Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 73

سورة الأحزاب

لِّیُعَذِّبَ اللّٰہُ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ وَ الۡمُشۡرِکٰتِ وَ یَتُوۡبَ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿٪۷۳﴾  6

[It was] so that Allah may punish the hypocrite men and hypocrite women and the men and women who associate others with Him and that Allah may accept repentance from the believing men and believing women. And ever is Allah Forgiving and Merciful.

۔ ( یہ اس لئے ) کہ اللہ تعالٰی منافق مردوں عورتوں اور مشرک مردوں عورتوں کو سزا دے اور مومن مردوں عورتوں کی توبہ قبول فرمائے ، اور اللہ تعالٰی بڑا ہی بخشنے والا اور مہربان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لِيُعَذِّبَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ ... So that Allah will punish the hypocrites, men and women, and the men and women who are idolators. means, because the sons of Adam have undertaken to fulfill the Amanah, which means duties, Allah will punish the men and women among them who are hypocrites, who are those who make an outward display of faith because they fear the believers, but in their hearts they conceal disbelief and in fact are followers of the disbelievers. وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ (and the men and women who are idolators). these are the ones who both outwardly and inwardly associate others in worship with Allah and go against His Messengers. ... وَيَتُوبَ اللَّهُ عَلَى الْمُوْمِنِينَ وَالْمُوْمِنَاتِ ... And Allah will pardon the believers, men and women. means, He will show mercy to the believers among mankind, who believe in Allah and in His angels, Books and Messengers, and who obey Him. ... وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا And Allah is Ever Oft-Forgiving, Most Merciful. This is end of the Tafsir of Surah Al-Ahzab. Allah, may He be glorified and exalted, is the Guide to the right way.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

73۔ 1 اس کا تعلق حَمَلَھَا سے ہے یعنی انسان کو اس امانت کا ذمے دار بنانے سے مقصد یہ ہے کہ اہل نفاق و اہل شرک کا نفاق و شرک اور اہل ایمان کا ایمان ظاہر ہوجائے اور پھر اس کے مطابق انھیں جزا و سزا دی جائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٢] انسان کو قوت ارادہ و اختیار دینے کا لازمی نتیجہ یہ نکل سکتا تھا کہ کچھ لوگ اس اختیار کا غلط استعمال کریں اور کچھ صحیح۔ پھر چونکہ انسان ظالم اور جاہل بھی ثابت ہوا۔ لہذا اس ارادہ و اختیار کا غلط استعمال کرنے والے بہت زیادہ نکلے اور صحیح استعمال کرنے والے ان کے مقابلہ میں بہت کم۔ اور دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ غلط استعمال کرنے والے مشرکوں، کافروں اور منافقوں کو ان کے اعمال کی سزا دی جائے۔ اور جن لوگوں نے اس ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اپنا طرز زندگی اللہ کی مرضی کے مطابق بنا لیا انھیں اس کا اچھا بدلہ بھی دیا جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لِّيُعَذِّبَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِيْنَ ۔۔ : اس آیت میں انسان کے امانت کی ذمہ داری کو اٹھانے کا نتیجہ بیان ہوا ہے۔ سورت کی ابتدا اس حکم کے ساتھ ہوتی ہے کہ ” اے نبی ! اللہ سے ڈر اور کفار و منافقین کی اطاعت مت کر “ پھر سورت کے درمیان میں منافقوں کی خیانتوں کا اور ان کے اللہ تعالیٰ اور مسلمانوں سے لیے ہوئے تمام عہد توڑنے کا ذکر فرمایا۔ سورت کے آخر میں امانت کی اہمیت اور اس میں خیانت کرنے والے منافق اور مشرک لوگوں کے عذاب اور امانت کا حق ادا کرنے والے مومنوں کا ثواب ذکر فرمایا۔ کچھ تفسیر اس کی پچھلی آیت کے فائدہ (٣) میں شاہ عبدالقادر کے کلام میں گزر چکی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

