Commentary As for the statement: جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا (who makes the angels messengers), it means that angels were assigned to convey the messages and injunctions of Allah Ta’ ala. From this, it is obvious that they are sent to the noble prophets (علیہم السلام) as the message-bearers or envoys of Allah. They convey the revelations and the injunctions of Allah to them. And it is also possible that the word: رسول (Rasul) used here may be denoting the sense of link at this place, that is, they become a link between Allah Ta’ ala and His universal creation out of which the noble prophets (علیہم السلام) are the superior-most. Thus, they also become an intermediary link for the transmittal of revelation from Allah Ta ala to them. Then, these very angels happen to be the means of bringing the mercy of Allah or His punishment to the universal creation. The next statement: أُولِي أَجْنِحَةٍ مَّثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ (having wings, in twos and threes and fours) means that Allah Ta’ ala has given to the angels feathered wings they can fly with. The wise consideration behind it is obvious as they traverse the distance between the heavens and the earth repeatedly, and this can become possible only when they are endowed with the necessary speed to so traverse, something that can come about in the mode of flying only: And the words: مَّثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ (in twos and threes and fours) are, evidently enough, numerical adjectives referring to: أَجْنِحَةٍ (wings) in the sense that the number of the feathers angels have varies from angel to angel . Some have only two wings. Others have three. Still others have four. Even the numbers mentioned here are not comprehensive, rather they are mentioned here just as an example, because it is proved by a Hadith in Sahih of Muslim that Sayyidna Jibra&il (علیہ السلام) has six hundred feathers. (Qurtubi, Ibn Kathir) Moreover, it is also possible that these three words are numerical adjectives referring to the word: رُسُلًا ، (rusulan: bearers of the message) in the sense that these angels who deliver messages from Allah Ta’ ala to this world sometimes come in twos and at others in threes or fours. Once again, in this situation too, the number of four is not intended for restriction. It is there just for example because the coming of angels in a much larger number stands proved from the Qur&an itself. (Abu Hayyan in al-Bahr ul-Muhit) The next sentence: يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ (He adds to the creation what He wills) means that Allah Ta’ ala has the power to increase whatever He wills and as much as He wills in the creation of everything He has originated. This obviously is related to: أَجْنِحَةٍ (ajnihah: wings) in that the feathers and wings of the angels are not something simply restricted to two or four in numbers, for they could be many more than these if Allah Ta’ ala so wills. Most commentators say exactly this. And Tafsir authorities Zuhri, Qatadah and others have said that this increase in creation is to be taken in its general sense which includes increase in the feathers and wings of angels as well as the increase of particular attributes in the creation of different human beings which, then, includes the beauty of form, the beauty of character, the beauty of voice and many more increased assets like these. Abu Hayyan has, in al-Bahr ul-Muhit, followed this track of explanation and said that things like good manners, beauty of figure and face, perfection of reason and intellect, politeness in discourse and similar others are all included therein. This second Tafsir proves that the beauty or perfection of anything one has is invariably a gift and blessing from Allah Ta’ ala for which one should be grateful to Him.
