Commentary These verses are meant to prove the falsity of three different types of idol-worshippers. The first group among them, and the most absurd of all, was of the people who believed that these idols, made of stones are the partners of Allah and His associates in all His powers. The beginning part of the verse 22 refutes their presumption by saying, |"They do not possess (anything) even to the measure of a particle...|". The second group of them used to believe that these idols are the helpers of Allah in managing affairs of the universe. The last part of Verse 22 deals with this group by saying, |"And He (Allah) has no helper from among them.|" There was a third group of people who did not hold the idols as gods or helpers of god, but they maintained that these idols are so close to Allah that their intercession is always approved by Him, and whoever has the advantage of their intercession, his desires may well be fulfilled. Verse 23 has refuted this belief by saying, |"And intercession before Him is of no benefit, but for the one whom He has permitted.|" The sense is that their assumption that idols are close to Allah is not correct. They are neither close to Allah, nor do they have any power of intercession before Him. Then the text clarifies that even angels who are close to Allah cannot intercede for anyone without Allah&s permission, and even if they are allowed to intercede, it is not easy for them to do that, because of Allah&s awe they& have in their hearts. The usual way in which they receive a command from Allah is that they become nervous, due to Allah&s awe, when they receive it. Then once they return to their normal condition, they ask each other about the command to ensure its correct nature. This is the sense of the later part of Verse 23 where it is said, |"Until when fear is removed from their hearts, they will say (to each other), |"What did your Lord say?|" They say, |"the Truth|".] l ] [ 1] This part is abridged from Khulasa-e-tafsir.(` Uthmani) As for angels becoming nervous out of awe referred to in verse 22, its full description is given in a report from Sayyidna Abu Hurairah (رض) appearing in the Sahih of al-Bukhari. Says the relevant part of the long Hadith report: When a command from Allah Ta’ ala issues forth through the heavens, all angels start flapping their wings in humility and emotional readiness to obey (as if dazed or benumbed of consciousness). When that effect of nervousness, awe and majesty recedes from their hearts, they say: &What did your Lord say?& Others tell them that He has spoken the truth and that such and such command has come from Him. And it appears in the Sahih of Muslim that Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) reports from some Sahabi that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, &When our Rabb, may His name be exalted, gives a command, the angels hold in the Divine Throne start reciting tasbih (saying glory) for Him. Hearing the tasbih done by them, angels of the next lower level of the heavens follow suit until this chain of glorification reaches the lowest level that is the firmament of the world (making it a simultaneously recited tasbih by angels from all heavens). Then, they ask the angels who are close to the Throne, &What did your Lord say?& This they tell them. Then, in the same manner, those of the lower heavens ask those of the upper the same question until this chain of question and answer extends up to the firmament of the world& - excerpt from a long Hadith. (Mazhari)
