Surat Saba

Surah: 34

Verse: 21

سورة سبأ

وَ مَا کَانَ لَہٗ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍ اِلَّا لِنَعۡلَمَ مَنۡ یُّؤۡمِنُ بِالۡاٰخِرَۃِ مِمَّنۡ ہُوَ مِنۡہَا فِیۡ شَکٍّ ؕ وَ رَبُّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ حَفِیۡظٌ ﴿٪۲۱﴾  8

And he had over them no authority except [it was decreed] that We might make evident who believes in the Hereafter from who is thereof in doubt. And your Lord, over all things, is Guardian.

اورشیطان کا ان پر کوئی زور ( اور دباؤ ) نہ تھا مگر اس لئے کہ ہم ان لوگوں کو جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ظاہر کر دیں ان لوگوں میں سے جو اس سے شک میں ہیں ۔ اور آپ کا رب ( ہر ) ہرچیز پر نگہبان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا كَانَ لَهُ عَلَيْهِم مِّن سُلْطَانٍ ... And he (Iblis) had no authority over them, Ibn Abbas, may Allah be pleased with him said, "This means, he had no proof." ... إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يُوْمِنُ بِالاْخِرَةِ مِمَّنْ هُوَ مِنْهَا فِي شَكٍّ ... except that We might test him who believes in the Hereafter, from him who is in doubt about it. means, `We gave him power over them only to show who believes in the Hereafter and that it will come to pass.' The people will be brought to account and rewarded or punished accordingly, so that he will worship his Lord properly in this world -- and to distinguish these believers from those who are in doubt about the Hereafter. ... وَرَبُّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَفِيظٌ And your Lord is a Watchful over everything. means, despite His watching, those who follow Iblis go astray, but by His watching and care, the believers who follow the Messengers are saved.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٣٤] ابلیس کے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں کہ وہ زبردستی لوگوں کو اللہ کی راہ سے اپنی راہ پر ڈال دے۔ وہ صرف یہی اختیار رکھتا ہے کہ انسان کے دل میں وسوسہ ڈال سکے۔ اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کرسکتا اور شیطان کے انسان کو گمراہ کرنے کے سب سے زیادہ موثر تین طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ انسان کو شرک کی نئی سے نئی راہیں بڑے خوبصورت انداز میں پیش کردیتا ہے۔ اور دوسرے اسے عقیدہ آخرت کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کردیتا ہے۔ یا عقیدہ آخرت میں ایسے جزوی عقائد شامل کردیتا ہے کہ عقیدہ آخرت کے اصل مقصد ہی فوت ہوجائے اور عقیدہ آخرت کا صحیح مفہوم ہی وہ چیز ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی سیدھی راہ پر قائم رکھ سکتا ہے اور اس کا تیسرا وار اس کے لباس پر ہوتا ہے اور وہ لوگوں کو عریانی، بےحیائی اور فحاشی کی راہیں خوبصورت انداز میں سجھاتا رہتا ہے۔ [ ٣٥] یعنی اللہ یہ بات بھی خوب جانتا ہے کہ اس نے ابلیس کو کس حد تک لوگوں کو گمراہ کرنے کا اختیار دے رکھا ہے اور وہ یہ خوب جانتا ہے کہ ابلیس صرف ان لوگوں کو ہی گمراہ کرسکتا ہے جو پہلے سے شیطان کے اشارے کے منتظر بیٹھے ہوتے ہیں۔ اور جو لوگ اللہ اور روز آخرت پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ وہ اس کے چکمے میں نہیں آتے اور کبھی آبھی جائیں تو انھیں جلد ہی اس بات کا احساس ہوجاتا ہے اور فوراً پھر اللہ کی طرف پلٹ آتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا كَانَ لَهٗ عَلَيْهِمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ : یعنی ابلیس کو یہ طاقت حاصل نہ تھی کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کرنا چاہے اسے زبردستی ڈنڈے کے زور سے نافرمانی کی راہ پر کھینچ کرلے جائے۔ اسے صرف یہ اختیار تھا کہ انسان کے دل میں وسوسہ ڈال سکے، اسے سبز باغ دکھا کر دھوکے میں مبتلا کرے اور اس کے سامنے گناہوں کو خوش نما کر کے پیش کرے۔ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يُّؤْمِنُ بالْاٰخِرَةِ : یعنی ابلیس کو یہ اختیار دینے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ تھی کہ معلوم ہوجائے کہ کون آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور کون ہے جسے اس میں شک ہے اور سب دیکھ لیں کہ رحمٰن کی بات ماننے والا کون ہے اور شیطان کی پیروی کرنے والا کون، جنتی کون ہے اور جہنمی کون۔ مِمَّنْ هُوَ مِنْهَا فِيْ شَكٍّ : معلوم ہوا آخرت میں شک کرنا بھی کفر ہے اور سبا والوں کی ناشکری اور سرکشی کا اصل سبب یہ تھا کہ انھیں آخرت پر یقین نہیں تھا۔ قرآن کریم نے متعدد مقامات پر اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ صحیح عقیدہ ہی انسان کو راہ راست پر قائم رکھ سکتا ہے اور آخرت پر یقین ہی ایسی چیز ہے جو انسان کو سیدھے راستے پر چلنے کا پابند رکھتی ہے۔ وَرَبُّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَفِيْظٌ تیرا رب ہر چیز پر پوری طرح نگران اور نگہبان ہے، کوئی چیز اس کی حفاظت اور نگرانی سے باہر نہیں، نہ ہی شیطان اس سے زبردست ہو کر کسی کو گمراہ کرسکتا ہے، اس نے خود ہی اپنی حکمت کے تحت اسے آزمائش کے لیے اور حجت تمام کرنے کے لیے انسانوں کے دل میں وسوسہ ڈالنے کا اختیار دے رکھا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا كَانَ لَہٗ عَلَيْہِمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يُّؤْمِنُ بِالْاٰخِرَۃِ مِمَّنْ ہُوَمِنْہَا فِيْ شَكٍّ۝ ٠ ۭ وَرَبُّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَفِيْظٌ۝ ٢١ۧ سلط السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] ، ( س ل ط ) السلاطۃ اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا شكك الشَّكُّ : اعتدال النّقيضين عند الإنسان وتساويهما، والشَّكُّ : ضرب من الجهل، وهو أخصّ منه، لأنّ الجهل قد يكون عدم العلم بالنّقيضين رأسا، فكلّ شَكٍّ جهل، ولیس کلّ جهل شكّا، قال اللہ تعالی: وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود/ 110] ( ش ک ک ) الشک کے معنی دونقیضوں کے ذہن میں برابر اور مساوی ہونے کے ہیں ۔ الشک : شک جہالت ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس سے اخص ہے کیونکہ جہل میں کبھی سرے سے نقیضیں کا علم ہی نہیں ہوتا ۔ پس ہر شک جھل ہے مگر ہر جہل شک نہیں ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود/ 110] وہ تو اس سے قوی شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، حفظ الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] ( ح ف ظ ) الحفظ کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

ار ابلیس کا جو انسانوں پر تسلط ہے سب اسی کی راہ پر ہو رہے ہیں سوائے اس کے اور کسی وجہ سے نہیں کہ ہمیں ظاہری طور پر نمایاں کر کے ان لوگوں کی جماعت کو جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں ان لوگوں سے ممتاز کر کے معلوم کرنا ہے جو قیام قیامت کے بارے میں شک میں ہیں اور کیونکہ اے نبی کریم آپ کا پروردگار ان کے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ { وَمَا کَانَ لَہٗ عَلَیْہِمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ } ” اور اس کو ان پر کوئی اختیار حاصل نہیں تھا “ ابلیس کا انسانوں پر کوئی زور نہیں چلتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو صرف مہلت دے رکھی ہے۔ اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ انسانوں کو حیلے بہانے سے ورغلاتا اور انہیں سبز باغ دکھاتا ہے۔ اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کرسکتا اور اسے یہ مہلت بھی انسانوں کی آزمائش کے لیے دی گئی ہے۔ { اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یُّؤْمِنُ بِالْاٰخِرَۃِ } ” مگر یہ کہ ہم دیکھ لیں کہ کون ہے جو آخرت پر یقین رکھتا ہے “ تاکہ آخرت پر ایمان رکھنے والے لوگوں کی پہچان ہوجائے اور انہیں ہم چھانٹ کر الگ کرلیں : { مِمَّنْ ہُوَ مِنْہَا فِیْ شَکٍّ وَرَبُّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ حَفِیْظٌ} ” ان لوگوں سے جو اس سے متعلق شک میں ہیں۔ اور آپ کا پروردگار ہرچیز پر نگران ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