خلاصہ تفسیر تمام تر حمدو ثناء اسی) اللہ کو لائق ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، جو فرشتوں کو پیغام رساں بنانے والا ہے، جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار پر دار بازو ہیں (پیغام سے مراد انبیاء (علیہم السلام) کی طرف وحی لانا ہے خواہ وہ شرائع احکام سے متعلق ہو یا محض بشارت وغیرہ سے، اور بازوؤں کی تعداد کچھ چار چار ہی میں منحصر نہیں بلکہ) وہ پیدائش میں جو چاہتا ہے زیادہ کردیتا ہے (یہاں تک کہ بعض فرشتوں کے چھ سو بازو (پیدا کیے ہیں جیسا کہ حدیث میں حضرت جبرئیل کے متعلق آیا ہے) بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (اور قادر بھی ایسا جس کا کوئی مزاحم نہیں کہ وہ) اللہ جو رحمت لوگوں کے لئے کھول دے (مثلاً بارش، نباتات اور عام رزق) تو اس کا کوئی بند کرنے والا نہیں اور جس کو بند کر دے تو اس کے (بند کرنے کے) بعد اس کا کوئی جاری کرنے والا نہیں (البتہ وہ خود ہی بند و کشاد کرسکتا ہے) اور وہی غالب (یعنی قادر اور) حکمت والا ہے (یعنی کھولنے اور بند کرنے پر قادر بھی ہے اور بند و کشاد ہمیشہ حکمت کے ساتھ ہوتی ہے) اے لوگو ! جیسے اس کی قدرت کامل ہے اسی طرح اس کی نعمت بھی کامل ہے، اس کی نعمتوں کی کوئی شمار نہیں، اس لئے) تم پر جو اللہ کے احسانات ہیں ان کو یاد کرو (اور ان کا شکریہ ادا کرو اور وہ شکر یہ ہے کہ توحید اختیار کرو شرک چھوڑو کم از کم اس کی دو بڑی نعمتوں میں غور کرو جو مخلوقات کی ایجاد پھر ان کو باقی اور قائم رکھنا ہے) کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خالق ہے جو تم کو آسمان و زمین سے رزق پہنچاتا ہو (یعنی اس کے سوا نہ کوئی تخلیق و ایجاد کرسکتا ہے اور نہ کوئی ایجاد کردہ کو باقی اور قائم رکھنے کے لئے رزق پہنچانے کا کام کرسکتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ وہ ہر طرح کامل ہے تو یقیناً اس کے سوا کوئی لائحق عبادت (بھی) نہیں تو (جب معبود ہونا اسی کا حق ہے تو) تم (شرک کر کے) کہاں الٹے جا رہے ہو۔ معارف ومسائل جاعل الملئکة رسلا، فرشتوں کو رسول یعنی اللہ تعالیٰ کا پیغام اور احکام پہنچانے والا بنانے کا مطلب ظاہر یہ ہے کہ ان کو انبیاء (علیہم السلام) کی طرف اللہ کا قاصد و رسول بنا کر بھیجا جاتا ہے وہ اللہ کی وحی اور احکام ان کو پہنچاتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ رسول سے مراد اس جگہ واسطہ ہو اللہ تعالیٰ اور اس کی عام مخلوقات کے درمیان جن میں انبیاء (علیہم السلام) سب سے افضل و اعلیٰ ہیں ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان بھی وحی کا واسطہ بنتے ہیں اور عام مخلوقات تک اللہ تعالیٰ کی رحمت یا عذاب پہنچانے کا بھی واسطہ فرشتے ہی ہوتے ہیں۔ اولی اجنحة مثنی و ثلاث ورباع یعنی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پر والے بازو عطا فرمائے ہیں جن سے وہ اڑ سکتے ہیں حکمت اس کی ظاہر ہے کہ وہ آسمان سے زمین تک کی مسافت بار بار طے کرتے ہیں، یہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ ان کو سرعت سیر کی قوت عطا کی جائے اور وہ اڑنے ہی کی صورت میں ہوتی ہے۔ اور لفظ مثنی و ثلاث ورباع ظاہر یہ ہے کہ اجنحۃ کی صفت ہے کہ فرشتوں کے پر مختلف تعداد پر مشتمل ہیں۔ بعض کے صرف دو دو پر ہیں بعض کے تین تین بعض کے چار چار اور اس میں کوئی حصر نہیں، جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث سے جبریل (علیہ السلام) کے چھ سو پر ہونا ثابت ہوتا ہے، بطور تمثیل کے چار تک ذکر کردیا گیا ہے۔ (قرطبی، ابن کثیر) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لفظ مثنی و ثلث رسلاً کی صفت ہو یعنی یہ فرشتے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسالات دنیا میں پہنچاتے ہیں، کبھی دو دو آتے ہیں کبھی تین تین یا چار چار اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس صورت میں بھی چار کا عدد حصر کے لئے نہیں، محض تمثیل کے طور پر ہے، کیونکہ اس سے بہت زیادہ مقدار میں فرشتوں کا نزول خود قرآن کریم سے ثابت ہے (ابوحیان فی البحر المحیط) یزید فی الخلق ما یشاء یعنی اللہ تعالیٰ کو سب اختیار ہے کہ اپنی مخلوقات کی تخلیق میں جتنی چاہے اور جس قسم کی چاہے زیادتی کرے۔ اس کا تعلق بظاہر تو اجنحہ ہی کے ساتھ ہے کہ فرشتوں کے پر وبازو کچھ دو چار میں منحصر نہیں، اللہ تعالیٰ چاہے تو اس سے بہت زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ اکثر مفسرین کا قول یہی ہے اور زہری، قتادہ وغیرہ ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ اس زیادت خلق سے عام معنی مراد ہیں، جس میں فرشتوں کے پر وبازو کی زیادتی بھی شامل ہے اور مختلف انسانوں کی تخلیق میں خاص خاص صفات کی زیادتی بھی۔ جس میں حسن صورت، حسن سیرت، حسن صوت وغیرہ سب داخل ہیں۔ ابوحیان نے بحر محیط میں اسی کو اختیار کر کے فرمایا ہے کہ اس زیادت خلق میں حسن خلق، حسن صوت اور حسن خط اور حسن صورت کمال عقل و علم، شیریں کلامی وغیرہ سب داخل ہیں۔ اس دوسری تفسیر سے ثابت ہوا کہ کسی چیز کا بھی حسن و کمال جو انسان کو حاصل ہو وہ اللہ تعالیٰ کی عطاء اور نعمت ہے، اس کا شکر گذار ہونا چاہئے۔