Surat Saba

Surah: 34

Verse: 33

سورة سبأ

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا لِلَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا بَلۡ مَکۡرُ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ اِذۡ تَاۡمُرُوۡنَنَاۤ اَنۡ نَّکۡفُرَ بِاللّٰہِ وَ نَجۡعَلَ لَہٗۤ اَنۡدَادًا ؕ وَ اَسَرُّوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَاَوُا الۡعَذَابَ ؕ وَ جَعَلۡنَا الۡاَغۡلٰلَ فِیۡۤ اَعۡنَاقِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ ہَلۡ یُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۳۳﴾

Those who were oppressed will say to those who were arrogant, "Rather, [it was your] conspiracy of night and day when you were ordering us to disbelieve in Allah and attribute to Him equals." But they will [all] confide regret when they see the punishment; and We will put shackles on the necks of those who disbelieved. Will they be recompensed except for what they used to do?

۔ ( اس کے جواب میں ) یہ کمزور لوگ ان متکبروں سے کہیں گے ، ( نہیں نہیں ) بلکہ دن رات مکرو فریب سے ہمیں اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور اس کے شریک مقرر کرنے کا تمارا حکم دینا ہماری بے ایمانی کا باعث ہوا اور عذاب کو دیکھتے ہی سب کے سب دل میں پشیمان ہو رہے ہونگے اور کافروں کی گردنوں میں ہم طوق ڈال دیں گے انہیں صرف ان کے کئے کرائے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا بَلْ مَكْرُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ... "...Nay, but you were criminals." Those who were deemed weak will say to those who were arrogant: "Nay, but it was your plotting by night and day..." meaning, `you used to plot against us night and day, tempting us with promises and false hopes, and telling us that we were truly guided and ... that we were following something, but all of that was falsehood and manifest lies.' Qatadah and Ibn Zayd said: بَلْ مَكْرُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ (Nay, but it was your plotting by night and day), means, "You plotted by night and day." Malik narrated something similar from Zayd bin Aslam. ... إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَن نَّكْفُرَ بِاللَّهِ وَنَجْعَلَ لَهُ أَندَادًا ... when you ordered us to disbelieve in Allah and set up rivals to Him! means, `to set up gods as equal to Him, and you created doubts and confusion in our minds, and you fabricated far-fetched ideas with which to lead us astray.' ... وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ ... And each of them (parties) will conceal their own regrets, when they behold the torment. means, both the leaders and the followers will feel regret for what they did previously. ... وَجَعَلْنَا الاَْغْلَلَ فِي أَعْنَاقِ الَّذِينَ كَفَرُوا ... And We shall put iron collars round the necks of those who disbelieved. This is a chain which will tie their hands to their necks. ... هَلْ يُجْزَوْنَ إِلاَّ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ Are they requited aught except what they used to do. means, they will be punished according to their deeds: the leaders will be punished according to what they did, and the followers will be punished according to what they did. قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَـكِن لاَّ تَعْلَمُونَ He will say: "For each one