Surat Saba

Surah: 34

Verse: 52

سورة سبأ

وَّ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِہٖ ۚ وَ اَنّٰی لَہُمُ التَّنَاوُشُ مِنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ ﴿۵۲﴾ۚ ۖ

And they will [then] say, "We believe in it!" But how for them will be the taking [of faith] from a place far away?

اس وقت کہیں گے کہ ہم اس قرآن پر ایمان لائے لیکن اس قدر دور جگہ سے ( مطلوبہ چیز ) کیسے ہاتھ آسکتی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَالُوا امَنَّا بِهِ ... And they will say: "We do believe (now);" means, on the Day of Resurrection, they will say, `we believe in Allah and His angels, Books and Messengers.' This is like the Ayah: وَلَوْ تَرَى إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُواْ رُءُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَأ أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَـلِحاً إِنَّا مُوقِنُونَ And if you only c... ould see when the criminals shall hang their heads before their Lord (saying): "Our Lord! We have now seen and heard, so send us back that we will do righteous good deeds. Verily, we now believe with certainty." (32:12) Allah says: ... وَأَنَّى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِن مَكَانٍ بَعِيدٍ but how could they receive from a place so far off! meaning, how could they attain faith now that they are so far removed from the place where it could be accepted from them, and they have entered the realm of the Hereafter which is the realm of reward and punishment, not the realm of trial and testing. If they had believed in this world, that would have been good for them, but now they have entered the Hereafter, there is no way that their faith can be accepted, just as there is no way a person can get a thing if he is far away from it. Mujahid said: وَأَنَّى لَهُمُ التَّنَاوُشُ but how could they At-Tana'wush means, How could they attain that? Az-Zuhri said, They will wish to attain faith when they have reached the Hereafter and are cut off from this world. Al-Hasan Al-Basri said, They will seek something when they have no way of attaining it, they will seek faith from a distant place.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

52۔ 1 تَنَاوُش، ُ کے معنی تناول یعنی پکڑنے کے ہیں یعنی اب آخرت میں انہیں ایمان کس طرح حاصل ہوسکتا ہے جب کہ دنیا میں اس سے گریز کرتے رہے گویا آخرت میں انہیں ایمان کے لئے، دنیا کے مقابلے میں دور کی جگہ ہے، جس طرح دور سے کسی چیز کو پکڑنا ممکن نہیں، آخرت میں ایمان لانے کی گنجائش نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٧٧] یعنی ایمان لانے کا مقام تو دنیا ہے اور اس وقت وہ عالم آخرت میں پنچ چکے۔ اور ان دونوں کے درمیان طویل فاصلہ ہے اور طویل مدت ہے۔ پھر وہ ایمان کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔ بالفاظ دیگر ایمان تو ایمان بالغیب کا نام ہے۔ اور اس کا مقام دنیا ہے جہاں کئی غیب کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ اور آخرت میں غیب کا کوئی پردہ...  باقی نہ رہے گا۔ ہر شخص حقیقت حال کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لے گا۔ وہاں ایمان لانے یا ایسی بات کہنے کا کچھ مطلب ہی نہ ہوگا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَّقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖ : یعنی جب آخرت کے عذاب کو دیکھیں گے تو کہیں گے، ہم اللہ پر ایمان لے آئے جو اکیلا ہے، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : (فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْٓا اٰمَنَّا باللّٰهِ وَحْدَهٗ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِيْنَ ) [ المؤمن : ٨٤ ] ” پھر جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھا ... تو انھوں نے کہا ہم اس اکیلے اللہ پر ایمان لائے اور ہم نے ان کا انکار کیا جنھیں ہم اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے تھے۔ “ اور فرمایا : (وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ ) [ السجدۃ : ١٢ ] ” اور کاش ! تو دیکھے جب مجرم لوگ اپنے رب کے پاس اپنے سر جھکائے ہوں گے اے ہمارے رب ! ہم نے دیکھ لیا اور ہم نے سن لیا، پس ہمیں واپس بھیج کہ ہم نیک عمل کریں، بیشک ہم یقین کرنے والے ہیں۔ “ وَاَنّٰى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ : ” التَّنَاوُشُ “ آسانی سے کسی چیز کو حاصل کرلینا، لے لینا۔ یعنی ایمان لانے کی جگہ دنیا تھی جو بہت دور رہ گئی، اب اتنی دور جگہ سے ایمان کو حاصل کرنا کیسے ممکن ہے ؟ عذاب دیکھ لینے کے بعد ایمان لانے سے تو کچھ حاصل نہیں، اس کا وقت تو سکرات موت سے پہلے تھا۔ ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ ) [ ترمذي، الدعوات، باب إن اللّٰہ یقبل توبۃ العبد۔۔ : ٣٥٣٧، قال الألباني حسن ] ” اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول کرتا ہے جب تک موت کے وقت اس کا گلا نہ بولنے لگے۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The word: تَّنَاوُشُ (tanawush) in verse 52: وَقَالُوا آمَنَّا بِهِ وَأَنَّىٰ لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ (And they will say, “ We believe in Him.|" And how can they achieve it (the faith) from a place (so) far off?) means to pick up something by stretching one&s hand. Then, it is obvious that one can pick up only what is near at hand. If it is very far, it will be out of reach. T... he subject of the verse is that disbelievers and deniers, once they see reality as it is on the Day of Judgment, will say, |"We have now come to believe in the Qur&an, or the messenger of Allah to whom it was revealed.|" But, they would not know that the time and place for embracing &Iman (faith) has receded far away from them for the reason that &Iman is a thing of the life of the mortal world and that alone is what is accepted. The &Akhirah (the Hereafter) is not the venue of deeds, the place to act right (darul-&amal). Nothing done there can be taken into account. Therefore, how is it possible that they pick up the great wealth of &Iman just by stretching their hand for it.  Show more

