Surat Saba

Surah: 34

Verse: 23

سورة سبأ

وَ لَا تَنۡفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا لِمَنۡ اَذِنَ لَہٗ ؕ حَتّٰۤی اِذَا فُزِّعَ عَنۡ قُلُوۡبِہِمۡ قَالُوۡا مَاذَا ۙ قَالَ رَبُّکُمۡ ؕ قَالُوا الۡحَقَّ ۚ وَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡکَبِیۡرُ ﴿۲۳﴾

And intercession does not benefit with Him except for one whom He permits. [And those wait] until, when terror is removed from their hearts, they will say [to one another], "What has your Lord said?" They will say, "The truth." And He is the Most High, the Grand.

شفاعت ( شفارش ) بھی اس کے پاس کچھ نفع نہیں دیتی بجز ان کے جن کے لئے اجازت ہو جائے یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کر دی جاتی ہے تو پوچھتے ہیں تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا؟ جواب دیتے ہیں کہ حق فرمایا اور وہ بلند و بالا اور بہت بڑا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلاَ تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلاَّ لِمَنْ أَذِنَ لَهُ ... Intercession with Him profits not except for him whom He permits. meaning, because of His might, majesty and pride, no one would dare to intercede with Him in any matter, except after being granted His permission to intercede. As Allah says: مَن ذَا الَّذِى يَشْفَعُ عِندَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ Who is he that can intercede with Him except with His permission. (2:255) وَكَمْ مِّن مَّلَكٍ فِى السَّمَـوَتِ لاَ تُغْنِى شَفَـعَتُهُمْ شَيْياً إِلاَّ مِن بَعْدِ أَن يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَن يَشَأءُ وَيَرْضَى And there are many angels in the heavens, whose intercession will avail nothing except after Allah has given leave for whom He wills and is pleased with. (53:26) وَلاَ يَشْفَعُونَ إِلاَّ لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمْ مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ and they cannot intercede except for him with whom He is pleased. And they stand in awe for fear of Him. (21:28) It was reported in the Two Sahihs through more than one chain of narration that the Messenger of Allah, who is the leader of the sons of Adam and the greatest intercessor before Allah, will go to stand in Al-Maqam Al-Mahmud(the praised position) to intercede for all of mankind when their Lord comes to pass judgement upon them. He said: فَأَسْجُدُ للهِ تَعَالَى فَيَدَعُنِي مَااَشاءَ اللهُ أَنْ يَدَعَنِي وَيَفْتَحُ عَلَيَّ بِمَحَامِدَ لاَأ أُحْصِيهَا الاْأنَ ثُمَّ يُقَالُ يَامُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَقُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَهُ وَاشْفَعْ تُشَفَّع Then I will prostrate to Allah, may He be exalted, and He will leave me (in that position), as long as Allah wills, and He will inspire me to speak words of praise which I cannot mention now. Then it will be said, "O Muhammad, raise your head. - Speak, you will be heard; - ask, you will be given; - intercede, your intercession will be accepted..." ... حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ ... So much so that when fear is banished from their hearts, they say: "What is it that your Lord has said!" They say the truth. This also refers to the great degree of His might and power. When He speaks words of revelation, the inhabitants of the heavens hear what He says, and they tremble with fear (of Allah) so much that they swoon. This was the view of Ibn Mas`ud, may Allah be pleased with him, Masruq and others. حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ (So much so that when fear is banished from their hearts) means, when the fear leaves their hearts. Ibn Abbas, Ibn Umar, Abu Abdur-Rahman As-Sulami, Ash-Sha`bi, Ibrahim An-Nakha`i, Ad-Dhahhak, Al-Hasan and Qatadah said concerning the Ayah, حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ (So much so that when fear is banished from their hearts, they say: "What is it that your Lord has said!" They say the truth), "When the fear is lifted from their hearts." When this happens, some of them say to others, "What did your Lord say!" Those (angels) who are carrying the Throne tell those who are next to them, then they in turn pass it on to those who are next to them, and so on, until the news reaches the inhabitants of the lowest heaven. Allah says, قَالُوا الْحَقَّ (They say the truth) meaning, they report what He said, without adding or taking away anything. ... وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ And He is the Most High, the Most Great. In his Tafsir of this Ayah in his Sahih, Al-Bukhari recorded that Abu Hurayrah, may Allah be pleased with him said, "The Prophet of Allah said: إِذَا قَضَى اللهُ تَعَالَى الاَْمْرَ فِي السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلَيِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ كَأَنَّهُ سِلْسِلَةٌ عَلَى صَفْوَانٍ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا لِلَّذِي قَالَ الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ فَيَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُ السَّمْعِ وَمُسْتَرِقُ السَّمْعِ هَكَذَا بَعْضُهُ فَوْقَ بَعْضٍ وَوَصَفَ سُفْيَانُ بِيَدِهِ فَحَرَّفَهَا وَنَشَرَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ فَيَسْمَعُ الْكَلِمَةَ فَيُلْقِيهَا إِلَى مَنْ تَحْتَهُ ثُمَّ يُلْقِيهَا الاْخَرُ إِلَى مَنْ تَحْتَهُ حَتْى يُلْقِيَهَا عَلَى لِسَانِ السَّاحِرِ أَوِ الْكَاهِنِ فَرُبَّمَا أَدْرَكَهُ الشِّهَابُ قَبْلَ أَنْ يُلْقِيَهَا وَرُبَّمَا أَلْقَاهَا قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَهُ فَيَكْذِبُ مَعَهَا مِايَةَ كَذْبَةٍ فَيُقَالُ أَلَيْسَ قَدْ قَالَ لَنَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا فَيُصَدَّقُ بِتِلْكَ الْكَلِمَةِ الَّتِي سُمِعَتْ مِنَ السَّمَاء When Allah decrees a matter in heaven, the angels beat their wings in submission to His Words, making a sound like a chain striking a smooth rock. When the fear is banished from their hearts, they say, "What is it that your Lord has said!" They say the truth, and He is the Most High, the Most Great. Then the one who is listening out hears that, and those who are listening out are standing one above the other. -- Sufyan (one of the narrators) demonstrated with his hand, holding it vertically with the fingers outspread. So he hears what is said and passes it on to the one below him, and that one passes it to the one who is below him, and so on until it reaches the lips of the soothsayer or fortune-teller. Maybe a meteor will hit him before he can pass anything on, or maybe he will pass it on before he is hit. He tells a hundred lies alongside it, but it will be said, "Did he not tell us that on such and such a day, such and such would happen?" So they believe him because of the one thing which was heard from heaven." This was recorded by Al-Bukhari, not by Muslim. Abu Dawud, At-Tirmidhi and Ibn Majah also recorded it. And Allah knows best.