there is double (torment), but you know not." (7:38) Ibn Abi Hatim recorded that Abu Hurayrah, may Allah be pleased with him, said, "The Messenger of Allah said: إِنَّ جَهَنَّمَ لَمَّا سِيقَ إِلَيْهَا أَهْلُهَا تَلَقَّاهُمْ لَهَبُهَا ثُمَّ لَفَحَتْهُمْ لَفْحَةً فَلَمْ يَبْقَ لَحْمٌ إِلاَّ سَقَطَ عَلَى الْعُرْقُوب When the people of Hell are driven towards it, it will meet them with its flames, then the Fire will burn their faces and the flesh will all fall to their hamstrings."   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 یعنی ہم مجرم تو تب ہوتے جب ہم اپنی مرضی سے پیغمبروں کی تکذیب کرتے، جب کہ واقعہ یہ ہے کہ تم دن رات ہمیں گمراہ کرنے پر اور اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور اس کا شریک ٹھہرانے پر آمادہ کرتے رہے جس سے بالآخر ہم تمہارے پیچھے لگ کر ایمان سے محروم رہے۔ 33۔ 2 یعنی ایک دوسرے پر الزام تراشی تو کریں گے لیکن دل...  میں دونوں ہی فریق اپنے اپنے کفر پر شرمندہ ہوں گے لیکن شماتت اعدا کی وجہ سے ظاہر کرنے سے گریز کریں گے۔ 33۔ 3 یعنی ایسی زنجریں جو ان کے ہاتھوں کو ان کی گردنوں کے ساتھ باندھیں گے۔ 33۔ 4 یعنی دونوں کو ان کے عملوں کی سزا ملے گی، لیڈروں کو ان کے مطابق اور ان کے پیچھے چلنے والوں کو ان کے مطابق جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ( لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ ) 7 ۔ الاعراف :38) یعنی ہر ایک کو دگنا عذاب ہوگا۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٥٠] اب عوام اپنے لیڈروں اور پیشواؤں سے یوں مخاطب ہوں گے کہ تمہارے دن رات کے پروپیگنڈے سے ہی ہم متاثر ہوجاتے تھے تم ہمیں پھانسنے کے لئے ہر روز کوئی نئے سے نیا جال لاتے رہے۔ تم لوگ نام تو اسلام کا لیتے رہے مگر حقیقتاً تم اپنی ہی حکومت اور اپنی ہی چودھراہٹ چاہتے تھے۔ تمہارے جھوٹے پروپیگنڈہ نے ہماری ... مت مار دی تھی۔ اور ہم تمہیں مخلص سمجھ کر تمہارا ساتھ دیتے رہے۔ لہذا ہماری گمراہی کا باعث تم ہی لوگ ہو۔ [ ٥١] ان دونوں فریقوں کے مکالمہ سے ہر فری کو معلوم ہوجائے گا کہ دونوں فریق قصور وار ہیں۔ اور یہ مکالمہ محض بحث برائے بحث ہی ہے۔ لہذا ہم ان دونوں کو ایک جیسی سزا دیں گے ان کے گلوں میں طوق اور پاؤں میں زنجیریں ڈال کر انھیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

بَلْ مَكْرُ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۔۔ : ” أَيْ بَلْ صَدَّنَا عَنِ الْھُدٰی مَکْرُکُمْ فِي اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ “ یعنی کمزور لوگ ان بڑوں سے کہیں گے کہ صرف یہی نہیں کہ ہم مجرم تھے اور تمہارا ہمیں ہدایت سے روکنے میں کوئی دخل نہ تھا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تمہاری دن رات کی تدبیروں اور سازشوں نے ہمیں راہ ر... است سے روکے رکھا۔ جب تم ہمیں اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور اس کے ساتھ شریک بنانے کا حکم دیا کرتے تھے۔ وَاَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ : یعنی دونوں فریق ایک دوسرے پر الزام تراشی کریں گے، مگر دونوں ہی اپنے اپنے کفر پر نادم ہوں گے، لیکن اپنی پشیمانی اور ندامت کو چھپانے کی کوشش کریں گے۔ وَجَعَلْنَا الْاَغْلٰلَ فِيْٓ اَعْنَاقِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : آپس کی بحث سے دونوں فریقوں کو معلوم ہوجائے گا کہ دونوں ہی مجرم ہیں اور ان کی یہ بحث لاحاصل ہے۔ لہٰذا ہم دونوں کو ایک جیسی سزا دیں گے، ان کے گلوں میں طوق اور پاؤں میں لوہے کی زنجیریں ڈال کر انھیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ هَلْ يُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : یعنی یہ عذاب ان کے اپنے اعمال ہی کی جزا ہوگی۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِيْنَ اسْـتَكْبَرُوْا بَلْ مَكْرُ الَّيْلِ وَالنَّہَارِ اِذْ تَاْمُرُوْنَــنَآ اَنْ نَّكْفُرَ بِاللہِ وَنَجْعَلَ لَہٗٓ اَنْدَادًا۝ ٠ ۭ وَاَسَرُّوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ۝ ٠ ۭ وَجَعَلْنَا الْاَغْلٰلَ فِيْٓ اَعْنَاقِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۝ ٠ ۭ ہَل... ْ يُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝ ٣٣ اسْتَضْعَفْ واسْتَضْعَفْتُهُ : وجدتُهُ ضَعِيفاً ، قال وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ [ النساء/ 75] ، قالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 97] ، إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف/ 150] ، وقوبل بالاستکبار في قوله : قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ/ 33] استضعفتہ ۔ میں نے اسے کمزور سمجھا حقیر جانا ۔ قران میں ہے : ۔ وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا[ القصص/ 5] اور ہم چاہتے تھے کہ جنہیں ملک میں کمزور سمجھا گیا ہے ان پر احسان کریں : وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ [ النساء/ 75] اور ان بےبس مردوں عورتوں اور بچوں قالوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 97] تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز اور ناتوان تھے ۔ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف/ 150] کہ لوگ تو مجھے کمزور سمجھتے تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ/ 33] اور کمزور لوگ برے لوگوں سے کہیں گے ۔ میں استضاف استکبار کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مدموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ مكر المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران/ 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر/ 43] ( م ک ر ) المکر ک ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران/ 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر/ 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے : ليل يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل : أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ نهار والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] ( ن ھ ر ) النھر النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ ندد نَدِيدُ الشیءِ : مُشارِكه في جَوْهَره، وذلک ضربٌ من المماثلة، فإنّ المِثْل يقال في أيِّ مشارکةٍ کانتْ ، فكلّ نِدٍّ مثلٌ ، ولیس کلّ مثلٍ نِدّاً ، ويقال : نِدُّهُ ونَدِيدُهُ ونَدِيدَتُهُ ، قال تعالی: فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْداداً [ البقرة/ 22] ، وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْداداً [ البقرة/ 165] ، وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْداداً [ فصلت/ 9] وقرئ : (يوم التَّنَادِّ ) [ غافر/ 32] «2» أي : يَنِدُّ بعضُهم من بعض . نحو : يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ [ عبس/ 34] . ( ن د د ) ندید الشئی ۔ وہ جو کسی چیز کی ذات یا جوہر میں اس کا شریک ہو اور یہ ممانعت کی ایک قسم ہے کیونکہ مثل کا لفظ ہر قسم کی مشارکت پر بولا جاتا ہے ۔ اس بنا پر ہرند کو مثل کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر مثل ند نہیں ہوتا ۔ اور ند ، ندید ندید ۃ تینوں ہم معنی ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْداداً [ البقرة/ 22] پس کسی کو خدا کا ہمسر نہ بناؤ ۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْداداً [ البقرة/ 165] اور بعض لوگ ایسے ہیں جو غیر خدا کو شریک خدا بناتے ہیں ۔ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْداداً [ فصلت/ 9] اور بتوں کو اس کا مد مقابل بناتے ہو ۔ اور ایک قرات میں یوم التناد تشدید دال کے ساتھ ہے اور یہ نذ یند سے مشتق ہے جس کے معنی دور بھاگنے کے ہیں اور قیامت کے روز بھی چونکہ لوگ اپنے قرابتدروں سے دور بھاگیں گے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ [ عبس/ 34] میں مذکور ہے اس لئے روز قیامت کو یو م التناد بتشدید الدال کہا گیا ہے ۔ سرر (كتم) والسِّرُّ هو الحدیث المکتم في النّفس . قال تعالی: يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] ، وقال تعالی: أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة/ 78] ( س ر ر ) الاسرار السر ۔ اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ ندم النَّدْمُ والنَّدَامَةُ : التَّحَسُّر من تغيُّر رأي في أمر فَائِتٍ. قال تعالی: فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ [ المائدة/ 31] وقال : عَمَّا قَلِيلٍ لَيُصْبِحُنَّ نادِمِينَ [ المؤمنون/ 40] وأصله من مُنَادَمَةِ الحزن له . والنَّدِيمُ والنَّدْمَانُ والْمُنَادِمُ يَتَقَارَبُ. قال بعضهم : المُنْدَامَةُ والمُدَاوَمَةُ يتقاربان . وقال بعضهم : الشَّرِيبَانِ سُمِّيَا نَدِيمَيْنِ لما يتعقّبُ أحوالَهما من النَّدَامَةِ علی فعليهما . ( ن د م ) الندم واندامۃ کے معنی فوت شدہ امر پر حسرت کھانیکے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ [ المائدة/ 31] پھر وہ پشیمان ہوا ۔ عَمَّا قَلِيلٍ لَيُصْبِحُنَّ نادِمِينَ [ المؤمنون/ 40] تھوڑے ہی عرصے میں پشیمان ہو کر رہ جائنیگے ۔ اس کے اصل معنی حزن کا ندیم جا نیکے ہیں اور ندیم ندمان اور منادم تینوں قریب المعنی ہیں بعض نے کہا ہے کہ مند نۃ اور مداومۃ دونوں قریب المعنی میں ۔ اور بقول بعض اہم پیالہ ( شراب نوش ) کو ندیمان اسلئے کہا جاتا ہے ۔ کہ انجام کا ر وہ اپنے فعل پر پشیمان ہوتے ہیں ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا غل الغَلَلُ أصله : تدرّع الشیء وتوسّطه، ومنه : الغَلَلُ للماء الجاري بين الشّجر، وقد يقال له : الغیل، وانْغَلَّ فيما بين الشّجر : دخل فيه، فَالْغُلُّ مختصّ بما يقيّد به فيجعل الأعضاء وسطه، وجمعه أَغْلَالٌ ، وغُلَّ فلان : قيّد به . قال تعالی: خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة/ 30] ، وقال : إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر/ 71] ( غ ل ل ) الغلل کے اصل معنی کسی چیز کو اوپر اوڑھنے یا اس کے درمیان میں چلے جانے کے ہیں اسی سے غلل اس پانی کو کہا جاتا ہے جو درختوں کے درمیان سے بہہ رہا ہو اور کبھی ایسے پانی کو غیل بھی کہہ دیتے ہیں اور الغل کے معنی درختوں کے درمیان میں داخل ہونے کے ہیں لہذا غل ( طوق ) خاص کر اس چیز کو کہا جاتا ہے ۔ جس سے کسی کے اعضار کو جکڑ کر اس کے دسط میں باندھ دیا جاتا ہے اس کی جمع اغلال اتی ہے اور غل فلان کے معنی ہیں اے طوق سے باندھ دیا گیا قرآن میں ہے : خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة/ 30] اسے پکڑ لو اور طوق پہنادو ۔ إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر/ 71] جب کہ ان لی گردنوں میں طوق ہوں گے ۔ عنق العُنُقُ : الجارحة، وجمعه أَعْنَاقٌ. قال تعالی: وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ( ع ن ق ) العنق ۔ گردن جمع اعناق ۔ قرآن میں ہے : وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء/اور ہم نے پر انسان کے اعمال کو ( یہ صورت کتاب ) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے ۔ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اس پر یہ ادنی درجہ کے لوگ ان سرداروں سے کہیں گے کہ بلکہ تمہاری رات دن کی تدبیروں نے روکا تھا جب کہ تم ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کریں اور اس کے شریک ٹھہرائیں لیکن وہ سردار ان ادنی درجہ کے لوگوں سے اپنی شرمندگی چھپائیں گے یا یہ کہ ان دونوں کی شرمندگی خودبخود ظاہر ہوجائے گی جب...  