(آیت) وقالوا امنابہ وانی لہم التناوش من مکان بعید، تناوش کے معنی ہاتھ بڑھا کر کسی چیز کو اٹھا لینے کے ہیں، اور یہ ظاہر ہے کہ ہاتھ بڑھا کر وہی چیز اٹھائی جاسکتی ہے جو بہت دور نہ ہو ہاتھ وہاں تک پہنچ سکے۔ مضمون آیت کا یہ ہے کہ کفار و منکرین قیامت کے روز حقیقت سامنے آجانے کے بعد کہیں گے ہم قرآن پر یا ... رسول اللہ پر ایمان لے آئے، مگر ان کو معلوم نہیں کہ ایمان کا مقام ان سے بہت دور ہوچکا ہے کیونکہ ایمان صرف دنیا کی زندگی کا مقبول ہے، آخرت دارالعمل نہیں وہاں کا کوئی عمل حساب میں نہیں آسکتا۔ اس لئے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ دولت ایمان کو ہاتھ بڑھا کر اٹھا لیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِہٖ۝ ٠ ۚ وَاَنّٰى لَہُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّكَانٍؚبَعِيْدٍ۝ ٥٢ۚۖ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122... ] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أنى أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين «4» ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران/ 37] ، أي : من أين، وكيف . ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ { أَنَّى لَكِ هَذَا } ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔ نوش النَّوْش : التّناول . قال الشاعر : تَنُوش البریر حيث طاب اهتصارها البریر : ثمر الطّلح، والاهتصار : الإمالة، يقال : هصرت الغصن : إذا أملته، وتناوش القوم کذا : تناولوه . قال تعالی: وَأَنَّى لَهُمُ التَّناوُشُ [ سبأ/ 52] أي : كيف يتناولون الإيمان من مکان بعید، ولم يکونوا يتناولونه عن قریب في حين الاختیار والانتفاع بالإيمان . إشارة إلى قوله : يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ لا يَنْفَعُ نَفْساً إِيمانُها الآية [ الأنعام/ 158] . ومن همز فإما أنه أبدل من الواو همزة . نحو : أقّتت في وقّتت، وأدؤر في أدور، وإمّا أن يكون من النّأش، وهو الطّلب . ( ن و ش ) النوش ۔ کے معنی کسی چیز پکڑتا کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 439 ) تنوش البر یر حیث طاب طاب اھتصارھا ۔ وہ وہاں سے پیلو کھاتی ہے جہاں سے خوب جھکی ہوئی ہوں ۔ بریر کے معنی پیلو کے ہیں اور اھتصار کے معنی مائل کرنے اور جھکانے کے چناچہ محاورہ ہے : ۔ ھصرت الغصن ۔ میں نے ٹہنی کو جھکا یا ۔ تناوش القوم کسی چیز کو پکڑنا ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ وَأَنَّى لَهُمُ التَّناوُشُ [ سبأ/ 52] تو اب ۔۔۔۔۔ ان کا ہاتھ ایمان کے لینے کو کیونکہ پہنچ سکتا ہے ؟ یعنی وہ دور جگہ سے ایمان کو کیسے حاصل کرسکتے ہیں جب کہ انہوں نے قریب جگہ سے اسی حاصل نہیں کیا جس وقت کہ ایمان لانا اور اس سے اتفاع حاصل کر نا ان کے اختیار میں تھا تو یہ آیت کر یمہ : ۔ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ لا يَنْفَعُ نَفْساً إِيمانُها الآية [ الأنعام/ 158] مگر جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیان آجائیں گی تو ۔ اس وقت اسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہ دیگا ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے پھر ایک قراءت میں التناوش ہمزہ کے ساتھ ہے تو اس صورت میں یا تو یہ ناش سے مشتق ہوگا جس کے معنی طلب کے ہیں اور یا اس کا ہمزہ واؤ سے مبدل ہوگا جیسے اقتت واؤ ر میں ہے جو کہ اصل میں وقتت وادور ہے بعد البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء/ 167] ( ب ع د ) البعد کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

