Surat Saba

Surah: 34

Verse: 26

سورة سبأ

قُلۡ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ یَفۡتَحُ بَیۡنَنَا بِالۡحَقِّ ؕ وَ ہُوَ الۡفَتَّاحُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۲۶﴾

Say, "Our Lord will bring us together; then He will judge between us in truth. And He is the Knowing Judge."

انہیں خبر دے دیجئے کہ ہم سب کو ہمارا رب جمع کر کے پھر ہم میں سچے فیصلے کر دے گا وہ فیصلے چکانے والا ہے اور دانا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنَا رَبُّنَا ... Say: "Our Lord will assemble us all together..." means, `on the Day of Resurrection, He will bring all of creation together in one arena, then He will judge between us with truth, i.e., with justice.' ... ثُمَّ يَفْتَحُ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ ... then He will judge between us with truth. Each person will be rewarded or punished according to his deeds; if they are good, then his end will be good, and if they are bad, then his end will be bad. On that Day they will know who has attained victory, glory and eternal happiness, as Allah says: وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يَوْمَيِذٍ يَتَفَرَّقُونَ فَأَمَّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَـتِ فَهُمْ فِى رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُواْ وَكَذَّبُواْ بِـَايَـتِنَا وَلِقَأءِ الاَّخِرَةِ فَأُوْلَـيِكَ فِى الْعَذَابِ مُحْضَرُونَ And on the Day when the Hour will be established -- that Day shall (all men) be separated. Then as for those who believed and did righteous good deeds, such shall be honored and made to enjoy luxurious life (forever) in a Garden of Delight. And as for those who disbelieved and denied Our Ayat, and the meeting of the Hereafter, such shall be brought forth to the torment. (30:14-16) Allah says: ... وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ And He is the Just Judge, the All-Knower of the true state of affairs.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 یعنی اس کے مطابق جزا دے گا، نیکوں کو جنت میں اور بدوں کو جہنم میں داخل فرمائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٤١] اور اگر تم لوگ یہ سمجھتے ہو کہ آخرت کا اور جواب دہی کا تصور ہی غلط ہے تو یقین جانو کہ جو اللہ ہم سب کو عدم سے وجود میں لایا ہے۔ پھر بھی ہم سب کو دوبارہ مرنے کے بعد زندہ کرکے اکٹھا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ آج تم اپنے آپ کو درست سمجھتے ہو اور ہم اپنے آپ کو درست سمجھتے ہیں۔ لیکن اس دن اللہ تعالیٰ ہمارے درمیان اس طرح انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دے گا جس کی تمہیں بھی ٹھیک سمجھ آجائے گی۔ اور اس کا فیصلہ اس لحاظ سے درست ہوگا کہ وہ ہم سب کا خالق ہے۔ اور خالق کو اپنی بنائی ہوئی چیز کی جس قدر سمجھ ہوسکتی ہے دوسروں کو نہیں ہوسکتی۔ وہ تو ہمارے اور تمہارے ارادوں اور نیتوں تک سے واقف ہے۔ لہذا اس کے فیصلہ پر کسی غلط یا زیادتی کا امکان نہیں ہوسکتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ يَجْمَعُ بَيْـنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَـحُ بَيْـنَنَا بالْحَقِّ ۔۔ : عبد الرحمان کیلانی (رض) لکھتے ہیں : ” اور اگر تم لوگ یہ سمجھتے ہو کہ آخرت کا اور جواب دہی کا تصور ہی غلط ہے تو یقین جانو کہ جو اللہ ہم سب کو عدم سے وجود میں لایا ہے، پھر ہم سب کو دوبارہ مرنے کے بعد زندہ کر کے اکٹھا کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے، آج تم اپنے آپ کو درست سمجھتے ہو اور ہم اپنے آپ کو درست سمجھتے ہیں، لیکن اس دن اللہ تعالیٰ ہمارے درمیان اس طرح انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دے گا جس کی تمہیں بھی ٹھیک سمجھ آجائے گی اور اس کا فیصلہ اس لحاظ سے درست ہوگا کہ وہ ہم سب کا خالق ہے اور خالق کو اپنی بنائی ہوئی چیز کی جس قدر سمجھ ہوسکتی ہے دوسروں کو نہیں ہوسکتی۔ وہ تو تمہارے اور ہمارے ارادوں اور نیتوں تک سے واقف ہے، لہٰذا اس کے فیصلے پر کسی غلطی یا زیادتی کا امکان نہیں ہوسکتا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ يَجْمَعُ بَيْـنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَـحُ بَيْـنَنَا بِالْحَقِّ۝ ٠ ۭ وَہُوَالْفَتَّاحُ الْعَلِـيْمُ۝ ٢٦ جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے فتح الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، وذلک ضربان : أحدهما : يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] ، وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر/ 14] . والثاني : يدرک بالبصیرة کفتح الهمّ ، وهو إزالة الغمّ ، وذلک ضروب : أحدها : في الأمور الدّنيويّة كغمّ يفرج، وفقر يزال بإعطاء المال ونحوه، نحو : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] ، أي : وسعنا، وقال : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] ، أي : أقبل عليهم الخیرات . والثاني : فتح المستغلق من العلوم، نحو قولک : فلان فَتَحَ من العلم بابا مغلقا، وقوله : إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح/ 1] ، قيل : عنی فتح مكّةوقیل : بل عنی ما فتح علی النّبيّ من العلوم والهدایات التي هي ذریعة إلى الثّواب، والمقامات المحمودة التي صارت سببا لغفران ذنوبه وفَاتِحَةُ كلّ شيء : مبدؤه الذي يفتح به ما بعده، وبه سمّي فاتحة الکتاب، وقیل : افْتَتَحَ فلان کذا : إذا ابتدأ به، وفَتَحَ عليه كذا : إذا أعلمه ووقّفه عليه، قال : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة/ 76] ، ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر/ 2] ، وفَتَحَ الْقَضِيَّةَ فِتَاحاً : فصل الأمر فيها، وأزال الإغلاق عنها . قال تعالی: رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف/ 89] ، ومنه الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ/ 26] ، قال الشاعر : بأني عن فَتَاحَتِكُمْ غنيّ وقیل : الفتَاحةُ بالضمّ والفتح، وقوله : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر/ 1] ، فإنّه يحتمل النّصرة والظّفر والحکم، وما يفتح اللہ تعالیٰ من المعارف، وعلی ذلک قوله : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ، فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة/ 52] ، وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة/ 28] ، قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة/ 29] ، أي : يوم الحکم . وقیل : يوم إزالة الشّبهة بإقامة القیامة، وقیل : ما کانوا يَسْتَفْتِحُونَ من العذاب ويطلبونه، ( ف ت ح ) الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ازالہ دوقسم پر ہے ایک وہ جس کا آنکھ سے ادراک ہو سکے جیسے ۔ فتح الباب ( دروازہ کھولنا ) اور فتح القفل ( قفل کھولنا ) اور فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر/ 14] اور اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ ان پر کھولتے ۔ دوم جس کا ادراک بصیرت سے ہو جیسے : فتح الھم ( یعنی ازالہ غم ) اس کی چند قسمیں ہیں (1) وہ جس کا تعلق دنیوی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے جیسے مال وغیرہ دے کر غم وانددہ اور فقر و احتیاج کو زائل کردینا ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] پھر جب انہوں ن اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی ۔ فراموش کردیا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے ۔ یعنی ہر چیز کی فرادانی کردی ۔ نیز فرمایا : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے ۔ یعنی انہیں ہر طرح سے آسودگی اور قارغ البالی کی نعمت سے نوازتے ۔ (2) علوم ومعارف کے دروازے کھولنا جیسے محاورہ ہے ۔ فلان فتح من العلم بابامغلقا فلاں نے طلم کا بندو دروازہ کھول دیا ۔ یعنی شہادت کو زائل کرکے ان کی وضاحت کردی ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح/ 1] ( اے محمد ) ہم نے تم کو فتح دی اور فتح صریح وصاف ۔ میں بعض نے کہا ہے یہ فتح کی طرف اشارہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ اس سے علوم ومعارف ار ان ہدایات کے دروازے کھولنا مراد ہے جو کہ ثواب اور مقامات محمودہ تک پہچنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور آنحضرت کیلئے غفران ذنوب کا سبب ہے ۔ الفاتحۃ ہر چیز کے مبدء کو کہاجاتا ہے جس کے ذریعہ اس کے مابعد کو شروع کیا جائے اسی وجہ سے سورة فاتحہ کو فاتحۃ الکتاب کہاجاتا ہے ۔ افتح فلان کذ افلاں نے یہ کام شروع کیا فتح علیہ کذا کسی کو کوئی بات بتانا اور اس پر اسے ظاہر کردینا قرآن میں ہے : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة/ 76] جو بات خدا نے تم پر ظاہر فرمائی ہے وہ تم ان کو ۔۔۔ بتائے دیتے ہو ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر/ 2] جو لوگوں کیلئے ۔۔ کھولدے فتح القضیۃ فتاحا یعنی اس نے معاملے کا فیصلہ کردیا اور اس سے مشکل اور پیچیدگی کو دور کردیا ۔ قرآن میں ہے ؛ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف/ 89] اے ہمارے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔ اسی سے الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ/ 26] ہے یعن خوب فیصلہ کرنے والا اور جاننے والا یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ سے ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (335) وانی من فتاحتکم غنی اور میں تمہارے فیصلہ سے بےنیاز ہوں ۔ بعض نے نزدیک فتاحۃ فا کے ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ صحیح ہے اور آیت کریمہ : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچیں اور فتح حاصل ہوگئی ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الفتح سے نصرت ، کامیابی اور حکم مراد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ علوم ومعارف کے دروازے کھول دینا مراد ہو ۔ اسی معنی ہیں میں فرمایا : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( یعنی تمہیں ) خدا کی طرف سے مدد ( نصیب ہوگی ) اور فتح عنقریب ( ہوگی ) فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة/ 52] تو قریب ہے خدا فتح بھیجے وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة/ 28] اور کہتے ہیں ۔۔۔ یہ فیصلہ کب ہوگا ۔ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة/ 29] کہدو کہ فیصلے کے دن ۔۔۔ یعنی حکم اور فیصلے کے دن بعض نے کہا ہے کہ الفتح سے قیامت بپا کرکے ان کے شک وشبہ کو زائل کرے کا دن مراد ہے اور بعض نے یوم عذاب مراد لیا ہے ۔ جسے وہ طلب کیا کرتے تھے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اس آیت کو آیت سیف نے منسوخ کردیا اور قیامت کے دن ہمارا رب ہم سب کو جمع کردے گا پھر ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردے گا وہ تمام احکام کا فیصلہ فرمانے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ { قُلْ یَجْمَعُ بَیْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ یَفْتَحُ بَیْنَنَا بِالْحَقِّ وَہُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِیْمُ } ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجیے کہ ہمارا رب ہم سب کو (ایک دن) جمع کرے گا ‘ پھر وہ فیصلہ کر دے گا ہمارے مابین حق کے ساتھ ‘ اور وہ خوب فیصلہ کرنے والا ‘ خوب جاننے والا ہے۔ “ اس دن جو فیصلہ بھی ہوگا بر بنائے علم ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ایک ایک شخص کی ایک ایک حرکت کا علم ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