لِّيُعَذِّبَ اللَّـهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ (with the result that Allah will punish the hypocrites, men and women, and the Mushriks, men and women, and will accept the repentance of the believing men and women. Surely Allah is Most-Forgiving, Very-Merciful. [ 73]) The letter &lam& used in the beginning of this verse is not for mentioning the cause or aim, as generally understood in common usage, but it is the lam of &aqibah in the terminology of Arabic linguistics. It points out to the end of something, as it appears in a line of Arabic poetry which reads: لِدُوا لِلمَوتِ وَ ابنُوا لِلخَرَابِ &Be born only to be dead and build only to be ruined&. It does not mean that the aim of one&s birth was to be dead or that the aim of constructing of a building was that it could be ruined, but it simply means that the end of everyone born is death and the end of every building is falling into ruins. The sense of the verse is that, as a result of man&s assumption of responsibility for the trust, mankind will split in two groups: (1) Dis¬believers, hypocrites and others who will rebel against Divine orders and become wasters of the great &trust&. They will be punished. (2) There will be believing men and believing women who, through their obedience to Divine injunctions, will fulfill the dictates of the trust reposed in them. They will be treated with mercy and forgiveness. The Tafsir of the two words: Zalum and Jahul that has been reported above from most Tafsir authorities finds additional support in this last sentence as well - that these words are not meant for the whole mankind. In fact, they particularly refer to those individuals who wasted away the Divine trust reposed in them. And Allah, Pure and High, knows best. The Commentary on Surah Al-Ahzab ends here With the help of and praise for Allah Ta’ ala

(آیت) لیعذب اللہ المنفقین والمنفقت الآیة، ” یعنی تاآنکہ عذاب دے گا اللہ تعالیٰ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو، اور مشرکین مردوں اور عورتوں کو، اور رحمت و مغفرت سے نوازے گا مومنین و مومنات کو “ لیعذب میں حرف لام بیان علت و غرض کے لئے نہیں بلکہ اصطلاح عربیت کے لحاظ سے لام عاقبت ہے۔ یعنی جو کسی چیز کا انجام بیان کرے جیسے ایک عربی شعر میں ہے لدو اللموت وابنو اللخراب۔ ” یعنی پیدا ہو موت کے لئے اور تعمیر کرو ویران ہونے کے لئے “ مراد یہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والے کا انجام موت اور ہر تعمیر کا انجام ویرانی ہے۔ اس جملے کا تعلق حملہا الانسان سے ہے، یعنی انسان کے بار امانت اٹھانے کا انجام یہ ہوگا کہ نوع انسانی میں دو فریق ہوجائیں گے، ایک کفار و منافق وغیرہ جو اطاعت الٰہیہ سے سرکش ہو کر امانت کے ضائع کرنے والے ہوگئے، ان کو عذاب دیا جائے گا، دوسرے مومنین و مومنات جو اطاعت احکام شرعیہ کے ذریعہ حق امانت ادا کرچکے، ان کے ساتھ رحمت و مغفرت کا معاملہ ہوگا۔ اس آخری جملے میں بھی ظلوم وجہول کے الفاظ کی اس تفسیر کی تائید ہوئی جو اکثر ائمہ تفسیر سے اوپر نقل کی گئی ہے، کہ یہ تمام نوع انسانی کے لئے نہیں بلکہ خاص ان افراد کے لئے ہے جنہوں نے امانت الہیہ کو ضائع کیا۔ واللہ سبحانہ، وتعالیٰ اعلم۔ تمت سورة الاحزاب بعونہ تعالیٰ و حمدہ للعشرین من محرم الحرام 1392 ھ یوم الثلثاء

