Surat Saba

Surah: 34

Verse: 9

سورة سبأ

اَفَلَمۡ یَرَوۡا اِلٰی مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اِنۡ نَّشَاۡ نَخۡسِفۡ بِہِمُ الۡاَرۡضَ اَوۡ نُسۡقِطۡ عَلَیۡہِمۡ کِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّکُلِّ عَبۡدٍ مُّنِیۡبٍ ٪﴿۹﴾  7

Then, do they not look at what is before them and what is behind them of the heaven and earth? If We should will, We could cause the earth to swallow them or [could] let fall upon them fragments from the sky. Indeed in that is a sign for every servant turning back [to Allah ].

کیا پس وہ اپنے آگے پیچھے آسمان و زمین کو دیکھ نہیں رہے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں یقیناً اس میں پوری دلیل ہے ہر اس بندے کے لئے جو ( دل سے ) متوجہ ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَفَلَمْ يَرَوْا إِلَى مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُم مِّنَ السَّمَاء وَالاَْرْضِ ... See they not what is before them and what is behind them, of the heaven and the earth! meaning, wherever they go, in whatever direction, the heavens are above them and the earth is beneath them. This is like the Ayah: وَالسَّمَأءَ بَنَيْنَـهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ وَ... الاٌّرْضَ فَرَشْنَـهَا فَنِعْمَ الْمَـهِدُونَ With Hands did We construct the heaven. Verily, We are Able to extend the vastness of space thereof. And We have spread out the earth; how Excellent Spreader (thereof) are We! (51:47-48) ... إِن نَّشَأْ نَخْسِفْ بِهِمُ الاَْرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاء ... If We will, We shall sink the earth with them, or cause a piece of the heaven to fall upon them. means, `if We wished, We could do that to them because of their wrongdoing and Our power over them, but We delay it because We are Patient and Forgiving.' Then Allah says: ... إِنَّ فِي ذَلِكَ لاَيَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ Verily, in this is a sign for every Munib servant. Ma`mar narrating from Qatadah, said that Al-Munib means every one who repents. Sufyan narrated from Qatadah, that Al-Munib is the one who turns to Allah. This means that in looking at the creation of the heavens and the earth, there is a sign for every servant who is intelligent and wise and who turns towards Allah. There is a sign of the Allah's ability to recreate bodies and bring about the Resurrection, because the One Who was able to create these heavens -- with their vast reaches of space, and this earth, as deep and vast as it is -- is able to recreate bodies and revive decayed bones. This is like the Ayat: أَوَلَـيْسَ الَذِى خَلَقَ السَّمَـوتِ وَالاٌّرْضَ بِقَـدِرٍ عَلَى أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُم بَلَى Is not He Who created the heavens and the earth, Able to create the like of them! Yes, indeed! (36:81) لَخَلْقُ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ أَكْـبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلَـكِنَّ أَكْـثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ The creation of the heavens and the earth is indeed greater than the creation of mankind; yet, most of mankind know not. (40:57)   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 یعنی اس پر غور نہیں کرتے ؟ اللہ تعالیٰ ان کی زجر و توبیخ کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ آخرت کا یہ انکار، آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر نہ کرنے کا نتیجہ ہے، ورنہ جو ذات آسمان جیسی چیز، جس کی بلندی اور وسعت ناقابل بیان ہے اور زمین جیسی چیز، جس کا طول و عرض بھی ناقابل فہم ہے، پیدا کرسکتا ہے، ... اس کے لئے اپنی ہی پیدا کردہ چیز کا دوبارہ پیدا کردینا اور اسے دوبارہ اسی حالت میں لے آنا، جس میں وہ پہلے تھی، کیوں کر ناممکن ہے۔ 9۔ 1 یعنی یہ آیت دو باتوں پر مشتمل ہے ایک اللہ کے کمال قدرت کا بیان جو ابھی مذکور ہوا دوسری کفار کے لیے تنبیہ و تہدید کہ جو اللہ آسمان و زمین کی تخلیق پر اس طرح قادر ہے کہ ان پر اور ان کے مابین ہر چیز پر اس کا تصرف اور غلبہ ہے وہ جب چاہے ان پر اپنا عذاب بھیج کر ان کو تباہ کرسکتا ہے زمین میں دھنسا کر بھی، جس طرح قارون کو دھنسایا یا آسمان کے ٹکڑے گرا کر جس طرح اصحاب الایکہ کو ہلاک کیا گیا۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ١٢] وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں اس زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا اور اس کائنات کا انتظام چلانے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ اور یہی زمین و آسمان انھیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ اس کی حدود سے وہ باہر نہیں جاسکتے۔ زمین کا مالک اللہ ہے وہ زمین کو حکم دے کر انھیں پکڑلے یا اندر جذب کرلے تو زمین کی مجال نہیں ک... ہ وہ اللہ کے حکم سے سرتابی کرے۔ آسمان سے بھی وہ ان پر عذاب نازل کرسکتا ہے اور زمین کے نیچے سے بھی۔ پھر آخر یہ کس بوتے پر اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت پر تلے بیٹھے ہیں۔ [ ١٣] نظام کائنات میں صرف ایک نشانی نہیں بیشمار نشانیاں ہیں۔ مگر یہ نشانیاں ہر ایک کے لئے نہیں بلکہ صرف اس شخص کے لئے جو عقل و انصاف اور سوچ سمجھ سے کام لے کر اس کائنات کے خالق کی طرف جھکتے اور رجوع ہوتے ہیں۔ وہ اس مربوط اور منظم نظام کائنات کو دیکھ کر فوراً اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ یہ کسی حکیم وخبیر ہستی کا قائم کردہ نظام ہے۔ اور چونکہ اللہ نے کوئی بھی چیز بےمقصد پیدا نہیں کی لہذا یہ نظام ضرور ایک دن کسی اعلیٰ و اکمل نتیجہ پر پہنچنے والا ہے۔ یہ انداز فکر انھیں اپنے خالق ومالک کی طرف سے مزید جھکا دیتا ہے۔ آگے اللہ اپنے ایک رجوع کرنے والے بندے حضرت داود اور ان پر اپنے انعامات کا ذکر فرما رہے ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ مِ ۔۔ : فرمایا، آخرت کا انکار زمین و آسمان کی پیدائش میں غور و فکر نہ کرنے کا نتیجہ ہے، ورنہ اگر یہ اپنے آگے اور پیچھے چاروں طرف پھیلے ہوئے آسمان اور زمین کے پیدا کرنے پر غور کرتے، جن کی وسعت ان کے خیال سے بھی زیادہ ہے تو زمین و آسمان ک... و پیدا کرنے والے کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنے پر نہ تعجب کرتے، نہ اس کا انکار کرتے، کیونکہ آسمان و زمین کی پیدائش کے مقابلے میں ان کی تخلیق تو کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی، جیسا کہ فرمایا : (ءانتم اشد خلقا ام السماء بنھا) [ النازعات : ٢٧ ] ” کیا پیدا کرنے میں تم زیادہ مشکل ہو یا آسمان ؟ اس نے اسے بنایا۔ “ اور فرمایا : (لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ) [ المؤمن : ٥٧ ] ” یقیناً آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا (کام) ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “ اِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْاَرْضَ ۔۔ : ” کسفا “ ” کِسْفَۃٌ“ کی جمع ہے، ٹکڑے۔ اس میں کفار کو ڈرایا ہے کہ یہی آسمان و زمین جن کو تم اپنے لیے نفع بخش اور زندگی کا سبب سمجھتے ہو، اللہ تعالیٰ چاہے تو انھی چیزوں کو تمہاری ہلاکت کا موجب بنا سکتا ہے۔ پھر وہ چاہے تو تمہیں اس زمین میں دھنسا دے، جیسے اس نے قارون کو دھنسا دیا، یا آسمان سے عذاب کے کچھ ٹکڑے گرا دے، جیسے اس نے اصحاب الایکہ کے ساتھ کیا۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيْبٍ : یعنی جو شخص کسی قسم کا تعصّب یا ہٹ دھرمی نہ رکھتا ہو، بلکہ اخلاص کے ساتھ اپنے رب سے ہدایت کا طالب ہو اور اس کی طرف رجوع رکھتا ہو، اس کے لیے تو آسمان و زمین کے اس عظیم الشّان نظام میں بہت بڑا سبق موجود ہے کہ جس نے اتنا بڑا حکمت سے بھرا ہوا نظام بنایا ہے، وہ دوبارہ زندہ بھی کرسکتا ہے اور یہ بھی سبق ہے کہ اس کی عنایت اور اس کے فضل ہی سے ہم بچے ہوئے ہیں، ورنہ وہ ایک ہی لمحہ میں ہمیں ہلاک کرسکتا ہے۔ یہ زمین اس کی ہے اور آسمان بھی اسی کا ہے، پھر ہم بھاگ کر کہاں جاسکتے ہیں ؟ مگر جو اپنے رب کی طرف رجوع کے بجائے اس سے بغاوت اختیار کرچکا ہو، اس کے لیے یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود اس میں کوئی سبق نہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The last verse (9): أَفَلَمْ يَرَ‌وْا إِلَىٰ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُم (Have they not, then, looked to the sky and the earth that lies before them and behind them? ) carries two chastening messages: (1) It proves that one can come to believe in the coming of the Qiyamah by pondering over what has been created in the heavens and the earth, and once the perfect power of Allah Ta’ ala b... ecomes visible through observation, the element of improbability which prohibited its deniers from accepting it could stand removed. (2) Then, right along with this positive invitation to see and learn on their own, the deniers have also been served with a warning of punishment. They have been told that should they continue to hold firmly to their attitude of rejection and denial, then, they should also realize that it is within this power of Allah Ta’ ala which could make the very same blessings to become a punishment for them, such as, the earth swallows them, or that the sky cracks apart and falls on them.  Show more

(آیت) افلم یروا الی مابین ایدیہم وما خلفہم، الایة جیسا کہ خلاصہ تفسیر سے معلوم ہوچکا ہے اس آیت میں قیام قیامت کے دلائل بھی ہیں کہ آسمان و زمین کی مخلوقات میں غور کرنے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا مشاہدہ کرنے سے وہ استبعاد رفع ہوسکتا ہے جو منکرین قیامت کو اس کی تسلیم سے مانع تھا، اور ساتھ ہی منک... رین کے لئے سزا کی دھمکی بھی ہے کہ یہ آسمان و زمین کی تمام مخلوقات عظیمہ جو تمہارے لئے بڑی نعمتیں ہیں، اگر ان کے مشاہدہ کے بعد بھی تم تکذیب و انکار پر جمے رہے تو اللہ کی قدرت میں یہ بھی ہے کہ انہی نعمتوں کو تمہارے لئے عذاب بنا دے کہ زمین تمہیں نگل جائے، یا آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر تم پر گر پڑے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ ۭ اِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِہِمُ الْاَرْضَ اَوْ نُسْقِطْ عَلَيْہِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ۝ ٠ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيْبٍ۝ ٩ ۧ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . ق... ال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے خلف ( پیچھے ) خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة/ 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے ) یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة/ 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ خسف الخُسُوف للقمر، والکسوف للشمس «1» ، وقال بعضهم : الکسوف فيهما إذا زال بعض ضوئهما، والخسوف : إذا ذهب كلّه . ويقال خَسَفَهُ اللہ وخسف هو، قال تعالی: فَخَسَفْنا بِهِ وَبِدارِهِ الْأَرْضَ [ القصص/ 81] ، وقال : لَوْلا أَنْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا لَخَسَفَ بِنا [ القصص/ 82] ، وفي الحدیث : «إنّ الشّمس والقمر آيتان من آيات اللہ لا يُخْسَفَانِ لموت أحد ولا لحیاته» «2» ، وعین خَاسِفَة : إذا غابت حدقتها، فمنقول من خسف القمر، وبئر مَخْسُوفَة : إذا غاب ماؤها ونزف، منقول من خسف اللہ القمر . وتصوّر من خسف القمر مهانة تلحقه، فاستعیر الخسف للذّلّ ، فقیل : تحمّل فلان خسفا . ( خ س ف ) الخسوف کا لفظ چاند کے بےنور ہونے اور کسوف کا لفظ سورج کے بےنور ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ خسوف قدر ہے بےنور ہونے کو کہاجاتا ہے اور کسوف پوری طرح بےنور ہوجانے کو کہتے ہیں ، عام اس سے کہ وہ سورج ہو یا چاند کہاجاتا ہے خسفہ اللہ اللہ نے اسے زمین میں دھنسادیا ( متعدی ) خسف ھو ( لازمی ) زمین میں دھنس جانا ۔ قرآن میں ہے :۔ فَخَسَفْنا بِهِ وَبِدارِهِ الْأَرْضَ [ القصص/ 81] پس ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا ۔ لَوْلا أَنْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا لَخَسَفَ بِنا [ القصص/ 82] اگر خدا ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا ۔ حدیث میں ہے ( ا اا) ان الشمس والقمر ایتان من ایات اللہ لایخسفان لموت احد ولا لحیاتہ کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جو کسی کی موت پاپیدائش کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے ۔ اور عین خاسفہ ( اندر دھنسی ہوئی آنکھ ) کا محاورہ خسف القمر سے منقول ہے بئر مخسوفۃ وہ کنواں جس کا پانی غائب ہوگیا ہو اور چاند گہن لگنے سے چونکہ ماند پڑجاتا ہے اس لیے بطور استعارہ خسیف بمعنی ذلت ورسوائی بھی آجاتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے ۔ تحمل فلان خسفا ۔ فلاں شخص ذلیل ہوگیا ۔ سقط السُّقُوطُ : طرح الشیء، إمّا من مکان عال إلى مکان منخفض کسقوط الإنسان من السّطح، قال تعالی: أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا[ التوبة/ 49] ، وسقوط منتصب القامة، وهو إذا شاخ وکبر، قال تعالی: وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ ساقِطاً [ الطور/ 44] ، وقال : فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء/ 187] ، والسِّقَطُ والسُّقَاطُ : لما يقلّ الاعتداد به، ومنه قيل : رجل سَاقِطٌ لئيم في حَسَبِهِ ، وقد أَسْقَطَهُ كذا، وأسقطت المرأة اعتبر فيه الأمران : السّقوط من عال، والرّداءة جمیعا، فإنه لا يقال : أسقطت المرأة إلا في الولد الذي تلقيه قبل التمام، ومنه قيل لذلک الولد : سقط «1» ، وبه شبّه سقط الزّند بدلالة أنه قد يسمّى الولد، وقوله تعالی: وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 149] ، فإنه يعني النّدم، وقرئ : تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم/ 25] «2» ، أي : تسّاقط النّخلة، وقرئ : تُساقِطْ «3» بالتّخفیف، أي : تَتَسَاقَطُ فحذف إحدی التاء ین، وإذا قرئ ( تَسَاقَطْ ) فإنّ تفاعل مطاوع فاعل، وقد عدّاه كما عدّي تفعّل في نحو : تجرّعه، وقرئ : يَسَّاقَطْ عليك «4» أي : يسّاقط الجذع . ( س ق ط ) السقوط ( ن ) اس کے اصل معنی کسی چیز کے اوپر سے نیچے گرنے کے ہیں مثلا کسی انسان کا چھت سے گر پڑنا یا اس کا بوڑھا ہو کر نیچے جھک جانا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ ساقِطاً [ الطور/ 44] اور اگر یہ آسمان ( سے عذاب ) کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھیں ۔ فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء/ 187] تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لا گراؤ اور اس کے معنی قدر و قیمت اور مرتبہ کے لحاظ سے گر جانا بھی آتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا[ التوبة/ 49] دیکھو یہ آفت میں پڑے گئے ۔ السقط والسقاطۃ ناکاری اور ردی چیز کو کہتے ہیں اور اسی سے رجل ساقط ہے جس کے معنے کمینے آدمی کے ہیں ۔ اسقطہ کذا : فلاں چیز نے اس کو ساقط کردیا ۔ اور اسقط المرءۃ ( عورت نے نا تمام حمل گرا دیا ) میں اوپر سے نیچے گرنا اور ردی ہونا دونوں معنی اکٹھے پائے جاتے ہیں ۔ کیونکہ اسقطت المرءۃ اس وقت بولتے ہیں جب عورت نا تمام بچہ گرا دے اور اسی سے نا تمام بچہ کو سقط یا سقط کہا جاتا ہے ۔ پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر چقماق کی ہلکی سی ( ناقص ) چنگاری کو سقط الزند کہا جاتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ کبھی اس کے ساتھ بچہ کو بھی موسوم کیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 149] اور جب وہ نادم ہوئے ۔ میں پشیمان ہونا مراد ہے ۔ اور آیت : ۔ تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم/ 25] تم پر تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی ۔ میں ایک قراءت تساقط بھی ہے اور اس کا فاعل نخلۃ ہے اور ایک قراءت میں تساقط ہے جو اصل میں تتساقط فعل مضارع کا صیغہ ہے اس میں ایک تاۃ محذوف ہے اس صورت میں یہ باب تفاعل سے ہوگا اور یہ اگرچہ فاعل کا مطاوع آتا ہے لیکن کبھی متعدی بھی ہوجاتا ہے جیسا کہ تجرعہ میں باب تفعل متعدی ہے ۔ اور ایک دوسری قرات میں یساقط ( صیغہ مذکر ) ہے اس صورت میں اس کا فاعل جذع ہوگا ۔ كسف كُسُوفُ الشمس والقمر : استتارهما بعارض مخصوص، وبه شبّه كُسُوفُ الوجه والحال، فقیل : كَاسِفُ الوجه وكَاسِفُ الحال، والکِسْفَةُ : قطعة من السّحاب والقطن، ونحو ذلک من الأجسام المتخلخلة الحائلة، وجمعها كِسَفٌ ، قال : وَيَجْعَلُهُ كِسَفاً [ الروم/ 48] ، فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء/ 187] ، أَوْ تُسْقِطَ السَّماءَ كَما زَعَمْتَ عَلَيْنا كِسَفاً [ الإسراء/ 92] وکسفا «1» بالسّكون . فَكِسَفٌ جمع كِسْفَةٍ ، نحو : سدرة وسِدَرٍ. وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ [ الطور/ 44] . قال أبو زيد : كَسَفْتُ الثّوب أَكْسِفُهُ كِسْفاً :إذا قطعته قطعا «2» ، وقیل : كَسَفْتُ عرقوب الإبل، قال بعضهم : هو كَسَحْتُ لا غيرُ. ( ک س ف ) کسوف الشمش والقمر کے معنی ہیں سورج یا چاند کا کیس خاص عارض سے مستور یعنی گہن میں آجانا کے ہیں ۔ اور تشبیہ کے طور پر چہرہ یا حالت کے خراب ہونے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے کا سف الوجھہ یا کا سف الحال ۔ الکسفۃ کے معنی بادل روئی یا اس قسم کے دوسرے متخلخل اجسام کے ٹکڑے کے ہیں اس کی جمع کسف آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَيَجْعَلُهُ كِسَفاً [ الروم/ 48] اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے ۔ فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء/ 187] تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لاکر گراؤ أَوْ تُسْقِطَ السَّماءَ كَما زَعَمْتَ عَلَيْنا كِسَفاً [ الإسراء/ 92] یا جیسا تم کہا کرتے ہو ہم پر آسمان کے ٹکڑے لاکر گراؤ ۔ ایک قرات میں کسفا بسکون سین ہے اور کسف کا واحد کسفۃ ہے جیسے سدرۃ وسدرۃ اور فرمایا : ۔ وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ [ الطور/ 44] اور اگر یہ آسمان سے عذاب کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھیں ابو ذید نے کہا ہے کسفت الثوب ( ج ) کسفا کے معنی کپڑے کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے ہیں بعض نے کسفت عر قوب الابل بھی کہا ہے جس کے معنی اونٹ کی کونچ کاٹ دینے کے ہیں لیکن ) بعض ایک لغت کے نزدیک اس معنی میں صر ف کسحت ( ف ) ہی استعمال ہوتا ہے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ نوب النَّوْب : رجوع الشیء مرّة بعد أخری. وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر/ 54] ، مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم/ 31] ( ن و ب ) النوب ۔ کسی چیز کا بار بارلوٹ کر آنا ۔ یہ ناب ( ن ) نوبۃ ونوبا کا مصدر ہے، وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر/ 54] اپنے پروردگار کی طر ف رجوع کرو ۔ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم/ 31] ( مومنو) اس خدا کی طرف رجوع کئے رہو ۔ فلان ینتاب فلانا وہ اس کے پاس آتا جاتا ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کیا ان کفار مکہ نے آسمان و زمین کی طرف نظر نہیں کی جو ان کے اوپر نیچے موجود ہے اگر ہم چاہیں تو ان کو زمین میں دھنسا دیں یا اگر چاہیں تو ان پر آسمان کے ٹکڑے گراکر ان کو ہلاک کردیں۔ آسمان و زمین کی مذکورہ دلیل میں قدرت خداوندی کی ہر اس بندہ کے لیے جو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کی عبادت کی طرف متوجہ ہو پور... ی دلیل ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩ { اَفَلَمْ یَرَوْا اِلٰی مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ } ” تو کیا انہوں نے دیکھا نہیں جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے آسمان اور زمین میں سے ! “ کیا یہ لوگ اس کائنات کا مشاہدہ نہیں کرتے جو ان کے سامنے ہے اور کیا یہ ان تاریخی شواہد و بصائر سے سبق...  حاصل نہیں کرتے جو ان کے پیچھے ہیں۔ گویا یہاں اس چھوٹے سے فقرے میں ” تذکیر بآلاء اللہ “ کا حوالہ بھی آگیا اور ” تذکیر بایام اللہ “ کا بھی۔ { اِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِہِمُ الْاَرْضَ } ” اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں “ { اَوْ نُسْقِطْ عَلَیْہِمْ کِسَفًا مِّنَ السَّمَآئِ } ” یا ان پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دیں۔ “ { اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّکُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ } ” یقینا اس میں نشانی ہے ہر اس بندے کے لیے جو (اللہ کی طرف) رجوع کرنے والاہو۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11 This is the first answer to their charge. It means: "O foolish people, it is you who have lost your reason. For you do not listen to the one who is informing you of the truth and arc recklessly galloping on the way that leads to Hell. But the height of your stupidity is that you are calling the one who is anxious for your salvation, mad." 12 This is the second answer to their charge. To unders... tand it well one should bear in mind the fact that three things were most prominent among the reasons for which the disbelieving Quraish denied the life-after-death: (1) They did not want to believe in any kind of accountability before God, for after believing in such a thing they would be left with no freedom whatever to behave and act as they pleased in the world. (2) They thought it was inconceivable that Resurrection would take place and the present material order of the universe would be destroyed and replaced by a new order. (3) They thought it was impossible that the people who had died hundreds of thousands of years in the past and whose bones even had decayed and disintegrated, would be raised back to life. With the same body and soul. The answer given above covers alI these three aspects, and contains a severe warning as well. The details of the theme contained in these brief sentences are given below: (1) If you ever had observed this earth and the heavens with clear sightedness, you would have seen that it is not a plaything nor has its creation come into being by accident. Everything in this universe points to the fact that it has been