Surat Saba

Surah: 34

Verse: 36

سورة سبأ

قُلۡ اِنَّ رَبِّیۡ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۳۶﴾٪  10

Say, "Indeed, my Lord extends provision for whom He wills and restricts [it], but most of the people do not know."

کہہ دیجئے! کہ میرا رب جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور تنگ بھی کردیتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاء وَيَقْدِرُ ... Say: "Verily, my Lord expands the provision to whom He wills and restricts..." meaning, He gives wealth to those whom He loves and those whom He does not love, and He makes poor whom He wills and makes rich whom He wills. He has complete wisdom and clear proof, ... وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ but most men know not. Then Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 اس میں کفار کے مذکورہ مغالطے کا ازالہ کیا جا رہا ہے کہ رزق کی کشادگی اور تنگی اللہ کی رضا یا عدم کی مظہر نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اللہ کی حکمت و مشیت سے ہے۔ اس لئے وہ مال اس کو بھی دیتا ہے جسے وہ پسند کرتا ہے اور اس کو بھی جس کو ناپسند کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے غنی کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے فقیر رکھتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٥٤] وہ یہ بات نہیں سمجھتے کہ رزق کی کمی بیشی کا معاملہ تو اللہ کی مشیت سے تعلق رکھتا ہے، اس کی رضا سے تعلق نہیں رکھتا۔ اللہ کی مشیت یہ ہے کہ وہ اس دنیا میں اپنے نافرمانوں اور فرمانبرداروں سب کو رزق دے۔ اسی صورت میں اس دنیا میں انسان کی آزمائش ہوسکتی ہے۔ اگر وہ اس دنیا میں نافرمانوں کو رزق نہ دے یا ان پر رزق تنگ کردے اور اپنے فرمانبرداروں کو ہی رزق دے یا انھیں وافر رزق عطا کرنے لگے۔ تو پھر تو ہر ایک ایمان لے آئے گا اس میں انسانوں کی آزمائش کی کیا گنجائش رہ گئی ؟ اور اس کا دوسرے پہلو یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بسا اوقات ظالموں، چوروں، ڈاکوؤں، خائنوں، مکاروں اور فریب کاروں کو وافر رزق عطا کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ان صفات کو اور ایسی صفات رکھنے والے لوگوں کو کوئی بھی اچھا نہیں سمجھتا۔ پھر بسا اوقات یوں بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ شریف لوگ سچ بولنے والے، عہد کے پابند، کسی کو ہاتھ یا زبان سے تکلیف نہ پہنچانے والے اور اللہ کے فرمانبردار اور عبادت گزار لوگ فقر و فاقہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ حالانکہ ان صفات کو اور ایسی صفات رکھنے والے انسانوں کو سب ہی اچھا سمجھتے ہیں۔ پھر قسم اول کے لوگوں کی آسودگی کو اور قسم دوم کے لوگوں کی تنگی کو اللہ کی رضا کیسے قرار دیا جاسکتا ہے ؟ جبکہ زبان خلق بھی اس بات کی تردید کر رہی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اِنَّ رَبِّيْ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَــقْدِرُ ۔۔ : یعنی دنیا کی آسودگی اور خوش حالی اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی دلیل نہیں ہے، بلکہ اس کی حکمت و مشیّت یعنی بندوں کی آزمائش ہے۔ وہ بعض اوقات ناراض ہونے کے باوجود آزمائش کے لیے اور حجت تمام کرنے کے لیے کافر و فاسق کا رزق فراخ کردیتا ہے اور کبھی آزمائش کے لیے اور گناہوں کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لیے مومن کا رزق تنگ کردیتا ہے اور کبھی اپنی حکمت و مصلحت کی بنا پر کافر کا رزق تنگ اور مومن کا فراخ کردیتا ہے، تاکہ آزمائش قائم رہے اور دنیا کی خوش حالی دیکھ کر سب لوگ کفر ہی کی طرف مائل نہ ہوجائیں۔ (دیکھیے زخرف : ٣٣ تا ٣٥) لیکن اکثر لوگ یہ بات نہیں جانتے اور مال و اولاد کی کثرت کو اللہ تعالیٰ کے خوش ہونے کی دلیل سمجھ لیتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

