Surat Saba

Surah: 34

Verse: 44

سورة سبأ

وَ مَاۤ اٰتَیۡنٰہُمۡ مِّنۡ کُتُبٍ یَّدۡرُسُوۡنَہَا وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہِمۡ قَبۡلَکَ مِنۡ نَّذِیۡرٍ ﴿ؕ۴۴﴾

And We had not given them any scriptures which they could study, and We had not sent to them before you, [O Muhammad], any warner.

اور ان ( مکہ والوں ) کو نہ تو ہم نے کتابیں دے رکھی ہیں جنہیں یہ پڑھتے ہوں نہ ان کے پاس آپ سے پہلے کوئی آگاہ کرنے والا آیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And We had not given them Scriptures that they could study, nor sent to them before you any warner. meaning, Allah did not reveal any Book to the Arabs before the Qur'an, and He did not send any Prophet to them before Muhammad. They used to wish for that and say, `if only a warner comes to us or a Book is revealed to us, we would be more guided than others,' but when Allah blessed them with that, they disbelieved him and stubbornly rejected him. Then Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

44۔ 1 اس لیے وہ آرزو کرتے تھے کہ ان کے پاس بھی کوئی پیغمبر آئے اور کوئی صحیفہ آسمانی نازل ہو لیکن جب یہ چیزیں آئیں تو انکار کردیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٦٨] یعنی ان کے پاس نہ کوئی نبی آیا اور نہ ہی اللہ کی کتاب نازل ہوئی جو اس بات کی تعلیم دیتی ہو یا کم از کم تائید ہی کرتی ہو کہ جس آبائی اور مشرکانہ دین پر یہ لوگ چل رہے ہیں وہی دین برحق ہے یعنی ان کے پاس اپنے دین کی صداقت کے لئے کوئی سند نہیں ہے۔ یہ لوگ بس اسی بات پر مطمئن ہو بیٹھے ہیں کہ یہ ان کا آبائی دین ہے۔ ان کے پاس نہ آپ کو جھٹلانے کے لئے کوئی دلیل ہے اور نہ اپنے مشرکانہ عقائد کو درست ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَآ اٰتَيْنٰهُمْ مِّنْ كُتُبٍ يَّدْرُسُوْنَهَا ۔۔ : اس آیت کی تفسیر دو طرح سے ہوسکتی ہے، ایک یہ کہ ہم نے انھیں ان کے مشرکانہ اقوال و افعال کی اجازت پر مشتمل کوئی کتاب نہیں دی جو ان کے پاس موجود ہو اور وہ اسے پڑھتے پڑھاتے ہوں اور نہ ہی ہم نے آپ سے پہلے ان کی طرف ایسا کوئی آگاہ کرنے والا بھیجا ہے جو ان کے مشرکانہ اقوال و افعال کی تائید کرتا ہو۔ دیکھیے سورة روم (٣٥) ، فاطر (٤٠) ، زخرف (٢١) اور سورة احقاف (٤) اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ ہماری طرف سے خاص ان کے لیے کوئی کتابیں نازل نہیں ہوئیں، نہ ہی آپ سے پہلے ان کے پاس کوئی ڈرانے والا آیا، اس لیے ضروری تھا کہ ان پر کتاب نازل ہو اور ان کی طرف پیغمبر مبعوث ہو، اسی لیے ہم نے آپ کو یہ قرآن دے کر ان کی طرف مبعوث فرمایا۔ دیکھیے سورة سجدہ (٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَآ اٰتَيْنٰہُمْ مِّنْ كُتُبٍ يَّدْرُسُوْنَہَا وَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلَيْہِمْ قَبْلَكَ مِنْ نَّذِيْرٍ۝ ٤٤ۭ آتینا وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] . [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو درس دَرَسَ الدّار معناه : بقي أثرها، وبقاء الأثر يقتضي انمحاء ه في نفسه، فلذلک فسّر الدُّرُوس بالانمحاء، وکذا دَرَسَ الکتابُ ، ودَرَسْتُ العلم : تناولت أثره بالحفظ، ولمّا کان تناول ذلک بمداومة القراءة عبّر عن إدامة القراءة بالدّرس، قال تعالی: وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف/ 169] ، وقال : بِما كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتابَ وَبِما كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ [ آل عمران/ 79] ، وَما آتَيْناهُمْ مِنْ كُتُبٍ يَدْرُسُونَها [ سبأ/ 44] ، وقوله تعالی: وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ [ الأنعام/ 105] ، وقرئ : دَارَسْتَ أي : جاریت أهل الکتاب، وقیل : وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف/ 169] ، ترکوا العمل به، من قولهم : دَرَسَ القومُ المکان، أي : أبلوا أثره، ودَرَسَتِ المرأةُ : كناية عن حاضت، ودَرَسَ البعیرُ : صار فيه أثر جرب . ( د ر س ) درس الدار ۔ گھر کے نشان باقی رہ گئے اور نشان کا باقی رہنا چونکہ شے کے فی ذاتہ مٹنے کو چاہتا ہے اس لئے دروس کے معنی انمحاء یعنی مٹ جانا کرلئے جاتے ہیں اسی طرح کے اصل معنی کتاب یا علم حفظ کرکے اس کا اثر لے لینے کے ہیں اور اثر کا حاصل ہونا مسلسل قراءت کے بغیر ممکن نہیں اس لئے درست الکتاب کے معنی مسلسل پڑھنا کے آتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف/ 169] اور جو کچھ اس ( کتاب ) میں لکھا ہ اس کو انہوں نے پڑھ بھی لیا ہے ۔ بِما كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتابَ وَبِما كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ [ آل عمران/ 79] کیونکہ تم کتاب ( خدا کی ) تعلیم دینے اور اسے پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو ۔ وَما آتَيْناهُمْ مِنْ كُتُبٍ يَدْرُسُونَها [ سبأ/ 44] اور ہم نے نہ تو ان کو کتابیں دیں جن کو یہ پڑھتے ہیں اور یہ آیت کریمہ : ۔ وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ [ الأنعام/ 105] میں ایک قراءت وارسلت بھی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کافر یہ نہ کہیں کہ تم نے کتاب کو دوسروں سے پڑھ لیا ۔ بعض نے کہا ہے وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف/ 169] کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے اس پر عمل ترک کردیا اور یہ کے محاورہ سے ماخوذ ہے ۔ یعنی انہوں نے مکان کے نشانات مٹادیئے درست المرءۃ ( کنایہ ) عورت کا حائضہ ہونا ۔ درس البعیر ۔ اونٹ کے جسم پر خارش کے اثرات ظاہر ہونا ۔ النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ہم نے ان کفار مکہ کو ایسی کتابیں نہیں دی تھیں کہ جن کو یہ پڑھتے پڑھاتے ہوں جس کی بنا پر یہ باتیں بنا رہے ہیں اور اسی طرح ہم نے ان کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا پیغمبر بھی نہیں بھیجا کہ اس سے بھی انہوں نے یہی باتیں کی ہوں جو آپ کے سامنے کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤ { وَمَآ اٰتَیْنٰہُمْ مِّنْ کُتُبٍ یَّدْرُسُوْنَہَا } ” اور ہم نے انہیں ایسی کوئی کتابیں نہیں دیں جنہیں یہ پڑھتے ہوں “ یعنی ان لوگوں پر ہماری طرف سے کوئی ایسی کتاب تو نازل نہیں ہوئی جس میں لکھا ہو کہ لات ‘ منات اور عزیٰ ّوغیرہ کو ہم نے کچھ خصوصی اختیارات تفویض کر رکھے ہیں۔ اگر ان کے پاس ان کے ایسے دعو وں کی کوئی سند ہے تو پیش کریں۔ { وَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْہِمْ قَبْلَکَ مِنْ نَّذِیْرٍ } ” اور نہ ہی ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ان کی طرف کوئی خبردار کرنے والا بھیجا تھا۔ “ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان تین ہزار سال کا عرصہ گزر گیا۔ اس عرصے کے دوران بنو اسماعیل (علیہ السلام) کے ہاں کوئی نبی یا رسول نہیں آیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

64 That is, "Neither a book from God has come to them before this nor a messenger, who might have taught them to worship and serve others than God. Therefore, they arc denying the invitation to Tauhid being given by the Qur'an and Muhammad (upon whom be Allah's peace) due to sheer ignorance, and not on the basis of any knowledge. They have in fact no authority for this."