پھر یہ زمین میں دھنسنے کے وقت کہیں گے کہ ہم رسول اکرم اور قرآن حکیم پر ایمان لے آئے تب اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا اب مرنے کے بعد توبہ اور کفر سے رجوع کہاں وقت رہا حالانکہ یہ لوگ دھنسنے سے پہلے تو رسول اکرم اور قرآن کریم کے منکر تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢ { وَّقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِہٖ وَاَنّٰی لَہُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّکَانٍ بَعِیْدٍ } ” اور (اُس وقت) وہ کہیں گے کہ اب ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں۔ اور (اُس وقت) کہاں ہوگی ان کی رسائی (ایمان تک) اتنی دور کی جگہ سے ! “ ” تناوش “ اور ” تناول “ ہم معنی الفاظ ہیں۔ یعنی پالینا ‘ کسی چیز کا پہنچ میں ہ... ونا اور اس تک رسائی ہونا۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ایمان لانے کا فائدہ تو دنیا کی زندگی میں ہے جو انسانوں کے لیے امتحانی عرصہ ہے۔ جب امتحان کی مہلت ختم ہوجائے گی تو ایمان لانے کا موقع بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔ چناچہ اس روز کسی کا ایمان لانا اسے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

73 "We believe in it": "We believe in the message presented by the Messenger in the world. " 74 That is, "They should have believed when they lived in the world; they have come a long way away from it. After having arrived in the Next World how can they get a chance to repent and believe ?"

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :73 مراد یہ ہے کہ اس تعلیم پر ایمان لے آئے جو رسول نے دنیا میں پیش کی تھے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :74 یعنی ایمان لانے کی جگہ تو دنیا تھی اور وہاں سے اب یہ بہت دور نکل آئے ہیں ۔ عالم آخرت میں پہنچ جانے کے بعد اب توبہ و ایمان کا موقع کہاں مل سکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