45 This is the last and the strongest motive for the consideration of which the listeners' attention has been invited. It means to impress: "The thing is not only that there is the difference of the truth and the falsehood between you and us, but that both we and you have to be presented before our Lord, the Being Who knows the truth and is also fully aware of the affairs of each of us. There before Him not only will this thing be decided who, between you and us, was in the right and who in the wrong, but this issue also will be settled how we made every possible effort to make the truth plain to you, and how you opposed and resisted us in your antagonism to the truth. "

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :45 یہ اس معاملہ پر غور کرنے کے لیے آخری اور سب سے بڑا محرک ہے جس کی طرف سامعین کی توجہ دلائی گئی ہے ۔ بات اسی حد پر ختم نہیں ہو جاتی کہ اس زندگی میں ہمارے اور تمہارے درمیان حق و باطل کا اختلاف ہے اور ہم میں سے کوئی ایک ہی حق پر ہے ، بلکہ اس کے آگے حقیقت نفس الامری یہ بھی ہے کہ ہمیں اور تمہیں ، دونوں ہی کو اپنے رب کے سامنے حاضر ہونا ہے ۔ اور رب وہ ہے جو حقیقت کو بھی جانتا ہے اور ہم دونوں گروہوں کے حالات سے بھی پوری طرح باخبر ہے ۔ وہاں جا کر نہ صرف اس امر کا فیصلہ ہو گا کہ ہم میں اور تم میں سے حق پر کون تھا اور باطل پر کون ۔ بلکہ اس مقدمے کا فیصلہ بھی ہو جائے گا کہ ہم نے تم پر حق واضح کرنے کے لیے کیا کچھ کیا اور تم نے باطل پرستی کی ضد میں آ کر ہماری مخالفت کس کس طرح کی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:26) یجمع۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ جمع مصدر (باب فتح) وہ جمع کرے گا۔ وہ اکٹھا کرے گا۔ بیننا۔ بین۔ درمیان ۔ بیچ۔ مضاف۔ نا ضمیر جمع متکلم مضاف الیہ۔ ہمارے درمیان ہمارے بیچ۔ یفتح۔ مضارع واحد مذکر غائب فتح مصدر۔ وہ فیصلہ کرے گا۔ عربی میں کہتے ہیں فتح القضیۃ فتاحا۔ یعنی اس نے معاملہ کا فیصلہ کردیا۔ اور اس سے مشکل اور پیچیدگی کو دور کردیا۔ ثم یفتح بیننا بالحق۔ پھر وہ ہمارے حق و انصاف سے فیصلہ کر دے گا۔ اس سے الفتاح مبالغہ کا صیغہ بمعنی بہت بڑا فیصلہ کرنے والا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اسما حسنیٰ میں سے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی ظاہر کر دے گا کہ ہم دونوں میں کون ہدایت پر تھا اور کون کھلی گمراہی میں مبتلا تھا۔7 لہٰذا اسی کا فیصلہ مبنی بر علم و حکمت اور خواہش سے خال ہوسکتا ہے۔ ( کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اس سے کسی کا حال پوشیدہ نہیں جس سے غلط فیصلہ کا شبہ ہوسکے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل یجمع بیننا ۔۔۔۔۔ العلیم (26) پہلے سبق میں اللہ اہل حق اور اہل باطل کے درمیان مشترکہ فیصلہ دیا گیا کہ دونوں میں سے ایک ہی حق پر ہے ، اور ایک باطل پر ہے۔ اور حق اور باطل کا آمنا سامنا ہوا تھا تاکہ اہل حق ، حق کی طرف آئیں ، داعی اپنی دعوت پیش کریں اور حق و باطل باہم کشمکش کریں۔ دلائل کے سامنے شبہات لائے جائیں اور باطل حق کو بچھاڑنے کی کوشش کرے۔ لیکن یہ صورت ایک مختصر وقت کے لئے ہوتی ہے۔ اس کے بعد فریقین کے درمیان فیصلہ ہوجاتا ہے۔ یہ فیصلہ دو ٹوک ہے اور فیصلہ کرنے والا بہت بڑا حاکم ہے اور علیم بھی ہے۔ وہ علم اور معرفت پر فیصلہ کرتا ہے۔ اللہ کو فتاح علیم کہہ کر یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کے فیصلے پر اعتماد کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ ایسا حاکم ہے جو حق و باطل کے درمیان علم کے مطابق فیصلہ کرنے والا ہے۔ وہ حق و باطل کو نکھار کر رکھ دیتا ہے اور ان کے درمیان التباس رہنے نہیں دیتا۔ حق پرستوں اور باطل پرستوں کو اکٹھا اور ملا جلا نہیں چھوڑا جاتا بشرطیکہ حق اپنی دعوت زوردار انداز سے پیش کرے ، قوت اس راہ میں لگا دے۔ پورے تجربات سے کام لے اور پوری قوت لگا کر معاملے کو اللہ کے سپرد کر دے تاکہ اللہ فتاح علیم فیصلہ کرے۔ یہ اللہ کا کام ہے کہ وہ حق و باطل کے درمیان فیصلہ کس وقت کرتا ہے اس فیصلہ کے لیے وقت کا تعین بھی اللہ کرتا ہے ۔ نہ اس میں جلدی کا کوئی داعیہ ہے کیونکہ یہ اللہ ہی ہے جو حق و باطل کا آمنا سامنا کراتا ہے ، کمشکش کراتا ہے اور پھر فیصلہ کراتا ہے۔ وہی قناح علیم ہے۔ اب آخری ضرب ، یہ آخری ضرب پہلی ضرب کے مشابہ ہے۔ اس میں اللہ کے نام نہاد شرکاء کو چیلنج دیا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(قُلْ یَجْمَعُ بَیْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ یَفْتَحُ بَیْنَنَا بالْحَقِّ ) (آپ فرما دیجیے کہ ہمارا رب ہم سب کو جمع کرے گا پھر ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ فرمائے گا) جب قیامت کے دن توحید والوں کے لیے انعام و اکرام کا اور مشرکین و کافرین کے لیے عذاب کا فیصلہ ہوگا اس وقت تمہیں اپنی گمراہی کا پتہ چل جائے گا۔ (وَھُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِیْمُ ) (اور وہ بڑا فیصلہ فرمانے والا ہے اور خوب جاننے والا ہے) چونکہ ہر ہر شخص کا ہر ہر عمل اسے معلوم ہے اور ہر ایک کے عقیدوں کا بھی اسے پتہ ہے اس لیے اس کے سارے فیصلے حق ہوں گے اور حقیقت کے مطابق ہوں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

