Surat Saba

Surah: 34

Verse: 7

سورة سبأ

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ہَلۡ نَدُلُّکُمۡ عَلٰی رَجُلٍ یُّنَبِّئُکُمۡ اِذَا مُزِّقۡتُمۡ کُلَّ مُمَزَّقٍ ۙ اِنَّکُمۡ لَفِیۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ ۚ﴿۷﴾

But those who disbelieve say, "Shall we direct you to a man who will inform you [that] when you have disintegrated in complete disintegration, you will [then] be [recreated] in a new creation?

اور کافروں نے کہا ( آؤ ) ہم تمہیں ایک ایسا شخص بتلائیں جو تمہیں یہ خبر پہنچا رہا ہے کہ جب تم بالکل ہی ریزہ ریزہ ہو جاؤ گے تو تم پھر سے ایک نئی پیدائش میں آؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Disbelievers' Denial of Life after Death, and the Refutation of Their View Here Allah tells us how the disbelievers and heretics denied that the Hour will come, and mocked the Messenger for speaking of it. وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلَى رَجُلٍ يُنَبِّيُكُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ ... Those who disbelieve say: "Shall we direct you to a man who ... will tell you (that) when you have become fully disintegrated into dust with full dispersion..." means, when your bodies have disintegrated into the earth and dispersed without a trace, ... إِنَّكُمْ ... then you (means, after this has happened), ... لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ will be created (again) anew. means, you will be restored to life and will receive provision anew. `By telling us this, he is doing one of two things: - either he is deliberately fabricating something and saying that Allah has revealed it to him, or - he is not doing it deliberately, but he is deluded as crazy and insane people are.' They said:   Show more

کافروں کی جہالت ۔ کافر اور ملحد جو قیامت کے آنے کو محال جانتے تھے اور اس پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے تھے ان کے کفریہ کلمات کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ آپس میں کہتے تھے لو اور سنو ہم میں ایک صاحب ہیں جو فرماتے ہیں کہ جب مر کر مٹی میں مل جائیں گے اور چورا چورا اور ریزہ ریزہ ہو جائیں...  گے اس کے بعد بھی ہم زندہ کئے جائیں گے ، اس شخص کی نسبت دو ہی خیال ہوسکتے ہیں یا تو یہ کہ ہوش و حواس کی درستی میں وہ عمداً اللہ کے ذمے ایک جھوٹ بول رہا ہے اور جو اس نے نہیں فرمایا وہ اس کی طرف نسبت کرکے یہ کہہ رہا ہے اور اگر یہ نہیں تو اس کا دماغ خراب ہے ، مجنوں ہے ، بےسوچے سمجھے جو جی میں آئے کہہ دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں جواب دیتا ہے کہ یہ دونوں باتیں نہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں ، نیک ہیں ، راہ یافتہ ہیں ، دانا ہیں ، باطنی اور ظاہری بصیرت والے ہیں ۔ لیکن اسے کیا کہا جائے کہ منکر لوگ جہالت اور نادانی سے کام لے رہے ہیں اور غور و فکر سے بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے ۔ جس کی وجہ سے حق بات اور سیدھی راہ ان سے چھوٹ جاتی ہے اور وہ بہت دور نکل جاتے ہیں ، کیا اس کی قدرت میں تم کوئی کمی دیکھ رہے ہو ۔ جس نے محیط آسمان اور بسیط زمین پیدا کردی ۔ جہاں جاؤ نہ آسمان کا سایہ ختم ہو نہ زمین کا فرش ۔ جیسے فرمان ہے ( وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ 47؀ ) 51- الذاريات:47 ) ہم نے آسمان کو اپنے ہاتھوں بنایا اور ہم کشادگی والے ہیں ۔ زمین کو ہم نے ہی بچھایا اور ہم بہت اچھے بچھانے والے ہیں ۔ یہاں بھی فرمایا کہ آگے دیکھو پیچھے دیکھو ، اسی طرح دائیں نظر ڈالو ، بائیں طرف التفات کرو تو وسیع آسمان اور بسیط زمین ہی نظر آئے گی ۔ اتنی بڑی مخلوق کا خالق ، اتنی زبردست قدرتوں پر قادر کیا تم جیسی چھوٹی سی مخلوق کو فنا کرکے پھر پیدا کرنے پر قدرت کھو بیٹھے؟ وہ تو قادر ہے کہ اگر چاہے تمہیں زمین میں دھنسا دے ۔ یا آسمان تم پر توڑ دے یقینا تمہارے ظلم اور گناہ اسی قابل ہیں لیکن اللہ کا حکم اور عفو ہے کہ وہ تمہیں مہلت دیئے ہوئے ہے ۔ جس میں عقل ہو جس میں دور بینی کا مادہ ہو جس میں غور و فکر کی عادت ہو ، جس کی اللہ کی طرف جھکنے والی طبیعت ہو ، جس کے سینے میں دل دل میں حکمت اور حکمت میں نور ہو وہ تو ان زبردست نشانات کو دیکھنے کے بعد اس قادر و خالق اللہ کی اس قدرت میں شک کر ہی نہیں سکتا کہ مرنے کے بعد پھر جینا ہے ۔ آسمانوں جیسے شامیانے اور زمینوں جیسے فرش جس نے پیدا کردیے اس پر انسان کی پیدائش کیا مشکل ہے؟ جس نے ہڈیوں ، گوشت ، کھال کو ابتداً پیدا کیا ۔ اسے ان کے سڑ گل جانے اور ریزہ ریزہ ہو کر جھڑ جانے کے بعد اکٹھا کرکے اٹھا بٹھانا کیا بھاری ہے؟ اسی کو اور آیت میں فرمایا ( اَوَلَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ 81؀ ) 36-يس:81 ) یعنی جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کردیا کیا وہ ان کے مثل پیدا کرنے پر قادر نہیں؟ بیشک قادر ہے ۔ اور آیت میں ہے ( لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 57؀ ) 40-غافر:57 ) یعنی انسانوں کی پیدائش سے بہت زیادہ مشکل تو آسمان و زمین کی پیدائش ہے ۔ لیکن اکثر لوگ بےعلمی برتتے ہیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یہ اہل ایمان کے مقابلے میں منکرین آخرت کا قول ہے جو آپس میں انہوں نے ایک دوسرے سے کہا۔ 7۔ 2 اس سے مراد حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جو ان کی طرف اللہ کے نبی بن کر آئے تھے 7۔ 3 یعنی عجیب و غریب خبر، ناقابل فہم خبر۔ 7۔ 4 یعنی مرنے کے بعد جب تم مٹی میں مل کر ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے تمہا... را ظاہری وجود ناپید ہوجائے گا تمہیں قبروں سے دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور دوبارہ وہی شکل وصورت تمہیں عطاکردی جائے گی جس میں تم پہلے تھے یہ گفتگو انہوں نے آپس میں استہزا اور مذاق کے طور پر کی   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٩] یعنی اہل علم و دانش لوگ اللہ کی آیات، عقیدہ آخرت، انسانوں کی دوبارہ زندگی۔ اللہ کے حضور جواب دہی کا تصور اور اچھے اور برے اعمال کا بدلہ ملنے پر اس طرح یقین رکھتے ہیں جیسے وہ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ کفار اللہ کی آیات کا مذاق اڑانے سے ضدی، ہٹ دھرم اور جاہل قسم کے لوگوں کو گمراہی م... یں مبتلا کرسکتے ہیں مگر اہل علم ان کے فریب میں نہیں آسکتے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا هَلْ نَدُلُّكُمْ ۔۔ : اہل علم کے بعد کفار کا قول ذکر فرمایا کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسی شخصیت کا ذکر، جن کی شہرت محتاج بیان نہیں، حقارت کے انداز سے ” ایک آدمی “ کہہ کر کیا، یعنی لوگوں سے کہا، کیا ہم تمہیں ” ایک آدمی “ بتائیں جو تمہیں یہ بتاتا ہے ... کہ جب تم ریزہ ریزہ کر کے منتشر کردیے جاؤ گے تو پھر ایک نئی پیدائش کے ساتھ زندہ کردیے جاؤ گے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Reported in verse 7: وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلَىٰ رَ‌جُلٍ يُنَبِّئُكُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّكُمْ لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ (Shall we point out to you a man...). There is a statement of disbelievers who denied the coming of Qiyamah. In an exercise of mockery, they used to say, &come, let us identify an unusual person for your benefit, a person who loves to t... ell you how, when you die and become dust, totally powdered into countless particles, even after all that, you will be brought into a new creation - and that you, all reshaped into the form you once were, will be made to stand up alive!& It is obvious that the person alluded to here is no other but the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) who used to tell people that Qiyamah will come when the dead will become alive once again, and exhorted people to put their faith in it. All these people who were deriding him knew him perfectly well, but in the present context, they have mentioned him in a manner as if they knew nothing else about him - nothing else but that he tells people about the dead rising alive on the day of Qiyamah. They had purposely elected to refer to him in that manner just to mock and deride him. The word: مُزِّقْتُمْ (when you are totally torn into pieces) is a derivation from: مزقِ (mazq) which means splitting apart and rendering to pieces, and: كُلَّ مُمَزَّقٍ (kulla mumazzaq: (totally torn) means the disintegration of the human body in a manner that all its particles get dispersed separately. Onwards from here, they take up another mode to comment on his statement relating to the Qiyamah.  Show more

(آیت) وقال الذین کفروا ھل ندلکم علیٰ رجل ینبکم اذا مزقتم کل ممزق انکم لفی خلق جدید، یہ کفار منکرین قیامت کا قول نقل کیا گیا ہے، جو بطور تحقیر و استہزاء کے یوں کہا کرتے تھے کہ آؤ ہم تمہیں ایک ایسے عجیب شخص کا پتہ دیں جو یوں کہتا ہے کہ جب تم پوری طرح ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے۔ اس کے بعد پھر تمہیں نئی پیدائش...  دی جائے گی، اور پھر تم اسی شکل و صورت میں تیار ہو کر زندہ کردیئے جاؤ گے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ اس شخص سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جو قیامت اور اس میں سب مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کی خبر دیتے اور لوگوں کو اس پر ایمان لانے کی تاکید کرتے تھے، اور یہ سب لوگ آپ کو پوری طرح جانتے تھے، مگر یہاں اس انداز سے ذکر کیا کہ گویا یہ آپ کے متعلق اور کچھ نہیں جانتے، بجز اس کے کہ آپ قیامت میں مردوں کے زندہ ہونے کی خبر دیتے ہیں۔ یہ طرز کلام استہزاء و تحقیر کے لئے اختیار کیا تھا۔ اور مزقتم مزق سے مشتق ہے، جس کے معنی چیزنے پھاڑنے اور ٹکڑے کرنے ہیں اور کل ممزق سے مراد بدن انسانی کا ریزہ ریزہ ہو کر الگ ہوجانا ہے، آگے آپ کے قول اور ذکر قیامت کے متعلق اپنے خیال کا اظہار اس طرح کرتے ہیں :  Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ہَلْ نَدُلُّكُمْ عَلٰي رَجُلٍ يُّنَبِّئُكُمْ اِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ۝ ٠ ۙ اِنَّكُمْ لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ۝ ٧ۚ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشری... عة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ دلَ الدّلالة : ما يتوصّل به إلى معرفة الشیء، کدلالة الألفاظ علی المعنی، ودلالة الإشارات، والرموز، والکتابة، والعقود في الحساب، وسواء کان ذلک بقصد ممن يجعله دلالة، أو لم يكن بقصد، كمن يرى حركة إنسان فيعلم أنه حيّ ، قال تعالی: ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ [ سبأ/ 14] . أصل الدّلالة مصدر کالکتابة والإمارة، والدّالّ : من حصل منه ذلك، والدلیل في المبالغة کعالم، وعلیم، و قادر، وقدیر، ثم يسمّى الدّالّ والدلیل دلالة، کتسمية الشیء بمصدره . ( د ل ل ) الدلا لۃ ۔ جس کے ذریعہ کسی چی کی معرفت حاصل ہو جیسے الفاظ کا معانی پر دلالت کرن اور اشارات در ہو ز اور کتابت کا اپنے مفہوم پر دلالت کرنا اور حساب میں عقود کا عدد مخصوص پر دلالت کرنا وغیرہ اور پھر دلالت عام ہے کہ جاہل یعنی واضح کی وضع سے ہوا یا بغیر وضع اور قصد کے ہو مثلا ایک شخص کسی انسان میں حرکت دیکھ کر جھٹ جان لیتا ہے کہ وہ زندہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ [ سبأ/ 14] تو کسی چیز سے ان کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر گھن کے کیڑز سے ۔ اصل میں دلالۃ کا لفظ کنایہ وامارۃ کی طرح مصدر ہے اور اسی سے دال صیغہ صفت فاعل ہے یعنی وہ جس سے دلالت حاصل ہو اور دلیل صیغہ مبالغہ ہے جیسے ہے کبھی دال و دلیل بمعنی دلالۃ ( مصدر آجاتے ہیں اور یہ تسمیہ الشئ بمصدر کے قبیل سے ہے ۔ رجل الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا [ الأنعام/ 9] ( ر ج ل ) الرجل کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام/ 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے مزقتم۔ ماضی مجہول جمع مذکر حاضر۔ تمزیق ( تفعیل) مصدر۔ جس کے معنی ہیں کسی چیز کو پھاڑ پھاڑ کر پارہ پارہ اور ریزہ ریزہ کردینا۔ ممزق اس کا وزن اسم مفعول کا ہے لیکن یہ مصدر ہے اور فعل کے بعد تاکید کے لئے آیا ہے کل سے تشدید مزید مراد ہے۔ یعنی جب تم بالکل ریزہ ریزہ کر دئیے جائوں گے۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے جد الجَدُّ : قطع الأرض المستوية، ومنه : جَدَّ في سيره يَجِدُّ جَدّاً ، وکذلک جَدَّ في أمره وأَجَدَّ : صار ذا جِدٍّ ، وتصور من : جَدَدْتُ الأرض : القطع المجرد، فقیل : جددت الثوب إذا قطعته علی وجه الإصلاح، وثوب جدید : أصله المقطوع، ثم جعل لکل ما أحدث إنشاؤه، قال تعالی: بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ [ ق/ 15] ، إشارة إلى النشأة الثانية، وذلک قولهم : أَإِذا مِتْنا وَكُنَّا تُراباً ذلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ [ ق/ 3] ، وقوبل الجدید بالخلق لما کان المقصود بالجدید القریب العهد بالقطع من الثوب، ومنه قيل للیل والنهار : الجَدِيدَان والأَجَدَّان «1» ، قال تعالی: وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ [ فاطر/ 27] ، جمع جُدَّة، أي : طریقة ظاهرة، من قولهم : طریق مَجْدُود، أي : مسلوک مقطوع ومنه : جَادَّة الطریق، والجَدُود والجِدَّاء من الضأن : التي انقطع لبنها . وجُدَّ ثدي أمه علی طریق الشتم وسمي الفیض الإلهي جَدّاً ، قال تعالی: وَأَنَّهُ تَعالی جَدُّ رَبِّنا [ الجن/ 3] ، أي : فيضه، وقیل : عظمته، وهو يرجع إلى الأوّل، وإضافته إليه علی سبیل اختصاصه بملکه، وسمي ما جعل اللہ للإنسان من الحظوظ الدنیوية جَدّاً ، وهو البخت، فقیل : جُدِدْتُ وحُظِظْتُ وقوله عليه السلام : «لا ينفع ذا الجَدِّ منک الجَدُّ» أي : لا يتوصل إلى ثواب اللہ تعالیٰ في الآخرة بالجدّ ، وإنّما ذلک بالجدّ في الطاعة، وهذا هو الذي أنبأ عنه قوله تعالی: مَنْ كانَ يُرِيدُ الْعاجِلَةَ عَجَّلْنا لَهُ فِيها ما نشاء لِمَنْ نُرِيدُ [ الإسراء/ 18] ، وَمَنْ أَرادَ الْآخِرَةَ وَسَعى لَها سَعْيَها وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولئِكَ كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء/ 19] ، وإلى ذلك أشار بقوله : يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء/ 88] . والجَدُّ : أبو الأب وأبو الأم . وقیل : معنی «لا ينفع ذا الجدّ» : لا ينفع أحدا نسبه وأبوّته، فکما نفی نفع البنین في قوله : يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء/ 88] ، کذلک نفی نفع الأبوّة في هذا الحدیث . ( ج د د ) الجد ( مصدر رض ) کے اصل معنی ہمورار زمین پر چلنے کے ہیں ۔ اسی سے جد فی سیرہ ہے جس کے معنی تیز ردی کے ہیں اور جب کوئی شخص اپنے معاملات میں محنت اور جا نفشاتی سے کام کرے تو کہا جاتا ہے جد فی امرہ اور اجد ( افعال ) کے معنی صاحب جد ہونے کے ہیں اور جددت الارض سے کسی چیز کو کا ٹتے کا معنی لیا جاتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے جددتۃ ( میں نے درست کرنے کے لئے اسے کا تا ) اور ثواب جدید کے اصل؛ معنی قطع کئے ہوئے کپڑا کے ہیں اور چونکہ جس کپڑے کو کاٹا جاتا ہے وہ عموما نیا ہوتا ہے اس لئے ہر نئی چیز کو جدید جہا جانے لگا ہے اس بنا پر ایت : ۔ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ [ ق/ 15] میں خلق جدید سے نشاۃ ثانیہ یعنی مرنے کے بعد دوبارہ نئے سرے سے پیدا ہونا مراد ہے کیونکہ کفار اس کا انکار کرتے ہوئے کہتے تھے ۔ أَإِذا مِتْنا وَكُنَّا تُراباً ذلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ [ ق/ 3] بھلا جب ہم مرگئے اور متی ہوگئے تو پھر زندہ ہوں گے ؟ یہ زندہ ہونا عقلیہ ہے ) بعید ہی اور جدید دنیا ) خلق یعنی پرانا کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اس اعتبار سے رات دن کو عبدید ان اور اجدان کہا جاتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ [ فاطر/ 27] اور پہاڑوں میں سفید رنگ کے قطعات ہیں میں جدد کا واھد جدۃ ہے کس کے معنی کھلے راستہ کے ہیں اور یہ طریق مجژود کے محاورہ سے ماخوذ ہے یعنی وہ راستہ جس پر چلا جائے اسی سے جا دۃ الطریق ہے جس کے معنی شاہراہ یا ہموار اور راستہ کے درمیانی حصہ کے ہیں جس پر عام طور پر آمد ورفت ہوتی رہتی ہے ) الجدود والجداء خشک تھنوں والی بھیڑ بکری اور سب وشتم کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ جد ثدی امہ اس کی ماں کے پستان خشک ہوجائیں اور جد کا لفظ فیظ الہی پر معنی بولا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَأَنَّهُ تَعالی جَدُّ رَبِّنا [ الجن/ 3] اور یہ کہ ہماری پروردگار کا فیضان بہت بڑا ہے ۔ میں جد بمعنی فیض الہی ہی کے ہے ۔ بعض کے نزدیک اس کے معنی عظمت کے ہیں لیکن اس کا مرجع بھی معنی والی کی طرف ہی ہے اور اللہ تعالے کی طرف اس کی اضافت اختصاص ملک کے طریق سے ہے اور حظوظ دینوی جو اللہ تعالے انسان کو بخشتا ہے پر بھی جد کا لفظ بولا جاتا ہے جس کے معنی بخت ونصیب کے ہیں جیسے کہا جاتا ہے جددت وحظظت خوش قسمت اور صاحب نصیب ہوگیا اور حدیث کے معنی یہ ہیں کہ دنیاوی مال وجاہ سے آخرت میں ثواب حاصل نہیں ہوسکے گا بلکہ آخروی ثواب کے حصول کا ذریعہ صرف طاعت الہی ہے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ مَنْ كانَ يُرِيدُ الْعاجِلَةَ عَجَّلْنا لَهُ فِيها ما نشاء لِمَنْ نُرِيدُ [ الإسراء/ 18] کے بعد فرمایا : ۔ وَمَنْ أَرادَ الْآخِرَةَ وَسَعى لَها سَعْيَها وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولئِكَ كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء/ 19] اور جو شخص آخرت کا خواستکا ر ہو اور اور اس میں اتنی کوشش کرے ۔ جتنی اسے لائق ہے اور وہ مؤمن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ نیز اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء/ 88] . جس دن نہ مال ہی کچھ فائدہ دے گا اور نہ بیٹے ۔ الجد ( ایضا ) دادا ۔ نانا ۔ بعض نے کہا ہے کہ لا ینفع ذالجد کے معنی یہ ہی کے اسے آبائی نسب فائدہ نہیں دے گا اور جس طرح کہ آیت : يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء/ 88] ہیں اولاد کے فائدہ بخش ہونے کی نفی کی ہے اسی طرح حدیث میں اباؤ اجداد کے نفع بخش ہونے کی نفی کی گئی ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور یہ کفار یعنی ابو سفیان اور اس کے ساتھی آپس میں کہتے ہیں کیا ہم تمہیں ایسا آدمی بتائیں یعنی محمد جو تمہیں یہ خبر دیتا ہے کہ جب تم زمین میں بالکل ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے اور ہڈی و چمڑا سب ختم ہوجائے گا تو پھر مرنے کے بعد ہم دوبارہ جی اٹھیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧{ وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ہَلْ نَدُلُّکُمْ عَلٰی رَجُلٍ یُّنَبِّئُکُمْ اِذَا مُزِّقْتُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍلا اِنَّکُمْ لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ } ” اور یہ کافر کہتے ہیں : کیا ہم تمہیں ایک ایسے شخص کے بارے میں بتائیں جو تمہیں یہ خبر دیتا ہے کہ جب تم (مٹی میں مل کر) بالکل ریزہ ریزہ ہو جائو گے ت... و پھر تمہیں از سر ِنو پیدا کردیا جائے گا۔ “ یہ اور اس کے بعد والی آیت اس لحاظ سے اہم ہیں کہ ان دونوں کے مضامین کا حوالہ آیت ٤٦ کے ضمن میں بھی آئے گا۔ اگرچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت نبوت کے ابتدائی زمانے سے ہی شروع ہوگئی تھی اور مشرکین اپنی محفلوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں استہزائیہ جملے بھی دہراتے رہتے تھے ‘ لیکن سات آٹھ سال تک وہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں مسلسل الجھن اور شش و پنج کا شکار رہے کہ یکایک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں یہ کیسی تبدیلی آگئی ہے ! اگلی آیت ان کی اس کیفیت کا واضح اظہار کر رہی ہے :  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧‘ ٨۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے آنے کا حق ہونا قسم کھا کر فرمایا تھا اور عقلی طور پر منکرین قیامت کو یہ بھی سمجھایا تھا کہ جس طرح دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے کچھ بھی نہیں تھا اور اللہ تعالیٰ نے پانی قدرت سے سب کچھ پیدا کردیا جو سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اسی طرح دنیا کی نابودی کے بعد قیا... مت کے دن اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے سب کچھ پیدا کردے گا ان منکرین حشر کی عقل نے دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے کی نابودی اور دنیا کے فنا ہونے کی بعد کی نابودی میں کیا فرق نکالا ہے جس فرق کے سبب سے ان کو حشر کا انکار ہے اور حشر کو یہ لوگ اللہ کی قدرت سے باہر گنتے ہیں اس آیت میں منکرین حشر کو نادانی بیان فرمائی ہے کہ ان نادانوں کے پاس اور کوئی دلیل عقلی تو حشر کے ناممکن ہونے کی نہیں ہے فقط یہی ایک نادانی کا تعجب ان کے دل میں بسا ہوا ہے کہ ان کو گوشت پوست ہڈیاں سب کچھ گل گھل کر جب خاک ہوجاوے گا تو پھر یہ دوبارہ کیوں کر پیدا ہوں گے اور منکرین حشر کی اس نادانی کا جواب اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ قرآن شریف میں بھی دیا ہے کہ آخران کا گوشت پوست ہڈیاں گل گھل کر ایسی ہی خاک ہوجاویں گی جس طرح دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے کی خاک تھی خاک سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کا وہ پتلابنایا جس پتلے سے سلسلہ بہ سلسلہ کروڑہا پتلے پیدا ہوتے چلے آتے ہیں پھر ایسے قادر مطلق کو اسی خاک سے دوبارہ ہر ایک پتلا کو علیحدہ علیحدہ بنا دینا کیا مشکل ہے معتبر سند سے بیہقی اور حاکم نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ١ ؎ کی ہے جس کا حاصل یہ ہے (١ ؎ سورة یسین کی تفسیر میں آرہی ہے انشاء اللہ) عاص بن وائل ایک شخص مشرک ایک روز ایک بوسیدہ ہڈی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا اور اس ہڈی کی راکھ کو مل مل کر ہوا میں اوڑاتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کیا یہی راجھ پھر دوبارہ زندہ ہوگی اللہ تعالیٰ نے سورة یسین میں اس کا بھی جواب دیا جو ان آیتوں میں دیا ہے کہ جس اللہ نے پہلی دفعہ خاک سے انسان کو بنایا ہے وہی ذوسری دفعہ بھی بناوے گا ‘ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ مشرکین مکہ کے نزدیک مر کر دوبارہ زندہ ہونا ایک تعجب کی بات تھی اس لیے یہ لوگ جب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھتے تھے تو آپس میں ہی باتیں کرتے تھے کہ جس شخص کو ہم دیکھ رہے ہیں یہ وہی ہیں جو مرنے اور ہڈیوں کے بوسیدہ ہوجانے کہ بعد پھر دوبارہ زندہ ہونے کی خبر سناتے ہیں پھر یہ بھی کہتے تھے کہ یا تو اس شخص نے اللہ کے حکم کے نام سے ایک جھوٹی بات بنائی ہے یا اس شخص کو سودا ہوگیا ہے جو ایسی خلاف عقل بات منہ سے نکالتا ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات بھی نہیں بلکہ علم الٰہی میں یہ لوگ گمراہ اور عقبے کے عذاب کے قابل ٹھہر چکے ہیں اس واسطے ایسی باتیں کرتے ہیں ورنہ جو کام ایک دفعہ ہوچکا پھر دوبارہ اس کام کا ہونا کسی عقلمند کے نزدیک خلاف عقل نہیں ہوسکتا صحیح بخاری کے حوالہ سے عمران (رض) بن حصین کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ کے علم غیب کے موافق جو لوگ دوزخ میں جانے کے قابل ٹھہر چکے ہیں وہ انپی گمراہی کی باتوں سے کبھی باز نہ آویں گے ‘ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ جو لوگ اللہ کے علم غیب کے موافق دوزخ میں جانے کے قابل ٹھہر چکے وہ ایسی باتیں کرتے ہیں جیسی باتوں کرتے ہیں جیسی باتوں کا ذکر ان آیتوں میں ہے  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:7) ندلکم۔ ندل مضارع کا صیغہ جمع متکلم دلالۃ (باب نصر) مصدر۔ پتہ دینا رہنمائی کرنا۔ راستہ دکھانا۔ دلیل۔ راہ۔ راہنما۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ (کیا) ہم تمہیں پتہ دیں۔ یہ مخاطبین کفار قریش میں ہی تھے۔ وہ تعجب یا استہزاء کی وجہ سے ایک دوسرے سے مخاطب ہو کر یہ کلمات کہتے تھے قالوا مخاطبا بعضہم لب... عض علی جھۃ التعجب والاستھزائ۔ ینبئکم۔ ینبیء مضارع واحد مذکر غائب تنبئۃ (تفعیل) بتانا۔ خبر دینا۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر ینبیء میں ضمیر فاعل رجل کی طرف راجع ہے وہ تمہیں بتانا ہے۔ ن ب ء مادہ۔ مزقتم۔ ماضی مجہول جمع مذکر حاضر۔ تمزیق (تفعیل) مصدر۔ جس کے معنی ہیں کسی چیز کو پھاڑ پھاڑ کر پارہ پارہ اور ریزہ ریزہ کردینا۔ ممزق اس کا وزن اسم مفعول کا ہے لیکن یہ مصدر ہے اور فعل کے بعد تاکید کے لئے آیا ہے کل سے تشدید مزید مراد ہے۔ یعنی جب تم بالکل ریزہ ریزہ کر دئیے جائوں گے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 7 تا 9 ندل : ہم بتائیں گے ینبی : وہ بتاتا ہے مزقتم : تم ریزہ ریزہ ہوگئے جنۃ : جنون۔ دیوانگی الضلال : گمراہی نخسف : ہم دھنسا دیں گے نسقط : ہم گرا دیں گے کسف : ایک ٹکڑا۔ ایک حصہ ایۃ : نشانی۔ نشان عبرت منیب : لوٹنے والا۔ رجوع کرنے والا تشریح : آیات 7 تا 9 بنیادی طور پر ... جانوروں اور انسان میں یہ فرق ہے کہ جانور فکر اور تدبر سے محروم ہے جب کہ انسان تفکر اور تدبر کرسکتا ہے ۔ مال و دولت اور دنیاوی اسباب میں کمی اتنی بڑی بد قسمتی اور محرومی نہیں ہے جتنی یہ بات کہ انسان فکر و تدبر اور ہدایت سے محروم ہوجائے۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ کے کافروں سے یہ فرماتے تھے کہ ایک دن یہ دنیا اور اس میں بسنے والی مخلوق ختم کردی جائے گی اور انسان کو اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہوگا تو کفار بڑی حقارت سے مذاق اڑاتے ہوئے کہتے تھے کہ لوگو ! آئو آج ہم تمہیں ایک حیرت انگیز بات بتاتے ہیں اور ایک ایسے شخص کے متعلق بتاتے ہیں جو یہ ان ہونی بات کہتا ہے کہ جب ہم ریزہ ریزہ ہوجائیں گے یا ہمارے بات دادا جن کے وجود کا آج پتہ بھی نہیں ہے وہ سب کے سب زندہ کئے جائیں گے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے ؟ ایسا لگتا ہے کہ اس شخص نے یہ باتیں خود ہی گھڑلی ہیں یا وہ کسی جنون میں مبتلا ہے ۔ یہ سب باتیں وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام لئے بغیر کہا کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ان کا آخرت پر ایمان ہوتا تو وہ ایسی باتیں نہ کرتے ان کی ایسی باتوں کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ شدید ترین عذاب میں بتلا کئے جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو گمراہی میں بہت دور تک جاچکے ہیں۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ انسان کی سب سے بڑی بد نصیبی یہ ہے کہ وہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم ہوجائے تو اس کا انجام بڑا بھیانک ہوتا ہے۔ حالانکہ اگر وہ اپنے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات اور اس کے نظام پر غور و فکر کرتا تو یہ بات اس کی سمجھ میں آسکتی تھی کہ اللہ نے اس نظام کائنات کو بنا کر اس میں ایک خاص تو ازن اور اعتدال پیدا کیا ہے ۔ اگر وہ اس تو ازن کو ذرا بھی ڈھیلا چھوڑ دے تو یہی زمین و آسمان جو انسان کے لئے راحت و آرام کا بہترین ذریعہ ہیں اس کے لئے قہر الہی بن سکتے ہیں ۔ فرمایا کہ وہ زمین جس سے انسان اپنی غذا اور لباس تک حاصل کرتا ہے اور وہ انسانوں کے بوجھ کو اٹھائے ہوئے ہے ہم اسی زمین کو ایسا بنا سکتے ہیں کہ اس زمین میں سارے انسان دھنس جائیں یا آسمان جو انسانی خیر و برکت کے لئے ایک چھت کی طرح ہے اس کے ایک ٹکڑے کو گرا کر ساری دنیا کو ختم کردیں۔ آخر میں فرمایا کہ یہ سب چیزیں عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی نشانیاں ہیں لیکن ان سے وہی فائدہ حاصل کرتے ہیں جو ہر آن اللہ ہی سے امید لگا کر اس طرف متوجہ ہوتے ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منکرین قیامت کی سب سے بڑی دلیل اور اس کا ردّ ۔ منکرین قیامت ہمیشہ سے یہ دلیل دیتے آئے ہیں کہ جب انسان مر کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائے گا تو اسے دوبارہ کس طرح زندہ کیا جائے گا۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہی دلیل ایک شخص نے دی جس نے اپنے ہاتھ پر ایک مردہ انس... ان کی بوسیدہ ہڈی رکھ کر اسے مسلتے ہوئے کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس خاک میں کون جان پیدا کرے گا ؟ جس کا تفصیلی جواب سورة یٰس کی آخری پانچ آیات میں دیا گیا ہے۔ لیکن پھر بھی منکرین قیامت لوگوں کو اپنا ہم فکر رکھنے کے لیے کہا کرتے تھے کہ ہم تمہیں ایسا شخص نہ دکھلائیں جو اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ جب تم مر کر ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے تو تمہیں از سرنو پیدا کرلیا جائے گا۔ ہمارے خیال کے مطابق یہ شخص جھوٹ بولتا ہے یا پھر اسے پاگل پن کا مرض لاحق ہوچکا ہے۔ کفار کے بےہودہ الفاظ اور پراپیگنڈہ کے جواب میں یہاں صرف اتنی بات کہی گئی ہے کہ جو لوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں وہ پرلے درجے کی گمراہی میں مبتلا ہیں اور انہیں ہر صورت عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ دنیا میں ان کے لیے عذاب یہ ہے کہ بعض بھلے کام کرنے کے باوجود ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ہاں اجرپانے سے مایوس ہوتے ہیں۔ ان کی صرف یہی ایک سزا نہیں بلکہ آخرت کے منکر ہونے کی وجہ سے یہ موت سے بھی ڈرتے ہیں۔ اگر ان کا مقابلہ مجاہدین اسلام سے ہو تو آخرت کے انکار کی وجہ سے یہ بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جہاں تک آخرت کے عذاب کا معاملہ ہے یہ لوگ ہمیشہ جہنم میں رکھے جائیں گے۔ ان کی گمراہی کو دور کی گمراہی اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان بنیادی طور پر دو ہی وجہ سے ہدایت کی جستجو کرتا ہے اللہ تعالیٰ کا خوف اور آخرت میں اپنے اعمال کی جوابدہی کا تصور۔ یہی دو سبب انسان کو حقیقت پر غور کرنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ منکرین قیامت کا ذہن ان دونوں باتوں سے خالی ہوتا ہے جس وجہ سے ان کا ہدایت پانا بعید از قیاس قرار دیا گیا ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوسرا صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے پوچھا چالیس دن ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں جانتا۔ انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میرا کوئی جواب نہیں۔ انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں ؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز مٹی ہوجائے گی۔ قیامت کے دن اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ [ رواہ مسلم : باب مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ ] مسائل ١۔ منکرین قیامت دنیا اور آخرت میں سزا پائیں گے۔ تفسیر بالقرآن گمراہ لوگ : ١۔ جو ایمان کو کفر کے ساتھ بدل دے وہ سیدھے راستہ سے گمراہ ہوگیا۔ (البقرۃ : ١٠٨) ٢۔ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ (النساء : ١١٦) ٣۔ جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا وہ دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ (النساء : ١٣٦) ٤۔ جو نافرمانی کرے اللہ اور اس کے رسول کی وہ گمراہ ہوگیا۔ (الاحزاب : ٣٦) ٥۔ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ مثال کے ساتھ فاسق ہی گمراہ ہوتے ہیں۔ ( البقرۃ : ٢٦) ٦۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پامال کرنے والا سیدھے راستہ سے بھٹک جاتا ہے۔ (المائدۃ : ١٢) ٧۔ کفار سے دلی دوستی رکھنے والا سیدھی راہ سے دور چلا جاتا ہے۔ (الممتحنۃ : ١) ٨۔ دین کے معاملات میں غلو کرنے والا سیدھی راہ سے گمراہ ہوجاتا ہے۔ (المائدۃ : ٧٧) ٩۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرانے والا سیدھے راستہ سے بھٹک جاتا ہے۔ (ابراہیم : ٣٠)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وقال الذین کفروا۔۔۔۔۔۔ والضلل البعید (7 – 8) یہ لوگ قیام قیامت کو اس قدر عجیب سمجھتے تھے۔ یہ لوگ قیامت کے قائل کو قابل تعجب یا مجنون یا چھوٹا سمجھتے تھے۔ ذرا انداز گفتگو کو دیکھو “ بتائیں تمہیں ایسا شخص جو کہتا ہے کہ جن تمہارے جسم کا ذرہ ذرہ منتشر ہوجائے گا اس وقت تم نئے سرے سے پیدا کر دئیے جاؤ گے ... “۔ یہ ایک عجیب و غریب شخص پیدا ہوگیا ہے جو اس قسم کی انہونی باتیں کرتا ہے کہ مرنے کے بعد ، مٹی کے ذرات بن جانے کے بعد کے بعد اور مٹی میں رل مل جانے کے بعد تمہیں دوبارہ زندہ کردیا جائے گا۔ یہ لوگ مزید تعجب کرتے ہیں اور نہایت ہی انوکھا سمجھتے ہوئے یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ یا تو یہ اللہ کے نام سے افتراء باندھتا ہے اور یا پھر یہ شخص مجنون ہے۔ کیونکہ ان کے زعم کے مطابق اس قسم کی باتیں یا تو جھوٹا شخص کرسکتا ہے یا مجنوں کرسکتا ہے۔ اگر مجنون ہے تو یہ کلام ہذیان ہے اور اگر جھوٹا ہے تو یہ تعجب خیز ہے۔ وہ یہ باتیں کیوں کرتے ہیں ؟ اس لیے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کہتے ہیں کہ تمہیں دوبارہ پیدا کیا جائے گا لیکن خود ان کی بات تعجب خیز ہے۔ کیا یہ لوگ پہلی بار پیدا نہیں کیے گئے ؟ انسان کی تخلیق کیا کوئی کم واقعہ ہے۔ پہلی بار ایسی تخلیق ؟ اگر یہ اسے تدبر اور غور سے دیکھیں تو کبھی بھی تعجب نہ کریں۔ لیکن یہ گمراہ ہیں اور ہدایت کی راہ نہیں لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اس تعجب پر ان کو سخت دھمکی دی جاتی ہے۔ بل الذین لا یومنون بالاخرۃ فی العذاب والضلل البعید (34: 8) ” بلکہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ خواب میں مبتلا ہونے والے ہیں اور وہی بری طرح بہکے ہوئے ہیں “۔ اس عذاب سے مراد عذاب آخرت بھی ہوسکتا ہے گویا وہ عذاب ان پر واقعہ ہوگیا ہے۔ چونکہ وہ گمراہی میں بہت دور تک چلے گئے ہیں اس لیے اب ان کے ہدایت پر آنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ لوگ جس طرح عذاب الٰہی میں مبتلا ہیں اسی طرح گمراہ بھی ہیں۔ یہ بہت گہری حقیقت ہے اس لیے کہ جس شخص کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا وہ نفسیاتی لحاظ سے سخت عذاب اور کشمکش میں ہوتا ہے۔ ایسے شخص کو دنیا کی بےانصافیوں میں نہ انصاف کی امید ہوتی ہے ، نہ عدل کی ، نہ جزائے آخرت کی اور نہ اخروی اجر کی۔ انسانی زندگی میں ایسے واقعات اور حوادث آتے ہیں کہ انسان انہیں صرف اجر اخروی کی خاطر ہی برداشت کرسکتا ہے اور یہ تسلی رکھتا ہے کہ نیکوکار کے لیے اجر حسن ہے اور بدکار کے لئے سزا ہے۔ کئی ایسی مشکلات ہوتی ہیں کہ انسان رضائے الٰہی اور جزائے اخروی کے لیے انہیں برداشت کرتا ہے کیونکہ آخرت میں چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی ضائع نہیں ہوتا۔ اگر وہ ذرا برابر ہو اور کسی چٹان کے اندر ہو ، وہاں سے بھی اللہ اس مطلوب ذرے کو جو رائی کے دانے کے برابر ہو ، لے کر آتا ہے اور جو شخص اس تروتازہ اور فرحت بخش اور روشن چراغ سے محروم ہے وہ گویا دائمی عذاب میں ہے۔ اس دنیا میں بھی منکر آخرت ایک مسلسل عذاب میں گرفتار ہوتا ہے اور آخرت میں تو وہ اپنے اعمال کی جزا بہرحال پائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ آخرت کا عقیدہ انسان کے لیے ایک رحمت ہے ، ایک عظیم نعمت ہے جس کے مستحق اللہ کے مخلص بندے ہوتے ہیں ، جو حق کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور جن کی خواہش ہر وقت یہ ہوتی ہے کہ وہ راہ راست پر گامزن ہوں ۔ راجح بات یہی ہے کہ اس آیت میں اسی نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ گمراہی کے ساتھ ساتھ اس دنیا میں بھی ایک مصیبت میں گرفتار ہیں۔ ان مکذبین کو اب ایک سخت دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر اللہ چاہے تو ان کی اس گمراہی کی وجہ سے مزید عذاب دنیا ان پر نازل کر دے اور آسمان کا ایک ٹکڑا ان پر گرا دے یا ان کو اس ضلالت کی وجہ سے زمین کے اندر دھنسا دے۔ یہ اس نظام کائنات پر غور نہیں کرتے کہ یہ نظام تو کسی بھی وقت بگڑ سکتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں کی طرف سے وقوع قیامت کا انکار اور ان کے لیے عذاب کی وعید جو لوگ قیامت کے منکر تھے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں آپس میں کہتے تھے کہ کیا ہم تمہیں ایسا آدمی نہ بتادیں جو تمہیں یہ بتاتا ہے کہ جب تم بالکل ہی چورہ چورہ ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے تو پھر نئے طریقے سے پیدا ہوں گے، انہیں...  نئے طور پر پیدا ہونے سے جو تعجب ہوتا تھا اپنے اس تعجب کو اس طرح ظاہر کیا اور اس میں کچھ استہزاء اور تمسخر کا بھی پہلو ہے۔ چونکہ یہ لوگ رسالت پر ایمان نہیں رکھتے تھے اس لیے انہوں نے وقوع قیامت کی خبر کو دو باتوں میں منحصر کردیا اور کہنے لگے کہ یہ شخص اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے یعنی وہ بات کہتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں بتائی گئی، اور اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر یہ شخص دیوانگی میں مبتلا ہے، خبر کے سچا ہونے کا ان کے نزدیک احتمال ہی نہیں تھا اس لیے انہوں نے تیسری بات کا تذکرہ ہی نہیں کیا یعنی یوں نہیں کہا کہ ممکن ہے اس کی بات سچی ہو بلکہ دو ہی باتوں میں منحصر کردیا حالانکہ ان کی دونوں باتیں غلط ہیں، نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور نہ آپ کو دیوانگی ہے۔ ان کے جواب میں فرمایا (بَلِ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَۃِ فِی الْعَذَابِ وَالضَّلٰلِ الْبَعِیْدِ ) (مطلب یہ ہے کہ ہمارا نبی نہ افتراء کرنے والا ہے نہ دیوانہ ہے بلکہ بات یہ ہے کہ جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ عذاب اور دور کی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں، گمراہی میں اتنے زیادہ آگے بڑھ چکے ہیں کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبر انہیں جھوٹی معلوم ہوتی ہے اور انہیں دیوانگی کی طرف منسوب کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ عذاب میں مبتلا ہوں گے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ وقال الذین کفروا الخ : یہ بھی شکوہ ہے۔ کفار تعجب و حیرت کے ساتھ ایک دوسرے سے کہتے ہیں آؤ ہم تمہیں ایک ایسا آدمی دکھائیں جو کہتا ہے جب تم مرنے کے بعد گل سڑ کر اور ذرہ ذرہ ہو کر مٹی میں مل جاؤ گے تو اس کے بعد پھر دوبارہ تمہیں از سر نو پیدا کیا جائے گا۔ افتری علی اللہ الخ : کیا اس شخص نے خدا کے ذمہ...  جھوٹ لگا دیا ہے کہ وہ انسانوں کو دوبارہ زندہ کرے گا یا (عیاذا باللہ) یہ دیوانہ ہے کہ دیوانوں کی سی باتیں کرتا ہے۔ بل الذین لا یومنون الخ : یہ جواب شکوہ ہے فرمایا کافروں کا خیال و زعم باطل ہے۔ پیغمبر (علیہ السلام) نے نہ خدا پر افترا کیا ہے اور نہ انہیں جنون ہے بلکہ یہ کافر خود انتہائی حماقت اور گمراہی میں مبتلا ہیں جس کا نتیجہ سخت عذاب کی صورت میں ان کو حاصل ہوگا۔ ان سے بڑا کم عقل اور گمراہ کون ہوگا جنہوں نے اللہ کی قدرت و حکمت اور اس کے وعدے وعید کو جھٹلا دیا۔ لیس الامر کما زعموا بل ھم فی کمال اختلال العقل و غایۃ الضلال عن الفہم والادراک الذی ھو الجنون حقیقۃ وفیما یودی الیہ ذلک من العذاب حیث انکروا حکمۃ اللہ تعالیی فی خلق العالم وکذبوہ عز وجل فی وعدہ ووعیدہ و تعرضوا السخطہ (رح ج 22 ص 111) ۔ فی العذاب : وہ عذاب میں ہیں یعنی ایسی گمراہی میں مبتلا ہیں جو موجب عذاب ہے اس طرح والضلال البعید کا عطف ما قبل پر تفسیری ہوگا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) اور یہ دین حق کے منکر آپس میں ایک دوسرے سے یوں کہتے ہیں کیا ہم تم کو ایک ایسا شخص بتائیں جو تم کو یہ انوکھی خبر دیتا ہے کہ جب تم مر کر بالکل ریزہ ریزہ ہو جائو گے تو تم کو ازسرنو پیدا ہونا ہے اور نئے سرے سے جنم لینا ہوگا۔ یعنی ایک دوسرے کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعارف ان الفاظ سے ک... راتا ہے کہ آئو ہم تمہیں ایک ایسا آدمی بتائیں جو عجیب و غریب باتیں کرتا ہے وہ عجیب بات یہ ہے ہے کہ وہ کہتا ہے کہ جب تم مر کر زمین میں مل جائو گے اور ریزہ ریزہ ہو جائو گے تو تم پھر دوبارہ پیدا ہو گے اور ازسرنو جنم لو گے۔  Show more