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 ' جن کے لئے اجازت ہوجائے ' کا مطلب ہے انبیاء اور ملائکہ وغیرہ یعنی یہی سفارش کرسکیں گے، کوئی اور نہیں۔ اس لئے کہ کسی اور کی سفارش فائدے مند ہوگی، نہ انھیں اجازت ہی ہوگی۔ دوسرا مطلب ہے۔ مستحقین شفاعت۔ یعنی انبیاء (علیہم السلام) و ملائکہ اور صالحین صرف انھیں کے حق میں سفارش کرسکیں گے جو مستحقین شفاعت ہوں گے کیونکہ اللہ کی طرف سے انھیں کے حق میں سفارش کرنے کی اجازت ہوگی، کسی اور کے لئے نہیں (فتح القدیر) مطلب یہ ہوا کہ انبیاء (علیہم السلام) ملائکہ اور صالحین کے علاوہ وہاں کوئی سفارش نہیں کرسکے گا اور یہ حضرات بھی سفارش اہل ایمان گناہ گاروں کے لیے ہی کرسکیں گے کافر و مشرک اور اللہ کے باغیوں کے لیے نہیں قرآن کریم نے دوسرے مقام پر ان دونوں نکتوں کی وضاحت فرمادی ہے۔ (مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ) 2 ۔ البقرۃ :255) ( وَلَا يَشْفَعُوْنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى) 21 ۔ الانبیاء :28)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٣٧] اکثر مشرکوں کا اپنے معبودوں کے متلعق یہ عقیدہ بھی پایا جاتا ہے کہ وہ بڑے خدا یعنی اللہ کے ہاں ان کی سفارش کرتے ہیں اگرچہ کام بنانے والا اللہ ہی ہوتا ہے۔ ہمارے یہ معبود یا بزرگ اللہ کے ہاں ہماری سفارش کرکے ہمارے کام اللہ سے کروانے کا سبب ہوتے ہیں لہذا اللہ تعالیٰ نے سفارش کے متعلق بھی اپنا ضابطہ بیان فرما دیا۔ اور یہ ضابطہ پہلے قرآن میں متعدد بار گزر چکا ہے۔ مختصراً یہ کہ (١) اللہ کے ہاں سفارش وہی شخص کرسکے گا، جس کو اللہ کی طرف سے اجازت ملے گی۔ یہ کیا معلوم کہ جسے تم نے سفارشی سمجھ رکھا ہے۔ اسے اجازت بھی ملتی ہے یا نہیں، (٢) اس شخص کے حق میں سفارش کی جاسکے گی، جس کے متعلق اللہ چاہے اور تمہیں یہ کیسے معلوم ہوسکتا ہے کہ تمہارے حق میں اللہ کی طرف سے سفارش کی اجازت کسی کو ملتی ہے یا نہیں ؟ (٣) اور صرف اس گناہ کی مغفرت کی سفارش کی جاسکتی ہے جس کے متعلق اللہ چاہے۔ یہ قید سفارش کے تصور کو اور بھی محدود بنا دیتی ہے۔ پھر تم کس خیال میں ان معبودوں یا بزرگوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہو۔ بروقت اپنی فکر خود کرلو اور کسی کی سفارش پر تکیہ مت رکھو۔ [ ٣٨] تم اللہ کے ہاں سفارش کی بات کرتے ہو جس کی جلالت اور عظمت شان کا یہ حال ہے کہ جب اس کی طرف سے کوئی حکم نازل ہوتا ہے تو اس کے پاس رہنے والے مقرب فرشتے تھر تھر کانپنے لگتے ہیں اور گبھرا جاتے ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : && جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے لئے از راہ عاجزی اپنے پر مارتے ہیں اور ایسی آواز آتی ہے جیسے کسی زنجیر کو صاف پتھر پر کھینچنے سے آتی ہے۔ پھر جب انھیں ہوش آتا ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتا ہے تمہارے پروردگار نے کیا کہا۔ دوسرا کہتا ہے کہ جو کہا درست کہا اور وہ بزرگ و برتر ہے آپ نے فرمایا : اور شیطان زمین اور آسمان کے درمیان ایک دوسرے کے اوپر جمع ہوجاتے ہیں (تاکہ آسمانی خبریں چرا سکیں) (ترمذی۔ کتاب التفسیر) ایسی جاہ و جلال والے اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی کو یہ جرات ہوسکتی ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرسکے۔ اور تم لوگ کس قسم کی خوش فہمیوں میں مبتلا ہو && محدثین اس حدیث کو اس آیت کی تفسیر میں اس لئے لائے ہیں کہ اہل عرب میں سے ایک گروہ فرشتوں کو کارگاہ عالم میں متصرف سمجھ کر ان کی پوجا کرتا تھا اور جو لوگ ان میں سے آخرت کے کسی حد تک قائل تھے وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر قیامت کو باز پرس ہوئی بھی تو یہ فرشتے اللہ کے ہاں ہماری سفارش کرکے ہمیں چھڑا لیں گے۔ اور بعض مفسرین نے اس آیت کو ان مشائخ اور پیروں سے متعلق کیا ہے جو اپنے مریدوں کو شفاعت کرکے چھڑا لینے کے وعدے کرتے اور کسی نہ کسی پیر کے دامن سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ یعنی کیا شافع اور کیا مشفوع دونوں قیامت کے دن کی گھبراہٹ سے سخت گھبرائے ہوئے ہوں گے اور دونوں اس انتظار میں ہوں گے کہ شفاعت کرنے کی اجازت ملتی بھی ہے یا نہیں۔ پھر اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے شافع کو شفاعت کی اجازت مل جائے تو اس کی گھبراہٹ کسی حد تک دور ہوجاتی ہے جس کو مشفوع بھانپ کر اس سے پوچھتا ہے کہ کیا جواب ملا تو شافع کہتا ہے کہ معاملہ ٹھیک ہے اجازت مل گئی ہے تو اس وقت مشفوع کی جان میں جان آتی ہے۔ اس میں شافع اور مشفوع دونوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ تم نے شفاعت سے متعلق جس قسم کا تصور باندھ رکھا ہے وہ قطعاً غلط ہے۔ اللہ کی بارگاہ اتنی عالی مرتبہ اور بڑی ہے کہ وہاں اللہ کی اجازت کے بغیر نہ مقرب فرشتوں کو دم مارنے کی ہمت ہوتی ہے اور نہ کسی اور بڑی شخصیت کو۔ کسی کو یوں کہنے کی ہمت نہ ہوگی کہ وہ اللہ تعالیٰ سے یوں کہہ سکے کہ یہ تو میرے دامن کے وابستہ ہے۔ لہذا اسے بخشنا ہی پڑے گا۔ کیونکہ شافع کو تو اپنی بھی خبر نہیں کہ اس کا کیا حال ہوگا وہ بھلا دوسروں کی ذمہ داری کیسے لے سکتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ : مشرکین کہتے تھے کہ ہم اپنے معبودوں کو اس لیے پکارتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے سفارش کر کے ہماری حاجت روائی اور مشکل کشائی کروا دیتے ہیں۔ (دیکھیے یونس : ١٨۔ زمر : ٣) یہ اس کا رد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی کی سفارش کام نہیں آتی، ہاں، جسے وہ خود اجازت دے اور جس کے حق میں اجازت دے۔” لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ “ (جس کے لیے وہ اجازت دے) میں یہ دونوں باتیں شامل ہیں۔ ظاہر ہے مشرک کو تو شفاعت کرنے کی جرأت ہی نہ ہوگی، اجازت تو دور کی بات ہے اور نہ ہی کسی کو مشرک کے حق میں سفارش کی اجازت ہوگی، کیونکہ اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے۔ (دیکھیے مائدہ : ٧٣) صرف ایمان والوں کے حق میں سفارش ہوگی، مگر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد، حتیٰ کہ فرشتے اور رسول بھی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کرسکیں گے۔ (دیکھیے نجم : ٢٦) سفارش تو دور کی بات ہے، وہاں اجازت کے بغیر کوئی بول بھی نہیں سکے گا۔ (دیکھیے طٰہٰ : ١٠٩) حتیٰ کہ سید الانبیاء والرسل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی سفارش کے لیے جائیں گے تو سجدے میں گرجائیں گے، لمبی مدت تک تسبیح و تحمید کے بعد سر اٹھانے اور سفارش کرنے کی اجازت ملے گی تو سفارش کریں گے، جیسا کہ حدیث شفاعت میں معروف ہے۔ حَتّىٰٓ اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ ۔۔ : ” فَزِعَ یَفْزَعُ “ (س) گھبرا جانا۔ ” فَزَّعَ یُفَزِّعُ “ (تفعیل) گھبراہٹ دور کرنا، خصوصاً جب اس کے ساتھ حرف ” عَنْ “ ہو۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اس سے پہلے جملے ” وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ “ کے ساتھ اس جملے کا کیا تعلق ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ تم جن ہستیوں کو اپنا سفارشی سمجھتے ہو اور کہتے ہو کہ وہ اپنے زور یا دبدبے یا اللہ کا محبوب ہونے کی وجہ سے اپنی بات منوا لیتے ہیں، ان کی کیا بساط ہے کہ اجازت کے بغیر سفارش کی جرأت کرسکیں۔ وہاں تو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے سامنے عرش معلی کے فرشتے اور ان کے نیچے آسمان دنیا تک کے فرشتے، جو برابر احکام الٰہی سنتے ہیں، ان کا یہ حال ہے کہ جب رب العزت کوئی وحی فرماتا ہے تو وہ سب اس کی ہیبت سے تھر تھرا اٹھتے ہیں، پھر جب اللہ تعالیٰ اس ہیبت کو ان کے دلوں سے ہٹا لیتا ہے تو ہر گروہ اپنے سے اوپر والے سے پوچھتا ہے کہ رب تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے ؟ ”ۭ قَالُوا الْحَقَّ “ وہ کہتے ہیں، اس نے حق فرمایا ہے۔ ” وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ “ اور وہی سب سے بلند اور بہت بڑا ہے۔ چناچہ وہ فرشتے اپنے نیچے والے فرشتوں کو حق تعالیٰ کی وحی کسی کمی بیشی کے بغیر پہنچاتے ہیں۔ پھر جب مقربین ملائکہ کی یہ حالت ہے، جو وحی کے عادی بنا دیے گئے ہیں، تو مشرکین کسی اور سے کیا توقع رکھتے ہیں ؟ بخاری نے اس آیت کی تفسیر میں ابوہریرہ (رض) سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِذَا قَضَی اللّٰہُ الْأَمْرَ فِي السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلاَءِکَۃُ بِأَجْنِحَتِہَا خُضْعَانًا لِقَوْلِہِ کَالسِّلْسِلَۃِ عَلٰی صَفْوَانٍ ، قَالَ عَلِيٌّ وَ قَالَ غَیْرُہُ صَفْوَانٍ یَنْفُذُہُمْ ذٰلِکَ ، فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِہِمْ قَالُوْا مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ ؟ قَالُوْا لِلَّذِیْ قَالَ الْحَقَّ وَہُوَ الْعَلِيُّ الْکَبِیْرُ ، فَیَسْمَعُہَا مُسْتَرِقُو السَّمْعِ ، وَ مُسْتَرِقُو السَّمْعِ ہٰکَذَا، وَاحِدٌ فَوْقَ آخَرَ وَ وَصَفَ سُفْیَانُ بِیَدِہِ ، وَ فَرَّجَ بَیْنَ أَصَابِعِ یَدِہِ الْیُمْنٰی، نَصَبَہَا بَعْضَہَا فَوْقَ بَعْضٍ فَرُبَّمَا أَدْرَکَ الشِّہَابُ الْمُسْتَمِعَ ، قَبْلَ أَنْ یَرْمِيَ بِہَا إِلٰی صَاحِبِہِ ، فَیُحْرِقُہُ وَ رُبَّمَا لَمْ یُدْرِکْہُ حَتّٰی یَرْمِيَ بِہَا إِلَی الَّذِيْ یَلِیْہِ إِلَی الَّذِيْ ہُوَ أَسْفَلُ مِنْہُ حَتّٰی یُلْقُوْہَا إِلَی الْأَرْضِ ، وَ رُبَّمَا قَالَ سُفْیَانُ حَتّٰی تَنْتَہِيَ إِلَی الْأَرْضِ فَتُلْقٰی عَلٰی فَمِ السَّاحِرِ ، فَیَکْذِبُ مَعَہَا ماءَۃَ کَذْبَۃٍ فَیُصَدَّقُ ، فَیَقُوْلُوْنَ أَلَمْ یُخْبِرْنَا یَوْمَ کَذَا وَکَذَا یَکُوْنُ کَذَا وَکَذَا ؟ فَوَجَدْنَاہُ حَقًّا، لِلْکَلِمَۃِ الَّتِيْ سُمِعَتْ مِنَ السَّمَاءِ ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( إلا من استرق السمع۔۔ ) : ٤٧٠١ ] ” جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اس کے فرمان کے سامنے عاجزی اختیار کرتے ہوئے اپنے پر پھڑ پھڑاتے ہیں۔ (انھیں اللہ کا فرمان اس طرح سنائی دیتا ہے) جیسے وہ صاف چکنے پتھر پر زنجیر کی آواز ہو، تو جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کی جاتی ہے تو وہ (آپس میں) پوچھتے ہیں : ” تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ “ وہ کہتے ہیں : ” اس نے حق فرمایا اور وہی سب سے بلند، بہت بڑا ہے۔ “ اس گفتگو کو چوری سننے والے شیاطین بھی سن لیتے ہیں، جو اس طرح ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہیں۔ “ حدیث کے راوی سفیان نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے اپنے ہاتھ کو کنارے کے رخ کیا اور انگلیوں کو کھول دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تو وہ شیطان وہ بات سن لیتا ہے اور اپنے سے نیچے والے شیطان کو بتادیتا ہے (یہ سلسلہ نیچے تک چلتا ہے) ، یہاں تک کہ سب سے نیچے والا وہ بات کسی جادوگر یا کاہن کو پہنچا دیتا ہے، پھر کبھی اس سے پہلے کہ وہ نیچے والے کو بات پہنچائے اسے آگ کا انگارا آ دبوچتا ہے اور اسے جلا دیتا ہے اور کبھی اس کے لگنے سے پہلے وہ اس بات کو آگے پہنچا دیتا ہے، تو وہ (جادوگر یا کاہن) اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا دیتا ہے، تو (جب آسمان سے سنی ہوئی بات صحیح ہوجاتی ہے تو اس کے ماننے والوں کی طرف سے) کہا جاتا ہے کہ کیا فلاں فلاں دن اس (جادو گر یا کاہن) نے ہمیں اس طرح نہیں کہا تھا ؟ تو اس ایک بات کی وجہ سے جو شیطان نے آسمان سے سنی تھی کاہن یا ساحر کی بات کو سچا سمجھ لیا جاتا ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ۝ ٠ ۭ حَتّٰٓي اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِہِمْ قَالُوْا مَاذَا۝ ٠ ۙ قَالَ رَبُّكُمْ۝ ٠ ۭ قَالُوا الْحَقَّ۝ ٠ ۚ وَہُوَالْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ۝ ٢٣ نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔ شَّفَاعَةُ : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87] ، لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه/ 109] ، لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم/ 26] ، وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء/ 28] ، فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر/ 48] ، أي : لا يشفع لهم، وَلا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفاعَةَ [ الزخرف/ 86] ، مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر/ 18] ، مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء/ 85] ، وَمَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً سَيِّئَةً [ النساء/ 85] ، أي : من انضمّ إلى غيره وعاونه، وصار شَفْعاً له، أو شَفِيعاً في فعل الخیر والشّرّ ، فعاونه وقوّاه، وشارکه في نفعه وضرّه . وقیل : الشَّفَاعَةُ هاهنا : أن يشرع الإنسان للآخر طریق خير، أو طریق شرّ فيقتدي به، فصار كأنّه شفع له، وذلک کما قال عليه السلام : «من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» «1» أي : إثمها وإثم من عمل بها، وقوله : ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس/ 3] ، أي : يدبّر الأمر وحده لا ثاني له في فصل الأمر إلّا أن يأذن للمدبّرات، والمقسّمات من الملائكة فيفعلون ما يفعلونه بعد إذنه . واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، وشَفَّعَهُ : أجاب شفاعته، ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» «2» والشُّفْعَةُ هو : طلب مبیع في شركته بما بيع به ليضمّه إلى ملكه، وهو من الشّفع، وقال عليه السلام : «إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» الشفاعۃ کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه/ 109] اس روز کسی کی شفارش فائدہ نہ دے گی ۔ مگر اس شخص کی جسے خدا اجازت دے ۔ لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم/ 26] جن کی شفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی ۔ وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء/ 28] وہ اس کے پاس کسی کی سفارش نہیں کرسکتے مگر اس شخص کی جس سے خدا خوش ہو ۔ فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر/ 48]( اس حال میں ) سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ یعنی جن معبودوں کو یہ اللہ کے سو سفارش کیلئے پکارتے ہیں ۔ وہ ان کی سفارش نہیں کرسکیں گے ۔ مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر/ 18] کوئی دوست نہیں ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات قبول کی جائے ۔ مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء/ 85] جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس ( کے ثواب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس ( کے عذاب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ یعنی جو شخص اچھے یا برے کام میں کسی کی مدد اور سفارش کرے گا وہ بھی اس فعل کے نفع ونقصان میں اس کا شریک ہوگا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں شفاعت سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے لئے کسی اچھے یا برے مسلک کی بنیاد رکھے اور وہ اس کی اقتداء کرے تو وہ ایک طرح سے اس کا شفیع بن جاتا ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا :«من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» کہ جس شخص نے اچھی رسم جاری کی اسے اس کا ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی اسے اجر ملے گا اور جس نے بری رسم جاری کی اس پر اس کا گناہ ہوگا ۔ اور جو اس پر عمل کرے گا اس کے گناہ میں بھی وہ شریک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ ؛ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس/ 3] کوئی ( اس کے پاس ) اس کا اذن لیے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اکیلا ہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے اور نظام کائنات کے چلانے میں کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے ۔ ہاں جب وہ امور کی تدبیر و تقسیم کرنے والے فرشتوں کو اجازت دیتا ہے تو وہ اس کی اجازت سے تدبیر امر کرتے ہیں ۔ واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، میں نے فلاں سے مدد طلب کی تو اس نے میری مدد لی ۔ وشَفَّعَهُ : ۔ کے معنی کسی کی شفارش قبول کرنے کے ہیں ۔ اور اسی سے (علیہ السلام) کافرمان ہے (196) «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ الشُّفْعَةُ کے معنی ہیں کسی مشترکہ چیز کے فروخت ہونے پر اس کی قیمت ادا کر کے اسے اپنے ملک میں شامل کرلینا ۔ یہ شفع سے مشتق ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا :«إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» جب حدود مقرر ہوجائیں تو حق شفعہ باقی نہیں رہتا ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ أَذِنَ : والإِذنُ في الشیء : إعلام بإجازته والرخصة فيه، نحو، وَما أَرْسَلْنا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ [ النساء/ 64] أي : بإرادته وأمره، ( اذ ن) الاذن الاذن فی الشئی کے معنی ہیں یہ بتا دینا کہ کسی چیز میں اجازت اور رخصت ہے ۔ اور آیت کریمہ ۔ { وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللهِ } ( سورة النساء 64) اور ہم نے پیغمبر بھیجا ہی اس لئے ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے ۔ میں اذن بمعنی ارادہ اور حکم ہے فزع الفَزَعُ : انقباض ونفار يعتري الإنسان من الشیء المخیف، وهو من جنس الجزع، ولا يقال : فَزِعْتُ من الله، كما يقال : خفت منه . وقوله تعالی: لا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ [ الأنبیاء/ 103] ، فهو الفزع من دخول النار . فَفَزِعَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ النمل/ 87] ، وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ [ النمل/ 89] ، وقوله تعالی: حَتَّى إِذا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ [ سبأ/ 23] ، أي : أزيل عنها الفزع، ويقال : فَزِعَ إليه : إذا استغاث به عند الفزع، وفَزِعَ له : أغاثه . وقول الشاعر : كنّا إذا ما أتانا صارخ فَزِعٌ أي : صارخ أصابه فزع، ومن فسّره بأنّ معناه المستغیث، فإنّ ذلک تفسیر للمقصود من الکلام لا للفظ الفزع . ( ف ز ع ) الفزع انقباض اور وحشت کی اس حالت کو کہتے ہیں جو کسی خوفناک امر کی وجہ سے انسان پر طاری ہوجاتی ہے یہ جزع کی ایک قسم ہے اور خفت من اللہ کا محاورہ تو استعمال ہوتا ہے لیکن فزعت منہ کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت کریمہ : ۔ لا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ [ الأنبیاء/ 103] ان کو ( اس دن کا ) بڑا بھاری غم غمگین نہیں کرے گا ۔ میں فزع اکبر سے دوزخ میں داخل ہونیکا خوف مراد ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ فَفَزِعَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ النمل/ 87] تو جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہیں سبب گھبرا اٹھیں گے ۔ وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ [ النمل/ 89] اور ایسے لوگ ( اس روز ) گھبراہٹ سے بےخوف ہوں گے ۔ حَتَّى إِذا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ [ سبأ/ 23] یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے اضطراب دور کردیا جائے گا ۔ یعنی ان کے دلوں سے گبراہٹ دوری کردی جائے گی فزع الیہ کے معنی گھبراہٹ کے وقت کسی سے فریاد کرنے اور مدد مانگنے کے ہیں اور فزع لہ کے معنی مدد کرنے کے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 339 ) ولنا اذا مااتانا صارع خ فزع یعنی جب کوئی فریاد چاہنے والا گھبرا کر ہمارے پاس آتا ۔ بعض نے فزع کے معنی مستغیت کئے ہیں تو یہ لفظ فزع کے اصل معنی نہیں ہیں بلکہ معنی مقصود کی تشریح ہے ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ ( ماذا) يستعمل علی وجهين : أحدهما . أن يكون ( ما) مع ( ذا) بمنزلة اسم واحد، والآخر : أن يكون ( ذا) بمنزلة ( الذي) ، فالأوّل نحو قولهم : عمّا ذا تسأل ؟ فلم تحذف الألف منه لمّا لم يكن ما بنفسه للاستفهام، بل کان مع ذا اسما واحدا، وعلی هذا قول الشاعر : دعي ماذا علمت سأتّقيه أي : دعي شيئا علمته . وقوله تعالی: وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 219] ، فإنّ من قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالنّصب فإنّه جعل الاسمین بمنزلة اسم واحد، كأنّه قال : أيّ شيء ينفقون ؟ ومن قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالرّفع، فإنّ ( ذا) بمنزلة الذي، وما للاستفهام أي : ما الذي ينفقون ؟ وعلی هذا قوله تعالی: ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] ، و (أساطیر) بالرّفع والنصب ( ماذا ) اور ماذا ، ، بھی دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ اول یہ کہ ، ، مازا کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا لذی کے ہو ( ما بمعنی اول یہ کہ ماذا ، ، کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا بمنزلہ الذی کے ہو ( ما بمعنی ای شئی کے ہو پہلی قسم کی مثال جیسے : عما ذا تسال کہ کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہو اس صورت میں چونکہ ، ، ماذا اکیلا ، ، استفہام کے لئے نہیں ہے بلکہ ، ، ذا کے ساتھ مل کر ایک اسم بنتا ہے اس لئے ، ، ما ، ، کے الف کو حزف نہیں کیا گیا ۔ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے یعنی جو چیز تجھے معلوم ہے اسے چھوڑ دے میں اس سے بچنے کی کوشش کرونگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 219] اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ کہ ( خدا کی راہ میں ) کونسا مال خرچ مال کریں ۔ میں جو لوگ کو منصوب پڑھتے ہیں ۔ وہ ماذا کو بمنزلہ ایک اسم کے مانتے ہیں کونسی چیز صرف کریں مگر جن کے نزدیک ہے اور ما استفہا میہ ہے یعنی وہ کونسی چیز ہے جسے خرچ کریں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہی تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں ۔ میں اساطیر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ علي العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعَليُّ : هو الرّفيع القدر من : عَلِيَ ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به في قوله : أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج/ 62] ، إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء/ 34] ، فمعناه : يعلو أن يحيط به وصف الواصفین بل علم العارفین . وعلی ذلك يقال : تَعَالَى، نحو : تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل/ 63] ( ع ل و ) العلو العلی کے معنی بلند اور بر تر کے ہیں یہ علی ( مکسر اللام سے مشتق ہے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت واقع ہو جیسے : ۔ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج/ 62] إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء/ 34] تو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ ذات اس سے بلند وبالا تر ہے کوئی شخص اس کا وصف بیان کرسکے بلکہ عارفین کا علم بھی وہاں تک نہیں پہچ سکتا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور قیامت کے دن فرشتے کسی کی سفارش نہیں کرسکیں گے البتہ جس کو اللہ تعالیٰ اجازت دے گا۔ اب اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ضعف و کمزوری کو بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم کے پاس وحی بھیجنے کے لیے جبریل امین سے کلام کیا اور فرشتوں نے اس چیز کو سنا تو سب اللہ تعالیٰ کے کلام کی ہیبت و جلال سے بےہوش ہو کر گر گئے اور اسی حالت پر رہے یہاں تک کہ جبریل امین اترے اور ان کے دلوں سے خوف و گھبراہٹ دور ہوا تو اپنا سر اوپر اٹھا کر جبریل امین اور دوسرے فرشتوں سے کہنے لگے کہ تمہارے پروردگار نے کیا حکم دیا تو جبریل امین اور ان کے ساتھ والے فرشتے کہنے لگے کہ قرآن حکیم نازل کیا ہے اور وہ بڑا عالی شان اور سب سے بڑا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ { وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ } ” اور نہ نفع دے گی اس کے ہاں کوئی سفارش مگر اسی کے حق میں جس کے لیے اس نے اجازت دی ہو۔ “ { حَتّٰٓی اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِہِمْ } ” یہاں تک کہ جب گھبراہٹ دور کردی جاتی ہے ان کے دلوں سے “ یہ فرشتوں کا حال بیان ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان کو کوئی حکم بھیجتا ہے تو اس کی عظمت اور جلالت کی وجہ سے ان پر دہشت کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ پھر جب ان سے اس دہشت کا اثر زائل کردیا جاتا ہے تو : { قَالُوْا مَاذَالا قَالَ رَبُّکُمْ } ” وہ پوچھتے ہیں تمہارے ربّ نے کیا فرمایا تھا ؟ “ { قَالُوا الْحَقَّ وَہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ } ” وہ کہتے ہیں کہ (اُس نے جو کچھ فرمایا ہے وہ) حق ہے ‘ اور وہ بہت بلند وبالا ‘ بہت بڑا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

40 That is, "Not to speak of owning something, or being a partner in the ownership of something, or being a helper of Allah in any way, there exists no one in the universe, who of his own accord may intercede for someone before Allah. You are involved in the misunderstanding that there arc' some beloved ones of God, or some such powerful personalities, who can force and press God to accept their intercession, whereas the fact is that no one will dare utter a word of recommendation there without Allah's permission. Only such a one will be able to make his submissions, who is permitted by Allah to do so, and will intercede for him alone for whom permission for intercession is granted. (To understand the distinction between the Islamic concept of intercession and the polytheistic concept, see Yunus: 3, 18; Hud: 76, 105; Ta Ha: 109; Al-Anbiya': 28; AI-Hajj: 76). 41 Here a graphic picture has been drawn of the time when on the Day of Resurrection an intercessor will be seeking permission to intercede on behalf of another. It presents this scene: "After submitting the application for permission, both the intercessor and the intercessee are awaiting the reply in a state of restlessness and awe. At last, when the permission is granted and the intercessee perceives satisfaction in the face of the intercessor he feels a little comforted and asks the intercessor: `What reply has been received?' The intercessor says, 'The right reply: permission has been granted.' What is meant to be impressed is this: `O foolish people! Such will be the awe of the great Court of Allah ! How dare you entertain the notion that anybody will have you forgiven by his own power, or dare behave stubbornly and tell Allah: These are my favourites: they will have to be forgiven!"

