Surat Saba

Surah: 34

Verse: 22

سورة سبأ

قُلِ ادۡعُوا الَّذِیۡنَ زَعَمۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ۚ لَا یَمۡلِکُوۡنَ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا لَہُمۡ فِیۡہِمَا مِنۡ شِرۡکٍ وَّ مَا لَہٗ مِنۡہُمۡ مِّنۡ ظَہِیۡرٍ ﴿۲۲﴾

Say, [O Muhammad], "Invoke those you claim [as deities] besides Allah ." They do not possess an atom's weight [of ability] in the heavens or on the earth, and they do not have therein any partnership [with Him], nor is there for Him from among them any assistant.

کہہ دیجئے! کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے ( سب ) کو پکار لو نہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذرہ کا اختیار ہے نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہےنہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Helplessness of the gods of the Idolators Here Allah states clearly that He is the One and Only God, the Self-Sufficient Master, Who has no peer or partner; He is independent in His command and there is no one who can share or dispute with Him in that, or overturn His command. So, He says: قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ ... Say: "Call upon those whom you assert besides Allah..." meaning, the gods who are worshipped besides Allah. ... لاَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلاَا فِي الاْاَرْضِ ... they possess not even the weight of a speck of dust, either in the heavens or on the earth, This is like the Ayah: وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ And those, whom you invoke or call upon instead of Him, own not even a Qitmir. (35:13) ... وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ ... nor have they any share in either, means, they do not possess anything, either independently or as partners. ... وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ nor there is for Him any supporter from among them. means, nor does Allah have among these rivals any whose support He seeks in any matter; on the contrary, all of creation is in need of Him and is enslaved by Him. Then Allah says:

وحدہ لاشریک بیان ہو رہا ہے کہ اللہ اکیلا ہے ، واحد ہے ، احد ہے ، فرد ہے ، صمد ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بےنظیر ، لاشریک اور بےمثیل ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، ساتھی نہیں ، مشیر نہیں ، وزیر نہیں ، مددگار و پیشی بان نہیں ۔ پھر ضد کرنے والا اور خلاف کہنے والا کہاں؟ جن جن کو پکارا کرتے و پکار کر دیکھ لو معلوم ہو جائے گا کہ ایک ذرے کے بھی مختار نہیں ۔ محض بےبس اور بالکل محتاج و عاجز ہیں ، نہ زمینیوں میں ان کی کچھ چلے نہ آسمانوں میں جیسے اور آیت میں ہے کہ وہ ایک کھجور کے چھلکے کے سی مالک نہیں اور یہی نہیں کہ انہیں خود اختیاری حکومت نہ ہو نہ سہی شرکت کے طور پر ہی ہو نہیں شرکت کے طور پر بھی نہیں ۔ نہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے کسی کام میں مدد لیتا ہے ۔ بلکہ یہ سب کے سب فقیر محتاج ہیں اس کے در کے غلام اور اس کے بندے ہیں ، اس کی عظمت و کبریائی عزت و بڑائی ایسی ہے کہ بغیر اس کی اجازت کے کسی کی جرات نہیں کہ اس کے سامنے کسی کی سفارش بغیر اس کی رضامندی کے بغیر کر سکے اور آیت میں ہے ( وَكَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِي السَّمٰوٰتِ لَا تُغْـنِيْ شَفَاعَتُهُمْ شَـيْــــًٔا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اَنْ يَّاْذَنَ اللّٰهُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَرْضٰى 26؀ ) 53- النجم:26 ) ، یعنی آسمانوں کے کل فرشتے بھی اس کے سامنے کسی کی سفارش کے لئے لب ہلا نہیں سکتے مگر جس کے لئے اللہ اپنی رضامندی سے اجازت دے دے ۔ ایک اور جگہ فرمان ہے ( وَلَا يَشْفَعُوْنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَهُمْ مِّنْ خَشْيَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ 28؀ ) 21- الأنبياء:28 ) ، وہ لوگ صرف ان کی شفاعت کر سکتے ہیں جن کے لئے اللہ کی رضامندی ہو وہ تو خود ہی اس کے خوف سے تھرا رہے ہیں ۔ تمام اولاد آدم کے سردار سب سے بڑے شفیع اور سفارشی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب قیامت کے دن مقام محمود میں شفاعت کے لئے تشریف لے آئیں گے کہ اللہ تعالیٰ آئے اور مخلوق کے فیصلے کرے اس وقت کی نسبت آپ فرماتے ہیں میں اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑوں گا اللہ جانتا ہے کہ کب تک سجدے میں پڑا رہو گا اس سجدے میں اس قدر اپنے رب کی تعریفیں بیان کروں گا کہ اس وقت تو وہ الفاظ بھی مجھے معلوم نہیں ۔ پھر مجھ سے کہا جائے گا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر اٹھایئے آپ بات کیجئے آپ کی بات سنی جائے گی آپ مانگئے آپ کو دیا جائے گا ۔ آپ شفاعت کیجئے قبول کی جائے گی ۔ رب کی عظمت کا ایک اور مقام بیان ہو رہا ہے کہ جب وہ اپنی وحی میں کلام کرتا ہے اور آسمانوں کے مقرب فرشتے اسے سنتے ہیں تو ہیبت سے کانپ اٹھتے ہیں اور غشی والے کی طرح ہو جاتے ہیں جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ ہٹ جاتی ہے ۔ فزع کی دوسری قرأت فرغ بھی آئی ہے مطلب دونوں کا ایک ہے ۔ تو اب آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کرتے ہیں کہ اس وقت رب کا کیا حکم نازل ہوا ؟ پس اہل عرش اپنے پاس والوں کو وہ اپنے پاس والوں کو یونہی درجہ بدرجہ حکم پہنچا دیتے ہیں بلا کم و کاست ٹھیک ٹھیک اسی طرح پہنچا دیتے ہیں ۔ ایک مطلب اس آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جب سکرات کا وقت آتا ہے ۔ اس وقت مشرک یہ کہتے ہیں اور اسی طرح قیامت کے دن بھی جب اپنی غفلت سے چونکیں گے اور ہوش و حواس قائم ہو جائیں گے اس وقت یہ کہیں گے کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ جواب ملے گا کہ حق فرمایا ، حق فرمایا اور جس چیز سے دنیا میں بےفکر تھے آج اس کے سامنے پیش کر دی جائے گی ۔ تو دلوں سے گھبراہٹ دور کئے جانے کے یہ معنی ہوئے کہ جب آنکھوں پر سے پردہ اٹھا دیا جائے گا اس وقت سب شک و تکذیب الگ ہو جائیں گے ۔ شیطانی وساوس دور ہو جائیں گے اس وقت رب کے وعدوں کی حقانیت تسلیم کریں گے اور اس کی بلندی اور بڑائی کے قائل ہوں گے ۔ پس نہ تو موت کے وقت کا اقرار نفع دے نہ قیامت کے میدان کا اقرار فائدہ پہنچائے ۔ لیکن امام ابن جریر کے نزدیک پہلی تفسیر ہی راحج ہے یعنی مراد اس سے فرشتے ہیں اور یہی ٹھیک بھی ہے اور اس کی تائید احادیث و آثار سے بھی ہوتی ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی امر کا فیصلہ آسمان میں کرتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر جھکا لیتے ہیں اور رب کا کلام ایسا واقع ہوتا ہے جیسے اس زنجیر کی آواز جو پتھر پر بجائی جاتی ہو جب ہیبت کم ہو جاتی ہے ۔ تو پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے اس وقت کیا فرمایا ؟ جواب ملتا ہے کہ جو فرمایا حق ہے اور وہ اعلی و کبیر ہے ۔ بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ جو جنات فرشتوں کی باتیں سننے کی غرض سے گئے ہوئے ہیں اور جو تہ بہ تہ ایک دوسروں کے اوپر ہیں وہ کوئی کلمہ سن لیتے ہیں اوپر والا نیچے والے کو وہ اپنے سے نیچے والے کو سنا دیتا ہے اور وہ کاہنوں کے کانوں تک پہنچا دیتے ہیں ۔ ان کے پیچھے فوراً ان کے جلانے کو آگ کا شعلہ لپکتا ہے لیکن کبھی کبھی تو وہ اس کے آنے سے پہلے ہی ایک دوسرے کو پہنچا دتا ہے اور کبھی پہنچانے سے پہلے ہی جلا دیا جاتا ہے ۔ کاہن اس ایک کلمے کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں میں پھیلاتا ہے ۔ وہ ایک بات سچی نکلتی ہے لوگ اس کے مرید بن جاتے ہیں کہ دیکھو یہ بات اس کے کہنے کے مطابق ہی ہوئی مسند میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ صحابہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک ستارہ ٹوٹا اور زبردستی روشنی ہو گئی ۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ جاہلیت میں تمہارا خیال ان ستاروں کے ٹوٹنے کی نسبت کیا تھا ؟ انہوں نے کہا ہم اس موقعہ پر سمجھتے تھے کہ یا تو کوئی بہت بڑا آدمی پیدا ہوا یا مرا ۔ زہری سے سوال ہوا کہ کیا جاہلیت کے زمانے میں بھی ستارے جھڑتے تھے؟ کہا ہاں لیکن کم ۔ آپ کی بعثت کے زمانے سے ان میں بہت زیادتی ہو گئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو انہیں کسی کی موت و حیات سے کوئی واسطہ نہیں ۔ بات یہ ہے کہ جب ہمارا رب تبارک و تعالیٰ کسی امر کا آسمانوں میں فیصلہ کرتا ہے تو حاملان عرش اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں پھر ساتویں آسمان والے پھر چھٹے آسمان والے یہاں تک کہ یہ تسبیح آسمان دنیا تک پہنچتی ہے ۔ پھر عرش کے آس پاس کے فرشتے عرش کے اٹھانے والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ؟ وہ انہیں بتاتے ہیں پھر ہر نیچے والا اوپر والے سے دریافت کرتا ہے اور وہ اسے بتاتا ہے یہاں تک کہ آسمان اول والوں کو خبر پہنچتی ہے ۔ کبھی اچک لے جانے والے جنات اسے سن لیتے ہیں تو ان پر یہ ستارے جھڑتے ہیں تاہم جو بات اللہ کو پہنچانی منظور ہوتی ہے اسے وہ لے اڑتے ہیں اور اس کے ساتھ بہت کچھ باطل اور جھوٹ ملا کر لوگوں میں شہرت دیتے ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی امر کی وحی کرتا ہے تو آسمان مارے خوف کے کپکپا اٹھتے ہیں اور فرشتے ہیبت زدہ ہو کر سجدے میں گر پڑتے ہیں ۔ سب سے پہلے حضرت جبرائیل علیہ السلام سر اٹھاتے ہیں اور اللہ کافرمان سنتے ہیں پھر ان کی زبانی اور فرشتے سنتے ہیں اور وہ کہتے جاتے ہیں کہ اللہ نے حق فرمایا وہ بلندی اور بڑائی والا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کا امین فرشتہ جس کی طرف ہو اسے پہنچا دیتا ہے ۔ حضرت ابن عباس اور قتادہ سے مروی ہے کہ یہ اس وحی کا ذکر ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد نبیوں کے نہ ہونے کے زمانے میں بندہ رہ کر پھر ابتداء ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ابتدائی وحی کے بھی اس آیت کے تحت میں داخل ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن آیت اس کو اور سب کو شامل ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 یعنی معبود ہونے کا۔ یہاں زعمتم کے دو مفعول محذوف ہیں زعمتموہم الھۃ یعنی جن جن کو تم معبود گمان کرتے ہو۔ 22۔ 2 یعنی انھیں نہ خیر پر کوئی اختیار ہے نہ شرپر، کسی کو فائدہ پہنچانے کی قدرت ہے، نہ نقصان سے بچانے کی، آسمان و زمین کا ذکر نہ عموم کے لئے ہے، کیونکہ تمام خارجی موجودات کے لئے یہی ظرف ہیں۔ 22۔ 3 نہ پیدائش میں نہ ملکیت میں اور نہ تصرف میں۔ 22۔ 4 جو کسی معاملے میں بھی اللہ کی مدد کرتا ہو، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی بلا شرکت غیرے تمام اختیارات کا مالک ہے اور کسی کے تعاون کے بغیر ہی سارے کام کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٣٦] یعنی ان کفار مکہ سے کہئے کہ میرا پروردگار وہ ہے جو کائنات کی ہر چیز کا خالق ہے جو اس کا شکر ادا کرتا ہے اسے وہ نعمتوں سے نوازتا ہے۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان اللہ کے شاکر بندے تھے تو اللہ نے انھیں بیشمار نعمتوں سے نوازا تھا۔ اور قوم && سبا && نے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے انھیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا۔ اب تم بتلاؤ کہ جن معبودوں کو تم پکارتے ہو ان میں سے کوئی ایسا کام کرسکتا ہے ؟ اگر تمہیں کچھ شک ہے تو انھیں پکار کے دیکھ لو کہ کیا وہ آڑے وقت کسی کے کام آسکتے ہیں ؟ اس بات کو اس پہلو سے بھی سمجھو کہ کائنات میں کسی بھی چیز پر ان کا کچھ اختیار ہے ؟ نہ انہوں نے کسی چیز کو بنایا ہے، نہ ہی کسی چیز کی تخلیق میں ان کی شرکت ہے۔ نہ ہی ان کا ظاہری اور باطنی اسباب پر کچھ کنٹرول ہے پھر وہ تمہاری بگڑی کو سنوار کیسے سکتے ہیں اور فائدہ کیا پہنچا سکتے ہیں ؟ فائدہ یا نقصان تو وہی ہستی پہنچا سکتی ہے جس کے پاس کچھ ایسے اختیارات بھی ہوں۔ اور جو چیز خود بےاختیار اور مجبور محض ہے اس سے نفع یا نقصان کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ ۔۔ : سورت کی ابتدا اس بات سے ہوئی کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے اس کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور دنیا اور آخرت میں حمد کا سزا وار بھی وہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ذکر فرمایا کہ کفار آخرت کا انکار کرتے ہیں، جب کہ وہ ضرور آئے گی۔ اس کے بعد آخرت پر ایمان رکھنے والوں اور اس کے منکروں کی اور ان کے اچھے اور برے انجام کی مثال کے طور پر داؤد و سلیمان (علیہ السلام) کا اور قوم سبا کا ذکر فرمایا۔ آخرت کے بیان کے بعد یہاں سے پھر اسی توحید کا بیان شروع ہوتا ہے جس سے سورت کا آغاز ہوا تھا۔ لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ تو جسے چاہتا ہے داؤد و سلیمان (علیہ السلام) کی طرح نواز دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے قوم سبا کی طرح برباد کردیتا ہے، کیونکہ وہ آسمان و زمین کی ہر چیز کا مالک ہے، اب تم اپنے بناوٹی معبودوں کو پکارو، بھلا وہ تمہاری کوئی مدد کرسکتے ہیں ؟ نہیں، ہرگز نہیں، کیونکہ مدد وہ تب کریں جب ان کے پاس کوئی چیز ہو، وہ تو آسمان و زمین میں موجود ایک ذرے کے مالک بھی نہیں۔ دیکھیے سورة فاطر (١٣) ، مومنون (٨٨، ٨٩) ، نحل (٧٣) ، یونس (١٠٦) اور سورة جنّ (٢١، ٢٢) ۔ وَمَا لَهُمْ فِيْهِمَا مِنْ شِرْكٍ : یہ اس بات کا رد ہے کہ چلیے پورے مالک نہ سہی، ملکیت و اختیار میں ان کا کچھ حصہ ضرور ہے۔ دیکھیے سورة فاطر (٤٠) اور سورة احقاف (٤) ۔ وَّمَا لَهٗ مِنْهُمْ مِّنْ ظَهِيْرٍ : نہ ہی ان میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کا مددگار ہے جس سے کبھی اللہ تعالیٰ نے مدد لی ہو، یا اب مدد لیتا ہو۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (١١١) اور سورة کہف (٥١) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary These verses are meant to prove the falsity of three different types of idol-worshippers. The first group among them, and the most absurd of all, was of the people who believed that these idols, made of stones are the partners of Allah and His associates in all His powers. The beginning part of the verse 22 refutes their presumption by saying, |"They do not possess (anything) even to the measure of a particle...|". The second group of them used to believe that these idols are the helpers of Allah in managing affairs of the universe. The last part of Verse 22 deals with this group by saying, |"And He (Allah) has no helper from among them.|" There was a third group of people who did not hold the idols as gods or helpers of god, but they maintained that these idols are so close to Allah that their intercession is always approved by Him, and whoever has the advantage of their intercession, his desires may well be fulfilled. Verse 23 has refuted this belief by saying, |"And intercession before Him is of no benefit, but for the one whom He has permitted.