Surat Saba

Surah: 34

Verse: 12

سورة سبأ

وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ غُدُوُّہَا شَہۡرٌ وَّ رَوَاحُہَا شَہۡرٌ ۚ وَ اَسَلۡنَا لَہٗ عَیۡنَ الۡقِطۡرِ ؕ وَ مِنَ الۡجِنِّ مَنۡ یَّعۡمَلُ بَیۡنَ یَدَیۡہِ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّزِغۡ مِنۡہُمۡ عَنۡ اَمۡرِنَا نُذِقۡہُ مِنۡ عَذَابِ السَّعِیۡرِ ﴿۱۲﴾

And to Solomon [We subjected] the wind - its morning [journey was that of] a month - and its afternoon [journey was that of] a month, and We made flow for him a spring of [liquid] copper. And among the jinn were those who worked for him by the permission of his Lord. And whoever deviated among them from Our command - We will make him taste of the punishment of the Blaze.

اور ہم نے سلیمان کے لئے ہوا کو مسخر کر دیا کہ صبح کی منزل اس کی مہینہ بھر کی ہوتی تھی اور شام کی منزل بھی اور ہم نے ان کے لئے تانبے کا چشمہ بہا دیا اور اس کے رب کے حکم سے بعض جنات اس کی ماتحتی میں اس کے سامنے کام کرتے تھے اور ان میں سے جو بھی ہمارے حکم سے سرتابی کرے ہم اسے بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب کا مزہ چکھائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Favors which Allah bestowed upon Suleiman Allah says: وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ ... And to Suleiman (We subjected) the wind, its morning was a month's (journey), and its afternoon was a month's (journey). Having mentioned the blessings with which He favored Dawud, Allah follows this by mentioning what He gave to Dawud's son Suleiman (... Solomon), may peace be upon them both. He subjugated the wind to him, so that it would carry his carpet one way for a month, then back again the next month. Al-Hasan Al-Basri said, "He set out from Damascus in the morning, landed in Istakhar where he ate a meal, then flew on from Istakhar and spent the night in Kabil." Between Damascus and Istakhar is an entire month's travel for a swift rider, and between Istakhar and Kabul is an entire month's travel for a swift rider. ... وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ .... And We caused a fount Qitr to flow for him, Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, Mujahid, Ikrimah, Ata' Al-Khurasani, Qatadah, As-Suddi, Malik from Zayd bin Aslam, Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam and others said, "Qitr means copper." Qatadah said, "It was in Yemen." Allah brought forth all the things that people make for Suleiman, peace be upon him. .. وَمِنَ الْجِنِّ مَن يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ ... and there were Jinn that worked in front of him, by the leave of his Lord. means, `We subjugated the Jinn to work in front of him,' by the permission of his Lord, i.e., by Allah's decree and subjugation, they built whatever constructions he wanted, and did other work as well. ... وَمَن يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا ... And whosoever of them turned aside from Our command, means, whoever among them tried to rebel and disobey, ... نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ We shall cause him to taste of the torment of the blazing Fire. which means, burning.   Show more

اللہ کی نعمتیں اور سلیمان علیہ السلام ۔ حضرت داؤد علیہ السلام پر جو نعمتیں نازل فرمائی تھیں ان کو بیان کرکے پھر آپ کے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام پر جو نعمتیں نازل فرمائی تھیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ان کیلئے ہوا کو تابع فرمان بنادیا ۔ مہینے بھر کی راہ صبح ہی صبح ہو جاتی اور اتنی ہی مسافت کا سف... ر شام کو ہو جاتا ۔ مثلاً دمشق سے تخت مع فوج و اسباب کے اڑایا اور تھوڑی دیر میں اصطخر پہنچادیا جو تیز سوار کیلئے بھی مہینے بھر کا سفر تھا ۔ اسی طرح شام کو وہاں سے تخت اڑا اور شام ہی کو کا بل پہنچ گیا ۔ تانبے کو بطور پانی کرکے اللہ تعالیٰ نے اس کے چشمے بہا دیئے تھے کہ جس کام میں جس طرح جس وقت لانا چاہیں تو بلاوقت لے لیا کریں ۔ یہ تانبا انہیں کے وقت سے کام میں آ رہا ہے ۔ سدی کا قول ہے کہ تین دن تک یہ بہتا رہا ۔ جنات کو ان کی ماتحتی میں کردیا جو وہ چاہتے اپنے سامنے ان سے کام لیتے ۔ ان میں سے جو جن احکام سلیمان کی تعمیل سے جی چراتا فوراً آگ سے جلا دیا جاتا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنات کی تین قسمیں ہیں ایک تو پردار ہے ۔ دوسری قسم سانپ اور کتے ہیں تیسری قسم وہ ہے جو سواریوں پر سوار ہوتے ہیں اترتے ہیں وغیرہ ۔ یہ حدیث بہت غریب ہے ۔ ابن نعم سے روایت ہے کہ جنات کی تین قسمیں ہیں ایک کیلئے تو عذاب ثواب ہے ایک آسمان و زمین میں اڑتے رہتے ہیں ایک سانپ کتے ہیں ۔ انسانوں کی بھی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے عرش تلے سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوائے اور کوئی سایہ نہ ہوگا ۔ اور ایک قسم مثل چوپایوں کے ہے بلکہ ان سے بھی بدتر ۔ اور تیسری قسم انسانی صورت میں شیطانی دل رکھنے والے ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں جن ابلیس کی اولاد میں سے ہیں اور انسان حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں دونوں میں مومن بھی ہیں اور کافر بھی ۔ عذاب و ثواب میں دونوں شریک ہیں دونوں کے ایماندار ولی اللہ ہیں اور دونوں کے بے ایمان شیطان ہیں ، محاریب کہتے ہیں بہترین عمارتوں کو گھر کے بہترین حصے کو مجلس کی صدارت کی جگہ کو ۔ بقول مجاہد ان عمارتوں کو جو محلات سے کم درجے کی ہوں ۔ ضحاک فرماتے ہیں مسجدوں کو ۔ قتادہ کہتے ہیں بڑے بڑے محل اور مسجدوں کو ۔ ابن زید کہتے ہیں گھروں کو ۔ تماثیل تصویروں کو کہتے ہیں یہ تانبے کی تھیں ۔ بقول قتادہ وہ مٹی اور شیشے کی تھیں ۔ جواب جمع ہے جابیہ کی ۔ جابیہ اس حوض کو کہتے ہیں جس میں پانی آتا رہتا ہو ۔ یہ مثل تالاب کے تھیں بہت بڑے بڑے لگن تھے تاکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی بہت بڑی فوج کیلئے بہت سا کھانا بیک وقت تیار ہوسکے اور ان کے سامنے لایا جاسکے ۔ اور جمی ہوئی دیگیں جو بوجہ اپنی بڑائی کے اور بھاری پن کے ادھر سے ادھر نہیں کی جاسکتی تھیں ۔ ان سے اللہ نے فرما دیا تھا کہ دین و دنیا کی جو نعمتیں میں نے تمہیں دے رکھی ہیں ان پر میرا شکر کرو ۔ شکر مصدر ہے بغیر فعل کے یا مفعول لہ ہے اور دونوں تقدیروں پر اس میں دلالت ہے کہ شکر جس طرح قول اور ارادہ سے ہوتا ہے فعل سے بھی ہوتا ہے جیسے شاعر کا قول ہے افادتکم النعماء منی ثلاثہ یدی ولسانی الضمیر المحجیا اس میں بھی شاعر نعمتوں کا شکر تینوں طرح مانتا ہے فعل سے ، زبان سے اور دل سے ۔ حضرت عبدالرحمن سلمی سے مروی ہے کہ نماز بھی شکر ہے اور روزہ بھی شکر ہے اور بھلا عمل جسے تو اللہ کیلئے کرے ، شکر ہے اور سب سے افضل شکر حمد ہے ۔ محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں شکر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اور نیک عمل ہے ۔ آل داؤد دونوں طرح کا شکر ادا کرتے تھے قولاً بھی اور فعلاً بھی ۔ ثابت بنانی فرماتے ہیں حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی اہل و عیال اولاد اور عورتوں پر اس طرح اوقات کی پابندی کے ساتھ نفل نماز تقسیم کی تھی کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی نماز میں مشغول نظر آتا ۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کو سب سے زیادہ پسند حضرت داؤد علیہ السلام کی نماز تھی ۔ آپ آدھی رات سوتے تہائی رات قیام کرتے اور چھٹا حصہ سو رہتے ۔ اسی طرح سب روزوں سے زیادہ محبوب روزے بھی اللہ تعالیٰ کو آپ ہی کے تھے آپ ایک دن روزے سے رہتے اور ایک دن بےروزہ ایک خوبی آپ میں یہ تھی کہ دشمن سے جہاد کے وقت منہ نہ پھیرتے ۔ ابن ماجہ میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نے آپ سے فرمایا کہ پیارے بچے رات کو بہت نہ سویا کرو ۔ رات کی زیادہ نیند انسان کو قیامت کے دن فقیر بنا دیتی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں اس موقعہ پر حضرت داؤد علیہ السلام کی ایک مطول حدیث مروی ہے ۔ اسی کتاب میں یہ بھی مروی ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے جناب باری میں عرض کیا کہ الہ العالمین تیرا شکر کیسے ادا ہوگا ؟ شکر گزاری خود تیری ایک نعمت ہے جواب ملا داؤد اب تو نے میری شکر گزاری ادا کرلی جبکہ تونے اسے جان لیا کہ کل نعمتیں میری ہی طرف سے ہیں ۔ پھر ایک واقعے کی خبر دی جاتی ہے کہ بندوں میں سے شکر گزار بندے بہت ہی کم ہیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 یعنی حضرت سلیمان (علیہ السلام) مع اعیان سلطنت اور لشکر تخت پر بیٹھ جاتے اور جدھر آپ کا حکم ہوتا کہ ہوائیں اسے اتنی رفتار سے لے جاتیں کہ ایک مہینے جتنی مسافت صبح سے دوپہر تک کی ایک منزل میں طے ہوجاتی اور پھر اسی طرح دوپہر سے رات تک ایک مہینے جتنی مسافت طے ہوجاتی اس طرح ایک دن میں دو مہینوں کی ... مسافت طے ہوجاتی۔ 12۔ 2 یعنی جس طرح حضرت داؤد (علیہ السلام) کے لئے لوہا نرم کردیا تھا، حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے تانبے کا چشمہ ہم نے جاری کردیا تاکہ تانبے کی دھات سے وہ جو چاہیں بنائیں۔ 12۔ 3 اکثر مفسرین کے نزدیک یہ سزا قیامت والے دن دی جائے گی۔ لیکن بعض کے نزدیک یہ دنیاوی سزا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتہ مقرر فرما دیا تھا جس کے ہاتھ میں آگ کی لاٹھی تھی۔ جو جن حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حکم سے سرتابی کرتا، فرشتہ وہ لاٹھی اسے مارتا، جس سے وہ جل کر بھسم ہوجاتا (فتح القدیر   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ١٨] تشریح کے لئے دیکھئے ( سورة انبیاء کی آیت نمبر ٨١ کا حاشیہ نمبر ٦٩) [ ١٩] اس کی دو توجیہات بیان کی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کے عہد حکومت میں یمن میں تانبے کا ایک پگھلا ہوا چشمہ نکل آیا تھا اور دوسری یہ کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کے والد داود کو لوہا پگھلانے کا فن عطا فرمایا تھا۔ اور آپ سے اس سے...  زرہیں بنایا کرتے تھے، اسی طرح حضرت سلیمان کو تانبا پگھلانے کا فن عطا فرمایا تھا۔ آپ وسیع پیمانے پر تانبا پگھلاتے۔ پھر اس کو سانچوں میں ڈال کر خبات بڑے بڑے برتن، دیگیں اور لگن وغیرہ تیار کرتے تھے۔ جن میں ایک لشکر کا کھانا پکتا اور کھلایا جاتا، یہ تو سرکاری ضروریات تھیں۔ علاوہ ازیں آپ تانبے کی اشیاء عام لوگوں کی ضروریات کے لئے بھی بناتے تھے۔ [ ٢٠] اس مقام پر جن کا لفظ آیا ہے۔ جبکہ سورة انبیاء کی آیت نمبر ٨٢ میں انہی معنوں میں شیاطین کا لفظ آیا ہے۔ بات ایک ہی ہے جن کا لفظ اسم جنس ہے۔ جبکہ شیاطین کا اطلاق صرف سرکش اور متکبر قسم کے جنوں پر ہوتا ہے۔ (اور شیاطین انسانوں میں سے بھی ہوسکتے ہیں) یہ جن معمولی قلیوں، خدمتگاروں اور مزدوروں کی طرح آپ کے کام کرتے اور آپ کے حکم پر چلتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جنوں کو حضرت سلیمان کا تابع بنا رکھا تھا اور وہ آپ کی اطاعت پر مجبور تھے۔ اگر وہ ذرا بھی سرکش کرتے تو آگ میں پھونک دیئے جاتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ان جنوں پر اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ مقرر کردیا تھا۔ جس کے ہاتھ میں آگ کا کوڑا ہوتا۔ جو کوئی جن حضرت سلیمان کی نافرمانی کرتا یہ فرشتہ اس کو کوڑا مار کر جلا دیتا تھا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ ۔۔ : اللہ تعالیٰ کی طرف انابت کرنے والے بندوں میں سے داؤد (علیہ السلام) کے بعد ان کے فرزند ارجمند سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ہوا کو مسخر کردیا۔ وہ ایک مہینے کی راہ دن کے پہلے پہر اور ایک مہینے کی راہ دن کے پچھلے پہر طے کرلی... تی تھی۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس زمانے میں بحری جہاز موافق ہواؤں کے ساتھ سفر کرتے تھے۔ آیت میں ” غُدُوٌّ“ سے مراد جانا ہے اور ” رَوَاحٌ“ سے مراد واپسی ہے اور مطلب یہ ہے کہ ایک ماہ تک موافق ہوا سلیمان (علیہ السلام) کے پایۂ تخت سے مشرق کی طرف چلتی تھی، جس کے ذریعے سے ان کے بحری جہاز تجارتی اور دوسرے مقاصد کے لیے مشرق کی طرف روانہ ہوتے تھے، پھر ایک ماہ کے لیے واپسی کے سفر کے لیے مغرب کی طرف چلتی تھی جس سے وہ جہاز واپس فلسطین کی طرف آجاتے اور یہ مطلب ہے اس آیت کا : (تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖٓ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا ۭ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عٰلِمِيْنَ ) [ الأنبیاء : ٨١ ] ” اس کے حکم سے اس زمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکت رکھی اور ہم ہر چیز کو جاننے والے تھے۔ “ یہ اور اس جیسی تفسیروں کی حقیقت کے لیے دیکھیے سورة انبیاء (٨١) ۔ ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ ان میں اس شخصیت کو عطا ہونے والی چیزوں کا ذکر ہے، جس نے یہ دعا کی تھی : (قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ ) [ صٓ : ٣٥ ] ” اے میرے رب ! مجھے بخش دے اور مجھے ایسی بادشاہی عطا فرماجو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو۔ “ اور جس کی فوجوں کے ایک صاحب علم نے یمن سے آنکھ جھپکنے میں ملکہ سبا کا تخت لا حاضر کیا تھا۔ موجودہ زمانے میں جتنی ترقی ہوئی ہے، یا آئندہ ہوگی سلیمان (علیہ السلام) کو عطا کردہ قوتوں کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی، پھر اگر ہوا ان کے حکم سے انھیں ایک ماہ کا سفر پہلے پہر اور ایک ماہ کا سفر پچھلے پہر میں طے کروا دے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ رہی اس کی کیفیت کہ ہوا انھیں یہ فاصلہ کیسے طے کرواتی تھی تو وہ اللہ تعالیٰ نے بیان نہیں فرمائی اور جو بات معلوم نہ ہو اس کے متعلق تکلّف نہیں کرنا چاہیے۔ سورة ص میں فرمایا : (قُلْ مَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ ) [ ص : ٨٦ ] ” کہہ دے میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں سے ہوں۔ “ مزید دیکھیے سورة انبیاء (٨١) ۔ وَاَسَلْنَا لَهٗ عَيْنَ الْقِطْرِ : ” سَالَ یَسِیْلُ سَیْلًا “ (ض) بہنا۔ ” أَسَالَ یُسِیْلُ إِسَالَۃً “ (افعال) بہانا، جاری کرنا۔ ” اَسَلْنَا “ باب افعال کے ماضی معلوم سے جمع متکلم کا صیغہ ہے۔ داؤد (علیہ السلام) کے لیے لوہا نرم کردیا، سلیمان (علیہ السلام) کو وہ نعمت وراثت میں ملی، مزید ان کے لیے تانبے کا چشمہ جاری کردیا، تاکہ وہ انھیں وافر مقدار میں دستیاب رہے اور ان کے زیر فرمان انسان اور جنّ اس سے ان کی اور ان کی افواج کی ضرورت کی ہر چیز، مثلاً ہر قسم کے چھوٹے بڑے برتن اور گھروں کے اندر اور باہر استعمال ہونے والا سامان تیار کرتے رہیں۔ ایک اخبار کے مطابق اب بھی اسرائیل میں یہودی تانبے کے اس مقام کی تلاش میں ہیں۔ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَّعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِاِذْنِ رَبِّهٖ : سورة انبیاء میں ان جنّات کا تذکرہ ” شیاطین “ کے لفظ سے کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ سورة انبیاء میں مذکورہ شیاطین سے مراد انسانی شیاطین نہیں، بلکہ جنّی شیاطین ہیں۔ وہ جنّات جو کام کرتے تھے ان کا تذکرہ اس مقام کے علاوہ سورة انبیاء (٨٢) اور سورة ص (٣٧، ٣٨) میں ملاحظہ کریں۔ وَمَنْ يَّزِغْ مِنْهُمْ عَنْ اَمْرِنَا ۔۔ : اس کی تفسیر سورة انبیاء (٨٢) میں ملاحظہ کریں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

We can now turn to verse 12: وَلِسُلَيْمَانَ الرِّ‌يحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ‌ وَرَ‌وَاحُهَا شَهْرٌ‌ (And for Sulayman: (We subjugated) the wind; its journey in the morning was (equal to the journey of) one month, and its journey in the afternoon was (equal to the journey) of another month). After having mentioned the blessings bestowed upon Sayyidna Dawud (علیہ السلام) ، the text refers to Sayyidna Su... layman (علیہ السلام) . It was said that the way Allah Ta’ ala had subjugated mountains and birds for Sayyidna Dawud (علیہ السلام) ، similarly, the Wind was subjugated for Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) . It would take the throne of Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) on which he was seated with a large number of his courtiers to wherever he wished always under his command. Early exegete, Hasan al-Basri (رح) has said that the miracle of the subjugation of the Wind was bestowed upon Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) in return for what he had done once while inspecting his stable of horses. So engrossed he became in this activity that he missed the Salah of al-&asr. Since the horses became the cause of this negligence, Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) decided to eliminate the very cause of negligence. He sacrificed these horses by slaughtering them (since the sacrifice of horses was also permissible in the law of Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) very much like the cows and oxen) and since these horses were owned by Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) the question of bringing loss to the Baytul-Mal simply does not arise, and the doubt of wasting personal property because of the sacrifice also does not hold good. Full relevant details about it will appear in the commentary on Surah Sad (38:30-40, appearing later in this very Volume VII). In short, because Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) sacrificed the horses he rode, Allah Ta’ ala blessed him with a better ride. (Qurtubi) In the other part of the verse taken up immediately earlier: غُدُوُّهَا شَهْرٌ‌ وَرَ‌وَاحُهَا شَهْرٌ‌ (34:12), the word: غُدُوُّ (ghuduww) means moving in the morning and the word: رَ‌وَاحُ (rawah) means moving in the evening. Thus, the sense of the verse comes to be that this throne of Sulayman (علیہ السلام) perched on the wings of the wind from the morning to the afternoon would cover the travel distance of one month, and then, from early evening to late night, that of another one month. In this way, it used to cover the travel distance of two months in one full day. According to Hasan al-Basri (رح) ، Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) would leave Baytul-Maqdis in the morning, reach Istakhr by afternoon and had his lunch there. Then he would leave after Zuhr and by the time he got to Kabul, it would be night. The travel distance between Baytul-Maqdis and Istakhr is something a swift rider could cover in a month. Similarly, the travel distance from Istakhr to Kabul is also what a swift rider could cover in a month. (Ibn Kathir) To explain the next sentence of verse 12: وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ‌(And We caused a stream of copper to flow for him), it can be said that Allah Ta’ ala made a metal as hard as the copper turn into a liquid flowing like water, even gushing forth like a stream of water, and was not hot either – so that, utensils and other things of need could be easily shaped from of it. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) said that this stream started flowing as far as it would take a travel of three days and three nights to cover that distance. And this was located in the land of Yemen. Then, in the narration of Mujahid, it appears that this stream started from San&a& in Yemen and continued to flow like a stream of water up to a travel distance of three days and three nights. Famous grammarian, Khalil Nahwi said that the word: قِطر (qitr) mentioned in this verse means molten copper. (Qurtubi) The next sentence: وَمِنَ الْجِنِّ مَن يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ (And there were some Jinns who worked before him by the leave of his Lord - 34:12) is also connected with the ellipsis (مَحذوف : mahdhuf) of سَخَّرنَا (sakhkharna: We subjugated). The sense is that &We subjugated for Sulayman (علیہ السلام) such people from among the Jinns who would do the chores he assigned to them before him - as commanded by their Lord. The addition of the expression: بَيْنَ يَدَيْهِ (baiyna yadaiyhi: before him) may, perhaps, be there to make it clear that the subjugation of Jinns was not of the kind mentioned in the Qur&an where the text talks about harnessing the Moon and the Sun into the service of human beings. Instead, this subjugation was in the nature of mastery over the Jinns who worked before him like vassals busy doing chores assigned to them. The matter of the subjugation of Jinns As for the subjugation of Jinns (for Sulayman علیہ السلام) mentioned at this place, it was by the command of Allah Ta’ ala and there can be no doubt about its possibility. Similarly, what has appeared in some narrations about some noble Sahabah that they had Jinns made subservient to them, it was the same kind of subjugation by the leave of Allah with which they were blessed as a Karamah. It was not based on any act or recitation (Wazifah) on their part - as mentioned by &Allamah Sharbini in Tafsir As-sirajul-Munir under his commentary on this verse. He has cited several events relating to Sayyidna Abu Hurairah, &Ubaiyy Ibn Ka&b, Mu` aclh Ibn Jabal, ` Umar Ibn al-Khattab, Abu Ayyub al-Ansari, Zayd Ibn Thabit and others (رض) which prove that the Jinns used to be at their service. But, it was nothing but the grace and mercy of Allah Ta’ ala that, like Sayyidna Sulayman علیہ السلام ، He made some Jinns subservient to these blessed souls. But, the particular &subjugation& through incantations and correlated sets of self-invented actions popular among عَامِل &amils or practitioners of this line of activity is something one should take with a pinch of salt and first find out the Islamic rule of guidance in this matter. Qadi Badruddin Shibli al-Hanafi who is one of the scholars of the eighth century has written a book, &Akam- ul-Marjan fi Ahkam- il-Jann& on this subject. According to him, it is Sayyidna Sulayman علیہ السلام who has been the first one to have the Jinn into his service with the leave of Allah and as a miracle. And the people of Persia attribute this to Jamshaid Ibn Onjahan as being served by the Jinns. Similarly, there are events on record about &Asif Ibn Barkhiya and others who were connected with Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) which indicate that they too had Jinns subservient to them. Then, the most famous among Muslims are Abu Nasr Ahmad Ibn Hilal al-Bukail and Hilal Ibn Wasif attributed to whom there are many unusual events of the subservience of the Jinns to them. Hilal Ibn Wasif has written a full book in which he has put together what the Jinns said to Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) and the pledges Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) took from them. Qadi Badruddin has written in this very book that generally the &amils who do their thing to subjugate the Jinns use shaitanic words of infidelity (Kufr) and sorcery (Sehr) liked by infidel Jinns and shaitans. The secret of why they would accept to become their vassals is nothing but that they stand placated by their deeds soaked in kufr and shirk and go on to do a few jobs for them by way of bribe. This is the reason why in doing things of this nature, they would write the Holy Qur&an with blood and other impurities. Hence, the disbelieving Jinns and shaitans, pleased with their evil offering, would do what they want them to do. However, about a person named Ibn al-Imam, he has written that he lived during the period of Khalifah Mu&tadid bil-lah and he had subjugated the Jinns through the effective use of Divine Names. As such, there was nothing in his recitations that would go counter to the Shari` ah. (&Akam-ul-Marjan, p. 100) In short, if the Jinns get subjugated for someone, without his own intention or motivated action, solely being something from Allah, as it stands proved in the case of Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) and some noble Sahabah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، then, that is included under Mu&jizah (miracle shown at the hands of a prophet of Allah) or karamah (working of wonder in the nature of a miracle shown at the hands of men of Allah). And such subservience when achieved through bland pragmatism of formula incantations (` amaliyat) would be judged on the basis of its active content. If it contains words of Kufr, or deeds of kufr, it will be nothing but kufr (disbelief, infidelity) - and if it is composed of disobedience or sin only, then, it is a major sin. Then, there are strange words used in such formula invocations and actions. Their meanings are not known. These too have been classed by Muslim jurists as impermissible on the basis that the possibility of such words being loaded with words that contain kufr, shirk and sinfulness cannot be ruled out. In &Akam-ul-Marjan, Qadi Badruddin has written that the use of words the meanings of which are not known is also impermissible. And if this act of subjugation be through Divine Names or Qur&anic Verses and there also be no such sin like the use of impurities in it, then, it is permissible with the condition that the aim thereby should be to remain personally safe against harm caused by the Jinns, or save other Muslims from it. In other words, the aim should be to remove harm, and not to secure benefits, because if it is adopted as a profession to earn money, it amounts to the enslavement of someone created free and to exacting forced labour without remuneration, hence prohibited (haram). Allah knows best. The last sentence of verse 12 is: وَمَن يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِ‌نَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ‌ (And whoever of them would deviate from Our command, We would make him taste the punishment of the blazing fire.) Most commentators have taken this to mean the punishment of Jahannam (Hell) in the hereafter. Some others have said that, in this world as well, Allah Ta’ ala had set an angel upon them who, in case they fell short in obeying Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) ، would beat them with burning lashes and force them to work. (Qurtubi) The doubt that the Jinns are made of fire after all and the fire would hardly affect them is not worth entertaining here. The reason is that the Jinns are made of fire in the same sense as man is made of dust. It means that the preponderant element of man is dust. Still if man were to be hit by a clod of clay, or stone, it would hurt him. Similarly, the preponderant element of the Jinns is fire. But, pure and potent fire would burn them too.  Show more

(آیت) ولسلیمٰن الریح غدوھا شہر و رواحھا شہر، حضرت داؤد (علیہ السلام) کے خصوصی فضائل و انعامات کے ذکر کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا اور ارشاد ہوا کہ جس طرح حضرت داؤد (علیہ السلام) کے لئے اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کردیا تھا، اسی طرح سلیمان (علیہ السلام) کے لئے ہوا کو م... سخر فرما دیا تھا، اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تخت کو جس پر وہ مع اپنے اہل دربار کے بڑی تعداد میں سوار ہوتے تھے، ہوا ان کے حکم کے تابع جہاں وہ چاہتے لے جاتی تھی۔ حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ تسخیر ہوا کا معجزہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اس عمل کے صلہ میں عطا ہوا تھا کہ ایک روز وہ اپنے گھوڑوں کے معائنہ میں مشغول تھے، اس میں ایسی مشغولیت ہوئی کہ عصر کی نماز قضاء ہوگئی چونکہ گھوڑے اس غفلت کا سبب ہوئے تھے، اسی سبب غفلت کو ختم کرنے کے لئے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ان گھوڑوں کو ذبح کر کے قربان کردیا (کیونکہ سلیمان (علیہ السلام) کی شریعت میں گائے بیل کی طرح گھوڑے کی قربانی بھی جائز تھی) اور یہ گھوڑے خود حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ملک میں تھے، اس لئے بیت المال کے نقصان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور قربانی کی وجہ سے اپنا مال ضائع کرنے کا اشکال بھی نہیں ہوتا۔ اس کی پوری تفصیل سورة ص میں آئے گی، چونکہ سلیمان (علیہ السلام) نے اپنی سواری کے جانور قربان کردیئے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے بہتر سواری عطا فرما دی۔ (قرطبی) (آیت) غدوھا شہر ورواحھا شہر، غدو کے معنی صبح کو چلنے اور رواح کے معنی شام کو چلنے کے ہیں۔ مطلب آیت کا یہ ہوا کہ صبح سے دوپہر تک یہ تخت سلیمانی ہوا کے کاندھوں پر ایک مہینہ کی مسافت طے کرلیتا تھا، اور پھر شام سے رات تک ایک مہینہ کی، اس طرح دو مہینے کی مسافت ایک دن میں طے کرتا تھا۔ حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) صبح کو بیت المقدس سے روانہ ہوتے تو دوپہر کو اصطخر میں جا کر قیام فرماتے اور دوپہر کا کھانا کھاتے تھے، پھر یہاں سے بعد ظہر واپس چلتے تو کا بل میں جا کر رات ہوتی تھی، اور بیت المقدس اور اصطخر کے درمیان اتنی مسافت ہے جو تیز سواری پر چلنے والا ایک ماہ میں طے کرسکتا ہے، اسی طرح اصطخر سے کا بل تک کی مسافت بھی تیز سواری پر چلنے والا ایک ماہ میں طے کرسکتا ہے۔ (ابن کثیر) (آیت) واسلنا لہ عین القطر، یعنی بہا دیا ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کے لئے چشمہ تانبے کا، یعنی تانبے جیسی سخت دھات کو اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کے لئے پانی کی طرح بہنے والا سیال بنادیا، جو پانی کے چشمہ کی طرح جاری تھا اور گرم بھی نہ تھا، تاکہ آسانی کے ساتھ اس کے برتن اور دوسری ضروریات بنا سکیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ یہ چشمہ اتنی دور تک جاری ہوا جس کی مسافت تین دن تین رات میں طے ہو سکے، اور یہ ارض یمن میں تھا۔ اور مجاہد کی روایت میں ہے کہ یہ چشمہ صنعاء یمن سے شروع ہوا اور تین دن تین رات کی مسافت تک پانی کے چشمہ کی طرح جاری رہا، خلیل نحوی نے فرمایا کہ لفظ قطر جو اس آیت میں آیا ہے اس سے مراد پگھلا ہوا تانبا ہے۔ (قرطبی) ومن الجن من یعمل بین یدیہ، یہ جملہ بھی سخرنا محذوف سے متعلق ہے معنی یہ ہیں کہ مسخر کردیا ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کے لئے جنات میں سے ایسے لوگوں کو جو ان کے سامنے ان کے کام انجام دیں اپنے رب کے حکم کے موافق، بین یدیہ ” یعنی ان کے سامنے “ کے الفاظ بڑھانے سے شاید یہ بتلانا ہو کہ سلیمان (علیہ السلام) کے لئے جنات کی تسخیر اس طرح کی نہیں جس طرح چاند سورج وغیرہ کو انسان کے لئے مسخر کرنے کا ارشاد قرآن میں آیا ہے، بلکہ یہ تسخیر ایسی تھی کہ جنات نوکروں چاکروں کی طرح ان کے سامنے مفوضہ خدمات میں لگے رہتے تھے۔ تسخیر جنات کا مسئلہ : جنات کی تسخیر جو اس جگہ مذکور ہے وہ تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے، اس میں تو کوئی سوال ہی نہیں ہوسکتا اور بعض صحابہ کرام کے متعلق جو روایات میں آیا ہے کہ جنات ان کے مسخر اور تابع تھے، تو یہ تسخیر بھی اسی قسم کی تسخیر باذن اللہ تھی جو بطور کرامت ان حضرات کو عطا کی گئی تھی اس میں کسی عمل و وظیفہ کا کوئی دخل نہیں تھا، جیسا کہ علامہ شربینی نے تفسیر سراج المنیر میں اس آیت کے تحت میں حضرت ابوہریرہ، ابی بن کعب، معاذ بن جبل، عمر بن خطاب، ابو ایوب انصاری، زید بن ثابت وغیرہ (رض) کے متعدد واقعات ایسے لکھے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جنات ان کی اطاعت و خدمت کرتے تھے۔ مگر یہ سب محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تھا کہ سلیمان (علیہ السلام) کی طرح کچھ جنات کو ان حضرات کا مسخر بنادیا، لیکن جو تسخیر عملیات کے ذریعہ عاملوں میں مشہور ہے وہ قابل غور ہے، کہ شرعاً اس کا کیا حکم ہے ؟ قاضی بدر الدین شبلی حنفی جو آٹھویں صدی کے علماء میں سے ہیں انہوں نے جنات کے احکام پر ایک مستقل کتاب ” آکام المرجان فی احکام الجان “ لکھی ہے۔ اس میں بیان کیا ہے کہ جنات سے خدمت لینے کا کام سب سے پہلے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے باذن اللہ بطور معجزہ کے کیا ہے، اور اہل فارس جمشید بن اونجہان کی طرف منسوب کرتے ہیں، کہ انہوں نے جنات سے خدمت لی ہے۔ اسی طرح آصف بن برخیا وغیرہ جن کا تعلق حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے رہا ہے، ان کے متعلق بھی است خدام جن کے واقعات مشہور ہیں، اور مسلمانوں میں سب سے زیادہ شہرت ابو نصر احمد بن ہلال البکیل اور ہلال بن وصیف کی ہے جن سے است خدام جنات کے عجیب عجیب واقعات مذکور ہیں۔ ہلال بن وصیف نے ایک مستقل کتاب میں جنات کے کلمات جو انہوں نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے پیش کئے اور جو عہد و میثاق سلیمان (علیہ السلام) نے ان سے لئے ان کو جمع کردیا ہے۔ قاضی بدرالدین نے اسی کتاب میں لکھا ہے کہ عام طور سے تسخیر جنات کا عمل کرنیوالے عاملین کلمات کفریہ شیطانیہ سے اور سحر سے کام لیتے ہیں، جن کو کافر جنات و شیاطین پسند کرتے ہیں، اور ان کے مسخر و تابع ہونے کا راز صرف یہ ہے کہ وہ ان کے اعمال کفریہ شرکیہ سے خوش ہو کر بطور رشوت کے ان کے کچھ کام بھی کردیتے ہیں، اور اسی لئے بکثرت ان عملیات میں قرآن کریم کو نجاست یا خون وغیرہ سے لکھتے ہیں جس سے کفار جن اور شیاطین راضی ہو کر ان کے کام کردیتے ہیں۔ البتہ ایک شخص ابن الامام کے متعلق لکھا ہے کہ یہ خلیفہ معتضد باللہ کے زمانہ میں تھا، جنات کو اس نے اسماء آلہیہ کے ذریعے سے مسخر کیا تھا، اس میں کوئی بات خلاف شرع نہیں تھی۔ (آکام المرجان، ص 100) ۔ خلاصہ یہ ہے کہ جنات کی تسخیر اگر کسی کے لئے بغیر قصد و عمل کے محض منجانب اللہ ہوجائے جیسا کہ سلیمان (علیہ السلام) اور بعض صحابہ کرام کے متعلق ثابت ہے وہ تو معجزہ یا کرامت میں داخل ہے، اور جو تسخیر عملیات کے ذریعہ کی جاتی ہے اس میں اگر کلمات کفریہ بااعمال کفریہ ہوں تو کفر، اور صرف معصیت پر مشتمل ہوں تو گناہ کبیرہ ہے، اور جن عملیات میں ایسے الفاظ استعمال کئے جائیں جن کے معنی معلوم نہیں ان کو بھی فقہاء نے اس بنا پر ناجائز کہا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ان کلمات میں کفر و شرک یا معصیت پر مشتمل کلمات ہوں، قاضی بدر الدین نے ” آکام المرجان “ میں ایسے نامعلوم المعنی کلمات کے استعمال کو بھی ناجائز لکھا ہے۔ اور اگر یہ عمل تسخیر اسماء آلہیہ یا آیات قرآنیہ کے ذریعہ ہو اور اس میں نجاست وغیرہ کے استعمال جیسی کوئی معصیت بھی نہ ہو، تو وہ اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ مقصود اس سے جنات کی ایذاء سے خود بچنا یا دوسرے مسلمانوں کو بچانا ہو، یعنی دفع مضرت مقصود ہو، جلب منفعت مقصود نہ ہو۔ کیونکہ اگر اس کو کسب مال کا پیشہ بنایا گیا تو اس لئے جائز نہیں کہ اس میں استرقاق حر یعنی آزاد کو اپنا غلام بنانا اور بلاحق شرعی اس سے بیگار لینا ہے، جو حرام ہے۔ واللہ اعلم۔ (آیت) ومن یزغ منہم عن امرنا نذقہ من عذاب السعیر، ” یعنی ہم نے جنات کو سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت و اطاعت کا جو حکم دیا ہے اگر ان میں کوئی فرد اس اطاعت سے انحراف کرے گا تو اس کو آگ کا عذاب دیا جائے گا “ اکثر مفسرین نے اس سے آخرت کا عذاب جہنم مراد لیا ہے، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک فرشتہ کو مسلط کردیا تھا کہ جو جن سلیمان (علیہ السلام) کی اطاعت میں کوتاہی کرے اس کو آتشین کوڑے مار کر کام کرنے پر مجبور کرتا تھا (قرطبی) اور اس پر یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ جنات تو خود آگ سے بنے ہوئے ہیں، آگ ان پر کیا اثر کرے گی۔ کیونکہ جنات کے آگ سے بننے کا مطلب وہی ہے جو انسان کے مٹی سے بننے کا مطلب ہے، یعنی عنصر غالب انسان کے وجود کا مٹی ہے، مگر اس کو مٹی پتھر سے مارا جائے تو تکلیف پہنچتی ہے اسی طرح جنات کا عنصر غالب آگ ہے، مگر خالص اور تیز آگ سے وہ بھی جل جاتے ہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ غُدُوُّہَا شَہْرٌ وَّرَوَاحُہَا شَہْرٌ۝ ٠ ۚ وَاَسَلْنَا لَہٗ عَيْنَ الْقِطْرِ۝ ٠ ۭ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَّعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْہِ بِـاِذْنِ رَبِّہٖ۝ ٠ ۭ وَمَنْ يَّزِغْ مِنْہُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيْرِ۝ ١٢ الرِّيحُ معروف، وهي فيما قيل الهواء المتحرّك...  . وعامّة المواضع الّتي ذکر اللہ تعالیٰ فيها إرسال الرّيح بلفظ الواحد فعبارة عن العذاب، وكلّ موضع ذکر فيه بلفظ الجمع فعبارة عن الرّحمة، فمن الرِّيحِ : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر/ 19] ، فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب/ 9] ، مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران/ 117] ، اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم/ 18] . وقال في الجمع : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر/ 22] ، أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم/ 46] ، يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف/ 57] . وأمّا قوله : يرسل الرّيح فتثیر سحابا «3» فالأظهر فيه الرّحمة، وقرئ بلفظ الجمع «4» ، وهو أصحّ. وقد يستعار الرّيح للغلبة في قوله : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال/ 46] ، وقیل : أَرْوَحَ الماءُ : تغيّرت ريحه، واختصّ ذلک بالنّتن . ورِيحَ الغدیرُ يَرَاحُ : أصابته الرِّيحُ ، وأَرَاحُوا : دخلوا في الرَّوَاحِ ، ودهن مُرَوَّحٌ: مطيّب الرّيح . وروي :«لم يَرَحْ رَائِحَةَ الجنّة» «5» أي : لم يجد ريحها، والمَرْوَحَةُ : مهبّ الرّيح، والمِرْوَحَةُ : الآلة التي بها تستجلب الرّيح، والرَّائِحَةُ : تَرَوُّحُ هواء . ورَاحَ فلان إلى أهله إمّا أنه أتاهم في السّرعة کالرّيح، أو أنّه استفاد برجوعه إليهم روحا من المسرّة . والرَّاحةُ من الرَّوْح، ويقال : افعل ذلک في سراح ورَوَاحٍ ، أي : سهولة . والمُرَاوَحَةُ في العمل : أن يعمل هذا مرّة، وذلک مرّة، واستعیر الرَّوَاحُ للوقت الذي يراح الإنسان فيه من نصف النّهار، ومنه قيل : أَرَحْنَا إبلَنا، وأَرَحْتُ إليه حقّه مستعار من : أرحت الإبل، والْمُرَاحُ : حيث تُرَاحُ الإبل، وتَرَوَّحَ الشجر ورَاحَ يَراحُ : تفطّر . وتصوّر من الرّوح السّعة، فقیل : قصعة رَوْحَاءُ ، وقوله : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف/ 87] ، أي : من فرجه ورحمته، وذلک بعض الرّوح . الریح کے معنی معروف ہیں ۔ یعنی ہوا متحرک کو کہتے ہیں عام طور پر جن مواضع میں ( رسال الریح صیغہ مفرد کے ساتھ مذکور ہے وہاں عذاب مراد ہے اور جہاں کہیں لفظ جمع کے ساتھ مذکور ہے وہاں رحمت مراد ہے ۔ چناچہ ریح کے متعلق فرمایا : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر/ 19] ہم نے ان پر ایک زنانے کی اندھی چلائی ۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب/ 9] تو ہم نے ان پر آندھی چلائی ۔ مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران/ 117] مثال اس ہوا کی ہے ۔ جس میں بڑی ٹھر بھی ہوا۔ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم/ 18] اس کو سخت ہوا لے اڑی ۔ اور ریاح ( جمع کا لفظ ) کے متعلق فرمایا : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر/ 22] اور ہم ہی ہوا کو چلاتے ہیں جو بادلوں کو پانی بار وار کرتی ہے ۔ أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم/ 46] کہ وہ ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بارش کی خوشخبری پہنچائیں ۔ يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف/ 57] باران رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ لوگوں کو مینہ کی آمد کی خوشخبری پہنچادیں ۔ اور آیت ير سل الرّيح فتثیر سحابا «3»اور وہ قادرمطلق ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ ہوائیں بادلوں کو ان کی جگہ سے ابھارتی ہے ۔ میں بھی چونکہ معنی رحمت اغلب ہے اس لئے یہاں لفظ جمع کی قرات زیادہ صحیح ہے ۔ کبھی مجازا ریح بمعنی غلبہ بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال/ 46] اور تمہاری وہوا اکھڑ جائے گی ۔ محاورہ : اروح الماء پانی متغیر ہوگیا خاص کر بدبو دار ہونے کے وقت بولتے ہیں ۔ ریح الغد یرییراح جوہڑ پر ہوا کا چلنا ۔ اور اراحوا کے معنی رواح یعنی شام کے وقت میں داخل ہونے کے ہیں اور خشبودار تیل کو دھن مروح کہا جاتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ( 163) لم یرح راحئتہ الجنتہ کہ وہ جنت کی کو شبوتک نہیں پائے گا ۔ المروحبتہ ہوا چلنے کی سمت المروحتہ ( آلہ ) پنکھا ۔ الرئحتہ مہکنے والی خوشبو ۔ محاورہ ہے ۔ راح فلان الیٰ اھلہ ( 1) فلاں اپنئ اہل کیطرف ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گیا ۔ ۔ ( 2) اس نے اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر راحت حاصل کی ۔ الرحتہ آرام ۔ یہ بھی روح سے موخوذ ہے ۔ مشہور محاورہ ہے ۔ افعل ذالک فی مراح وراح کہ آرام سے یہ کام کرو ۔ المراوحتہ کے معنی ہیں دو کاموں کو باری باری کرنا ۔ اور استعارہ کے طور پر رواح سے دوپہر کو آرام کا وقت مراد لیا جاتا ہے اور اسی سے کہا جاتا ہے ۔ ارحنا ابلنا کہ ہم نے اونٹوں کو آرام دیا ( یعنی بازہ میں لے آئے ) اور پھر ارحت الابل سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ کہ میں نے اس کا حق واپس لوٹا دیا اور مراح باڑے کو کہا جاتا ہے اور تروح الشجرہ وراح یراح کے معنی درخت کے شکوفہ دار ہونے اور نئے پتے نکالنے کے ہیں اور کبھی روح سے وسعت اور فراخی کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے ۔ قصعتہ روحاء فراخ پیالہ اور آیت کریمہ : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف/ 87] اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ ۔ میں بھی وسعت رحمت مراد ہے جو لفظ روح سے مفہوم ہوتی ہے ۔ غدا الْغُدْوَةُ والغَدَاةُ من أول النهار، وقوبل في القرآن الغُدُوُّ بالآصال، نحو قوله : بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف/ 205] ، وقوبل الغَدَاةُ بالعشيّ ، قال : بِالْغَداةِ وَالْعَشِيِ [ الأنعام/ 52] ، غُدُوُّها شَهْرٌ وَرَواحُها شَهْرٌ [ سبأ/ 12] ( غ د و ) الغدوۃ والغداۃ کے معنی دن کا ابتدائی حصہ کے ہیں قرآن میں غدو ( غدوۃ کی جمع ) کے مقابلہ میں اصال استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : ۔ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف/ 205] صبح وشام ( یا د کرتے رہو ) ( غدو ( مصدر ) رواح کے مقابلہ میں ) جیسے فرمایا : ۔ غُدُوُّها شَهْرٌ وَرَواحُها شَهْرٌ [ سبأ/ 12] اس کا صبح کا جانا ایک مہینہ کی راہ ہوتی ہے اور شام کا جانا بھی ایک مہینے کی ۔ شهر الشَّهْرُ : مدّة مَشْهُورَةٌ بإهلال الهلال، أو باعتبار جزء من اثني عشر جزءا من دوران الشمس من نقطة إلى تلک النّقطة . قال تعالی: شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة/ 185] ، فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ [ البقرة/ 185] ، الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُوماتٌ [ البقرة/ 197] ، إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً [ التوبة/ 36] ، فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة/ 2] ، والْمُشَاهَرَةُ : المعاملة بالشّهور کالمسانهة والمیاومة، وأَشْهَرْتُ بالمکان : أقمت به شهرا، وشُهِرَ فلان واشْتُهِرَ يقال في الخیر والشّرّ. ( ش ھ ر ) الشھر ( مہینہ ) وہ مدت معینہ جو چاند کے ظہور سے شروع ہوتی ہے ۔ یا دوران شمس کے بارہ حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے جو ایک نقطہ سے شروع ہو کر دوسرے نقطہ پر ختم ہوجاتا ہے قرآن میں ہے :۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة/ 185]( روزوں کا مہینہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں ۔۔۔ الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُوماتٌ [ البقرة/ 197] حج کے مہینے معین ہیں جو معلوم ہیں ۔ إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً [ التوبة/ 36] خدا کے نزدیک مہینے گنتی میں بارہ ہیں فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة/ 2] تو مشرکوا زمین میں چار مہینے چل پھر لو ۔ المشاھرۃ کے معنی ہیں مہینوں کے حساب سے معاملہ کرنا ۔ جیسے مسانھۃ ( سال وار معاملہ کرنا ) اور میاومۃ ( دنوں کے حساب سے معاملہ کرنا ) اشھرت بالمکان کسی جگہ مہینہ بھر قیا م کرنا شھر فلان واشتھر کے معنی مشہور ہونے کے ہیں خواہ وہ شہرت نیک ہو یا بد ۔ سال سَالَ الشیء يَسِيلُ ، وأَسَلْتُهُ أنا، قال : وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] ، أي : أذبنا له، والْإِسَالَةُ في الحقیقة : حالة في القطر تحصل بعد الإذابة، والسَّيْلُ أصله مصدر، وجعل اسما للماء الذي يأتيك ولم يصبک مطره، قال : فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد/ 17] ( س ی ل ) سال الشئی یسبیل کے معنی کسی چیز کے بہنے کے ہیں اور اسلنا کے معنی بہا دینے کے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] اور ان کے لئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا ۔ یاہں اسلنا کے معنی پگھلا دینے کے ہیں ۔ لیکن فی الحقیقت اسالۃ کا لفظ قطر کی اس حالت پر بولا جا تا ہے جو پگھلا نے کے بعد ہوتی ہے ۔ السیل ( ض ) یہ اصل میں سال یسبیل کا مصدر ہے جس کے معنی بہنے کے ہیں اور بطور اسم اس پانی پر بولا جاتا ہے ۔ جو دور سے بہہ کر کسی جگہ پر آجائے اور وہاں بر سانہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد/ 17] پھر اور رساتی ) نالے پر پھولا ہوا جھاگ آگیا ۔ عين ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ «3» ، وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا [ القمر/ 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود/ 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] . ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة، واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان/ 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] . ( ع ی ن ) العین اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔ قَطِرَانُ : ما يَتَقَطَّرُ من الهناء . قال تعالی: سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم/ 50] ، وقرئ : ( من قِطْرٍ آنٍ ) أي : من نحاس مذاب قد أني حرّها، وقال : آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْراً [ الكهف/ 96] أي : نحاسا مذاب القطران کے معنی پگھل ہوئی رال یا گیند ھک کے ہیں قرآن میں ہے سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم/ 50] ان کے کرتے گند ھک کے ہوں گے ۔ ایک قراءت میں قطرآ ن ہے جس کے معنی پگھلے ہوئے گرم تانبے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْراً [ الكهف/ 96]( اب ) میرے پاس تانبا لاؤ کہ اس پر پگھلا کر ڈال دوں یہاں قطرا کے معنی پگھلا ہوا تا نبا کے ہیں ۔ جِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] ، وقال تعالی: وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] . ۔ الجنتہ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔ أَذِنَ : والإِذنُ في الشیء : إعلام بإجازته والرخصة فيه، نحو، وَما أَرْسَلْنا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ [ النساء/ 64] أي : بإرادته وأمره، ( اذ ن) الاذن الاذن فی الشئی کے معنی ہیں یہ بتا دینا کہ کسی چیز میں اجازت اور رخصت ہے ۔ اور آیت کریمہ ۔ { وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللهِ } ( سورة النساء 64) اور ہم نے پیغمبر بھیجا ہی اس لئے ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے ۔ میں اذن بمعنی ارادہ اور حکم ہے زيغ الزَّيْغُ : المیل عن الاستقامة، والتَّزَايُغُ : التمایل، ورجل زَائِغٌ ، وقوم زَاغَةٌ ، وزائغون، وزاغت الشمس، وزَاغَ البصر، وقال تعالی: وَإِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ، يصحّ أن يكون إشارة إلى ما يداخلهم من الخوف حتی اظلمّت أبصارهم، ويصحّ أن يكون إشارة إلى ما قال : يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، وقال : ما زاغ الْبَصَرُ وَما طَغى [ النجم/ 17] ، مِنْ بَعْدِ ما کادَ يَزِيغُ [ التوبة/ 117] ، فَلَمَّا زاغُوا أَزاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ [ الصف/ 5] ، لمّا فارقوا الاستقامة عاملهم بذلک . ( ز ی غ ) الزیغ کے معنی حالت استقامت سے ایک جانب مائل ہوجانا کے ہیں اور التزایغ کے معنی تمایل یعنی بہت زیادہ مائل ہوجانا ایک دوسرے سے مائل ہونا رجل زائغ مائل ہونے والا ۔ اس کی جمع زاغۃ وزائغون آتی ہے ۔ زاغت الشمس ۔ سورج مائل بزوال ہوگیا زاغ البصر نگاہ نے غلطی کی ، ایک طرف ہٹ گئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَإِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ خوف و ہراس کی وجہ سے انہیں کچھ نظر نہیں آئے گا اور یہ بھی کہ یہ آیت :۔ يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ [ آل عمران/ 13] کے ہم معنی ہو یعنی نگاہیں صحیح طور پر کسی چیز کا ادارک نہیں کرسکیں گی ۔ نیز فرمایا : ما زاغ الْبَصَرُ وَما طَغى [ النجم/ 17] نظر نہ تو حقیقت سے ایک طرف ہٹی اور نہ ہی اس نے حد سے تجاوز کیا ۔ مِنْ بَعْدِ ما کادَ يَزِيغُ [ التوبة/ 117] اس کے بعد کہ ۔۔۔۔ پھرجانے کو تھے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَلَمَّا زاغُوا أَزاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ [ الصف/ 5] کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ از خود صحیح راہ سے ہٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دلوں کو اسی طرف جھکا دیا ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) سعر السِّعْرُ : التهاب النار، وقد سَعَرْتُهَا، وسَعَّرْتُهَا، وأَسْعَرْتُهَا، والْمِسْعَرُ : الخشب الذي يُسْعَرُ به، واسْتَعَرَ الحرب، واللّصوص، نحو : اشتعل، وناقة مَسْعُورَةٌ ، نحو : موقدة، ومهيّجة . السُّعَارُ : حرّ النار، وسَعُرَ الرّجل : أصابه حرّ ، قال تعالی: وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء/ 10] ، وقال تعالی: وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير/ 12] ، وقرئ بالتخفیف «2» ، وقوله : عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک/ 5] ، أي : حمیم، فهو فعیل في معنی مفعول، وقال تعالی: إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر/ 47] ، والسِّعْرُ في السّوق، تشبيها بِاسْتِعَارِ النار . ( س ع ر ) السعر کے معنی آگ بھڑکنے کے ہیں ۔ اور سعرت النار وسعر تھا کے معنی آگ بھڑکانے کے ۔ مجازا لڑائی وغیرہ بھڑکانے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے : ۔ استعر الحرب لڑائی بھڑک اٹھی ۔ استعر اللصوص ڈاکو بھڑک اٹھے ۔ یہ اشتعل کے ہم معنی ہے اور ناقۃ مسعورۃ کے معنی دیوانی اونٹنی کے ہیں جیسے : ۔ موقدۃ ومھیجۃ کا لفظ اس معنی میں بولا جاتا ہے ۔ المسعر ۔ آگ بھڑکانے کی لکڑی ( کہرنی ) لڑائی بھڑکانے والا ۔ السعار آگ کی تپش کو کہتے ہیں اور سعر الرجل کے معنی آگ یا گرم ہوا سے جھلس جانے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء/ 10] اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير/ 12] اور جب دوزخ ( کی آگ ) بھڑکائی جائے گی ۔ عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک/ 5] دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ تو یہاں سعیر بمعنی مسعور ہے ۔ نیز قران میں ہے : ۔ إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر/ 47] بیشک گنہگار لوگ گمراہی اور دیوانگی میں ( مبتلا ہیں ) السعر کے معنی مروجہ نرخ کے ہیں اور یہ استعار ہ النار ( آگ کا بھڑکنا ) کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا گیا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ہم نے سلیمان کے لیے ہوا کو مسخر کردیا کہ اس کی صبح کی منزل ایک مہینہ بھر کی ہوتی تھی۔ اور اسی طرح شام کی منزل مہینہ بھر کی ہوتی تھی یعنی صبح کو بیت المقدس سے اصطخر تک ایک ماہ کی مسافت طے کرلیا کرتے تھے اور اسی طرح اسی دن شام کو اسطخر سے بیت المقدس آجایا کرتے تھے۔ اور ہم نے ان کے لیے پگھلے ہوئے...  تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا کہ مٹی کی طرح جو اس سے بنانا ہوتا وہ بنا لیتے۔ اور جنات کو بھی ہم نے ان کے تابع کردیا تھا جن میں سے بعض جن تو ان کے پروردگار کے حکم سے ان کے سامنے تعمیرات کا کام کرتے تھے۔ اور یہ وعید بھی سنا دی تھی کہ جو ان میں سے ہمارے حکم یا یہ کہ سلیمان کی فرمانبرداری سے منہ موڑے گا تو ہم اسے دوزخ کے عذاب کا مزہ چکھائیں گے اور کہا گیا ہے کہ ان کا بادشاہ انہیں آگ کے ستون کے ساتھ سزا دیا کرتا تھا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ { وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ غُدُوُّہَا شَہْرٌ وَّرَوَاحُہَا شَہْرٌ} ” اور سلیمان ( علیہ السلام) کے لیے ہوا کو (مسخر کردیا تھا) ‘ اس کا صبح کو چلنا بھی ایک ماہ (کا سفر) تھا اور اس کا شام کو چلنا بھی ایک ماہ ( کا سفر) تھا۔ “ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جہاں جانا چاہتے تیز ہوا آپ ( علیہ السلام) ک... ے تخت کو اڑا کر وہاں پہنچا دیتی اور جو فاصلہ اس زمانے کے لوگ مروّجہ سواریوں کے ذریعے ایک ماہ میں طے کرتے حضرت سلیمان ( علیہ السلام) وہ فاصلہ ہوا کے ذریعے سے ایک صبح یا ایک شام میں طے کرلیتے تھے۔ { وَاَسَلْنَا لَہٗ عَیْنَ الْقِطْرِ } ” اور ہم نے اس کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ جاری کردیا تھا۔ “ { وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْہِ بِاِذْنِ رَبِّہٖ } ” اور کچھ ِجن بھی (اس (علیہ السلام) کے تابع کردیے تھے) جو اس کے سامنے کام کرتے تھے اس کے رب کے حکم سے۔ “ { وَمَنْ یَّزِغْ مِنْہُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ } ” اور ان میں سے جو کوئی بھی ہمارے حکم سے سرتابی کرتا اسے ہم جلا دینے والا عذاب چکھاتے تھے ۔ “ آگے ان کاموں کی تفصیل بھی بتائی جا رہی ہے جو جنات حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے کرتے تھے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17 For this also please refer to Al-Anbiya: 81 and E.N. 74 thereof. 18 Some former commentators have taken this to mean that a spring from the earth had erupted for the Prophet Solomon from which molten copper flowed oat instead of water. But another interpretation of this verse can be that in the time of the Prophet Solomon the work of melting and moulding copper for different uses was done on a...  very large scale and the same has been referred to here as the flowing of a spring of molten copper for him. (For further details, see E.N. 74 of AI-Anbiya'). 19 The question whether the jinns who had been subdued to the Prophet Solomon were human beings of the mountain tribes or really the jinns who are well known by this name as the hidden creation, has been discussed in detail in our commentary of Surah AI-Anbiya' and Surah An-Naml. (Please see E.N. 75 of AI-Anbiya' and E.N.'s 23, 45 and 52 of An-Naml).  Show more

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :17 یہ مضمون بھی سورہ انبیا آیت 81 میں گزر چکا ہے اور اس کی تشریح وہاں کی جا چکی ہے ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم 176 ۔ 177 ) سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :18 بعض قدیم مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ زمین سے ایک چشمہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے پھوٹ نکلا تھا جس میں سے ... پانی کے بجائے پگھلا ہوا تانبہ بہتا تھا ۔ لیکن آیت کی دوسری تاویل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں تانبے کو پگھلانے اور اس سے طرح طرح کی چیزیں بنانے کا کام بڑے پیمانے پر کیا گیا کہ گویا وہاں تانبے کے چشمے بہ رہے تھے ۔ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، ص 176 ) سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :19 یہ جن جو سلیمان علیہ السلام کے لیے مسخر کیے گیے تھے ، آیا یہ دہقانی اور کوہستانی انسان تھے یا واقعی وہی جن تھے جو ایک پوشیدہ مخلوق کی حیثیت سے دنیا بھر میں معروف ہیں ، اس مسئلے پر بھی سورہ انبیا اور سورہ نحل کی تفسیر میں ہم مفصل بحث کر چکے ہیں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: یہ وہ معجزہ ہے جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو عطا ہوا تھا، اللہ تعالیٰ نے ہوا کو ان کا تابع فرمان بنادیا تھا، وہ ہوا کی تیز رفتاری کو استعمال فرماکر دور دراز کا سفر مختصر وقت میں طے کرلیتے تھے، قرآن کریم نے اس معجزے کی تفصیل بیان نہیں فرمائی، لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے تخت کو ہو... ا پر اڑنے کی صلاحیت دے دی گئی تھی، چنانچہ جو سفر عام حالات میں ایک مہینے میں طے ہوا کرتا تھا وہ اس طرح صرف صبح یا صرف شام میں طے ہوجایا کرتا تھا۔ 6: یہ ایک اور نعمت کا ذکر ہے جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو عطا ہوئی تھی کہ تانبے کا ایک چشمہ ان کی دسترس میں تھا، اور اس میں اللہ تعالیٰ نے تانبے کو سیال بنادیا تھا جس کی وجہ سے تانبے کی مصنوعات آسانی سے بن جاتی تھیں۔ 7: وہ شریر جنات جو کسی کے قابو میں نہیں آتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تابع بنادیا تھا، چنانچہ وہ ان کی مختلف خدمات انجام دیتے تھے جن میں سے کچھ کا ذکر آگے آرہا ہے، یہاں یہ واضح رہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے تو جنات کو اللہ تعالیٰ نے خود تابع بنادیا تھا، لیکن آج کل جو لوگ عملیات کے ذریعے جنات کو تابع بنانے کا دعوی کرتے ہیں اگر وہ صحیح ہو اور اس کے لئے کوئی ناجائز طریقہ بھی اختیار نہ کرنا پڑے تو وہ صرف اس صورت میں جائز ہے جب اس کا مقصد شریر جنات کی تکلیف سے بچنا ہو، ورنہ کسی آزاد بے ضرر جن کو غلام بنانا جائز نہیں ہے۔   Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢۔ اللہ تعالیٰ نے جو انعام حضرت داؤد (علیہ السلام) پر کیا تھا اس کے ذکر کے بعد اب اس انعام کا ذکر فرمایا جو ان کے بیٹے حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر کیا وہ یہ کہ تابع کردیا جس سے صبح کی منزل میں ایک مہینہ کی راہ اور شام کی منزل میں ایک مہینہ کی راہ اسی طرح ایک روز میں دو مہینہ کا راستہ طے ہوجاتا تھا...  مو ضح القرآن میں ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ایک تخت تھا جس پر سب لشکر چلتا تھا ہوا اس کو لیے چلتی تھی ملک شام سے یمن اور یمن سے شام ایک اور پگھلے ہوئے تابنے کا چشمہ اللہ نے نکالا تھا جنات اس کو سانچوں میں ڈھال کر باسن بناتے بہت بڑے لشکر کے موافق ان میں کھانا پکتا اور بٹتا ‘ موضح القرآن کی یہ روایت تفسیر ابن جریر میں بعداللہ الرحمن بن زید کے حوالہ سے ہے ان عبدالرحمن بن زید کو اگرچہ بعضے علماء نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن سورة صٓ کی تفسیر میں اور روایتیں بھی اسی مضمون کی آویں گی اس واسطے اس روایت کو بےاصل نہیں کہا جاسکتا حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور مجاہد اور عکرمہ وغیرہ نے کہا کہ قطر تابنے کو کہتے ہیں قتادہ نے کہا کہ وہ تابنے کا چشمہ یمن میں تھا۔ ومن الجن من یعمل بین یدیہ باذن ربہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہوا کی طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے جن بھی مسخر اور تابعدار کردیئے تھے ہر طرح کا کام کرتے تھے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی تابعداری میں جنات اس طرح بےبسی سے جو رہا کرتے تھے یہ سلیمان (علیہ السلام) کا ایک معجزہ تھا چناچہ صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ١ ؎ ہے (١ ؎ مشکوۃ باب مالا یجوزمن العمل لا صلوہ وما یباح مند) جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک سرکش جن رات کو میری نماز میں خلل ڈالنا چاہتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اس پر غالب کردیا یہاں تک کہ میں نے اس کو پکڑ لیا اور یہ چاہا کہ اس کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھ دوں تاکہصبح کو لوگ اسے دیکھیں مگر مجھ کو سلیمان (علیہ السلام) کی دعاء یاد آگئی اس لیے میں نے اس کو چھوڑ دیا سلیمان (علیہ السلام) کی جس دعاء کا ذکر اس حدیث میں ہے وہ دعاء سورة صٓ میں آوے گی جس کا حاصل یہ ہے کہ معجزہ کے طور پر ایک زبردست بادشاہت کے عطا ہونے کی دعاء سلیمان (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کہ جناب میں کی تھی اور ان کی وہ دعاء اللہ تعالیٰ نے قبول فرما کر ہوا اور سرکش جنات کو معجزہ کے طور پر سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا دہی ذکر آیت کے اس ٹکڑے میں ہے اور ابوہریرہ (رض) کی یہ حدیث آیت کے ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے جس حاصل یہ ہے کہ ہوا اور جنات کا بےبیا سے سلیمان (علیہ السلام) کی تابعداری میں رہنے کا ذکر جو آیت کے ٹکڑے میں ہے وہ سلیمان (علیہ السلام) کا معجزہ تھا جو ان کی دعاء سے خاص طور پر انہیں عطا ہوا تھا اسی خیال سے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سرکش جن کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھ کر ایک نبی کی خصوصیت میں دخل دینا مناسب نہ سمجھا۔ اگرچہ تفسیر سدی میں اس آیت کی تفسیریوں کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنات کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی فرما نبرداری کا حکم دیا تھا اور ایک فرشتہ اس لیے مقرر کیا تھا کہ جو جس کسی طرح کی نافرمانی کرتا تھا تو وہ فرشتہ ایک آگ کا کوڑا اس جن کے مارتا تھا جس سے وہ جن جل کر بالکل خاک ہوجاتا تھا لیکن یہ روایت اہل کتاب کی معلوم ہوتی ہے کیونکہ کسی حدیث سے اس قصہ کی تائید نہیں نکل سکتی اسی واسطے اکثر مفسروں نے یہی کہا ہے کہ جس عذاب کا ذکر آیت میں ہے اس عذاب سے مراد عذاب دوزخ ہے جنوں کے متعلق اہل سنت کا عقیدہ اکثر فلسفی اور زندیق اور قدریہ لوگوں نے جنات کے دنیا میں موجود ہونے کا انکار کیا ہے لیکن اہل سنت نے بہت سی آیات قرآن اور حدیثوں سے جنات کا دنیا میں موجود ہونا اور پابند شریعت ہونا ثابت کیا ہے سورة جن کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت جو صحیح بخاری میں ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد ابلیس میں دو قسمیں ہیں ایک منکر شریعت اور کافر گروہ ہے اور کو شیاطین کہتے ہیں اور دوسرا گروہ پابند شریعت ہے اس کو جن کہتے ہیں ناقابل اعتراض سند سے مسند امام احمد اور مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت ١ ؎ ہے (١ ؎ فتح الباری ص ٢١١ ج ٣ وحجمع الزواد ص ١٠٤ ج ٨ ومسند ام احمد ص ١٧٥ ج ٤ طبع المعارف مصر۔ ) جس کا حاصل یہ ہے کہ فتح خیبر کے بعد ایک شخص خیبر سے چل کر مدینہ کو آرہا تھا راستہ میں دو شخص اس کے پیچھے لگے اور ان دو شخصوں کے پیچھے ایک شخص اور تھا جو ان دونوں شخصوں سے کہہ رہا تھا کہ الٹے پھر جاؤآخر جب وہ دونوں شخص الٹے پھرگئے تو پھر تیسرا شخص اس خیبر سے سفر کرنے والے صحابی سے آن کر ملا اور کہا جن دونوں شخص کو میں نے الٹا پھیر دیا یہ دونوں شیاطین تھے اور یہ بھی کہا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میرا سلام کہنا اور یہ عرض کرنا کہ ہم لوگ زکوۃ کا مال جمع کر رہے ہیں جب یہ زکوۃ کا مال بھیج دینے قابل جمع ہوجاوے گا تو آپ کی خدمت میں روانہ کریں گے مدینہ میں آن کر جب اس شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ قصہ بیان کیا تو آپ نے اکیلے سفر کرنے سے لوگوں کو منع فرمایا اس حدیث سے بھی جنات کی دو قسمیں معلوم ہوتی ہیں کیوں کہ وہ دو شیاطین تھے اور ایک جن مسلمان تھا جس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں سلام اور پیغام کہا بھیجا اس بات پر علما اسلام کا اتفاق ہے کہ شرع محمدی کی توحید اور ارکان اسلام کے مسائل جس طرح انسانوں میں جاری ہیں اسی طرح جنات میں بھی جاری ہیں صرف کھانے پینے کی کچھ چیزیں ایسی ہیں جو خاص جنات کی خوراک ہیں چناچہ صحیح بخاری کی ابوہریرہ (رض) کی حدیث میں اس کا ذکر تفصیل سے ہے۔ تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں بعضی موقوف روایتیں ٢ ؎ ہیں (٢ ؎ فتح الباری ص ٢١٢ ج ٣۔ ) جن کا حاصل یہ ہے کہ جب اہل جنت انسان جنت میں اور اہل دوزخ دوزخ میں داخل ہوجائیں گے تو مسلمان جنات کو اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم خاک ہوجاؤنیک جن جنت میں نہیں جائیں گے مگر آیت لم یطمشھن انس قبلھم ولا جان کے مضمون کے موافق باقی علماء کا مذہب یہ ہے کہ نیک جن جنت میں جاویں گے بعضے لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ جنات تو آتشی ہیں ان کو دوزخ کی آگ سے کیا صدمہ پہنچے گا حافظ ابن حجر نے فتح الباری ٢ ؎ میں اس کا یہ جواب دیا ہے کہ جس طرح انسان خاکی کہلاتا ہے اور مٹی کی دیوار کے نیچے دب جانے سے صدمہ اٹھاتا ہے اسی طرح جنات دوزخ کی آگ سے صدمہ اٹھائیں گے اس سے زیادہ جنات کے متعلق کچھ تفصیل سورة جن میں آوے گی۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:12) ولسلیمن الریح۔ وائو حرف عطف ہے لسلیمن کا عطف النالہ الحدید کے لہ پر ہے اور الریح کا عطف الحدید پر ہے۔ الانۃ الریح بمعنی تسخیرھا۔ (سلیمن بوجہ علم والف نون زائد تان کے غیر منصرف ہے) اور ہم نے مسخر کردی سلیمان کے لئے ہوا۔ غدوھا۔ مضاف مضاف الیہ غدو وغداوۃ صبح۔ فجر اور سورج نکلنے کے درمیان کا و... قت غداوت جمع۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب جس کا مرجع الریح ہے۔ یہاں الریح کی مناسبت سے غدو سے مردا ہوا کی صبح کی منزل یا مسافت ! غدوھا شھر۔ ترجملہ ہوگا : اس کی صبح کی منزل ایک ماہ کی۔ مراد یہ کہ صبح کے وقت ہوا حضرت سلیمان کو لے کر اتنا فاصلہ طے کرلیتی جتنا کہ ایک سوار ایک تیز رفتار گھوڑے پر ایک ماہ میں طے کرتا ہے۔ رواحھا۔ مضاف مضاف الیہ رواح شام۔ سورج ڈھلنے سے رات تک کا وقت مطلب اس کی شام کی منزل (بھی) ایک ماہ کی ہوتی۔ اسلنا۔ ماضی جمع متکلم اسالۃ (باب افعال) مصدر۔ ہم نے بہا دیا۔ ہم نے جاری کردیا۔ فعل لازم سال یسیل (ضرب) سیل وسیلان۔ پانی بہا۔ اسی سے سیل بمعنی سیلاب۔ عین القطر۔ مضاف مضاف الیہ۔ عین چشمہ، القطر پگھلا ہوا تانبا۔ عین القطر پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ، عین۔ اسلنا کا مفعول ہے اور بدین وجہ منصوب ہے۔ ومن الجن۔ وائو عطف کا ہے من الجن (من تبعیضیہ) کا عطف الریح پر ہے اور ہم نے سلیمان (علیہ السلام ) کے تابع کردیا کئی جنوں کو۔ من یعمل۔ من الجن کا بدل ہے جو کام کرتے تھے ان کے سامنے۔ ومن یزغ۔ وائو عاطفہ اور من شرطیہ ہے یزغ مضارع مجزوم (بعمل من شرطیہ) صیغہ واحد مذکر غائب زیغ (باب ضرب) سے مصدر۔ وہ پھرجاتا ہے۔ وہ سرتابی کرتا ہے وہ حکم عدولی کرتا ہے۔ امرنا۔ مضاف مضاف الیہ۔ ہمارا حکم۔ ضمیر جمع متکلم اللہ کی طرف راجع ہے۔ یعنی جوان میں سے ہمارے حکم (کہ سلیمان (علیہ السلام) کے تابع فرمان رہیں) سے سرتابی کرتا ہے ہم اسے بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب چکھاتے۔ نذقہ۔ نذق مضارع (مجزوم بوجہ جواب شرط) جمع متکلم اذاقۃ (باب افعال) مصدر ہ ضمیر واحد مذکر غائب ۔ مفعول۔ اس کا مرجع من ہے۔ ہم اس کو چکھاتے ہیں۔ چکھائیں گے۔ عذاب السعیر۔ بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب ۔ یعنی دوزخ کا عذاب، بعض کے نزدیک دنیا میں عذاب وہی مراد ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی ” انابت “ کی وجہ سے ان پر انعامات فرمائے۔ ( کبیر)6 اسی طرح وہ ایک دن میں دو ماہ کی مسافت طے کرتی۔7 مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ چشمہ یمن میں کسی مقام پر جاری ہوا تھا۔ ( ابن کثیر) بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ تانبے کا چشمہ بہادیا “ سے مراد یہ ہے کہ حضرت سلیمان کے زمانہ میں تانبے ک... و پگھلانے اور اس سے طرح طرح کی چیزیں بنانے کا کام بڑے وسیع پیمانے پر ہوتا تھا، گویاں وہاں تانبے کے چشمے بہہ رہے تھے مگر یہ آیت کی من مانی تاویل ہے۔8 یہ جن جو حضرت سلیمان کے سامنے کام کرتے تھے، ان کو شیاطین بھی فرمایا گیا ہے۔ (الانبیاء : 82)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی وہ ہوا سلیمان (علیہ السلام) کو اتنی اتنی دور پہنچاتی۔ 5۔ حاصل یہ کہ جو جی ایمان و اطاعت اختیار کرے گا وہ عذاب سعیر سے محفوظ رہے گا جیسا کہ ایمان کا مقتضا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بعد ان کے صاحبزادے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا تذکرہ۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے بیٹے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو نبوت اور اقتدار عطا فرمایا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اللہ کے حضور یہ درخواست پیش کی۔” اے میرے رب ! مجھے ا... یسا اقتدار عطا فرما کہ اس جیسا اقتدار میرے بعد کسی شخص کو حاصل نہ ہو۔ “ [ صٓ: ٣٥] اس دعا کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ہوا پر اختیار دیا کہ وہ صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک دو مہینوں کی مسافت طے کرلیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے تانبے کا چشمہ جاری کردیا اور جنات کو ان کے تابع فرما دیا۔ جو اللہ کے حکم کے مطابق ان کی خدمت میں لگے رہتے تھے۔ اگر کوئی جِن حکم عدولی کرتا تو اسے آگ کا عذاب دیا جاتا۔ ہوا پر اختیار دینے کا مفہوم بیان کرتے ہوئے مفسرین نے دو طرح کی تشریح کی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ایسی تکنیک سکھلائی گئی جس کی بنیاد پر وہ ہوا پر کنٹرول کرتے تھے اس وجہ سے ان کے بحری بیڑے ہر موسم میں اس قدر تیز رفتاری سے سمندر میں چلتے کہ وہ صبح سے شام تک اتنی منزلیں عبور کرجاتے جتنا سفر ایک سبک رفتار گھوڑا مہینے میں طے کرتا ہے۔ گویا کہ موسم کی ناہمواری دن کی تپش اور رات کے اندھیرے ان کے بحری بیڑوں کے سامنے رکاوٹ نہیں بن سکتے تھے۔ دوسرے مفسرین کا خیال ہے کہ انہوں نے ایسا تخت تیار کیا تھا کہ جس پر بیٹھ کر وہ صبح و شام دو مہینوں کی مسافت طے کرجایا کرتے تھے۔ جس کے بارے میں یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ضرور ایسا ہوائی جہاز تیار کیا ہوگا جسے صبح وشام اتنی مسافت عبور کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آتی تھی۔ جہاں تک ان کے لیے تانبے کا چشمہ جاری کرنے کا معاملہ ہے عین ممکن ہے کہ انہیں زمین سے معدنیات کے نکالنے کا علم اور طریقہ بھی سکھلایا گیا ہو۔ ان کے ملک میں جو معدنیات کے ذخائر نکلے ان میں تانبے کی معدنیات سرفہرست تھی۔ تانباوہ معدنی قوت ہے جو ایٹم بم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ زمین سے تانبا نکالنے اور پھر اس سے مختلف قسم کی مصنوعات تیار کرنے کے لیے جنات کو ان کے تابع کردیا گیا تھا۔ اگر کوئی جِنّ اپنی ڈیوٹی سے کوتاہی کرتا تو اسے آگ کے کوڑوں سے سزا دی جاتی۔ آگ کے کوڑے انسانوں پر برسانا ہماری شریعت میں حرام قرار دیا گیا لیکن جنات کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے اس لیے انہیں آگ کے کوڑوں سے سزا دی جاتی تھی۔ ” حضرت عبدالرحمن بن عبداللہ (رض) اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئے آپ قضائے حاجت کے لیے علیحدہ ہوئے۔ اچانک ہمیں ایک فاختہ اور اس کے دو بچے نظر آئے ہم نے اس کے بچوں کو پکڑ لیا فاختہ نے پھڑ پھڑ انا شروع کردیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس آئے اور آپ نے فاختہ کو پریشان دیکھ کر پوچھا کہ اس کو اس کے بچوں کی وجہ سے کس نے پریشان کیا ہے اس کے بچوں کو چھوڑ دو ۔ اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ چیونٹیوں کو جلا ہوا دیکھ کر پوچھا کہ ان کو کس نے جلایا ہے ہم نے عرض کیا کہ ہم نے جلایا ہے۔ آپ نے فرمایا آگ کا عذاب اللہ رب العزت کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا۔ “ [ رواہ ابوداؤد : باب فِی کَرَاہِیَۃِ حَرْقِ الْعَدُوِّ بالنَّار ]ِ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا تھا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے جنات کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو تانبے کی معدنیات عطا فرمائیں۔ تفسیر بالقرآن حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خصوصیات : ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو غیر معمولی بادشاہت عطا فرمائی۔ ( الانبیاء : ٧٩) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو تابنے کے چشمے عطا فرمائے۔ ( سبا : ١٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو صنعت وحرفت میں کمال عطا فرمایا۔ ( سبا : ١٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو فہم و فراست عطا کی۔ (الانبیاء : ٧٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے مسخر کردیا۔ (الانبیاء : ٨١)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولسلیمن الریح غدوھا شھر۔۔۔۔۔۔ وقلیل من عبادی الشکور (12 – 13) ” اس کے لیے بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتا ، اونچی عمارتیں ، تصویریں ، بڑے بڑے خوض جیسے لگن اور اپنی جگہ سے نہ ہٹنے والی بھاری دیگیں۔ اے آل داؤد ، عمل کرو شکر کے طریقے پر ، میرے بندوں میں کم ہی شکر گزار ہیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ہ... وا کو مسخر کردیا گیا تھا ، اس کے بارے میں بہت سی روایات وارد ہیں۔ ان روایات پر اسرائیلیات کا رنگ غالب ہے۔ اگرچہ یہودی کتابوں میں ان کا تذکرہ نہیں ہے۔ ان روایات میں پڑنے سے بچنا ہی بہتر ہے۔ آیت میں جو کچھ آیا ہے کہ اللہ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ہوا کو مسخر کردیا تھا اور یہ ہوا صبح کے وقت ایک علاقے کی طرف چلتی تھی ۔ ( سورة انبیاء میں ہے کہ یہ ارض مقدس کی طرف چلتی تھی) اور ایک مہینے کا فاصل طے کرتی تھی اور شام کے وقت وہ دوسرے علاقے کی طرف چلتی اور مسافت ایک مدد کا فاصلہ ہوتا ۔ دونوں سے حضرت سلیمان اپنے مفادات لیتے اور اللہ کے حکم سے استفادہ کرتے۔ اس کی تفصیلات کیا ہیں۔ وہ ہمیں معلوم نہیں۔ اور بلا تحقیق انسانوں کے پیچھے پڑنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ واسلنا لہ عین القطر (34: 12) ” ہم نے اس کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا ایک چشمہ بہا دیا تھا “ قطر نحاس یعنی تانبے کو کہتے ہیں۔ سیاق کلام سے یہاں بھی معلوم ہوتا ہے کہ لوہے کو نرم کرنے کی طرح ، تانبے کا چشمہ بھی کوئی معجزانہ عمل تھا۔ یوں ہوسکتا ہے کہ اللہ نے آتش فشانی کے عمل کی طرح ان کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا ہو یا یوں کہ اللہ نے ان کو بطور الہام تانبا پگھلانا سکھا دیا ہو۔ یہ بھی اللہ کی طرف سے فضل عظیم تھا۔ ومن الجن من یعمل بین یدیہ باذن ربہ (34: 12) ” “۔ اللہ نے معجزانہ طور پر جن ان کے تابع کر دئیے تھے اور وہ ان کی مملکت میں معجزانہ ڈیوٹیاں دیتے تھے۔ عربی میں ان تمام مخفی قوتوں کو جن کہا جاتا ہے جو نظر نہیں آتیں۔ یہ ایک مخلوق ہے جس پر اللہ نے جن کے لفظ کا اطلاق کیا ہے ہم اس مخلوق کے بارے میں وہی کچھ جانتے ہیں جو اللہ نے بتایا ہے اس سے زیادہ نہیں۔ یہاں اللہ نے صرف یہی کہا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ان کا ایک گروہ مسخر کردیا گیا تھا جو آپ کے تحت کام کرتا تھا اور ان میں سے جو بھی بھاگ جاتا اسے اللہ سخت سزا دیتے تھے۔ ومن یزغ ۔۔۔۔۔ عذاب السعیر (34: 12) ” “۔ جنوں کی تسخیر کی بات ختم ہونے سے قبل ہی یہ تبصرہ کیا گیا کہ جن اللہ کے اس طرح قبضے میں ہیں کہ اگر نافرمانی کریں تو اللہ انہیں آگ میں ڈال دے۔ چونکہ بعض مشرکین جنوں کی پوجا کرتے تھے اس لیے یہاں ان کی اس بےبسی کو بیان کیا گیا کہ مشرکین کی طرح ان کے معبود بھی نار جہنم میں جائیں گے بوجہ نافرمانی کے۔ جن حضرت سلیمان کیلئے یوں مسخر تھے  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

تانبے کا چشمہ بہا دینا : دوسرا انعام ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (وَاَسَلْنَا لَہٗ عَیْنَ الْقِطْرِ ) اور ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا۔ تانبا مشہور معدنی چیز ہے اور جامد ہے، اسے برتن وغیرہ بنانے کے لیے پگھلانا پڑتا ہے، اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے آپ کو پگھلے ہوئے تانبے کی نعمت دی ا... ور تھوڑا بہت نہیں بلکہ اس کا چشمہ جاری فرما دیا۔ صاحب روح المعانی نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ تانبے کا یہ چشمہ یمن کی سرزمین میں تھا۔ جنات کی تسخیر : تیسری نعمت بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا : (وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْہِ بِاِذْنِ رَبِّہٖ ) (اور جنات میں سے بعض وہ تھے جو ان کے سامنے ان کے رب کے حکم سے کام کرتے تھے) اللہ تعالیٰ نے جنات کو بھی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں لگا دیا تھا، یہ شیاطین ان کے حکم کے مطابق کام کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم جنات کے لیے یہ تھا کہ سلیمان (علیہ السلام) کی اطاعت کرو۔ (وَمَنْ یَّزِغْ مِنْھُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَاب السَّعِیْرِ ) (ہمارے اس حکم سے جو سرتابی کرے گا یعنی سلیمان کی حکم عدولی کرے گا ہم اسے دوزخ کا عذاب چکھا دیں گے۔ ) شیاطین تو تھے ہی ان کو تشریعی طور پر بھی حضرت سلیمان کی اطاعت کا حکم تھا اس کی خلاف ورزی پر عذاب آخرت کی وعید ذکر فرمائی۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ ولسلیمن الخ یہ دوسرے شبہ کا جواب ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ایک عظیم المرتبت پیغمبر اور ایک کبیر الشان بادشاہ تھے۔ ہوا ان کے ماتحت تھی اور جن ان کے فرمانبردار تھے۔ ایسی شان و عظمت کے باوجود وہ عنداللہ شفیع غالب نہیں بن سکتے کیونکہ یہ تمام چیزیں ان کے اپنے قبضہ و اختیار میں نہ تھیں بلکہ ہم نے...  اپنے حکم سے ہوا کو ان کی مطیع کردیا۔ وہ جہاں چاہتے ہوا ان کے تخت کو اٹھا کرلے جاتی۔ غدوھا شہر الخ : ہوا اس قدر تیز رفتاری سے چلتی کہ ایک مہینہ کی پیدل مسافت دن کے پہلے حصے میں اور ایک ماہ کی مسافت دن کے پچھلے حصے میں طے کرلیتی۔ قال قتادۃ کانت تقطع فی الغدو الی قرب الزوال مسیرۃ شہر وفی الرواح من بعد الزوال الی لغروب مسیرۃ شھر (بحر جلد 7 ص 264) ۔ 13:۔ واسلنا الخ : ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کے لیے تانبے کا چشمہ جاری کردیا۔ بغیر آگ کی حرارت کے تانبہ پانی کی طرح سیال تھا اور ان سے دیگیں۔ پیالے اور جو چاہتے آسانی سے بنوا لیتے اذاب اللہ لسلیمان النحاس کما الان لداود الحدید (خازن ج 5 ص 233) ۔ ومن الجن الخ ای و سخرنا من الجن من یعمل (مدارک) ۔ ہم نے جنوں کو سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا جو ہمارے حکم سے اس کے سامنے اس کی مرضی کے مطابق مختلف خدمات انجام دیتے تھے۔ ومن یزغ الخ : جنوں میں سے جو ہمارے حکم کے مطابق سلیمان (علیہ السلام) کی اطاعت نہ کرتا بلکہ ان کی اطاعت سے سرتابی کرتا تو ہم اسے آگ کا عذاب چکھاتے۔ ان جنوں پر اللہ کی طرف سے ایک فرشتہ مقرر تھا جس کے ہاتھ میں آگ کا کوڑا ہوتا تھا۔ یہ فرشتہ جنوں کو نظر نہیں آتا تھا۔ جو جن نافرمانی کرتا فرشتہ اسے آگ کے کوڑے سے مارتا (خازن، روح) بہ قال الشیخ (رح) تعالی۔ لیکن اکثر مفسرین فرماتے ہیں کہ اس سے آخرت کا عذاب مراد ہے ای عذاب النار فی الاکرۃ کما قال اکثر المفسرین و روی ذلک عن ابن عباس (روح ج 22 ص 118) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(12) اور ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کیلئے ہوا کو تابع کردیا تھا کہ اس ہوا کا صبح کو چلنا مہینہ بھر کی مسافت تھی اور اسی طرح اس ہوا کا شام کو چلنا ایک مہینے کی مسافت تھی اور ہم نے سلیمان کیلئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہا دیا اور جنوں میں سے بعض وہ جنات تھے جو سلیمان کے پروردگار کے حکم سے اس کے سامنے...  اور اس کی نگرانی میں مختلف قسم کے کام کیا کرتے تھے اور ہم نے ان جنات کو یہ حکم دیا تھا کہ جو ہمارے حکم سے کج روی اور سرتابی کرے گا تو ہم اس کو دہکتی… اور بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب کا مزہ چکھا دیں گے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کیلئے ہوا کو مسخر فرما دیا تھا۔ ان کے تخت کو جہاں وہ چاہتے وہاں پہنچاتی۔ ہوا جس تیزی سے اپنے دوش پر ان کے تخت کو لے جاتی تھی اس کا اندازہ اس سے ہوتا کہ ایک گھوڑے سوار ایک مہینہ میں جتنی دور جائے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا تخت وہاں صبح کے ناشتے کے بعد سے دوپہر تک پہنچا دے اور دوپہر ڈھلے قیلولہ کرنے کے بعد شام تک ایک مہینے کی مسافت طے کرلیا کرتے۔ شام، یمن، یمن سے شام، شام سے اصطخر اور اصطخر سے کابل۔ غرض ! جہاں ان کو جانا ہوتا تھا ہوا ان کے تخت کو اڑا کرلے جاتی جیسا کہ سورة انبیاء میں گزرا ہے اور سورة ص میں بھی اشارہ آئے گا۔ زمین میں معنی تانبا کو پگھلا دیا گیا تھا۔ جس میں پگھلا ہوا تانبا چشمہ کی طرح بہتا تھا اور اس پگھلے ہوئے تانبے کو سانچے میں ڈال کر برتن وغیرہ تیار کئے جاتے تھے۔ کہتے ہیں یہ چشمہ یمن میں تھا اور اللہ تعالیٰگ نے جنات کو بھی ان کیلئے مسخر کردیا تھا اور ان سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) وہ کام لیتے تھے جو انسانی طاقت سے زیادہ ہوتے تھے۔ جیسا کہ سورة انبیاء میں گزر چکا ہے۔ جنات کو امر خداوندی سے مسخر کیا گیا تھا اور جنات کو حکم دیا گیا تھا کہ اگر ان میں سے کسی نے سلیمان (علیہ السلام) کی حکم عدولی کی یا کوئی کج روی اختیار کی تو ہم اس کو آتش سوزاں کے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا تخت تھا جس پر لشکر چلتا بائو اس کو لے چلتی شام سے یمن اور یمن سے شام آدھے دن میں لے پہنچتی اور پگھلے تانبے کا چشمہ اللہ نے نکال دیا یمن کی طرف اس کو سانچوں میں ڈھال کر جن باسن بناتے بہت بڑے لشکر کا کھانا پکتا اور بٹتا۔  Show more