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِّيُعَذِّبَ اللہُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِكِيْنَ وَالْمُشْرِكٰتِ وَيَتُوْبَ اللہُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ۝ ٠ ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۝ ٧٣ۧ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا نِّفَاقُ ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة/ 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] ونَيْفَقُ السَّرَاوِيلِ معروفٌ نا فقاء الیربوع ہے یعنی جنگلی چوہے کا بل جس کے دود ھا نے ہوں نافق الیر بوع ونفق جنگی چوہیا اپنے مل کے دہانے سے داخل ہو کر دوسرے سے نکل گئی اور اسی سے نفاق ہے جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَالنَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ نیفق السراویل پا جامے کا نیفہ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جب مسلمانوں کے حق میں یہ خوشخبری نازل ہوئی تو منافقین کہنے لگے یا رسول اللہ ہمارے لیے پھر کیا ہے اس پر یہ نازل ہوا کہ اللہ تعالیٰ منافقین اور منافقات کو سزا دے گا اور کہا گیا ہے کہ حضرت آدم نے اس ذمہ داری کو اس لیے قبول فرمایا تاکہ اللہ تعالیٰ منافقین و منافقات اور مشرکین و مشرکات کو ترک امانت پر سزا دے کیونکہ جب حضرت آدم نے اس امانت کو قبول کیا تو وہ صلب آدم تھے اور تاکہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں مردوں اور عورتوں پر توجہ فرمائے اور اس امانت کی تعمیل حکم میں جو ان سے کو تاہیاں ہوئی ہیں ان کو معاف فرمائے اور اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کی مغفرت فرمانے والا اور ایمان داروں پر رحمت والا اور ایمان داروں پر رحمت فرمانے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٣ { لِّیُعَذِّبَ اللّٰہُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِکِیْنَ وَالْمُشْرِکٰتِ } ” تاکہ اللہ عذاب دے منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک َمردوں اور مشرک عورتوں کو “ { وَیَتُوْبَ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ } ” اور اللہ رحمت کے ساتھ توجہ فرمائے مومن مردوں اور مومن عورتوں پر۔ “ آیت کے الفاظ میں ” توبہ قبول فرمائے “ یا ” توبہ کی توفیق عطا فرمائے “ کا مفہوم بھی موجود ہے۔ { وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا } ” اور یقینا اللہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “ سورة الاحزاب مکی مدنی سورتوں کے چوتھے گروپ کی آخری سورت ہے۔ اس گروپ میں آٹھ مکیات (سورۃ الفرقان ‘ سورة الشعراء ‘ سورة النمل ‘ سورة القصص ‘ سورة العنکبوت ‘ سورة الروم ‘ سورة لقمان ‘ سورة السجدۃ) اور ایک مدنی سورت (سورۃ الاحزاب) شامل تھی۔ اس کے بعد مکی مدنی سورتوں کا پانچواں گروپ ١٣ مکی اور تین مدنی سورتوں پر مشتمل ہے۔ یہاں پر ضمنی طور پر مدنی سورتوں کی موجودہ ترتیب اور ترتیب نزولی کے بارے میں چند معلومات بھی نوٹ کرلیں۔ مصحف کی ترتیب میں سورة البقرۃ سے لے کر سورة الاحزاب تک تمام مدنی سورتیں طویل ہیں۔ لیکن سورة الاحزاب کے بعد اکثر مدنی سورتیں ٢ رکوعوں پر مشتمل ہیں یا زیادہ سے زیادہ کسی کے چار رکوع ہیں۔ اب تک پڑھی جانے والی مدنی سورتوں کی ترتیب نزولی اس طرح ہے : پہلے سورة البقرۃ ‘ پھر سورة الانفال ‘ پھر سورة آل عمران ‘ پھر سورة النساء ‘ پھر سورة الاحزاب ‘ پھر سورة النور اور آخر میں سورة المائدۃ۔ جبکہ چھوٹی مدنی سورتیں مذکورہ طویل سورتوں کے بین بین میں نازل ہوتی رہی ہیں۔ جیسے سورة الصف سورة الاحزاب کے متصلاً بعد نازل ہوئی اور سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورة البقرۃ کے فوراً بعد ‘ لیکن غزوہ بدر سے پہلے نازل ہوئی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

