Surat Saba

Surah: 34

Verse: 48

سورة سبأ

قُلۡ اِنَّ رَبِّیۡ یَقۡذِفُ بِالۡحَقِّ ۚ عَلَّامُ الۡغُیُوۡبِ ﴿۴۸﴾

Say, "Indeed, my Lord projects the truth. Knower of the unseen."

کہہ دیجئے! کہ میرا رب حق ( سچی وحی ) نازل فرماتا ہے وہ ہر غیب کا جاننے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Say: "Verily, my Lord sends down the truth, the All-Knower of the Unseen." This is like the Ayah: يُلْقِى الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَن يَشَأءُ مِنْ عِبَادِهِ He sends the Revelation by His command to any of His servants He wills. (40:15) meaning, He sends the angel to whomsoever He wills of His servants among the people on earth, and He is the All-Knower of the Unseen; nothing whatsoever is hidden from Him in the heavens or on earth. قُلْ جَاء الْحَقُّ وَمَا يُبْدِيُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

48۔ 1 قذف کے معنی تیراندازی اور خشت باری کے بھی ہیں اور کلام کرنے کے بھی، یہاں اس کے دوسرے معنی ہیں یعنی وہ حق کے ساتھ گفتگو فرماتا، اور اپنے رسولوں پر وحی نازل فرماتا اور ان کے ذریعے سے لوگوں کے لیے حق واضح فرماتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٧٣] یعنی آسمان سے جو وحی نازل ہو رہی ہے وہ حق ہے اور جو تمہارا طرز عمل ہے وہ باطل ہے۔ یہ حق باطل کا سر توڑ دے گا اور اس کا کچومر نکال دے گا۔ باطل کو بالآخر راہ فرار اختیار کرنا ہی پڑے گی۔ اور حق اس پر غالب آکے رہے گا۔ اللہ علام الغیوب ہے۔ اس نے عین موقعہ پر مجھے اپنے وحی کے ساتھ بھیجا ہے۔ اور وہ خوب جانتا ہے کہ باطل کا سر توڑنے کے لئے یہی مناسب موقع ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اِنَّ رَبِّيْ يَقْذِفُ بالْحَـقِّ : ” قَذَفَ یَقْذِفُ “ کا معنی پھینکنا ہے، یہ ڈالنے کے معنی میں بھی آتا ہے : ” أَيْ یَقْذِفُ بالْحَقِّ فِيْ قُلُوْبِ أَصْفِیَاءِ ہِ “ یعنی وہ اپنے خاص بندوں کے دلوں میں حق ڈال دیتا ہے۔ جب ثابت ہوگیا کہ یہ نبی نہ مجنون ہے، نہ دنیا کا طالب، نہ تم اس کے کسی قول یا فعل کو جھوٹ، جادو یا دیوانگی ثابت کرسکے تو ثابت ہوا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اس لیے فرمایا، اے نبی ! جو لوگ توحید، انبیاء کی رسالت اور آخرت کے منکر ہیں ان سے کہہ دے کہ بیشک میرا رب وحی کے ذریعے سے اپنے چنے ہوئے بندوں کے دل میں حق بات ڈالتا ہے، اسی نے میرے دل میں بذریعہ وحی اس حق کا القا فرمایا ہے، جیسا کہ فرمایا : ( يُلْقِي الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ ) [ المؤمن : ١٥ ] ” وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے وحی اتارتا ہے، تاکہ آپس کی ملاقات کے دن سے ڈرائے۔ “ ” يَقْذِفُ بالْحَـقِّ “ کا دوسرا معنی ” یَقْذِفُ بالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ “ ہے، یعنی کہہ دے بیشک میرا رب حق کو باطل پر پھینک مارتا ہے تو وہ اس کا دماغ کچل دیتا ہے، پس وہ اچانک مٹنے والا ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (بَلْ نَقْذِفُ بالْحَقِّ عَلَي الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ) [ الأنبیاء : ١٨ ] ” بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینک مارتے ہیں تو وہ اس کا دماغ کچل دیتا ہے، پس اچانک وہ مٹنے والا ہوتا ہے۔ “ یعنی تمہارے اس حق کو جھوٹ یا جادو یا دیوانگی کہنے سے اس کا کچھ نہیں بگڑے گا، میرا رب اس حق کو باطل پر اس زور سے پھینک مارے گا کہ وہ یکایک ہی مٹ جائے گا۔ اس آیت میں تیسری بات کی تلقین ہے کہ آپ مشرکین کو صراحت سے کہہ دیجیے کہ تم لوگ نہ حق سے جھگڑے میں غالب آسکتے ہو نہ لڑائی میں، کیونکہ میرا رب میرے دل میں حق کا القا کرتا ہے، کیونکہ وہ تمام غیبوں کو خوب جاننے والا ہے۔ اب جو شخص غیب جانتا ہی نہیں، نہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیب کی کوئی بات بتائی جاتی ہے تو وہ حق کے ساتھ کیا جھگڑا کرے گا ؟ پھر میرا رب حق کو باطل پر مار کر اس کا دماغ کچل دیتا، تو اہل باطل اہل حق کے ساتھ کیا لڑائی کریں گے ؟ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ : وہ تمام غیبوں کو خوب جاننے والا ہے۔ غیب کی ان باتوں میں سے جو چاہے اپنے جس پیغمبر کے دل میں چاہے ڈال دیتا ہے اور وہی خوب جانتا ہے کہ غیب کی کس بات کی اطلاع کس پیغمبر کو دینی ہے۔ دیکھیے سورة جنّ (٢٦ تا ٢٨) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verse 48: إِنَّ رَ‌بِّي يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ (Say,|" My Lord sends forth the Truth. He is the Best-Knower of the Unseen.|" - 34:48) Say, |"Truth has come, and falsehood (has vanished so as it) has no power to produce or reproduce (anything) |". It means that my Lord who is the Knower of the Unseen strikes out the false with a throw of the truth (as a result of which the false is destroyed, as it was said: فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ &and there it is all gone&. Al-Anbiya&, 21:18). Literally, the word: قَذَف (qadhf) means to hit by throwing. Here, the purpose is to highlight the truth as set against the false. Perhaps, there may be a wise consideration behind expressing this phenomenon through the word: یَقذِف (yaqdhifu: He throws), may be the purpose is to point out to the after effect of the truth prevailing over the false. It appears here in the form of a simile as the throwing of something heavy over something feeble that shatters into pieces. So it happens in the confrontation between truth and falsehood when the later lies shattered. Therefore, it was said next: وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ (and falsehood has vanished so as it has no power to produce or reproduce anything) that is, falsehood becomes so incapacitated in the face of truth that it can neither originate anything nor can it bring it back.