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :64 یعنی اس سے پہلے نہ کوئی کتاب خدا کی طرف سے ایسی آئی ہے اور نہ کوئی رسول ایسا آیا ہے جس نے آ کر ان کو یہ تعلیم دی ہو کہ یہ اللہ کے سوا دوسروں کی بندگی و پرستش کیا کریں ۔ اس لیے یہ لوگ کسی علم کی بنا پر نہیں بلکہ سراسر جہالت کی بنا پر قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید کا انکار کر رہے ہیں ۔ اس کے لیے ان کے پاس کوئی سند نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

20: یعنی یہ لوگ اس قرآن کو (معاذ اللہ) من گھڑت کہہ رہے ہیں، حالانکہ من گھڑت تو خود ان کا مذہب ہے، کیونکہ ان کے پاس اس سے پہلے نہ کوئی آسمان کتاب آئی ہے، نہ کوئی پیغمبر، لہذا انہوں نے جو کوئی مذہب بنایا ہے، وہ اپنے دل سے گھڑ کر بنایا ہے۔ نیز ان کو پہلی مرتبہ کتاب اور پیغمبر سے نوازا گیا ہے تو اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اس نعمت کی قدر کرتے، لیکن یہ الٹے اس کے مخالف بن گئے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:44) یعنی اس سے پہلے نہ کوئی کتاب خدا کی طرف سے ایسی آئی ہے اور نہ کوئی رسول ایسا آیا ہے جس نے آکر ان کو یہ تعلیم دی ہو کہ یہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کی پرستش کیا کریں اس لئے یہ لوگ کسی علم کی بنا پر نہیں بلکہ سر اسر جہالت کی بنا پر قرآن اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت توحید کا انکار کر رہے ہیں اس کے لئے ان کے پاس کوئی سند نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن) ۔ آیت ھذا میں ہم۔ ہم کی ضمیریں بنی اسمعیل یا قوم عرب کی جانب راجع ہیں کہ انہیں میں نبوت پہلی بار آئی تھی ( تفسیر الماجدی ) یدرسونھا۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ درس ودراسۃ (باب نصر ) ھا ضمیر واحد مؤنث غائب (اس کا مرجع کتب ہے وہ ان کتب کو پڑھتے پڑھاتے رہے ہوں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 جس نے آ کر انہیں تعلیم دی ہو کہ خدا نے تمہارے لئے دوسروں کی پرستش کرنا جائز قرار دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس شرک میں یہ مبتلا ہیں اور یہ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کر رہے ہیں وہ کسی علم پر نہیں بلکہ سراسر جہالت اور باب دادا کی اندھی تقلید پر مبنی ہے۔ ( کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واذا تتلی علیھم ایتنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فکیف کان نکیر (43 – 45) ان لوگوں کے سامنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہایت واضح سچائی پیش فرماتے تھے لیکن وہ اس کا مقابلہ ماضی کے افسانوں سے کرتے تھے۔ یہ چند پارینہ رسم رواج تھے اور اوہام و خرافات تھے جو انہوں نے سینے سے لگائے ہوئے تھے۔ ان کے اندر کوئی جامعیت اور ربط بھی نہ تھا۔ جب ان لوگوں نے دیکھا کہ قرآن مجیس سیدھی سادی سچائی پیش کر رہا ہے اور قرآن کی تعلیمات ایک مکمل اور مربوط نظام زندگی ہیں اور معقول اور دل کو لگتی ہیں تو انہوں نے یہ خطرہ محسوس کیا کہ ان کے آباؤ اجداد سے منقول خرافات ، غیر معقول ، رسم و رواج اس معقول نظام زندگی کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس لیے انہوں نے یہ اعلان کیا کہ یہ نئی تعلیم ان کے تمام سرمایہ رسوم کے لیے خطرہ ہے۔ ما ھذا الا ۔۔۔۔۔ یعبد اباء کم (34: 43) ” کہ یہ شخص تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو ان معبودوں سے برگشتہ کر دے جن کی عبادت تمہارے باپ داد کرتے آئے ہیں “۔ لیکن صرف یہ الزام لگا دینا تو کافی نہ تھا کیونکہ صرف یہ بات کہ آباء و اجداد کے معبودوں سے روکتا ہے سب لوگوں کے لیے مسلم نہ ہوسکتی تھی۔ اس لیے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک دوسرا الزام بھی لگایا کہ جو تعلیمات حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش کر رہے ہیں یہ اللہ کی طرف سے نہیں ہیں۔ وقالوا ما ھذا الا افک مفتری (34: 43) ” اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن تو محض ایک جھوٹ گھڑا ہوا ہے “۔ افک کے معنی جھوٹ اور افتراء کے ہیں۔ لیکن مفتری کا لفظ بطور تاکید لائے ہیں تاکہ ابتداء ہی سے قرآن کی قدر و قیمت میں کمی کردی کیونکہ جب قرآن کریم کے حقیقی مصدر ہی کو مشکوک بنا دیا گیا تو اس کی قدروقیمت ظاہر ہے کہ کم ہوجاتی ہے۔ اور مزید یہ الزام۔ وقال الذین کفروا ۔۔۔۔۔ سحر مبین (34: 43) ” ان کافروں کے سامنے جب حق آیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو صریح جادو ہے “۔ اور یہ الزام انہوں نے اس لیے لگایا کہ قرآن ایک نہایت موثر کلام تھا۔ جو اس کو سنتا اس کی دینی دنیا میں بھونچال آجاتا۔ اس لیے صرف یہ بات بھی کافی نہ تھی کہ یہ جھوٹ اور گھڑا ہوا ہے۔ اس لیے اس کے اثر کی تاویل یہ کی کہ یہ کھلا جادو ہے۔ یہ مسلسل الزامات تھے۔ ایک کے بعد دوسرا الزام اور یہ الزامات بھی وہ اللہ کے قرآن پر لگا رہے تھے تاکہ لوگوں کے دلوں پر اس کا اثر نہ ہو لیکن یہ لوگ جو الزام لگاتے تھے ان میں سے کسی پر خود ان کے ساتھ کوئی ثبوت نہ تھا۔ یہ سب جھوٹے الزامات تھے اور عوام الناس کو گمراہ کرنے کے لیے تھے۔ جو لوگ یہ الزامات لگاتے تھے وہ کبراء اور سردار تھے۔ یہ کبراء اور سردار خود پوری طرح یقین رکھتے تھے کہ قرآن کریم خدا کی سچی کتاب ہے۔ یہ کتاب انسانی طاقت سے باہر ہے۔ بڑے سے بڑے متکلمین بھی اس قسم کا کلام لانے سے عاجز آگئے تھے۔ ہم نے ظلال القرآن میں ایسے لوگوں کی کئی روایات دی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کے بارے میں ان کی اصل رائے کیا تھی۔ اور یہ روایات بھی ہم نے بتا دیں کہ وہ قرآن کریم کے بارے میں اور اس کے خلاف کیا کیا تدابیر کرتے تھے۔ قرآن کریم نے ان کی اس کمزوری کو کھول دیا۔ اور یہ کہا کہ یہ عرب توامی تھے ، یہ اہل کتاب نہ تھے کہ وہ کسی آسمانی کتاب کی تعلیمات کے بارے میں کوئی فیصلہ کن بات کرسکیں۔ یہ لوگ وحی کے بارے میں بھی نہ جانتے تھے۔ اس لیے یہ لوگ وحی کے بارے میں بھی کوئی ماہر لوگ نہ تھے۔ نیز ان کے پاس حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد کوئی رسول بھی نہیں آیا تھا کہ یہ اس بارے میں کوئی ماہرانہ رائے دے سکیں۔ لہٰذا وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، قرآن اور وحی کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں وہ ایسی باتیں ہیں جس موضوع پر ان کو کوئی علم نہیں۔ وما اتینھم من ۔۔۔۔۔ من نذیر (34: 44) ” حالانکہ ہم نے ان لوگوں کو پہلے کوئی کتاب نہ بھیجی تھی کہ یہ اسے پڑھتے ہوں اور نہ تم سے پہلے ان کی طرف کوئی متنبہ کرنے والا بھیجا تھا “۔ ان کے دلوں کو احساس دلایا جاتا ہے کہ ذرا ان سے پہلے کے ان لوگوں کے انجام پر غور کرو جنہوں نے تکذیب کی۔ تم لوگ ان لوگوں کے مقابلے میں بہت کم قوت والے ہو۔ وہ علم والے تھے ، مال والے تھے ، قوت والے تھے اور ترقی یافتہ تھے لیکن جب انہوں نے رسولوں کی تکذیب کی تو ان کو عذاب الٰہی نے گھیر لیا اور وہ بہت ہی سخت پکڑ میں آگئے۔ وکذب الذین ۔۔۔۔۔ کان نکیر (34: 45) ” ان سے پہلے گزرے ہوئے لوھ جھٹلاچکے ہیں جو کچھ ہم نے انہیں دیا تھا اس کا عشر عشیر بھی ان کے پاس نہیں ہے مگر جب انہوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا تو دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی “ اللہ کی یہ سزا نہایت ہی تباہ کن تھی۔ ان منکرین میں سے بعض لوگ ایسے تھے جن کے بارے میں قریش جانتے بھی تھے لہٰذا ان کو یہ یاد دہانی کافی تھی۔ لیکن یہاں طنزیہ انداز میں سوال کیا گیا ہے۔ فکیف کان نکیر (34: 45) ” میری سزا کیسی تھی “۔ چونکہ مخاطبین کو معلوم تھا کہ یہ سز اکیسی تھی اس لیے یہ سوالیہ انداز نہایت موثر ہے۔ ان لوگوں کو نہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ یہ دعوت دی جاتی ہے کہ سچائی کے ساتھ تم حق کو تلاش کرو اور سچائی کے بارے میں جو جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کرو اور جو دعوت تمہارے سامنے پیش کی جا رہی ہے اس کے بارے میں خارجی موثرات سے آزاد ہو کر سوچو اور اس کی قدروقیمت معلوم کرو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