23: یعنی ایمان لانے کی اصل جگہ دنیا تھی جو اب دور جا چکی، اب یہاں اتنی دور پہنچنے کے بعد وہ ایمان تمہارے ہاتھ نہیں آسکتا جو دنیا ہی میں مطلوب تھا، کیونکہ دیکھنا تو یہی تھا کہ دنیا کی رنگینیوں میں گم ہو کر تم اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے ہو، یا بول جاتے ہو؟ اب جبکہ آخرت کا سارا منظر آنکھوں کے سامنے آگیا ... تو اب ایمان لانا کون سے کمال کی بات ہے جس کی بنا پر تمہیں معاف کیا جائے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:52) امنا بہ۔ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے (ای باللہ عزوجل۔ روح ) یا حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف راجع ہے (ای بمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ کشاف) انی ۔ کیونکر۔ کیسے۔ اسم ظرف، زمان ومکان (دونوں کے لئے) یہاں استفہامیہ ہے اور کیف کے معنی میں آیا ہے۔ مک... ان بعید موصوف وصفت۔ دور جگہ ۔ میدان حشر۔ یعنی دنیا سے نکل کر اب یہ لوگ دور اس میدان حشر میں آپہنچے ہیں اب اتنی دور آکر وہ ایمان کیسے حاصل کرسکتے ہیں جب کہ بہت دور پیچھے دنیا میں وہ موقع کو ہاتھ سے گنوا چکے ہیں ان لہم تناول الایمان فی الاخرۃ وقد کفروا بہ فی الدنیا۔ یعنی آج قیامت کے دن وہ ایمان کس طرح پاسکتے ہیں جبکہ وہ دنیا میں اس کا انکار کرتے رہے۔ التناوش بروزن تفاعل مصدر ہے ۔ لینا۔ ن و ش مادہ کے حروف ہیں النوش کے معنی کسی چیز کے پکڑنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے :۔ تنوش البریز حیث طاب اھتصارھا وہ وہاں سے پیلوکھاتی ہے جہاں سے خوب جھکی ہوئی ہوں۔ بریز پیلو کے بیر اھتصار کے معنی مائل کرنے اور جھکانے کے ہیں۔ انی لہم التناوش کے معنی ہوئے۔ (اب) ان کا ہاتھ ایمان کو لینے کے لئے کیونکر پہنچ سکتا ہے۔ یعنی وہ دور جگہ سے ایمان کو کیسے حاصل کرسکتے ہیں جب کہ انہوں نے قریب جگہ سے حاصل نہ کیا۔ جس وقت کہ ایمان لانا اور اس سے انتفاع کرنا ان کے اختیار میں تھا (یعنی دنیا میں) ۔ وقد کفروا بہ وائو حالیہ ہے اور قد بمعنی تحقیق ہے اور بہ میں ضمیر واحد مذکر کا مرجع وہی ہے جو اوپر امنا بہ میں مذکور ہوا ہے (آیۃ ہذا) ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی اب ایمان ان کے ہاتھ کیسے آسکتا ہے ؟ دنیا میں ایمان لاتے تو اس کا فائدہ بھی ہوتا۔ اب جو دنیا دور ہوگئی اور اس کی طرف پلٹنا بھی ممکن نہیں رہا تو انہیں ایمان کا موقع کہاں سے مل سکتا ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ ایمان اور تو بہ کا وقت تو سکرات موت سے پہلے پہلے ہے۔ مرنے کے بعد عذاب کا مشاہدہ کر کے تو ہر ا... یک کو یقین آجائے گا مگر اس وقت کی توبہ قبول نہیں ہو سکے گی۔ ( ابن کثیر وغیرہ)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ یعنی ایمان لانے کی جگہ بوجہ دار العمل ہونے کے دنیا تھی جو بڑی دور ہوگئی، اب آخرت میں کہ دار الجزاء ہے ایمان مقبول نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفر و شرک پر قائم رہنے والوں کا انجام۔ کفار اور مشرکین جہنم کو دہکتے اور ہانپتے ہوئے دیکھیں گے تو ان کے پسینے چھوٹ جائیں گے اور ان کے کلیجے منہ کو آجائیں گے وہ اپنے طور پر بھاگنے کی کوشش کریں گے۔ ابھی وہ بھاگنے کا سوچ ہی رہے ہوں گے کہ ملائکہ ان کی گردنیں دبوچتے ہوئے ان کے گلے ... میں جہنم کے طوق ڈال دیں گے اور ان کے پاؤں میں بیڑیاں پہنا دیں گے۔ ان کو کوڑوں سے ہانکتے ہوئے جہنم کی طرف دھکیل دیں گے۔ اس صورت حال میں جہنمی حسرت بھرے الفاظ اور انداز میں فریاد کریں گے کہ اب ہم ایمان لاتے ہیں کیونکہ ہم نے وہ سب کچھ دیکھ اور پالیا ہے جس کی ہم تکذیب کیا کرتے تھے۔ لیکن اس وقت ایمان لانے کا مقام اور موقعہ کہاں ہوگا۔ ایمان ان سے بہت دور ہوگا۔ یعنی انہیں ایمان لانے اور اس کے مطابق عمل کرنے کے لیے دنیا کی زندگی میں پورا پورا موقعہ دیا گیا تھا لیکن انہوں نے اپنے اندھے پن کی وجہ سے اس موقعہ کو کھو دیا۔ اب دار العمل کی بجائے دار الامتحان ہوگا اور اس کا انجام پانے کا وقت اور مقام ہوگا اس وقت ان کی امیدوں اور ان کے درمیان پردہ حائل کردیا جائے گا۔ جس طرح ان سے پہلے جہنمیوں کے درمیان حائل کردیا گیا۔ کیونکہ یہ لوگ اللہ، اس کے رسول اور آخرت کے بارے میں بےیقینی کا شکار تھے جو لوگ دنیا میں بےچینی کا شکار تھے اور آخرت میں ان کے اضطراب کی کوئی حد نہ ہوگی۔ کچھ مفسرین نے ان آیات کو دنیا کے عذاب پر منطبق کیا ہے کہ جب ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آتا ہے تو وہ اس وقت بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں پاتے وہ ایمان لانے کا اظہار کرتے ہیں لیکن ان کا ایمان قبول نہیں کیا جاتا۔ جس شک میں مبتلا ہوتے اسی حالت میں موت کے گھاٹ اتار دیئے جاتے ہیں اور اسی انجام کو پہنچ جاتے ہیں جس انجام سے ان کے پیش رو دوچار ہوئے تھے۔ مسائل ١۔ مجرم جہنم کا عذاب دیکھ کر گھبرا کر بھاگنے کی کوشش کررہے ہوں گے تو انہیں جکڑ لیا جائے گا۔ ٢۔ مجرم ایمان لانے کی خواہش کا اظہار کریں گے لیکن انہیں موقعہ نہیں دیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن مجرموں کی خواہش اور آرزوئیں : ١۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ : ١٢) ٢۔ جہنمی جہنم سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو دوبارہ لوٹادیے جائیں گے۔ (السجدۃ : ٢٠) ٣۔ جب بھی ارادہ کریں گے کہ ہم جہنم سے نکلیں تو اس میں واپس لوٹائے جائیں گے۔ (الحج : ٢٢) ٤۔ اے رب ہمارے ! ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧) ٥۔ اے رب ہمارے ! ہم کو یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المؤمنون : ١٠٧)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

