Surat Saba

Surah: 34

Verse: 53

سورة سبأ

وَّ قَدۡ کَفَرُوۡا بِہٖ مِنۡ قَبۡلُ ۚ وَ یَقۡذِفُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ مِنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ ﴿۵۳﴾

And they had already disbelieved in it before and would assault the unseen from a place far away.

اس سے پہلے تو انہوں نے اس سے کفر کیا تھا ، اور دور دراز سے بن دیکھے ہی پھینکتے رہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَدْ كَفَرُوا بِهِ مِن قَبْلُ ... Indeed they did disbelieve before, means, how can they attain faith in the Hereafter when in this world they disbelieved in the truth and denied the Messengers? ... وَيَقْذِفُونَ بِالْغَيْبِ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ and they (used to) conjecture about the Unseen from a far place. Malik narrated from Zayd bin Aslam that he said: وَيَقْذِفُونَ بِالْغَيْبِ (and they (used to) conjecture about the Unseen), means, "By guessing." as Allah says, رَجْماً بِالْغَيْبِ guessing at the Unseen. (18:22) Sometimes they said he was a poet, sometimes they said he was a soothsayer, or a sorcerer, or a mad man, or other baseless comments. They denied the idea of resurrection and said: إِن نَّظُنُّ إِلاَّ ظَنّاً وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ we do not think it but as a conjecture, and we have no firm convincing belief. (45:32) Qatadah and Mujahid said, "Their belief that there would be no resurrection, no Paradise and no Hell was based on mere conjecture."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

53۔ 1 یعنی اپنے گمان سے کہتے رہے کہ قیامت اور حساب کتاب نہیں۔ یا قرآن کے بارے میں کہتے رہے کہ یہ جادو، گھڑا ہوا جھوٹ اور پہلوں کی کہانیاں ہیں یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کہتے رہے کہ یہ جادوگر ہے، کاہن ہے، شاعر ہے مجنون ہے۔ جب کہ کسی بات کی بھی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں تھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٧٨] یعنی جب دنیا میں ان سے عالم آخرت کی بات کی جاتی تھی تو اس پر غور کرنے کے بجائے اسے دیوانگی پر محمول کرتے تھے۔ کبھی داعی حق کو مفتری علی اللہ کے لقب سے نوازتے تھے۔ کبھی کہتے تھے کہ اسے کوئی عجمی سکھلا جاتا ہے۔ کبھی اسے ساحر، کاہن اور شاعر کے طعنے دیتے تھے۔ ان دل کے اندھوں کو بصالت کے اندھیروں میں بہت دور کی سوجھتی تھی۔ لیکن نیک نیتی کے ساتھ غور و فکر کرنے کا نام تک نہ لیتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَّقَدْ كَفَرُوْا بِهٖ مِنْ قَبْلُ : یعنی اس سے پہلے جب ایمان لانے کا وقت تھا تو اس کے ساتھ کفر کرتے رہے۔ وَيَقْذِفُوْنَ بالْغَيْبِ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ : غیب سے مراد بِن دیکھے ہے۔ دور سے پتھر یا تیر پھینکا جائے، پھر ایسے نشانے پر پھینکا جائے جسے دیکھا ہی نہ ہو تو وہ پتھر یا تیر نشانے پر کیسے پہنچ سکتا ہے۔ یعنی یہ لوگ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کے رسول اور آخرت کے انکار پر اڑے رہے اور ان کے متعلق کچھ بھی جانے بغیر طرح طرح کی باتیں کرتے رہے، کبھی رسول کا مذاق اڑاتے، اسے مجنون، ساحر، کذّاب کہتے، کبھی اہل ایمان پر پھبتیاں کستے، کبھی موت کے بعد زندگی کو ناممکن قرار دیتے رہے۔ الغرض ! جو منہ میں آیا بےباکی اور بےخوفی سے بکتے رہتے اور انھیں اقرار بھی تھا کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں گمان کی بنا پر کہہ رہے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (اِنْ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا وَّمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِيْنَ ) [ الجاثیۃ : ٣٢ ] ” ہم تو محض معمولی سا گمان کرتے ہیں اور ہم ہرگز پورا یقین کرنے والے نہیں۔ “ حقیقت بھی یہی ہے کہ شرک، دہریت اور انکار آخرت کے عقائد کوئی شخص بھی یقین کی بنا پر اختیار نہیں کرتا اور نہ کرسکتا ہے۔ کفر کی پوری عمارت محض قیاس و گمان کی بنیاد پر ہے، علم و یقین پر نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The word: قَذف (qadhf) in verse 53: وَقَدْ كَفَرُ‌وا بِهِ مِن قَبْلُ وَيَقْذِفُونَ بِالْغَيْبِ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ (while they had rejected it before, and used to make conjectures from a place (so) far off) means to hit something by throwing. In the Arab idiom, anyone talking out of his hat having no proof for it is referred to by the expressions: رجم بالغیب (rajm bil-ghayb) and: قذف بالغیب (qadhfbil-ghayb), that is, this person shoots arrows in the dark which has no aim or target. At this place, the expression: مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ (from a place far away) means &what they say is far from their hearts, that is, they do not believe in it by heart.&

