This very subject has been taken up in several other verses of the noble Qur&an. In Surah al-Mu&minun, it was said: أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُم بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ بَل لَّا يَشْعُرُونَ Do they think that by consistently providing them with wealth and children, We are accelerating the (real) good things to them? The fact, however, is that they do not understand (the reality) - 23:55, 56. And the reality is that wealth and children that make man negligent of Allah become a curse for him. Then, in a verse of Surah At-Taubah, it was said: وَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَأَوْلَادُهُمْ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ And their wealth and children should not attract you. Allah only wants to punish them with these in this world and that their souls depart while they are disbelievers - 9:85. In that case, it will end up into the everlasting punishment of the Hereafter. As for punishing through wealth and children right here in this world, it means that they become so involved in and infatuated with wealth and property that they never find the time to think about their ultimate fate or turn towards Allah and &Akhirah - the end of which is punishment that will last forever. Then there are many who have wealth and children both. It is within this world that, for the sake of wealth and children, rather, through the wealth and children, they have to suffer from thousands of distresses and pains. As such, their punishment starts taking effect right from this very world. According to a narration of Sayyidna Abu Hurairah (رض) ، the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: Allah Ta’ ala does not see you or your wealth. He sees your hearts and your deeds – (reported by Ahmad, Ibn Kathir)
قرآن کریم نے تیسری اور چوتھی آیت میں ان کا یہ جواب دیا ہے (آیت) قل ان ربی یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر اور ما اموالکم ولا اولادکم الآیہ، خلاصہ جواب کا یہ ہے کہ دنیا میں مال و دولت یا عزت وجاہ کی کمی بیشی اللہ کے نزدیک مقبول یا مردود ہونے کی دلیل نہیں، بلکہ تکوینی مصالح کے پیش نظر دنیا میں تو اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے مال و دولت فراوانی کے ساتھ دیتا ہے، جس کو چاہتا ہے کم دیتا ہے، جس کی تکوینی حکمت کو وہی جانتا ہے، مگر مال واولاد کی بہتات کو اللہ کے نزدیک مقبولیت کی دلیل سمجھنا جہالت ہے، کیونکہ اس کے نزدیک مقبولیت کا مدار صرف ایمان اور عمل صالح پر ہے جس کو یہ حاصل نہیں مال واولاد کتنا ہی زیادہ ہو وہ اس کو اللہ کے نزدیک مقبول نہیں بنا سکتا۔ اسی مضمون کو قرآن کریم نے متعدد آیات میں بیان فرمایا ہے، ایک جگہ ارشاد ہے (آیت) ایجسبون انما نمدھم بہ من مال وبنین نسارع لہم فی الخیرات بل لا یشعرون، یعنی کیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم جو مال اور اولاد کی بہتات سے ان کی امداد کرتے ہیں یہ کچھ ان کے لئے انجام و آخرت کے اعتبار سے خیر ہے (ہر گز نہیں) بلکہ یہ لوگ حقیقت سے بیخبر ہیں (کہ جو مال واولاد انسان کو اللہ سے غافل کرے وہ اس کے لئے وبال ہے) دوسری آیت میں فرمایا (آیت) فلا تعجبک اموالہم ولا اولادہم انما یرید اللہ لیعذبہم بہا فی الحیاة الدنیا وتزھق انفسہم وہم کفرون، ” یعنی ان کافروں کے مال واولاد سے آپ تعجب نہ کریں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ ہے کہ ان کو اسی مال واولاد کے ذریعے دنیا میں مبتلائے عذاب کر دے اور انجام کار ان کی جان اسی حالت کفر میں نکل جائے “ جس کا نتیجہ آخرت کا دائمی عذاب ہو۔ مال واولاد کے ذریعہ دنیا میں عذاب دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا میں مال و دولت کی محبت میں ایسے مبتلا ہوجائیں کہ اپنے انجام اور خدا وآخرت کی طرف کبھی التفات نہ ہو جس کا انجام دائمی عذاب ہے، اور بہت سے مال واولاد والوں کو اس دنیا میں بھی مال واولاد ہی کی خاطر بلکہ انہی کے ذریعہ ہزاروں مصائب و تکالیف جھیلنی پڑتی ہیں، ان کی سزا و عذاب تو اسی عالم سے شروع ہوجاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو اور تمہارے اموال کو نہیں دیکھتا، وہ تو تمہارے دلوں کو اور اعمال کو دیکھتا ہے۔ (رواہ احمد، ابن کثیر)