Surat Faatir

Surah: 35

Verse: 1

سورة فاطر

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ جَاعِلِ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا اُولِیۡۤ اَجۡنِحَۃٍ مَّثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ؕ یَزِیۡدُ فِی الۡخَلۡقِ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱﴾

[All] praise is [due] to Allah , Creator of the heavens and the earth, [who] made the angels messengers having wings, two or three or four. He increases in creation what He wills. Indeed, Allah is over all things competent.

اس اللہ کے لئے تمام تعریفیں سزاوار ہیں جو ( ابتداء ) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا اور دو دو تین تین چار چار پروں والے فرشتوں کو اپنا پیغمبر ( قاصد ) بنانے والا ہے مخلوق میں جو چاہے زیادتی کرتا ہے اللہ تعالٰی یقیناً ہرچیز پر قادر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Power of Allah الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ ... All praise is due to Allah, Fatir of the heavens and the earth, Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, said, "I did not know whatFatir As-Samawati wal-Ard meant until two Bedouins came to me disputing over a well. One of them said to his companion, `Ana Fatartuha,' meaning, `I started it."' Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, also said, فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالاْاَرْضِ (Fatir of the heavens and the earth) means, "The Originator of the heavens and the earth." Ad-Dahhak said, "Every time the phrase Fatir As-Samawati wal-Ard is used in the Qur'an, it means the Creator of the heavens and the earth." ... جَاعِلِ الْمَلَايِكَةِ رُسُلًا ... Who made the angels messengers, means, between Him and His Prophets. ... أُولِي أَجْنِحَةٍ ... with wings, means, with which they fly to convey quickly that which they have been commanded to convey. ... مَّثْنَى وَثُلَثَ وَرُبَاعَ ... two or three or four, means, among them are some who have two wings, some have three and some who have four. Some have more than that, as stated in the Hadith mentioning that the Messenger of Allah saw Jibril, peace be upon him, on the Night of the Isra with six hundred wings. Between each pair of wings was a distance like that between the east and the west. Allah says: ... يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاء إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ He increases in creation what He wills. Verily, Allah is Able to do all things. As-Suddi said, "He increases their wings and creates them as He wills."

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں فاطر کی بالکل ٹھیک معنی میں نے سب سے پہلے ایک اعرابی کی زبان سے سن کر معلوم کئے ۔ وہ اپنے ایک ساتھی اعرابی سے جھگڑتا ہوا آیا ایک کنویں کے بارے میں ان کا اختلاف تھا تو اعرابی نے کہا انا فطرتھا یعنی پہلے پہل میں نے ہی اسے بنایا ہے پس معنی یہ ہوئے کہ ابتداء بےنمونہ صرف اپنی قدرت کاملہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ۔ ضحاک سے مروی ہے کہ فاطر کے معنی خالق کے ہیں ۔ اپنے اور اپنے نبیوں کے درمیان قاصد اس نے اپنے فرشتوں کو بنایا ہے ۔ جو پر والے ہیں اڑتے ہیں تاکہ جلدی سے اللہ کا پیغام اس کے رسولوں تک پہنچا دیں ۔ اس میں سے بعض دو پروں والے ہیں بعض کے تین تین ہیں بعض کے چار چار پر ہیں ۔ بعض ان سے بھی زیادہ ہیں ۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل کو دیکھا ان کے چھ سو پر تھے اور ہر دو پر کے درمیان مشرق و مغرب جتنا فاصلہ تھا ۔ یہاں بھی فرماتا ہے رب جو چاہے اپنی مخلوق میں زیادتی کرے ۔ جس سے چاہتا ہے اس سے بھی زیادہ پر کر دیتا ہے اور کائنات میں جو چاہے رچاتا ہے ۔ اس سے مراد اچھی آواز بھی لی گئی ۔ چنانچہ ایک شاذ قرأت فی الحلن ح کے ساتھ بھی ہے ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 فَاطِر، ُ کے معنی ہیں، پہلے پہل ایجاد کرنے والا، یہ اشارہ ہے اللہ کی قدرت کی طرف کہ اس نے آسمان و زمین پہلے پہل بغیر نمونے کے بنائے، تو اس کے لئے دوبارہ انسانوں کو پیدا کرنا کون سا مشکل ہے ؟۔ 1۔ 2 مراد جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل فرشتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ انبیاء کی طرف یا مختلف مہمات پر قاصد بنا کر بھیجتا ہے۔ ان میں کسی کے دو کسی کے تین کسی کے چار پر ہیں جن کے ذریعے سے وہ زمین پر آتے اور زمین سے آسمان پر جاتے ہیں۔ 1۔ 3 یعنی بعض فرشتوں کے اس سے بھی زیادہ پر ہیں، جیسے حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، میں نے معراج کی رات جبرائیل (علیہ السلام) کو اصلی صورت میں دیکھا اس کے چھ سو پر تھے (صحیح بخاری

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ١] فَطَرَ کا مفہوم :۔ پیدا کرنے کے معنوں میں قرآن کریم میں چھ مترادف الفاظ آئے ہیں۔ اور ہر لفظ کے مفہوم میں کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے۔ فطر کا معنی کسی چیز کو پیدا کرنا، پھر اس کو تراش خراش کرکے اسے خوبصورت شکل دینا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے آسمانوں یا زمین یعنی کائنات کو صرف پیدا ہی نہیں کیا بلکہ اسے تراش خراش کر بہترین شکل و صورت پر بنایا ہے۔ [ ٢] پیغام رساں فرشتے :۔ فرشتوں کے ذمہ کئی قسم کے کام ہیں۔ جن میں سے ایک کام پیغام رسانی بھی ہے۔ پیغام رسانی کی ایک قسم تو معروف ہے کہ جبرئیل فرشتہ اللہ کا پیغام لے کر نبی کے دل پر نازل ہوتا ہے۔ باقی صورتیں یہ ہیں کہ جو فرشتے تدبیر امور کائنات پر مامور ہیں ان کے ہاں بھی بعض فرشتے اللہ کا حکم لے کر پہنچتے ہیں اور پیغام رسانی کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ [ ٣] فرشتوں کے پر اور سرعت رفتار :۔ فرشتوں کے پر کیسے ہوتے ہیں ؟ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہمارے ذہن میں تو پرندوں کے پر ہی آسکتے ہیں۔ جو فضا میں اڑنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پرندوں کو عطا کیے ہیں اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے۔ جس فرشتے کو جتنی زیادہ سرعت رفتار سے اپنی ڈیوٹی پر پہنچنا ہوتا ہے اسی قدر اسے زیادہ پر عطا کیے جاتے ہیں، کم سے کم دو پر ہوتے ہیں پھر کسی فرشتے کے تین پر بھی ہوتے ہیں اور کسی کے چار بھی۔ اس آیت سے اس حقیقت کا بھی پتا چلتا ہے کہ فرشتے دراصل اللہ تعالیٰ کے خادم اور فرمانبردار بندے ہیں۔ وہ وہی کام کرتے ہیں جس کا اللہ انہیں حکم دیتا ہے اور اتنا ہی کرتے ہیں جتنا انہیں حکم ہوتا ہے۔ وہ اپنے ارادہ و اختیار سے نہ اللہ کے حکم میں سرمو کمی بیشی کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ گویا اس آیت سے تمام مشرکوں کے اس نظریہ کی تردید ہوگئی جو انہیں ایک بااختیار بلکہ اللہ کے اختیار و تصرف میں شریک سمجھ کر ان کی پرستش کرتے ہیں۔ [ ٤] ربط مضمون کے لحاظ سے اس جملہ کا معنی یہ ہوگا کہ بعض فرشتوں کے پر چار سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ میں نے ایک دفعہ جبرئیل کو اس کی اصلی حالت میں دیکھا۔ اس کے چھ سو پر تھے۔ اور مشرق و مغرب کی پوری فضا اس سے بھری ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورة نجم) اگر اس جملہ کو عام سمجھا جائے تو یہ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوگا۔ مثلاً وہ انسان کی نسل جتنی چاہے بڑھاتا رہتا ہے۔ حیوانات اور نباتات کی نئی سے نئی انواع وجود میں لاتا رہتا ہے۔ نئے سے نئے سیارے کائنات میں پیدا کرتا رہتا ہے اور کائنات کو ہر آن وسیع کر رہا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : ” فَطَرَ یَفْطِرُ فَطْرًا “ (ض، ن) نئے سرے سے پیدا کرنا، پھاڑنا۔ سورت کی ابتدا اس دعوے کے ساتھ ہوئی ہے کہ تمام خوبیوں اور سب تعریف کا حق دار اللہ وحدہ ہے۔ ” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ “ کی تفسیر سورة فاتحہ کی ابتدا میں ملاحظہ فرمائیں۔ اس کے بعد پوری سورت میں اس بات کے دلائل بیان ہوئے ہیں کہ وہ اکیلا تمام خوبیوں کا مالک اور معبود برحق ہے۔ درمیان میں توحید کے ساتھ ساتھ نبوت، قیامت اور ان سے متعلق بعض باتوں کا ذکر بھی ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کے اکیلے معبود برحق ہونے کی پہلی دلیل یہ بیان فرمائی کہ وہ آسمان و زمین کو ابتداءً کسی نمونے کے بغیر عدم سے پھاڑ نکالنے والا ہے۔ آسمان و زمین سے مراد ساری کائنات ہے۔ جب پیدا کرنے والا وہ ہے تو عبادت کا حق دار کوئی دوسرا کیسے ہوسکتا ہے ؟ یہی بات آگے صراحت کے ساتھ آیت (٣) میں آرہی ہے۔ پھر اس نے اپنی مخلوق کو پیدا فرما کر ایسے ہی نہیں چھوڑ دیا، بلکہ ان کے لیے دنیا کی ہر ضرورت مہیا فرمائی اور اس کی طرف ان کی راہ نمائی فرمائی، فرمایا : ( رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى ) [ طٰہٰ : ٥٠ ] ” ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی، پھر راستہ دکھایا۔ “ فطری ہدایت کے علاوہ انبیاء و رسل کو مبعوث فرمایا، اس کا ذکر آیت (٤) میں ہے۔ پھر ظاہر ہے کہ جب اس نے پہلے پہل نمونے کے بغیر یہ سب کچھ پیدا فرما لیا تو دوبارہ بنانا اس کے لیے کیا مشکل ہے، اس کا صراحت کے ساتھ ذکر آیت (٥) میں آرہا ہے۔ جَاعِلِ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا : ” رُسُلًا “ ” رَسُوْلٌ“ (بروزن فَعُوْلٌ“ بمعنی مَفْعُوْلٌ) کی جمع ہے، جسے کوئی پیغام دے کر بھیجا جائے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے جن انبیاء و رسل کا انتخاب فرمایا، ان کے پاس اپنا پیغام پہنچانے کے لیے اس نے فرشتوں کو اپنا رسول بنایا۔ (دیکھیے سورة شوریٰ : ٥١) ان میں سب سے بڑی شان والے جبریل (علیہ السلام) ہیں۔ ان کا لقب ” اَلرُّوْحُ الْأَمِیْنُ “ ہے۔ بعض اوقات وہ دوسرے فرشتوں کو بھی پیغام پہنچانے کے لیے یا اپنے احکام کی تنفیذ کے لیے بھیجتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف میں کفار کی بدسلوکی اور زیادتی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ( فَانْطَلَقْتُ وَ أَنَا مَہْمُوْمٌ عَلٰی وَجْہِيْ فَلَمْ أَسْتَفِقْ إِلَّا وَأَنَا بِقَرْنِ الثَّعَالِبِ فَرَفَعْتُ رَأْسِيْ فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَۃٍ قَدْ أَظَلَّتْنِيْ فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِیْہَا جِبْرِیْلُ فَنَادَانِيْ فَقَالَ إِنَّ اللّٰہَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِکَ لَکَ وَمَا رَدُّوْا عَلَیْکَ وَ قَدْ بَعَثَ اللّٰہُ إِلَیْکَ مَلَکَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَہُ بِمَا شِءْتَ فِیْہِمْ فَنَادَانِيْ مَلَکُ الْجِبَالِ فَسَلَّمَ عَلَيَّ ثُمَّ قَالَ یَا مُحَمَّدُ ! إِنَّ اللّٰہَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِکَ لَکَ ، وَ أَنَا مَلَکُ الْجِبَالِ وَ قَدْ بَعَثَنِيْ رَبُّکَ إِلَیْکَ لِتَأْمُرَنِيْ بِأَمْرِکَ فَمَا شِءْتَ ؟ إِنْ شِءْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَیْہِمُ الْأَخْشَبَیْنِ فَقَال النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَلْ أَرْجُوْ أَنْ یُّخْرِجَ اللّٰہُ مِنْ أَصْلاَبِہِمْ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ وَحْدَہُ لَا یُشْرِکُ بِہِ شَیْءًا ) [ بخاري، بدء الخلق، باب إذا قال أحدکم آمین و الملائکۃ ۔۔ : ٣٢٣١۔ مسلم : ١٧٩٥ ] ” تو میں غم کی حالت میں جدھر منہ تھا چل پڑا۔ مجھے افاقہ ہوا تو میں قرن الثعالب پر تھا، میں نے سر اٹھایا تو ایک بدلی نے مجھ پر سایہ کیا ہوا تھا۔ میں نے دیکھا تو اس میں جبریل (علیہ السلام) تھے۔ انھوں نے مجھے آواز دی اور کہا : ” اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی بات اور آپ کو ان کا جواب سن لیا اور اس نے آپ کی طرف پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے، تاکہ آپ ان کے متعلق اسے جو چاہیں حکم دیں۔ “ پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی اور مجھے سلام کہا، پھر کہا : ” اے محمد ! اللہ عزوجل نے آپ کی قوم کی بات سن لی ہے، میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اور آپ کے رب نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے، تاکہ آپ مجھے جو حکم چاہیں کریں ؟ اگر چاہیں کہ میں انھیں دو پہاڑوں کے درمیان پیس دوں تو میں ایسے کردیتا ہوں۔ “ تو میں نے کہا : ” بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے وہ لوگ نکالے گا جو اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔ “ بعض اوقات فرشتوں کو انبیاء کے علاوہ بھی اپنے صالح بندوں کو بشارت دینے کے لیے یا ان کی راہ نمائی کے لیے خواب میں یا بیداری میں بھیج دیتا ہے، جیسا کہ اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ، موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ اور مریم (علیہ السلام) کا معاملہ ہوا اور جیسا کہ وہ میدان قتال میں مجاہدین کے دل مضبوط رکھنے کے لیے فرشتوں کو بھیجتا ہے۔ بعض اوقات وہ انھیں آزمائش کے لیے بھی بھیج دیتا ہے، جیسا کہ صحیح بخاری (٣٤٦٤) میں گنجے، برص والے اور اندھے کا قصہ مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ “ کی دلیل کے طور پر یہاں آسمان و زمین کی پیدائش کے بعد فرشتوں کا ذکر اس لیے فرمایا کہ وہ اس کے ہاں بہت معزز مقام رکھتے ہیں، اس کے باوجود اس کے بندے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ ) [ الأنبیاء : ٢٦ ] ” بلکہ وہ بندے ہیں جنھیں عزت دی گئی ہے۔ “ ان کے ذمے اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچانا ہے اور انھیں نافذ کرنا بھی، جیسا کہ فرمایا : (فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا) [ النازعات : ٥ ] ” پھر جو کسی کام کی تدبیر کرنے والے ہیں ! “ اس میں مشرکین کو اس بات کی طرف توجہ دلانا بھی مقصود ہے کہ جن فرشتوں کو تم نے معبود بنا رکھا ہے وہ اپنا اختیار کچھ نہیں رکھتے، ان کی حیثیت محض رسول (قاصد) کی ہے جس کی اپنی بات کچھ نہیں ہوتی، بلکہ وہ بھیجنے والے کا پیغام پہنچاتا ہے، یا اس پر عمل کرتا ہے۔ اُولِيْٓ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۭ : فرشتوں کی پیدائش میں اپنے کمال قدرت کے بیان کے لیے ان کے ” اجنحۃ “ کا ذکر فرمایا، جو ” جَنَاحٌ“ (بفتح جیم) کی جمع ہے۔ یہ لفظ ہاتھ، بازو اور پہلو کے معنی میں بھی آتا ہے، مگر پرندوں کے ذکر کے ساتھ اس کا معنی ” پَر “ ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ ) [ الأنعام : ٣٨ ] ” اور نہ کوئی اڑنے والا، جو اپنے دو پروں سے اڑتا ہے۔ “ فرشتوں کی آسمانوں اور زمین میں آمد و رفت کے لیے پَر ہی موزوں ہوسکتے ہیں، اب اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، یا جس نے انھیں اصل صورت میں دیکھا ہے کہ ان ” اجنحۃ “ کی کیا کیفیت ہے ؟ آیا وہ صرف پرواز کے لیے ہیں، یا وہی بازوؤں کا کام بھی دیتے ہیں۔ آیت سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے پَر کم از کم دو ضرور ہیں، زیادہ کی حد اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ تین تین، چار چار سے معلوم ہوا کہ وہ دو سے زیادہ پروں والے بھی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ضروری نہیں فرشتوں کے پر جفت عدد میں ہوں بلکہ طاق بھی ہیں۔ يَزِيْدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاۗءُ : اس جملے کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں اور سبھی بیک وقت مراد لیے جاسکتے ہیں اور جامع کلمات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو پیدا کرتے ہوئے جس کے پَر جتنے چاہتا ہے زیادہ بنا دیتا ہے، جس سے ان کی قوت پرواز میں بےحساب اضافہ ہوجاتا ہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں : ( أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ رَأَی جِبْرِیْلَ ، لَہُ سِتُّمِاءَۃِ جَنَاحٍ ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ تعالیٰ : ( فأوحی إلی عبدہ ما أوحی ) : ٤٨٥٧ ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل (علیہ السلام) کو (اصل صورت میں) دیکھا، ان کے چھ سو پَر تھے۔ “ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ساری مخلوق میں سے جس میں چاہتا ہے اور جتنی چاہتا ہے زیادتی کردیتا ہے، مثلاً طویل القامت یا قصیر القامت ہونے میں، حسن و جمال میں، عقل و دانش میں، جرأت و بہادری میں، سخاوت و بخل میں، بلندی و پستی میں، قوت و ضعف میں، غرض کمیت و کیفیت کی بیشمار صورتوں میں جتنی چاہتا ہے زیادتی کردیتا ہے۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ اس نے جتنی مخلوق بنائی ہے اس میں جتنا چاہتا ہے اضافہ کرتا رہتا ہے، نئی سے نئی مخلوق، نئے سے نئے سیارے، نئی کہکشائیں، نئے حیوانات و جمادات و نباتات پیدا فرماتا رہتا ہے۔ سورة رحمٰن میں ہے : ( كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ ) [ الرحمٰن : ٢٩ ] ” ہر دن وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔ “ اس میں یہود کا رد ہے، جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کے بعد ساتویں دن فارغ ہوگیا، اب وہ مزید کوئی چیز پیدا نہیں کرتا۔ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ : ” اِنَّ “ عموماً پہلی بات کی علت بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ خلق میں اپنی مرضی کے مطابق اضافہ کرتا ہے اور زمین و آسمان کی اور پروں والے پیغام رساں فرشتوں کی پیدائش فرماتا ہے، کیونکہ وہ ہر چیز پر پوری طرح قارد ہے۔ وہاں کسی بھی ارادے کے پورا کرنے میں کسی عجز کا تصور نہیں ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary As for the statement: جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُ‌سُلًا (who makes the angels messengers), it means that angels were assigned to convey the messages and injunctions of Allah Ta’ ala. From this, it is obvious that they are sent to the noble prophets (علیہم السلام) as the message-bearers or envoys of Allah. They convey the revelations and the injunctions of Allah to them. And it is also possible that the word: رسول (Rasul) used here may be denoting the sense of link at this place, that is, they become a link between Allah Ta’ ala and His universal creation out of which the noble prophets (علیہم السلام) are the superior-most. Thus, they also become an intermediary link for the transmittal of revelation from Allah Ta ala to them. Then, these very angels happen to be the means of bringing the mercy of Allah or His punishment to the universal creation. The next statement: أُولِي أَجْنِحَةٍ مَّثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُ‌بَاعَ (having wings, in twos and threes and fours) means that Allah Ta’ ala has given to the angels feathered wings they can fly with. The wise consideration behind it is obvious as they traverse the distance between the heavens and the earth repeatedly, and this can become possible only when they are endowed with the necessary speed to so traverse, something that can come about in the mode of flying only: And the words: مَّثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُ‌بَاعَ (in twos and threes and fours) are, evidently enough, numerical adjectives referring to: أَجْنِحَةٍ (wings) in the sense that the number of the feathers angels have varies from angel to angel . Some have only two wings. Others have three. Still others have four. Even the numbers mentioned here are not comprehensive, rather they are mentioned here just as an example, because it is proved by a Hadith in Sahih of Muslim that Sayyidna Jibra&il (علیہ السلام) has six hundred feathers. (Qurtubi, Ibn Kathir) Moreover, it is also possible that these three words are numerical adjectives referring to the word: رُ‌سُلًا ، (rusulan: bearers of the message) in the sense that these angels who deliver messages from Allah Ta’ ala to this world sometimes come in twos and at others in threes or fours. Once again, in this situation too, the number of four is not intended for restriction. It is there just for example because the coming of angels in a much larger number stands proved from the Qur&an itself. (Abu Hayyan in al-Bahr ul-Muhit) The next sentence: يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ (He adds to the creation what He wills) means that Allah Ta’ ala has the power to increase whatever He wills and as much as He wills in the creation of everything He has originated. This obviously is related to: أَجْنِحَةٍ (ajnihah: wings) in that the feathers and wings of the angels are not something simply restricted to two or four in numbers, for they could be many more than these if Allah Ta’ ala so wills. Most commentators say exactly this. And Tafsir authorities Zuhri, Qatadah and others have said that this increase in creation is to be taken in its general sense which includes increase in the feathers and wings of angels as well as the increase of particular attributes in the creation of different human beings which, then, includes the beauty of form, the beauty of character, the beauty of voice and many more increased assets like these. Abu Hayyan has, in al-Bahr ul-Muhit, followed this track of explanation and said that things like good manners, beauty of figure and face, perfection of reason and intellect, politeness in discourse and similar others are all included therein. This second Tafsir proves that the beauty or perfection of anything one has is invariably a gift and blessing from Allah Ta’ ala for which one should be grateful to Him.