(آیت) وقد کفروا بہ من قبل ویقذنون بالغیب من مکان بعید، قذف کے معنی کوئی چیز پھینک کر مارنے کے آتے ہیں۔ عرب کا محاورہ ہے کہ جو شخص بلا دلیل محض اپنے خیال سے باتیں کرتا ہے اس کو رجم بالغیب اور قذف بالغیب کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں، کہ یہ اندھیرے میں تیر چلاتے ہیں جس کا کوئی نشانہ نہیں ہوتا، اور یہاں من مکان بعید کے الفاظ سے مراد یہ ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں ان کے دلوں سے دور ہوتا ہے دل میں اس کا عقیدہ نہیں رکھتے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّقَدْ كَفَرُوْا بِہٖ مِنْ قَبْلُ۝ ٠ ۚ وَيَقْذِفُوْنَ بِالْغَيْبِ مِنْ مَّكَانٍؚبَعِيْدٍ۝ ٥٣ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ قذف الْقَذْفُ : الرّمي البعید، ولاعتبار البعد فيه قيل : منزل قَذَفٌ وقَذِيفٌ ، وبلدة قَذُوفٌ: بعیدة، وقوله : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه/ 39] ، أي : اطرحيه فيه، وقال : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب/ 26] ، بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء/ 18] ، يَقْذِفُ بِالْحَقِو عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ/ 48] ، وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات/ 8- 9] ، واستعیر القَذْفُ للشّتم والعیب کما استعیر الرّمي . ( ق ذ ف ) القذف ( ض ) کے معنی دور پھیکنا کے ہیں پھر معنی بعد کے اعتبار سے دور دراز منزل کو منزل قذف وقذیف کہاجاتا ہے اسی طرح دور در ازشہر کو بلدۃ قذیفۃ بول لیتے ہیں ۔۔۔ اور آیت کریمہ : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه/ 39] پھر اس ( صندوق ) کو دریا میں ڈال دو ۔ کے معنی دریا میں پھینک دینے کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب/ 26] اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی ۔ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء/ 18] بلک ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں ۔ يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ/ 48] وہ اپنے اوپر حق اتارتا ہے اور وہ غیب کی باتوں کا جاننے والا ہے ۔ وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات/ 8- 9] اور ہر طرف سے ( ان پر انگارے ) پھینکے جاتے ہیں ( یعنی ) وہاں سے نکال دینے کو ۔ اور رمی کی طرح قذف کا لفظ بھی بطور استعارہ گالی دینے اور عیب لگانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

حالانکہ دنیا میں بےتحقیق باتیں ہانک رہے تھے کہ جنت و دوزخ کچھ نہیں اور اب مرنے کے بعد پھر بلا تحقیق دنیا کی طرف واپسی کی درخواست کر رہے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٣ { وَّقَدْ کَفَرُوْا بِہٖ مِنْ قَبْلُ وَیَقْذِفُوْنَ بِالْغَیْبِ مِنْ مَّکَانٍ بَعِیْدٍ } ” اور پہلے تو انہوں نے اس کا کفر کیا تھا ‘ اور وہ (اٹکل کے) تیر ُ تکے ّچلاتے رہے بن دیکھے دور کی جگہ سے۔ “ اپنی دنیا کی زندگی میں تو وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کبھی کہتے کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں ‘ کبھی کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہیں اور یہ ان کا اپنا کلام ہے ‘ کبھی کہتے کہ انہوں نے گھر میں کوئی آدمی چھپا رکھا ہے جو انہیں یہ سب کچھ سکھاتا ہے۔ کبھی کہتے کہ ان پر ِجن آگیا ہے۔ بہر حال جب ان کے سوچنے اور ایمان لانے کا موقع تھا اس وقت تو وہ قرآن اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرتے رہے اور ان کے بارے میں بغیر کسی علمی اور عقلی دلیل کے یا وہ گوئی کرتے رہے۔ اب جبکہ حساب کی گھڑی آن پہنچی ہے تو اب ان کے ایمان لانے کا کیا فائدہ ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

75 That is, "They used to charge the Messenger and the believers with false accusations and used to taunt and mock his message. Some times they said he was a sorcerer or a madman; sometimes they ridiculed Tauhid and the concept of the Hereafter; sometimes they invented the story that another one taught him everything; and sometimes they said that the believers had started following him only on account of folly and ignorance "