(آیت) ان ربی یقذف بالحق علام الغیوب، یعنی میرا پروردگار جو علام الغیوب ہے وہ حق کو باطل پر دے مارتا ہے (جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ باطل پاش پاش ہوجاتا ہے، کما قال تعالیٰ فاذا ہو زاھق، لفظ قذف کے لغوی معنی پھینک مارنے کے ہیں، یہاں باطل کے مقابلہ میں حق کو پیش کرنا مراد ہے، اور لفظ یقذف سے تعبیر کرنے میں شاید یہ حکمت ہو کہ باطل پر حق کی زد پڑنے کا اثر بتلانا مقصود ہو۔ یہ ایک تمثیل ہے کہ جس طرح کوئی بھاری چیز کسی نازک چیز پر پھینک دی جائے تو وہ چیز پاش پاش ہوجاتی ہے، اسی طرح حق کے مقابلہ میں باطل پاش پاش ہوجاتا ہے۔ اسی لئے آگے فرمایا (آیت) و ما یبدی الباطل ومایعید، یعنی حق کے مقابلہ میں باطل ایسا پست وناکارہ ہو کر رہ جاتا ہے کہ وہ کسی چیز کی ابتداء کرنے کے قابل نہیں رہتا نہ دوبارہ لوٹانے کے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنَّ رَبِّيْ يَقْذِفُ بِالْحَـقِّ۝ ٠ ۚ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ۝ ٤٨ قذف الْقَذْفُ : الرّمي البعید، ولاعتبار البعد فيه قيل : منزل قَذَفٌ وقَذِيفٌ ، وبلدة قَذُوفٌ: بعیدة، وقوله : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه/ 39] ، أي : اطرحيه فيه، وقال : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب/ 26] ، بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء/ 18] ، يَقْذِفُ بِالْحَقِي عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ/ 48] ، وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات/ 8- 9] ، واستعیر القَذْفُ للشّتم والعیب کما استعیر الرّمي . ( ق ذ ف ) القذف ( ض ) کے معنی دور پھیکنا کے ہیں پھر معنی بعد کے اعتبار سے دور دراز منزل کو منزل قذف وقذیف کہاجاتا ہے اسی طرح دور در ازشہر کو بلدۃ قذیفۃ بول لیتے ہیں ۔۔۔ اور آیت کریمہ : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه/ 39] پھر اس ( صندوق ) کو دریا میں ڈال دو ۔ کے معنی دریا میں پھینک دینے کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب/ 26] اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی ۔ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء/ 18] بلک ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں ۔ يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ/ 48] وہ اپنے اوپر حق اتارتا ہے اور وہ غیب کی باتوں کا جاننے والا ہے ۔ وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات/ 8- 9] اور ہر طرف سے ( ان پر انگارے ) پھینکے جاتے ہیں ( یعنی ) وہاں سے نکال دینے کو ۔ اور رمی کی طرح قذف کا لفظ بھی بطور استعارہ گالی دینے اور عیب لگانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آپ ان سے فرما دیجیے کہ میرا پروردگار حق بات کو غالب کر رہا ہے اور اسی کا حکم دیتا ہے اور وہ تمام ان باتوں سے باخبر ہے جو بندوں سے پوشیدہ ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ { قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ } ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجیے کہ یقینا میرا رب حق کے ساتھ ضرب لگاتا ہے (باطل کو) ‘ وہ خوب جاننے والا ہے تمام غیبوں کا۔ “ یہ مضمون اس سے پہلے سورة الانبیاء کی آیت ١٨ میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : { بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌط } ” بلکہ ہم حق کو دے مارتے ہیں باطل پر تو وہ اس کا بھیجا نکال دیتا ہے ‘ پھر وہ مٹ جاتا ہے “۔ آیت زیر مطالعہ کا بھی بالکل یہی مفہوم ہے ‘ اس لیے یہاں ” یَقْذِفُ بِالْحَقِّ “ کے بعد ” عَلَی الْبَاطِلِ “ کے الفاظ کو محذوف سمجھا جانا چاہیے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