54:۔ وقالو امنا الخ : التناوش : پکڑنا۔ اور مکان بعید سے مراد دنیا ہے جو ایمان لانے کی جگہ تھی جو آخرت سے اب دور نکل چکی ہے۔ آخرت کا عذاب دیکھ کر مشرکین و کفار کہیں گے ہم اللہ کی توحید اور اس کے پیغمبروں کی رسالت پر ایمان لے آئے۔ لیکن جو ایمان قابل اعتبار ہے وہ تو دنیا کا ایمان ہے اور دنیا اب بہت دور...  نکل چکی ہے اور اتنی دور سے اب وہ کسی طرح بھی ایمان حاصل نہیں کرسکتے۔ انی لھم تناول الایمان فی الخرۃ وقد کفروا بہ فی الدنیا (قرطبی ج 14 ص 316) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(52) اور یوں کہتے ہوں گے کہ ہم دین حق پر ایمان لائے اور بھلا اب اتنی دور جگہ سے ان کا ہاتھ ایمان کو کہاں پہنچ سکتا ہے۔ یعنی اے پیغمبر قیامت میں جو ان پر گزرے گی اگر وہ حالت ان کی دیکھ لیں تو آپ کو سخت حیرت ہو کہ یہ میدان حشر کی ہولناکیوں سے گھبرا رہے ہوں گے اور کہیں بھاگ نکلنے کو جگہ نہ ہوگی اور قری... ب کے قریب ہی گرفتار کر لئے جائیں گے اور یہ منکر یوں کہیں گے کہ ہم دین حق پر ایمان لے آئے حالانکہ یہ بات دنیا میں ہوسکتی تھی۔ اب دارالجزا میں اس کا موقع کہاں، وہ ایمان لانے کی بات دور گئی اور بھلا درالعمل کی بات کا اقرار دارالجزا میں جا کر کرنا تو بھلا اتنی دور کے فاصلے سے ہاتھ ایمان تک کہاں پہنچ سکتا ہے۔ اب ایمان لانے کی بات بہت دور گئی۔ بعض نے کہا مرتے وقت بعض نے کہا قبروں سے اٹھتے وقت۔ بہرحال کئی قول ہیں ہم نے ایک قول اختیار کرلیا ہے آگے ان منکروں کی پہلی حالت بیان فرمائی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ایمان لانے کا وقت نہ رہا۔  Show more