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :75 یعنی رسُول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور تعلیمات رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اہل ایمان پر طرح طرح کے الزامات لگاتے ، آوازے کستے اور فقرے چست کرتے تھے ۔ کبھی کہتے یہ شخص ساحر ہے ۔ کبھی کہتے مجنون ہے ۔ کبھی توحید کا مذاق اڑاتے اور کبھی آخرت کے تخیل پر باتیں چھانٹتے ۔ کبھی یہ افسانہ تراشتے کہ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کوئی اور سکھاتا پڑھاتا ہے اور کبھی ایمان لانے والوں کے متعلق کہتے کہ یہ محض اپنی نادانی کی وجہ سے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پیچھے لگ گئے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:53) یقذفون بالغیب۔ یقذفون کے لئے ملاحظہ ہو آیۃ (34:48) ۔ جب کوئی شخص لا یعنی باتیں کرتا ہے اور ہر زہ سرائی کرتا ہے تو عرب کہتے ہیں ھو یقذف بالغیب وہ اندھیرے میں تیر چلانا ہے۔ اس جملہ کا عطف وقد کفروا پر ہے۔ اور جملہ حالیہ ہے۔ من مکان بعید دور جگہ سے یعنی بغیر کسی عقلی دلیل کے اپنے کفریہ عقائد پر اڑے رہے کبھی توحید کا انکار کیا اور کبھی قرآن کو من گھڑت افسانہ قرار دیا۔ ملائکہ کو خدا کا شریک گردانا۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخیاں کیں۔ کبھی ان کو ساحر کبھی شاعر اور کبھی مجنون کہا۔ اور کبھی بھی نزدیک سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیغام پر غوروخوض نہ کیا۔ حقیقت کو جاننے سے دور ہی رہے۔ تو ایسی صورت میں جب کہ آدمی بھی دور ہو اور اندھیرے میں تیر چلائے تو تیر کب صحیح نشانہ پر لگتا ہے۔ ما یشتھون۔ ما موصولہ ہے۔ یشتھون مضارع معروف صیغہ جمع مذکر غائب اشتھاء (افتعال) مصدر۔ جو وہ چاہیں گے۔ یعنی ان کے درمیان اور جو وہ چاہیں گے ایک آڑ کھڑی کردی جائے گی۔ وہ کیا چاہیں گے اس سے رجوع الی الدنیا، قبول ایمان و توبہ، نجات من العذاب وغیرہ مراد ہوسکتے ہیں۔ اشیاعہم مضاف مضاف الیہ۔ اشیاع جمع الجمع ہے شیع کی اور شیع جمع ہے شیعۃ کی یعنی ان کے عقیدہ کے دوسرے کفار یعنی ان کے ساتھ بھی کیا گیا تھا۔ شک مریب۔ موصوف، صفت۔ ایسا شک جو (1) متشککین کو پیہم تذبذب اور تردد میں رکھے۔ اور ان کو کبھی سکون و اطمینان نصیب نہ ہو۔ (2) ایسا شدید نوعیت کا شک کہ ان کے باعث دوسرے لوگ بھی شک میں مبتلا ہوتے چلے گئے ۔ مریب ارابۃ سے (باب افعال) مصدر۔ اسم فاعل واحد مذکر کا صیغہ ہے یہاں شک کی صفت میں آیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی محض اپنے گمان سے قرآن اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق جو دل میں آیا کہتے رہے۔ کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر اور جھوٹا کہتے، کبھی جادوگر ہونے کی تہمت لگاتے اور کبھی بائولا کہتے، کبھی قرآن کا مذاق اڑاتے اور عقیدہ ٔ توحید پر طعن کرتے اور موت کے بعد دوبارہ زندگی کی تکذیب کرتے۔ الغرض جو دل میں آتا پوری بےباکی اور بےخوفی سے بکتے رہتے۔ ( ابن کثیر وغیرہ)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ دور کا مطلب یہ کہ اس کی تحقیق سے دور تھے، یعنی دنیا میں تو کفر کرتے رہے، اب ایمان سوجھا ہے اور اس کے مقبول ہونے کی آرزو ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

55:۔ و قد کفروا بہ الخ : ای یقال یعنی کہا جائے گا۔ آخرت سے پہلے وہ دنیا میں کفر کرچکے ہیں جو ایمان لانے کی جگہ تھی اس لیے اب ایمان لانا بےفائدہ ہے۔ ویقذفون الخ : جب دنیا میں تھے تو حق سے بہت دور تھے اور اٹکل کے تیر چلاتے تھے یعنی آخرت جوان دیکھی چیز تھی کے بارے میں دنیا میں جو آخرت سے بہت دور تھی اٹکل سے باتیں کرتے تھے۔ اور حشر و نشر اور آخرت کا انکار کرتے تھے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(53) حالانکہ یہ اس سے پیشتر اس دین حق کا انکار کیا کرتے تھے اور دوردراز جگہ سے بن دیکھے نشانے پر تیر پھینکا کرتے تھے۔ یعنی اب دنیا میں واپس جانے اور ایمان لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ اس سے پیشتر تو انکار کیا کرتے تھے اور بن دیکھے نشانے پر دور سے تیر پھینکا کرتے تھے یعنی بن دیکھی باتوں کو جھوٹ کہتے تھے۔ میدان حشر کا انکار، حساب کتاب کا انکار، جنت دوزخ کی تکذیب یا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساحر، شاعر، کاہن وغیرہ کہتے تھے۔ یہی اٹکل کے تیر چلانا ہے۔