created by an AII-Powerful Being with great wisdom. In such a wise system it would be highly absurd to think that somebody could be left to live an irresponsible and unaccountable life after he had been given the faculties of intellect and discrimination and . authority. (2) Anyone who sees the natural order with discerning eyes will realize that the occurrence of Resurrection is not at all difficult. It can take place suddenly as soon as the system in which the earth and the heavens are bound together is disturbed. And the same system testifies that the One Who has made and is running this world today can create another world again. If it were difficult for Him to do so, this world would not have existed as it does today. (3) Your opinion and judgement about the Creator of the universe that it will be impossible for Him to resurrect the dead, is strange. The bodies of the men who die may utterly decay and disintegrate and be scattered but nevertheless remain within the bounds of this very universe and do not go anywhere outside its bounds. Then it is not at aII difficult for the God Who has created this earth and the heavens to gather together everything from the earth and water and air wherever it happens to be. Whatever makes up your body today was collected and combined by Him, and brought out from this very earth, water and air. When the collecting and assembling of these elements together is possible today, how will it be impossible tomorrow? Besides these three arguments, the discourse also contains a subtle warning to the effect: "You arc surrounded by God's Kingdom on aII sides. Wherever you may go, you would be covered and surrounded by the same universe. You cannot find any place of refuge against God, and God's power is such that He can afflict you whenever He likes with a calamity from under your feet or from above your heads. You do not know what forces might be working under the very surface of the earth which you find as an abode of perfect peace and safety for yourselves, and when they would cause an earthquake to take place and turn the' same earth into your grave. You do not know when a disaster might befall you-a lightning. or a devastating rain, or some other calamity-from the same sky under which you walk about with full peace and satisfaction of the heart as if it were the ceiling of your own house. In a state like this, your fearlessness of God, your heedlessness of any thought of the Hereafter and your vain and nonsensical talk against the admonition of a well-wisher has no other meaning than that you are only inviting your own doom." 13 That is, "The person who is neither prejudiced nor obstinate and stubborn, but is a sincere seeker of guidance from his God, can learn many lessons from the observation of the earth and heavens; but the one whose heart is turned away from God, will sec everything in the universe, but will never perceive any Sign pointing to the Trnth."  Show more

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :12 یہ ان کی بات کا دوسرا جواب ہے ۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے یہ حقیقت نگاہ میں رہنی چاہیے کہ کفار قریش جن وجوہ سے زندگی بعد موت کا انکار کرتے تھے ان میں تین چیزیں سب سے زیادہ نمایاں تھیں ۔ ایک یہ کہ وہ خدا کے محاسبے اور باز پرس کو نہیں ماننا چاہتے تھے کیونکہ اسے مان لینے ک... ے بعد دنیا میں من مانی کرنے کی آزادی ان سے چھن جاتی تھی ۔ دوسرے یہ کہ وہ قیامت کے وقوع اور نظام عالم کے درہم برہم ہو جانے اور پھر سے ایک نئی کائنات بننے کو ناقابل تصور سمجھتے تھے ۔ تیسرے یہ کہ جن لوگوں کو مرے ہوئے سینکڑوں ہزاروں برس گزر چکے ہوں اور جن کی ہڈیاں تک ریزہ ریزہ ہو کر زمین ، ہوا اور پانی میں پراگندہ ہو چکی ہوں ان کا دوبارہ جسم و جان کے ساتھ جی اٹھنا ان کے نزدیک بالکل بعید از امکان تھا ۔ اوپر کا جواب ان تینوں پہلوؤں پر حاوی ہے ، اور مزید براں اس میں ایک سخت تنبیہ بھی مضمر ہے ۔ ان مختصر سے فقروں میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے اس کی تفضیل یہ ہے ۔ 1 ۔ اس زمین و آسمان کو اگر کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا ہوتا تو تمہیں نظر آتا کہ یہ کوئی کھلونا نہیں ہے ، اور نہ یہ نظام اتفاقاً بن گیا ہے ، اس کائنات کی ہر چیز اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ اسے ایک قادر مطلق نے کمال درجہ حکمت کے ساتھ بنایا ہے ۔ ایسے ایک حکیمانہ نظام میں یہ تصور کرنا کہ یہاں کسی کو عقل و تمیز و اختیارات عطا کرنے کے بعد اسے غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ چھوڑا جا سکتا ہے ، سراسر ایک لغو بات ہے ۔ 2 ۔ اس نظام کو جو شخص بھی دیدہ بینا کے ساتھ دیکھے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ قیامت کا آجانا کچھ بھی مشکل نہیں ہے ۔ زمین اور آسمان جن بندشوں پر قائم ہیں ان میں ایک ذرا سا الٹ پھیر بھی ہو جائے تو آناً فاناً قیامت برپا ہو سکتی ہے ۔ اور یہی نظام اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جس نے آج یہ دنیا بنا رکھی ہے وہ ایک دوسری دنیا پھر بنا سکتا ہے ۔ اس کے لیے ایسا کرنا مشکل ہوتا تو یہی دنیا کیسے بن کھڑی ہوتی ۔ 3 ۔ تم نے آخر خالق ارض و سما کو کیا سمجھ رکھا ہے کہ مرے ہوئے انسانوں کو دوبارہ پیدا کیے جانے کو اسکی قدرت سے باہر خیال کر رہے ہو ، جو لوگ مرتے ہیں ان کے جسم پارہ پارہ ہو کر خواہ کتنے ہی منتشر ہو جائیں ، رہتے تو اسی زمین و آسمان کے حدود میں ہیں ۔ اس سے کہیں باہر تو نہیں چلے جاتے ۔ پھر جس خدا کے یہ زمین و آسمان ہیں اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ مٹی اور پانی اور ہوا میں جو چیز جہاں بھی ہے اسے وہاں سے نکال لائے ۔ تمہارے جسم میں اب جو کچھ موجود ہے وہ بھی اسی کا جمع کیا ہوا ہے اور اسی مٹی ، ہوا اور پانی میں سے نکال لایا گیا ہے ۔ ان اجزا کی فراہمی اگر آج ممکن ہے تو کل کیوں غیر ممکن ہو جائے گی ۔ ان تینوں دلیلوں کے ساتھ اس کلام میں یہ تنبیہ بھی پوشیدہ ہے کہ تم ہر طرف سے خدا کی خدائی میں گھرے ہوئے ہو ۔ جہاں بھی جاؤ گے یہی کائنات تم پر محیط ہو گی ۔ خدا کے مقابلے میں کوئی جائے پناہ تم نہیں پا سکتے اور خدا کی قدرت کا حال یہ ہے کہ جب وہ چاہے تمہارے قدموں کے نیچے سے یا سر کے اوپر سے جو بلا چاہے تم پر نازل کر سکتا ہے ۔ جس زمین کو آغوش مادر کی طرح تم اپنے لیے جائے سکون پاتے ہو اور اطمینان سے اس پر گھر بنائے بیٹھے ہو تمھیں کچھ پتہ نہیں کہ اس کی سطح کے نیچے کیا قوتیں کام کر رہی ہیں اور کب وہ کوئی زلزلے لا کر اسی زمین کو تمہارے لیے مرقد بنا دیتی ہیں ۔ جس آسمان کے نیچے تم اس اطمینان کے ساتھ چل پھر رہے ہو گویا کہ یہ تمہارے گھر کی چھت ہے ، تمہیں کیا معلوم کہ اسی آسمان سے کب کوئی بجلی گر پڑتی ہے ، یا ہلاکت خیز بارش ہوتی ہے ، یا اور کوئی ناگہانی آفت آجاتی ہے ۔ اس حالت میں تمہاری خدا سے یہ بے خوفی اور فکر عاقبت سے یہ غفلت اور ایک خیر خواہ کی نصیحت کے مقابلے میں یہ یَاوَہ گوئی بجز اس کے اور کیا معنی رکھتی ہے کہ تم اپنی شامت ہی کو دعوت دے رہے ہو ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :13 یعنی جو شخص کسی قسم کا تعصب نہ رکھتا ہو ، جس میں کوئی ہٹ دھرمی اور ضد نہ پائی جاتی ہو ، بلکہ جو اخلاص کے ساتھ اپنے خدا سے طالب ہدایت ہو ، وہ تو آسمان و زمین کے اس نظام کو دیکھ کر بڑے سبق لے سکتا ہے ۔ لیکن جس کا دل خدا سے پھرا ہوا ہو وہ کائنات میں سب کچھ دیکھے گا مگر حقیقت کی طرف اشارہ کرنے والی کوئی نشانی اسے سجھائی نہ دے گی ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩۔ اس آیت میں انہی قیامت کے منکر لوگوں کو یوں سمجھایا گیا ہے کہ یہ لوگ کیا آنکھوں سے دیکھتے نہیں کہ ان کے آگے اور پیچھے آسمان اور زمین ہے کہ جہاں کہیں آتے جاتے ہیں آسمان اور کے سروں پر ہے اور نہ میں ان کے پیچھے ویہ دکھائی دیتے ہیں کیا وہ اندھے ہوگئے ہیں جو اتنا نہیں دیکھتے کہ یہ دونوں اللہ کی قدرت ک... ی کتنی بڑی نشانیاں ہیں جب ان کے پیدا کرنے کی ہم میں پہلی دفعہ کی قدرت دیکھتے ہیں تو کیا ہم ان کو دوسری بار پیدا نہیں کرسکتے یا یہ سبب ان کے کفر اور جھٹلانے کے ان کے اوپر عذاب نازل نہیں کرسکتے اگر ہم چاہیں تو ان کو زمین میں دھسادیں یا گزری کریں ان پر آسمان سے ایک ٹکڑا لیکن ہم نے پانی بربادی کے سب سے ان کو مہلت دے رکھی ہے صیحھ بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث کئی ١ ؎ جگہ گزر چکی ہے (١ ؎ بحوالہ مشکوۃ باب الظلم فصل اول ‘) کہ اللہ تعالیٰ سرکش لوگوں کو جب تک چاہتا ہے مہلت دیتا ہے مہلت کے زمانہ میں اگر وہ لوگ اپنی سرکشی سے باز نہ آئے تو پھر ان کو بالکل ہلاک کردیتا ہے اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ کہ مکہ کے بڑے بڑے سرکش لوگوں کو بدر کی لڑائی کے زمانہ تک مہلت دی گئی تھی اس مہلت میں جب یہ لوگ اپنی سرکشی سے بازنہ آئے تو آخر ہلاک ہوگئے صحیح بخاری و مسلم کی انس بن مالک (رض) کی روایت سے بدر کی لڑائی کا قصہ اوپر گزر چکا ٢ ؎ ہے ‘(٢ ؎ ملاحظہ ہو صفحہ ٣٥٢ ج ٢ تفسیر سورة الانفال ‘) منیب کے معنے اللہ کی طرف رجوع ہونے والا مطلب یہ ہے کہ پچھلی امتوں کے قصے جوان لوگوں کو سنائے گئے ہیں ان میں سرکشی سے باز آنے والے اور اللہ کی طرف رجوع ہونے والے کے لیے عبرت پکڑنے کی بڑی نشانی ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:9) افلم یروا۔ ف حرف عطف ہے ہمزہ استفہامیہ ہے عموما حروف استفہام (کیف، این ، انی، ھل، ای، ما، وغیرہ) حرف عطف کے بعد واقع ہوتے ہیں لیکن ہمزہ حرف عطف پر اس امر سے آگاہ کرنے کے لئے پہلے لایا جاتا ہے کہ صدر کلام میں آنے کے واسطے اصلی حرف یہی ہے۔ تو کیا انہوں نے نہیں دیکھا ۔ کیا وہ نہیں دیکھتے۔ من ال... سماء والارض۔ من تبعیضیہ ہے۔ آسمان اور زمین میں سے جو ان کے اپنے آگے اور اپنے پیچھے ہے کیا یہ اس کو نہیں دیکھتے (جو اپنی جسامت ووسعت کے لحاظ سے ان کے دل کو قدرت الٰہی کی عظمت کے دلائل سے لبریز کردینے کے لئے کافی ہیں) جو ایسے اجسام عظیمہ کا ابتداء پیدا کرنے والا ہے کیا وہ اجسام صغیرہ کی خلق ثانی پر قادر نہیں ؟ ) ان نشا۔ ان شرطیہ ہے نشا مضارع کا صیغہ جمع متکلم ہے مشیئۃ مصدر مضارع مجزوم بوجہ عمل ان کے ہے۔ اگر ہم چاہیں۔۔ نخسف ب مضارع مجزوم (بوجہ عمل ان ) جمع متکلم خسف مصدر (باب ضرب) ہم دھنسا دیں۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب مفعول اول الارضمفعول ثانی ۔ اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں۔ خسوفچاند گرہن۔ خسف فعل لازم بھی ہے اور متعدی بھی ۔ او نسقط علیہم۔ او حرف عطف۔ نسقط کا عطف نخسف پر ہے اور یہ بھی ان کے عمل میں مضارع مجزوم بصیغہ جمع متکلم ہے یا ہم پر گرا دیں۔ کسفا۔ کسفۃ کی جمع اکساف وکسوف جمع الجمع ٹکڑے۔ کسوف سورج گرہن کسف فعل متعدی و لازم دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ منیب اسم فاعل واحد مذکر اللہ کی طرف خلوص سے رجوع کرنے والا۔ انابۃ (باب افعال) مصدر نوب مادہ (باب نصر) سے۔ کسی چیز کا بار بار لوٹنا۔ نوبۃ حاصل مصدر۔ باری۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی آسمان و زمین کی تخلیق، اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت کی نشانی اور اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ زندہ کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ ( کبیر) ۔5 اس میں تہدید ہے کہ یہی چیزیں جن کو تم نفع بخش اور زندگی کا سبب سمجھتے ہو اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو انہی چیزوں کو تمہاری ہلاکت کا جواب بنا سکتا ہے۔ ( کبیر... ) ۔6 کہ جس نے اتنا بڑا پر از حکمت نظام بنایا ہے وہ دوبارہ زندہ بھی کرسکتا ہے۔ ( کبیر) یا مطلب یہ ہے کہ اس کی عنایت و فضل سے ہم بچے ہوئے ہیں ورنہ وہ ایک دم میں ہمیں ہلاک کرسکتا ہے۔ یہ زمین بھی اسی کی ہے اور آسمان بھی اسی کے ہیں، بھاگ کر کہاں جام سکتے ہیں۔ ( وحیدی) اس کے بعد رجوع کرنے والے بندوں میں سے بعض کے قصے بیان فرمائے۔ ( کبیر) ۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی دلیل تو کافی ہے مگر ان کی طرف سے طلب نہیں اس لئے محروم ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گمراہ لوگوں کو انتباہ۔ یہاں منکرینٍ قیامت کو اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کیا یہ لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ انہیں اوپر نیچے اور آگے پیچھے سے زمین و آسمان نے گھیر رکھا ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کے کفر کی وجہ سے انہیں زمین میں دھنسا دے یا پھر آسمان سے کوئی آفت انہیں ت... ہس نہس کردے اگر یہ غور کریں تو اس انتباہ میں ان کے لیے بڑی عبرت ہے۔ لیکن اس انتباہ سے وہی لوگ متنبہ ہوتے ہیں جو اپنے رب کی طرف رجوع کرنیوالے ہیں۔ آسمان کے حوالے سے ڈراتے ہوئے انہیں بتایا ہے کہ جس آسمان کی چھت کے تلے تم اللہ تعالیٰ کی بغاوت کرتے اور اپنی موت کے بعد زندہ ہونے کا انکار کرتے ہو اگر یہی تم پر ٹوٹ پڑے تو تم اس سے بچ نہیں سکتے گویا کہ تم ہر وقت مقیّدہو اور تم کسی اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ کی گرفت سے باہر نہیں ہو اس لیے اس سے ڈرو اور حقائق کو تسلیم کر کے اپنے آپ کو اسکی گرفت سے محفوظ کرلو اگر تم نصیحت حاصل کرنا چاہتے ہو۔ (یَامَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِِنسِ اِِنْ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنفُذُوْا مِنْ اَقْطَار السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانفُذُوْا لاَ تَنفُذُوْنَ اِِلَّا بِسُلْطٰنٍ ) [ الرحمن : ٣٣] ” اے جنوں اور انسانوں کی جماعت اگر تم میں طاقت ہو کہ آسمانوں و زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ اور سلطٰنکے سوا تم نکل نہیں سکتے۔ “ (عَنِ ابْنِ عُمَر (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَیْنَمَا رَجُلٌ یَجُرُّ اِزَارَہٗ مِنَ الْخُیَلَاءِ خُسِفَ بِہٖ فَھُوَ یَتَجَلْجَلُ فِی الْاَرْضِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک دفعہ ایک شخص تکبر کے ساتھ چادر گھسیٹ کر چل رہا تھا تو اسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ وہ قیامت تک زمین میں دھنستا جائے گا۔ “ مسائل ١۔ انسان زمین و آسمان کے درمیان مقیّد ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ انسان کو زمین میں دھنسانے اور اس پر آسمان کا ٹکڑا گرانے پر قادر ہیں۔ ٣۔ عبرت حاصل کرنے والے کے لیے زمین و آسمان میں بیشمار عبرت کے آثار موجود ہے۔ تفسیر بالقرآن زمین میں دھنسائے جانا اور آسمان سے آفت آنا : ١۔ کیا وہ لوگ بےفکر ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے ؟ (النحل : ٤٥) ٢۔ اگر اللہ کا ہم پہ احسان نہ ہوتا تو ہم زمین میں دھنسا دیے جاتے۔ ( القصص : ٨٢) ٣۔ کیا تم بےخوف ہوگئے ہو کہ اللہ تمہیں دریا کے کنارے زمین میں دھنسا دے یا تم پر تندوتیز آندھی بھیج دے۔ (بنی اسرائیل : ٦٨) ٤۔ ان کے گناہ کی پاداش میں پکڑ لیا کسی پر تند ہوا بھیجی، کسی کو ہولناک آواز نے آلیا، کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ کو غرق کردیا۔ (العنکبوت : ٤٠) ٥۔ کیا بستیوں والے بےفکر ہوگئے ہیں کہ اللہ کا عذاب رات کے وقت اپنی لپیٹ میں لے لے اور وہ سوئے ہوئے ہوں۔ (الاعراف : ٩٥) ٦۔ جب ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے ان کی بستی کو الٹا دیا اور ان پر پتھروں کی بارش برسا دی۔ (ھود : ٨٢) ٧۔ قوم لوط کو ایک سخت آواز نے پکڑ لیا۔ (الحجر : ٧٣) ٨۔ قوم لوط پر کنکر کے پتھر برسائے گئے۔ (الذاریات : ٣٣) ٩۔ ہم نے قوم لوط پر پتھروں کی بارش نازل کی دیکھیے مجرموں کا انجام کیسے ہوا۔ (الاعراف : ٨٤)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

افلم یروا الی ۔۔۔۔۔۔ لکل عبد منیب (9) ” “۔ یہ ایک سخت ڈراؤنا کائناتی منظر ہے۔ یہ منظر ان کے مشاہدات سے ماخوذ ہے جن کو وہ رات اور دن دیکھتے رہتے ہیں۔ زمین کا دھنس جانا بھی انسانی مشاہدہ ہے اور قصص اور روایات میں بھی آتا ہے۔ اسی طرح شہاب ثاقب کے گرنے اور بجلیوں کے گرنے سے بھی آسمانی چیزیں گرتی رہی ہی... ں۔ یہ سب چیزیں ان کو دیکھی سنی ہیں۔ اس قدر خوفناک حالات کی طرف ان کو متوجہ کرکے ڈرایا جاتا ہے جو قیام قیامت کا انکار کرتے ہیں۔ اگر قیام قیامت سے پہلے ہی اللہ ان کو عذاب دینا چاہئے تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اسی زمین اور اسی آسمان میں ان کو یہ عذاب دے دیا جائے جو ان کے آگے پیچھے ان کو گھیرے ہوئے ہے اور یہ ان سے دور بھی نہیں ہے جس طرح قیام قیامت انکو بعید نظر آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے عذاب سے تو غافل لوگ ہی بےفکر ہوتے ہیں یہ آسمانوں کے اندر جو عملیات وہ دیکھتے ہیں ، بجلیاں اور شہاب ثاقب اور زمین کا دھنس جانا اور زلزلے۔ کسی وقت بھی ان میں سے کوئی عذاب اگر آجائے تو قیامت ہی ہوگی۔ ان فی ذلک لایۃ لکل عبد منیب (34: 9) ” حقیقت یہ ہے کہ اس میں نشانی ہے ہر اس بندے کے لیے جو خدا کی طرف رجوع کرنے والا ہو “۔ اور جو غلط راہ پر اس قدر دور نہ چلا گیا ہو۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر ان لوگوں کا تعجب دور کرنے کے لیے فرمایا (اَفَلَمْ یَرَوْا اِلٰی مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ ) اس میں یہ بتایا کہ دیکھو تمہارے سامنے آسمان ہیں اور زمین ہے، تمہیں معلوم ہے کہ ان کا کتنا وجود ہے، کتنی وسعت ہے، یہ بھی مانتے ہو کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا ... فرمایا جس نے انہیں پیدا فرمایا اس کے بارے میں یہ غلط خیال کیسے کرنے لگے کہ وہ چھوٹی سی مخلوق کو یعنی تمہارے وجود کو دوبارہ پیدا نہ کرسکے گا۔ اسی کو سورة المومن میں یوں فرمایا (لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ ) (البتہ آسمانوں اور زمین کا پیدا فرمانا لوگوں کے پیدا فرمانے کی بہ نسبت بڑا کام ہے اور لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے) اور سورة یٰسین میں فرمایا (اَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ ) (کیا وہ ذات جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا فرمایا اس پر قادر نہیں ہے کہ ان کے جیسے پیدا فرما دے) اور سورة احقاف میں فرمایا (اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰی اَنْ یُّحْیِیَ الْمَوْتٰی بَلٰٓی اِِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) (کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جس خدا نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا فرمایا اور ان کے پیدا کرنے میں ذرا بھی نہیں تھکا وہ اس پر قادر ہے کہ مردوں کو زندہ فرمائے، کیوں نہیں، بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ) پھر فرمایا (اِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِھِمُ الْاَرْضَ اَوْ نُسْقِطْ عَلَیْھِمْ کِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ ) (اگر ہم چاہیں تو ان کو زمین میں دھنسا دیں یا اگر چاہیں تو ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں) یعنی آسمان اور زمین کو دیکھ کر یہ لوگ عبرت و بصیرت حاصل نہیں کرتے، ان کے اس انکار و تکذیب کی سزا میں ہم اسی زمین کو اور اسی آسمان کو ان کے لیے عذاب کا ذریعہ بنا سکتے ہیں۔ حکمت کے مقتضا کے باعث گرفت میں جو دیر لگ رہی ہے اس سے دھوکہ نہ کھائیں۔ (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّکُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ ) (بلاشبہ اس میں اس بندے کے لیے بڑی نشانی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو) اور حق کا طالب ہو۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

9:۔ افلم یروا الخ : یہ تخویف دنیوی ہے۔ یہ لوگ کس قدر بیباک اور نڈر ہیں اور کیسی ڈھٹائی سے اللہ کی کتاب، مسئلہ توحید، پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قیامت کے دن کی تکذیب کر رہے ہیں کیا انہوں نے آنکھیں کھول کر اپنے اوپر اور نیچے زمین و آسمان کو کبھی نہیں دیکھا جنہوں نے ان کو ہر طرف سے گھیر ر... کھا ہے ؟ ان کا انکار وعناد تو اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ انہیں دنیا ہی میں ہولناک عذاب سے ہلاک کردیا جائے۔ اگر ہم چاہیں تو اقوام گذشتہ کی طرح انکار اور تکذیب کے جرم میں ان کو زمین میں دھنسا کر یا آسمان سے پتھر برسا کر تباہ و برباد کردیں۔ استئناف مسوق لتھویل ماجترء وا علیہ من تکذیب آیات اللہ تعالیٰ و استعظام ما قالوا فی حقہ (علیہ الصلوۃ والسلام) وانہ من العظائم الموجبۃ لنزول اشد العقاب وحلول افظع العذاب من غیرریث وتاخیر (ابو السعود جلد 7 ص 6) ۔ ان فی ذلک الخ : اس میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والے اور فرمانبردار بندوں کے لیے اللہ کی قدرت کاملہ پر واضح دلیل ہے اور اس سے عیاں ہے کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے اور یہ کام اس کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ ای لدلالۃ واضحۃ علی کمال قدرۃ اللہ عز وجل و انہ لا یعجزہ البعث بعد الموت و تفرق الاجزاء المحاطۃ بہا (روح ج 22 ص 112) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) بھلا کیا انہوں نے آسمان اور زمین کی طرف نظر نہیں کی جو ان کے آگے بھی اور پیچھے بھی موجود ہیں اگر ہم چاہیں تو ان کو زمین میں دھنسا دیں یا اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے کوئی ٹکڑا گرا دیں۔ اس دلیل مذکور میں بڑی واضح اور سبق آموز دلیل ہے اس بندے کیلئے جو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنیوالا ہے۔ یعنی آس... مان و زمین جو ان کو دکھائی دیتے ہیں اور جہاں جائیں یہ ان کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ ان زمین و آسمان پر نظر نہیں کرتے اور غور و فکر سے کام نہیں لیتے کہ زمین و آسمان کے گھیرے میں گھرے ہوئے انسانوں کی کیا بساط جب اللہ تعالیٰ چاہے زمین میں قارون کی طرح دھنسا دے اور چاہے تو ایکہ والوں کی طرح جو حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم تھی آسمان سے کوئی عذاب نازل کر دے وہ بھی کہا کرتے تھے کہ آسمان کا کوئی ٹکڑا ہم پر گرا دے تو ان پر بادل آیا اور آگ برسی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں وعید بھی ہو اور دوبارہ مردوں کے زندہ ہونے کی دلیل بھی ہو کہ جس اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا آسمان اور زمین پیدا کیا اس کو دوبارہ انسان کے پیدا کرنے میں کیا دشواری ہوسکتی ہے۔ رجوع کرنیوالا بندہ وہ ہے جو ہر اس شئے سے جو اللہ سے غافل کرنیوالی ہو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے۔ حضرت ابراہیم بن ادھم (رض) نے فرمایا جو اپنی توبہ میں سچا ثابت ہو وہ منیب ہے۔ بہرحال ! آگے بعض ایسے حضرات کا ذکر ہے جو انابت میں کامل تھے۔  Show more