36 That is, `Iblis did not have the power to have forcibly misled these people to the way of God's disobedience although they had wanted to adopt His obedience. Allah had only given him the power that he may seduce and mislead them and make aII such people his followers, who may like to follow him of their own accord. And Iblis was provided these opportunities for seduction so that the believers of the Hereafter were distinguished from those who entertained doubts about its coming. " In other words, this Divine statement makes the truth explicit that nothing in this world other than belief in the Hereafter can ensure man's adherence to the right way. If a man disbelieves that he is to be raised back to life after death and has to render an account of his deeds before his God, he will certainly be misled and go astray, for he will never be able to develop in himself the sense of .responsibility which alone can make him adhere to the right way. That is why the artifice of Satan by which he ensnares man is that he makes him heedless of the Hereafter. The one who escapes this satanic enticement can never agree that he should sacrifice the interests of his real everlasting life to the interests of the transient life of the world. On the contrary, the one who disbelieves in the Hereafter under the evil influence of Satan, or at least entertains doubts about it, can never be induced to withdraw from the cash bargain being made in this world only due to the apprehension that it might cause loss in some later life. Whoever has gone astray in the world, has gone astray only due to the denial of the Hereafter, or some suspicion about it; and whoever has adopted righteousness has done so because his righteous deeds have issued from his belief in the Hereafter. 37 To understand fully the allusions made in the Qur'an to the history of the Sabaeans, one should also keep in view the information that has been obtained through other historical sources about this nation. Historically, Saba' were a great nation of Southern Arabia. which comprised some large tribes. Imam Ahmad, Ibn Abi Hatim, Ibn 'Abd al-Barr and Tirmidhi have related from the Holy Prophet that Saba was the name of an Arab, from whose race issued the following tribes of Arabia: Kindah. Himyar, Azd, Ash ariyyin, Madhhij, Anmar (with its two branches: Khath'am and Bajilah), 'Amilah, Judham, Lakhm and Ghassan. Since antiquity this Arabian nation has been well known to the rest of the world. Ur inscriptions of 2500 B.C. mention it by the name of Sabom. Then in the Babylonian and Assyrian inscriptions and also in the Bible it has been mentioned several times. (See, for instance, Psalms 72:15; Jeremiah 6: 20; Ezekiel 27:22, 38: 13; Job 6: 19). The Greek and Roman historians and the geographer Theo-phrastus (288 B.C.) have mentioned it continuously for many centuries of the Christian era since before Christ. . Its home was the south-western corner of the Arabian peninsula, now called al-Yaman. Its rise to prominence started in 1100 B.C. In the time of the Prophets David and Solomon the Sabaeans had become world fatuous as a wealthy people. In the beginning they were a sun-worshipping nation. Then, when their queen affirmed faith at the hand of the Prophet Solomon (965-926 B.C.) probably most of them became Muslims. But then in some unknown later period they again began to worship gods and goddesses tike Almaqah (the moon-god), 'A thtar (Venus), Dhat Hamim, Dhat Bad'an (the sun-god), Harmatam or Harimat and many others. Almaqah was their chief deity, and the kings made claim to the people's obedience as representatives of this deity. Many inscriptions have been unearthed in the Yaman, which show that the whole land abounded in the temples of these gods, especially of Almaqah, and thanks giving services for them were held at every important event. As a result of the modern archaeological researches about 3,000 inscriptions have been discovered, which throw a good deal of light on the history of this nation. Besides these, if the information yielded by the Arabian traditionists and the Roman and Greek historians is compiled, a detailed history of this nation can be prepared. According to this information the following are the important periods of its history: (1) The Pre-mid-seventh Century Period: In this period Mukarrib was the title of the Sabaean kings. Probably a synonym of Muqarrib, it signified that the kings regarded themselves as the link between men and gods; or, in other words, they were the priest-kings. Their capital was Sirwah, whose ruins are found at a day's journey to the west of Maa'rib, and are now called al-Kharibah. The foundations of the great Maa'rib dam were laid in this period: then the different kings extended it from time to time. (2) 650 B. C. to 115 B. C. : In this period the Sabaean kings discarded Mukarrib and adopted the title of Malik (king), which signified that theocracy was replaced by secular kingship. They left Sirwah and made Maa'rib their capital and extended it in every way. This place lay 3900 feet above the sea, and is some 60 miles east of San'a'. Even today its nuns bear evidence that it was once the centre of a highly civilized nation. (3) 115 B. C. to 300 A.D. : In this period the Sabaean kingdom fell under the domination of the tribe of Himyar, a more numerous tribe of Saba. They discarded Maa'rib and made their central place, Raydan, their capital, which later became known as Zafar. Its nuns can still be seen on a circular hill near the modern city of Yarim. Close by it there resides a small tribe by the name of Hinmar, perhaps the remnant of the great nation which was once well known throughout the world for its glory and grandeur. In the same period the word Yamanat and Yamanat began to be used for the first time for a part of the kingdom, which gradually became Yaman and the name of the entire land, which extends from `Asir to Aden and from Bab al-Mandab to Hadramaut. During this very period the decline of the Sabaean began. (4) 300 A.D. to the rise, of Islam :This is the period of the Sabaea's destruction. They started fighting civil wars, which provided occasion for external intervention. This resulted in the decline in their trade and their agriculture and even loss of political freedom. Taking advantage of the internal conflicts between the Himyarites and other tribes, the Abyssinians occupied the Yaman and ruled it briefly from 340 A.D. to 378 A.D. Then, though political freedom was restored, breaches began to appear in the great dam of Maa'rib, which in 450 or 451 A.D. led to the catastrophe occasioned by the "bursting of the dam" as has been referred to in verse 16 above. Although after it till the time of Abraha the dam was extensively repaired, the population that had dispersed could