خلاصہ تفسیر آپ (ان لوگوں سے) فرمائیے کہ جن (معبودوں) کو تم خدا کے سوا (دخیل خدائی) سمجھ رہے ہو، ان کو (اپنی حاجتوں کے لئے) پکارو (تو سہی معلوم ہوجائے گا کہ کتنی قدرت اور اختیار رکھتے ہیں ان کی حالت واقعیہ تو یہ ہے کہ) وہ ذرہ برابر (کسی چیز کا) اختیار نہیں رکھتے نہ آسمانوں کی (کائنات) میں اور نہ زمین (کی کائنات) میں اور نہ ان کی ان دونوں (کے پیدا کرنے) میں کوئی شرکت ہے اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا (کسی کام میں) مددگار ہے، اور خدا کے سامنے (کسی کی) سفارش کسی کے لئے کام نہیں آتی (بلکہ سفارش ہی نہیں ہو سکتی) مگر اس کے لئے جس کی نسبت وہ (کسی سفارش کرنے والے کو) اجازت دے دے، (کفار و مشرکین میں کچھ جاہل تھے تو ایسے تھے جو پتھر کے خود تراشیدہ بتوں ہی کو حاجت روا اور کار فرما اور خدائی کا شریک سمجھتے تھے، ان کے رد کے لئے تو آیت کے پہلے جملے آئے، (آیت) (لا یملکون مثقال ذرة ومالہم فیہما من شرک) اور بعض لوگ اتنا قادر تو نہیں کہتے تھے مگر یہ عقیدہ رکھتے کہ یہ بت اللہ تعالیٰ کے کاموں میں اس کے مددگار ہیں، ان کے رد کے لئے یہ فرمایا (آیت) (مالہ منہم من ظہیر) اور کچھ ایسے سمجھدار تھے کہ ان بےجان بتوں کو کسی چیز کا خالق یا خالق کا مددگار تو نہیں مانتے تھے، مگر یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ اللہ کے نزدیک مقبول ہیں کہ جس کی سفارش کردیں اس کا کام بن جاتا ہے، جیسا کہ وہ کہا کرتے تھے (ھولاء شفعاؤنا عنداللہ) ان کے رد کے لئے فرمایا (ولا تنفع الشفاعة عندہ) جس کا حاصل یہ ہے کہ ان بتوں میں کسی قابلیت کے تو تم بھی قائل نہیں مگر تم اس دھوکہ میں ہو کہ ان کو اللہ کے نزدیک مقبولیت حاصل ہے۔ یہ محض تمہارا خیال بےبنیاد ہے، نہ ان میں کوئی قابلیت اور نہ اللہ کے نزدیک مقبولیت۔ آگے یہ ارشاد فرمایا کہ ان میں تو نہ کوئی قابلیت ہے نہ مقبولیت، جن میں قابلیت بھی موجود ہو اور مقبولیت بھی جیسے اللہ کے فرشتے وہ بھی کسی کی سفارش کرنے میں خود مختار نہیں، بلکہ ان کے لئے شفاعت کا قانون یہ ہے کہ جس شخص کے لئے سفارش کرنے کی اجازت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل جائے صرف اس کی سفارش کرسکتے ہیں اور وہ بھی بڑی مشکل سے۔ کیونکہ وہ خود اللہ تعالیٰ کی ہیبت و جلال سے مغلوب ہیں، جب ان کو کوئی عام حکم دیا جاتا ہے یا کسی کے لئے سفارش ہی کا حکم ملتا ہے تو وہ حکم سننے کے وقت ہیبت سے مدہوش ہوجاتے ہیں۔ جب یہ ہیبت کی کیفیت رفع ہوجاتی ہے اس وقت حکم پر غور کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ کر تحقیق کرلیتے ہیں کہ ہم نے جو حکم سنا ہے وہ کیا ہے، اس تحقیق کے بعد وہ حکم کی تعمیل کرتے ہیں جس میں کسی کی سفارش کا حکم بھی داخل ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب اللہ کے فرشتے جو قابلیت بھی رکھتے ہیں، مقبولیت عند اللہ بھی، وہ بھی کسی کی سفارش از خود بلا اجازت نہیں کرسکتے، اور جب کسی کے لئے اجازت ملتی بھی ہے تو خود ہیبت سے مدہوش جیسے ہوجاتے ہیں، اس کے بعد جب ہوش درست ہوتا ہے تو سفارش کرتے ہیں، تو یہ پتھروں کے خود تراشیدہ بت جن میں نہ کسی طرح کی قابلیت ہے نہ مقبولیت، وہ کیسے کسی کی سفارش کرسکتے ہیں ؟ فرشتوں کے مدہوش ہوجانے وغیرہ کا ذکر آگے آیت میں اس طرح آیا ہے کہ) یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ (جو حکم سننے کے وقت طاری ہوئی تھی) دور ہوجاتی ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا حکم فرمایا وہ کہتے ہیں کہ (فلاں) حق بات کا حکم فرمایا (جیسے طالب علم سبق پڑھنے کے بعد استاد کی تقریر کو صحیح کرنے اور یاد کرنے کے لئے باہم اس کا اعادہ کیا کرتے ہیں، یہ فرشتے بھی اپنے سنے ہوئے حکم کی باہم ایک دوسرے سے تحقیق و تصدیق کرتے ہیں۔ اس کے بعد حکم کی تعمیل کرتے ہیں) اور (اس کے روبرو فرشتوں کا ایسا حال ہوجانا کیا بعید ہے) وہ عالی شان سب سے بڑا ہے۔ اور آپ (ان سے تحقیق توحید کے لئے یہ بھی) پوچھئے کہ تم کو آسمان و زمین سے (پانی برسا کر اور نباتات نکال کر) کون روزی دیتا ہے (چونکہ اس کا جواب ان کے نزدیک ہی متعین ہے، اس لئے) آپ (ہی) کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ (روزی دیتا ہے) اور (یہ بھی کہئے کہ اس مسئلہ توحید میں) بیشک ہم یا تم ضرور راہ راست پر ہیں یا صریح گمراہی میں (یعنی یہ تو ہو نہیں سکتا کہ دو متضاد چیزیں توحید اور شرک دونوں صحیح اور حق ہوں، اور دونوں طرح کے عقیدے رکھنے والے اہل حق ہوں بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں عقیدوں میں سے ایک صحیح دوسرا غلط ہو۔ صحیح عقیدے کے رکھنے والے ہدایت پر اور غلط کا عقیدہ رکھنے والے گمراہی پر ہوں گے۔ اب تم غور کرلو کہ ان میں کون سا عقیدہ صحیح ہے اور کون حق و ہدایت پر ہے کون گمراہی پر) آپ (ان سے اس بحث و مناظرہ میں یہ بھی) فرما دیجئے (کہ ہم نے کھول کر حق و باطل کو واضح طور پر بیان کردیا ہے، اب تم اور ہم ہر ایک اپنے عمل کا ذمہ دار ہے) تم سے ہمارے جرائم کی باز پرس نہ ہوگی اور ہم سے تمہارے اعمال کی باز پرس نہ ہوگی اور (آپ ان سے یہ بھی) کہہ دیجئے کہ (ایک وقت ضرور آنے والا ہے جس میں) ہمارا رب سب کو (ایک جگہ) جمع کرے گا پھر ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ (عملی) کر دے گا اور وہ بڑا فیصلہ کرنے والا اور (سب کا حال) جاننے والا ہے، آپ (یہ بھی) کہئے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی شان عالی اور قدرت کاملہ کے دلائل سن لئے اور اپنے بتوں کی بےبسی بھی دیکھ لی) مجھ کو ذرا وہ تو دکھلاؤ جن کو تم نے شریک بنا کر (استحقاق عبادت میں) خدا کے ساتھ ملا رکھا ہے، ہرگز (اس کا کوئی شریک) نہیں بلکہ (واقع میں) وہی ہے اللہ (یعنی معبود برحق) زبردست حکمت والا۔ معارف ومسائل آیات مذکورہ میں حکم ربانی کے نزول کے وقت جو فرشتوں کا مدہوش ہوجانا پھر آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ پاچھ کرنے کا ذکر ہے، اس کا بیان صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے اس طرح آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی حکم نافذ فرماتے ہیں تو سب فرشتے خشوع و خضوع سے اپنے پر مارنے لگتے ہیں (اور مدہوش جیسے ہوجاتے ہیں) جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ اور ہیبت و جلال کا وہ اثر دور ہوجاتا ہے تو کہتے ہیں تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ دوسرے کہتے ہیں کہ فلاں حکم حق ارشاد فرمایا ہے۔ الحدیث۔ اور صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابن عباس کسی صحابی سے یہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہمارا رب تبارک اسمہ جب کوئی حکم دیتا ہے تو عرش کے اٹھانے والے فرشتے تسیح کرنے لگتے ہیں، ان کی تسبیح کو سن کر ان کے قریب والے آسمان کے فرشتے تسبیح پڑھنے لگتے ہیں، پھر ان کی تسبیح کو سن کر اس سے نیچے والے آسمان کے فرشتے تسبیح پڑھنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ یہ نوبت سماء دنیا (نیچے کے آسمان) تک پہنچ جاتی ہے (اور سب آسمانوں کے فرشتے تسبیح میں مشغول ہوجاتے ہیں) پھر وہ فرشتے جو حملہ عرش کے قریب ہیں ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے رب نے کیا فرمایا وہ بتلا دیتے ہیں، پھر اسی طرح ان سے نیچے کے آسمان والے اوپر والوں سے یہی سوال کرتے ہیں، یہاں تک کہ سوال و جواب کا یہ سلسلہ سماء دنیا تک پہنچ جاتا ہے۔ الحدیث (مظہری)