This very subject has been taken up in several other verses of the noble Qur&an. In Surah al-Mu&minun, it was said: أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُم بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ نُسَارِ‌عُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَ‌اتِ بَل لَّا يَشْعُرُ‌ونَ Do they think that by consistently providing them with wealth and children, We are accelerating the (real) good things to them? The fact, however, is that they do not understand (the reality) - 23:55, 56. And the reality is that wealth and children that make man negligent of Allah become a curse for him. Then, in a verse of Surah At-Taubah, it was said: وَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَأَوْلَادُهُمْ ۚ إِنَّمَا يُرِ‌يدُ اللَّـهُ أَن يُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُ‌ونَ And their wealth and children should not attract you. Allah only wants to punish them with these in this world and that their souls depart while they are disbelievers - 9:85. In that case, it will end up into the everlasting punishment of the Hereafter. As for punishing through wealth and children right here in this world, it means that they become so involved in and infatuated with wealth and property that they never find the time to think about their ultimate fate or turn towards Allah and &Akhirah - the end of which is punishment that will last forever. Then there are many who have wealth and children both. It is within this world that, for the sake of wealth and children, rather, through the wealth and children, they have to suffer from thousands of distresses and pains. As such, their punishment starts taking effect right from this very world. According to a narration of Sayyidna Abu Hurairah (رض) ، the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: Allah Ta’ ala does not see you or your wealth. He sees your hearts and your deeds – (reported by Ahmad, Ibn Kathir)

قرآن کریم نے تیسری اور چوتھی آیت میں ان کا یہ جواب دیا ہے (آیت) قل ان ربی یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر اور ما اموالکم ولا اولادکم الآیہ، خلاصہ جواب کا یہ ہے کہ دنیا میں مال و دولت یا عزت وجاہ کی کمی بیشی اللہ کے نزدیک مقبول یا مردود ہونے کی دلیل نہیں، بلکہ تکوینی مصالح کے پیش نظر دنیا میں تو اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے مال و دولت فراوانی کے ساتھ دیتا ہے، جس کو چاہتا ہے کم دیتا ہے، جس کی تکوینی حکمت کو وہی جانتا ہے، مگر مال واولاد کی بہتات کو اللہ کے نزدیک مقبولیت کی دلیل سمجھنا جہالت ہے، کیونکہ اس کے نزدیک مقبولیت کا مدار صرف ایمان اور عمل صالح پر ہے جس کو یہ حاصل نہیں مال واولاد کتنا ہی زیادہ ہو وہ اس کو اللہ کے نزدیک مقبول نہیں بنا سکتا۔ اسی مضمون کو قرآن کریم نے متعدد آیات میں بیان فرمایا ہے، ایک جگہ ارشاد ہے (آیت) ایجسبون انما نمدھم بہ من مال وبنین نسارع لہم فی الخیرات بل لا یشعرون، یعنی کیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم جو مال اور اولاد کی بہتات سے ان کی امداد کرتے ہیں یہ کچھ ان کے لئے انجام و آخرت کے اعتبار سے خیر ہے (ہر گز نہیں) بلکہ یہ لوگ حقیقت سے بیخبر ہیں (کہ جو مال واولاد انسان کو اللہ سے غافل کرے وہ اس کے لئے وبال ہے) دوسری آیت میں فرمایا (آیت) فلا تعجبک اموالہم ولا اولادہم انما یرید اللہ لیعذبہم بہا فی الحیاة الدنیا وتزھق انفسہم وہم کفرون، ” یعنی ان کافروں کے مال واولاد سے آپ تعجب نہ کریں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ ہے کہ ان کو اسی مال واولاد کے ذریعے دنیا میں مبتلائے عذاب کر دے اور انجام کار ان کی جان اسی حالت کفر میں نکل جائے “ جس کا نتیجہ آخرت کا دائمی عذاب ہو۔ مال واولاد کے ذریعہ دنیا میں عذاب دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا میں مال و دولت کی محبت میں ایسے مبتلا ہوجائیں کہ اپنے انجام اور خدا وآخرت کی طرف کبھی التفات نہ ہو جس کا انجام دائمی عذاب ہے، اور بہت سے مال واولاد والوں کو اس دنیا میں بھی مال واولاد ہی کی خاطر بلکہ انہی کے ذریعہ ہزاروں مصائب و تکالیف جھیلنی پڑتی ہیں، ان کی سزا و عذاب تو اسی عالم سے شروع ہوجاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو اور تمہارے اموال کو نہیں دیکھتا، وہ تو تمہارے دلوں کو اور اعمال کو دیکھتا ہے۔ (رواہ احمد، ابن کثیر)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنَّ رَبِّيْ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَــقْدِرُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٣٦ۧ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ بسط بَسْطُ الشیء : نشره وتوسیعه، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] والبِسَاط : الأرض المتسعة وبَسِيط الأرض : مبسوطه، واستعار قوم البسط لکل شيء لا يتصوّر فيه تركيب وتأليف ونظم، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] ، ( ب س ط ) بسط الشئ کے معنی کسی چیز کو پھیلانے اور توسیع کرنے کے ہیں ۔ پھر استعمال میں کبھی دونوں معنی ملحوظ ہوتے ہیں اور کبھی ایک معنی متصور ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے بسط لثوب ( اس نے کپڑا پھیلایا ) اسی سے البساط ہے جو ہر پھیلائی ہوئی چیز پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] اور خدا ہی نے زمین کو تمہارے لئے فراش بنایا ۔ اور بساط کے معنی وسیع زمین کے ہیں اور بسیط الارض کے معنی ہیں کھلی اور کشادہ زمین ۔ ایک گروہ کے نزدیک بسیط کا لفظ بطور استعارہ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس میں ترکیب و تالیف اور نظم متصور نہ ہوسکے ۔ اور بسط کبھی بمقابلہ قبض آتا ہے ۔ جیسے وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] خدا ہی روزی کو تنگ کرتا ہے اور ( وہی اسے ) کشادہ کرتا ہے ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ قدر ( تنگي) وقَدَرْتُ عليه الشیء : ضيّقته، كأنما جعلته بقدر بخلاف ما وصف بغیر حساب . قال تعالی: وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق/ 7] ، أي : ضيّق عليه، وقال : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم/ 37] ، وقال : فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء/ 87] ، أي : لن نضيّق عليه، وقرئ : ( لن نُقَدِّرَ عليه) «3» ، ومن هذا المعنی اشتقّ الْأَقْدَرُ ، أي : القصیرُ العنق . وفرس أَقْدَرُ : يضع حافر رجله موضع حافر يده، وقوله : وَما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ [ الأنعام/ 91] ، أي : ما عرفوا کنهه تنبيها أنه كيف يمكنهم أن يدرکوا کنهه، وهذا وصفه اور قدرت علیہ الشئی کے معنی کسی پر تنگی کردینے کے ہیں گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی ہے اس کے بالمقابل بغیر حساب ( یعنی بےاندازہ ) آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق/ 7] اور جس کے رزق میں تنگی ہو ۔ یعنی جس پر اس کی روزی تنگ کردی گئی ہو ۔ نیز فرمایا : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم/ 37] خدا جس پر جاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ۔ فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء/ 87] اور خیال کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور ایک قرآت میں لن نقدر علیہ سے اور اسی سے لفظ اقدر مشتق ہے جس کے معنی کوتاہ گردن آدمی کے ہیں اوراقدر اس گھوڑے کو بھی کہتے ہیں جس کے دوڑتے وقت پچھلے پاؤں ٹھیک اس جگہ پڑیں جہاں اگلے پاؤں پڑے تھے ۔ اور آیت کریمہ وما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ [ الأنعام/ 91] ان لوگوں نے خدا کی قدرشناسی جیسی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ۔ یعنی لوگ اس کی حقیقت کو نہیں پاسکے اور پھر اس امر پر تنبیہ کی ہے کہ وہ اس کی کنہہ کا ادارک بھی کیسے کرسکتے ہیں كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آزمائش کے طور پر تمہارا پروردگار جس کو چاہتا ہے زیادہ رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے براہ ڈھیل کم دیتا ہے مگر مکہ والے اس کو نہیں سمجھتے اور نہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ چناچہ اس کے بعد رسول اکرم نے ان کو کہلا بھیجا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بات کی تصدیق نازل کردی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ { قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیَقْدِرُ } ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیے کہ یقینا میرا رب جس کے لیے چاہتا ہے (دنیا کا) رزق وسیع کردیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے “ اللہ تعالیٰ کے ہاں دنیا کی نعمتوں کی تقسیم لوگوں کے اعمال یا اعتقاد کی بنیاد پر نہیں ہوتی۔ چناچہ اگر کسی کے ہاں مال و دولت کی کثرت ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اللہ کا منظورِ نظر ہے۔ حضرت سہل بن سعد الساعدی (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (لَــوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰہِ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ مَا سَقٰی کَافِرًا مِنْھَا شَرْبَۃَ مَائٍ ) (١) ” اگر دنیا کی وقعت اللہ تعالیٰ کے ہاں مچھر کے ایک َپر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی پینے کو نہ دیتا “۔ چناچہ جس مال اور اولاد پر یہ لوگ اتراتے پھرتے ہیں اللہ کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ { وَلٰــکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ } ” لیکن اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔ “ اکثر لوگ اللہ کی اس تقسیم کے فلسفے کے بارے میں لا علم ہیں۔ وہ یہ بات نہیں سمجھتے کہ رزق کی کمی یا زیادتی کا تعلق کسی انسان کے اللہ کے ہاں محبوب یا مغضوب ہونے سے نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

56 They do not understand the wisdom on which the system of the distribution of provisions is based in the world, and are thus involved in the misunderstanding that whoever is being given abundantly is a beloved of Allah and whoever is being given sparingly is under His wrath. The fact, however, is that if a person looks around with open eyes he will see that in most cases the people with filthy and repulsive character are prosperous, and many good and noble people, who are known and recognized as morally pure, are found living in poverty. Now, how can a sensible person say that Allah dislikes the people of pure character and favours the wicked wrongdoers?"

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :56 یعنی دنیا میں رزق کی تقسیم کا انتظام جس حکمت و مصلحت پر مبنی ہے اس کو یہ لوگ نہیں سمجھتے اور اس غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ جسے اللہ کشادہ رزق دے رہا ہے وہ اس کا محبوب ہے ، اور جسے تنگی کے ساتھ دے رہا ہے وہ اس کے غضب میں مبتلا ہے ۔ حالانکہ اگر کوئی شخص ذرا آنکھیں کھول کر دیکھے تو اسے نظر آ سکتا ہے کہ بسا اوقات بڑے ناپاک اور گھناؤنے کردار کے لوگ نہایت خوشحال ہوتے ہیں ، اور بہت سے نیک اور شریف انسان ، جن کی کردار کی خوبی کا ہر شخص معترف ہوتا ہے ، تنگدستی میں مبتلا پائے جاتے ہی ۔ اب آخر کون صاحب عقل آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ اللہ کو یہ پاکیزہ اخلاق کے لوگ ناپسند ہیں اور وہ شریر و خبیث لوگ ہی اسے بھلے لگتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