not be brought back, nor could the ruined system of irrigation and agriculture be restored. In 523 A.D., dhu-Nuwas, the Jewish king of the Yaman, carried out the great massacre of the Christians of Najran, which has been referred to in the Qur'an under "ashab al-ukhdud" (LXXXV: 4). In retaliation, the Christian kingdom of Abyssinia invaded Yaman and occupied the whole land. Later the Abyssinian governor of Yaman, Abrahah, in a bid to put an end to the central position of the Ka`bah and to bring the whole of western Arabia into the sphere of the ByzantineAbyssinian influence invaded Makkah in 570 or 571 A.D., a few days before the birth of the Holy Prophet Muhammad (upon whom be Allah's peace). The Abyssinian army was completely destroyed as alluded to under ashab al-fil in the Qur'an. At last, in 575 A.D. Yaman fell to the Iranians; their rule came to an end in 628 A.D. when their governor Badhan embraced Islam. The Sabaeans owed their prosperity to two main factors: agriculture and commerce. They had developed their agriculture by means of a wonderful irrigation system unknown in the ancient world except in Babylon. There were no natural rivers in their land; in the rainy season small hill-torrents rose on which they had built dams every where in the country and collected water in small lakes from which they had taken out canals to water their lands. This had virtually turned the whole country into a vast garden as mentioned in the Qur'an. The largest reservoir was the lake which had been formed by the construction of a dam on the opening in the Jabal Balaq near Maa`rib. But when Allah caused His favours to be turned away from them, the great dam burst in the mid-fifth century A.D. and the resultant floods went on breaking one dam after the other on the way, destroying the entire irrigation system, which could never again be restored. For commerce the Sabaeans had been blessed by God with the most favourable geographical position of which they took full advantage. For more than a thousand years they monopolised the means of trade between the East and the West. On the one hand, they received silk from China, spices from Indonesia and Malabar, fabrics and swords from India, negro slaves, monkeys, ostrich feathers and ivory from East Africa at their ports, and on the other, they transported this merchandise to the Egyptian and Syrian marts, to be supplied onward to Rome and Greece. Besides, they themselves were great producers of frankincense and myrrh and other perfumes, which were in great demand in Egypt and Syria and in Rome and Greece. Two great routes exiated for this international trade: the sea route and the land route. The maritime trade remained in the Sabaeans' control for more than a thousand years for they alone knew the mysteries of the Red Sea monsoons, breakers and rocks and the anchorages, and no other nation could risk navigation through these dangerous waters. Through this maritime route they took their trade goods to the harbours of Jordan and Egypt. The land routes from Aden and Hadramaut joined at Ma'arib, from where a highway led to Petra through Makkah, Jeddah, Yathrib, AI-`Ula, Tabuk and Aylah, forking at the northern end to Egypt and Syria. Along this land route, a number of Sabaean colonies had been established right from the Yaman to the borders of Syria, as mentioned in the Qur'an, and trade caravans passed by these day and night. The signs of many of these colonies still exist on this route from which the Sabaean and the Himyarite inscriptions are being discovered. After the first century after Christ Sabaean trade began w suffer a decline. When the Greek, and then the Roman, kingdoms were established in the Middle East, the citizens began complaining of the high prices that the Arabian traders were charging for the oriental goods because of their monopoly, and urged their governments to take the initiative to break their supremacy in the sea trade. Thus, in the beginning, Ptolemy II (985-246 B.C.), the Greek ruler of Egypt, reopened the Nile-Red Sea canal originally dug by Pharaoh Sesostris some seventeen centuries previously. Consequently, it was through this canal that the Egyptian fleet entered the Red Sea for the first time, but it could not succeed much against the Sabaeans. When Egypt fell to the Romans they brought a stronger merchant marine into the Red Sea and put a naval fleet at its back. The Sabaeans could not withstand this force. Consequently, the Romans set up their trade colonies at every seaport, arranged supplies for the ships and also stationed their military troops wherever possible. At last, the time came when Aden passed under the military occupation of the Romans. In this connection, the Roman and the Abyssinian kingdoms also entered secret pacts against the Sabaeans, which ultimately deprived this nation of its political freedom as well. After losing control over maritime trade the Sabaeans were left with trade over the land route only, but many factors combined to gradually break its back too. First, the Nabataeans ousted them from all the colonies of the upper Hejaz and Jordan, from Petra to Al-`Ula. Then in 106 A.D. the Romans put an end to the Nabataean kingdom and captured all the Syrian and Jordanian territories up to the Hejaz. After this Abyssinia and Rome jointly tried to ruin the Sabaean trade completely by taking advantage of their internal conflicts. That is why the Abyssinians intervened in the Yaman again and again, till at last they brought the whole land under their occupation. Thus, Allah's wrath caused this nation to be toppled from the heights of glory and prosperity into oblivion from which they were never able to rise again. There was a time when the Greeks and the Romans felt tempted when they heard of the legendary wealth of this people. Strabo writes, "The Sabaeans use gold and silver utensils and even the ceilings, walls and doors of their houses are bedecked with ivory, gold, silver and jewels." Pliny says, "The whole wealth of Rome and Persia is flowing into Sabaean hands. They are the richest people of the world today, and their fertile land abounds in gardens, crops and cattle." Artemidorus says, "These people roll in luxury. They burn cinnemon, sandalwood and other sweet smelling wood as fuel. " Likewise, other Greek historians relate that the passengers passing by their shores can smell the perfumes of their land in the merchant ships at sea. For the first time in history they built a skyscraper, called the castle of Ghumdan, on the hill top in San`a'. This citadel, according to the Arab historians, had twenty storeys, each storey being 36 feet high. Thus did they prosper and enjoy life as long as Allah favoured them with His bounties. At last, when they transgressed aII limits in their ingratitude, the Almighty Allah also withdrew His attention, and they were so utterly destroyed as if they had never existed at all.

