these creatures is restricted to whatever station of nearness (to the Creator) it has. Their state is aptly pointed to in a verse of the Qur&an where it was said: مَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامٌ مَّعْلُومٌ (There is no one among us who does not have a known station - As-Saffat, 37:164) Under this sense of amanah (trust), all narrations of Hadith about amanah turn out to be symmetrical and the sayings of the majority of commentators also converge on almost a mutual agreement. In the Sahihs of al-Bukhari and Muslim, and in the Musnad of Ahmad, there is a narration from Sayyidna Hudhaifah (رض) saying that, &the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had told us about two things. One of these we have already witnessed with our own eyes. The unfolding of the other is still awaited. The first thing was that, |"First of all, amanah was sent down into the hearts of the men of faith. Then, the Qur&an was revealed and then the people of faith acquired knowledge from the Qur&an, and practice from the Sunnah|". After that, he narrated the other Hadith as follows: |"A time will come when no sooner does a man rise from sleep, amanah (trust) will be confiscated from out of his heart leaving some of its traces behind, just like you would roll down an ember from the fire on your feet (and this ember will certainly roll away but) its traces will survive in the form of inflammation or blister - although, no constituent element of the fire itself is left out there. So much so that people will enter into mutual transactions and contracts, but no one will fulfill the obligations of amanah due against him and (there will be such a dearth of trustworthy men that) people will be found saying that there is a trustworthy man in such and such tribe!|" In this Hadith amanah has been declared to be something which relates to the heart and this alone has the ability of fulfilling the obligations and duties imposed by the Shari` ah of Islam. And according to a narration of Sayyidna ` Abdullah Ibn &Amr (رض) appearing in the Musnad of Ahmad, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said, |"There are four things which, if you come to have them, and you have nothing out of so many worldly things, you are still no loser. (Those four things are): Guarding of trust, telling the truth, good morals and lawful sustenance. (From Ibn Kathir) An investigation into the way the &trust& was &offered& In the cited verse (72), it was said that Allah Ta’ ala placed this amanah (trust) before the heavens, the earth and the mountains and all of them refused to bear the burden of this responsibility shrinking from it out of the danger of not being able to fulfill its due right - but, man did. Here, it is worth pondering that the heavens, the earth and the mountains that are inanimate and, obviously devoid of knowledge and consciousness, how then would it be possible to rationalize the presentation of such an offer before them and that of their response to it? Some early commentators have taken this to be a figure of speech - as the noble Qur&an has said elsewhere by way of comparison: لَوْ أَنزَلْنَا هَـٰذَا الْقُرْ‌آنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَ‌أَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّـهِ (Had We sent down this Qur&an to a mountain, you would have seen it humbled, burst apart out of awe for Allah - Al-Hashr 59:21). It is obvious that this example has been given as a matter of supposition - not that it was really revealed to or on a mountain. So, these commentators have taken the &offer& of &trust& to the heavens etc. also in a figurative or metaphorical sense. But, in the sight of the majority of Muslim scholars, it is not correct, because in the verse of Surah Al-Hashr, the Qur&an has itself made it clear, by initiating the statement with the word: &if, &that it is just a hypothetical statement. On the contrary, the present verse is an affirmation of an incident in a descriptive style, and it is not permissible to take it in figurative or metaphorical sense without any proof. And if it is argued that these things have no senses and therefore no question can be asked from them and no answer is expected from them, then this argument stands rejected on the basis of other express statements of the Qur&an. The reason is that the Qur&an has explicitly said: وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ (And there is not a single thing that does not extol His purity and praise - Al-Isra&, 17:44). And it is obvious that knowing Allah Ta’ ala, realizing that He is the Creator, the Master, the highest and the best, and glorifying Him consequently is something not possible without knowledge and consciousness. Therefore, it stands proved from this verse that knowledge and consciousness do exist in all elements of creation to the extent that these are also there in what is considered to be inanimate. On the basis of this knowledge and consciousness, these can be addressed and a response can be expected from them. Their response could take different forms. It could take the form of words and letters and - it is not rationally impossible - that Allah Ta’ ala could bestow on the heavens and the earth and the mountains the functional ability to verbalize and speak. Therefore, in the sight of the majority of the learned among the Muslim Ummah, the phenomenon of this ` ard of amanah (the placement or offer of trust) came to pass in reality and these entities expressed their inability to bear the burden of this responsibility - also in reality. There is no simile or metaphor at work here. The acceptance of the offer of the &trust& was optional, not mandatory A question may be asked here. When Allah Ta’ ala personally made the offer of this great trust before the heavens and the earth and the mountains, how could they dare refuse it? If they had contravened the Divine order, they would have been destroyed totally. In addition to that, the obedience of the heavens and the earth to divine orders is also proved from the verse: أَتَيْنَا طَائِعِينَ (we come in obedience - Fussilat, 41:11) which means: When Allah Ta’ ala ordered the heavens and the earth to come to implement His command, be it willingly or unwilling, both of these responded by saying that they were pleased to come to obey His command. The answer is that, in the cited verse (41:11), the command given had a mandatory command with it where it was also said that they were to come with pleasure, or without it but, no matter what is the case, they had to obey the command. This is contrary to the present verse featuring the offer of the trust where following its presentation, they were given the choice of taking or not taking this awesome responsibility. Ibn Kathir has, with the support of various authorities, reported from several Sahabah and Tabi` in - Sayyidna Ibn ` Abbas, Hasan al-Basri, Mujahid and others - the following details of this offer of the trust: &What Allah Ta’ ala offered first to the heavens, then to the earth, and then to the mountains as a matter of choice was: Would you undertake to carry out the responsibility imposed by this trust (obedience to given injunctions) from Us against a return fixed for it?& Everyone asked, &What is the return?& It was said, &If you fulfill the demands of this trust (obedience to given injunctions) to the best of your ability, you will have the best of reward, and particularly the honor of having nearness to Allah, and if you failed to implement these injunctions, or fell short in it, you will be punished.& Hearing this, all these huge big bodies responded by saying, &0 our Lord, we are operating under Your command even now. But (now when we have been given a choice), we find ourselves weak and unable to bear the burden of this heavy responsibility. As reward, we do not want it, and as for punishment, we cannot bear it.& And Tafsir Qurtubi, with reference to Hakim Tirmidhi, has reported from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: & (After the offer of the trust to the heavens and the earth and the mountains, and after their response), Allah Ta’ ala addressed Sayyidna &Adam (علیہ السلام) and said: &We offered Our trust to the heavens and the earth but they expressed their inability to bear the burden of this responsibility. Now, would you assume this responsibility knowing that which goes with it?|"Adam (علیہ السلام) asked, &0 Lord, what is it that goes with it?& The answer was: &If you succeeded in fulfilling the demands of this trust to your best (that is, remained obedient to your best), you will be rewarded (which will be in the form of the nearness and pleasure of Allah and the eternal bliss of Jannah (Paradise), and if you let this trust go to waste, you will be punished.& &Adam (علیہ السلام) (eager to advance towards nearness and pleasure of Allah Ta’ ala) went ahead and assumed this responsibility. However, from the moment he assumed the burden of this heavy trust, not much time had passed, not even that much as is between the Salah of ` Asr and Zuhr, within which the Shaitan snared him into that well-known slip and he was made to leave Jannah. During which period of time did this event of the offer of trust take place? From the narration of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) which has appeared immediately above, it seems that this offer of trust made to the heavens and the earth and the mountains was made before the creation of &Adam. Then, following the creation of Sayyidna &Adam (علیہ السلام) it was also said before him that this trust was also offered to the heavens and the earth earlier, and that they did not have the ability to bear the burden of this responsibility, therefore, they excused themselves out of it. And what is apparent here is that this event of the offer of trust came before the Covenant of Eternity, that is, the Covenant of &Alast because the Covenant of أَلَسْتُ بِرَ‌بِّكُمْ (Am I not your Lord?) is a phase of this very acceptance to carry out the responsibility of fulfilling the trust - and stands for taking a solemn pledge to hold and discharge the responsibilities enjoined by an office. For vicegerency on the earth, the ability to bear the responsibilities of the great trust was necessary As eternally predestined, Allah Ta’ ala had already decided to appoint Sayyidna &Adam (علیہ السلام) His Khalifah (vicegerent) on the earth and this Khilafah (vicegerency) could only be entrusted with one who bears the responsibility of upholding the essential obedience to Divine injunctions - because, it is the very objective of this Khilafah that the Law of Allah be implemented on the earth and that the creation of Allah be induced to obey Divine injunctions. Therefore, as a matter of creational imperative, Sayyidna &Adam &JI agreed to bear the burden of the responsibility of this trust - although the inability of other humongous units of creation to bear it was already in his knowledge. (Mazhari and Bayan-ul-Qur’ an). In the last sentence of verse 72:إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا : Surely, he was unjust (to himself) unaware (of the end), the word: &Zalum& means one who is unjust to himself, and &jahul& means one who is unaware of the end. From this sentence, it is generally assumed that it has appeared here blaming man in an absolute sense, that is, so ignorant was man that he went ahead inflicting injustice upon himself by accepting to carry such a big burden of responsibility, something beyond his power. But, in the light of explicit statements in the Qur&an, this is not actually so because &man& may mean either Sayyidna &Adam (علیہ السلام) or whole mankind. Now Sayyidna &Adam (علیہ السلام) is, as a prophet, protected by Allah from committing sins. The burden of responsibility which he had assumed was carried out by him duly and certainly. As a result of this, he was made a vicegerent of Allah (Khalifatullah) and sent to the earth. He was made the object of prostration by angels and, in the Hereafter, his station is far higher than that of the angels. And if &man& must mean mankind, then, in this class, there are several hundred thousands of noble prophets (علیہم السلام) and several millions of the righteous and the men of Allah (awliya& Allah) even angels emulate - those who proved by their conduct in life that they were capable of handling and deserving this Divine trust. It was because of the basis laid out by these very noble souls, who duly vacated the rights and demands inherent in the great trust, that the Holy Qur&an declared mankind to be the noblest of Divine creation: وَلَقَدْ كَرَّ‌مْنَا بَنِي آدَمَ (And We bestowed dignity on the Children of &Adam - Al-Isra&, 17:70). This proves that neither is Sayyidna &Adam (علیہ السلام) blameworthy, nor the mankind as a whole. Therefore, commentators have said that this sentence is not there to impute a blame, rather, it appears there as the description of the actual event with regard to the most of individuals in the class. As such, the sense is that the majority of human kind proved to be zalum (one who inflicts injustice upon himself) and jahul (one who is unaware of the end) that failed to fulfill the rights and demands of this trust and fell into the abyss of loss. And since this was the state of affairs with the majority, therefore, it was attributed to humankind. In short, in the verse, the two words (Zalum and Jahul) mentioned above have been used for those particular individuals among human beings who did not obey the injunctions of the Shari’ ah as they were expected to, and failed to fulfill the right entailed by the amanah or trust placed with them - that is, the disbelievers, hypocrites, transgressors, the wicked, and sinning Muslims of the community. This Tafsir has been reported from Sayyidna Ibn ` Abbas, Sayyidna Ibn Jubayr (رض) ، Hasan Al-Basri (رح) and others. (Qurtubi) And there are others who have said that Zalum and Jahul has been used at this place in the sense of &naive&, as an affectionate form of address carrying the thought that man, brimming with love for his Creator and in quest of the station of nearness to Him, simply forgot the end of the whole thing. Similarly, these words could also be taken to have been spoken for the entire humankind. In Tafsir Mazhari, details of this aspect have been reported from Mujaddid Alf Thani and other noble Sufis.