45:۔ وما اتینہم الخ : ان مشرکین مکہ کے پاس ہم نے کوئی آسمانی کتابیں بھی نہیں بھیجیں۔ جنہیں وہ پڑ تھے پڑھاتے رہے ہوں اور ان میں شرک کی تعلیم ہو۔ نہ آپ سے پہلے ہم نے ان میں کوئی رسول مبعوث کیا ہے۔ جس نے انہیں شرک کی دعوت دی ہو اور ترک شرک پر انہیں عذاب کی دھمکی دی ہو۔ اس لیے وہ توحید کے انکار میں اور شرک پر قائم رہنے میں ہرگز معذور نہیں ہیں اور ان کا کوئی عذر اور شبہ انہیں تکذیب کی گنجائش نہیں دے سکتا۔ ای لم یقرء وا فی کتاب اوتوہ بطلان ما جت بہ ولا سمعوہ من رسول بعث الیہم۔ فلیس لتکذیبہم وجہ یتشبث بہ (قرطبی ج 14 ص 310) ۔ وہ اپنے گمراہ اور مشرک باپ دادا کے عمل کو دلیل بنائے ہوئے ہیں جسے دلائل عقلیہ اور براہین نقلیہ کے مقابلے میں پیش کرنا جہالت و حماقت ہے۔ فالایات البینات لا تعارض الا بالبراہین العقلیۃ ولم یاتوا بہا او بالنقلیات و ما عندھم کتاب ولا رسول غیرک الخ (کبیر ج 7 ص 24) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(44) اور نہ تو ہم نے ان اہل عرب کو آسمانی کتابیں دی تھیں جن کو یہ پڑھتے پڑھاتے ہوں اور نہ آپ سے پہلے ان کے پاس کوئی ڈرانے والا ہی آیا تھا۔ یعنی جس طرح بنی اسرائیل میں توریت اور انجیل وغیرہ کتابیں نازل ہوئیں اور مختلف علاقوں میں انبیاء آتے رہے اہل عرب میں یہ دستور نہیں رہا اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد کوئی رسول بھی نہیں آیا تاآنکہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور ان پر قرآن نازل ہوا۔ تو ایک عرصہ کے بعد ان کو اس نعمت سے نوازا گیا تو ان کو اس کی قدر کرنی چاہیئے تھی لیکن یہ بجائے قدر کے ناشکری پر آمادہ ہوگئے تو اس سے بڑھ کر ان کی اور کیا بدقسمتی ہوسکتی ہے آگے پیغمبروں کے جھٹلانے والوں کا انجام فرمایا۔