18: اصل بات نہ سمجھنے کی وجہ سے انہیں یہ خیال ہوگیا ہے کہ جب دنیا میں انہیں مال و دولت میسر ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے ہیں، حالانکہ دنیا میں رزق دینے کا معیار اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ نہیں ہے کہ جو جتنا مقرب ہو، اسے اتنا ہی زیادہ رزق دیا جائے، بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت اور حکمت کے تحت یہاں جس کو چاہتا ہے، رزق زیادہ دیتا ہے، اس کا اللہ تعالیٰ کے تقرب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:36) یقدر۔ مضارع واحد مذکر غائب قدر مصدر (باب ضرب) وہ تنگ کرتا ہے وہ کم کرتا ہے۔ محاورہ ہے قدرت علیہ الشیء میں نے اس پر تنگی کردی۔ گویا وہ چیز اسے معین مقدار میں تول کر جانچ کردی گئی ہے۔ اس کے بالمقابل بغیر حساب (بےاندازہ) آتا ہے ۔ مثلاً وترزق من تشاء بغیر حساب (3:27) اور تو جس کو چاہتا ہے بیشمار رزق بخشتا ہے۔ یبسط کی ضد ہے چناچہ قرآن مجید میں ہے اللہ یبسط الزرق لمن یشاء ویقدر (13:26) خدا جس کا چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے۔ یہ مادہ قدر سے مشتق ہے جس کے معنی قدرت رکھنے کے ہیں اسی سے القادر القدیر المقتدر اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ میں سے ہے پھر اندازہ لگانا اور تجویز کرنا کے معنی میں بھی مستعمل ہے مثلاً انہ فکر وقدر فقتل کیف قدر۔ (74:18 ۔ 19) اس نے فکر کیا اور تجویز کی یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی۔ استعارہ کے طور پر حالت اور وسعت مال کے معنی میں بھی آتا ہے اور قدر بمعنی معین وقت یا مقام بھی مستعمل ہے مثلاً الی قدر معلوم (77:22) ایک معین وقت تک۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی دنیا کی آسودگی اور خوش حالی اللہ تعالیٰ کے خوش ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ اس میں جو حکمت اور مصلحت ہے وہ اسی کو معلوم ہے لیکن عوام یہ سمجھتے ہیں کہ مال و اولاد کا حاصل ہونا خوش قسمی کی علامت ہے اور یہ نہیں سوچتے کہ بعض اوقات سرکش اور نافرمان لوگوں کو اس لئے بھی ہر قسم کی نعمتیں ملتی رہتی ہیں کہ وہ اپنی سرکشی میں خوب بڑھ جائیں۔ اسی مضمون کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے۔ (ان اللہ لا ینظر الی صور کم واموالکم وانما ینظر الی قلوبکم واعمالکم) کہ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے۔ ( ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی اس حقیقت سے واقف نہیں کہ وسعت رزق کا مدار قبول عنداللہ نہیں ہے بلکہ مدار اس کا دوسری مصلحتوں پر ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بےدین مال دار طبقہ کا جواب اور رزق کی حقیقت۔ مال دار آدمی کا آہستہ آہستہ یہ ذہن بن جاتا ہے کہ مال کی فراوانی میری محنت اور ذہانت کا نتیجہ ہے بالخصوص وہ مال دار طبقہ جنہیں کئی نسلوں سے مال کی کشادگی حاصل ہو اور وہ من مانی کی زندگی گزار رہے ہوں۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی رسی دراز کردی جاتی ہے تو وہ یقین کر بیٹھتے ہیں کہ یہ مال ہماری اور ہمارے بڑوں کی محنت اور ذہانت کا صلہ ہے۔ ان لوگوں کو یہ حقیقت باور کروانے کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ انہیں بتلائیں کہ رزق کی کشادگی اور اس کا کم کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے۔ انسان کو صرف محنت اور ذہانت کی بنیاد پر رزق کی کشادگی حاصل نہیں ہوتی۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ جسے چاہے رزق کی فراخی سے سرفراز کرے اور جس کا چاہے رزق کم کردے لیکن لوگوں کی اکثریت اس حقیقت سے لا علم ہوتی ہے۔ یعنی اس پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ لوگو ! مال اور اولاد پر اترانے کی بجائے اپنے رب کا شکرادا کرو اور اس کی فرمانبرداری میں زندگی بسر کرو۔ جس مال پر تم اتراتے ہو یہ اللہ تعالیٰ کے مقرب ہونے کی نشانی نہیں۔ مال اور اولاد اکثر دفعہ انسان کو اپنے رب سے دور کردیتے ہیں۔ ہاں وہ شخص اللہ تعالیٰ کے ضرور قریب ہوگا بیشک وہ مال دار ہو یا غریب جو حقیقی طور پر ایمان لائے اور صالح اعمال کرتا رہے۔ ایسے لوگوں کے لیے ان کے اعمال کا دوگنا بدلہ ہوگا اور وہ جنت کے بالاخانوں میں پُر سکون رہیں گے۔ سکون کے ذکر فرما کر اشارہ کیا ہے کہ ضروری نہیں کہ دنیا کا مال اور اولاد انسان کے لیے سکون کا باعث ہو اکثر دفعہ مال اور اولاد بےسکونی کا باعث ہوتے ہیں۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور احکام کو حقیر سمجھتے ہیں۔ ان کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ انہیں جہنم کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا جس میں یہ ناقابل برداشت اذّیت پائیں گے۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن نیک اور بد لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق جزا اور سزا مل کررہے گی۔ ٢۔ نیک لوگ جنت میں امن و سلامتی کے ساتھ رہیں گے۔ ٣۔ کفار جہنم میں ہمیشہ رسوا ہوتے رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن مال اور اولاد آزمائش ہیں : ١۔ مال اور اولاد دنیا کی نمائش ہیں باقی رہنے والے نیک اعمال ہیں۔ (الکہف : ٤٦) ٢۔ قیامت کے دن مال اور اولاد کام نہیں آئیں گے۔ (الشعراء : ٨٨) ٣۔ جان لو کہ مال اور اولاد تمہارے لیے فتنہ ہیں۔ (الانفال : ٢٨) ٤۔ اے ایمان والو تمہیں مال اور اولاد اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں۔ (المنافقون : ٩) ٥۔ مال اور اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں اللہ کے پاس بڑا اجر ہے۔ (التغابن : ١٥) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے ان کے مال اور جان کے بدلے جنت کا وعدہ کیا ہے۔ (التوبۃ : ١١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل ان ربی ۔۔۔۔۔ لا یعلمون (26) ” “۔ یہ مسئلہ یعنی رزق کی فراوانی اور تنگی کا مسئلہ ، عیش و عشرت کے وسائل کی ملکیت اور زیب وزینت کے ذرائع اور ان سے محرومی کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے کئی لوگوں کے دلوں میں بےحد خلجان پیدا ہوتا ہے۔ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ اہل شر ، اہل فساد اور باطل پرستوں پر دنیا کے مال و دولت کے دروازے کھلے ہیں۔ اہل حق ، اہل خیر اور نیک لوگ ان سے محروم ہیں اس لیے بعض لوگ یوں سوچتے ہیں کہ اگر اللہ ان لوگوں سے ناراض ہوتا تو ان پر وسائل کی یوں بارش کیوں کرتا۔ بعض اوقات لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ نیکی ، سچائی اور پاکبازی ہمیشہ محروم رہتی ہے یہاں قرآن مجید دنیا کے مال و متاع اور سازوسامان اور ان قدروں کے درمیان جدائی کردیتا ہے جو اللہ کی نظروں میں بلند ہیں۔ فیصلہ کردیا جاتا ہے کہ رزق کی تنگی اور فراوانی اللہ کی مشیت کے تحت ہے۔ اس کا اللہ کی رضا مندی اور ناراضگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ بعض اوقات اللہ ایک ایسے شخص کو بھی رزق فراواں دے دیتا ہے جس سے وہ ناراض ہوتا ہے اور بعض اوقات اس کو بھی دیتا ہے جس سے راضی ہوتا ہے۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ اہل شر اور اہل خیر دونوں غریب اور نادار ہوتے ہیں لیکن تمام حالات میں علل و اسباب ایک نہیں ہوتے۔ بعض اوقات اللہ اہل شر کو زیادہ نوازتا ہے تاکہ وہ سرکشی ، فساد اور نافرمانی میں آگے بڑھ جائیں۔ یوں ان کو پکڑنا مقصود ہوتا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ جرائم کا ارتکاب کرلیں تاکہ ان کو زیادہ سزا ملے۔ پھر اللہ ان کو دنیا میں بھی سزا دیتا ہے اور آخرت میں بھی دے گا۔ اپنی حکمت اور تدبیر کے مطابق بھی بعض اوقات اللہ اہل شر کا رزق تنگ کرتا ہے تو وہ مزید جرائم کرتے ہیں ۔ اللہ کی رحمت سے مایوس ہوتے ہیں اور اپنی ناداری کی وجہ سے شروفساد اور ظلم و ضلالت کی حدوں کو پار کر جاتے ہیں۔ بعض اوقات اللہ اہل خیر پر بارش کردیتا ہے تاکہ وہ مزید نیکی کے کام کریں۔ اگر ان کے پاس دولت نہ ہوتی تو وہ یہ کام نہ کرسکتے اور اس لیے بھی کہ وہ اللہ کا شکر ادا کریں۔ دل کے ساتھ ، زبان کے ساتھ اور عمل کے ساتھ۔ وہ اپنے مال کے ذریعے ایسی نیکیاں کمائیں جو اللہ کے ہاں ان کے لیے ذخیرہ ہوں اور کبھی اہل خیر محروم کیے جاتے ہیں تاکہ محرومیت پر ان کے صبر اور شکر کو آزمایا جائے۔ یہ دیکھا جائے کہ وہ اللہ پر کس قدر بھروسہ کرتے ہیں۔ کس قدر رحمت کے امیدوار ہوتے ہیں اور اللہ کی تقدیر پر ان کو کس قدر یقین ہوتا ہے۔ کس قدر راضی برضا ہوتے ہیں اور رب تعالیٰ اچھا اور باقی رہنے والا ہے۔ اس طرح ان کا ذخیرہ آخرت بڑھ جاتا ہے اور اللہ ان سے بہت راضی ہوتا ہے۔ بہرحال رزق کی فراوانی اور تنگی کے جو اسباب بھی ہوں ، اور لوگوں کے اعمال اور حکمت الہیہ کے حوالے سے جو بھی سبب ہو ، حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ اللہ کے ہاں مقبولیت سے بالکل علیحدہ مسئلہ ہے۔ اس کی بنا پر اللہ کے ہاں کوئی مقدم و موخر نہیں ہوتا۔ اللہ کے ہاں مقدم اور موخر ہونے کا دار و مدار اس پر ہے کہ جس شخص کے مال اور اولاد میں فراوانی دی گئی ہے وہ اپنے مال اور اولاد میں تصرف کیسے کرتا ہے۔ اسی طرح جسے رزق کی تنگی دی گئی ہے وہ کس قدر صبر وشکر کرتا ہے۔ لہٰذا مال و اولاد والا شخص اگر اپنے مال اور اولاد میں اچھا تصرف کرتا ہے تو اللہ اس کے اجر میں اضافہ کرے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ان کی تردید میں فرمایا : (قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ ) (الآیۃ) آپ فرما دیجیے کہ میرا رب جس کے لیے چاہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کے لیے چاہے تنگ کردیتا ہے۔ دنیا میں رزق کا زیادہ ہونا اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہونے کی دلیل نہیں ہے جیسا کہ رزق کا تنگ ہونا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نامقبول ہونے کی دلیل نہیں ہے، وہ اپنی حکمت کے مطابق کبھی نافرمان کی روزی وسیع فرما دیتا ہے اور فرمانبرداروں کی روزی تنگ فرما دیتا ہے اور اس کا عکس بھی ہوتا رہتا ہے، بات یہ ہے کہ اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کو نہیں جانتے اور یہ بھی نہیں جانتے کہ رزق کی فراخی اللہ تعالیٰ کے ہاں معزز ہونے کی اور رزق کی تنگی اللہ تعالیٰ کے ہاں ذلیل ہونے کی دلیل نہیں ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

38:۔ قل ان ربی الخ : یہ توحید پر تیسری عقلی دلیل ہے۔ اور کافروں کے مذکورہ بالا زعم باطل کا جواب بھی ہے۔ رزق جوہر جاندار کی بنیادی ضرورت ہے وہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور پھر رزق کی تنگی اور فراخی بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ اس لیے وہی ساری کائنات کا الہ اور کارساز ہے۔ نیز رزق کی فراخی اور تنگی اللہ تعالیٰ کی تکوینی مصلحتوں پر مبنی ہے۔ اس لیے کثرت دولت دولت عنداللہ معزز ومحترم ہونے کی دلیل نہیں۔ نہ قلت مال عند اللہ مبغوض ہونے کی دلیل ہے۔ لہذا مشرکین کا کثرت مال و اولاد پر اترانا اور فخر کرنا بےسود ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(36) آپ فرما دیجئے میرا پروردگار جس کے لئے چاہتا ہے روزی کشادہ کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے کم دیتا ہے اور نپی تلی روزی دیتا ہے لیکن اکثر لوگ اس تقسیم کی مصلحت کو نہیں جانتے۔ یعنی روزی کا کم و بیش ہونا کچھ بزرگی اور مرتبے کی یا حق پر ہونے کی بات نہیں کہ اس سے خوش حال لوگ اپنی صداقت پر دلیل پکڑیں بلکہ روزی کی تقسیم اور اس میں کمی و بیشی اللہ تعالیٰ کی دوسری مصلحتوں اور دوسری حکمتوں پر مبنی ہے کبھی نافرمان غنی ہوتا ہے اور فرماں بردار فقیر اور اس کا عکس لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ نحن اکثرا موالا و اولادا اور اس سے یہ نتیجہ نکالنا بھی باطل ہے کہ کثرت مال و اولاد عذاب الٰہی سے بچا لے گی۔