29:۔ قل یجمع الخ : یہ تیسرا طریق تبلیغ ہے۔ دنیا میں تو واضح اور کھلے دلائل کے باوجود تم حق کا انکار کرتے ہو اور دلائل کا فیصلہ نہیں مانتے ہو آخر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اہل حق کو جنت میں اور اہل شرک کو جہنم میں داخل کر کے اپنا فیصلہ ظاہر فرمائیگا تو اس فیصلے کے ماننے سے تمہارے لیے انکار کی کوئی گنجائش نہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ عدل پر مبنی اور سراسر حق ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(26) اے پیغمبر آپ یہ بھی فرما دیجئے کہ ہمارا پروردگار ہم سب کو جمع کرے گا پھر ہم سب کے مابین ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دے گا اور وہی بڑا خوب فیصلہ کرنے والا ہے۔ سب کا حال جانتا۔ یعنی ایک دن ضرور ایسا آنا ہے کہ جس دن اللہ تعالیٰ ہم کو اور تم سب کو جمع کرے گا۔ پھر ہم سب کے درمیان انصاف کے ساتھ صحیح اور حق فیصلہ فرما دے گا وہ بڑا فیصلہ کرنیوالا اور خوب فیصلہ کرنیوالا اور ہر ایک کے حال سے واقف اور جاننے والا ہے آگے پھر شرک کا رد فرمایا۔