Surat Saba

Surah: 34

Verse: 50

سورة سبأ

قُلۡ اِنۡ ضَلَلۡتُ فَاِنَّمَاۤ اَضِلُّ عَلٰی نَفۡسِیۡ ۚ وَ اِنِ اہۡتَدَیۡتُ فَبِمَا یُوۡحِیۡۤ اِلَیَّ رَبِّیۡ ؕ اِنَّہٗ سَمِیۡعٌ قَرِیۡبٌ ﴿۵۰﴾

Say, "If I should err, I would only err against myself. But if I am guided, it is by what my Lord reveals to me. Indeed, He is Hearing and near."

کہہ دیجئے کہ اگر میں بہک جاؤں تو میرے بہکنے ( کا وبال ) مجھ پر ہی ہے اور اگر میں راہ ہدایت پر ہوں توبہ سبب اس وحی کے جو میرا پروردگار مجھے کرتا ہے وہ بڑا ہی سننے والا اور بہت ہی قریب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ إِن ضَلَلْتُ فَإِنَّمَا أَضِلُّ عَلَى نَفْسِي وَإِنِ اهْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوحِي إِلَيَّ رَبِّي ... Say: "If (even) I go astray, I shall stray only to my own loss. But if I remain guided, it is because of the Revelation of my Lord to me..." means, all good comes from Allah, and in what Allah sends down of revelation and clear truth there is guidance and wisdom. So whoever goes astray, does so by himself, as Abdullah bin Mas`ud, may Allah be pleased with him, said when he was asked about some issue. He said, "I will say what I think, and if it is correct, then it is from Allah, and if it is wrong, then it is from me and from the Shaytan, and Allah and His Messenger have nothing to do with it." ... إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ Truly, He is All-Hearer, Ever Near. means, He hears all the words of His servants, and He is always near to respond to them when they call on Him. An-Nasa'i recorded the Hadith of Abu Musa Al-Ash`ari, which also appears in the Two Sahihs: إِنَّكُمْ لاَتَدْعُونَ أَصَمَّ وَلاَ غَايِبًا إِنَّمَا تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا مُجِيبًا You are not calling upon one who is deaf or absent; you are calling upon One Who is All-Hearer, Ever Near and Responsive.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 یعنی بھلائی سب اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جو وحی اور حق مبین نازل فرمایا، اس میں رشدو ہدایت ہے، صحیح راستہ لوگوں کو اس سے ملتا ہے۔ پس جو گمراہ ہوتا ہے، تو اس میں انسان کی اپنی ہی کوتاہی اور ہوائے نفس کا دخل ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کا وبال بھی اسی پر ہوگا 50۔ 2 جس طرح حدیث میں فرمایا ' تم بہری اور غائب ذات کو نہیں پکار رہے ہو ' بلکہ اس کو پکار رہے ہو جو سننے والا، قریب اور قبول کرنے والا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٧٥] یعنی اگر میں نے یہ محض ایک ڈھونگ ہی رچایا ہوا ہے تو آخر یہ کتنے دل چل سکتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ اس صورت میں تمہیں میری فکر چھوڑ دینا چاہئے میں اس باطل کے انجام سے جلد از جلد خود ہی دوچار ہوجاؤں گا اور اس کا وبال تم پر کچھ نہ ہوگا۔ لیکن اگر میں راہ راست ہوں تو اس راست روی کا ذریعہ سوا وحی الٰہی کے اور کیا ہوسکتا ہے ؟ تمہارے پاس تو تقلید آباء ذریعہ معلومات ہے۔ میرے پاس تو وہ بھی نہیں اس صورت میں تم خود ہی سوچ لو کہ تمہارا انجام کیا ہوسکتا ہے۔ میرا پروردگار جو اس پیغام کو بھیجنے والا ہے ہماری سب باتیں سن رہا ہے اور وہ جلد ہی حق کی مدد فرمائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اِنْ ضَلَلْتُ فَاِنَّمَآ اَضِلُّ عَلٰي نَفْسِيْ : یہ پانچویں تلقین ہے کہ آپ انھیں سمجھانے کے لیے کہیں کہ اگر تمہارے بتوں کو اور تمہارے آباء کے دین کو چھوڑنے کی وجہ سے میں گمراہ ہوگیا ہوں، جیسا کہ میرے بارے میں تم کہتے پھرتے ہو تو اس گمراہی کا وبال مجھی پر پڑے گا، تم پر اس کی ذمہ داری نہیں اور اگر میں ہدایت یافتہ ہوں، جیسا کہ حقیقت ہے، تو یہ میرا کمال یا خوبی نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میری راہ نمائی ہے اور میں تمہیں صاف بتاچکا ہوں کہ میں اپنے نفس کی یا کسی اور کی پیروی کرتا ہی نہیں، بلکہ صرف وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف کی جاتی ہے، جیسا کہ فرمایا : (ۭقُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِعُ مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ مِنْ رَّبِّيْ ) [ الأعراف : ٢٠٣ ] ” کہہ دے میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب کی جانب سے میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ “ اس آیت میں یہ ادب بھی سکھایا گیا کہ خامی اور غلطی کی نسبت اپنی طرف کرنی ہے اور ہدایت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف، کیونکہ ساری خیر اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور ہدایت اور بھلائی صرف اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی اور اس کے بیان کردہ حق میں ہے، پھر جو گمراہ ہوتا ہے وہ اپنے نفس کی وجہ سے گمراہ ہوتا ہے اور جسے ہدایت ملتی ہے اسے اللہ کی طرف سے ملتی ہے، جیسا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) سے ایک مسئلہ پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا : ( أَقُوْلُ فِیْہَا بِرَأْیِیْ ، فَإِنْ یَّکُ خَطَأً فَمِنِّيْ وَ مِنَ الشَّیْطَانِ ، وَ إِنْ یَّکُ صَوَابًا، فَمِنَ اللّٰہِ ) [ مسند أحمد : ٤؍٢٧٩، ح : ١٨٤٨٩ ] ” میں اس کے بارے میں اپنی رائے سے کہتا ہوں، اگر وہ خطا ہوئی تو میری طرف سے اور شیطان کی طرف سے ہوگی اور اگر درست ہوئی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔ “ اِنَّهٗ سَمِيْعٌ قَرِيْبٌ : ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے، جب ہم کسی وادی کی بلندی پر پہنچتے تو ہم ” لا الٰہ الا اللہ “ اور ” اللہ اکبر “ کہتے اور ہماری آوازیں بلند ہوجاتیں۔ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَا أَیُّہَا النَّاسُ ! ارْبَعُوْا عَلٰی أَنْفُسِکُمْ ، فَإِنَّکُمْ لَا تَدْعُوْنَ أَصَمَّ وَ لَا غَاءِبًا، إِنَّہُ مَعَکُمْ ، إِنَّہُ سَمِیْعٌ قَرِیْبٌ، تَبَارَکَ اسْمُہُ وَ تَعَالٰی جَدُّہُ ) [ بخاري، الجہاد والسیر، باب ما یکرہ من رفع الصوت في التکبیر : ٢٩٩٢ ] ” لوگو ! اپنی جانوں پر رحم کرو، کیونکہ تم نہ کسی بہرے کو پکار رہے ہو نہ غائب کو، وہ تو تمہارے ساتھ ہے، بیشک وہ سب کچھ سننے والا ہے، قریب ہے۔ اس کا نام بہت برکت والا اور اس کی شان بہت بلند ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنْ ضَلَلْتُ فَاِنَّمَآ اَضِلُّ عَلٰي نَفْسِيْ۝ ٠ ۚ وَاِنِ اہْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوْحِيْٓ اِلَيَّ رَبِّيْ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ سَمِيْعٌ قَرِيْبٌ۝ ٥٠ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ اهْتِدَاءُ يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] ، وقال : فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] ، فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] ، فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . ويقال المُهْتَدِي لمن يقتدي بعالم نحو : أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] تنبيها أنهم لا يعلمون بأنفسهم ولا يقتدون بعالم، وقوله : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] فإن الِاهْتِدَاءَ هاهنا يتناول وجوه الاهتداء من طلب الهداية، ومن الاقتداء، ومن تحرّيها، وکذا قوله : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] وقوله : وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] فمعناه : ثم أدام طلب الهداية، ولم يفترّ عن تحرّيه، ولم يرجع إلى المعصية . وقوله : الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ [ البقرة/ 157] أي : الذین تحرّوا هدایته وقبلوها وعملوا بها، وقال مخبرا عنهم : وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] . الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو ۔ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کرسکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں ۔ لیکن کبھی اھتداء کے معنی طلب ہدایت بھی آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو ۔ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تم کو اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہ راست پر چلو ۔ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بیشک ہدایت پالیں ۔ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں ۔ المھتدی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی عالم کی اقتدا کر رہا ہے ہو چناچہ آیت : ۔ أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] بھلا اگر ان کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ کسی کی پیروی کرتے ہوں ۔ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ نہ وہ خود عالم تھے اور نہ ہی کسی عالم کی اقتداء کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] تو جو کوئی ہدایت حاصل کرے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ میں اھتداء کا لفظ طلب ہدایت اقتدا اور تحری ہدایت تینوں کو شامل ہے اس طرح آیت : ۔ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال انہین آراستہ کر کے دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آتے ۔ میں بھی سے تینوں قسم کی ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور آیت : ۔ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] اور جو توبہ کرلے اور ایمان لائے اور عمل نیک کرے پھر سیدھے راستہ پر چلے اس کو میں بخش دینے والا ہوں ۔ میں اھتدی کے معنی لگاتار ہدایت طلب کرنے اور اس میں سستی نہ کرنے اور دوبارہ معصیت کی طرف رجوع نہ کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ«1» [ البقرة/ 157] اور یہی سیدھے راستے ہیں ۔ میں مھتدون سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت الہیٰ کو قبول کیا اور اس کے حصول کے لئے کوشش کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا چناچہ انہی لوگوں کے متعلق فرمایا ۔ وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] اے جادو گر اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر بیشک وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ «3» ، وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] ( ق ر ب ) القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آپ ان سے فرما دیجیے کہ اگر میں اس حق و ہدایت کو چھوڑ کر گمراہ ہوجاؤں تو میری گمراہی بھی وبال ہوگی اور اگر میں حق و ہدایت پر قائم رہوں تو یہ ہدایت بدولت اس قرآن کے ہے جس کو میرا رب میرے پاس بھیج رہا ہے اور پکارنے والے پکار کو سننے والا اور محد کی دعا کی قبولیت کے قریب ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ { قُلْ اِنْ ضَلَلْتُ فَاِنَّمَآ اَضِلُّ عَلٰی نَفْسِیْ } ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان سے یہ بھی) کہیے کہ اگر میں بہک گیا ہوں تو اس کا وبال میرے اوپر ہی آئے گا۔ “ { وَاِنِ اہْتَدَیْتُ فَبِمَا یُوْحِیْٓ اِلَیَّ رَبِّیْ اِنَّہٗ سَمِیْعٌ قَرِیْبٌ } ” اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو یہ اس وحی کے طفیل ہے جو میرا رب میری طرف کرتا ہے۔ یقینا وہ خوب سننے والا ‘ بہت قریب ہے۔ “ یہ انتہائی متواضع اندازِ بیان ہے کہ اگر بالفرض میں بہک گیا ہوں تو یہ میرے نفس کی شرارت کے باعث ہے اور اس کا وبال بھی مجھ پر ہوگا۔ اور اگر میں سیدھے راستے پر ہوں تو یقینا میرے رب کی راہنمائی کی وجہ سے ایسا ممکن ہوا ہے۔ میں اپنی محنت اور کوشش سے ہدایت تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

71 From this verse some people of the modern age have argued thus: According to it the Holy Prophet also could go astray: rather used to go astray. That is why Allah has made the Holy Prophet himself say: `If I have gone astray, I am myself responsible for this. And I am on right guidance only when my Lord sends down Revelation (i.e., verses of the Qur'an) to me." By this wrong interpretation these unjust people in fact want to prove that the Holy Prophet's life was, God forbid, a combination of guidance and error, and Allah had made him confess this before the disbelievers Lest one should adopt his obedience completely, taking him to be wholly on right guidance. The fact however is that whoever considers the theme in its correct context will know that here the words, 'If I have gone astray', are not meant to give the meaning that the Holy Prophet actually used to go astray, but it means: `If I have gone astray, as you accuse I have, and my claim to Prophethood and my this invitation to Tauhid are the result of the same deviation, as you seem to imagine, then the burden of my going astray, will be on me alone; you will not be held responsible for it. But if I am on right guidance, as in fact I am, it is because I receive Revelation from my Lord, by virtue of which I have obtained the knowledge of the guidance. My Lord is near at hand and is hearing everything. He knows whether I have gone astray or am on right guidance from Him. "

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :71 اس زمانے کے بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ اس کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم گمراہ ہو سکتے تھے ، بلکہ ہو جایا کرتے تھے ، اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی زبان سے یہ کہلوا دیا کہ اگر میں گمراہ ہوتا ہوں تو اپنی گمراہی کا خود ذمہ دار ہوتا ہوں اور راہ راست پر میں بس اس وقت ہوتا ہوں جب میرا رب مجھ پر وحی ( یعنی آیات قرآنی ) نازل کرتا ہے ۔ اس غلط تاویل سے یہ ظالم گویا یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی معاذ اللہ ہدایت و ضلالت کا مجموعہ تھی اور اللہ تعالیٰ نے کفار کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعتراف اس لیے کروا رہا تھا کہ کہیں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بالکل ہی راہ راست پر سمجھ کر آپ کی مکمل پیروی نہ اختیار کر بیٹھے حالانکہ جو شخص بھی سلسلہ کلام پر غور کرے گا وہ جان لے گا کہ یہاں اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں کے الفاظ اس معنی میں نہیں کہے گئے ہیں کہ معاذ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فی الواقع گمراہ ہو جاتے تھے ، بلکہ پوری بات اس معنی میں کہی گئی ہے کہ اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں ، جیسا کہ تم مجھ پر الزام لگا رہے ہو ، اور میرا یہ نبوت کا دعویٰ اور میری یہ دعوت توحید اسی گمراہی کا نتیجہ ہے جیسا کہ تم گمان کر رہے ہو ، تو میری گمراہی کا وبال مجھ پر ہی پڑے گا ، اس کی ذمہ داری میں تم نہ پکڑے جاؤ گے ۔ لیکن اگر میں ہدایت پر ہوں ، جیسا کہ درحقیقت ہوں ، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھ پر میرے رب کی طرف سے وحی آتی ہے جس کے ذریعہ سے مجھے راہ راست کا علم حاصل ہو گیا ہے ۔ میرا رب قریب ہی موجود ہے اور سب کچھ سن رہا ہے ، اسے معلوم ہے کہ میں گمراہ ہوں یا اس کی طرف سے ہدایت یافتہ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٠۔ سعد بن ابی وقاص کے بیٹے عمر بن سعد (رض) کہا کرتے تھے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا ہے جو مشرکین مکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں کہا کرتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بھی اپنے باپ دادا کا دین چھوڑا نا چاہتے ہیں اوپر کی آیتوں میں مشریکن مکہ کا یہ قول جو گذرا کہ ما ھذا الارجل یرید ان یصد کم عماکان یعبد آیا ثمکم اس سے عمر بن سعد کے اس قول کی تصدیق بھی ہوتی ہے ‘ یہ عمر بن سعدثقہ تابعیوں میں ہیں لیکن یزید کی طرف سے جو لشکر حضرت حسین (رض) نے کوفہ پر لڑا اس لشکر کے یہ عمر بن سعد سردار تھے اس واسطے اسماء الرجال اور تاریخ کی کتابوں میں ان عمر بن سعد (رض) پر لوگ طعن کرتے ہیں لیکن ان کی روایت میں کچھ طعن نہیں ہے اسماء الرجال کی بعض کتابوں میں ان عمر بن سعد کو صحابیوں میں جو شریک کردیا ہے وہ غلط ہے کیوں کہ ابن معین (رح) نے اس بات کی صراحت کردی ہے کہ ان عمر بن سعد کی پیدائش اور حضرت عمر (رض) کی وفات ایک ہی دن ہے پھر عمر بن سعد صحابی کیوں کر ہوسکتے ہیں ‘ غرض اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مشرکین مکہ کے جس قول کا جواب دیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ تم لوگوں کے کہنے کے موافق باپ دادا کا دین اگر حق تھا جس کے چھوڑ دینے سے میں بےراہ ہوگیا ہوں تو اس کا وبال خدا مجھ پر ڈالے گا اور اگر جس طرح میں کہتا ہوں کہ میری جو کچھ نصیحت ہے وہ اللہ کے حکم کے موافق ہے اور تم لوگ اس نصیحت کی مخالفت کرتے ہو تو اس مخالفت کا سخت عذاب اللہ تعالیٰ کی جانب سے تم کو بھگتنا پڑے گا اللہ تعالیٰ میرے اور تمہارے قول دفعل سنتا اور دیکھتا ہے جس طرح کا قول دفعل جس کسی کا ہوگا اسی طرح کا بدلہ اللہ تعالیٰ اس کو دے گا اب آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دنیا میں تو یہ لوگ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں جس دن ان کے قول وفعل کا وبال ان لوگوں پر پڑے گا اس دن ان لوگوں کی پریشانی کا حال دیکھنے کے قابل ہوگا کہ اپنے قول وفعل پر جس دن ان کے قول وفعل کا وبال ان لوگوں پر پڑے گا اس دن ان لوگوں کی پریشانی کا حال دیکھنے کے قابل ہوگا کہ اپنے قول دفعل پر پچتاویں گے اور دنیا میں پھر آنے اور نیک کام کرنے اور اس طرح قول وفعل سے باز آنے کا اقرار کریں گے مگر جب وقت ہاتھ سے نکل جائے گا تو پھر پچتانے سے کچھ فائدہ نہ ہوگا صحیح بخاری ومسلم میں انس بن مالک (رض) سے روایت ٣ ؎ ہے (٣ ؎ مکشوۃ باب صفۃ ال نار واہلہا فصل اول۔ ) میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہی عذاب کی سختی شروع ہوجاتی ہے ‘ یہ حدیث واخذ وامن مکان قریب کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ نسبت عقبیٰ کے دناہ جو انسان کے لیے قریب کی جگہ ہے اپنے بداعمالوں کے سبب سے یہ لوگ وہیں سے عذاب میں پکڑے آئے ہیں پھر اب عقبیٰ میں ان کی کیا نجات ہوسکتی ہے۔ وانی لھم التناوش من مکان بعید اس کا مطلب یہ ہے کہ عقبیٰ میں… پہنچ جانے کے بعد دنیا انسان کے لیے ایک دور جگہ ہے پھر جو آرزو دنیا میں آن کر آرز واتنے دور بیٹھے بیٹھے کیونکر پوری ہوسکتی ہے ویقذقون بالغیب من مکان بعید اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح دور سے ایک شخص دوسرے شخص کو اوپر کے اٹکل سے کوئی چیز پھینکتا ہے اسی طرح قرآن اور اللہ کے رسول کی شان میں یہ لوگ اٹکل سے باتیں بناتے رہیں صحیح ١ ؎ مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے (١ ؎ مشکوۃ کتاب الجہاد فصل اول ‘) کہ شہید لوگ دنیا میں دوبارہ آنے اور شہید ہونے کی آرزو کریں گے لیکن ان کی وہ آرزو منظور نہ ہوگی اس حدیث کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ جب شہدائے بدر جیسے فرما نبردار بندوں کی دنیا میں دوبارہ آنے کی آرزو منظور نہیں ہوئی تو ان نافرمان لوگوں کی یہ آرزو کیوں کر منظور ہوسکتی تھی کیوں کہ یہ بات علم الٰہی میں ٹھہر چکی تھی کہ یہ لوا دنیا میں دوبارہ آن کر اسی نافرمانی میں اپنی عمر گزراتے جس طرح پہلی دفعہ گزاری چناچہ اس کا ذکر سورة الانعام میں گزر چکا ہے ‘ مریب کے معنے شک میں ڈالنے والی چیز کے ہیں مطلب ہے کہ ان لوگوں کے اعتقاد میں مرتے دم تک کفرو شرک کی باتیں اس طرح جم رہی ہیں جن باتوں نے ان کے دل کو قرآن کی نصیحت کی طرف مائل نہیں ہونے دیا جس سے تمام عمر یہ لوگ عقبیٰ کی باتوں میں شک کرتے رہے شاہ صاحب نے شک صریب کا ترجمہ چین نہ لینے والے دھوکے کا جو کیا ہے اس کا یہی مطلب ہے ‘ حدیث کی سب کتابوں میں ابوہریرہ (رض) سے یہ جو روایت ٢ ؎ ہے (٢ ؎ مشکوۃ باب فی الوسوسہ فصل اول۔ ) کہ اللہ تعالیٰ نے دل کے وسوسہ کو معاف کردیا ہے یہ ان لوگوں کی شان میں ہے جو اسلامی اعتقاد اور عملوں میں تو پکے ہیں مگر کبھی کبھی ان کے میں وسوسہ ڈال دیتا ہے اور ان کا اعتقاد اس وسوسہ پر نہیں جمتا اس لیے وہ فورا اس وسوسہ کو رفع دفع کردیتے ہیں اور اس وسوسہ پر عمل نہیں کرتے ان آیتوں میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے جو عمر پھر اس طرح کے شیطانی وسوسوں میں گرفتار رہے کہ ان وسو سوں کے مقابلہ میں شریعت الٰہی کو جھٹلاتے اور ان وسوسوں کو اپنا اعتقاد ٹھہرا کر مرتے دم تک اس اعتقاد کے موافق کفر اور شرک کی باتوں پر عمل کرتے رہے اس تفسیر سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکیف ہے کہ آیت اور حدیث میں کچھ اختلاف نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:50) ان ضللت فانما اضل علی نفسی وان اھتدیت فبما یوحی الی ربی۔ ان شرطیہ ہے اور فانما میں فا جواب شرط کے لئے ہے اسی طرح فبما میں فا جواب شرط کے لئے با سببیہ اور ما موصولہ یا مصدریہ ہے۔ ای ان ضللت فانما اضل بسبب نفسی ووبالہ علی نفسی وان اھتدیت فانما اھتدی لنفسی بھدایۃ اللہ تعالیٰ و توفیقہ۔ ترجمہ :۔ اگر ، میں گمراہ ہوگیا تو اس کا نقصان مجھے ہی ہوگا۔ اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو یہ ہدایت و توفیق منجانب اللہ ہے (بوجہ اس وحی کے جو میرا رب مجھ پر نازل فرماتا ہے ) اور اس کا صلہ بھی میری جان کے لئے ہے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ اپنے زعم میں تم جو مجھے گمراہ سمجھتے ہو اگر بالفرض اسے مان بھی لیا جائے تو اس کا نقصان مجھے ہے تم اس کا فکر کیوں کرتے ہو۔ اور اگر میں راہ راست پر ہوں تو یہ توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کا سبب وہ وحی ہے جو میرا رب مجھ پر نازل فرمتا ہے۔ یعنی یہ قرآن مجید اور بطور استدلال معکوس : یہ قرآن فی الحقیقت منزل من اللہ ہے اور نتیجۃ میں راہ راست پر ہوں لہٰذا تم پر عائد ہوتا ہے کہ تم میری بات مانو اور راہ راست اختیار کرو !