یہ عذاب دیکھیں گے۔ اور ہم کافروں کی گردنوں میں طوق ڈالیں گے اور جیسی یہ کفریہ باتیں اور کام کرتے تھے قیامت کے دن اسی کی تو سزا بھگتیں گے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ { وَقَالَ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا بَلْ مَکْرُ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ } ” اس پر کہیں گے وہ جو کمزور تھے ان سے جو بڑے بنے ہوئے تھے بلکہ یہ (تمہاری) رات دن کی سازشیں تھیں “ { اِذْ تَاْمُرُوْنَنَآ اَنْ نَّکْفُرَ بِاللّٰہِ وَنَجْعَلَ لَہٗٓ اَنْدَادًا } ” جب تم ہمیں حک... م دیتے تھے کہ ہم اللہ کا کفر کریں اور اس کے لیے مد ِمقابل ٹھہرائیں۔ “ { وَاَسَرُّوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ } ” اور وہ چھپائیں گے ندامت کو جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے۔ “ { وَجَعَلْنَا الْاَغْلٰلَ فِیْٓ اَعْنَاقِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا } ” اور ہم نے طوق ڈال دیے ہیں ان کافروں کی گردنوں میں۔ ‘ ‘ { ہَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ } ” ان کو بدلہ نہیں ملے گا مگر اسی کا جو عمل وہ کرتے تھے۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

53 In other words, the common people's reply will be: "How can you hold us as equal partners in this responsibility? Do you also remember what sort of trickeries and deceptions and false propaganda you practised and what efforts you used to make to tempt and entice the people day and night. It is not just that you presented the world before us and we were allured, but this also is a fact that you ... used to befool us by your frauds and deceptions and each one of you brought a new bait every day to tempt and lure the simple people. " The Qur'an has made mention of the dispute between the religious guides and their followers at different places in different ways. For details, see AI-A'raf: 38-39; Ibrahim: 21; AI-Qasas: 63; Al-Ahzab: 66-68; AI-Mu`min: 47-48; Ha Mim Sajdah: 29.  Show more

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :53 دوسرے الفاظ میں ان عوام کا جواب یہ ہو گا کہ تم اس ذمہ داری میں ہم کو برابر کا شریک کہاں ٹھہرائے دے رہے ہو ۔ کچھ یہ بھی یاد ہے کہ تم نے اپنی چال بازیوں ، فریب کاریوں اور جھوٹے پروپیگنڈوں سے کیا طلسم باندھ رکھا تھا ، اور رات دن خلق خدا کو پھانسنے کے لیے کیسے کیسے جتن تم...  کیا کرتے تھے ۔ معاملہ صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ تم نے ہمارے سامنے دنیا پیش کی اور ہم اس پر ریجھ گئے ۔ امر واقعہ یہ بھی تو ہے کہ تم شب و روز کی مکاریوں سے ہم کو بے وقوف بناتے تھے اور تم میں سے ہر شکاری روز ایک نیا جال بن کر طرح طرح کی تدبیروں سے اللہ کے بندوں کو اس میں پھانستا تھا ۔ قرآن مجید میں پیشواؤں اور پیروں کے اس جھگڑے کا ذکر مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے آیا ہے ۔ تفصیل کے لیے حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: اعراف ، آیات 38 ۔ 39 ۔ ابراہیم ، 21 ۔ القصص ، 63 ۔ الاحزاب ، 66 ۔ 68 ۔ المومن ، 47 ۔ 48 ۔ حٰم السجدہ ، 29 ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