خلاصہ تفسیر ہم نے یہ امانت (یعنی احکام جو بمنزلہ امانت کے ہیں) آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی تھی (یعنی ان میں کچھ شعور پیدا کر کے جو کہ اب بھی ہے ان کے روبرو اپنے احکام اور بصورت ماننے کے اس پر انعام و اکرام اور بصورت نہ ماننے کے اس پر تعذیب و آلام پیش کر کے ان کو لینے نہ لینے کا اختیار دیا۔ اور حاصل اس پیش کرنے کا یہ تھا کہ اگر تم ان احکام کو اپنے ذمہ رکھتے ہو تو ان کے موافق عمل کرنے کی صورت میں تم کو ثواب ملے گا اور خلاف کرنے کی صورت میں عذاب ہوگا اور اگر نہیں لیتے تو مکلف نہ بنائے جاؤ گے، اور ثواب و عذاب کے بھی مستحق نہ ہو گے، تم کو دونوں اختیار ہیں کہ اس کو نہ لینے سے نافرمان نہ ہو گے جس قدر ان کو شعور تھا وہ اجمالاً اس قدر مضمون سمجھ لینے کے لئے کافی تھا، چونکہ ان کو اختیار بھی دیا گیا تھا) سو انہوں نے (خوف و عذاب کے سبب احتمال ثواب سے بھی دست برداری کی اور) اس کی ذمہ داری سے انکار کردیا اور اس (کی ذمہ داری) سے ڈر گئے (کہ خدا جانے کیا انجام ہو، اور اگر وہ اپنے ذمہ رکھ لیتے تو مثل انسان کے ان کو بھی عقل عطا کی جاتی، جو تفصیل احکام و مثوبات و عقوبات کے سمجھنے کے لئے ضروری ہے، چونکہ اس کو نہیں منظور کیا، اس لئے عقل کی بھی ضرورت نہ ہوئی۔ غرض انہوں نے تو عذر کردیا) اور (جب ان سموات و ارض و جبال کے بعد انسان کو پیدا کر کے اس سے یہی بات پوچھی گئی تو) انسان نے (بوجہ اس کے کہ علم الٰہی میں اس کا خلیفہ ہونا مقرر تھا) اس کو اپنے ذمہ لے لیا (غالباً اس وقت تک اس میں بھی اتنا ہی ضرورت کے قدر شعور ہوگا اور غالباً یہ پیش کرنا اخذ میثاق سے مقدم ہے، اور وہ میثاق اسی حمل امانت کی فرع ہے، اور اس میثاق کے وقت اس میں عقل عطا کی گئی ہوگی، اور یہ کسی خاص انسان سے مثل آدم (علیہ السلام) کے نہیں پوچھا گیا، بلکہ مثل اخذ میثاق کے یہ عرض بھی عام ہوگا اور التزام بھی عام تھا۔ پس سموات و ارض جبال مکلف نہ ہوئے اور یہ مکلف بنادیا گیا۔ آیت میں اس کا یاد دلانا غالباً اسی حکمت سے ہے جیسا کہ میثاق یاد دلایا، یعنی ان احکام کا تم نے از خود التزام کیا ہے تو پھر نبھانا چاہئے۔ اور چونکہ مکلف جن بھی ہے اس لئے غالباً وہ اس عرض اور حمل میں شریک ہیں مگر تخصیص ذکر انسان کی صرف اس لئے ہے کہ اس مقام میں کلام اسی سے ہو رہا ہے، پھر اس التزام کے بعد انسان کی حالت باعتبار اکثر افراد کے یہ ہوئی کہ) وہ (انسان عملیات میں) ظالم ہے (اور عملیات میں) جاہل ہے (یعنی دونوں امر میں اعمال میں بھی اور عقائد میں بھی خلاف و رزی کرتا ہے یہ تو حالت با عتبار اکثر افراد کے ہے، باقی مجموعہ کے اعتبار سے اس ذمہ داری کا) انجام یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ منافقین و منافقات اور مشرکین و مشرکات کو (کہ یہ لوگ احکام کے ضائع کرنیوالے ہیں) سزا دے گا اور مومنین و مومنات پر توجہ (اور رحمت) فرما دے گا اور (بعد مخالفت بھی اگر کوئی باز آ جاوے تو پھر اس کو بھی مومنین و مومنات کے زمرہ میں شامل کرلیا جائے گا۔ کیونکہ) اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ معارف ومسائل اس پوری سورة میں تعظیم و تکریم رسول اور ان کی اطاعت پر زور دیا گیا ہے، آخر سورة میں اس اطاعت کا مقام بلند اور اس کا درجہ بتلایا گیا ہے، اس میں اللہ و رسول کی اطاعت اور ان کے احکام کی تعمیل کو امانت سے تعبیر کیا گیا ہے، جس کی وجہ آگے آجائے گی۔ امانت سے کیا مراد ہے : اس جگہ لفظ امانت کی تفسیر میں ائمہ تفسیر صحابہ وتابعین وغیرھم کے بہت سے اقوال منقول ہیں۔ فرائض شرعیہ، حفاظت عفت، امانات اموال، غسل جنابت، نماز، زکوٰة، روزہ، حج وغیرہ، اسی لئے جمہور مفسرین نے فرمایا ہے کہ دین کے تمام وظائف و اعمال اس میں داخل ہیں۔ (قرطبی) تفسیر مظہری میں فرمایا کہ شریعت کی تمام تکلیفات امر و نہی کا مجموعہ امانت ہے، ابوحیان نے بحیر محیط میں فرمایا : ” یعنی ہر وہ چیز جس میں انسان پر اعتماد کیا جاتا ہے یعنی امر و نہی اور ہر حال جس کا دین یا دنیا سے تعلق ہو اور شریعت پوری کی پوری امانت ہے یہی جمہور کا قول ہے “ خلاصہ یہ ہے کہ امانت سے مراد احکام شرعیہ کا مکلف و مامور ہونا ہے، جن میں پورا اترنے پر جنت کی دائمی نعمتیں اور خلاف ورزی یا کوتاہی پر جہنم کا عذاب موعود ہے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ امانت سے مراد احکام الہیہ کا بار اٹھانے کی صلاحیت و استعداد ہے جو عقل و شعور کے خاص درجہ پر موقوف ہے، اور ترقی اور استحقاق خلافت الہیہ اسی خاص استعداد پر موقوف ہے جن میں اجناس مخلوقات میں یہ استعداد نہیں ہے وہ اپنی جگہ کتنا ہی اونچا اور اعلیٰ مقام رکھتے ہوں مگر وہ اس مقام سے ترقی نہیں کرسکتے۔ اسی وجہ سے آسمان زمین وغیرہ میں یہاں تک کہ فرشتوں میں بھی ترقی نہیں جس کا جو مقام قرب ہے بس وہی ہے، ان کا حال یہ ہے مامنا الا لہ مقام معلوم، ” یعنی ہم میں سے کوئی نہیں مگر اس کا ایک معین مقام ہے “ امانت کے اس مفہوم میں تمام روایات حدیث جو امانت کے متعلق آئی ہیں مربوط و مطابق ہوجاتی ہیں، جمہور مفسرین کے اقوال بھی اس میں تقریباً متفق ہوجاتے ہیں۔ صحیحین بخاری و مسلم اور مسند احمد میں حضرت حذیفہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے ہمیں دو حدیثیں سنائی تھیں، ان میں سے ایک کو تو ہم نے خود آنکھوں سے دیکھ لیا، دوسری کا انتظار ہے۔ پہلی حدیث یہ ہے کہ اول رجال دین کے قلوب میں امانت نازل کی گئی، پھر قرآن اتارا گیا، تو اہل ایمان نے قرآن سے علم حاصل اور سنت سے عمل حاصل کیا۔ اس کے بعد دوسری حدیث یہ سنائی کہ (ایک وقت ایسا آنے والا ہے جس میں) آدمی سو کر اٹھے گا تو اس کے قلب سے امانت سلب کرلی جائے گی اور اس کا کچھ اثر و نشان ایسا رہ جائے گا جیسے تم کوئی آگ کا انگارہ اپنے پاؤں پر لڑھکا دو (وہ انگارہ تو چلا گیا مگر) اس کا اثر پاؤں پر ورم یا چھالے کی صورت میں رہ گیا حالانکہ اس میں آگ کا کوئی جز نہیں (الیٰ قولہ) یہاں تک کہ لوگ باہم معاملات اور معاہدات کریں گے، مگر کوئی امانت کا حق ادا نہ کرے گا اور (دیانتدار آدمی کا ایسا قحط ہوجائے گا کہ) لوگ یہ کہا کریں گے کہ فلاں قبیلہ میں ایک آدمی دیانتدار ہے۔ اس حدیث میں امانت ایک ایسی چیز کو قرار دیا ہے جس کا تعلق انسان کے قلب سے ہے، اور وہی تکالیف شرعیہ اور وظائف دینیہ کے مکلف ہونے کی صلاحیت و استعداد رکھتا ہے۔ اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمرو کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ چار چیزیں ایسی ہیں کہ جب وہ تمہیں حاصل ہوجائیں تو دنیا کی اور کوئی چیز تمہیں حاصل نہ ہو تو کوئی افسوس کی بات نہیں، (وہ چار چیزیں یہ ہیں) امانت کی حفاظت، بات کی سچائی، حسن خلق اور لقمہ حلال۔ (از ابن کثیر) عرض امانت کی تحقیق : آیت مذکورہ میں یہ ارشاد ہے کہ ہم نے امانت کو آسمانوں پر، زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کیا تو سب نے اس کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے، کہ ہم اس کا حق ادا کرسکیں گے، اور انسان نے یہ بوجھ اٹھا لیا۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ آسمان، زمین، پہاڑ جو غیر ذی روح اور بظاہر بےعلم و شعور ہیں ان کے سامنے پیش کرنے اور ان کے جواب دینے کی کیا صورت ہو سکتی ہے ؟ بعض حضرات نے تو اس کو مجاز اور تمثیل قرار دے دیا جیسے قرآن کریم نے ایک موقع پر بطور تمثیل کے فرمایا (آیت) لو انزلنا ھذا القرآن علیٰ جبل لرایة خاشعاً متصدعاً من خشیة اللہ،” یعنی ہم اگر یہ قرآن پہاڑ پر نازل کرتے تو تم دیکھتے کہ وہ بھی اس کے بوجھ سے جھک جاتا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا اللہ کے خوف سے “ کہ اس میں بطور فرض کے یہ مثال دی گئی ہے، یہ نہیں کہ حقیقتاً پہاڑ پر اتارا ہو۔ ان حضرات نے آیت انا عرضنا کو بھی اسی طرح کی تمثیل و مجاز قرار دے دیا۔ مگر جمہور علماء کے نزدیک یہ صحیح نہیں، کیونکہ جس آیت سے تمثیل پر استدلال کیا گیا ہے وہاں تو قرآن کریم نے حرف لو کے ساتھ بیان کر کے اس کا قضیہ فرضیہ ہونا خود واضح کردیا ہے، اور آیت انا عرضنا میں ایک واقعہ کا اثبات ہے، جس کو مجاز و تمثیل پر حمل کرنا بغیر کسی دلیل کے جائز نہیں۔ اور اگر دلیل میں یہ کہا جائے کہ یہ چیزیں بےحس و بےشعور ہیں ان سے جواب سوال نہیں ہو سکتا، تو یہ قرآن کی دوسری تصریحات سے مردود ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کا واضح ارشاد ہے (آیت) و ان من شئی الا یسبح بحمدہ، ” یعنی کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ کی حمد و تسبیح نہ پڑھتی ہو “ اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پہچاننا اور اس کو خالق ومالک اور سب سے اعلیٰ و برتر جان کر اس کی تسبیح کرنا بغیر ادراک و شعور کے ممکن نہیں۔ اس لئے اس آیت سے ثابت ہوا کہ ادراک و شعور تمام مخلوقات میں یہاں تک کہ جمادات میں بھی موجود ہے، اسی ادراک و شعور کی بنا پر ان کو مخاطب بھی بنایا جاسکتا ہے اور وہ جواب بھی دے سکتے ہیں جواب کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں، الفاظ و حروف کے ذریعہ بھی ہوسکتا ہے اور اس میں عقلی امتتاع نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان جمادات، آسمان، زمین اور پہاڑوں کو نطق و گویائی عطا فرما دیں۔ اس لئے جمہور امت کے نزدیک آسمان، زمین اور پہاڑوں پر عرض امانت حقیقی طور پر کیا گیا اور انہوں نے حقیقی طور پر ہی اپنا اس بار سے عاجز ہونا ظاہر کیا، اس میں کوئی تمثیل یا مجاز نہیں۔ عرض امانت اختیاری تھا جبری نہیں : رہا یہ سوال کہ جب حق تعالیٰ شانہ نے آسمان زمین وغیرہ پر اس امانت کو خود پیش فرمایا تو ان کی مجال انکار کیسے ہوئی، حکم الہٰی سے روگردانی کی تھی تو ان کو نیست و نابود ہوجانا چاہئے تھا، اس کے علاوہ آسمان و زمین کا مطیع ہونا اور تابع فرمان ہونا قرآن کریم کی آیت اتینا طالعین سے بھی ثابت ہے یعنی جب حق تعالیٰ نے آسمان و زمین کو حکم دیا کہ (ہمارے حکم کی تعمیل کے لئے) آجاؤ خواہ اپنی خوشی سے یا زبردستی سے، تو دونوں نے یہ جواب دیا کہ ہم تعمیل حکم کے لئے خوشی سے حاضر ہیں۔ جواب یہ ہے کہ آیت مذکورہ میں ان کو ایک حاکمانہ پابندی کا حکم دے دیا گیا تھا، جس میں یہ بھی کہہ دیا گیا تھا کہ تم اس حکم پر دل سے راضی ہو یا نہ ہو بہرحال یہ حکم ماننا پڑے گا بخلاف اس آیت عرض امانت کے کہ اس میں امانت کو پیش کر کے ان کو اختیار دیا گیا تھا کہ قبول کریں یا نہ کریں۔ ابن کثیر نے متعدد سندوں کے ساتھ متعدد صحابہ وتابعین ابن عباس، حسن بصری، مجاہد وغیرہ سے عرض امانت کی یہ تفصیل نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اول آسمان پر پھر زمین پر پھر پہاڑوں پر اختیاری صورت میں یہ پیش کیا۔ کہ ہماری امانت (یعنی اطاعت احکام) کا بار اٹھا لو اس معاوضہ کے ساتھ جو اس کے لئے مقرر ہے۔ ہر ایک نے سوال کیا کہ معاوضہ کیا ہے تو بتلایا گیا کہ امانت (یعنی اطاعت احکام) تم نے پوری طرح کی تو تمہیں جزاء وثواب اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اعزاز خاص ملے گا اور اگر تعمیل احکام نہ کی یا اس میں کوتاہی کی تو عذاب و سزا ملے گی۔ ان سب بڑے بڑے اجسام نے یہ سن کر جواب دیا کہ اے ہمارے پروردگار ہم اب بھی آپ کے تابع فرمان چل رہے ہیں، لیکن (جب ہمیں اختیار دیا گیا تو) ہم اس بار کو اٹھانے سے اپنے کو عاجز پاتے ہیں، ہم نہ ثواب چاہتے ہیں نہ ہی عذاب کے متحمل ہیں۔ اور تفسیر قرطبی میں حکیم ترمذی کے حوالہ سے حضرت ابن عباس کی یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ (آسمان، زمین وغیرہ پر عرض امانت اور ان کے جواب کے بعد) حق تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو خطاب فرمایا اور فرمایا کہ ہم نے اپنی امانت آسمان زمین کے سامنے پیش کی تو وہ اس کا بار اٹھانے سے عاجز ہوگئے، تو آپ اس بار امانت کو اٹھائیں گے مع اس چیز کے جو اس کے ساتھ ہے۔ آدم (علیہ السلام) نے سوال کیا کہ اے پروردگار وہ چیز جو اس کے ساتھ ہے کیا ہے ؟ جواب ملا کہ اگر حمل امانت میں پورے اترے (یعنی اطاعت مکمل کی) تو آپ کو جزا ملے گی (جو اللہ تعالیٰ کے قرب و رضا اور جنت کی دائمی نعمتوں کی صورت میں ہوگی) اور اگر اس امانت کو ضائع کیا تو سزا ملے گی۔ آدم (علیہ السلام) نے (اللہ تعالیٰ کے قرب و رضا میں ترقی ہونے کے شوق میں) اس کو اٹھا لیا، یہاں تک کہ بار امانت اٹھانے پر اتنا وقت بھی نہ گزرا تھا جتنا ظہر سے عصر تک ہوتا ہے کہ اس میں شیطان نے ان کو مشہور لغزش میں مبتلا کردیا، اور جنت سے نکالے گئے۔ عرض امانت کا واقعہ کس زمانے میں ہوا ؟ ابھی جو روایت حضرت ابن عباس کی اوپر گزری ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عرض امانت آسمان، زمین وغیرہ پر تخلیق آدم سے پہلے ہوا تھا، پھر جب آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا تو ان کے سامنے یہ بھی بیان فرمایا گیا کہ آپ سے پہلے آسمان زمین پر بھی یہ امانت پیش کی جا چکی ہے، جس کی ان کو طاقت نہ تھی، اس لئے عذر کردیا۔ اور ظاہر یہ ہے کہ یہ عرض امانت کا واقعہ میثاق اول یعنی عہد الست سے پہلے کا ہے کیونکہ عہد الست بربکم اسی بار امانت کی پہلی کڑی اور اپنے منصب کا حلف اٹھانے کے قائم مقام ہے۔ خلافت ارضی کے لئے بار امانت اٹھانے کی صلاحیت ضروری تھی : حق تعالیٰ نے تقدیر ازلی میں آدم (علیہ السلام) کو زمین میں اپنا خلیفہ بنانا طے فرمایا تھا اور یہ خلافت اسی کو سپرد کی جاسکتی تھی، جو احکام الہیہ کی اطاعت کا بار اٹھائے، کیونکہ اس خلافت کا حاصل ہی یہ ہے کہ زمین پر اللہ کے قانون کو نافذ کرے، خلق خدا کو احکام الہیہ کی اطاعت پر امادہ کرے۔ اس لئے تکوینی طور پر حضرت آدم (علیہ السلام) اس امانت کے اٹھانے کے لئے آمادہ ہوگئے، حالانکہ دوسری بڑی بڑی مخلوقات کا اس سے عاجز ہونا بھی معلوم ہوچکا تھا۔ (مظہری وبیان القرآن) ان کان ظلوماً جھولاً ، ظلوم سے مراد اپنے نفس پر ظلم کرنے والا، اور جہول سے مراد انجام سے ناواقف۔ اس حملے سے بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ مطلقاً انسان کی مذمت میں آیا ہے کہ اس نادان نے اپنی جان پر ظلم کیا کہ اتنا بڑا بار اٹھا لیا۔ جو اس کی طاقت سے باہر تھا مگر قرآنی تصریحات کے مطابق واقعہ ایسا نہیں، کیونکہ انسان سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہوں یا پوری نوع انسانی، ان میں آدم (علیہ السلام) تو نبی معصوم ہیں، انہوں نے جو بار اٹھایا تھا اس کا حق بھی یقینی طور پر ادا کردیا۔ اسی کے نتیجہ میں ان کو خلیفة اللہ بنا کر زمین پر بھیجا گیا، ان کو فرشتوں کا مسجود بنایا گیا، اور آخرت میں ان کا مقام فرشتوں سے بھی بلند وبالا ہے۔ اور اگر نوع انسانی ہی مراد ہو تو اس پوری نوع میں لاکھوں تو انبیاء (علیہم السلام) ہیں اور کروڑوں وہ صالحین اور اولیاء اللہ ہیں جن پر فرشتے بھی رشک کرتے ہیں، جنہوں نے اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ وہ امانت الٰہیہ کے اہل اور مستحق تھے۔ انہیں حق امانت کو ادا کرنے والوں کی بنا پر قرآن حکیم نے نوع انسانی کو اشرف المخلوقات ٹھہرایا۔ (آیت) ولقد کرمنا بنی آدم، اس سے ثابت ہوا کہ نہ آدم (علیہ السلام) قابل مذمت ہیں نہ پوری نوع انسانی، اسی لئے حضرات مفسرین نے فرمایا کہ یہ جملہ مذمت کے لئے نہیں بلکہ اکثر افراد نوع کے اعتبار سے بیان واقعہ کے طور پر ارشاد ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نوع انسانی کی اکثریت ظلوم و جہول ثابت ہوئی، جس نے اس امانت کا حق ادا نہ کیا، اور خسارہ میں پڑی، اور چونکہ اکثریت کا یہ حال تھا، اس لئے اس کو نوع انسانی کی طرف منسوب کردیا گیا۔ خلاصہ یہ ہوا کہ آیت میں ظلوم وجہول خاص ان افراد انسانی کو کہا گیا ہے جو احکام شرعیہ کی اطاعت میں پورے نہ اترے اور امانت کا حق ادا نہ کیا، یعنی امت کے کفار و منافقین اور فساق و فجار اور گناہ گار مسلمان۔ یہ تفسیر حضرت ابن عباس، ابن جبیر، حسن بصری وغیرہ سے منقول ہے۔ (قرطبی) اور بعض حضرات نے فرمایا کہ لفظ ظلوم وجہول اس جگہ بھولے بھالے کے معنی ہیں بطور محبانہ خطاب کے ہے کہ اس نے اللہ جل شانہ کی محبت اور اس کے مقام قرب کی جستجو میں اور کسی انجام کو نہیں سوچا۔ اسی طرح یہ لفظ پوری بنی نوع کے لئے بھی ہوسکتا ہے۔ تفسیر مظہری میں حضرت مجدد الف ثانی اور دوسرے صوفیائے کرام سے اسی طرح کا مضمون منقول ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ۝ ٠ۭ اِنَّہٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا۝ ٧٢ۙ عرض أَعْرَضَ الشیءُ : بدا عُرْضُهُ ، وعَرَضْتُ العودَ علی الإناء، واعْتَرَضَ الشیءُ في حلقه : وقف فيه بِالْعَرْضِ ، واعْتَرَضَ الفرسُ في مشيه، وفيه عُرْضِيَّةٌ. أي : اعْتِرَاضٌ في مشيه من الصّعوبة، وعَرَضْتُ الشیءَ علی البیع، وعلی فلان، ولفلان نحو : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة/ 31] ، ( ع ر ض ) العرض اعرض الشئی اس کی ایک جانب ظاہر ہوگئی عرضت العود علی الاناء برتن پر لکڑی کو چوڑی جانب سے رکھا ۔ عرضت الشئی علی فلان اولفلان میں نے فلاں کے سامنے وہ چیزیں پیش کی ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة/ 31] پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا ۔ أمانت أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، ( ا م ن ) امانت ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ } ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ جبل الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل : أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] ( ج ب ل ) قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا |" ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟ أبى الإباء : شدة الامتناع، فکل إباء امتناع ولیس کل امتناع إباءا . قوله تعالی: وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة/ 32] ، وقال : وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقوله تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] ، وقوله تعالی: إِلَّا إِبْلِيسَ أَبى [ طه/ 116] ( اب ی ) الاباء ۔ کے معنی شدت امتناع یعنی سختی کے ساتھ انکارکرنا ہیں ۔ یہ لفظ الامتناع سے خاص ہے لہذا ہر اباء کو امتناع کہہ سکتے ہیں مگر ہر امتناع کو اباء نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے ۔ { وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ } [ التوبة : 32] اور خدا اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں ۔ { وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ } ( سورة التوبة 8) لیکن ان کے دل ان باتوں کو قبول نہیں کرتے ۔{ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ } [ البقرة : 34] اس نے سخت سے انکار کیا اور تکبیر کیا {إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى } [ البقرة : 34] مگر ابلیس نے انکار کردیا ۔ ایک روایت میں ہے (3) کلکم فی الجنۃ الامن ابیٰ ( کہ ) تم سب جنتی ہو مگر وہ شخص جس نے ( اطاعت الہی سے ) انکار کیا ۔ رجل ابی ۔ خود دار آدمی جو کسی کا ظلم برداشت نہ کرے ابیت الضیر ( مضارع تابیٰ ) تجھے اللہ تعالیٰ ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رکھے ۔ تیس آبیٰ ۔ وہ بکرا چوپہاڑی بکردں کا بول ملا ہوا پانی پی کر بیمار ہوجائے اور پانی نہ پی سکے اس کا مونث ابواء ہے حمل الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل . وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی: وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] ، ( ح م ل ) الحمل ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔ شفق الشَّفَقُ : اختلاط ضوء النّهار بسواد اللّيل عند غروب الشمس . قال تعالی: فَلا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ [ الانشقاق/ 16] ، والْإِشْفَاقُ : عناية مختلطة بخوف، لأنّ الْمُشْفِقَ يحبّ المشفق عليه ويخاف ما يلحقه، قال تعالی: وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ [ الأنبیاء/ 49] ، فإذا عدّي ( بمن) فمعنی الخوف فيه أظهر، وإذا عدّي ب ( في) فمعنی العناية فيه أظهر . قال تعالی: إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنا مُشْفِقِينَ [ الطور/ 26] ، مُشْفِقُونَ مِنْها [ الشوری/ 18] ، مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا [ الشوری/ 22] ، أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا[ المجادلة/ 13] . ( ش ف ق ) الشفق غروب آفتاب کے وقت دن کی روشنی کے رات کی تاریکی میں مل جانے کو شفق کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ [ الانشقاق/ 16] ہمیں شام کی سرخی کی قسم ۔ الاشفاق ۔ کسی کی خیر خواہی کے ساتھ اس پر تکلیف آنے سے ڈرنا کیونکہ مشفق ہمیشہ مشفق علیہ کو محبوب سمجھتا ہے اور اسے تکلیف پہنچنے سے ڈرتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ [ الأنبیاء/ 49] اور وہ قیامت کا بھی خوف رکھتے ہیں ۔ اور جب یہ فعل حرف من کے واسطہ سے متعدی تو اس میں خوف کا پہلو زیادہ ہوتا ہے اور اگر بواسطہ فی کے متعدی ہو تو عنایت کے معنی نمایاں ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنا مُشْفِقِينَ [ الطور/ 26] اس سے قبل ہم اپنے گھر میں خدا سے ڈرتے رہتے تھے ۔ مُشْفِقُونَ مِنْها [ الشوری/ 18] وہ اس سے ڈرتے ہیں ۔ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا [ الشوری/ 22] وہ اپنے اعمال ( کے وبال سے ) ڈر رہے ہوں گے ۔ أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا[ المجادلة/ 13] کیا تم اس سے کہ ۔۔۔ پہلے خیرات دیا کرو ڈر گئے ہو ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں جهل الجهل علی ثلاثة أضرب : - الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام . - والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه . - والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] ( ج ھ ل ) الجھل ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔ ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ہم نے یہ امانت یعنی اطاعت و عبادت آسمان والوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے علی وجہ الاختیار والتخصیص پیش کی تھی تو انہوں نے خوف عذاب کی وجہ سے احتمال ثواب سے بھی دست برداری کی اور اس کی ذمہ داری لیتے ڈر گئے۔ اور (انسان) حضرت آدم نے بوجہ اس ثواب و عذاب کے اس ذمہ داری کو اپنے ذمہ لے لیا وہ اس کی ذمہ داری لینے میں یا یہ کہ درخت میں سے کھانے کے بارے میں ظالم اور اس کے انجام سے لا علم تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٢ { اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ } ” ہم نے اس امانت کو پیش کیا آسمانوں پر اور زمین پر اور پہاڑوں پر “ { فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا } ” تو ان سب نے انکار کردیا اس کو اٹھانے سے اور وہ اس سے ڈر گئے “ { وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا } ” اور انسان نے اسے اٹھا لیا۔ یقینا وہ بڑا ظالم اور بڑا نادان تھا۔ “ یعنی انسان نے ایک بھاری ذمہ داری قبول کر کے اپنے اوپر ظلم کیا اور بڑی نادانی کا ثبوت دیا۔ مذکورہ امانت کے بارے میں بہت سی آراء ہیں اور ہر رائے کے بارے میں مفسرین نے اپنے اپنے دلائل بھی دیے ہیں۔ یہاں ان تمام آراء کا ذکر کرنا اور ایک ایک کے بارے میں دلائل کا جائزہ لینا تو ممکن نہیں ‘ البتہ اس حوالے سے میں اپنی رائے بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس کے بارے میں مجھے پورا وثوق ہے۔ میرے نزدیک اللہ کی امانت سے مراد یہاں وہ ” روح “ ہے جو انسان کے حیوانی وجود میں اللہ تعالیٰ نے بطور خاص پھونک رکھی ہے۔ انسان کا مادی وجود عالم خلق کی چیز ہے ‘ جبکہ ” روح “ کا تعلق عالم ِامر سے ہے۔ (عالم خلق اور عالم امر کی وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو : سورة الاعراف ‘ تشریح آیت ٥٤) ۔ اللہ تعالیٰ نے عالم امر کی اس ” امانت “ کو عالم خلق کے مادی اور حیوانی وجود کے اندر رکھتے ہوئے اسے خاص اپنی طرف منسوب فرمایا ہے : { وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ } (سورۃ الحجر : ٢٩ اور سورة ص : ٧٢) ۔ چناچہ اسی روح کی بنا پر انسان مسجودِ ملائک ٹھہرا ‘ اسی کے باعث اسے خلافت کا اعزاز ملا اور اسی کی وجہ سے انسان کا سینہ ” مہبط ِوحی “ بنا۔ وحی کا تعلق چونکہ عالم امر سے ہے اور وحی کا حامل فرشتہ بھی عالم امر کی مخلوق ہے ‘ اس لحاظ سے انسان اپنے مادی وجود کے ساتھ فرشتے کے ذریعے وحی کو وصول کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ لہٰذایہ روح ہی ہے جس نے اسے نزول وحی کے تجربے کو برداشت کرنے کے قابل بنایا۔ جنات کے اندر چونکہ یہ روح نہیں ہے اس لیے وہ وحی کے حصول (reception) کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ جنات کے ہاں کوئی نبی نہیں آیا اور ان کے لیے نبوت کے حوالے سے انسانوں (انبیاء) کی پیروی لازم قرار پائی۔ اس نکتے کو مزید اس طرح سمجھئے کہ یہاں ” ظَلُوْمًا جَہُوْلًا “ کے الفاظ میں انسان کے حیوانی وجود کی اس کمزوری کا ذکر ہوا ہے جو اس کے اندر روح پھونکے جانے سے پہلے پائی جاتی تھی۔ اسی کمزوری کو سورة الانبیاء کی آیت ٣٧ میں { خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍط } اور سورة النساء میں { وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا ۔ } کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ کمزوری بہر حال ” نفخ روح “ سے پہلے کے انسان میں تھی۔ لیکن روح ربانی کی امانت ودیعت ہوجانے کے بعد اس کا رتبہ اس قدر بلند ہوا کہ وہ مسجودِ ملائک بن گیا۔ انسانی تخلیق کے ان دونوں مراحل کا ذکر سورة التین میں یوں فرمایا گیا ہے : { لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ۔ ثُمَّ رَدَدْنٰــہُ اَسْفَلَ سَافِلِیْنَ ۔ ” یقینا ہم نے پیدا کیا انسان کو بہترین شکل و صورت میں۔ پھر ہم نے اس کو لوٹا دیا نچلوں میں سب سے نیچے۔ “ یعنی جب ارواح کی صورت میں انسانوں کو پیدا کیا گیا تو وہ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ کے مرتبے کی مخلوق تھی ‘ مگر جب اسے دنیا میں بھیجا گیا تو یہ اپنے جسد ِحیوانی کی کمزوریوں کے سبب جنات سے بھی نیچے چلا گیا۔ بہر حال میرے نزدیک یہاں جس امانت کا ذکر ہوا ہے وہ انسان کی روح ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے جسد خاکی میں رکھی گئی ہے اور یہی وہ امانت ہے جس کی بنا پر اس کا احتساب ہوگا۔ جس انسان نے اس امانت کا حق ادا کیا وہ آخرت میں : { فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌ لا وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ ۔ } (الواقعہ) سے نوازا جائے گا۔ یعنی اس کے لیے راحت اور خوشبو اور نعمتوں کے باغ کی ضیافت ہوگی۔ اس کے برعکس جو کوئی حیوانی خواہشات و داعیات کا اتباع کرتا رہا اور یوں اس امانت میں خیانت کا مرتکب ہوا وہ گویا حیوان ہی بن کر رہ گیا۔ چناچہ اس کو وہاں { فَنُزُلٌ مِّنْ حَمِیْمٍ ۔ وَّتَصْلِیَۃُ جَحِیْمٍ ۔ } (الواقعہ) کے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ یعنی آخرت میں کھولتے پانی کی مہمانی اور جہنم کے عذاب کی زندگی اس کی منتظر ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

120 In the end, Allah wants man to realize his real position in the world; if in that position he regarded the life of the world as mere fun and sport and adopted a wrong attitude carelessly, he would only be working for his own doom. Here, the word 'amanat" (trust) implies khilafat (caliphate) which, according to the Qur'an, tnan has been granted in the earth. The inevitable result of the freedom given to man to choose between obedience and disobedience, and the powers and authority granted him over countless creations for using that freedom, is that he himself be held responsible for his voluntary acts and should deserve rewards for his righteous conduct and suffer punishment for his evil conduct. Since man has not attained these powers by his own efforts but has been granted these by Allah, and he is answerable before Allah for their right or wrong use, these have been described by the word khilafat at other places in the Qur'an, and by amanat here. In order to give an idea of how important and heavy this "trust" (amanat) is, Allah says that the heavens and the earth, in spite of their glory and greatness, and the mountains, in spite of their size and firmness, could not have the power and courage to bear it. But man, the weak and frail man, has borne this heavy burden on his tiny self. The presentation of the trust before the eanh and the heavens and their refusal to bear it and their being afraid of it may be taste literally, or it may have been said so metaphorically. We can neither know nor can comprehend Allah's relationship with His creations. The eanh and the sun and the moon and the mountains are dumb, deaf and lifeless for us but they may not be so also for Allah. Allah can speak to each of His creations and it can respond to Him, though its nature is incomprehensible for us. Therefore, it is just possible that Allah, in fact, might have presented this heavy trust before them, and they might have shuddered to see it, and they might have made this submission before their Master and Creator. "Lord, we find our good and our convenience only in remaining as Your powerless servants: we do not find courage to ask for the freedom to disobey and do justice to it, and then suffer Your punishment in case we cannot do justice to it." Likewise, it is also quite possible that before this present life Allah might have given another kind of existence to mankind and summoned it before Himself, and it migln have willingly undertaken to accept the delegated powers and authority. We have no rational argument to regard this as impossible. Only such a person, who might have made a wrong estimate of his mental and intellectual powers and capabilities, can think of regarding it as impossible. However, this also is equally possible that Allah may have said so allegorically. In order to give an idea of the extraordinary importance of the matter, He may have depicted the scene as if the earth and the heavens and the mountains like the Himalayas were present before Him on one side and a 5 to Gfoot man, on the other. Then Allah might have asked: "I want to invest someone of My creation with the power that being a subject of My Kingdom, it may acknowledge My Supremacy and obey My Commands of its own free will; otherwise it will also have the power to deny Me, even rebel against Me. After giving him this freedom I shall so conceal Myself from him as if I did not exist at aII. And to exercise this freedom I shall invest him with vast powers, great capabilities, and shall give him dominion over countless of My creations so that he may raise any storm that he may in the universe. Then I shall call him to account at an appointed time. The one who will have misused the freedom granted by Me, will be made to suffer a most terrible punishment; and the one who will have adopted My obedience in spite of aII chances and opportunities for disobedience, will be raised to such high ranks as no creation of Mine has ever been able to attain. Now tell, which of you is ready to undergo this test?" Hearing this discourse a hush might have prevailed for a while all through the universe. Then one huge creation after the other might have bowed down and submitted that it should be excused from the severe test. Then, at last, this frail creation might have risen and submitted: "O my Lord, I am ready to undergo this test. I shall brave aII the dangers inherent in the freedom and independence only in the hope that I shall be blessed with the highest office in Your Kingdom if I pass the test. " By imagining this scene through his mind's eye only can man judge exactly what delicate position he holds in the universe. Allah in this verse has called the person °unjust and ignorant", who lives a carefree life in the place of test, and has no feeling at all of how great a responsibility he is shouldering, and what consequences he will encounter of the right or wrong decisions that he makes in choosing and adopting an attitude for himself in the life of the world. He is ignorant because the fool holds himself as responsible to no one; he is unjust because he is himself preparing for his doom and is also preparing the doom of many others along with him.