ضمیمہ مسکنگ

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:73) لیعذب اللہ میں لام تعلیل وعاقبت کا ہے۔ یعذب مضارع واحد مذکر غائب منصوب بوجہ عمل لام تعلیل۔ تاکہ عذاب دیوے اللہ تعالیٰ ۔ مطلب یہ کہ اس بار امانت کو اٹھانے کی ذمہ داری قبول کرنے سے دو صورتیں سامنے آگئیں۔ (1) جو ان ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ کما حقہ، نہ ہو سکے۔ اور شرک ونفاق کے مرتکب ہوئے وہ مستوجب سزا ہوگئے۔ (2) اور جو اس ابتلا میں قائم رہے اور ایمان و یقین سے متصف ہوئے وہ لطف و کرم الٰہی کے سزاوار ہوئے۔ یتوب اللہ۔ مضارع منصوب واحد مذکر غائب توب وتوبۃ (باب نصر) سے جس کے معنی گناہ کو احسن طریق سے ترک کرنے کے ہیں۔ اعتذا کی تین صورتیں ہیں :۔ (1) عذر کنندہ سرے سے اپنے جرم کا انکار کر دے کہ میں نے یہ گناہ کیا ہی نہیں۔ (2) گناہ کی وجہ جواز تلاش کر کے۔ (3) اعتراف جرم کر کے آئندہ نہ کرنے کا یقین دلائے۔ جب اس کا تعدیہ الی کے ذریعہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب گناہ کنندہ کا اعتراف جرم کرتے ہوئے اس کی معافی اور آئندہ اس سے بچنے کی یقین دہانی سے اللہ کی طرف رجوع کرنے کا ہے۔ اور جب تعدیہ علی سے ہو تو اللہ تعالیٰ کا جرم کنندہ پر مہربانی کرنا اور اس کی توبہ قبول کرنا مراد ہوتا ہے ۔ غفورا رحیما۔ کان کی خبر۔ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (وہ بندوں کی لغزشوں کو معاف کردیتا ہے اور اس کی نیکیوں کو اپنی رحمت کے طفیل منزل مقصود تک رسائی کا ذریعہ بناتا ہے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی انسان کے ظلموں کو بخشنے والا اور اس کی جہالت پر رحم کھانے والا ہے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں اس ( یعنی امانت کے قبول کرنے) کا انجام یہ کہ منکروں کو قصور پر پکڑنا اور ماننے والوں کا قصور معاف کرنا، اب بھی یہی حکم ہے۔ کسی کی امانت کوئی جان بوجھ کر ضائع کرے تو بدلہ ہے اور بےاختیار ضائع ہو تو بدلہ نہیں ہے۔ ( موضح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لیعذب اللہ المنفقین ۔۔۔۔۔ غفورا رحیما (73) ” “۔ وہ خصوصیات کیا ہیں جو انسان نے اپنے کاندھوں پر اٹھائیں ؟ یہ کہ اپنے آپ کو پہچانے ، اپنی قوت عقلیہ سے معرفت کردار حاصل کرے۔ بذات خود عمل کرے اور خود خدا تک پہنچے۔ یوں وہ اپنے اختیار کو صحیح استعمال کرے اور اپنے اعمال کی سزا اور جزاء کا ذمہ دار ہو۔ اس طرح منافقین اور منافقات سزا کے مستحق ہوں ، مشرکین اور مشرکات اپنے انجام تک پہنچیں اور اللہ مومنین و مومنات کی امداد کرے اور ان سے جو تقصیرات ، کمزروریاں ، ناتوانیاں صادر ہوں ان کو معاف کرے۔ کیونکہ انسان کی راہ میں ضعف ، کمزوری ، شہوات ، جذبات ، میلانات اور معاشرے کے تاثرات کی بیشمار رکاوٹیں ہیں اور اس کو اللہ کی رحمت اور مغفرت کی بےحد ضرورت ہے اور اللہ ہے بھی غفور و رحیم۔ اس عظیم تبصرے اور عقل و خرد کی تاروں پر آخری اور شدید ضرب سے اس سورة کا خاتمہ ہوتا ہے جس کا آغاز اس مضمون سے ہوا تھا کہ اے نبی تم اللہ کی اطاعت کرو اور کفار اور منافقین کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ اللہ کی وحی اور اشاروں کے مطابق کام کرو ، اللہ پر بھروسہ کرو ، اور اللہ کے سوا کسی قوت پر تکیہ نہ کرو۔ اس کے بعد اسلامی نطام حیات کے لیے ضروری قانون سازی اور مملکت اسلامی کو عملی ہدایات دی گئی تھیں اور حکم تھا کہ اللہ کے قانون اور اللہ کی حکمت عملی پر چلو۔ اس آخری ضرب اور تبصرے میں یہ بتایا گیا کہ جو ذمہ داری انسان پر عائد ہو ، اس کا ذرا احساس کرے۔ یہ کس قدر عظیم ذمہ داری تھی ؟ کہ پہاڑ بھی اس کے اٹھانے سے کانپ اٹھے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح یہ کائنات اللہ کے ناموس کی مطیع ہے انسان طوعا اللہ کے ناموس تک رسائل حاصل کرکے مطیع ہوجائے اور اللہ کی مشیت کی اطاعت کرے۔ اس تبصرے پر سورة ختم ہوتی ہے ۔ اس کا آغاز اور اختتام دونوں باہم متناسب پاس اور پوری سورة اس آغاز اور اختتام کے رخ پر رواں دواں ہے۔ نہایت توافق کے ساتھ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی ذات کریم اس کتاب کو بھیجنے والی ہے جو اس کائنات کو چلا رہی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ظلوم کا معنی یہ ہے کہ وہ اپنی جان پر ظلم کرنے والا ہے۔ اور جہول کا مطلب یہ ہے کہ اس نے جو امانت کی ادائیگی کا بوجھ اٹھایا وہ اس کے انجام کو نہیں جانتا تھا۔ یہ افراد کے اعتبار سے فرمایا کیونکہ انسانوں میں صالح بھی ہیں، علماء بھی ہیں عارفین بھی ہیں۔ اسی لیے مجموعہ افراد کا انجام بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا (لِّیُعَذِّبَ اللّٰہُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِکِیْنَ وَالْمُشْرِکٰتِ ) (تاکہ اللہ عذاب دے منافق مردوں کو اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو) (وَیَتُوْبَ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ) (اور تاکہ رحمت کے ساتھ اللہ متوجہ ہو مومن مردوں اور مومن عورتوں پر) یعنی انسان نے امانت کے بوجھ کو اٹھالیا، پھر اس ذمہ داری کو نباہنے والے بھی ہوئے اور خلاف ورزی کرنے والے بھی ہوئے جس کا انجام یہ ہوا کہ منافقوں اور مشرکوں کو عذاب ہو (اس میں (اَلْکَافِرِیْنَ وَالْکَافِرَاتِ ) کا ذکر نہیں ہے کیونکہ جب ان کافروں کا انجام عذاب ہے جو منافق ہیں یعنی زبان سے اسلام کا اقرار کرتے ہیں اور دل سے انکاری ہیں تو جو لوگ کھلے کافر ہوں گے وہ بطریق اولیٰ مستحق عذاب ہوں گے) اور ایمان والے مردوں اور عورتوں پر اللہ رحمت کے ساتھ توجہ فرمائے گا۔ اس میں (ویرحم اللّٰہ) کی بجائے (ویتوبُ ) فرمایا جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو شخص نافرمانی کے بعد توبہ کرلے گا وہ بھی رحمت اور مغفرت کا مستحق ہوگا۔ آخر میں جو (وَکَان اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا) فرمایا اس میں یہ بات بتادی کہ مغفرت فرمانا اور رحم فرمانا اللہ تعالیٰ کی صفات جلیلہ ہیں، کافر اور مشرک کی تو مغفرت نہیں جیسا کہ دوسری آیت میں بیان فرمایا ہے، دنیا میں تو سب ہی پر رحمت ہے اور آخرت میں صرف اہل ایمان پر رحمت ہوگی۔ تَمَّ تفسیر سورة الاحزاب، والحمد اللّٰہ الملک الوھاب، والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہ سیدنا من اوتی الکتاب، وعلیٰ الہ خیر آل واصحاب