17: یعنی ظاہر میں تو ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہوں گے، لیکن دل میں سمجھتے ہوں گے کہ در اصل جرم میں ہم سب شریک ہیں، اس لیے دل ہی دل میں پچھتا رہے ہوں گے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٣۔ اوپر مشرکین مکہ کی اس سرکشی کا ذکر تھا کہ وہ قیامت کے آنے کا وقت گھڑ ی کھڑی سرکشی اور مسخراپن سے پوچھتے تھے ان آیتوں میں ذکر ہے کہ جب ان مشرکوں کو یہ جواب دیا گیا کہ وہ وقت آجاوے گا تو گھڑی بھر کی دیر سویر نہ ہوگی تو ان سرکشوں نے یہ کہا کہ قرآن پاک یا اس سے پہلے کی جن کتابوں میں قیامت کا ذکر ہے ... ان میں سے ایک کتاب کو بھی ہم نہیں مانتے پھر فرمایا اب تو اپنی سرداری کے گھمنڈ سے یہ سردار لوگ اور عام لوگ ان سرداروں کے بہکانے کے سب سے یہ سرکشی کی باتیں کرتے ہیں لیکن قیامت کے دن جب اس سرکشی کی سزا کا موقع آوے گا تو ان میں سے ہر ایک دوسرے کا دشمن ہوجائے گا سردار لوگ اپنے تابع لوگوں کو گمراہ ہونے کا اور تابع لوگ سرداروں کو رات دن کے بہکانے کا الزام لگائیں گے ‘ پھر فرمایا اللہ کی درگاہ میں انصاف ہے وہاں بےقصور کسی کو سزا نہیں دی جاتی اس لیے سرداروں اور ان کے پیدوں میں سے جیسا جس کا قصور ہوگا ویسی اس کو سزادی جاوے گی ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا میں جو شخص کسی کو بہکادے گا اس کو دوہری سزادی جائے گی خود بہکنے کی جدا اور دوسروں کو بہکانے کی جدا ‘ صحیح مسلم وغیرہ کے حوالہ سے ابوذر (رض) کی روایت سے حدیث قدسی بھی گئی جگہ گزر چکی ہے کہ ظلم اور ناانصافی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذاب پاک پر حرام کرلیا ہے اس واسطے یہ نہیں ہوسکتا کہ بہکانے والوں اور بہکنے والوں کی سز میں کچھ فرق نہ کیا جاوے بلکہ بہکانے والوں کو ان کے جرم کے موافق دوہری سزادی جاوے گی اور بہکنے والوں کو ان کے جرم کے موافق اکہریٔ ھل یجزون الا ما کانوا یعملون فرما کر اسی مطلب کوا دا کیا گیا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:33) بل۔ یہاں بھی اضراب ہی کے لئے مستعمل ہے۔ پہلی صورت کو برقرار رکھتے ہوئے مابعد کو اس پر اور زیادہ کرنے کے لئے ہے۔ یعنی جرم محض ہمارا ہی نہیں بلکہ تمہارے صدود اور مزید برآں تمہارے رات دن کے مکروفریب نے ہمیں خدا کے ساتھ کفر کرنے اور اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے کا حکم دینا ہی (ہماری اس گمراہی کا ) با... عث ہوا۔ مکر الیل والنھار۔ ای مکرکم بنا فی الیل والنھار۔ تمہارا رات دن کے مکروفریب نے ہمیں حق سے روکے رکھا۔ اذ تامروننا۔ یہ لیل ونہار کا بدل ہے یا مکر کی تعلیل ۔ جب تم ہمیں حکم دیتے تھے۔ یا دیا کرتے تھے۔ اندادا۔ اسم مفعول جمع مذکر ند واحد۔ شریک ۔ برابر۔ مقابل۔ ند اس کو کہتے ہیں جو کسی شے کی ذات اور جوہر میں شریک ہو۔ اسروا ماضی جمع مذکر غائب اسرار (افعال) مصدر۔ انہوں نے چھپایا۔ انہوں نے پوشیدہ رکھا۔ یہاں ضمیر فاعل جمع مذکر غائب مستکرین اور مستضعفین تھے ان کی طرف راجع ہے۔ اسروا الندامۃ (ماضی بمعنی مستقبل) وہ ندامت کو چھپائیں گے۔ دل ہی دل میں پچھتائیں گے۔ یعنی ہر دو فریق کے ظالم لوگ باوجود اس باہم الزام دہی کے اپنے سامنے عذاب کو دیکھ کر اپنے دلوں میں نادم و پشیمان ہونگے۔ الاغلال۔ الغلل کے معنی کسی چیز کو اوپر اوڑھنے یا اس کے درمیان چلے جانے کے ہیں۔ اسی سے غلل اس پانی کو کہا جاتا ہے جو درختوں کے درمیان سے بہہ رہا ہو۔ غل خاص کر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے کسی کے اعضا کو جکڑ کر اس کے وسط میں باندھ دیا جاتا ہے یعنی طوق۔ گلے کی زنجیر۔ اس کی جمع اغلال ہے۔ کنایہ کے طور پر کنجوس شخص کو مغلول الید کہا جاتا ہے جیسے کہ قرآن مجید میں ہے وقالت الیھود ید اللہ مغلولۃ (5:64) اور یہود کہتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ گردن سے بندھا ہوا ہے (یعنی اللہ بخیل ہے) ۔ غل (غ کے کسرہ کے ساتھ) بمعنی کینہ۔ پوشیدہ دشمنی ہے۔ ھل یجزون۔ یجزون مضارع مجہول جمع مذکر غائب ۔ جزاء مصدر (باب ضرب) جزی مادہ ھل جزاء الاحسان الا الاحسان (55:60) نہیں ہے احسان کا بدلہ مگر احسان اس معنی میں ھل یجزون کا معنی ہوگا ان کو بدلہ نہیں دیا جائے گا (مگر۔۔ ) لیکن ھل استفہام انکاری بھی ہوسکتا ہے آیت ہذا میں بھی اور آیت مذکورہ بالا (55:60) میں بھی۔ اور ترجمہ ہوگا : کیا ان کو بدلہ دیا جائے گا بجز اس کے کہ جو وہ کیا کرتے تھے۔ یعنی ان کو بدلہ نہیں دیا جائے گا بجز اس کے کہ جو وہ کیا کرتے تھے (34:33) ۔ اور : بھلا احسان کا بدلہ بجز احسان کے اور بھی ہوسکتا ہے یعنی نہیں ہوسکتا۔ (55:60) ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

۔3 یعنی اپنی شرمندگی دوسروں سے چھپائیں گے اور بظاہر بڑے حوصلہ مند بننے کی کوشش کریں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ تدبیروں سے مراد ترغیب و ترہیب ہے۔ 1۔ اگر شبہ ہو کہ بعض کفار نے تو اپنے اتباع پر زبردستی بھی کی ہے، پھر اس کے کیا معنی انحن صددنکم تو جواب یہ ہے کہ اصل ایمان اعتقاد ہے اور اس کا محل قلب ہے، وہاں اکراہ ممکن نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن مجرموں کا آپس میں تکرار اور کمزور لوگوں کا بڑے لوگوں کو جواب۔ تابع لوگ اپنے مطاع لوگوں کی بات کو رد کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہرگز نہیں ! بلکہ تمہاری صبح و شام کی مکاریاں تھیں کہ تم نے اپنے مکرو فریب سے ہمیں ایسے راستے پر چلایا کہ ہم اللہ کیساتھ کفر کریں اور دوسروں کو ا... س کا شریک بنائیں۔ صبح و شام کے مکروفریب سے مراد پیروں کے گھو رکھ دندھے، لیڈروں کی چالبازیاں اور علمائے سوء کی بدعات و رسومات ہیں جن کے لیے سیاست دان سیاست اور مذہبی پیشوا مذہب کے نام پر عوام کو قابو میں رکھتے ہیں۔ بہرحال ماتحت لوگ اپنے کفر و شرک کو بڑوں کے ذمّے لگائیں گے اور خود اپنی براءت کا اظہار کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی رہنما عوام کو کفر اور بےدینی کے کاموں میں مبتلا کرتے ہیں۔ برے علماء اور پیر بظاہر کفر یہ حرکات کی دعوت نہیں دیتے لیکن دین کے نام پر بنائی ہوئی رسومات اور بدعات سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ اور جھوٹی کرامات سنا، سنا کر مریدوں سے کفر و شرک کے کام کرواتے اور نذرانے وصول کرتے ہیں۔ جب بڑے اور چھوٹے، حاکم اور محکوم، پیر اور مرید، علماء اور مقتدی جہنم کا عذاب دیکھیں گے تو ان کے چہروں پر پریشانی عیاں ہوگی۔ بڑے لوگ اس لیے پریشان ہوں گے کہ دنیا میں جو ہم لوگوں سے وعدے کیا کرتے تھے وہ جھوٹے ثابت ہوئے۔ چھوٹے اس لیے پریشان ہوں گے کہ ہم نے اپنی حماقت کی بنیاد پر ان پر بھروسہ کیا جبکہ آج یہ ہماری طرح ہی مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ بڑے اور چھوٹے اس سوچ و بچار میں ہوں گے تو اچانک ملائکہ ان کی گردنوں میں طوق اور پاؤں میں بیڑیاں ڈالتے ہوئے کہیں گے کہ یہ تمہارے کفر و شرک کا بدلہ ہے۔ اس حالت میں گھسیٹ کر انہیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن جہنمی اپنی گمراہی کو ایک دوسرے کے ذمّہ لگائیں۔ ٢۔ جہنمیوں کو محشر کے میدان میں طوق اور بیڑیاں پہنائی جائیں گی۔ ٣۔ جہنمیوں کو ان کے کفر و شرک کی پوری پوری سزا دی جائے گی۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کو زنجیروں میں جکڑ کر جہنم میں پھینکا جائے گا : ١۔ قیامت کے دن مجرموں کو با ہم زنجیروں میں جکڑدیا جائے گا۔ (ابراہیم : ٤٩) ٢۔ قیامت کے دن کفار کو طوق پہنا کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (الحاقۃ : ٣٠۔ ٣١) ٣۔ بدترین لوگوں کو منہ کے بل جہنم میں پھینکا جائے گا۔ (الفرقان : ٣٤) ٤۔ قیامت کے دن مجرموں کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ذلت چھائی ہوگی۔ (المعارج : ٤٤) ٥۔ قیامت کے دن مجرموں کو دھکتی ہوئی آگ میں داخل کیا جائے گا۔ (الغاشیۃ : ٤) ٦۔ جہنمیوں کو آگ کا لباس پہناکر آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ (الحج : ١٩) ٧۔ جو شخص برے اعمال کے ساتھ آیا اسے اوندھے منہ جہنم میں پھینکا جائے گا۔ (النمل : ٩٠) ٨۔ اللہ کے ساتھ کسی اور الہ کو پکارنے والاجہنم میں پھینک دیا جائیگا۔ (بنی اسرائیل : ٣٩) ٩۔ منافق جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت و پھٹکار پڑتی رہے گی۔ (التوبۃ : ٦٨)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