70 The words yaqdhifu bil-haqq give two meanings: (1) "He inspires me with the knowledge of the truth by Revelation; " and (2) "He is making the truth to prevail: He is crushing falsehood by means of the truth. "

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :70 اصل الفاظ ہیں یَقْذِفُ بَالْحَقِّ ۔ اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ وحی کے ذریعہ سے وہ عِلم حق میرے اوپر القا کرتا ہے اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ وہ حق کو غالب کر رہا ہے ، باطل کے سر پر حق کی ضرب لگا رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

22: اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ حق باتیں وحی کے ذریعے اوپر سے آ رہی ہیں، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اوپر سے حق کو بھیج کر اسے باطل پر غالب فرما رہا ہے، لہذا چاہے تم کتنی مخالفت کرو، باطل رفتہ رفتہ ختم ہوجائے گا، اور حق غالب آ کر رہے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:48) یقذف۔ مضارع واحد مذکر غائب قذف (ضرب) مصدر۔ جس کے معنی دور پھینکنے کے ہیں۔ جیسے فاقذ فیہ فی الیم (20: 39) پھر اس (صندوق) کو دریا میں ڈال دو یا جیسے سچ کو جھوٹ پر پھینک مارنے کے معنی میں قرآن مجید میں آیا ہے بل نقذف بالحق علی الباطل۔ (21:18) بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر پھینک مارتے ہیں۔ رمی کی طرح قذف کو بطور استعارہ گالی دینے یا عیب لگانے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں لیکن قرآن مجید میں اس کا استعمال نہیں آیا۔ اگرچہ رمی سے ان ہی معنوں میں قرآن مجید میں ہے۔ والذین یرمون المحصنت ثم لم یاتوا باربعۃ شھداء فاجلدوہم ثمانین جلدۃ (24:4) اور جو لوگ تہمت لگائیں پاک دامن عورتوں کو اور پھر چار گواہ نہ لاسکیں تو انہیں اسی درے لگائو۔ یہاں آیت ہذا میں قذف بمعنی ڈالنا (القاء کرنا) اور اتارنا کے معنی میں آیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ (اوپر سے ) حق اتارتا ہے (اس صورت میں با زائدہ ہے) لیکن اس کا استعمال بمعنی پھینک مارنا میں بھی جائز ہے اس صورت میں مقذوف محذوف ہے۔ عبارت یوں ہوگی : قل ان ربی یقذف بالحق علی الباطل : تحقیق میرا رب باطل پر حق سے ضرب لگاتا ہے۔ جیسا کہ اور جگہ ارشاد ہے۔ بل نقذف بالحق علی الباطل فیدمغہ (21:18) ہم تو حق کو باطل کے اوپر پھینک مارتے ہیں سو وہ اس کا بھیجا نکال دیتا ہے۔ اس صورت میں باء زائدہ نہیں ہے۔ علام الغیوب۔ مضاف مضاف الیہ۔ علام علم سے فعال کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ ایسا زبردست جاننے والا کہ جس سے کوئی شی بھی پوشیدہ نہ رہ سکے ۔ یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے ای ھو سبحنہ علام الغیوب۔ یا یقذف کی ضمیر فاعل کا بدل ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 لہٰذا وہ جو بات کہتے ہیں سچی کہتے ہیں ” یقذف بالحق) کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ حق کو باطل سے ٹکرا کر حق کو غالب اور باطل کو مغلوب کر رہا ہے۔ ( دیکھئے سورة انبیاء : آیت 18)9 مراد ہیں وہ باتیں جو دوسروں سے پوشیدہ ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل ان ربی ۔۔۔۔ الغیوب (48) ” “۔ یعنی میں جو چیز لے کر آیا ہوں وہ حق ہے ۔ یہ وہ مضبوط حق ہے جسے اللہ قوت سے پھینکتا ہے ۔ اس سچائی کے مقابلے میں کون کھڑا ہوسکتا ہے جسے اللہ زور دار انداز سے نازل کررہا ہو ۔ یہ ایک نہایت ہی مجسم اور مصور انداز تعبیر ہے ۔ گویا حق کے گولے برس رہے ہیں ، بمباری ہورہی ہے اور کسی کو ہمت نہیں ہے کہ اس کے سامنے کھڑا ہوسکے ۔ اللہ سچائی کے گولے پھینک رہا ہے جو علام الغیوب ہے ۔ وہ علم سے یہ گولے پھینک رہا ہے ۔ علم کے ساتھ ان کا رخ کسی کی طرف کرتا ہے ۔ اس کا نشانہ خطا نہیں ہوتا ۔ کوئی چیز اس سے غائب نہیں ہے اور کوئی چیز اس سچائی کی ذد سے بچ نہیں سکتی اس لیے کہ رکاوٹ بننے والی کوئی چیز سامنے نہیں ہے ۔ اللہ کے سامنے نشانہ کھلا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

50:۔ قل ان ربی الخ : یہ چھٹا طریق تبلیغ ہے۔ میرا پروردگار جو ہر چھپی چیز کو جانتا ہے حق کو خوب کھول کر بیان کرتا ہے اور وحی کے ذریعہ انبیاء (علیہم السلام) پر نازل فرماتا ہے تاکہ وہ اس کی تبلیغ و اشاعت کریں۔ یقذف بالھق یلقیہ و ینزلہ الی انبیائہ (مدارک) ای یبین الحجۃ ویظہرھا (قرطبی) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(48) اے پیغمبر آپ فرما دیجئے کہ میرا پروردگار امر حق کو اور سچی بات کو ڈالتا ہے اور وحی راست کو اتارتا ہے اور وہ تمام چھپی چیزوں کو خوب جاننے والا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ امر حق کو اور دین حق کو اتارتا ہے اور میں اس کے بندوں تک پہنچاتا ہوں یا یہ مطلب کہ وہی امر حق کو باطل پر غالب کرتا ہے جیسا کہ سورة انبیاء میں ہم عرض کرچکے ہیں۔ قذف کے معنی اگرچہ تیر پھینکنے کے ہیں لیکن قرآن میں عام طور سے القا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ وقذف فی قلوبھم الرعب اور ان اقذفیہ فی التابوت ہم نے تیسیر میں دونوں کو واضح کردیا ہے اور وہی غیب کی تمام باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اوپر سے اتارتا ہے۔