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی اگر تمہارے بتوں کو چھوڑدینے کی وجہ سے گمراہ ہوگیا ہوں، جیسا کہ تم میرے بارے میں کہتے پھرتے ہو تو اس گمراہی کا وبال مجھی پر پڑے گا تم پر اس کی ذمہ داری نہیں ہے اور اگر میں ہدایت یافتہ ہوں، جیسا کہ حقیقت ہے، تو یہ میرا کمال یا خوبی نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعہ میری رہنمائی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل ان ضللت۔۔۔۔ سمیع قریب (50) اگر میں گمراہ ہوگیا ہوں تو اس کا وہال تم پر نہ ہوگا ۔ میں خود ذمہ دار ہوں گا اور اگر میں ہدایت ہر ہوں تو اللہ نے بذریعہ وحی مجھے یہ ہدایات دی ہیں ۔ میں خود از خود کوئی کام کرنے کا مجاز نہیں ہوں ۔ میں تو خود بھی اسیراشارہ ابرر دہوں ۔ انہ سمیع قریب (34: 50) ” وہ سب کچھ سنتا ہے اور قریب ہی ہے “۔ یہ لوگ اللہ کو قریب پاتے تھے ۔ ان کے تصور میں اللہ کی یہ صفات بیٹھی ہوئی تھیں اور ان کی حقیقی زندگی میں یہ صفات موثر تھیں ۔ ان کو یقین تھا کہ اللہ سمیع ہے اور قریب ہے ۔ اور وہ ان کے امور کو براہ راست دیکھ رہا ہے ۔ ان کی شکایت اور ان کے مشورے سب اللہ کے سامنے ہیں ۔ اللہ نے اپنے بندوں کو چھوڑ نہیں رکھا اور نہ کسی کے حوالے کررکھا ہے ۔ چناچہ ان کی زندگی اللہ کی انس و محبت میں گزرتی تھی ۔ اللہ کے زیر سایہ تھی ۔ اس کے پڑوس میں تھی ۔ اس کی مہربانیوں میں تھی ۔ اس کی نگرانی میں تھی اور یہ عقیدہ وہ اپنے قصوس کے اندر زندہ پاتے تھے ، زندہ اور سادہ شکل میں۔ یہ صفات محض تصور ہی نہ تھیں بلکہ زندہ اور عملی تھیں انہ سمیع قریب (34: 50)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

52:۔ قل ان ضللت الخ : یہ آٹھواں طریق تبلیغ ہے۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں، غلط بات اور گمراہی کی دعوت نہیں دے رہا ہوں۔ اگر میں جھوٹ کہوں گا اور تمہیں گمراہی کی دعوت دوں گا تو اس کا وبال مجھ پر پڑے گا۔ اور اگر میں راہ راست پر چل رہا راہ توحید کی طرف بلا رہا ہوں اس کی راہنمائی مجھے وحی الٰہی سے ہوئی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(50) آپ یہ بھی فرما دیجئے کہ فرض کرلو اگر میں خدانخواستہ راہ راست سے بھٹک جائوں اور گمراہ ہو جائوں تو سوائے اس کے نہیں کہ میں اپنے ہی برے کو اور اپنی ہی جان کے لئے گمراہی اختیار کروں گا اور اگر میں راہ راست پر قائم رہوں تو یہ اس قرآنی وحی کی وجہ سے ہوگی جو میرا پروردگار میری طرف بھیجتا ہے۔ بلاشبہ وہ خوب سننے والا اور بہت قریب و نزدیک ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب کلام الٰہی کا حق ہونا ثابت ہوگیا تو لو فرضنا اگر میں راہ حق سے بھٹک جائوں تو اس کا وبال اور اس کا ضرر مجھ پر ہوگا اور میں جیسا کہ راہ راست پر ہوں اسی راہ راست پر قائم رہوں تو اس کا سبب وہ وحی الٰہی ہوگی جس کو میرا پروردگار میری طرف بھیجتا ہے۔ یعنی کلام الٰہی کی وحی جو مجھ پر نازل ہوتی ہے اسی کے سبب میں راہ یافتہ رہوں گا۔ پس ایسی حالت میں تم کسی کی گمراہی اور ہدایت کی فکر نہ کرو بلکہ اپنی فکر کرو اور راہ راست اختیار کرنے میں پیش قدمی کرو وہ سب کی باتیں سننے والا اور بہت ہی نزدیک ہے جو جیسا کرے گا اس کی سزا یا اس کا صلہ پائے گا۔