35:۔ وقال الذین استضعفوا الخ : اتباع و مریدین اپنے پیشواؤں کے جواب الجواب میں کہیں گے نہیں ! نہیں ! ہم خود گمراہ نہیں ہوئے۔ بلکہ ہمیں تمہاری چالوں اور تدبیروں ہی نے گمراہ کیا جو تم رات اور دن میں سوچا کرتے تھے۔ مکرالیل : مکر کا مضاف الیہ حذف کر کے ظرف کو اس کے قائم مقام رکھا گیا ہے۔ ای بل صدنا مکرکم...  بنا بالیل والنہار فحذف المضاف الیہ واقیم مقامہ الظرف اتساعا (ابو السعود ج 7 ص 22) ۔ 36:۔ واسروا الخ : مشرک اتباع و متبوعین چونکہ دونوں گروہ ہی مجرم ہیں اور دونوں کو اپنے اپنے مجرم ہونے کا احساس بھی ہوگا۔ لیکن ذلت و رسوائی سے بچنے کے لیے وہ کئی بہانے اور باتیں بنائیں گے۔ آخر جب کوئی بہانہ کام نہ آئے گا اور وہ عذاب کا مشاہدہ کرلیں گے جو ان کے لیے تیار ہے تو وہ اپنی رسوائی پر مزید پردہ ڈالنے کے اپنی پشیمانی اور ندامت کو چھپائیں گے۔ اور پشیمانی کے قول و فعل سے اظہار کے بجائے دل ہی دل میں نادم و پشیمان ہوں گے۔ اب ابن مجرموں کے گلوں میں لوہے کے طوق ڈال کر انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ جیسے برے ان کے اعمال تھے ویسی ہی ان کو سخت سزا ملے گی۔ حضرت شیخ قدس سرہ فرماتے ہیں۔ اسرار کے تین معنی ہیں۔ اظہار، اخفاء، اور دل میں پشیمان ہونا۔ یہاں تینوں معنی بن سکتے ہیں۔ لیکن تیسرا معنی زیادہ مناسب ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(33) اس پر وہ کمزور اور ادنیٰ درجے کے لوگ ان بڑائی کرنیوالوں سے کہیں گے اور جواب دیں گے نہیں بلکہ تمہاری ہی رات دن کی پرفریب تدبیروں اور ریشہ دوانیوں نے ہم کو روکا تھا جب تم ہم سے یہ فرمائش کیا کرتے تھے اور یہ مشورہ دیا کرتے تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کریں اور ہم دوسروں کو اللہ تعالیٰ کا ہمسر...  ٹھہرائیں اور جب یہ لوگ عذاب کا معائنہ کریں گے اور جب یہ تابع اور متبوع عذاب کو دیکھیں گے تو اپنی ندامت اور پشیمانی کو تو چھپانے کی کوشش کریں گے اور دل ہی دل میں پچھتائیں گے اور ہم ان لوگوں کی گردنوں میں جو کفر کرتے رہے طوق ڈال دیں گے۔ ان لوگوں کو انہی اعمال کی سزا دی جائے گی جو وہ کیا کرتے تھے۔ یعنی سوال و جواب کے سلسلہ میں یہ کمزور اور ناتواں لوگ مستکبرین کو جواب دیں گے کہ زور اور زبردستی نہ بھی کی ہو تمہاری ان ریشہ دوانیوں اور پرفریب تدبیروں نے تو روکا جو تم دن رات کیا کرتے تھے کہ ہم کسی طرح اسلام نہ قبول کرلیں اور خود ہم سے کہا بھی کرتے تھے اور ہم سے فرمائش بھی کیا کرتے تھے کہ ہم کفر پر قائم رہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک اور سہیم قرار دیں اور دوسروں کو اس کا ہمسر بنائیں اور جب یہ دونوں فریق عذاب کو دیکھیں گے تو چپکے چپکے نادم و پشیمان ہوں گے اور ایک دوسرے سے پشیمانی کو چھپائیں گے۔ مستکبرین اپنی حرکات پر نادم ہوں گے کہ ہم نے ان غریب لوگوں کی راہ میں مشکلات پیدا کیں اور مستضعفین یوں شرمندہ ہوں گے کہ ہم نے ان کا کہنا کیوں مانا اور اپنی رائے سے حق قبول کیوں نہ کیا۔ آگے سزا کا ذکر ہے کہ مجرموں کی مشکیں کس کر گلے میں بھاری بھاری طوق ڈال دیئے جائیں گے اور یہ تابع یعنی کمزور اور متبوع یعنی بڑائی کرنیوالے سب ہی عذاب کے مستحق ہوں گے۔ ھل یجزون الا ما کانوا یعملون بدلا نہیں دیا جائے گا مگر انہی اعمال کا جن کا ارتکاب کیا کرتے تھے آگے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے۔  Show more