|" The sense is that their assumption that idols are close to Allah is not correct. They are neither close to Allah, nor do they have any power of intercession before Him. Then the text clarifies that even angels who are close to Allah cannot intercede for anyone without Allah&s permission, and even if they are allowed to intercede, it is not easy for them to do that, because of Allah&s awe they& have in their hearts. The usual way in which they receive a command from Allah is that they become nervous, due to Allah&s awe, when they receive it. Then once they return to their normal condition, they ask each other about the command to ensure its correct nature. This is the sense of the later part of Verse 23 where it is said, |"Until when fear is removed from their hearts, they will say (to each other), |"What did your Lord say?|" They say, |"the Truth|".] l ] [ 1] This part is abridged from Khulasa-e-tafsir.(` Uthmani) As for angels becoming nervous out of awe referred to in verse 22, its full description is given in a report from Sayyidna Abu Hurairah (رض) appearing in the Sahih of al-Bukhari. Says the relevant part of the long Hadith report: When a command from Allah Ta’ ala issues forth through the heavens, all angels start flapping their wings in humility and emotional readiness to obey (as if dazed or benumbed of consciousness). When that effect of nervousness, awe and majesty recedes from their hearts, they say: &What did your Lord say?& Others tell them that He has spoken the truth and that such and such command has come from Him. And it appears in the Sahih of Muslim that Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) reports from some Sahabi that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, &When our Rabb, may His name be exalted, gives a command, the angels hold in the Divine Throne start reciting tasbih (saying glory) for Him. Hearing the tasbih done by them, angels of the next lower level of the heavens follow suit until this chain of glorification reaches the lowest level that is the firmament of the world (making it a simultaneously recited tasbih by angels from all heavens). Then, they ask the angels who are close to the Throne, &What did your Lord say?& This they tell them. Then, in the same manner, those of the lower heavens ask those of the upper the same question until this chain of question and answer extends up to the firmament of the world& - excerpt from a long Hadith. (Mazhari)

خلاصہ تفسیر آپ (ان لوگوں سے) فرمائیے کہ جن (معبودوں) کو تم خدا کے سوا (دخیل خدائی) سمجھ رہے ہو، ان کو (اپنی حاجتوں کے لئے) پکارو (تو سہی معلوم ہوجائے گا کہ کتنی قدرت اور اختیار رکھتے ہیں ان کی حالت واقعیہ تو یہ ہے کہ) وہ ذرہ برابر (کسی چیز کا) اختیار نہیں رکھتے نہ آسمانوں کی (کائنات) میں اور نہ زمین (کی کائنات) میں اور نہ ان کی ان دونوں (کے پیدا کرنے) میں کوئی شرکت ہے اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا (کسی کام میں) مددگار ہے، اور خدا کے سامنے (کسی کی) سفارش کسی کے لئے کام نہیں آتی (بلکہ سفارش ہی نہیں ہو سکتی) مگر اس کے لئے جس کی نسبت وہ (کسی سفارش کرنے والے کو) اجازت دے دے، (کفار و مشرکین میں کچھ جاہل تھے تو ایسے تھے جو پتھر کے خود تراشیدہ بتوں ہی کو حاجت روا اور کار فرما اور خدائی کا شریک سمجھتے تھے، ان کے رد کے لئے تو آیت کے پہلے جملے آئے، (آیت) (لا یملکون مثقال ذرة ومالہم فیہما من شرک) اور بعض لوگ اتنا قادر تو نہیں کہتے تھے مگر یہ عقیدہ رکھتے کہ یہ بت اللہ تعالیٰ کے کاموں میں اس کے مددگار ہیں، ان کے رد کے لئے یہ فرمایا (آیت) (مالہ منہم من ظہیر) اور کچھ ایسے سمجھدار تھے کہ ان بےجان بتوں کو کسی چیز کا خالق یا خالق کا مددگار تو نہیں مانتے تھے، مگر یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ اللہ کے نزدیک مقبول ہیں کہ جس کی سفارش کردیں اس کا کام بن جاتا ہے، جیسا کہ وہ کہا کرتے تھے (ھولاء شفعاؤنا عنداللہ) ان کے رد کے لئے فرمایا (ولا تنفع الشفاعة عندہ) جس کا حاصل یہ ہے کہ ان بتوں میں کسی قابلیت کے تو تم بھی قائل نہیں مگر تم اس دھوکہ میں ہو کہ ان کو اللہ کے نزدیک مقبولیت حاصل ہے۔ یہ محض تمہارا خیال بےبنیاد ہے، نہ ان میں کوئی قابلیت اور نہ اللہ کے نزدیک مقبولیت۔ آگے یہ ارشاد فرمایا کہ ان میں تو نہ کوئی قابلیت ہے نہ مقبولیت، جن میں قابلیت بھی موجود ہو اور مقبولیت بھی جیسے اللہ کے فرشتے وہ بھی کسی کی سفارش کرنے میں خود مختار نہیں، بلکہ ان کے لئے شفاعت کا قانون یہ ہے کہ جس شخص کے لئے سفارش کرنے کی اجازت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل جائے صرف اس کی سفارش کرسکتے ہیں اور وہ بھی بڑی مشکل سے۔ کیونکہ وہ خود اللہ تعالیٰ کی ہیبت و جلال سے مغلوب ہیں، جب ان کو کوئی عام حکم دیا جاتا ہے یا کسی کے لئے سفارش ہی کا حکم ملتا ہے تو وہ حکم سننے کے وقت ہیبت سے مدہوش ہوجاتے ہیں۔ جب یہ ہیبت کی کیفیت رفع ہوجاتی ہے اس وقت حکم پر غور کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ کر تحقیق کرلیتے ہیں کہ ہم نے جو حکم سنا ہے وہ کیا ہے، اس تحقیق کے بعد وہ حکم کی تعمیل کرتے ہیں جس میں کسی کی سفارش کا حکم بھی داخل ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب اللہ کے فرشتے جو قابلیت بھی رکھتے ہیں، مقبولیت عند اللہ بھی، وہ بھی کسی کی سفارش از خود بلا اجازت نہیں کرسکتے، اور جب کسی کے لئے اجازت ملتی بھی ہے تو خود ہیبت سے مدہوش جیسے ہوجاتے ہیں، اس کے بعد جب ہوش درست ہوتا ہے تو سفارش کرتے ہیں، تو یہ پتھروں کے خود تراشیدہ بت جن میں نہ کسی طرح کی قابلیت ہے نہ مقبولیت، وہ کیسے کسی کی سفارش کرسکتے ہیں ؟ فرشتوں کے مدہوش ہوجانے وغیرہ کا ذکر آگے آیت میں اس طرح آیا ہے کہ) یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ (جو حکم سننے کے وقت طاری ہوئی تھی) دور ہوجاتی ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا حکم فرمایا وہ کہتے ہیں کہ (فلاں) حق بات کا حکم فرمایا (جیسے طالب علم سبق پڑھنے کے بعد استاد کی تقریر کو صحیح کرنے اور یاد کرنے کے لئے باہم اس کا اعادہ کیا کرتے ہیں، یہ فرشتے بھی اپنے سنے ہوئے حکم کی باہم ایک دوسرے سے تحقیق و تصدیق کرتے ہیں۔ اس کے بعد حکم کی تعمیل کرتے ہیں) اور (اس کے روبرو فرشتوں کا ایسا حال ہوجانا کیا بعید ہے) وہ عالی شان سب سے بڑا ہے۔ اور آپ (ان سے تحقیق توحید کے لئے یہ بھی) پوچھئے کہ تم کو آسمان و زمین سے (پانی برسا کر اور نباتات نکال کر) کون روزی دیتا ہے (چونکہ اس کا جواب ان کے نزدیک ہی متعین ہے، اس لئے) آپ (ہی) کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ (روزی دیتا ہے) اور (یہ بھی کہئے کہ اس مسئلہ توحید میں) بیشک ہم یا تم ضرور راہ راست پر ہیں یا صریح گمراہی میں (یعنی یہ تو ہو نہیں سکتا کہ دو متضاد چیزیں توحید اور شرک دونوں صحیح اور حق ہوں، اور دونوں طرح کے عقیدے رکھنے والے اہل حق ہوں بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں عقیدوں میں سے ایک صحیح دوسرا غلط ہو۔ صحیح عقیدے کے رکھنے والے ہدایت پر اور غلط کا عقیدہ رکھنے والے گمراہی پر ہوں گے۔ اب تم غور کرلو کہ ان میں کون سا عقیدہ صحیح ہے اور کون حق و ہدایت پر ہے کون گمراہی پر) آپ (ان سے اس بحث و مناظرہ میں یہ بھی) فرما دیجئے (کہ ہم نے کھول کر حق و باطل کو واضح طور پر بیان کردیا ہے، اب تم اور ہم ہر ایک اپنے عمل کا ذمہ دار ہے) تم سے ہمارے جرائم کی باز پرس نہ ہوگی اور ہم سے تمہارے اعمال کی باز پرس نہ ہوگی اور (آپ ان سے یہ بھی) کہہ دیجئے کہ (ایک وقت ضرور آنے والا ہے جس میں) ہمارا رب سب کو (ایک جگہ) جمع کرے گا پھر ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ (عملی) کر دے گا اور وہ بڑا فیصلہ کرنے والا اور (سب کا حال) جاننے والا ہے، آپ (یہ بھی) کہئے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی شان عالی اور قدرت کاملہ کے دلائل سن لئے اور اپنے بتوں کی بےبسی بھی دیکھ لی) مجھ کو ذرا وہ تو دکھلاؤ جن کو تم نے شریک بنا کر (استحقاق عبادت میں) خدا کے ساتھ ملا رکھا ہے، ہرگز (اس کا کوئی شریک) نہیں بلکہ (واقع میں) وہی ہے اللہ (یعنی معبود برحق) زبردست حکمت والا۔ معارف ومسائل آیات مذکورہ میں حکم ربانی کے نزول کے وقت جو فرشتوں کا مدہوش ہوجانا پھر آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ پاچھ کرنے کا ذکر ہے، اس کا بیان صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے اس طرح آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی حکم نافذ فرماتے ہیں تو سب فرشتے خشوع و خضوع سے اپنے پر مارنے لگتے ہیں (اور مدہوش جیسے ہوجاتے ہیں) جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ اور ہیبت و جلال کا وہ اثر دور ہوجاتا ہے تو کہتے ہیں تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ دوسرے کہتے ہیں کہ فلاں حکم حق ارشاد فرمایا ہے۔ الحدیث۔ اور صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابن عباس کسی صحابی سے یہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہمارا رب تبارک اسمہ جب کوئی حکم دیتا ہے تو عرش کے اٹھانے والے فرشتے تسیح کرنے لگتے ہیں، ان کی تسبیح کو سن کر ان کے قریب والے آسمان کے فرشتے تسبیح پڑھنے لگتے ہیں، پھر ان کی تسبیح کو سن کر اس سے نیچے والے آسمان کے فرشتے تسبیح پڑھنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ یہ نوبت سماء دنیا (نیچے کے آسمان) تک پہنچ جاتی ہے (اور سب آسمانوں کے فرشتے تسبیح میں مشغول ہوجاتے ہیں) پھر وہ فرشتے جو حملہ عرش کے قریب ہیں ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے رب نے کیا فرمایا وہ بتلا دیتے ہیں، پھر اسی طرح ان سے نیچے کے آسمان والے اوپر والوں سے یہی سوال کرتے ہیں، یہاں تک کہ سوال و جواب کا یہ سلسلہ سماء دنیا تک پہنچ جاتا ہے۔ الحدیث (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ۝ ٠ ۚ لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَمَا لَہُمْ فِيْہِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّمَا لَہٗ مِنْہُمْ مِّنْ ظَہِيْرٍ۝ ٢٢ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ زعم الزَّعْمُ : حكاية قول يكون مظنّة للکذب، ولهذا جاء في القرآن في كلّ موضع ذمّ القائلون به، نحو : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن/ 7] ، لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف/ 48] ، كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام/ 22] ، زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء/ 56] ، وقیل للضّمان بالقول والرّئاسة : زَعَامَةٌ ، فقیل للمتکفّل والرّئيس : زَعِيمٌ ، للاعتقاد في قوليهما أنهما مظنّة للکذب . قال : وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف/ 72] ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم/ 40] ، إمّا من الزَّعَامَةِ أي : الکفالة، أو من الزَّعْمِ بالقول . ( ز ع م ) الزعمہ اصل میں ایسی بات نقل کرنے کو کہتے ہیں جس میں جھوٹ کا احتمال ہو اس لئے قرآن پاک میں یہ لفظ ہمیشہ اس موقع پر آیا ہے جہاں کہنے والے کی مذمت مقصود ہے چناچہ فرمایا : ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن/ 7] کفار یہ زعم کو کہتے ہیں ۔ لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف/ 48] مگر تم یہ خیال کرتے ہو ۔ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام/ 22] جن کو شریک خدائی سمجھتے تھے ۔ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء/ 56] جنہیں تم نے ) اللہ کے سوا ( معبود ) خیال کیا ۔ اور زعامۃ کے معنی ذمہ داری اٹھانے اور ریاست ( سرداری ) کے ہیں اور کفیل ( ضامن اور رئیں کو زعیم کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں کی بات میں جھوٹ کا احتمال ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف/ 72] اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم/ 40] ان میں سے کون اس کا ذمہ دار ہے ۔ یہاں زعیم یا تو زعامہ بمعنی کفالۃ سے ہے اور یا زعم بلقول سے ہے ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ ملك المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور، وذلک يختصّ بسیاسة الناطقین، ولهذا يقال : مَلِكُ الناسِ ، ولا يقال : مَلِك الأشياءِ ، وقوله : مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة/ 3] فتقدیره : الملک في يوم الدین، ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے یہی وجہ ہے کہ ملک امن اس تو کہا جاتا ہے لیکن ملک الاشیاء کہنا صحیح نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة/ 3] انصاف کے دن کا حاکم ۔ میں ملک کی اضافت یوم کی طرف نہیں ہے بلکہ یہ اسل میں ملک الملک فی یوم دین ہے ۔ یعنی قیامت کے دن اسی کی بادشاہت ہوگی ۔ مِثْقَال : ما يوزن به، وهو من الثّقل، وذلک اسم لکل سنج قال تعالی: وَإِنْ كانَ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنا بِها وَكَفى بِنا حاسِبِينَ [ الأنبیاء/ 47] ، وقال تعالی: فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ [ الزلزلة/ 7- 8] ، وقوله تعالی: فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة/ 6- 7] ، فإشارة إلى كثرة الخیرات، وقوله تعالی: وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ [ القارعة/ 8] ، فإشارة إلى قلّة الخیرات . والثقیل والخفیف يستعمل علی وجهين : أحدهما علی سبیل المضایفة، وهو أن لا يقال لشیء ثقیل أو خفیف إلا باعتباره بغیره، ولهذا يصحّ للشیء الواحد أن يقال خفیف إذا اعتبرته بما هو أثقل منه، و ثقیل إذا اعتبرته بما هو أخفّ منه، وعلی هذه الآية المتقدمة آنفا . والثاني أن يستعمل الثقیل في الأجسام المرجّحة إلى أسفل، کالحجر والمدر، والخفیف يقال في الأجسام المائلة إلى الصعود کالنار والدخان، ومن هذا الثقل قوله تعالی: اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] . المثقال ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے کسی چیز کا وزن کیا جائے چناچہ ہر باٹ کو مثقال کہہ سکتے ہیں قرآن میں ہے ؛۔ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ [ الزلزلة/ 7- 8] ، وقوله تعالی: فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة/ 6- 7] تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لیگا تو جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور آیت کریمہ :۔ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ [ القارعة/ 8] اور جس کے وزن ہلکے نکلیں گے ۔ میں وزن کے ہلکا نکلنے سے اعمال حسنہ کے کم ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ ثقیل اور خفیف کے الفاظ دو طرح استعمال ہوتے ہیں ایک بطور مقابلہ کے یعنی ایک چیز کو دوسری چیز کے اعتبار سے ثقیل یا خفیف کہہ دیا جاتا ہے چناچہ مذکورہ بالاآیت میں نہی معنی مراد ہیں اور دوسرے یہ کہ جو چیزیں ( طبعا) نیچے کی طرف مائل ہوتی ہیں انہیں ثقیل کہا جاتا ہے جیسے حجر مدر وغیرہ اور جو چیزیں ( طبعا) اوپر کو چڑھتی ہیں جیسے آگ اور دہواں انہیں حفیف کہا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ ؛ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] تو تم زمین پر گر سے جاتے ہو ۔ میں زمین پر گرنا دوسرے معنی کے اعتبار سے ہے ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ ظھیر ، وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ/ 22] ، أي : معین «3» . فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ [ القصص/ 86] ، وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم/ 4] ، وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً [ الفرقان/ ] ، أي : معینا للشّيطان علی الرّحمن . وقال أبو عبیدة «1» : الظَّهِيرُ هو المَظْهُورُ به . أي : هيّنا علی ربّه کا لشّيء الذي خلّفته، من قولک : ظَهَرْتُ بکذا، أي : خلفته ولم ألتفت إليه . ظھیر الظھیر۔ مدد گار ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ/ 22] اور نہ ان میں سے کوئی خدا کا مددگار ہے ۔ فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ [ القصص/ 86] تو تم ہر گز کافروں کے مددگار نہ ہونا ۔ وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم/ 4] اور ان کے علاوہ اور فرشتے بھی مددگار ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً [ الفرقان/اور کافر اپنے پروردگار کی مخالفت میں بڑا زورمارتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ کافر خدائے رحمٰن کی مخالفت میں شیطان کا مددگار بنا ہوا ہے ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ یہاں ظھیر کے معنی ہیں پس پشت ڈالا ہوا اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کافر کی مثال اس چیز کی سی ہے جسے بےوقعت سمجھ کر پس پشت ڈال دیا جائے اور یہ ظھر ت بکذا سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور درخواعتناء نہ سمجھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آپ کفار مکہ بنی ملیح والوں سے فرما دیجیے جن جھوٹے معبودوں کی تم اللہ کے علاوہ پوجا کر رہے ہو ان کو بلاؤ۔ یہ لوگ جنوں کی پوجا کیا کرتے تھے اور ان کو فرشتے سمجھتے تھے۔ وہ تمہیں ذرا برابر بھی نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتے نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور نہ ان فرشتوں کو آسمان و زمین کے پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی شرکت ہے اور نہ ان فرشتوں میں سے آسمان و زمین کے پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی مددگار ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ { قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان مشرکین سے) کہیے کہ تم بلائو ان کو جنہیں تم نے (معبود) گمان کیا ہے اللہ کے سوا۔ “ جن دیویوں اور دیوتائوں کو تم اپنے اولیاء اور مدد گار سمجھتے ہو انہیں پکار کر دیکھ لو کہ تمہیں کیا جواب دیتے ہیں ! { لَا یَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ } ” وہ ذرّہ برابر بھی اختیار نہیں رکھتے ‘ نہ آسمانوں میں اور نہ ہی زمین میں “ { وَمَا لَہُمْ فِیْہِمَا مِنْ شِرْکٍ وَّمَا لَہٗ مِنْہُمْ مِّنْ ظَہِیْرٍ } ” اور نہ ان دونوں (زمین اور آسمان) میں ان کا کوئی حصہ ہے ‘ اور نہ ہی ان میں سے کوئی اس کا مدد گار ہے۔ “ مشرکین ِعرب کے ہاں دو طرح کے مشرکانہ اعتقادات پائے جاتے تھے۔ ان کا ایک عقیدہ تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی کچھ محبوب ہستیاں ایسی ہیں جن کی بات کو وہ ٹال نہیں سکتا ‘ چاہے وہ اس کی بیٹیاں (وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے) ہوں یا انسانوں میں سے اس کی محبوب شخصیات۔ چناچہ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ کی ان محبوب ہستیوں کی سفارش سے آخرت میں وہ بچ جائیں گے۔ ان کا دوسرا مشرکانہ عقیدہ یہ تھا کہ اگرچہ اللہ اس کائنات کا خالق اور مالک ہے لیکن اس نے اس کائنات کا نظام چلانے کے لیے اپنے کچھ نائبین مقرر کر کے ان میں کچھ اختیارات تقسیم کر رکھے ہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ جس طرح دنیا کی سلطنتوں اور حکومتوں کا نظام چلانے کے لیے تمام بادشاہ اور حکمران اپنے نائبین مقرر کر کے انہیں کچھ اختیارات تفویض کردیتے ہیں اسی طرح اللہ کے مقرر کردہ نائبین اس کائنات کا نظام چلاتے ہیں ‘ اور وہ نہ صرف اللہ کے مدد گار ہیں بلکہ اس کے اختیارات میں بھی شریک ہیں۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں اس دوسری قسم کے مشرکانہ عقیدے کی نفی کی گئی ہے۔ اس حوالے سے یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ ہندوستانی دیو مالا (mythology) میں دیویوں اور دیوتائوں کا جو تصور پایا جاتا ہے اس میں اور ہمارے ایمان بالملائکہ میں بظاہر بہت باریک اور نازک سا فرق ہے۔ ہم بھی مانتے ہیں کہ کائنات کے اندر فرشتے اللہ کی طرف سے تفویض شدہ مختلف فرائض ادا کر رہے ہیں۔ اس لحاظ سے فرشتے گویا اللہ کی کائناتی حکومت کی ” سول سروس “ ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہمارا یہ عقیدہ بھی ہے کہ ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے ‘ وہ وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انہیں حکم ملتا ہے۔ لہٰذا ان میں سے کسی کو مدد کے لیے پکارنا ‘ کسی سے کسی قسم کی کوئی دعا کرنا یا استغاثہ کرنا جائز نہیں۔ کسی کے نفع یا نقصان کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے ‘ اس لیے دعا کے لیے پکارنا بھی اسی کو ہے۔ استمداد بھی اسی سے ہے اور استغاثہ بھی اسی سے۔ وہ قادرمطلق ہے ‘ وہ چاہے تو کسی کی براہ راست مدد کر دے یا کسی کی تکلیف رفع کرنے کے لیے کسی فرشتے کو بھیج دے۔ اس کے برعکس دیو مالائی تصور یہ ہے کہ جو ہستیاں اللہ کے نائبین کے طور پر کائنات کے اندر مختلف فرائض سنبھالے ہوئے ہیں وہ اللہ کے اختیارات میں بھی حصہ دار ہیں۔ چناچہ ان کے حضور اپنی حاجات بھی پیش کی جاسکتی ہیں ‘ ان سے دعا بھی کی جاسکتی ہے اور ان سے استغاثہ بھی کیا جاسکتا ہے ‘ جس کے جواب میں وہ اپنے پکارنے والوں کی حاجت روائی بھی کرتے ہیں اور مشکل کشائی بھی۔ چناچہ نظریاتی طور پر دیکھا جائے تو یہ باریک سا فرق دراصل زمین و آسمان کا فرق ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دیومالائی مشرکانہ تصورات دراصل ” ایمان بالملائکہ “ ہی کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

38 Until now the mushriks' wrong notions about the Hereafter have been dealt with. From here the discourse turns to the refutation of shirk itself. 39 That is, "Allah makes and un-makes the destinies of individuals and nations and kingdoms in ways as you have seen from the stories of the Prophets David and Solomon and the people of Saba. Now, you may invoke, if you so like, these self-made gods of yours to see whether they also possess the power to change someone's good fortune into misfortune and misfortune into good fortune. "

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :38 پچھلے دو رکوعوں میں آخرت کے متعلق مشرکین کے غلط تصورات پر کلام فرمایا گیا تھا ۔ اب تقریر کا رخ تردید شرک کے مضمون کی طرف پھر رہا ہے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :39 یعنی اللہ تو یوں اشخاص اور اقوام اور سلطنتوں کی قسمتیں بناتا اور بگاڑتا ہے ، جیسا کہ ابھی تم داؤد و سلیمان علیہما السلام اور قوم سبا کے ذکر میں سن چکے ہو ۔ اب ذرا اپنے ان بناوٹی معبودوں کو پکار کر دیکھ لو ، کیا ان میں بھی یہ طاقت ہے کہ کسی کے اقبال کو ادبار سے ، یا اِدبار کو اقال سے بدل سکیں؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٢۔ اوپر ذکر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمانبرداری بندوں داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) پر طرح طرح کے احسانات کئے اور نافرمانی کے سبب سے قوم سبا کو اجاڑ دیا ‘ صحیح بخاری وغیرہ کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ قریش نے جب اللہ کے رسول سے بہت مخالفت شروع کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کے حق میں بددعاء کی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بددعاء کے اثر سے مکہ میں سخت قحط پڑا۔ اس قحط کے زمانہ میں مشرکین مکہ نے اپنے بتوں سے مینہ برسنے کی بہت کچھ التجاء کی لیکن ایک بوند پانی کی نہیں پڑی آخر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ابوسفیان نے مینہ برسنے کی دعاء کی التجا کی اور آپ کی دعاء سے منیہ برسا۔ اسی طرح کی بےاختیاری جتلانے کے لیے حضرت داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) اور قوم سبا کا قصہ ذکر کر کے فرمایا اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان مشرکوں سے کہہ دو کہ اللہ کی قدرت کے مقابلہ کے پیدا کرنے میں ان کا کچھ ساجھا ہے نہ کسی چیز کے پیدا کرنے میں اللہ نے ان سے کچھ مدد چاہی ہے اس لیے نہ داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) جیسی بادشاہت یہ بت کسی کو دے سکتے ہیں نہ قوم سباجیسی کسی قوم کو یہ اجاڑ سکتے ہیں ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ مشرکین مکہ جس طرح دنیا میں اپنے بتوں سے نفع کی امید رکھتے تھے جس امید کے غلط ہونے کا حال مکہ کے قحط کے وقت ان کو اچھی طرح کھل گیا اسی طرح شیطان کے بہکانے سے ان لوگوں کا یہ اعتقاد بھی تھا کہ جن فرشتوں اور نیک لوگوں کی مورتوں کی ہم پوجا کرتے ہیں وہ عقبیٰ میں ہماری شفاعت کر کے دوزخ کے عذاب سے ہم کو بچالیں گے نیک لوگوں کی شفاعت کا حال تو سورة یونس میں گزر چکا کہ بجائے شفاعت کے وہ نیک لوگ اپنی مورتوں کی پوجا کرنے والوں سے دور بھاگیں گے اور اللہ تعالیٰ کو گواہ قرار دے کر یہ کہہ دیں گے کہ ہم ان لوگوں کے شرک سے بالکل بیخبر تھے فرشتوں کی شفاعت کا حال اسی سورة میں آگے آتا ہے کہ قیامت کے دنجب اللہ عتالیٰ فرتوں سے خفگی کے طور پر یہ دریافت فرمادے گا کہ کیا یہ لوگ تمہارے مورتوں کی دنیا میں پوجا کرتے تھے تو اللہ کے فرشتے بہت ڈریں گے اور صاف کہیں گے کہ شیطان کے بہکانے سے یہ لوگ شیطان کی پوجا کرتے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے دل میں شیطان نے ہمارے نام کی مورتوں کی پوجا کا وسوسہ ڈال دیا تھا ہماری مرضی کا اس میں ہرگز کچھ دخل نہیں تھا زیادہ تفصیل اس شفاعت کی آگے کی آیت میں آتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:22) قل۔ ای قل یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ ادعوا۔ دعوۃ (باب نصر) سے امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ تم بلائو ۔ (مخاطبین مشرکین مکہ تھے) ۔ ادعوا الذین زعمتم من دون اللہ۔ ای ادعوا الذین زعمتموہم الھۃ من دون اللہ۔ ہم ضمیر جمع مذکر راجع الی الموصول ہے۔ زعمتم کا مفعول اول ہے الھۃ مفعول ثانی۔ مفعول اول کو تخفیف کے لئے حذف کردیا گیا۔ کہ صلہ اور موصول بمنزلہ اسم واحد کے ہیں۔ مفعول ثانی الھۃ کو اس لئے حذف کردیا کہ اس کی صفت (من دون اللہ) اپنے موصوف الھۃ کے قائمقام ہے۔ ترجمہ ہوگا : (اے پیغمبر) کہہ دیجئے (مشرکین مکہ یا اپنی قوم کے مشرکوں سے) بلائو ان کو جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا تم معبود خیال کرتے ہو۔ مثقال ذرۃ۔ ذرہ برا بر۔ نیز ملاحظہ ہو (34:3) ۔ شرک۔ شرکت۔ ساجھا۔ اشراک (نہ ان کی ان دونوں میں کوئی شرکت ہے) ۔ ظھیر۔ مدد گار۔ مظاہرۃ سے بروزن فعیل بمعنی فاعل صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ مذکر مؤنث ، واحد، جمع ہر ایک کے لئے استعمال ہوتا ہے فعیل اور فعول دونوں میں یہی استعمال ہے۔ منہم ای من الہتہم اور نہ ہی اس کا ان میں سے کوئی مددگار ہے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اگر وہ مدد نہ کرتا تو خدا یہ آسمان اور زمین نہ بنا سکتا اور نہ ان کا انتظام کرسکتا۔ ( العیاذ باللہ)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 3 ۔ آیات 22 تا 30: اسرار و معارف : آپ اپنے مخاطبین سے بھی فرما دیجیے کہ اپنے مشرکانہ عقاید میں اللہ کے علاوہ جن بتوں سے تم نے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں ان کی بھی کوئی حیثیت نہیں کہ اگر پہلی امتوں پر آنے والے عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکا تو تمہارے معبودان باطلہ بھی تمہیں کوئی مدد نہ پہنچا سکیں گے اس لیے کہ کائنات میں وہ کسی ذرہ بھر شئے کے مالک نہیں نہ ان کی ذات باری کی ملکیت میں کسی طرح کی کوئی شراکت ہے اور نہ ہی ان میں یہ استعداد ہے کہ کسی کی مدد کرسکیں گے اگر تمہارا یہ عقیدہ ہے کہ ان کی شراکت تو نہیں لیکن یہ اللہ کریم کے نزدیک سفارش کرسکتے ہیں تو ان میں سفارش کرنے کی بھی استعداد نہیں کہ ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں جبکہ اس کی بارگاہ میں سفارش کرسکتے ہیں تو ان میں سفارش کرنے کی بھی استعداد نہیں کہ ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں جبکہ اس کی بارگاہ میں سرارش بھی ہر کوئی نہیں کرسکتا صرف اس کی بارگاہ کی مقبول ہوستیاں اور وہ بھی تب جب انہیں کسی معاملہ میں سفارش کی اجازت عطا ہو کرسکتی ہیں اس کے باوجود اس بارگاہ کے مقرب فرشتے تک لرزاں و ترساں رہتے ہیں کہ جب کبھی انہیں اس بارگاہ عالی سے کچھ ارشاد ہوتا ہے تو عظمت الہی سے مدہوش ہوجاتے ہیں تا آنکہ تا آنکہ جب ان کے دلوں سے ہیبت دور ہوچکے تو آپس میں ایک دوسرے سے مشورہ کرتے ہیں کہ بارگاہ عالی سے کیا ارشاد ہوا تھا اور تحقیق کے بعد تعمیل ارشاد پر کمر باندھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا ارشاد حق ہے اور وہ بہت عالی ہے سب سے اوپر۔ اور یہ ایسی روشن حقیقت ہے کہ یہ خود بھی جانتے ہیں بھلا ان سے پوچھیے کہ ارض و سما میں کو ایسی ہستی ہے جو سب کو رزق پہنچا رہی ہے جو اب ان کے پاس اس کے سوا نہ ہوگا کہ صرف اللہ تو آپ بھی فرما دیجیے کہ سب کا پروردگار صرف اللہ ہے کہ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ اب تمہارا عقیدہ مختلف ہے کہ تم اللہ کے علاوہ بھی دوسروں کی پوجا کرتے ہو اور ان سے امیدویں وابستہ کر رکھی ہیں جبکہ ہمارا سب بھروسہ ایک ذات پر ہے یعنی صرف اللہ پر اور دنوں باتیں بیک وقت درست ثابت نہیں ہوسکتیں کہ توحید بھی درست اور شرک بھی صحیح لہذا ایک فریق یقیناً گمراہ ہے خود اندازہ کرلو کہ کون ہوسکتا ہے یہاں اصول مناظرہ واضح ہوگیا کہ دلائل عقلی و نقلی سے حق کو ثابت کردیا جائے نہ کہ محض مقابل کی شکست ہی مطلوب ہو اور پھر اپنی بات دوروں پہ مسلط نہ کی جائے لہذا ارشاد ہوتا ہے کہ اگر تمہارے گمان کے مطابق ہم غلطی پر ہیں تو ہمارے جرائم کی پرسش تم لوگوں سے نہ ہوگی کہ تم کوئی جھگڑا کھڑا کرو اور اگر تم غلطی پر ہو تو اس کا خمیازہ تم ہی بھگتو گے لہذا ہمیں اس کی فکر نہ چاہیے رہی یہ بات کہ حق واضح ہونا چاہیے تو وہ وقت بھی بہت جلدی آ رہا ہے جب ہمارا پروردگار ہم تم سب کو یکجا جمع فرم اکر خود حق و باطل کا فیصلہ فرما دے گا کہ وہی حقیقتاً فیصلہ کرنے والا ہے جسے ہر شے اور ہر بات کا علم ہے بھلا جن باطل معبودوں کو تم اللہ سے ملاتے ہو اور ان کی عبادت بھی کرتے ہو ان سے امیدیں باندھ رکھی ہیں ان کی حیثیت کیا ہے اس طرح دلائل سے ہم پر ثابت تو کرو بلکہ تم ایسا کر ہی نہیں سکتے کہ اللہ بہت ہی بڑا غالب ہے سب پر اور وہ دانا تر ہے ان سب امور سے واقف ہے یہ اس کی حکمت بالغہ ہے کہ تمہیں موقع بخشتا جا رہا ہے رہی یہ بات کہ بھلا ہم تمہیں یہ سب کیوں کہتے ہیں تو اس لیے کہ ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا ہے اور آپ کا منصب عالی ہے کہ نیک عمل کرنے والوں کو ان کے نیک انجام کی بشارت دیں اور بدکاروں کو اعمال بد کے نتائج سے مطلع فرمائیں یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت بیک وقت روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لیے اور ہمیشہ کے لیے ہے آج بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی نبی ہیں اور آنے والی نسلوں کے نبی بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کوئی نیا نبی نہ آئے گا لہذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہر امتی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیغام کو پہنچانے اور حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کرنے کا ذمہ دار ہے مگر افسوس ہے ان بدبختوں پر کہ ایک کثیر تعداد انسانوں کی اس حقیقت سے بیخبر ہے بلکہ الٹا مذاق اڑاتے ہیں بھلا وہ دن کہاں جب فیصلہ ہوگا ا اور جس کا آپ وعدہ سناتے ہیں انہیں فرما دیجیے کہ تم سب کے لیے ایک روز کا وعدہ ہے جسے تم ٹال نہ سکوگے اور جو کبھی آگے پیچھے نہ ہوگا جیسے وقت مقررہ پر مر جاتے ہو اور کچھ نہیں کرسکتے اسی طرح وقت مقرر پر میدان حشر میں بھی حاضر ہوجاؤگے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 22 تا 23 ادعوا : پکارو۔ بلاؤ زعمتم : تم نے گمان کیا۔ تم نے سمجھا ظھیر : مددگار فزع : گھبراہٹ دور کردی گئی الحق : سچ تشریح : آیات نمبر 22 تا 23 اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا واقعہ اور اللہ کو ماننے اور اس کا شکر ادا کرنے والوں کا حال سنا کر بتایا ہے کہ جو لوگ صبر و شکر سے کام لیتے ہیں ان کو دنیا میں کیا صلہ اور بدلہ ملتا ہے اور آخرت میں ان کا کتنا عظیم مقام ہوگا ۔ اس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس کے بر خلاف قوم سبا کے واقعات زندگی کو سامنے رکھ کر فرمایا کہ جب وہ قوم جو ایک ہزار سال تک دنیا پر حکومت کرتی رہی تھی اس نے اللہ کے پغمبروں کی بات نہ سن کر اور شیطان کے جال میں پھنس کر اپنی دنیا اور آخرت کو برباد کر ڈالا تھا تو ان کا انجام کتنابھیانک ہوا تھا۔ در حقیقت ہمیشہ شیطان نے انسانوں کو اس دھوکے میں ڈالے رکھا ہے کہ وہ دنیا میں جو چاہیں کریں ۔ بس اپنے (من گھڑت) معبودوں کی عبادت و بندگی کرتے رہیں وہ ایسی عظمت وقدرت والی ہستیاں ہیں کہ اپنی سفارش سے جس کو چاہے بخشوالیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ تو ان کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے بےحقیقت بت ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اللہ کے وہ فرشتے جو بہت قریب ہیں وہ بھی اس وقت تک سفارشی کی جرات نہیں کرسکتے جب تک ان کو اس کی اجازت نہ دے دی جائے گی۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار مکہ کے سامنے اللہ کے ایک ہونے اور اس کی قدرت و طاقت کو مان کر اسی کی عبادت و بندگی کرنے کی تعلیم دی تو کفار جو اللہ کی ذات کے متعلق طرح طرح کے گمان رکھتے تھے وہ کہتے تھے کہ یہ بت، فرشتے اور نیک لوگوں کی روحیں ہماری سفارش کر کے ہمیں ہر طرح عذاب اور تکلیفوں سے بچا لیں گی۔ ان نادانوں کا ایک خیال تو یہ تھا کہ ہمارے بت اللہ کے معاملات پوری طرح شریک اور مددگار ہیں اسی لئے ہم اپنی حاجتیں اور مرادیں ان مانگتے ہیں کچھ لوگوں کا خیال یہ تا کہ یہ بت ہمارے خالق و ماک تو نہیں ہیں البتہ ان کو اللہ کے ہاں بڑا مقام حاصل ہے اگر وہ ہماری سفارش کردیں گے تو ہمارا کام بن جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے نادانوں سے فر مایا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنا معبود سمجھتے ہیں ان کو پکار کر تو دیکھیں ان پر حقیقت کھل جائے گی کہ وہ ذرہ برابر چیز بھی میں بھی شریک نہیں ہیں ۔ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں نہ تو شریک ہیں اور نہ کسی طرح سے اللہ کے مدد گار ہیں کیونکہ اللہ نے ہی زمین وآسمان اور ساری مخلوق کو پیدا کیا ہے وہ ان تمام چیزوں میں کسی کے سہارے کا محتاج نہیں ہے ۔ رہا یہ گمان کہ فرشتے اور بت اس کے پاس ان لوگوں کی سفارش کریں گے تو اس بات کو غور سے سن لیں کہ وہ فرشتے جو اللہ کے مقرب فرشتے ہیں وہ بھی اس وقت تک سفارش کرنے کی جرات نہیں کرسکتے جب تک اللہ کی طرف سے ان کو اجازت نہ دی جائے گی ۔ فرمایا کہ جب اللہ کی ایسی نورانی مخلوق کی محال نہیں ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اپنے لب بھی ہلا سکیں تو ان بےحقیقت بتوں کی کیا حیثیت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے سامنے کسی کو دم مانے تک کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس کے سامنے سب ہی سر جھکائے ہوئے ہیں فرشتے بھی اتنا ہی بول سکتے ہیں جتنی ان کو اجازت دی جائے گی ۔ فرشتوں کا کام یہ ہے کہ وہ تمام حالات کو اللہ کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور اللہ کے حکم کے منتظر رہتے ہیں ۔ پھر جب حکم الہی نازل ہوتا ہے تو اس کی عظمت و جلال کی آہٹ سے ان کے دل لرز اٹھتے ہیں اور سجدے میں گر پڑتے ہیں ۔ اس کے بعد خوف اور رعب کا اثر دل پر سے اللہ کے حکم سے دور ہوجاتا ہے تو نیچے والے فرشتے اوپر والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا حکم دیا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے جو کچھ فر مایا وہ بالکل حق اور سچ فرمایا ہے اور بس۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ رب العالمیین جب کوئی حکم دیتے ہیں تو عرش کو اٹھانے ولے فرشتے اللہ کی تسبیح و تقدیس کرنے لگتے ہیں ۔ ان کی تسبیح کو سن کر ان کے قریب والے آسمان کے فرشتے بھی تسبیح پڑھنے لگتے ہیں یہاں تک کہ بات ” سماء دنیا “ یعنی نیچے کے فرشتوں تک پہنچ جاتی ہے (اور سب فرشتے اللہ کی تسبیح و تقدیس کرنے میں مشغول ہوجاتے ہیں ) پھر وہ فرشتے جو عرش الہی کو اٹھائے ہوئے ہیں ان کے قریب والے فرشتے پوچھتے ہیں آپ کے رب نے کیا فرمایا۔ وہ اللہ کے دیئے حکم کو بتا دیتے ہیں ۔ پھر اس طرح نیچے کے آسمان والے اوپر والوں سے سوال کرتے ہیں ۔ یہاں تک سوال و جواب کا سلسلہ ” سماء دنیا “ تک پہنچ جاتا ہے ۔ (صحیح مسلم)

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی نہ ایجاد عالم میں ان کا کوئی دخل ہے اور نہ بعد موجود ہوجانے کے ان کا استقلالا اختیار ہے، اور نہ نیابة اختیار ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : شیطان کا سب سے بڑا حربہ یہ ہے کہ وہ انسان سے شرک کروائے، مشرک کا گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ بزرگوں کو اپنی اپنی خدائی میں شریک کر رکھا ہے جس کی تردید کی گئی ہے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان لوگوں خو بتلائیں جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں کہ وہ انہیں اپنی مدد کے لیے بلائیں۔ انہیں معلوم ہوجائے گا کہ وہ زمین و آسمان میں ایک ذرہ کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں اور نہ ہی ان میں کسی چیز میں حصہ دار ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی اللہ تعالیٰ کا معاون اور مددگار تھا اور ہے اور نہ ہوگا۔ جب اللہ تعالیٰ کی خدائی میں رائی کے دانے کے برابر بھی حصہ دار نہیں تو وہ اس کے حضور سفارش کرنے کا اختیار بھی نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور وہی سفارش کرپائے گا جسے وہ اجازت عنایت کرے گا۔ ہر دور کے مشرکوں کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کی عبادت اور ریاضت سے خوش ہو کر انہیں کچھ اختیارات دے رکھے ہیں اس لیے اگر بزرگ کسی کے حق میں سفارش کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی سفارش کو مسترد نہیں کرپائے گا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو ایسا اختیار نہیں دیا البتہ جن بزرگوں کو اللہ تعالیٰ سفارش کا حق دے گا وہ بھی کسی کے حق میں اتنی ہی سفارش کریں گے جتنی اللہ تعالیٰ اجازت دے گا۔ سفارش کرنے والے اور جن کے حق میں سفارش کی جائے گی وہ ڈر کے مارے بڑی آہستہ آواز اور چپکے سے ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ رب ذوالجلال نے اس سفارش کا کیا جواب دیا ہے ؟ سفارش کرنے والا اور جس کے حق میں سفارش کی جائے گی وہ خوف کے مارے ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ہمارا رب جو حکم صادر فرمائے گا وہ ہر حال میں حق اور عدل پر مبنی ہوگا کیونکہ وہ ظلم کرنے سے مبّرا اور ہر قسم کے شرک سے بلند وبالا ہے۔ بعض مفسرین نے اس گفتگو کو ملائکہ کی طرف منسوب کیا ہے کہ ملائکہ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہر اعتبار سے حق اور سچ ہے۔ یہاں دونوں مفہوم لینے کی گنجائش پائی جاتی ہے۔ مسائل ١۔ کائنات کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک اور معاون نہ تھا اور نہ ہے اور نہ ہو گا ٢۔ مشرک اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ جس کو پکارتے ہیں وہ ذرہ برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ ٣۔ مشرک جن کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی سفارش کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے حضور صرف وہی سفارش کرسکے گا جسے اللہ تعالیٰ اجازت عطا فرمائے گا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے مشرکوں کے تصورات سے بلندو بالا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے حضور سفارش کرنے کے آداب : ١۔ کون ہے جو اللہ کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے۔ (البقرۃ : ٢٥٥) ٢۔ قیامت کے دن سفارش کام نہ آئے گی۔ (البقرۃ : ٢٥٤) ٣۔ کافر اور مشرک کو کوئی سفارش فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ (المدثر : ٤٨) ٤۔ کافروں کا کوئی سفارشی نہیں ہوگا۔ (انعام : ٥١) ٥۔ ظالموں کا کوئی دوست ہوگا اور نہ سفارشی۔ (المومن : ١٨) ٦۔ بزرگ اور سردار بھی سفارش نہ کریں گے۔ (الروم : ١٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 192 ایک نظر میں یہ ایک مختصر سبق ہے جس کا موضوع توحید اور شرک ہے ، لیکن اس سبق میں انسان کے عقل و خرد کو پوری کائنات کی سیر کرالی جاتی ہے۔ ظاہری کائنات ہو یا مخفی ہو ، حاضرہویا غائب ہو ، زمین سے ہو یا افلاک سے ہو ، دنیا سے متعلق ہو یا آخرت سے ۔ اس سفر میں انسان پر اس قدر خوف طاری کردیا جاتا ہے کہ اس کا وجود کا نپنے لگتا ہے اور اللہ کا جلال اس پر اس قدر طاری ہوتا ہے کہ انسان مدہوش ہوجاتا ہے ۔ انسان کے سامنے اس کا نسب ، اس کا رزق اور جزاد سزا کے مناظر رکھے جاتے ہیں ۔ اس سبق میں نہایت ہی زور دار الفاظ میں لفظ قل قل قل کے ساتھ انسان کو جھنجھوڑا جاتا ہے ۔ ہر فقرے میں ایک لاجواب دلیل سامنے لائی جاتی ہے ۔ نہایت ہی قوی دلیل ۔ درس نمبر 196 تشریح آیات 22 ۔۔۔ تا۔۔۔ 27 قل ادعوا الذین ۔۔۔۔۔ منھم من ظھیر (22) “۔ آسمانوں اور زمین کے وسیع میدان میں یہ چیلنج ہے ۔ قل ادعوا الذین من دون اللہ (34: 22) ” کہو کہ پکار دیکھو اپنے معبود وں کو جن جو تم اللہ کے سوا اپنا معبود سمجھے بیٹھے ہو “۔ ان کو بلاؤ ، وہ آئیں ۔ ذرا ظاہرتو ہوں میدان میں ، دہ خود دعویٰ کریں یا تم ان کی جانب سے دعویٰ کرو کہ زمین و آسمانوں کی بادشاہت میں ان کے اختیارات کیا ہیں ؟ کچھ نہیں ۔ لا یملکون ۔۔۔۔۔۔ فی الارض (34: 22) ” وہ نہ آسمانوں میں کسی ذرے کے برابر چیز کے مالک ہیں اور نہ زمین میں “۔ ظاہر ہے کہ وہ اور نہ ان کی جانب سے کوئی اور اس زغم کا دعویٰ کرسکتا ہے کیونکہ مالک تو وہ ہوتا ہے جو کسی چیز میں متصرف ہوتا اور اس میں وہ متصرف نہیں ہیں ۔ لہٰذا یہ معبود کسی چیز کے مالک نہیں ہیں کیونکہ اس وسیع کائنات میں ان کا کوئی تصرف نہیں ہے ۔ وما لھم فیھما من شرک (34: 22) ” آسمان اور زمین کی ملکیت میں وہ شریک ہی نہیں “ ۔ یعنی نہ تو وہ واحد مالک ہیں اور نہ وہ شریک مالک ہیں۔ وما لہ منھم من ظھیر (34: 22) ” ان میں سے کوئی اللہ کا مددرگار بھی نہیں ہے “۔ تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ وہ رضا کارانہ طور پر اللہ کے مددگار ہوں ، یہ بھی نہیں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اشارہ مخصوص قسم کے معبودوں اور مخصوص قسم کے شرک کی طرف ہے۔ یعنی اشارہ ملائکہ کی طرف ہے ، جنہیں عرب اللہ کی بیٹیا سمجھتے تھے۔ سفارشی سمجھتے تھے اور انہیں کے بارے میں ان کا کہنا تھا۔ ما نعبدھم ۔۔۔۔۔ زلفی ” ہم ان کی بندگی اس لیے کرتے ہیں کہ یہ تو ہمیں اللہ کے بہت قریب کرتے ہیں “۔ یہی وجہ ہے کہ اگلی آیت میں سفارش کی نفی کی جاتی ہے اور ایک ایسے منظر میں جو نہایت ہی خوفناک ہے “۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین نے جن کو شریک قرار دیا ہے نہ انہیں کچھ اختیار ہے نہ آسمان و زمین میں ان کا کوئی ساجھا ان دونوں آیتوں میں مشرکین کی تردید فرمائی ہے، ارشاد فرمایا کہ اللہ کے سوا تم نے جنہیں معبود بنا رکھا ہے اور یہ سمجھ رہے ہو کہ وہ خدائی میں دخیل ہیں ذرا انہیں اپنی کسی حاجت کے لیے پکارو تو سہی تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ وہ ذرا برابر بھی کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں، اور یہ بھی سمجھ لو کہ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں تمہارے تجویز کیے ہوئے معبودوں کی کوئی شرکت نہیں ہے اور ان میں سے کوئی بھی اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کا مددگار نہیں ہے، نہ ایجاد عالم میں ان کا کوئی دخل ہے نہ اس کے باقی رکھنے میں نہ تصرفات میں۔ اور یہ بھی سمجھ لو کہ جل شانہٗ کی بارگاہ عالی میں کسی کے لیے کوئی شفاعت کام نہیں دے سکتی، تم لوگ جو یہ سمجھتے ہو کہ تمہارے تجویز کردہ معبود اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سفارش کردیں گے تو تمہارا یہ خیال غلط ہے۔ (کیونکہ ان میں بہت سے تو بےجان ہیں وہ شفاعت کو کیا جانیں، ان میں اس کی قابلیت ہی نہیں) اور ملائکہ اور حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیر کی سفارش کی بھی کوئی امید نہ رکھو جن کو تم نے معبود بنایا ہے اور سفارش کرنے والا سمجھا ہوا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس شخص کے بارے میں اجازت دی جائے گی مقبولان بارگاہ الٰہی اسی کے لیے سفارش کرسکیں گے، اور مشرکین اور کافروں کے لیے اجازت نہ ہوگی لہٰذا تم جو ان کی شفاعت کے امیدوار ہو تمہاری یہ امید بھی غلط ہے۔ سورة الانبیاء میں فرشتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا (وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَ ھُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ ) (اور وہ اسی کے لیے سفارش کریں گے جس کے لیے اللہ کی مرضی ہوگی اور وہ اس کی ہیبت سے ڈرتے ہیں۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23:۔ قل ادعوا الخ : امر برائے توبیخ ہے یہ چوتھے شبہ کا جواب ہے۔ مشرکین فرشتوں کو بھی عند اللہ شفیع غالب سمجھتے تھے۔ اور اسی لیے ان کی عبادت و تعظیم بجا لاتے۔ تاکہ وہ خوش ہو کر خدا کے یہاں ان کی سفارش کریں۔ و رابعہا قول من قال انا نعبد الاصنام التیھی صور الملائکۃ لیشفعوا لنار الخ (کبیر ج 7 ص 15) ۔ فرمایا جن کو تم اپنے کارساز اور سفارشی سمجھتے ہو انہیں حاجات میں پکار تو دیکھو ان میں سے کوئی بھی تمہارے کام نہیں آئے گا اور وہ تمہارے کام آ بھی کس طرح سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ خود عاجز اور بےبس ہیں اور زمین و آسمان میں ایک ذرے کا اختیار بھی نہیں رکھتے۔ نہ زمین و آسمان کے پیدا کرنے میں ان کا کوئی حصہ ہے اور نہ اس کائنات کو پیدا کرنے میں اور سارے جہان کا نظم و نسق چلانے میں اللہ تعالیٰ کو ان میں سے کسی کے تعاون کی ضرور ہی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(22) اے پیغمبر آپ دین حق کے ان منکروں سے فرما دیجئے کہ جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا اپنا معبود سمجھتے ہوں ان مفروضہ معبودوں کو پکارو وہ نہ آسمانوں میں ذرہ برابر کوئی اختیار رکھتے ہیں اور نہ زمین میں اور نہ آسمان و زمین کے پیدا کرنے میں ان مزعومہ اور مفروضہ معبودوں کی کوئی شرکت اور ساجھا ہے اور نہ ان معبودان باطلہ میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کا مددگار ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن معبودوں کو تم خدا کے سوا اس کی خدائی اور اس کی قدرت میں دخیل سمجھتے ہو اور ان کو معبود بنائے بیٹھے ہو ان کو اپنی حاجت روائی کیلئے پکار دیکھو تم کو معلوم ہوجائے گا کہ ان کے اختیار کی کیا حقیقت ہے۔ ان معبودان باطلہ کی کیفیت یہ ہے کہ نہ آسمانوں اور نہ زمینوں میں ان کی کچھ چلتی ہے اور نہ ایجاد عالم میں ان کو کوئی دخل ہے اور نہ وہ کسی حیثیت سے حضرت حق تعالیٰ کے مددگار ہیں پھر ان کو پکارنا محض عبث اور بیکار ہی نہیں بلکہ جہالت اور گمراہی ہے۔