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :120 کلام کو ختم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ انسان کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ دنیا میں اس کی حقیقی حیثیت کیا ہے اور اس حیثیت میں ہوتے ہوئے اگر وہ دنیا کی زندگی کو محض ایک کھیل سمجھ کر بے فکری کے ساتھ غلط رویہ اختیار کرتا ہے تو کس طرح اپنے ہاتھوں خود اپنا مستقبل خراب کرتا ہے ۔ اس جگہ امانت سے مر اد وہی خلافت ہے جو قرآن مجید کی رو سے انسان کو زمین میں عطا کی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو طاقت و معصیت کی جو آزادی بخشی ہے ، اور اس آزادی کو استعمال کرنے کے لیے اسے اپنی بے شمار مخلوقات پر تصرف کے جو اختیارات عطا کیے ہیں ان کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان خود اپنے اختیاری اعمال کا ذمہ دار قرار پائے اور اپنے صحیح طرز عمل پر اجر کا اور غلط طرز عمل پر سزا کا مستحق بنے ۔ یہ اختیارات چونکہ انسان نے خود حاصل نہیں کیے ہیں بلکہ اللہ نے اسے دیے ہیں ، اور ان کے صحیح و غلط استعمال پر وہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہے ، اس لیے قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر ان کو خلافت کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ، اور یہاں انہی کے لیے امانت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ یہ امانت کتنی اہم اور گراں بار ہے ، اس کا تصور دلانے کے لیے اللہ تعالی نے بتایا ہے کہ آسمان و زمین اپنی ساری عظمت کے باوجود اور پہاڑ اپنی زبردست جسامت و متانت کے باوجود اس کے اٹھانے کی طاقت اور ہمت نہ رکھتے تھے ، مگر انسان ضعیف البنیان نے اپنی ذرا سی جان پر یہ بھاری بوجھ اٹھا لیا ہے ۔ زمین و آسمان کے سامنے اس بار امانت کا پیش کیا جانا ، اور ان کا اسے اٹھانے سے انکار کرنا اور ڈر جانا ہو سکتا ہے کہ لغوی معنی میں ہو ، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ بات استعارے کی زبان میں ارشاد ہو ئی ہو ۔ اللہ تعالی کا اپنی مخلوقات کے ساتھ جو تعلق ہے اسے ہم نہ جان سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں زمین اور سورج اور چاند اور پہاڑ جس طرح ہمارے لیے گونگے ، بہرے اور بے جان ہیں ، ضروری نہیں ہے کہ اللہ کے لیے بھی وہ ایسے ہی ہوں ۔ اللہ اپنی ہر مخلوق سے بات کر سکتا ہے اور وہ اس کو جواب دے سکتی ہے ۔ اس کی کیفیت کا سمجھنا ہمارے فہم و ادراک سے بالا تر ہے ۔ اس لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ فی الواقع اللہ نے ان کے سامنے یہ بار گراں پیش کیا ہو اور وہ اسے دیکھ کر کانپ اٹھے ہوں اور انہوں نے اپنے مالک و خالق سے یہ عرض کیا ہو کہ ہم تو سرکار کے بے اختیار خادم ہی بن کر رہنے میں اپنی خیر پاتے ہیں ، ہماری ہمت نہیں ہے کہ نافرمانی کی آزادی لے کر اس کا حق ادا کر سکیں اور حق ادا نہ کرنے کی صورت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا بر داشت کر سکیں ۔ اسی طرح یہ بھی بالکل ممکن ہے ہماری موجودہ زندگی سے پہلے پوری نوع انسانی کو اللہ تعالی نے کسی اور نوعیت کا وجود بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا ہو اور اس نے یہ اختیارات سنبھالنے پر خود آمادگی ظاہر کی ہو ۔ اس بات کو ناممکن قرار دینے کے لیے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ۔ اس کو دائرۂ امکان سے خارج قرار دینے کا فیصلہ تو وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنے ذہن و فکر کی استعداد کا غلط اندازہ لگا بیٹھا ہو ۔ البتہ یہ امر بھی اتنا ہی ممکن ہے کہ اللہ تعالی نے یہ بات محض تمثیلی انداز میں فرمائی ہو اور صورت معاملہ کی غیر معمولی اہمیت کا تصور دلانے کے لیے اسی طرح کا نقشہ پیش کیا گیا ہو کہ گویا ایک طرف زمین و آسمان اور ہمالہ جیسے پہاڑ کھڑے ہیں اور دوسری طرف ۵ ۔ ٦ فیٹ کا آدمی کھڑا ہوا ہے ۔ اللہ تعالی پوچھتا ہے کہ : میں اپنی ساری مخلوقات میں سے کسی ایک کو یہ طاقت بخشنا چاہتا ہوں کہ وہ میری خدائی میں رہتے ہوئے خود اپنی رضا و رغبت سے میری با لا تری کا اقرار اور میرے احکام اطاعت کرنا چاہے تو کرے ، ورنہ وہ میرا انکار بھی کر سکے گا اور میرے خلاف بغاوت کا جھنڈا بھی لے کر اٹھ سکے گا ۔ یہ آزادی دے کر میں اس سے اس طرح چھپ جاؤں گا کہ گویا میں کہیں موجود نہیں ہوں ۔ اور اس آزادی کو عمل میں لانے کے لیے میں اس کو وسیع اختیارات دوں گا ، بڑی قابلیتیں عطا کروں گا ، اور اپنی بے شمار مخلوقات پر اس کو بلا دستی بخش دوں گا ، تاکہ وہ کائنات میں جو ہنگامہ بھی برپا کرنا چاہے کرسکے ۔ اس کے بعد میں ایک وقت خاص پر اس کا حساب لوں گا جس نے میری بخشی ہوئی آزادی کو غلط استعمال کیا ہو گا اسے وہ سزا دوں گا جو میں نے کبھی اپنی کسی مخلوق کو نہیں دی ہے ، اور جس نے نافرمانی کے سارے مواقع پاکر بھی میری فرمانبرداری ہی اختیار کی ہو گی اسے وہ بلند مرتبے عطا کروں گا جو میری کسی مخلو ق کو نصیب نہیں ہوئے ہیں ۔ اب بتاؤ تم میں سے کون اس امتحان گاہ میں اترنے کو تیار ہے ؟ یہ تقریر سن کر پہلے ساری کائنات میں سناٹا چھا جاتا ہے ۔ پھر ایک سے ایک بڑھ کر گراں ڈیل مخلوق گھٹنے ٹیک کر التجا کرتی چلی جاتی ہے کہ اسے اس کڑے امتحان سے معاف رکھا جائے ۔ آخر کار یہ مشت استخواں اٹھا ہے اور کہتا ہے کہ اے میرے رب میں یہ امتحان دینے کے لیے تیار ہوں ۔ اس امتحان کو پاس کر کے تیری سلطنت کا سب سے اونچا عہدہ مل جانے کی جو امید ہے اس کی بنا پر میں ان سب خطرات کو انگیز کر جاؤں گا جو اس آزادی و خود مختاری میں پوشیدہ ہیں ۔ یہ نقشہ اپنی چشم تصور کے سامنے لا کر ہی آدمی اچھی طرح اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ کائنات میں کس نازک مقام پر کھڑا ہوا ہے ۔ اب جو شخص اس امتحان گاہ میں بے فکر بن کر رہتا ہے اور کوئی احساس نہیں رکھتا کہ وہ کتنی بڑی ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے ، اور دنیا کی زندگی میں اپنے لیے کوئی رویہ انتخاب کرتے وقت جو فیصلے وہ کرتا ہے ان کے صحیح یا غلط ہونے سے کیا نتائج نکلنے والے ہیں ، اسی کو اللہ تعالی اس آیت میں ظلوم و جہول قرار دے رہا ہے ۔ وہ جہول ہے ، کیونکہ اس احمق نے اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ لیا ہے ۔ اور وہ ظلوم ہے ، کیونکہ وہ خود اپنی تباہی کا سامان کر رہا ہے اور اپنے ساتھ نہ معلوم کتنے اور لوگوں کو لے ڈوبنا چاہتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

52: یہاں ’’ امانت‘‘ کا مطلب ہے : ’’ اپنی آزاد مرضی سے اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کی ذمہ داری لینا ‘‘۔ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے بہت سے تکوینی احکام تو وہ ہیں جنہیں ماننے پر تمام مخلوقات مجبور ہیں، اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف کر ہی نہیں سکتیں، مثلاً موت اور زندگی کا فیصلہ وغیرہ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی مختلف مخلوقات کو یہ پیشکش فرمائی کہ بعض احکام کے معاملے میں انہیں یہ اختیار دیا جائے گا کہ اگر وہ چاہیں تو اللہ تعالیٰ حکم مان کر اس پر عمل کریں، اور اگر چاہیں تو حکم پر عمل نہ کریں۔ پہلی صورت میں ان کو جنت کی ابدی نعمتیں حاصل ہوں گی، اور دوسری صورت میں انہیں دوزخ کا عذاب دیا جائے گا۔ جب یہ پیشکش آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کو کی گئی تو وہ یہ ذمہ داری اٹھانے سے ڈر گئے، اور انہوں نے ایسی ذمہ داری لینے سے انکار کردیا جس کے نتیجے میں انہیں دوزخ کے عذاب کا خطرہ ہو۔ لیکن جب انسان کو یہ پیشکش کی گئی تو اس نے یہ زمہ داری اٹھا لی۔ آسمان، زمین اور پہاڑ اگرچہ دیکھنے میں ایسے نظر آتے ہیں جیسے ان میں شعور نہیں ہے، لیکن قرآن کریم کی کئی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کسی نہ کسی درجے میں شعور موجود ہے، جیسا کہ سورۃ بنی اسرائیل آیت 44 میں گذرا ہے اس لیے ان مخلوقات کو یہ پیشکش حقیقی معنی میں ہوئی ہو، اور انہوں نے انکار کیا ہو تو اس میں کوئی اشکال کی بات نہیں ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ امانت کی پیشکش اور اس سے انکار مجازی معنی میں ہو، یعنی اس امانت کے اٹھانے کی صلاحیت نہ ہونے کو انکار سے تعبیر فرمایا گیا ہو، اس موقع پر سورۂ اعراف کی آیت : 172 اور اس پر ہمارا تشریحی حاشیہ بھی ملاحظہ فرما لیا جائے۔ 53: یہ جملہ ان لوگوں کے لیے فرمایا گیا ہے جنہوں نے امانت کا یہ بوجھ اٹھانے کے بعد اس کا حق ادا نہیں کیا، اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہ کی، یعنی کافر اور منافق لوگ۔ چنانچہ اگلی آیت میں انہی کا انجام بیان ہوا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:72) عرضنا۔ ماضی جمع متکلم۔ ہم نے پیش کیا۔ الامانۃ۔ الا من کے اصل معنی نفس کے مطمئن ہونے کے ہیں۔ امن۔ امانۃ امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے یہاں الامانۃ سے مراد بار امانۃ ہے جیسا کہ عرب کہتے ہیں حمل الامانۃ یعنی اس نے امانت واپس کرنے سے انکار کردیا اور اس کا بوجھ اٹھا لیا۔ اشفقن منھا۔ اشفقن ماضی صیغہ جمع مؤنث غائب ہے (سموت والارض والجبال) کے لئے آیا ہے۔ اشفاق (افعال) مصدر۔ الاشفاق اصل میں کسی کی خیر خواہی کے ساتھ اس پر تکلیف آنے سے ڈرنا۔ کے ہیں۔ جب یہ فعل حرف من کے واسطہ سے متعدی ہو تو اس میں خوف کا پہلو زیادہ ہوتا ہے مثلاً مشفقون منھا (42:18) وہ اس سے ڈرتے رہتے ہیں۔ اشفقن منھا۔ وہ (آسمان اور زمین اور پہاڑ اس (کا بوجھ اٹھانے) سے ڈر گئے۔ ظلوما۔ ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا۔ (ای وضع الشیء فی غیر محلہ) ظلوم فعول کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے بڑا ظالم ۔ نہایت ستمگار، بڑا بےانصاف ، بڑا بےباک، بڑا بےترس۔ ظلم کی تین قسمیں ہیں۔ (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے مثلاً کفرو شرک وغیرہ جیسا کہ فرمایا۔ ان الشرک لظلم عظیم۔ (31:13) بیشک شرک بہت بھاری ظلم ہے۔ (2) وہ ظلم جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے مثلاً انما السبیل علی الذین یظلمون الناس (42:42) الزام تو ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (3) وہ ظلم جو انسان خود اپنے آپ پر کرتا ہے مثلاً فرمایا۔ رب انی ظلمت نفسی میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ جھولا۔ الجھل جہالت ونادانی۔ اس کی تین قسمیں ہیں :۔ (1) انسان کے ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں۔ (2) کسی چیز کے خلاف واضع۔ (3) کسی کام کو جس طرح سرانجام دینا چاہیے اس کے خلاف سر انجام دینا۔ عام اس سے کہ اس کے متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط۔ جاہل کا لفظ عموما بطورمذمت بولا جاتا ہے مگر کبھی بطور مذمت نہیں آتا۔ مثلاً یحسبہم الجاھل اغنیاء من التعفف (2:273) کہ ان کے نہ مانگنے کی وجہ سے ناواقف شخص ان کو غنی خیال کرتا ہے۔ جھول۔ بروزن فعول مبالغہ کا صیغہ ہے۔ بڑا جاہل ۔ بڑا نادان۔ الانسان۔ سے مراد جنس انسانی ہے۔ لفظی طور پر آیت کا ترجمہ ہوگا :۔ ہم نے یہ امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا۔ سو انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بیشک یہ (انسان) ظلوم وجہول ہے۔ لیکن اس کے سمجھنے کے لئے صاحب ضیاء القرآن کی وضاحت بہت مفید ہوگی۔ فرماتے ہیں کہ :۔ اہل لغت کی بیان کردہ تفسیر کے بعد اب علمائے کرام کا نقطہ نظر ملاحظہ فرمائیے ! ان کے نزدیک امانت سے مراد تکلیفات شرعیہ ہیں جن میں عبادات ، اخلاقیات اور ہر قسم کے قوانین داخل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کو فرمایا کہ ہم تمہیں اختیار و ارادہ کی آزادی دیتے ہیں کیا تم اس اختیار و آزادی کے ساتھ اس امانت کا بار اٹھانے کے لئے تیار ہو۔ انہوں نے اعتراف عجز کرتے ہوئے معذرت کردی اور اپنی بےبسی کا اقرار کیا یہ بوجھ گراں ہے ہم اس کے اٹھانے سے قاصر ہیں۔ ہمیں اطاعت کے ثواب کی امید سے عصیان و نافرمانی کے عذاب کا اندیشہ زیادہ ہے۔ ہم تیرے مسخر اور پابند حکم رہ کر تیرے ہر ارشاد کی تعمیل کریں گے اختیار و ارادہ کی آزادی میں جو خطرات پنہاں ہیں ان کو برداشت کرنے کی طاقت ہم اپنے اندر نہیں پاتے۔ اب یہی چیز جب انسان کے سامنے پیش کی گئی تو اس نے اپنی ناتوانیوں اور کمزوریوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اس امانت کو اٹھانے کی حامی بھر لی۔ اور اس بار گراں کو اٹھا کر اپنے آپ کو آزمائش وابتلا میں ڈال دیا۔ اور اس نے کسی عقل مندی کا ثبوت نہیں دیا۔ اس سے انسان کی مذمت مقصود نہیں بلکہ بیان واقع کے طورپر انہ کان ظلوما جھولا فرمایا۔ حضرت جنید بغدادی قدس سرہ نے بڑی پیاری بات فرمائی ہے :۔ ” شیخ جنید فرمود کہ نظر آدم بر عرض حق بود نہ بر امانت۔ لذت عرض ثقل امانت را بروفراموش گردانید لا جرم لطف ربانی بزبان عنایت فرمود کہ برداشتن از تو ونگاہ داشتن از من ! “ یعنی اللہ تعالیٰ نے جب یہ امانت حضرت آدم (علیہ السلام) پر پیش فرمائی تو آپ کی نظر اس وقت امانت اور ثقل پر نہ تھی بلکہ امانت پیش کرنے والے پر تھی اور اس کے پیش فرمانے میں جو لذت و سرور تھا اس نے امانت کی گرانی کو نظروں سے اوجھل کردیا “۔ یعنی حضرت جنید (رح) فرماتے ہیں یقینا لطف ربانی نے آدم کی اس نیاز مندی اور ہمت سے خوش ہو کر فرمایا کہ اے آدم ! اٹھانا تیرا کام ہے اور اٹھانے کی توفیق دینا اور تیری حفاظت کرنا میرا کام ہے ! اہل لغت اور صوفیائے کرام کی تشریح و توضیح اسی تفسیر ضیاء القرآن میں ملاحظہ فرمائیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 تمام مفسرین کے بقول اس جگہ امانت سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے فرائض و احکام کا ہار ہے جن کے بجا لانے پر ثواب اور خلاف ورزی کرنے پر عذاب مترتب ہوتا ہے۔ بعض مفسرین نے جو اس یک اور مطالب بیان کئے ہیں وہ دراصل اسی کی تفصیلات ہیں۔ ( شوکانی) زمین و آسمان اور پہاڑوں کو بار امانت پیش کرنا لغوی اور حقیقی معنی کے اعتبار سے بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس بار عظیم کی اہمیت ظاہر کرنے کے لئے محض تمثیلی انداز میں یہ بات فرمائی گئی ہو۔ واللہ علم۔2 جو اس نے اس بار عظیم کی ذمہ داری تو لے لی مگر اسے نبھایا نہیں۔ یہ بات نوع انسانی کے اکثر افراد کے لحاظ سے فرمائی گئی ہے جنہوں نے اپنی فطرت سلیمہ یا ذمہ داری قبول کرنے کے تقاضے پر عمل نہیں کیا۔ ( روح المعانی) شاہ صاحب (رح) نے ” ظلوماً جھولا “ کا ترجمہ بےترس نادان کیا ہے اور پھر لکھتے ہیں یعنی اپنی جان پر ترس نہ کھایا۔ امانت کیا ؟ پرائی چیزرکھنی اپنی خواہش کو روک کر، زمین و آسمان میں اپنی خواہش کچھ نہیں دیا ہے تو وہی ہے جس پر قائم ہیں۔ انسان میں خواہش اور ہے اور حکم خلاف اس کے اس پر پرائی چیز کو بر خلاف اپنے جی کے تھامنا بڑا زور چاہتا ہے۔ ( موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یہ کسی خاص انسان سے مثل آدم (علیہ السلام) کے نہیں پوچھا گیا، بلکہ مثل اخذ میثاق کے یہ عرض بھی عام ہوگا اور التزام بھی عام تھا، پس سموات و ارض و جبال مکلف نہ ہوئے اور یہ مکلف بنادیا گیا، آیت میں اس کا یاد دلانا غالبا اسی حکمت سے ہے جیسا میثاق یاد دلایا، یعنی ان احکام کا تم نے ازخود التزام کیا ہے پھر نباہنا چاہئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس نے اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کی وہ کامیابی پائے گا اور وہی امانت کا حق ادا کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے بارامانت کو آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں پر پیش کیا۔ لیکن انہوں نے اس بوجھ کو اٹھانے سے معذرت کی۔ کیونکہ وہ اس امانت کی ذمہ داری سے ڈر گئے لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا۔ بیشک انسان بڑا ظالم اور جاہل ہے۔ اہل علم کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ ” اَلْاَمَانَۃَ “ سے مراد خلافت کی ذمہ داریاں ہیں۔ یہ ایسا اختیار اور ذمہ داری ہے جس کو اٹھانے سے آسمانوں نے اپنی وسعت وبلندی، زمین نے اپنی جسامت اور کشادگی، پہاڑوں نے اپنی بلندیوں اور مضبوطی کے باوجودعرض کی کہ بارالٰہا ہم یہ اختیار لینے سے آپ کے حضور معذرت کرتے ہیں۔ ہم تو صرف آپ کی سمع و اطاعت کرتے رہیں گے۔ جب یہ امانت انسان کے سامنے پیش کی گئی تو اس نے کمزور ہونے کے باوجود اسے اٹھا لیا جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں اپنی حد سے آگے بڑھنا اور بلا سوچے سمجھے کوئی کام کرگزرنا اور اس میں منصب کے حصول کا شوق بھی پایا جاتا ہے۔ جو جہالت اور ظلم کی ایک قسم ہے۔ اسی سبب اپنے آپ اور دوسروں پر انسان ظلم اور جہالت کا ارتکاب کرتا ہے۔ جب کسی کو کچھ اختیار ملتے ہیں تو وہ یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کر تاکہ میں اس منصب کا حق ادا کرسکوں گا یا نہیں۔ انسان منصب، شہرت، مفادات اور اختیارات کے شوق میں ذمہ داری پر ذمہ داری اٹھاتا جاتا ہے۔ ایک طرف اس کا حق ادا نہ کر کے اپنے آپ پر ظلم کر رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف اپنے اقتدار اور اختیار سے تجاوز کر کے دوسروں پر ظلم ڈھاتا ہے اور اپنے رب کا باغی بن جاتا ہے یہ انسان کی بہت بڑی جہالت اور ظلم ہے۔ جن لوگوں نے اپنے رب کے عطا کردہ اختیارات سے تجاوز یا جان بوجھ کر تساہل کیا اور جن لوگوں نے منافقت کی یا اپنے رب کی ذات اور اسکی صفات میں کسی کو شریک ٹھہرایا وہ مرد ہو یا عورت اللہ تعالیٰ انہیں سزا دے گا۔ جنہوں نے خدائی اختیارات کو امانت و دیانت اور پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی کوتاہیوں کو معاف فرمائے گا کیونکہ وہ نہایت مہربانی کرنے والا ہے۔ ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا ‘ کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ مجھے کوئی عہدہ کیوں نہیں دیتے ؟ آپ نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر مارتے ہوئے فرمایا ‘ اے ابوذر ! یقیناً تو کمزور آدمی ہے اور یہ عہدہ امانت ہے جو بلا شبہ قیامت کے دن رسوائی اور ذلت کا باعث ہوگا ‘ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے حق کو سوچ سمجھ کر استعمال کیا اور ذمہ داریوں کو صحیح طور پر نبھایا۔ “ ” حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے قبیلے کے دو آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دونوں میں سے ایک نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے عہدہ دیجیے اور دوسرے نے بھی ایسا ہی مطالبہ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یقیناً ہم ایسے شخص کو عہدہ نہیں دیتے جو عہدہ طلب کرے اور نہ ہی ایسے شخص کو جو عہدے کا حریص ہو۔ “ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور وہ اپنی ذمہ داری کا جواب دہ ہے۔ “ [ رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ ] مسائل ١۔ اَلْاَمَانَۃُ سے مراد خلافت کی ذمہ داری ہے۔ ٢۔ انسان اختیارات کے بارے میں بڑا ظالم اور جاہل واقع ہوا ہے۔ تفسیر بالقرآن انسان کی فطرتی کمزوریاں : ١۔ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ (النساء : ٢٨) ٢۔ انسان جلد باز ہے۔ (بنی اسرائیل : ١١) ٣۔ انسان فطرتاً جلد باز ہے۔ (الانبیاء : ٣٧) ٤۔ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔ (بنی اسرائیل : ١٠٠) ٥۔ یقیناً انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ ( العادیات : ٦) ٦۔ بیشک انسان بڑا ہی ناانصاف اور ناشکرا ہے۔ (ا برا ہیم : ٣٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انا عرضنا الامانۃ ۔۔۔۔۔۔ ظلوما جھولا (72) ” “۔ زمین و آسمان اور زمین کے اندر بڑے بڑے پہاڑ ، دراصل ایک عام انسان کے لیے عظیم مخلوق ہیں ، جن کا یہاں قرآن نے ذکر کیا ہے اور جن کے اندر انسان رہتا ہے ، ان کے مقابلے میں انسان بہت ہی ضعیف اور حقیر ہے۔ یہ مخلوقات اپنے خالق کو اچھی طرح جانتی ہے اور اللہ کے تکوینی نظام اور قانون کے مطابق چل رہی ہے۔ اللہ کے احکام کو براہ راست پاتی ہے اور ان پر عمل پیدا ہے۔ یہ اس ناموس فطرت کے مطابق چلتی ہے جو اللہ نے اس کے اندر جاری کیا ہے۔ آغاز تخلیق سے یہ کائنات یونہی ، نظام قضا و قدر کے مطابق جاری وساری ہے۔ نہ اللہ کی اطاعت سے نکلتی ہے اور نہ اللہ کے ناموس فطرت سے سرمو انحراف کرتی ہے اور نہ کرسکتی ہے۔ یہ سب مخلوق اپنا فریضہ منصبی ادا کر رہی ہے ، چاہے اسے شعور ہو یا نہ ہو۔ چاہے اس کا کوئی اختیار ہو یا نہ ہو۔ یہ سورج اپنے مدار میں گردش کر رہا ہے اور اس کے دورے میں کوئی خلل نہیں آتا۔ یہ چمک رہا ہے اور جہاں تک اللہ کا حکم ہوگا ، کائنات کو گرم اور روشن کرتا رہے گا۔ پھر اس سورج کا کنبہ بھی اس کے دائرے کے اندر ٹھیک ٹھیک اپنے اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے اور اپنا فریضہ منصبی ادا کر رہا ہے۔ یہ زمین اپنے مدار میں گردش کر رہی ہے۔ اس گردش کے نتیجے میں فصلیں اگتی ہیں۔ انسانوں کے رزق کا انتظام ہو رہا ہے ۔ یہ مردوں کو سمیٹتی ہے۔ اس کے اندر سے چشمے پھوٹتے ہیں اور یہ سب کام سنت الہیہ کے مطابق ہوتا ہے بغیر زمین کے ارادہ کے۔ یہ چاند اور یہ ستارے و سیارے ، یہ ہوائیں اور یہ بادل یا یہ پانی اور یہ سمندر ، یہ پہاڑ اور یہ میدان سب کے سب اپنے رب کے حکم سے اور اپنے خالق کی تقدیر سے اپنے اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں اور یہ تمام اشیاء یہ فرائض بغیر جہد و مشقت کے ادا کرتی ہیں۔ یہ ارکان کائنات نہ اٹھاسکے ، ڈر گئے اور سہم گئے۔ یہ اس عظیم امانت کو نہ اٹھا سکے۔ یہ امانت کیا تھی ، ذاتی ارادے اور اختیار سے اپنے فرائض کو سرانجام دینا اور اپنے اعمال اور افعال کا ذمہ دار ہونا۔ لیکن ! وجعلھا الانسان (33: 72) ” مگر انسان نے اسے اٹھا لیا “۔ انسان جو اللہ کو اپنے شعور اور اپنے ادراک سے جانتا ہے ، اپنے تدبر اور اپنی بصیرت سے ناموس قدرت کو معلوم کرتا ہے ، اور اپنی سعی و جدوجہد سے اس ناموس کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے ، وہ اپنے ارادے سے اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور بالا رادہ ذمہ داریاں اٹھاتا ہے۔ اور اپنے میلانات اور خواہشات پر قابو پاتا ہے۔ اپنی زندگی کے ہر قدم پر وہ متحرک بالارادہ ہے۔ اپنی راہ کا ادراک رکھتا ہے۔ جان بوجھ کر اپنے لیے راہ اختیار کرتا ہے اور علی وجہ البصیرت کسی کی راہ پر چلتا ہے۔ یہ ہے وہ عظیم امانت جو اس انسان نے اٹھائی حالانکہ انسان بہت ہی ضعیف ، کمزور اور چھوٹا اور بےطاقت تھا۔ جس طرح اس کی قوت محدود تھی اس طرح اس کی عمر بھی محدود تھی اور پھر اس ضعیف انسان پر ہر طرف سے میلانات خواہشات اور طبیعی شہوات کی افواج حملہ آور تھیں۔ اس زوایہ سے اس ضعیف انسان نے اپنے کاندھوں پر ایک عظیم ذمہ داری اٹھالی۔ بیشک وہ ظالم اور جاہل تھا۔ اپنے نفس پر اس نے ظلم کیا کہ یہ بھاری بوجھ اس پر ڈالا اور اپنی قوت کی کمی سے وہ بیخبر تھا۔ لیکن جب انسان اس ذمہ داری کو پورا کرے جو اس نے اٹھائی اور جب وہ اپنی معرفت اور اپنے ادراک سے باری تعالیٰ تک پہنچ جائے تو وہ براہ راست ناموس الٰہی کی معرفت حاصل کرلیتا ہے ، اور پوری طرح اپنے رب کے ارادے کا مطیع ہوجاتا ہے۔ یہ معرفت ، یہ ہدایت اور یہ اطاعت اپنی حقیقت کے اعتبار سے اور اپنے آثار کے اعتبار سے ایک بلند مقام تک پہنچ جاتی ہے اور اس قدر خود کار طریقے سے کام کرتی ہے جس طرح آسمان اور زمین اور پہاڑ بڑی سہولت سے ، براہ راست ہدایت ، معرفت اور اطاعت پذیر ہوتے ہیں ، کیونکہ یہ تمام مخلوقات براہ راست اللہ کی معرفت حاصل کیے ہوئے ہوتی ہیں۔ براہ راست اللہ کی ہدایت کے تحت چلتے ہیں۔ براہ راست اطاعت کرتے ہیں اور ان کے اور باری تعالیٰ کے درمیان کوئی حائل اور کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی اور کوئی چیز ان کو اللہ کی اطاعت سے روکنے والی نہیں ہوتی ، تو جب انسان بھی اس پوری کائنات کی طرح اللہ کی معرفت ، ہدایت اور اطاعت کا پابند ہوجاتا ہے تو اس وقت وہ واصل باللہ ہوجاتا ہے اور تب اللہ کی مخلوقات میں اس کا مقام منفرد ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ارادہ ، ادراک اور اختیار اور ذمہ داری اٹھانا ہی انسان کی امتیازی خصوصیات ہیں اور انہی کی وجہ سے انسان ان ان مخلوقات کے اندر ایک ممتاز مقام رکھتا ہے۔ یہی وہ کرامت اور شرف ہے جس کا اعلان اللہ نے عالم بالا میں کیا تھا کہ فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ اس انسان کے سامنے سجدہ ریز ہوں اور قرآن کے اندر یہ اعلان قیامت تک ثبت کردیا۔ ولقد کرمان بنی آدم ” حقیقت یہ ہے کہ ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی “۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی اس تکریم کی اصلی وجہ سمجھے اور اللہ نے اس کے حوالے جو امانت کی ہے اور اس نے جسے قبول کیا ہے اور جس کے اٹھانے سے آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں نے انکار کیا ، اور ڈرگئے اسے اچھی طرح ادا کرے۔ یہ امانت یا ذمہ داری اللہ نے انسان کے اوپر کیوں ڈالی ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں نے بار امانت اٹھانے سے انکار کردیا اور انسان نے اسے اٹھالیا یہ دو آیات کا ترجمہ ہے، پہلی آیت میں امانت سپرد کرنے کا اور دوسری آیت میں نافرمانوں کے لیے عذاب دینے کا اور اہل ایمان پر مہربانی فرمانے کا ذکر ہے۔ یہ جو فرمایا کہ ہم نے آسمانوں پر اور زمینوں پر اور پہاڑوں پر امانت پیش کی اور انہوں نے اس کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے انسان نے اس کو اٹھالیا۔ اس میں امانت سے کیا مراد ہے ؟ اس بارے میں متعدد اقوال نقل کیے گئے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ہے کہ اس سے حکم کی فرمانبرداری کرنا یعنی فرائض کا نجام دینا مراد ہے، آسمانوں سے اور زمین سے اور پہاڑوں سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم امانت کو قبول کرو یعنی احکام کی فرمانبرداری کی ذمہ داری کا اقرار کرو اور ان کی ادائیگی کا بوجھ اٹھاؤ تو ان چیزوں نے کہا کہ اگر ہم ذمہ داری کو برداشت کرلیں اور احکام پر عمل پیرا ہونے کا وعدہ کرلیں تو اس کا انجام کیا ہوگا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر اچھے عمل کرو گے تو اس کا اچھا اجر ملے گا اور اگر نافرمانی کرو گے تو عذاب دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں نہ ہمیں ثواب چاہیے نہ عذاب میں مبتلا ہونے کو تیار ہیں، (تشریعی طور پر اوامر اور احکام کا بوجھ اٹھانا ہمارے بس کا روگ نہیں ہاں ہم تکوینی طور پر مسخر ہیں، آپ کے حکم کے مطابق رہیں گے، اس میں نہ مخالفت کا اندیشہ ہے اور ثواب بھی نہیں عذاب بھی نہیں، ہمیں بےثواب رہنا منظور ہے عذاب کی برداشت نہیں) ان پر خوف اور خشیت کا ایسا غلبہ ہوا کہ عذاب کے ڈر سے ثواب چھوڑنے پر بھی آمادہ ہوگئے۔ ان چیزوں پر جو اللہ تعالیٰ نے امانت پیش فرمائی تھی وہ بطور تخییر کے تھی یعنی اختیار دیا گیا تھا کہ چاہو تو اس کو اپنے ذمہ لے لو چاہو تو نہ لو، لہٰذا انہوں نے تخییر سے فائدہ اٹھایا اور تحمل امانت سے انکار کردیا۔ اگر کوئی شخص یہ سوال اٹھائے کہ آسمان و زمین اور پہاڑ تو جمادات ہیں ان سے سوال و جواب کیسے ہوا ہوگا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ہمارے نزدیک بےفہم ہیں خالق اور مالک سے جو ان کا تعلق ہے وہ ادراک اور سمجھ کے ساتھ ہے، جیسا کہ سورة الحج میں فرمایا (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَالدَّ وَآبُّ وَکَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْہِ الْعَذَابُ وَ مَنْ یُّھِنِ اللّٰہُ فَمَالَہٗ مِنْ مُّکْرِمٍ اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُ ) (اے مخاطب ! کیا تجھ کو یہ بات معلوم نہیں کہ اللہ کے سامنے سب عاجزی کرتے ہیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے آدمی بھی، اور بہت سے ایسے ہیں جن پر عذاب ثابت ہوگیا اور جس کو اللہ ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں، اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ) سورۃ حٰمٓ السجدہ میں فرمایا (ثُمَّ اسْتَوَی اِِلَی السَّمَآءِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ اِءْتِیَا طَوْعًافَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ اِءْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْہًا قَالَتَا اَتَیْنَا طَاءِعِیْنَ ) (پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی اور وہ دھواں تھا، سو اس سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا زبردستی سے، دونوں نے عرض کیا کہ ہم خوشی سے حاضر ہیں۔ ) سورۃ البقرہ میں پتھروں کے بارے میں فرمایا (وَ اِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ ) (اور ان میں بعض وہ ہیں جو اللہ کے ڈر سے گرپڑتے ہیں۔ ) اصل بات یہ ہے کہ پتھروں میں اور دوسری جمادات میں ہمارے خیال میں ادراک اور شعور نہیں ہے کیونکہ وہ ہم سے بات نہیں کرتے اور ہمیں وہ احوال معلوم نہیں جو ان پر گزرتے ہیں، اور ان کا اپنے خالق سے مخلوق اور مملوک اور عبادت گزار ہونے کا جو تعلق ہے انسان اس سے واقف نہیں ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ احد ایسا پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ (جلد ٢: ص ٨٥٨) حضرت جابر بن سمرہ (رض) روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ مکہ مکرمہ میں ایک پتھر ہے میں اسے پہچانتا ہوں جن دنوں میں میری بعثت ہوئی وہ مجھے سلام کیا کرتا تھا۔ (صحیح مسلم جلد ٢ : ص ٢٤٥) امانت کی تشریح اور توضیح و تفصیل : جب انسان پر امانت پیش کی گئی اور احکام الٰہیہ پر عمل پیرا ہونے کی ذمہ داری سونپی گئی تو انسان نے اسے قبول کرلیا اور برداشت کرلیا اور یہ مان لیا کہ میں احکام الٰہیہ پر عمل کروں گا۔ فرائض کی پابندی کروں گا واجبات ادا کروں گا۔ (وَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُ ) میں الْاِنْسَانُ سے کیا مراد ہے ؟ بعض مفسرین کے بیان کے مطابق یہ امانت کی پیشی حضرت آدم (علیہ السلام) پر ہوئی تھی جذبہ ثواب میں آکر انہوں نے قبول کرلیا معصیت کے عقاب کی طرف گویا خاص دھیان نہیں دیا اور تکوینی طور پر بھی انہیں قبول کرنا تھا کیونکہ انہیں خلافت کے لیے پیدا کیا گیا۔ یہ امانت کی پیشی کب ہوئی ؟ بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ بھی یوم المیثاق میں ہوا جس کا ذکر آیت کریمہ (وَاِذْ اَخَذَرَبُّکَ مِنْ بَنِیْ اٰدَم) میں مذکور ہے اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ یہ واقعہ یوم المیثاق سے پہلے کا ہے۔ (واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں پہلے شرمگاہ پیدا فرمائی اور فرمایا کہ یہ امانت ہے اور تیرے پاس ودیعت رکھی جا رہی ہے اسے ضائع مت کرنا صرف حلال جگہ استعمال کرنا، اگر تو نے اس کی حفاظت کی تو میں تیری حفاظت کروں گا (اس کے بعد فرمایا) لہٰذا شرمگاہ امانت ہے، کان امانت ہیں، آنکھیں امانت ہیں، زبان امانت ہے، پیٹ امانت ہے، ہاتھ امانت ہیں، پاؤں امانت ہیں یعنی ان چیزوں سے متعلق جو احکام دئیے گئے ہیں ان کی خلاف ورزی خیانت ہے اور انہیں احکام الٰہیہ کے مطابق استعمال کرنا ادائے امانت ہے۔ (روح المعانی جلد ٢٢: ص ٩٦ تا ٩٨) آیت کریمہ (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لاَ تَخُوْنُوْا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْا اَمٰنٰتِکُمْ ) کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا (لا تخونوا اللّٰہَ بترک فرائضہ والرسول بترک سنتہ) یعنی فرائض کو چھوڑ کر اللہ کی خیانت نہ کرو اور سنتوں کو چھوڑ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خیانت نہ کرو۔ (در منثور جلد ٣: ص ١٧٨) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خیانت کرنے کی ممانعت کرنے کے بعد فرمایا (وَتَخُوْنُوْا اَمٰنٰتِکُمْ ) اور آپس میں اپنی امانتوں میں خیانت نہ کرو، چونکہ امانت کا مفہوم بہت وسیع ہے اور ہر طرح کی امانت میں خیانت کرنے کی ممانعت ہے اس لیے ہر خیانت سے نہایت اہتمام کے ساتھ پرہیز کرنا لازم ہے۔ مالی خیانت کو تو سبھی جانتے ہیں مثلاً کوئی شخص کسی کے پاس امانت رکھے اور وہ اس کو کھاجائے یا استعمال کرے یا کم کردے یا دو شریک آپس میں خیانت کرلیں جو شخص قرض دے کر یا کسی بھی طرح اپنا مال دے کر بھل جائے، اس کا حق رکھ لیں وغیرہ وغیرہ، یہ سب خیانتیں ہیں، اور ہر شخص کو معلوم ہوتا ہے کہ میں نے کس کا حق مارا ہے اور کس کی خیانت کی ہے فکر آخرت اور اللہ کا ڈر ہو تو انسان خیانت سے بچ سکتا ہے ورنہ دنیاوی نفع کو دیکھ کر بڑے بڑے دیانتداری کے دعویدار اس مسئلہ میں کچے پڑجاتے ہیں، ہر شخص اپنے متعلقہ احکام میں دیانتدار ہے، چھوٹے بڑے حکام اور ملوک رؤساء اور وزراء امانتدار ہیں، انہوں نے جو عہدے اپنے ذمہ لیے ہیں وہ ان کی ذمہ داری شریعت اسلامیہ کے مطابق پوری کریں کسی بھی معاملے میں عوام کی خیانت نہ کریں۔ اسی طرح بائع اور مشتری اور سفر کے ساتھی، پڑوسی، میاں بیوی، ماں باپ اور اولاد سب ایک دوسرے کے مال کے اور دیگر متعلقہ امور کے امانتدار ہیں، جو بھی کوئی کسی کی خیانت کرے گا گنہگار ہوگا اور میدان آخرت میں پکڑا جائے گا، مالیات کے علاوہ دیگر امور میں بھی خیانت ہوتی ہے جن کا ذکر احادیث شریفہ میں وارد ہوا ہے۔ سورۂ نساء میں فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ الآی اَھْلِھَا) (بےشک اللہ تمہیں حکم فرماتا ہے کہ امانت والوں کو ان کی امانتیں دے دیا کرو) اور سورة بقرہ میں فرمایا ہے (فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُکُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَہٗ ) (سو اگر تم میں سے ایک شخص دوسرے شخص پر اعتماد کرے تو جس پر اعتماد کیا گیا ہے وہ دوسرے کی امانت ادا کرے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے) سورة معارج میں نیک بندوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا (وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمَانٰتِہِمْ وَعَہْدِھِمْ رَاعُوْنَ ) (اور وہ لوگ جو اپنی امانتیں اور اپنے عہد کی رعایت کرنے والے ہیں۔ ) حضرت انس (رض) نے بیان فرمایا کہ بہت کم ایسا ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا ہو اور یوں نہ فرمایا ہو (لاَ اِیْمَانَ لِمَنْ لاَّ اَمَانَۃَ لَہٗ وَلاَ دِیْنَ لِمَنْ لاَّ عَھْدَلَہٗ ) (رواہ البیھقی فی شعب الایمان) (اس کا کوئی ایمان نہیں جو امانتدار نہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جو عہد کا پورا نہیں۔ ) مومن کا کام یہ ہے کہ پوری طرح امانت دار رہے، اللہ تعالیٰ کے فرائض اور واجبات کو بھی ادا کرے، سنتوں کا بھی اہتمام رکھے، بندوں کے حقوق بھی ادا کرے اور عہد کی بھی پابندی کرے۔ امانتوں کی کچھ تفصیل ہم نے سورة نساء کی آیت (اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ الآی اَھْلِھَا) کے ذیل میں بیان کردی ہے۔ (انوار البیان جلد اول) اور مستقل ایک رسالہ بھی ” امانت و خیانت “ کے عنوان سے لکھ دیا ہے اس کو ملاحظہ کرلیا جائے۔ (اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلاً ) (بیشک انسان ظلوم ہے جہول ہے) ظلوم کا معنی ہے ظلم کرنے والا۔ اور جہول معنی ہے ” نادان “۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

69:۔ انا عرضنا الخ، یہ منافقین و مشرکین پر زجر اور ان کے لیے تخویف اخروی ہے۔ ہم نے زمین و آسمان پر ان کے مناسب حال جو احکام مقرر کیے انہوں نے ان کو بخوشی قبول کرلیا اور ان کی تعمیل کی۔ چناچہ ارشاد ہے۔ فقال لہا وللارض ائتیا طوعا او کرھا۔ قالتا اتینا طائعین (حم السجدہ رکوع 1) لیکن کافر و مشرک اور منافق انسان نے امانت میں خیانت کی اور احکام خداوندی کو پس پشت ڈال دیا۔ امانت سے مراد کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ سب سے بہتر اور جامع قول یہ ہے کہ اس سے تمام احکام الٰہی اور تکالیف شرعیہ مراد ہیں۔ قال ابن عباس یعنی بالامانۃ الطاعۃ (ابن کثیر ج 3 ص 522) ۔ قال مجاھد الامانۃ الفرائض و حدود الدین وقال ابو العالیۃ ما امروا بہ و نھو عنہ (معالم ج 5 ص 229) والامانۃ تعم جمیع وظائف الدین علی الصحیح من الاقوال وھو قول الجمہور (قرطبی ج 14 ص 253) ، لیکن غیر ذوی العقول کے لیے امانت سے تکوینی فرائض مراد ہونے چاہئیں۔ 70:۔ فابین الخ، ابین کی ضمیر جمع مونث سموات، ارض اور جبال کی طرف راجع ہے۔ حضرت شیخ قد سرہ فرماتے ہیں ان یحملن، حمل سے ہے۔ جس کے معنی یہاں خیانت کے ہیں۔ قولہ تعالیٰ فابین ان یحملنہا و اشفقن منہا و حملہا الانسان ای یخنہا و خانہا الانسان و نص الازہری عرفنا تعالیٰ انہا لم تحملہا ای اد تھا وکل من خان الامانۃ فقد حملہا (تاج العروس ج 7 ص 288) و حمل الامانۃ و محتمل لھا یرید انہ لا یودیہا الی صاحبہا الخ (بحر ج 6 ص 254) ۔ یرید بالامانۃ الطاعۃ للہ و بحمل الامانۃ الخیانۃ یقال فلان حامل للامانۃ و محتمل لھا ای لایودیہا الی صاحبہا حتی تزول عن ذمتہ الخ (مدارک) ۔ اور الانسان سے کافر و منافق انسان مراد ہے۔ حاصل یہ ہے کہ ہم نے ساری مخلوق پر بار امانت پیش کیا۔ زمین و آسمان اور پہاڑوں نے اس امانت کو اٹھاتے ہوئے عہد کیا کہ وہ اس امانت کا حق ادا کریں گے اور اس میں ہرگز خیانت نہیں کریں گے اور مفوضہ فرائض احسن طریق سے انجام دیں گے۔ واشفقن منہا یعنی امانت میں خیانت کرنے سے ڈر گئے (اسی طرح مومنین نے بھی امانت کو اٹھا لیا اور اسے پورا کرنے کا عہد کیا) ۔ لیکن کافر و منافق انسان نے اس امانت میں خیانت کی۔ اور اللہ کی اطاعت کا حق ادا نہ کیا۔ اور اس خیانت کی وجہ سے اس نے اپنے اوپر بہت بڑا ظلم کیا اور جہالت و نادانی سے اس میں خیانت کی (و حملہا الانسان) ای خان فیہا وابی ان یودیہا (انہ کان ظلوما) لکونہ تارکا لاداء الامانۃ (جہولا) لاخطائہ ما یسعدہ مع تمکنہ منہ وھو اداءھا قال الزجاج الکافر والمنافق حملا الامانۃ ای خانا ولم یطیعاھا ومن اطاع من الانبیاء و المومنین فلا یقال کان ظلوما جہولا (مدارک) ۔ حضرت شیخ کے نزدیک حمل بمعنی خیانت راجح ہے۔ اگرچہ اکثر مفسرین نے حمل کو اٹھانے کے معنی پر محمول کیا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(72) ہم نے اپنی امانت یعنی احکام کی ذمہ داری آسمانوں کے اور زمین کے اور پہاڑوں کے روبرو پیش کی سو انہوں نے اس ذمہ داری کو اٹھانے سے انکار کردیا اور اس امانت سے ڈر گئے اور انسان نے اس امانت کو اٹھا لیا اور اپنے ذمہ لے لیا انسان بڑا ظالم اور بڑا ناعاقبت اندیش ہے۔