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

71:۔ لیعذب الخ، لام برائے عاقبت ہے۔ منافق و مشرک انسان کے امانت میں خیانت کرنے اور مومنوں کے حق امانت ادا کرنے کا انجام یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ منافق اور مشرک مردوں اور عورتوں کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اور ایمان والے مردوں اور عورتوں کی توبہ قبول فرمائے گا۔ اور ان کے اعمال کا ان کو اجر وثواب عط کرے گا۔ کیونکہ وہ غفور رحیم ہے۔ اور اس کی بخشش و رحمت کا تقاضا یہی ہے۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔ سورة احزاب میں آیات توحید اور اس کی خصوصیات 1 ۔ یا ایہا النبی اتق اللہ ولا تطع الکفرین والمنفقین (رکوع 1 آپ کافروں اور منافقوں کی بات ہرگز نہ مانیں۔ اور ان کے مزعومہ معبودوں شفاعت قہری کی نفی کرتے رہیں۔ 2 ۔ وما جعل ازواجکم۔ تا۔ ذلکم قولکم بافواھکم۔ (رکوع 1) جن بیویوں سے تم نے ظہار کیا ہے، وہ تمہاری مائیں نہیں بن سکیں۔ اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹے حقیقی بیٹے بن سکتے ہیں۔ اسی طرح زبانی دعوی سے تمہارے مزعومہ معبود شفیع غالب نہیں بن سکتے۔ 3 اس سورت سے متبنی کی بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کو حرام سمجھنے کی جاہلانہ رسم کو موقوف کیا گیا ہے۔ سورة احزاب ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(73) اس ذمہ داری کو اٹھانے کا نتیجہ اور انجام یہ ہونا ہے کہ اللہ تعالیٰ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب کرے گا اور سزا دے گا اور ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں پر شفقت آمیز توجہ فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اپنی جان پر ترس نہ کھایا اور امانت کیا ہے پرائی چیز رکھنی اپنی خواہش کو روک کر آسمان و زمین میں اپنی خواہش کچھ نہیں یا ہے تو وہی جس پر قائم ہیں آسمان کی خواہش پھرنا زمین کی خواہش ٹھہرنا انسان میں خواہش اور ہے اور حکم خلاف اس کے اس پرائی چیز کو برخلاف اپنے جی کے تھامنا بڑا زور چاہتا ہے اس کا انجام یہ کہ منکروں کو قصور پر پکڑنا اور ماننے والوں کا قصور معاف کرنا اب بھی یہی حکم ہے کسی کی امانت کوئی جان کر ضائع کرے تو بدلا ہے اور بےاختیار ضائع ہو تو بدلا نہیں۔ (12) امانت سے مراد احکام شرعیہ اور احکام مکلفہ مراد ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں اس سے وہ طاعتیں مراد ہیں جو فرض ہیں یعنی فرائض الٰہی جو بندوں پر مقرر کئے گئے ہیں۔ مجاہد نے فرمایا فرائض اور ین کے حدود امانت ہیں۔ ابو العالمیہ نے فرمایا امانتیں وہ چیزیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے جن کے کرنے کا حکم دیا ہے اور جن کے کرنے سے منع فرمایا۔ یعنی اوامرونواہی، مختلف حضرات کے بہت سے اقوال ہیں اور بات یہ ہے کہ شرعی اوامرونواہی کو سب کو ہی امانت کا لفظ شامل ہے۔ عرض یعنی پیش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ امانت کو ظاہر کیا اور آسمان و زمین اور پہاڑوں کو ان کے فطری شعور کے مطابق امانت پوری ادا کرنیوالے اور خیانت کرنیوالوں کا انجام دکھایا وہ ڈر گئے اور ان کی ہمت نہیں پڑی اور اس شعوری اختیار کی بناء پر جو ان کو دیا گیا تھا انکار کردیا اور ان کو ایسا کرنے کا حق تھا اور ان کو اس پر کوئی ملامت نہیں کی گئی لیکن ان احکام کو انسان نے منظور کرلیا اور بار امانت اٹھا لیا۔ آسمان بار امانت نہ تو انست کشید قرعۂ فال بنام من دیوانہ زدند خلاصہ : یہ کہ مخلوق میں سے ہر ایک کو اس کی استعداد اور صلاحیت کے مطابق ذمہ داری سونپی گئی۔ چونکہ احکام شرعیہ یعنی امانت کی ذمہ داری قبول کرنے کو خود انسان آگے بڑھا۔ اس لئے فرمایا اور مبالغہ کے ساتھ فرمایا کہ وہ ظالم اور انجام کو نہ سوچنے والا ہے یعنی یا تو وہ بالفعل ظالم اور جاہل ہے اس میں صلاحیت ضرور ہے یا یہ مطلب ہے کہ امانت کی ذمہ داری لینے کو تو لے لی لیکن اب انسان اپنے اوپر بڑا ظلم کرنیوالا اور انجام سے بہت غافل ہے چناچہ اس امانت میں خیانت کا انجام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ منافقوں کو اور مشرکوں کو عذاب کرے گا اور یہ لوگ امانت میں خیانت کرنیوالے اور احکام الٰہیہ کو پش پشت ڈالنے والے ہیں۔ منافق خیانت کو چھپاتے ہیں اور مشرک علانیہ خیانت کرتے ہیں اور اسی حمل امانت کا انجام یہ بھی ہے کہ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں پر خاص توجہ مبذول فرماتا ہے اور اہل ایمان کی کوتاہیوں اور تقصیرات کو اپنی مہربانی سے درگزر فرما دیتا ہے۔ وہ غفور الرحیم ہے۔ حضرات صوفیہ رحمتہ اللہ علیہم اجمعین نے امانت کے تین درجے بتائے۔ اول احکام شرعیہ اور اوامرونواہی۔ دوم محبت و عشق اور انجذاب الٰہی، جیسا عارف شیرازی نے فرمایا : شب تاریک بیم موج گرداب جنیں ہائل کُجاد انند حال ماسبکسار ان ساحل ہا اس سے بڑھ کر کون سبکسار ساحل ہوسکتا ہے جس کو عنایت الٰہی نے خود ہی کھینچ لیا سوم فیض الٰہی بلاواسطہ یہ اس وقت حاصل ہوتا ہے جب حجابات وجودیہ نکل جائے انہی حجابات وجودیہ کا نام ظلوم و جہول ہے۔ امانت کا پہلا مرتبہ عوام کیلئے دوسرا خواص کیلئے اور تیسرا خص الخواص کیلئے۔ ازدم صبح ازل تا آخر شام ابد دوستیٔ و مہر بہ یک عہدویک میثاق بود الحمدللہ تم تفسیر سورة الاحزاب