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :36 یعنی ابلیس کو یہ طاقت حاصل نہ تھی کہ ان کا ارادہ تو خدا کی فرمانبرداری کرنے کا ہو مگر وہ زبردستی ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں نافرمانی کی راہ پر کھینچ لے گیا ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی قدرت اس کو دی تھی کہ وہ انہیں بہکائے اور ایسے تمام لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لے جو خود اس کی پیروی کرنا چاہیں ۔ اور اس اغوا کے مواقع ابلیس کو اس لیے عطا کیے گئے تاکہ آخرت کے ماننے والوں اور اس کی آمد میں شک رکھنے والوں کا فرق کھل جائے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ ارشاد ربانی اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ عقیدہ آخرت کے سوا کوئی دوسری چیز ایسی نہیں ہے جو اس دنیا میں انسان کو راہ راست پر قائم رکھنے کی ضامن ہو سکتی ہو ۔ اگر کوئی شخص یہ نہ مانتا ہو کہ اسے مر کر دوبارہ اٹھنا ہے اور اپنے خدا کے حضور اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے ، تو وہ لازماً گمراہ و بد راہ ہو کر رہے گا ، کیونکہ اس کے اندر سرے سے وہ احساس ذمہ داری پیدا ہی نہ ہو سکے گا جو آدمی کو راہ راست پر ثابت قدم رکھتا ہے ۔ اسی لیے شیطان کا سب سے بڑا حربہ ، جس سے وہ آدمی کو اپنے پھندے میں پھانستا ہے ، یہ ہے کہ وہ اسے آخرت سے غافل کرتا ہے ۔ اس کے اس فریب سے جو شخص بچ نکلے وہ کبھی اس بات پر راضی نہ ہو گا کہ اپنی اصل دائمی زندگی کے مفاد کو دنیا کی اس عارضی زندگی کے مفاد پر قربان کر دے ۔ بخلاف اس کے جو شخص شیطان کے دام میں آ کر آخرت کا منکر ہو جائے ، یا کم از کم اس کی طرف سے شک میں پڑ جائے ، اسے کوئی چیز اس بات پر آمادہ نہیں کر سکتی کہ جو نقد سودا اس دنیا میں ہو رہا ہے اس سے صرف اس لیے ہاتھ اٹھا لے کہ اس سے کسی بعد کی زندگی میں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ دنیا میں جو شخص بھی گمراہ ہوا ہے اسی انکار آخرت یا شک فی الآخرۃ کی وجہ سے ہوا ہے ، اور جس نے بھی راست روی اختیار کی ہے اس کے صحیح طرز عمل کی بنیاد ایمان بالآخرۃ ہی پر قائم ہوئی ہے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :37 قوم سبا کی تاریخ کی طرف یہ اشارات جو قرآن مجید میں کیے گئے ہیں ان کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ معلومات بھی ہماری نگاہ میں رہیں جو اس قوم کے متعلق دوسرے تاریخی ذرائع سے فراہم ہوئی ہیں ۔ تاریخ کی رو سے سبا جنوبی عرب کی ایک بہت بڑی قوم کا نام ہے جو چند بڑے بڑے قبائل پر مشتمل تھی ۔ امام احمد ، ابن جریر ، ابن ابی حاتم ، ابن عبدالبرّ اور ترمذی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے کہ سبا عرب کے ایک شخص کا نام تھا جس کی نسل سے عرب میں حسب ذیل قبیلے پیدا ہوئے : کِنْدَہ ۔ حِمْرَ ۔ اَزْد ۔ اَشْعَریین ۔ مَذْحِج ۔ اَنْمار ) جس کی دو شاخیں ہیں خَثْعَمْ اور بَجیْلَہ ) ۔ عامِلہ ۔ جُدّام ۔ لَحْم اور غسان ۔ بہت قدیم زمانے سے دنیا میں عرب کی اس قوم کا شہرہ تھا ۔ 2500 قبل مسیح میں اُور کے کتبات اس کا ذکر سابوم کے نام سے کرتے ہیں ۔ اس کے بعد بابِل اور آشور ( اسیریا ) کے کتبات میں اور اسی طرح بائیبل میں بھی کثرت سے اس کا ذکر آیا ہے ، ( مثال کے طور پر ملاحظہ ہو زَبور ، 72: 15 ۔ یرمیاہ 6:20 ۔ حذقی ایل 27:22 ۔ 38:13 ۔ ایوب 6:19 ) یونان و روم کے مورخین و جغرافیہ نویس تھیو فراسٹس ( 288 قبل مسیح ) کے وقت سے مسیح کے بعد کی کئی صدیوں تک مسلسل اس کا ذکر کرتے چلے گئے ہیں ۔ اس کا وطن عرب کا جنوبی کونہ تھا جو آج یمن کے نام سے مشہور ہے ۔ اس کے عروج کا دور گیارہ سو برس قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے ۔ حضرت داؤد و سلیمان علیہما السلام کے زمانے میں ایک دولت مند قوم کی حیثیت سے اس کا شہرہ آفاق میں پھیل چکا تھا ۔ آغاز میں یہ ایک آفتاب پرست قوم تھی ۔ پھر جب اس کی ملکہ حضرت سلیمان ( 965 ۔ 926 قبل مسیح ) کے ہاتھ پر ایمان لے آئی تو اغلب یہ ہے کہ اس کی غالب اکثریت مسلمان ہو گئی تھی ۔ لیکن بعد میں نہ معلوم کس وقت اس کے اندر شرک و بت پرستی کا پھر زور ہو گیا اور اس نے اَلْمقہ ( چاند دیوتا ) ، عَشْتَر ( زُہرہ ) ذاتِ حمیم اور ذابِ بعدان ( سورج دیوی ) ہوبس ، حرمتم یا حریمت اور ایسے ہی دوسرے بہت سے دیوتاؤں اور دیویوں کو پوجنا شروع کر دیا ۔ اَلْمقہ اس قوم کا سب سے بڑا دیوتا تھا ، اور اس کے بادشاہ اپنے آپ کو اسی دیوتا کے وکیل کی حیثیت سے اطاعت کا حق دار قرار دیتے ۔ یمن میں بکثرت کتبات ملے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سارا ملک ان دیوتاؤں ، اور خصوصاً اَلمقہ کے مندروں سے بھرا ہوا تھا اور ہر اہم واقعہ پر ان کے شکریے ادا کیے جاتے تھے ۔ آثار قدیمہ کی جدید تحقیقات کے سلسلے میں یمن سے تقریباً 3 ہزار کتبات فراہم ہوئے ہیں جو اس قوم کی تاریخ پر اہم روشنی ڈالتے ہیں ۔ اس کے ساتھ عربی روایات اور رومی و یونانی تواریخ کی فراہم کردہ معلومات کو اگر جمع کر لیا جائے تو اچھی خاصی تفصیل کے ساتھ اس کی تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے ۔ ان معلومات کی رو سے اس کی تاریخ کے اہم ادوار حسب ذیل ہیں: 1 ۔ 650 قبل مسیح سے پہلے کا دور ۔ اس زمانے میں ملوک سبا کا لقب مُکَرِّبِ سبا تھا ۔ اغلب یہ ہے کہ یہ لفظ مُقَرِّب کا ہم معنی تھا اور اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ بادشاہ انسانوں اور خداؤں کے درمیان اپنے آپ کو واسطہ قرار دیتے تھے ، یا دوسرے الفاظ میں یہ کاہن بادشاہ ( Priest-Kings ) تھے ۔ اس زمانے میں ان کا پایہ تخت صرواح تھا جس کے کھنڈر آج بھی مارِب سے مغرب ایک دن کی راہ پر پائے جاتے ہیں اور خَربیہ کے جام سے مشہور ہیں ۔ اسی دور میں مارب کے چند بند کی بنا رکھی گئی اور وقتاً فوقتاً مختلف بادشاہوں نے اسے وسیع کیا ۔ 2 ۔ 650 قبل مسیح سے 115 قبل مسیح تک کا دور ۔ اس دور میں سبا کے بادشاہوں نے مکرب کا لقب چھوڑ کر مَلِک ( بادشاہ ) کا لقب اختیار کر لیا ، جس کے معنی یہ ہیں کہ حکومت میں مذہبیت کی جگہ سیاست اور سیکولرازم کا رنگ غالب ہو گیا اس زمانے میں ملوکِ سبا نے صرواح کو چھوڑ کر مارب کو اپنا دار السلطنت بنایا اور اسے غیر معمولی ترقی دی ۔ یہ مقام سمندر سے 3900 فیٹ کی بلندی پر صنعاء سے 60 میل جانب مشرق واقع اور آج تک اس کے کھنڈر شہادت دے رہے ہیں کہ یہ کبھی ایک بڑی متمدن قوم کا مرکز تھا ۔ 3 ۔ 115 ق م سے 300 عیسوی تک کا دور ۔ اس زمانے میں سبا کی مملکت پر حمیر کا قبیلہ غالب ہو گیا جو قوم سبا ہی کا ایک قبیلہ تھا اور تعداد میں دوسرے تمام قبائل سے بڑھا ہوا تھا ۔ اس دور میں مارب کو اجاڑ کر رَیدان پایہ تخت بنایا گیا جو قبیلہ حمیر کا مرکز تھا ۔ بعد میں یہ شہر ظفار کے نام سے موسوم ہوا ۔ آج کل موجودہ شہر یریم کے قریب ایک مدوَّر پہاڑی پر اس کے کھنڈر ملتے ہیں اور اسی کے قریب علاقہ میں ایک چھوٹا سا قبیلہ حمیر کے نام سے آباد ہے جسے دیکھ کر کوئی شخص تصور تک نہیں کر سکتا کہ یہ اسی قوم کی یاد گار ہے جس کے ڈنکے کبھی دنیا بھر میں بجتے تھے ۔ اسی زمانے میں سلطنت کے ایک حصہ کی حیثیت سے پہلی مرتبہ لفظ یمنت اور یمینات کا استعمال ہونا شروع ہوا اور رفتہ رفتہ یمن اس پورے علاقے کا نام ہو گیا جو عرب کے جنوبی مغربی کونے پر عسیر سے عدن تک اور باب المندب سے حضر موت تک واقع ہے ۔ یہی دور ہے جس میں سبائیوں کا زوال شروع ہوا ۔ 4 ۔ 300 کے بعد سے آغاز اسلام تک کا دور ۔ یہ قوم سبا کی تباہی کا دور ہے ۔ اس دور میں ان کے ہاں مسلسل خانہ جنگیاں ہوئیں ۔ بیرونی قوموں کی مداخلت شروع ہوئی ۔ تجارت برباد ہوئی ۔ زراعت نے دم توڑا اور آخر کار آزادی تک ختم ہو گئی ۔ پہلے رَیدانیوں ، حمیریوں ، اور ہمدانیوں کی باہمی نزاعات سے فائدہ اٹھا کر 340 سے 378 تک یمن پر حبشیوں کا قبضہ رہا ۔ پھر آزادی تو بحال ہو گئی مگر مارب کے مشہور بند میں رخنے پڑنے شروع ہو گئے یہاں تک کہ آخر کار 450 یا 451 میں بند کے ٹوٹنے سے وہ عظیم سیلاب آیا جس کا ذکر قرآن مجید کی آیات میں کیا گیا ہے ۔ اگرچہ اس کے بعد اَبرہہ کے زمانے تک اس بند کی مسلسل مرمتیں ہوتی رہیں ، لیکن جو آبادی منتشر ہو چکی تھی وہ پھر جمع نہ ہو سکی اور نہ آب پاشی اور زراعت کا وہ نظام جو درہم برہم ہو چکا تھا ، دوبارہ بحال ہو سکا ۔ 523 میں یمن کے یہودی بادشاہ ذونواس نے نَجران کے عیسائیوں پر وہ ظلم و ستم برپا کیا جس کا ذکر قرآن مجید میں اصحاب الاُخدود کے نام سے کیا گیا ہے ۔ اس کے نتیجے میں حبش کی عیسائی سلطنت یمن پر انتقاماً حملہ آور ہو گئی اور اس نے سارا ملک فتح کر لیا ۔ اس کے بعد یمن کے حبشی وائسرائے ابرہہ نے کعبہ کی مرکزیت ختم کرنے اور عرب کے پورے مغربی علاقے کو رومی حبشی اثر میں لانے کے لیے 570 یا 571 میں ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے چند روز قبل ) مکہ معظمہ پر حملہ کیا اور اس کی پوری فوج پر وہ تباہی آئی جسے قرآن مجید میں اصحاب الفیل کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے ۔ آخر کار 575 میں یمن پر ایرانیوں کا قبضہ ہوا ، اور اس کا خاتمہ اس وقت ہوا جب 628 میں ایرانی گورنر باذان نے اسلام قبول کر لیا ۔ قوم سبا کا عروج دراصل دو بنیادوں پر قائم تھا ۔ ایک زراعت ۔ دوسرے تجارت ۔ زراعت کو انہوں نے آب پاشی کے ایک بہترین نظام کے ذریعہ سے ترقی دی تھی جس کے مثل کوئی دوسرا نظام آب پاشی بابل کے سوا قدیم زمانے میں کہیں نہ پایا جاتا تھا ۔ ان کی سر زمین میں قدرتی دریا نہ تھے ۔ بارش کے زمانے میں پہاڑوں سے برساتی نالے بہ نکلتے تھے ۔ انہی نالوں پر سارے ملک میں جگہ جگہ بند باندھ کر انہوں نے تالاب بنا لیے تھے اور ان سے نہریں نکال نکال کر پورے ملک کو اس طرح سیراب کر دیا تھا کہ قرآن مجید کی تعبیر کے مطابق ہر طرف ایک باغ ہی باغ نظر آتا تھا ۔ اس نظام آب پاشی کا سب سے بڑا مخزن آب وہ تالاب تھا جو شہر مارب کے قریب کوہ بلق کی درمیانی وادی پر بند باندھ کر تیار کیا گیا تھا مگر جب اللہ کی نظر عنایت ان سے پھر گئی تو پانچویں صدی عیسوی کے وسط میں یہ عظیم الشان بند ٹوٹ گیا اور اس سے نکلنے والا سیلاب راستے میں بند توڑتا چلا گیا یہاں تک کہ ملک کا پورا نظام آب پاشی تباہ ہو کر رہ گیا ۔ پھر کوئی اسے بحال نہ کر سکا ۔ تجارت کے لیے اس قوم کو خدا نے بہترین جغرافی مقام عطا کیا تھا جس سے اس نے خوب فائدہ اٹھایا ۔ ایک ہزار برس سے زیادہ مدت تک یہی قوم مشرق اور مغرب کے درمیان تجارت کا واسطہ بنی رہی ۔ ایک طرف ان کے بندرگاہوں میں چین کا ریشم ، انڈونیشیا اور مالا بار کے گرم مسالے ، ہندوستان کے کپڑے اور تلواریں ، مشرقی افریقہ کے زنگی غلام ، بندر شتر مرغ کے پر اور ہاتھی دانت پہنچتے تھے اور دوسری طرف یہ ان چیزوں کو مصر اور شام کی منڈیوں میں پہنچاتے تھے جہاں سے روم و یونان تک یہ مال روانہ کیا جاتا تھا ۔ اس کے علاوہ خود ان کے علاقے میں لوبان ، عود ، عنبر ، مشک ، مُرّ ، قرفہ ، قصب الذَّرِیرہ ، سلیخہ اور دوسری ان خوشبو دار چیزوں کی بڑی پیداوار تھی جنہیں مصر و شام اور روم و یونان کے لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے ۔ اس عظیم الشان تجارت کے دو بڑے راستے تھے ۔ ایک بحری ۔ دوسری بری ۔ بحری تجارت کا اجارہ ہزار سال تک انہی سبائیوں کے ہاتھ میں تھا ، کیونکہ بحر احمر کی موسمی ہواؤں ، زیر آپ چٹانوں ، اور لنگر اندازی کے مقامات کا راز یہی لوگ جانتے تھے اور دوسری کوئی قوم اس خطرناک سمندر میں جہاز چلانے کی ہمت نہ رکھتی تھی ۔ اس بحری راستے سے یہ لوگ اردن اور مصر کی بندرگاہوں تک اپنا مال پہنچایا کرتے تھے ۔ بری راستے عدن اور حضرموت سے مارب پر جا کر ملتے تھے اور پھر وہاں سے ایک شاہراہ مکہ ، جدہ ، یثرب ، العُلاء ، تبوک اور ایلہ سے گزرتے ہوئی پَٹرا تک پہنچتی تھی ۔ اس کے بعد ایک راستہ مصر کی طرف اور دوسرا راستہ شام کی طرف جاتا تھا ۔ اس بری راستے پر ، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے ، یمن سے حدود شام تک سبائیوں کی نو آبادیاں مسلسل قائم تھیں اور شب و روز ان کے تجارتی قافلے یہاں سے گزرتے رہتے تھے ۔ آج تک ان میں سے بہت سی نو آبادیوں کے آثار اس علاقے میں موجود ہیں اور وہاں سبائی و حمیری زبان کے کتبات مل رہے ہیں ۔ پہلی صدی عیسوی کے لگ بھگ زمانے میں اس تجارت پر زوال آنا شروع ہو گیا ۔ مشرق اوسط میں جب یونانیوں اور پھر رومیوں کی طاقتور سلطنتیں قائم ہوئیں تو شور مچنا شروع ہوا کہ عرب تاجر اپنی اجارہ داری کے باعث مشرق کے اموال تجارت کی من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں اور ضرورت ہے کہ ہم خود اس میدان میں آگے بڑھ کر اس تجارت پر قبضہ کریں ۔ اس غرض کے لیے سب سے پہلے مصر کے یونانی الاصل فرمانروا بطلیموس ثانی ( 285 ۔ 246 قبل مسیح ) نے اس قدیم نہر کو پھر سے کھولا جو 17 سو برس پہلے فرعون سِسوسترِیس نے دریائے نیل کو بحر احمر سے ملانے کے لیے کھدوائی تھی ۔ اس نہر کے ذریعہ سے مصر کا بحری بیڑا پہلی مرتبہ بحر احمر میں داخل ہوا ۔ لیکن سبائیوں کے مقابلے میں یہ کوشش زیادہ کارگر نہ ہو سکی ۔ پھر جب مصر پر روم کا قبضہ ہوا تو رومی زیادہ طاقتور تجارتی بیڑا بحر احمر میں لے آئے اور اس کی پشت پر انہوں نے ایک جنگی بیڑا بھی لا کر ڈال دیا ۔ اس طاقت کا مقابلہ سبائیوں کے بس میں نہ تھا ۔ رومیوں نے جگہ جگہ بندرگاہوں پر اپنی تجارتی نو آبادیاں قائم کیں ، ان میں جہازوں کی ضروریات فراہم کرنے کا انتظام کیا ، اور جہاں ممکن ہو وہاں اپنے فوجی دستے بھی رکھ دیئے ۔ حتیٰ کہ ایک وقت وہ آ گیا کہ عدن پر رومیوں کا فوجی تسلط قائم ہو گیا ۔ اسی سلسلے میں رومی اور حبشی سلطنتوں نے سبائیوں کے مقابلے میں باہم ساز باز بھی کر لیا جس کی بدولت بالآخر اس قوم کی آزادی تک ختم ہو گئی ۔ بحری تجارت ہاتھ سے نکل جانے کے بعد صرف بری تجارت سبائیوں کے پاس رہ گئی تھی ۔ مگر بہت سے اسباب نے رفتہ رفتہ اس کی کمر بھی توڑ دی ۔ پہلے نَبطیوں نے پیڑا سے الُعلا تک بالائی حجاز اور اردن کی تمام نو آبادیوں سے سبائیوں کو نکال باہر کیا ۔ پھر 106 میں رومیوں نے نبطی سلطنت کا خاتمہ کر دیا اور حجاز کی سرحد تک شام و اردن کے تمام علاقے ان کے مضبوط ہاتھوں میں چلے گئے ۔ اس کے بعد حبش اور روم کی متحدہ کوشش یہ رہی کہ سبائیوں کی باہمی کشمکش سے فائدہ اٹھا کر ان کی تجارت کو بالکل تباہ کر دیا جائے ۔ اسی بنا پر حبشی بار بار یمن میں مداخلت کرتے رہے یہاں تک کہ آخر کار انہوں نے پورے ملک پر قبضہ کر لیا ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے غضب نے اس قوم کو انتہائی عروج سے گرا کر اس گڑھے میں پھینک دیا جہان سے پھر کوئی مغضوب قوم کبھی سر نہیں نکال سکی ہے ۔ ایک وقت تھا کہ اس کی دولت کے افسانے سن سن کر یونان و روم والوں کے منہ میں پانی بھر آتا تھا ۔ اسٹرابو لکھتا ہے کہ یہ لوگ سونے اور چاندی کے برتن استعمال کرتے ہیں ، اور ان کے مکانوں کی چھتوں ، دیواروں اور دروازوں تک میں ہاتھی دانت ، سونے ، چاندی اور جواہر کا کام بنا ہوا ہوتا ہے ۔ پلینی کہتا ہے کہ روم اور فارس کی دولت ان کی طرف بہی چلی جا رہی ہے ، یہ اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ مالدار قوم ہیں ، اور ان کا سر سبز و شاداب ملک باغات ، کھیتوں اور مواشی سے بھرا ہوا ہے ۔ آرٹی میڈورس کہتا ہے کہ یہ لوگ عیش میں مست ہو رہے ہیں اور جلانے کی لکڑی کے بجائے دار چینی ، صندل اور دوسری خوشبو دار لکڑیاں جلاتے ہیں ۔ اسی طرح دوسرے یونانی مورخین روایت کرتے ہیں کہ ان کے قریب سواحل سے گزرتے ہوئے تجارتی جہازوں تک خوشبو کی لپیٹیں پہنچتی ہیں ۔ انہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ صنعا کے بلند پہاڑی مقام پر وہ فلک شگاف عمارت ( Skyscraper ) تعمیر کی جو قصر غُمدان کے نام سے صدیوں تک رہا جب تک اللہ کا فضل ان کے شامل حال رہا ۔ آخر کار جب انہوں نے کفران نعمت کی حد کر دی تو رب قدیر کی نظر عنایت ہمیشہ کے لیے ان سے پھر گئی اور ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: یعنی شیطان کو ہم نے کوئی ایسی طاقت نہیں دی تھی کہ وہ انسانوں پر زبردستی مسلط ہو کر ان کو نافرمانی پر مجبور کردے، البتہ اسے صرف بہکانے کی صلاحیت دی تھی، جس سے دل میں گناہ کی خواہش ضرور پیدا ہوجاتی ہے، مگر کوئی شخص گناہ اور نافرمانی پر مجبور نہیں ہوتا، اور اگر کوئی شخص عقل اور شریعت کے مطالبے پر ڈٹ جائے تو شیطان کچھ بھی نہیں کرسکتا اور یہ صلاحیت بھی اس کو اس لئے دی گئی ہے کہ اس کے ذریعے انسانوں کی آزمائش بھی مقصود تھی کہ کون ہے جو آخرت کی زندگی کو پیش نظر رکھ کر شیطان کی بات رد کردیتا ہے اور کون اسے مان لیتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢١۔ دنیا کے پیدا ہونے سے اور دنیا میں نیک وبد کے پیدن ہونے سے اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں کوئی نئی بات نہیں پیدا ہوتی دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اور نیک وبد کے پیدا ہونے سے پہلے جو کچھ دنیا کے پیدا ہونے کے وقت سے اب تک ہوا اور جو کچھ قیامت تک ہوگا وہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے لیکن اللہ عتالیٰ کی درگاہ میں انصاف ہے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس علم ازلی پر جزا اور سزا کی بنیادذ نہیں رکھی ہے بلکہ دنیا میں اللہ کے اس علم ازلی کے موافق جو ظہور قیامت تک ہوگا اسی کے موافق قیامت کے دن جزا اور سزا ہوگی اسی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے کہ شیطان کا وسوسہ انسان کے پیچھے لگانا اس لیے ہے کہ اللہ کے علم ازلی میں یہ بات قرار پاچکی ہے کہ خواہش نفسانی اور اس خواہش نفسانی کا ابھارنے والا شیطان دنیا میں انسان کے ساتھ پیدا ہوگا تو کچھ انسان شیطان کے بہکاوے میں آن کر اپنی عمر برے کا کاموں میں گزرا دیں گے اور کچھ انسان اللہ کے رسول کی نصیحت مان کر شیطان کے بہکاوے میں نہ آویں گے بلکہ شیطان کے وسوسہ سے ان کو اور یہ فائدہ ہوگا جب شیطان ان کے دل میں کسی برے کام کا وسوسہ ڈالے گا اور وہ خوف عقبیٰ سے اس وسوسہ کو ٹال دیں گے اور اس وسوسے کے موافق را کام کرنے کی جرأت نہ کریں گے تو اس برے خیال کو چھوڑنے کے عوض میں ایک نیکی ان کے نامہ اعمال میں لکھی جاوے گی صحیحین وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت کی حدیث ١ ؎ قدسی اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کی اور روایتیں ١ ؎ ہیں (١ ؎ ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر ص ٣٣٩ جلد اول بحوالہ صحیحین وغیرہ) جن کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جب لوح محفوظ میں جزا سزا کا حال لکھا تو یہ بھی لکھ لیا ہے کہ جس شخص کے دل میں برے کام کا وسوسہ گزرے اور خدا کے خوف سے وہ شخص اس برے کام کو نہ کرے تو پوری ایک نیکی ایسی شخص کی لکھی جاوے گی اور جو کوئی شخص نیکی کا فقط ارادہ کرے تو ایک نیکی نیک ارادہ کے عوض میں لکھی جاوے گی اور جب اس نیک ارادہ کے موافق وہ شخص نیک کا بھی کرے گا تو ایک نیکی کا دس حصہ سے لے کر سات سو حصہ تک اور کبھی اس سے بھی زیادہ جس قدر خالص نیت ہوگی اسی قدر ثواب ملے گا اوپر صحیح مسلم کی حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ١ ؎ سے یہ بھی گزر چکا ہے (١ ؎ مشکوۃ باب فی الوسوسہ۔ ) کہ جس طرح وسوسہ ڈالنے کے لیے ہر ایک شخص کے ساتھ ایک شیطان لگا ہوا ہے اسی طرح ہر ایک شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ نیک کام کی صلاح ہر وقت دینے کو مقرر کردیا ہے اور توبہ کی بحث میں صحیح مسلم کی روایت سے یہ بھی گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دنیا میں توبہ اور استغفار ایسی پیاری چیز ہے کہ جو مخلوق دنیا میں ہے اگر یہ لوگ گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی صفت ظاہر کرنے کے لیے ایسی محلوقات کو دنیا میں پیدا کرتا جو لوگ گناہ کر کے توبہ استغفار کرتے اور اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرتا غرض خواہش نفسانی اور شیطان کو اللہ تعالیٰ نے خاص اس حکمت کے لیے دنیا میں پیدا کیا ہے کہ خواہش نفسانی کو روک کر شیطان کے بہکاوے سے بچ کر جو کوئی نیک کام کرے تو اس کا رتبہ اللہ کے نزدیک بڑا ہے اور اس حکمت کے ساتھ ہی یہ حکمت ہے کہ جہاں شیطان کا بہکاوا ہے وہاں ایک فرشتہ بھی اس بہکاوے کو روکنے کے لیے موجود ہے پھر اگر شیطان کے بہکاوے سے سالہا سال برے کام کسی نے کئے تو ایک دم کی خالص توبہ و استغفار میں بالکل سب نیست و نابود ہوگئے اسی واسطے اس آیت میں فرمایا ہے کہ اس قدر انتظام الٰہی کے بعد کسی طرح کا شیطان کا غلبہ انسان پر باقی نہیں رہا ہے جو کوئی اس انتظام سے غافل رہے گا وہ عقبے کا منکر اور قابل سزا قرار پاوے گا جو کوئی شیطان کے پھندے سے بچنے کے انتظام الٰہی کو کام میں لاوے گا اس کے لیے ایک نیکی کا سات سو تک یا اس سے بھی زیادہ بدلا ہے اور شیطان ایسے لوگوں کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا کروں کہ ایسے لوگوں کی نگہبانی اللہ کے ہاتھ ہے اور اس کی نگہبانی ہر چیز کے لیے کافی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:21) ما کان لہ علیہم۔ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب ابلیس کے لئے ہے اور ہم ضمیر جمع مذکر غائب بنی آدم کے لئے ہے۔ الا۔ استثناء منقطع۔ مفرغ ہے ” لیکن “ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ لنعلم لام تعلیل کا ہے نعلم مضارع منصوب (بوجہ عمل لام) جمع متکلم ہے نعلم بمعنی نظھر۔ (ہم ظاہر کردیں۔ نمیز (ہم تمیز کردیں) اور نری (ہم دیکھیں) کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے۔ اور یہاں سب معنی ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ جہاں تک علم کا تعلق ہے خدا ہر ایک چیز کے متعلق ابتدا سے اخیر تک اس کا علم رکھتا ہے لیکن انسان کے کسی فعل پر جزا وسزا مرتب کرنے کے لئے اس کا استحقاق تبھی متعین ہوگا۔ جب وہ عالم واقع میں ظہور پذیر ہوگا اس ابتلا و امتحان سے یہی مقصود تھا کہ ہم امر واقع سے دکھا دیں کہ آخرت پر ایمان رکھنے والا کون تھا۔ اور اس میں شک رکھنے والا کون ؟ من موصولہ ہے۔ اور استفہام کے لئے آیا ہے۔ کون۔ ممن۔ من جارہ اور من موصولہ سے مرکب ہے۔ اس سے جو (اس کی طرف سے شک میں ہے) ۔ منھا۔ میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب الاخرۃ کے لئے ہے۔ وما کان لہ۔۔ فی شک۔ اس (شیطان ) کے لئے ان پر کوئی قدرت نہ تھی لیکن (یہ سب کچھ اس لئے ہوا) کہ ہم چاہتے تھے کہ دکھا دیں کہ کون آخرت پر یقین رکھتا ہے اور کون اس کے متعلق شک میں ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 معلوم ہوا کہ آخرت میں شک کرنا کفر ہے اور سباوالوں کی نا شکری اور سرکشی کا سبب یہ تھا کہ انہیں آخرت پر یقین نہ تھا۔ قرآن نے متعدد مقامات پر اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ عقیدہ آخرت ہی ایسی چیز ہے جو دنیا میں انسان کو راہ راست کا پابند رکھ سکتی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی ابتلاء و امتحان مقصود ہے تاکہ مومن و کافر متعین ہوجاویں کہ بعض کو ثواب اور بعض کو عذاب دینا مقتضائے حکمت ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَرَبُّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ حَفِیْظٌ) (اور آپ کا رب ہر چیز پر نگران ہے) اسے سب کے حال کی خبر ہے وہ ہر ایک کو ایمان اور عدم ایمان کی صفت کے اعتبار سے جزا اور سزا دے گا۔ (قولہ تعالیٰ : سیل العرم ای الصعب من عرم الرجل المثلث الراء فھو عارم و عرم اذا شرس خلقہ وصعب وفی معانہ ما جاء فی روایۃ عن ابن عباس من تفسیرہ بالشدید، وقیل : العرم المطر الشدید قال ابن جبیر العرم المسناۃ بلسان الحبشۃ، وقولہ تعالیٰ : خمط ای حامض اومر، وعن ابن عباس الخمط الأراک ویقال لثمرہ مطلقا او اذا اسود و بلغ البربر، وقیل شجرۃ الغضا ولا اعلم ھل لہ ثمرام لا، وقال ابو عبیدۃ کل شجرۃ مرۃ ذات شوک، وقولہ تعالیٰ : واثلٍ ھو ضرب من الطرفاء علی ما قالہ ابو حنیفۃ اللغوی فی کتاب النبات لہ ونقل الطبرسی قولاً انہ سمر) (من روح المعانی ج ٢٣ ص ١٢٦، ١٢٧) (اللہ تعالیٰ کے قول سیل العرم یعنی سخت و شدید سیلاب کو کہتے ہیں عرم الرجل راء کے زبر، اور زیر اور پیش کے ساتھ (عَارِمٌ) جبکہ کوئی آدمی تند خود اور بد اخلاق ہو۔ اور اس کا وہ معنی بھی ہے جو حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی روایت میں آیا ہے کہ آپ نے اس کی تفسیر شدید سے کی ہے اور بعض نے کہا (العرم) شدید بارش کو کہتے ہیں ابن جبیر کہتے ہیں حبشیوں کی زبان میں کوہان کو کہتے ہیں اور ” خمط “ یعنی کھٹا یا کڑوا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ خمط کا معنی ہے ” پیلو “ اور پیلو کے پھل کو بھی کہتے ہیں خواہ کچا ہو یا پکا یا اس وقت کہتے ہیں جب وہ سیاہ ہوجائے اور بعض نے کہا جھاؤ کے درخت کو کہتے ہیں اور یہ معلوم نہیں کہ اس کا پھل بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ ابو عبیدہ کہتے ہیں خمط ہر اس درخت کو کہتے ہیں جو کڑوا ہو اور کانٹے دار ہو اور اثل یہ بھی جھاؤ کی طرح کے ایک درخت کو کہتے ہیں یہ معنی ابوحنیفہ لغوی نے اپنی کتاب النبات میں لکھا ہے اور طبرسی نے ایک قول یہ نقل کیا ہے کہ اثل کا معنی ہے کیکر۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ و ماکان الخ : بنی آدم کو گمراہ کرنے پر شیطان کو مسلط کرنے کی تکوینی مصلحت امتحان و ابتلا ہے تاکہ یہ حقیقت واضح اور آشکار ہوجائے کہ مخلص مومن کون ہے اور منافق اور مذبذب کون ہے۔ یعنی مومن و منافق متعین ہوجائیں اور ان میں امتیاز ہوجائے ویسے اللہ تالیی تو سب کو جانتا ہی ہے اسے تو معلوم ہی ہے کہ مومن کون ہے یعنی لنری و نمیر المومن من الکافر واراد علم الوقوع و الظہور اذ کان معلوما عندہ لانہ عالم الغیب (خازن ومعالم ج 5 ص 238) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(21) اور لوگوں پر شیطان کا قابو سوائے اتنی بات کے اور کسی وجہ سے نہیں ہوا کہ جو شخص آخرت پر ایمان لاتا ہے ہم اس کو اس شخص سے نمایاں اور متمیز کردیں جو آخرت کے متعلق شک اور شبہے میں پڑا ہوا ہے اور آپ کا پروردگار ہر چیز پر نگہبان اور نگراں ہے۔ یعنی شیطان کو جو اغوا کے سلسلے میں برائے نام قابو دے دیا ہے اس کا منشا صرف اس قدر ہے کہ برے اور اچھے علیحدہ علیحدہ ہوجائیں اور قیامت کے منکر قیامت پر ایمان رکھنے والوں سے متمیز ہوجائیں۔ حضرت حسن بصری (رض) نے فرمایا خدا کی قسم شیطان نے کسی کو تلوار یا لکڑی اور کوڑے سے نہیں مارا بلکہ اس کا کام فریفتہ کرنا اور دلوں میں آرزوئیں ڈالنا ہے چونکہ لوگ اتنی ہی بات میں اس کے پیچھے ہو لیتے ہیں اس لئے تسلیط سے تعبیر فرمایا۔ بہرحال ! لوگ اپنی اپنی صلاحیت اور استعداد کے موافق اس کے پیرو ہوجاتے ہیں یا اس سے نفرت کرتے ہیں اور عقائد و اعمال کی وجہ سے ایک دوسرے سے متمیز اور نمایاں ہوجاتے ہیں۔ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ مؤمن ہے اور یہ کافر ہے۔ یہ شیطان کا پیرو ہے اور یہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا متبع اور پیرو ہے۔ آپ کا پروردگار ہر چیز پر نگراں ہے اس سے کوئی بات فرمانبرداروں کی یا نافرمانوں کی پوشیدہ نہیں ہے۔