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :40 یعنی کسی کا خود مالک ہونا ، یا ملکیت میں شریک ہونا ، یا مدد گار خدا ہونا تو درکنار ، ساری کائنات میں کوئی ایسی ہستی تک نہیں پائی جاتی جو اللہ تعالیٰ کے حضور کسی کے حق میں بطور خود سفارش کر سکے ۔ تم لوگ اس غلط فہمی میں پڑے ہوئے ہو کہ کچھ خدا کے پیارے ایسے ہیں ، یا خدا کی خدائی میں کچھ بندے ایسے زور آور ہیں کہ وہ اَڑ بیٹھیں تو خدا کو ان کی سفارش ماننی ہی پڑے گی ۔ حالانکہ وہاں حال یہ ہے کہ اجازت لیے بغیر کوئی زبان کھولنے کی جرأت نہیں کر سکتا ۔ جس کو اجازت ملے گی صرف وہی کچھ عرض کر سکے گا ۔ اور جس کے حق میں سفارش کرنے کی اجازت ملے گی اسی کے حق میں عرض معروض کی جا سکے گی ۔ ( اسلامی عقیدہ شفاعت اور مشرکانہ عقیدہ شفاعت کے فرق کو سمجھنے کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، ص 262 ۔ 275 ۔ 356 ۔ 368 ۔ 556 ۔ 562 ۔ جلد سوم ، ص 162 ۔ 155 ۔ 252 ) ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :41 یہاں اس وقت کا نقشہ کھینچا گیا ہے جب قیامت کے روز کوئی سفارش کرنے والا کسی کے حق میں سفارش کی اجازت طلب کرے گا ۔ اس نقشے میں یہ کیفیت ہمارے سامنے آتی ہے کہ طلب اجازت کی درخواست بھیجنے کے بعد شافع اور مشفوع دونوں نہایت بے چینی کے عالم میں ڈرتے اور کانپتے ہوئے جواب کے منتظر کھڑے ہیں ۔ آخر کار جب اوپر سے اجازت آ جاتی ہے اور شافع کے چہرے سے مشفوع بھانپ جاتا ہے کہ معاملہ کچھ اطمینان بخش ہے تو اس کی جان میں جان آتی ہے اور وہ آگے بڑھ کر شافع سے پوچھتا ہے کیا جواب آیا ؟ شافع جواب دیتا ہے کہ ٹھیک ہے ، اجازت مل گئی ہے ۔ اس بیان سے جو بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے وہ یہ ہے کہ نادانو ! جس بڑے دربار کی شان یہ ہے اس کے متعلق تم کس خیال خام میں پڑے ہوئے ہو کہ وہاں کوئی اپنے زور سے تم کو بخشوا لے گا یا کسی کی یہ مجال ہو گی کہ وہاں مچل کر بیٹھ جائے اور اللہ سے کہے کہ یہ تو میرے متوسّل ہیں ، انہیں تو بخشنا ہی پڑے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

16: آیت نمبر ۲۲و۲۳ میں مشرکین کے مختلف عقیدوں کی تردید کی گئی ہے۔ ان میں سے بعض مشرکین تو وہ تھے کہ وہ اپنے تراشے ہوئے بتوں ہی کو اپنا خدا مانتے تھے، اور اِنہی کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ براہ راست ہماری حاجتیں پوری کرتے ہیں، اُن کی تردید کے لئے تو آیت ۲۲ میں فرمایا گیا ہے کہ :’’وہ آسمانوں اور زمین میں ذرّہ برابر کسی چیز کے مالک نہیں ہیں، نہ اُن کو آسمان وزمین کے معاملات میں (اللہ کے ساتھ) کوئی شرکت حاصل ہے۔‘‘ اور بعض مشرکین کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ بت اﷲ تعالیٰ کے کاموں میں اُس کے مددگار ہیں۔ اُن کی تردید کے لئے اِسی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ : ’’اور نہ اُن میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے‘‘، اور بعض مشرکین اُن کو خدائی میں اﷲ تعالیٰ کا شریک یا مددگار تو نہیں مانتے تھے، لیکن یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے حضور ہماری سفارش کریں گے۔ اُن کی تردید کے لئے آیت ۲۳ میں فرمایا گیا ہے کہ : ’’اور اللہ کے سامنے کوئی سفارش کارآمد نہیں ہے، سوائے اُس شخص کے جس کے لئے خود اس نے (سفارش کی) اجازت دے دی ہو۔‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ تم ان بتوں کے بارے میں یہ سمجھتے ہو کہ ان کو اﷲ تعالیٰ کے یہاں تقرّب اور مقبولیت حاصل ہے، جس کی وجہ سے اِن کو سفارش کرنے کی صلاحیت ہے، حالانکہ اِن کو اﷲ تعالیٰ کے یہاں کوئی تقرّب حاصل ہے، او رنہ اِن میں خود سے سفارش کرنے کی صلاحیت ہے، یعنی فرشتے، وہ بھی اﷲ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتے۔ پھر آگے یہ فرمایا گیا ہے کہ اِن فرشتوں کا حال تو یہ ہے کہ وہ ہر وقت اﷲ تعالیٰ کے رُعب سے سہمے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب اُنہیں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم ملتا ہے، یا سفارش کی اجازت ملتی ہے تو وہ رُعب کے مارے گھبراہٹ میں مدہوش جیسے ہوجاتے ہیں، پھر جب اُن کی گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے کیا فرمایا؟ اس کے بعد اُس پر عمل کرتے ہیں۔ جب اِن مقرّب فرشتوں کا یہ حال ہے تو یہ تراشے ہوئے بت جنہیں کسی قسم کا تقرّب حاصل نہیں وہ کیسے اﷲ تعالیٰ سے کسی کی سفارش کرسکتے ہیں؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٣۔ مکہ کے مشرکوں نے ملت ابراہیمی ( علیہ السلام) کو بدل کر جس طرح اور باتیں اپنے دل سے ٹھہرائی تھیں اسی طرح یہ بھی ایک بات انہوں نے ٹھہرالی تھی کہ بتوں کی پرستش کرتے تھے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ان کو بت پرستی سے منع کرتے اور آخرت کے عذاب سے ڈراتے تو کہتے تھے کہ اول تو ہم مر کر جینے کے نہیں اور اگر جئے اور حساب و کتاب اور عذاب کا موقع پیش آیا تو وہ فرشتے اور نیک لوگ جن کی مورتوں کی ہم پرستش کرتے ہیں اللہ کی درگاہ میں ضرور ہماری شفاعت کر کے ہم کو عذاب سے نجات دلوادیں گے چناچہ سورة یونس کی آیت ویقولون ھؤلاء شفعاؤنا عنداللہ کی تفسیر میں یہ ذکر گزر چکا ہے قوم نوح کے زمانہ سے نیک لوگوں کی مورتوں کا پوجنا جس طرح شروع ہوا صحیح بخاری کی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) یک روایت کے حوالہ سے اس کا قصہ ایک جگہ گزر چکا ہے اور سورة نوح کی تفسیر میں اس کی تفصیل زیادہ آوے گی فرشتوں کے پوجا کی نسبت امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ مشرکین مکہ میں ایک بڑا گر وہ ایسا تھا جو فرشتوں کی مورتوں کی پرستش کرتا تھا اور ان فرشتوں کو پانا شفاعت کرنے والا جانتا تھا قرآن شریف سے بھی امام فخرالدین رازی کے سا قول کی تصدیق ہوتی ہے چناچہ اس سورة میں آگے آتا ہے ثم یقول لملا ئکۃ اھؤلاء ایاکم کانوا یعبدون غرض اوپر کی آیت کو اور اس سورة یونس کی آیتو نکو ملا کر حاصل مطلب یہ ہے کہ جن مورتوں کو یہ پوجتے ہیں نہ خدا کی خدائی میں ان کو کچھ اختیار ہے کہ اپنے اختیار سے وہ اپنے عبادت کرنے والوں کو عذاب سے بچاسکتے ہیں نہ بغیر مرضی خدا کے اس کا درگاہ میں زبردستی ان کی شفاعت کا کچھ اثر ہوسکتا ہے کیونکہ اپنے نزدیک بڑا صاحب اختیار سمجھ کر جن فرشتوں کی مورتیں ان مشرک لوگوں نے پرستش کے لیے بنا رکھی ہیں اور بغیر مرضی اللہ تعالیٰ کے ان کی شفاعت پر ان لوگوں کا بھروسہ ہے ان فرشتوں کا تو خدا کے خوف کے سبب سے یہ حال ہے کہ جس وقت خدا کی درگاہ سے کسی طرح کا کوئی حکم ہوتا ہے تو وہ مارے خوف کے بدحو اس ہوجاتے ہیں جب تک وہ یہ نہیں سن لیتے کہ اللہ کا کوئی حکم ہوتا ہے تو وہ مارے خوف کے بدحو اس ہوجاتے ہیں جب تک وہ یہ نہیں سن لیتے کہ اللہ کا کوئی خفگی کا حکم نہیں ہے بلکہ معمولی انتظام دنیا میں کے حکموں کا ایک حکم اب بھی ہوا ہے اس وقت تک ان کے سن لیتے کہ اللہ کا کوئی خفگی کا حکم نہیں ہے بلکہ معمولی انتظام دنیا میں کے حکموں کا ایک حکم اب بھی ہوا ہے اس وقت تک ان کے ہوش ٹھکانے نہیں آتے پھر ان کی کیا طاقت ہے کہ بےمرضی اللہ کے ان مشرکوں کی وہ سفارش کریں گے بلکہ قیامت کے دن جب فرشتوں سے اور نیک لوگوں سے اس شرک کا حال خفگی کے طور پر پوچھا جاوے گا تو وہ اس شرک سے اپنی نہایت درجہ کی بیزاری ظاہر کریں گے جس کا ذکر اوپر کی آیت کی تفسیر میں گزر چکا متا خرین مفسروں نے اگرچہ اس آیت کے اور کچھ معنے بیان کئے ہیں لیکن صحیح بخاری مسلم ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) اور چند صحابہ (رض) سے جو روایتیں ١ ؎ ہیں ان کی رو سے یہی معنے صحیح ہیں جو اوپر بیان کئے گئے۔ شفاعت دو طرح ہوگی اور یہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ شفاعت دوسرح کی ہوگی ایک محشر کے میدان میں گرمی اور پسینے سے تمام اہل محشر گھبرا کر جب اس بات کی شفاعت چاہیں گے کہ ان کا حساب و کتاب جلدی سے شروع ہوجاوے اور اس شفاعت کے لیے اہل محشر حضرت آدم ( علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک سب انبیاء کے پاس جویں گے مگر سوائے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس شفاعت پر کوئی نبی مستعدنہ ہوگا اسی واسطے یہ شفاعت خاص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے ساتھ محصوص ہے اور اہل قبلہ میں سے کوئی فرقہ اس شفاعت کا منکر نہیں ہے دوسری شفاعت گنہگاروں کو دوزخ میں سے نکال کر جنت میں داخل کرانے کی ہوگی اس شفاعت میں ملائکہ اور سب انبیاء اور صلحاء شریک ہیں جس طرح کی یہ آیت ہے اسی طرح کی آیتوں کا مطلب سمجھ نے میں غلطی کر کے فرقہ خار جیہ اور فرقہ معتزلہ نے اسی دوسری قسم کی شفاعت کا انکار کیا ہے اور اہل سنت نے بہت سی آیتوں اور حدیثوں سے اس شفاعت کو ثابت کیا ہے اور فرقہ خارجیہ اور معتزلہ کے انکار کا جواب دیا ہے کہ انکار شفاعت کی آیتیں مشرک لوگوں کے حق میں ہیں کلمہ گو لوگوں کے حق میں نہیں ‘ اہل محشر کے حساب و کتاب کی شفاعت کا ذکر صحیح بخاری ومسلم کی ابوہریرہ (رض) کی روایت ١ ؎ میں ہے اور گنہگاروں کی دوزخ سے نکالنے کی شفاعت کا ذکر صحیح بخاری ومسلم کی ابوسعید ٢ ؎ خدری کی روایت میں تفصیل سے ہے (١ ؎ دیکھئے تفسیر ابن کثیر ص ٥٣٧‘ ج ٣‘) (٢ ؎ ملاحظہ فرمائیے مشکوۃ باب الحوض والشفاعۃ۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:23) فزع۔ ماضی مجہول واحد مذکر غائب تفزیع (تفعیل) مصدر۔ جس کے معنی ڈرانا بھی ہے اور خوف دور کرنا بھی۔ (لغات اضداد میں سے ہے) ۔ تفعیل کے خواص میں سے ایک خاصیت سلب مادہ بھی ہے یعنی کسی چیز سے ماخذ کو دور کرنا۔ لہٰذا تفزیع ڈر کے دور کرنے کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے ۔ اور یہاں آیۃ ہذا میں انہی معنی میں استعمال ہوا ہے فزع بمعنی خوف۔ گھبراہٹ ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے اذ دخلوا علی داود ففزع منہم (38:22) جب وہ اچانک دائود (علیہ السلام پر داخل ہوئے تو آپ ان سے گھبرا گئے۔ عن قلوبہم۔ میں ضمیر ہم جمع مذکر غائب ملائکہ کے لئے ہے۔ قالو ما ذا قال ربکم۔ ای قال بعضہم لبعض۔ قالوا الحق۔ مخاطبین جواب میں کہیں گے۔ یا ضمیر فاعل الملئکۃ کے لئے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور وہی سفارش فائدہ دے سکتی ہے جو کسی ایسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا فرشتے یا نیک بندے کی طرف سے ہو جسے اللہ تعالیٰ اجازت دے اور وہ کسی ایسے شخص کے حق میں ہو جس کے لئے سفارش کرنے کی اجازت اللہ تعالیٰ دے ( بقرہ : 255، النجم : 261) اور یہ ظاہر ہے کہ کوئی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہو یا فرشتہ وہ اہل ایمان کے حق میں سفارش کرے گا اور کرسکے گا، نہ کہ کافروں اور مشرکوں کے حق میں صحیحین میں ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام مخلوق کے حق میں شفاعت کرنے کے لئے مقام محمود پر کھڑے ہونگے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہونگے کچھ دیر اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سجدہ میں پڑا رہنے دیگا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی تعریف و ستائش کرتے رہیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔”(اے محمد ﷺ) اپنا سر اٹھایئے اور جو کچھ عرض کرنا چاہیں کیجئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سنی جائیگی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی درخواست پوری کی جائے گی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت قبول ہوگی۔۔۔۔ “ (الحدیث ( ابن کثیر) ۔3 اس آیت میں سفارش کرنے والے فرشتوں کا حال بیان ہوا ہے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارش عوام چاہتے ہیں اولیا سے، وہ انبیاء سے، وہ فرشتوں سے ( حالانکہ) فرشتوں کا حال یہ ہے جو ( اس آیت میں) فرمایا کہ جب اوپر سے اللہ کا حکم اترتا ہے تو آواز آتی ہے جیسے پتھر پر زنجیر، فرشتے ڈر سے تھر تھراتے ہیں۔ جب تسکین آئی اور کلام ( ترچہ) تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ کیا حکم ہوا ؟ اوپر والے بتاتے ہیں نیچے کھڑوں کو جو اللہ کی حکمت کے موافق ہے اور انگے سے قاعدہ معلوم ہے، وہی حکم ہوا ؟ (موضح) آیت کی یہ تفسیر صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ (رض) اور دوسری متعدد صحیح روایات کے مطابق ہے اس لئے حافظ ابن کثیر (رح) نے اسی کو آیت کی صحیح تفسیر قرار دیا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ اور دلائل سے ثابت ہے کہ یہ اذن صرف حق مومنین میں ہوگا۔ 6۔ پس جب ملائکہ مقربین کی یہ حالت ہو تو اصنام و شیاطین تو کس شمار میں ہیں کہ ایک میں قابلیت نہیں دوسرے میں مقبولیت نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولا تنفع ۔۔۔۔۔۔ اذن لہ ” “۔ اللہ کے ہاں شفاعت وہی لوگ کرسکیں گے جن کو اللہ کی جانب سے اجازت ہوگی۔ اللہ کسی ایسے شخص کے لیے اجازت نہیں دیا کرتا جو مومن نہ ہو اور سفارش کا مستحق نہ ہو۔ وہ لوگ جو شرک کرتے ہیں وہ اس کے مستحق نہیں رہتے۔ نہ ملائکہ کو اس کی اجازت ہے اور نہ ان کے علاوہ اور لوگوں کو جن کو شفاعت کی اجازت ہوگی۔ جن حالات میں شفاعت کرنے والے کی شفاعت کریں گے باوجود اجازت کے ، وہ کس قدر خوفناک ہوں گے ، کس قدر دہشت ناک ہوں گے ؟ حتی اذا فزع ۔۔۔۔۔ العلی الکبیر (23) ” “۔ یہ اس دن کا منظر ہے جو نہایت ہی خوفناک ہوگا۔ لوگ قیامت کے دن کھڑے ہوں گے۔ سفارش کرنے والے اور جن کی سفارش ہو رہی ہوگی سب کے سب سہمے ہوئے ہوں گے۔ پہلے تو سفارش کرنے والے اجازت کے منتظر ہوں گے ۔ یہ انتظار طویل ہوگا۔ لوگ تو قعات میں کھڑے ہوں گے اور تھک جائیں گے۔ سہمے ہوئے ہوں گے ، دل ڈرے ہوئے ہوں گے اور کان فیصلہ سنتے ہوں گے۔ جب اللہ کی بارگاہ عزت سے فیصلہ صادر ہوگا تو سفارش کرنے والے اور جن کی سفارش ہو رہی ہے اس قدر ڈرے ہوئے ہوں گے کہ وہ فیصلے کو سمجھ ہی نہ سکیں گے۔ حتی اذا فزع عن قلوبھم (34: 23) ” حتیٰ کہ جب لوگوں کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوگی “ جب حالت خوف سے وہ نکلیں گے اور وہ اس پیبت سے نکل آئیں جس کی وجہ سے وہ مدہوش ہوگئے تھے تو پھر کہیں گے۔ ماذا قال ربکم (34: 23) ” تمہارے رب نے کیا جواب دیا “۔ یعنی وہ ایک دوسرے سے پوچھیں گے۔ ان میں سے شاید بعض لوگوں نے حواس بحال رکھ کر بات کو سمجھ لیا ہوگا۔ قالوا الحق (34: 23) ” انہوں نے کہا حق کہا “۔ شاید یہ کہنے والے ملائکہ مقربین تھے جنہوں نے یہ مجمل اور جامع بات کہہ دی کیونکہ اللہ نے جو کچھ کہنا تھا وہ حق ہی تھا ۔ وہ حق ہے ، ازلی حق اور ابدی حق ہے ۔ لہٰذا اس کی بات بھی حق ہے ۔ وھوالعلی الکبیر (34: 23) ” اور وہ بزرگ دبرتر ہے “۔ اللہ کی یہ صفت ایسے مقام پر آئی ہے ، جس میں اللہ کی علوشان نمایاں ہے اور اس مقام پر ہر شخص اللہ کی شان بلند کا ادراک کرسکتا ہے “۔ یہ مجمل سورة اس بات کا مظہر ہے کہ فضا کے اندد گہری سنجیدگی اور خوف چھایا ہوا ہے کہ اس میں بھی مختصربات کہی جاسکتی ہے ۔ یہ سفارش کا خوفناک موقعہ ہے ۔ اگر منظور نہ ہو تو ؟ اور یہ حالت ملائکہ مقربین کی ہے ۔ کیا اس خوفناک منظر کے بعد کوئی دعویٰ کو سکتا ہے کہ وہ شریک ہے یا کوئی عقلمند شخص یہ عقیدہ رکھ سکتا ہے ؟ یہ تو تھی عقل وخرد کے تاروں پر پہلی ضرب اور دوسری ضرب کا تعلق ان ارزاق سے ہے جو انسان رات اور دن استعمال کرتے ہیں ۔ یہ انسانی ضروریات کون فراہم کرتا ہے ۔ انسان حیات اور اس کے قائم رکھنے کے لیے خوراک ہی پر اگر غور کیا جائے تو یہ بھی اللہ وحدہ کی ذات پر ایک سلطان اور برہان ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(حَتّٰٓی اِذَافُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِھِمْ ) اس میں فرشتوں کی گھبراہٹ، خوف اور خشیت کا تذکرہ فرمایا، مطلب یہ ہے کہ یہ فرشتے جنہیں معبود تجویز کرکے ان کی شفاعت کی امید لیے بیٹھے ہو ان کا اپنا خود یہ حال ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کام کا حکم ہوتا ہے تو ہیبت کے مارے گھبرا اٹھتے ہیں شدت ہیبت کی وجہ سے ان کی حالت دگرگوں ہوجاتی ہے جب فرمان عالی پورا ہوجاتا ہے اور ہیبت کی کیفیت دور ہوجاتی ہے تو آپس میں دریافت کرتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا حکم فرمایا۔ پھر بعض بعض سے کہتے ہیں کہ تمہارے رب نے حق ہی فرمایا۔ جہاں ہیبت کا یہ عالم ہے وہاں شفاعت کی کیا مجال ہوسکتی ہے، ملائکہ مقربین گھبراتے ہیں اور خوف زدہ ہوتے ہیں تو اصنام اور شیاطین کس شمار میں ہیں، اسی سے سمجھ لیا جائے۔ (وَھُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ ) (وہ بلند ہے بڑا ہے) اس کی بارگاہ میں وہی شفاعت کرسکتا ہے جسے شفاعت کی اجازت ہو اور اسی کے لیے شفاعت کرسکتا ہے جس کے لیے شفاعت کی اجازت ہو، مشرکوں کی حماقت دیکھو کہ خود ہی اللہ تعالیٰ کے لیے شریک تجویز کیے اور خود ہی یہ تجویز کرلیا کہ وہ ہماری سفارش کریں گے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب آسمان میں اللہ تعالیٰ کا کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو فرشتے اس کے فرمان کی وجہ سے بطور تواضع وانقیاد اپنے پروں کو مارتے ہیں جس سے ایسی آواز پیدا ہوتی ہے کہ گویا چکنے پتھر پر زنجیر کھینچی جا رہی ہے، پھر جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوجاتی ہے تو کہتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ پھر آپس میں جواب دیتے ہیں کہ وہ برتر ہے بڑا ہے۔ (رواہ البخاری ص ٧٠٦: ج ٢)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24:۔ ولا تنفع الشفاعۃ الخ : اس میں نفی شفاعت قہری کا بیان ہے اور فرشتوں کے شفیع مستقل ہونے کا رد ہے باقی رہا سفارش کا معاملہ تو یہ مزعومہ سفارشی تمہاری سفارش بھی نہیں کرسکتے۔ کیونکہ سفارش اللہ کی طرف سے اجازت پر موقوف ہے اور مشرک کے حق میں کسی نبی، ولی یا فرشتے کو سفارش کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ قال تعالیٰ فی ابطال قرلھم ولا تنفع الشفاعۃ عندہ الا لمن اذن لہ فلا فائدۃ لعبادتکم غیر اللہ فان اللہ لا یاذن فی الشفاعۃ لمن یعبد غیرہ (کبیر) ۔ الا لمن اذن لہ : اس سے مراد مشفوع لہ ہے یعنی صرف اس شخص کے حق میں سفارش نافع ہوگی جس کی سفارش کرنے کی اجازت دی جائے گی مراد مومن ہے جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے الا من شہد بالحق (زخرف رکوع 7) ۔ یعنی حق (توحید) کی شہادت دے اور ایک جگہ ارشاد ہے۔ الا لمن ارتضی (انبیاء رکوع 2) ۔ یعنی جس کو اللہ پسند فرمائے۔ حاصل یہ ہے کہ مشرک کے حق میں سفارش کرنے کی اجزت ہی نہیں ہوگی اس کی پوری تحقیق سورة بقرہ کی تفسیر میں گذر چکی ہے ملاحظ ہو حاشیہ (501 ص 125) ۔ 25:۔ حتی اذا الخ : یہ ماقبل سے ترقی ہے یعنی فرشتوں کا شفیع غالب ہونا تو ایک طرف رہا وہ تو اللہ کا حکم سن کر ہی ہیبت سے کانپ اٹھتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی ہیبت و جبروت اور فرشتوں کی عاجزی کا بیان ہے جب اللہ کی طرف سے فرشتوں کو کوئی حکم ملتا ہے تو گھبراہٹ اور ہیبت کی وجہ سے فرشتوں میں ہلچل پیدا ہوجاتی ہے اور جب گھبراہٹ اور ہیبت دور ہوجاتی ہے تو نیچے والے فرشتے اوپر والوں سے پوچھتے ہیں ذات باری تعالیٰ نے کیا ارشاد فرمایا ہے تو وہ جواب دیتے کہ حق ہی ارشاد ہوا ہے، خطرے کی کوئی بات نہیں، تب انہیں سکون وقرار حاصل ہوتا ہے جن فرشتوں کا یہ حال ہو کہ بارگاہ ایزدی سے کوئی حکم سن کر ہی کانپ اٹھیں بھلا انہیں یہ جرات کیسے ہوسکتی ہے کہ وہ اس کی بارگاہ میں ابتداء سفارش کے لیے لب کشائی کرسکیں۔ وھو العلی الکبیر : یہ علیحدہ جملہ ہے۔ یعنی وہ بہت بلند شان اور عظمت و کبریاء کا ملک ہے اور کوئی اس کے سامنے دم نہیں مار سکتا نہ اس کے ملک اور اختیار و تصرف میں کوئی دست اندازی کرسکتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(23) اور اللہ تعالیٰ کے سامنے کسی کیلئے سفارش کام نہیں آتی مگر ہاں اس کے کام آسکتی ہے۔ جس کی نسبت اللہ تعالیٰ سفارش کی اجازت دے دے یعنی شفیع کو منظوری مل جائے کہ فلاں جماعت کیلئے سفارش کرسکتے ہو اور اجازت سے پہلے پہلے اہل محشر اور شافع اور مشفوع باہم ایک گھبراہٹ اور پریشانی میں انتظار کرتے ہوں گے یہاں تک کہ جب ان کی گھبراہٹ ان کے قلوب سے دور ہوجائے گی تو آپس میں کہیں گے تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا اور کیا حکم دیا تو کہیں گے اللہ تعالیٰ نے حق فرمایا یعنی شفاعت کی اجازت دے دی گئی اور وہی سب سے عالیشان اور بڑا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اللہ کے یہاں سفارش عوام جانتے ہیں اولیاء سے وہ انبیاء سے وہ فرشتوں سے فرشتوں کا حال یہ ہے جو فرمایا جب اوپر سے اللہ کا حکم اترتا ہے آواز آتی ہے جیسے پتھر پر زنجیر کی اور فرشتے ڈر سے تھرتھراتے ہیں جب تسکین آئی اور کلام اتر چکا ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کیا حکم ہوا اوپر والے بتاتے ہیں نیچے والوں کو جو اللہ کی حکمت کے موافق ہے اور آگے سے قاعدہ معلوم ہے وہی حکم ہوا۔ خلاصہ یہ ہے کہ عام احکام کے نزول کے وقت جو آواز پیدا ہوتی ہے اس آواز کو سلسلۃ الجرس سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ جیسا کہ عام طور پر احادیث میں آتا ہے۔ اسی کو شاہ صاحب (رح) نے فرمایا جیسے پتھر پر زنجیر کی آواز۔ چونکہ اس آیت کی تفسیر مفسرین نے دو طرح کی ہے اس لئے ہم نے ترجمے اور تفسیر میں فرق کردیا ہے ایک قول تو وہی ہے جس کی طرف اشارہ شاہ صاحب (رح) نے فرمایا ہے کہ جب کوئی حکم نازل ہوتا ہے تو ملائکہ میں ایک قسم کی گھبراہٹ پیدا ہوجاتی ہے اور جب آواز بند ہوجاتی ہے تو فرشتے ایک دوسرے سے دریافت کرتے ہیں۔ ماذاقال ربکم ملائکہ مقربین جواب دیتے ہیں کہ جو حکم جاری ہوا ہے وہ بالکل صحیح اور ٹھیک ہے۔ دوسرے معنی وہ ہیں جو ہم نے تیسیر میں اختیار کئے ہیں کہ شفاعت کے اذن سے پہلے سب میں گھبراہٹ ہوگی اور شفاعت کے خواہشمند اور جن کو شفاعت کا اذن ملنا ہے وہ سب گھبراہٹ میں مبتلا ہوں گے اور ایک عرصہ تک انتظار میں رہیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم جاری ہوچکے گا تب ایک دوسرے سے دریافت کریں گے کہ پروردگار عالم نے کیا فرمایا آپس میں ہی ایک دوسرے کو جواب دیں گے کہ جو کچھ فرمایا ہے وہ برحق ہے۔ یعنی گناہ گار مؤمنین کیلئے شفاعت کی اجازت مل گئی اور دین حق کے منکروں کیلئے شفاعت کو روک دیا گیا۔ ماللظلمین من حمیم ولا شفیع یطاع (مومن) وہ بلند مرتبہ اور بزرگ قدر ہے اس کے حکم کو کوئی رد کرنے والا نہیں۔