خلاصہ تفسیر تمام تر حمدو ثناء اسی) اللہ کو لائق ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، جو فرشتوں کو پیغام رساں بنانے والا ہے، جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار پر دار بازو ہیں (پیغام سے مراد انبیاء (علیہم السلام) کی طرف وحی لانا ہے خواہ وہ شرائع احکام سے متعلق ہو یا محض بشارت وغیرہ سے، اور بازوؤں کی تعداد کچھ چار چار ہی میں منحصر نہیں بلکہ) وہ پیدائش میں جو چاہتا ہے زیادہ کردیتا ہے (یہاں تک کہ بعض فرشتوں کے چھ سو بازو (پیدا کیے ہیں جیسا کہ حدیث میں حضرت جبرئیل کے متعلق آیا ہے) بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (اور قادر بھی ایسا جس کا کوئی مزاحم نہیں کہ وہ) اللہ جو رحمت لوگوں کے لئے کھول دے (مثلاً بارش، نباتات اور عام رزق) تو اس کا کوئی بند کرنے والا نہیں اور جس کو بند کر دے تو اس کے (بند کرنے کے) بعد اس کا کوئی جاری کرنے والا نہیں (البتہ وہ خود ہی بند و کشاد کرسکتا ہے) اور وہی غالب (یعنی قادر اور) حکمت والا ہے (یعنی کھولنے اور بند کرنے پر قادر بھی ہے اور بند و کشاد ہمیشہ حکمت کے ساتھ ہوتی ہے) اے لوگو ! جیسے اس کی قدرت کامل ہے اسی طرح اس کی نعمت بھی کامل ہے، اس کی نعمتوں کی کوئی شمار نہیں، اس لئے) تم پر جو اللہ کے احسانات ہیں ان کو یاد کرو (اور ان کا شکریہ ادا کرو اور وہ شکر یہ ہے کہ توحید اختیار کرو شرک چھوڑو کم از کم اس کی دو بڑی نعمتوں میں غور کرو جو مخلوقات کی ایجاد پھر ان کو باقی اور قائم رکھنا ہے) کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خالق ہے جو تم کو آسمان و زمین سے رزق پہنچاتا ہو (یعنی اس کے سوا نہ کوئی تخلیق و ایجاد کرسکتا ہے اور نہ کوئی ایجاد کردہ کو باقی اور قائم رکھنے کے لئے رزق پہنچانے کا کام کرسکتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ وہ ہر طرح کامل ہے تو یقیناً اس کے سوا کوئی لائحق عبادت (بھی) نہیں تو (جب معبود ہونا اسی کا حق ہے تو) تم (شرک کر کے) کہاں الٹے جا رہے ہو۔ معارف ومسائل جاعل الملئکة رسلا، فرشتوں کو رسول یعنی اللہ تعالیٰ کا پیغام اور احکام پہنچانے والا بنانے کا مطلب ظاہر یہ ہے کہ ان کو انبیاء (علیہم السلام) کی طرف اللہ کا قاصد و رسول بنا کر بھیجا جاتا ہے وہ اللہ کی وحی اور احکام ان کو پہنچاتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ رسول سے مراد اس جگہ واسطہ ہو اللہ تعالیٰ اور اس کی عام مخلوقات کے درمیان جن میں انبیاء (علیہم السلام) سب سے افضل و اعلیٰ ہیں ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان بھی وحی کا واسطہ بنتے ہیں اور عام مخلوقات تک اللہ تعالیٰ کی رحمت یا عذاب پہنچانے کا بھی واسطہ فرشتے ہی ہوتے ہیں۔ اولی اجنحة مثنی و ثلاث ورباع یعنی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پر والے بازو عطا فرمائے ہیں جن سے وہ اڑ سکتے ہیں حکمت اس کی ظاہر ہے کہ وہ آسمان سے زمین تک کی مسافت بار بار طے کرتے ہیں، یہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ ان کو سرعت سیر کی قوت عطا کی جائے اور وہ اڑنے ہی کی صورت میں ہوتی ہے۔ اور لفظ مثنی و ثلاث ورباع ظاہر یہ ہے کہ اجنحۃ کی صفت ہے کہ فرشتوں کے پر مختلف تعداد پر مشتمل ہیں۔ بعض کے صرف دو دو پر ہیں بعض کے تین تین بعض کے چار چار اور اس میں کوئی حصر نہیں، جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث سے جبریل (علیہ السلام) کے چھ سو پر ہونا ثابت ہوتا ہے، بطور تمثیل کے چار تک ذکر کردیا گیا ہے۔ (قرطبی، ابن کثیر) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لفظ مثنی و ثلث رسلاً کی صفت ہو یعنی یہ فرشتے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسالات دنیا میں پہنچاتے ہیں، کبھی دو دو آتے ہیں کبھی تین تین یا چار چار اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس صورت میں بھی چار کا عدد حصر کے لئے نہیں، محض تمثیل کے طور پر ہے، کیونکہ اس سے بہت زیادہ مقدار میں فرشتوں کا نزول خود قرآن کریم سے ثابت ہے (ابوحیان فی البحر المحیط) یزید فی الخلق ما یشاء یعنی اللہ تعالیٰ کو سب اختیار ہے کہ اپنی مخلوقات کی تخلیق میں جتنی چاہے اور جس قسم کی چاہے زیادتی کرے۔ اس کا تعلق بظاہر تو اجنحہ ہی کے ساتھ ہے کہ فرشتوں کے پر وبازو کچھ دو چار میں منحصر نہیں، اللہ تعالیٰ چاہے تو اس سے بہت زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ اکثر مفسرین کا قول یہی ہے اور زہری، قتادہ وغیرہ ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ اس زیادت خلق سے عام معنی مراد ہیں، جس میں فرشتوں کے پر وبازو کی زیادتی بھی شامل ہے اور مختلف انسانوں کی تخلیق میں خاص خاص صفات کی زیادتی بھی۔ جس میں حسن صورت، حسن سیرت، حسن صوت وغیرہ سب داخل ہیں۔ ابوحیان نے بحر محیط میں اسی کو اختیار کر کے فرمایا ہے کہ اس زیادت خلق میں حسن خلق، حسن صوت اور حسن خط اور حسن صورت کمال عقل و علم، شیریں کلامی وغیرہ سب داخل ہیں۔ اس دوسری تفسیر سے ثابت ہوا کہ کسی چیز کا بھی حسن و کمال جو انسان کو حاصل ہو وہ اللہ تعالیٰ کی عطاء اور نعمت ہے، اس کا شکر گذار ہونا چاہئے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝ اَلْحَمْدُ لِلہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ رُسُلًا اُولِيْٓ اَجْنِحَۃٍ مَّثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ۝ ٠ ۭ يَزِيْدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاۗءُ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝ ١ حمد الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود : إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ . ( ح م د ) الحمدللہ ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ جنح الجَنَاح : جناح الطائر، يقال : جُنِحَ «4» الطائر، أي : کسر جناحه، قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] ، وسمّي جانبا الشیء جَناحيه، فقیل : جناحا السفینة، وجناحا العسکر، وجناحا الوادي، وجناحا الإنسان لجانبيه، قال عزّ وجل : وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلى جَناحِكَ [ طه/ 22] ، أي : جانبک وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص/ 32] ، عبارة عن الید، لکون الجناح کالید، ولذلک قيل لجناحي الطائر يداه، وقوله عزّ وجل : وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ [ الإسراء/ 24] ، فاستعارة، وذلک أنه لما کان الذلّ ضربین : ضرب يضع الإنسان، وضرب يرفعه۔ وقصد في هذا المکان إلى ما يرفعه لا إلى ما يضعه۔ فاستعار لفظ الجناح له، فكأنه قيل : استعمل الذل الذي يرفعک عند اللہ من أجل اکتسابک الرحمة، أو من أجل رحمتک لهما، وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص/ 32] ، ( ج ن ح ) الجناح پر ندکا بازو ۔ اسی سے جنح الطائر کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی اس کا باز و تو (علیہ السلام) ڑ دینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛َ ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] یا دوپروں سے اڑنے والا جانور ہے ۔ پھر کسی چیز کے دونوں جانب کو بھی جناحین کہدیتے ہیں ۔ مثلا جناحا السفینۃ ( سفینہ کے دونوں جانب ) جناحا العسکر ( لشکر کے دونوں جانب اسی طرح جناحا الوادی وادی کے دونوں جانب اور انسان کے دونوں پہلوؤں کو جناحا الانسان کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے جانبک وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص/ 32] اور اپنا ہاتھ اپنے پہلو سے لگا لو ۔ اور آیت :۔ :۔ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص/ 32] اور خوف دور ہونے ( کی وجہ ) سے اپنے بازو کو اپنی طرف سکیڑلو ۔ میں جناح بمعنی ید کے ہے ۔ کیونکہ پرند کا بازو اس کے لئے بمنزلہ ہاتھ کے ہوتا ہے اسی لئے جناحا الطیر کو یدا لطیر بھی کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمۃ :۔ وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ [ الإسراء/ 24] اور عجز دنیا سے انگے آگے جھکے رہو ۔ میں ذل کے لئے جناح بطور استعارہ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ذل یعنی ذلت و انکساری دو قسم پر ہے ایک ذلت وہ ہے جو انسان کو اس کے مرتبہ سے گرا دیتی ہے اور دوسری وہ ہے جو انسان کے مرتبہ کو بلند کردیتی ہے اور یہاں چونکہ ذلت کی دوسری قسم مراد ہے ۔ جو انسان کو اس کے مرتبہ سے گرانے کی بجائے بلند کردیتی ہے اس لئے جناح کا لفظ بطور استعارہ ( یعنی معنی رفعت کی طرف اشارہ کے لئے ) استعمال کیا گیا ہے گویا اسے حکم دیا گیا ہے کہ رحمت الہی حاصل کرنے کے لئے ان کے سامنے ذلت کا اظہار کرتے رہو اور یا یہ معنی ہیں کہ ان پر رحمت کرنے کے لئے ذلت کا اظہار کرو ۔ قافلہ تیزی سے چلا گویا وہ اپنے دونوں بازوں سے اڑ رہا ہے ۔ رات کی تاریکی چھاگئی ۔ ثنی( مثني) الثَّنْي والاثنان أصل لمتصرفات هذه الکلمة، ويقال ذلک باعتبار العدد، أو باعتبار التکرير الموجود فيه أو باعتبارهما معا، قال اللہ تعالی: ثانِيَ اثْنَيْنِ [ التوبة/ 40] ، اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة/ 60] ، وقال : مَثْنى وَثُلاثَ وَرُباعَ [ النساء/ 3] فيقال : ثَنَّيْتُهُ تَثْنِيَة : كنت له ثانیا، أو أخذت نصف ماله، أو ضممت إليه ما صار به اثنین . والثِّنَى: ما يعاد مرتین، قال عليه السلام :«لا ثِنى في الصّدقة» أي : لا تؤخذ في السنة مرتین . قال الشاعر : لقد کانت ملامتها ثنی وامرأة ثِنْيٌ: ولدت اثنین، والولد يقال له : ثِنْيٌ ، وحلف يمينا فيها ثُنْيَا وثَنْوَى وثَنِيَّة ومَثْنَوِيَّة ويقال للاوي الشیء : قد ثَناه، نحو قوله تعالی: أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ [هود/ 5] ، وقراءة ابن عباس : (يَثْنَوْنَى صدورهم) من : اثْنَوْنَيْتُ ، وقوله عزّ وجلّ : ثانِيَ عِطْفِهِ [ الحج/ 9] ، وذلک عبارة عن التّنكّر والإعراض، نحو : لوی شدقه، وَنَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء/ 83] . ( ث ن ی ) الثنی والاثنان ۔ یہ دونوں ان تمام کلمات کی اصل ہیں جو اس مادہ سے بنتے ہیں یہ کبھی معنی عدد کے اعتبار سے استعمال ہوتے ہیں اور کبھی تکرار معنی کے لحاظ سے جو ان کے اصل مادہ میں پایا جاتا ہے اور کبھی ان میں عدد و تکرار دونوں ملحوظ ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ ثانِيَ اثْنَيْنِ [ التوبة/ 40] دو میں دوسرا ۔ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة/ 60] بارہ چشمے ۔ مَثْنى وَثُلاثَ وَرُباعَ [ النساء/ 3] دو دو یا تین تین یا چار چار ۔ کہا جاتا ہے ثنیتہ تثنیۃ میں دوسرا تھا میں نے اسکا نصف مال لے گیا ایک چیز کے ساتھ دوسری چیز کو ملا کر دو کردینا ۔ الثنی ۔ جس کا دو مرتبہ اعارہ ہو حدیث میں ہے ۔ (56) ۔ لاثنی فی الصدقہ ۔۔ یعنی صدقہ سال میں دو مرتبہ نہ لیا جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (82) لقد کان ملا متھا ثنی ، ، بیشک اس نے بار بار ملامت کی ۔ امرٰۃ ثنی جس عورت نے دو بچے جنے ہوں اس دوسرے بچہ کو ثنی کہا جاتا ہے ۔ حلف یمینا فیھا ثنی و ثنویٰ وثنیۃ ومثنویۃ اس نے استثناء کے ساتھ قسم اٹھائی ۔ ثنا ( ض) ثنیا ۔ الشئی کسی چیز کو موڑنا دوسرا کرنا لپیٹنا قرآن میں ہے :۔ أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ [هود/ 5] دیکھو یہ اپنے سینوں کو دوہرا کرتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس کی قرآت یثنونیٰ صدورھم ہے ۔ جو اثنونیت کا مضارع ہے اور آیت کریمہ :۔ ثانی عطفہ ثانِيَ عِطْفِهِ [ الحج/ 9] اور تکبر سے ) گردن موڑ لیتا ہے ۔ میں گردن موڑنے سے مراد اعراض کرنا ہے جیسا کہ لوٰی شدقہ ونای بجانبہ کا محاورہ ہے ۔ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، قَدِيرُ : هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة/ 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] . القدیر اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف/ 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تمام تر حمد وثناء اسی اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق اور فرشتوں کو پیدا کرنے والا اور ان کو یعنی جبریل، میکائیل، اسرافیل، ملک الموت اور رعد و حفظہ کو پیغام رساں بنا کر سرفراز فرمانے والا ہے۔ ان فرشتوں میں سے بعض کے دو پر اور بازو ہیں کہ جن سے وہ اڑتے ہیں اور بعض کے تین ہیں اور بعضوں کے چار۔ بلکہ وہ فرشتوں کی پیدائش میں جو چاہے زیادہ کردیتا ہے یا یہ کہ ان پروں میں یا چھی اچھی نعمتوں میں یا عمدہ آواز میں جو چاہے اضافہ کردیتا ہے۔ وہ نقصان اور زیادتی ہر چیز پر قادر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١ { اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ } ” کل حمد اور کل شکر اللہ کے لیے ہے جو پید ا کرنے والا ہے آسمانوں اور زمین کا “ فَاطِرکے لغوی معنی ہیں : عدم کے پردے کو چاک کر کے کسی چیز کو وجود بخشنے والا۔ یہاں پر ایک اہم لغوی نکتہ ضمنی طور پر نوٹ کرلیں کہ ” ف “ سے شروع ہونے والے عربی کے اکثر الفاظ میں توڑنے ‘ چاک کرنے ‘ پھاڑنے وغیرہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ مثلاً فَطَرَکے علاوہ فَلَقَ ‘ فَرَطَ ‘ فَلَحَ ‘ فَتَحَ ‘ فَصَلَ ‘ فَتَرَوغیرہ الفاظ میں یہی مفہوم پایا جاتا ہے۔ ( فَترۃ الوحی سے وہ عرصہ مراد ہے جس میں وحی رکی رہی ‘ یعنی وحی کا تسلسل ٹوٹ گیا اور فترۃ من الرسل سے مراد چھ سو برس کا وہ زمانہ ہے جس کے دوران پیغمبروں کا سلسلہ رکا رہا۔ ) { جَاعِلِ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا اُولِیْٓ اَجْنِحَۃٍ مَّثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ } ” فرشتوں کو پیغام رساں بنانے والا ‘ جو دو دو ‘ تین تین اور چار چار َپروں والے ہیں۔ “ فرشتوں کے پروں کی ہیئت اور کیفیت کو ہم نہیں سمجھ سکتے۔ لیکن تمثیل کے انداز میں سمجھنے کے لیے مختلف اقسام کے طیاروں کا تصور ذہن میں رکھا جاسکتا ہے ‘ جیسے کسی طیارے میں دو انجن ہوتے ہیں اور کسی میں چار۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مختلف فرشتوں کو اپنی مشیت اور حکمت کے مطابق مختلف نوعیت کی صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے۔ { یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآئُط اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ} ” اللہ اضافہ کرتا رہتا ہے تخلیق میں جو چاہتا ہے۔ یقینا اللہ ہرچیز پر قادر ہے۔ “ آج سائنس بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ تخلیق کا سلسلہ جاری وساری ہے ‘ مسلسل نئے نئے ستارے وجود میں آرہے ہیں اور نئی نئی کہکشائیں بن رہی ہیں۔ اقبالؔ نے اس نکتے کو یوں بیان کیا ہے : یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید کہ آرہی ہے دمادم صدائے کُن فیکُون

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 This can have two meanings: (1) "That these angels perform the service of communicating messages between Allah and His Prophets :" and (2) "that it is the duty of these angels to convey and enforce the Commands of Allah Almighty throughout the universe." The object is to impress this truth: The position of the angels whom the polytheists have made their gods and goddesses is no more than of obedient servants of Allah, the One. Just as the servants of a king run about for the implementation of his orders, so do these angels fly about in the service of the real Sovereign of the Universe. These servants have no authority of their own; All powers rest with Allah, Who is the real Sovereign. 2 We have no means to know what is the nature of the wings of these angels. But when Allah has used this word, which in human language is used for the wings of birds, instead of any other words, to express and depict the truth, one can certainly conclude that this very word of our language is nearest to the actual meaning. The mention of two and three and four pairs of the wings shows that different angels have been granted different degrees of powers by Allah. They have been equipped with different powers of speed and efficiency as demanded by the nature of service for which they arc employed. 3 These words show that the number of the wings of the angels is restricted to four, but Allah has provided some angels with more wings than four. According to a Hadith related by Hadrat 'Abdullah bin Mas'ud, the Holy Prophet once saw the Angel Gabriol (peace be upon hits) with six hundred wings. (Bukhari, Muslim, Tirmidhi). Hadrat 'A'ishah relates that the Holy Prophet had seen Gabriel twice in his real shape: he had six hundred wings and had covered the whole horizon. (Tirmidhi)

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :1 اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ فرشتے اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء علیہم السلام کے درمیان پیغام رسانی کی خدمت انجام دیتے ہیں ، اور یہ بھی کہ تمام کائنات میں اللہ جل شانہ کے احکام لے جانا اور ان کو نافذ کرنا انہی فرشتوں کا کام ہے ۔ ذکر کا مقصود یہ حقیقت ذہن نشین کرنا ہے کہ فرشتے جن کو مشرکین دیوی اور دیوتا بنائے بیٹھے ہیں ، ان کی حیثیت اللہ وحدہ لا شریک کے فرماں بردار خادموں سے زائد کچھ نہیں ہے ۔ جس طرح کسی بادشاہ کے خدام اس کے احکام کی تعمیل کے لیے دوڑے پھرتے ہیں اسی طرح یہ فرشتے کائنات کے فرمانروائے حقیقی کی خدمت بجا لانے کے لیے اڑے پھرتے ہیں ۔ ان خادموں کے اختیار میں کچھ نہیں ہے ۔ سارے اختیارات اصل فرمانروا کے ہاتھ میں ہیں ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :2 ہمارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان فرشتوں کے بازوؤں اور پروں کی کیفیت کیا ہے ۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے دوسرے الفاظ کے بجائے وہ لفظ استعمال فرمایا ہے جو انسانی زبان میں پرندوں کے بازوؤں کے لیے استعمال ہوتا ہے تو یہ تصور ضرور کیا جا سکتا ہے کہ ہماری زبان کا یہی لفظ اصل کیفیت سے قریب تر ہے ۔ دو دو اور تین تین اور چار چار بازوؤں کے ذکر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مختلف فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے مختلف درجہ کی طاقتیں عطا فرمائی ہیں اور جس سے جیسی خدمت یعنی مطلوب ہے اس کو ویسی ہی زبردست سرعت رفتار اور قوت کار سے آراستہ فرمایا گیا ہے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :3 ان الفاظ سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ فرشتوں کی بازوؤں کی انتہائی تعداد چار ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے بعض فرشتوں کو اس سے بھی زیادہ بازو عطا فرمائے ہیں ۔ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو ایک مرتبہ اس شکل میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے ( بخاری ۔ مسلم ۔ ترمذی ) ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور نے جبریل کو دو مرتبہ ان کی اصلی شکل میں دیکھا ہے ، ان کے چھ سو بازو تھے افق پر چھائے ہوئے تھے ، ( ترمذی ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: پچھلے جملے کی مناسبت سے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جن فرشتوں کی پروں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہتا ہے، اضافہ کردیتا ہے، چنانچہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے چھ سو پروں کی تعداد حدیث میں آئی ہے، لیکن الفاظ عام ہیں، اور ہر تخلیق کو شامل ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ جس کی تخلیق میں چاہتا ہے، کسی خاص وصف کا اضافہ فرما دیتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ فاطر کے معنے حالق کے ہیں حاصل معنے یہ ہیں کہ سب تعریف اللہ کو ہے و پیدا کرنے والا ہے آسمان اور زمین کا مطلب اس سے یہ ہے کہ جو ایسی بڑی چیز کے پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے تو وہ دوسری بار بھی سب کچھ پیدا کرسکتا ہے خدا تعالیٰ نے جو اس صفت کے ساتھ اپنی ذات پاک کی تعریف کی ہے مقصود اس سے خالص اللہ کی تعظیم ہے اور بندوں کو یہ تعلیم بھی ہے کہ وہ اس طرح خدا کی ثنا کیا کریں اور اللہ کی تعظیم اور عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں پھر فرمایا وہ اللہ جو ٹھہرانے والا ہے فرشتوں کو رسولوں کے پاس پیغام پہنچانے والا جن فرشتوں کے دو دو اور تین تین اور چار چار پر ہیں جن سے وہ اڑتے ہیں اور خدا کا حکم لے کر رسلولوں کے پاس جلد پہنچ جاتے ہیں ‘ موضح القرآن میں یہ جو لکھا ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) کے چھ سو پر ہیں حکم لے کر رسولوں کے پاس چلد پہنچ جاتے ہیں ‘ موضح القرآن میں یہ جو لکھا ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) کے چھ سو پر ہیں یہ حدیث صحیح خباری میں عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت ١ ؎ سے آئی ہے (١ ؎ مشکوۃ ص ٥٠١ باب رؤیۃ اللہ تعالیٰ ۔ ) اور یہی حدیث یزید فی الخلق مایشاء کی گویا تفسیر ہے طبرانی میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ٢ ؎ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل (علیہ السلام) سے ان کے اور میکائیل (علیہ السلام) اور عزرائیل (علیہ السلام) کے تعیناتی کے کام پوچھے تو جبرئیل (علیہ السلام) نے خواب دیا کہ میں ہوا اور لشکروں کے فتح شکست کے کام پر مامور ہوں اور میکائیل (علیہ السلام) مینہ اور زمین کی پیدا وار کے کام پر اور عز رائیل (علیہ السلام) قبض ارواح کے کام پر مامور ہیں۔ اس حدیث کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن ٢ ؎ بن ابی لیلیٰ کو اگرچہ بعضے علماء نے ضعیف قرار دیا ہے (٢ ؎ فتح الباری ص ١٩٣ ج ٣ باب ذکر الملائکہ۔ ) لیکن اکثر علماء نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کو معتبر کہا ہے ‘ حاصل کلام ہے کہ مشرکین مکہ اس بات کے منکر تھے کہ قرآن شریف کلام الٰہی ہے اور جبرئیل (علیہ السلام) اس کو پیغام کے طور پر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لاتے ہیں اس لیے آیت فرشتوں کے پیغام پہنچانے کا ذکر فرمایا لیکن حدیث سے آیت کی یہ تفسیر ہوسکتی ہے کہ سوراوحی کا پیغام لانے کے جبرئیل (علیہ السلام) کو زمین پر آنے کے اور کام بھی سپرد ہیں ‘ حضرت عبداللہ بن عباس کی اس روایت میں اسرافیل کا ذکر نہیں ہے لیکن طبرانی میں معتبر سند سے حضرت عائشہ کی حدیث ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوح محفوظ میں سے ہر طرح کے احکام کے نقل کرنے اور صور پھونکے جانے کی خدمت اسرافیل (علیہ السلام) کے سپرد ہے ابن ماجہ اور صحیح ابن حبان میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ١ ؎ ہے (١ ؎ مشکوٰۃ باب مایقال عنہ من حضرہ الموت فصل تیسری) کہ قبض روح کے وقت اللہ کے فرشتے اچھے لوگوں کو رحمت الٰہی کا اور برے لوگوں کو غضب الٰہی کا پیغام پہنچاتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ وحی کے پیغام کے علاوہ اور پیغام بھی اللہ کے فرشتوں کے سپرد ہیں اسی واسطے آیت میں پیغام لانے والوں کو جمع کے لفظوں میں فرمایا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

( 35:1) فاطر السموت والارض۔ فاطر ۔ اسم فاعل واحد مذکر فطر مصدر (باب نصر، ضرب) مضاف السموت والارض۔ مضاف الیہ۔ الفطر کے اصل معنی کسی چیز کو (پہلی دفعہ) طول میں پھاڑنے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی کائنات کو عدم کا پردہ پھاڑ کر وجود میں لایا ہے اس لئے فاطر ہے۔ اہل تفسیر نے اس کے معنی مبدع لئے ہیں یعنی بغیر نظیر و مثال کے عدم محض سے عالم وجود میں لانے والا۔ راغب فرماتے ہیں کہ :۔ ھو ایجادہ تعالیٰ الشیء وابداعہ علی ھیئۃ مترشحۃ بفعل من الافعال۔ اللہ تعالیٰ کا کسی شے کو پہلی مرتبہ اس طرح تخلیق کرنا کہ اس میں کچھ کرنے کی استعداد موجود ہے۔ آیۃ کریمہ فاقم وجھک للذین حنیفا ۔ فطرت اللہ التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ (30:30) تو تم یک سو ہو کر دین (حق) کی طرف اپنا رخ رکھو اللہ کی اس فطرت کا اتباع کرو جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں۔ میں اس معرفت الٰہی کی طرف اشارہ ہے جو تخلیقی طور پر انسان کے اندر ودیعت کی گئی ہے لہٰذا فطرۃ اللہ سے مراد معرفت الٰہی کی استعداد مراد ہے جو انسان کی جبلت میں پائی جاتی ہے ۔ صاحب تفسیر ماجدی (رح) اس آیۃ کی وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :۔ فطرت کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص میں اللہ تعالیٰ نے خلقۃ یہ استعداد رکھی ہے کہ اگر حق سنے اور سمجھنا چاہے تو وہ سمجھ میں آجاتا ہے اور اس کے اتباع کا مطلب یہ ہے کہ اس استعداد اور قابلیت سے کام لے اور اس کے مقتضاپر کہ ادراک حق ہے عمل کرے۔ یہ پھاڑنا کبھی کبھی کسی چیز کو بگاڑنے کے لئے بھی آتا ہے مثلاً السماء منقطر بہ (73:18) (اور) جس سے آسمان پھٹ جاوے گا۔ یعنی یوم قیامت کی سختی سے۔ جاعل۔ بنانے والا۔ کرنے والا۔ جعل سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر۔ جاعل الملئکۃ۔ مضاف مضاف الیہ فرشتوں (پیام رساں) بنانے والا۔ فاطر اور جاعل ہر دو اللہ کی صفت ہیں اور اس کی متابعت میں مجرور ہیں۔ رسلا۔ رسل رسول کی جمع ہے جو فعول کے وزن پر (اسم مفعول بروزن مفعل) کا مبالغہ ہے (فعول کا استعمال اس طرح نادر ہے) ۔ رسل اسم مفعول جمع مذکر رسلا بحالت نصب بوجہ مفعول۔ پیغمبر، پیام رساں ۔ بھیجے گئے۔ رسول۔ ملائکہ اور انسان دونوں میں سے ہوسکتے ہیں۔ جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے اللہ یصطفی من الملئکۃ رسلا ومن الناس۔ (22:75) اللہ تعالیٰ انتخاب کرلیتا ہے فرشتوں میں سے پیام پہنچانے والے اور آدمیوں میں سے بھی۔ اصطلاح میں نبی یا رسول بنی نوع انسان میں سے وہ ہیں جو اللہ کا پیغام نوع انسانی کو پہنچاتے ہیں۔ فرشتوں کی رسالت کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں ! (1) یہ فرشتے اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیا (علیہم السلام) کے درمیان پیغام رسانی کی خدمات انجام دیتے ہیں (وحی کی صورت میں) ۔ (2) تمام کائنات میں اللہ تعالیٰ کے احکام لے جاتے ہیں اور ان کو نافذ کرتے ہیں۔ اولی اجنحۃ۔ اولوا (بحالت رفع) اولی (بحالت نصب وجر) جمع ہے بمعنی والے۔ صاحب، مالک، بعض ذو کو اس کا واحد بتاتے ہیں۔ اجنحۃ جناح کی جمع۔ پر ۔ بازو۔ اولی اجنحۃ بازوں والے۔ پروں والے۔ رسلا کی نعت ہے یا اس کا بدل۔ مثنی وثلاث وربع۔ یہ اثنان اثنان وثلثۃ ثلثۃ اور اربعۃ اربعۃ سے معدول ہے (نحویوں کی اصطلاح میں ایک اسم کا اپنے اصلی صیغہ سے نکل کر دوسرے صیغہ میں چلے جانے کو عدل کہتے ہیں۔ جیسے ثلثۃ ثلثۃ سے ثلث کہ اصل کے مطابق ثلث کے معنی تین تین ہوں گے۔ مثنی وثلث وربع ۔ اجنحۃ کی صفت ہیں۔ لہٰذا بوجہ صفت وعدل (دو اسباب منجملہ نو اسباب منع صرف) غیر منصرف ہیں۔ یزید فی الخلق ما یشائ۔ وہ مخلوق کی ساخت میں جیسا چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے یعنی فرشتوں کے پروں کی تعداد ۔ دو ۔ دو ۔ تین تین۔ چار چار تک ہی محدود نہیں وہ جسے چاہے جتنے چاہے بازو عطا کر دے۔ یا کسی ایک مخلوق کو دوسری مخلوق پر کسی قسم کی بزرگی و برتری عطا کر دے وہ ہر شے پر قادر ہے۔ ھو علی کل شیء قدیر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی انہیں پیدا کیا حالانکہ اس سے پہلے ان کا سرے سے کوئی وجود نہ تھا۔7 جیسا کہ حدیث میں ہے کہ شب معراج میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبریل ( علیہ السلام) کو دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے۔ ( ابن کثیر) ۔ (یریدون فی الخلق ما یشئا) کو عام بھی رکھا رکھتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں جو چاہے اضافہ کرسکتا ہے۔ ( شوکانی) معلوم ہوا کہ فرشتے جسم اور پر ( بازو) رکھتے ہیں اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ باقی کیفیت ان کی اللہ کو معلوم ہے تاویلات فاسدہ کرنا گمراہی ہے۔ ( وجیز وغیرہ)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 1 ۔ آیات 1 تا 7: اسرار و معارف : سورۃ فاطر اسی مضمون کو لیکر آگے بڑھتی ہے کہ تمام تر کمالا صرف اللہ واحد کو سزاوار ہیں کہ وہ اکیلا خالق ہے آسمانوں اور زمینوں کا ان کی تمام تر مخلوقات اور مخلوقات کے تمام تر اوصاف کا فرشتے بھی اس کی مخلوق ہیں جو اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں اس کے اور اس کی دوسری مخلوق کے درمیان واسطے کا کام کرتے ہیں جیسے سب سے اعلی انبیاء (علیہم السلام) اور ان پر وحی لانے کا کام مخلوق کو روزی روزق پہنچانے یا عذاب وثواب اور صحت و بیماری یعنی وہ خود ہر آن اللہ کی اطاعت پر کمر بستہ ہیں نہ یہ کہ انہیں معبود بنا لیا جائے ان کی قوت و طاقت اللہ ک عطا کردہ ہے جیسے کسی کو دو یا تین یا چار چار پر لگا دئیے اور یوں وہ جیسے چاہے اور جتنا چاہے عطا کردے کسی کو حسن صورت دے یا حسن سیرت عقل و فراست صحت و طاقت اقتدار و اختیار علم و فضل سب کچھ اس کی عطا سے ہے اور مخلوق میں کوئی فرد بھی اس قابل نہیں کہ اس کے کمال کو دیکھ کر اس کی عبادت شروع کردی جائے کہ سب کچھ اللہ کا عطا کردہ ہے اور وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ اگر وہ اپنے کسی بندے پہ رحمت کا دروازہ کھول دے انعامات کی بارش کردے باطنی یا ظاہری نعمت عطا کردے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا اور اگر کسی کو محروم ونامراد رکھے تو کوئی اسے کچھ دینے کی جرات نہیں رکھتا کہ اللہ سب پر غالب ہے اور بہت حکمت والا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ کہاں کیا عطا کرنا ہے اور کہاں سے کیا روکنا ہے۔ لوگو اللہ کے احسانات یاد کرو کہ اس نے تمہیں تخلیق فرمایا اور پھر تمہاری بقا کے اسباب پیدا فرمادئیے رزق ظاہر کے لیے ارض و سما میں سورج چاند بادل بارش موسم اور ہواؤں کا وسیع نظام پیدا فرما دیا اور نور باطن اور کمالات باطنی کے لیے انبیاء (علیہم السلام) کو مبعوث فرمایا ذرا غور کرو کیا کوئی بھی دوسری ایسی ہستی تمہارے خیال تک میں آتی ہے جو یہ سب کرسکے ہرگز نہیں تو پھر اس کے علاوہ کوئی بھی دوسرا عبادت کا مستحق کیسے ہوسکتا ہے ؟ عبادت صرف اس اکیلی ذات کو سزاوار ہے تم اس کا دروازہ چھوڑ کر کہاں بھٹک رہے ہو۔ اور میرے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ کی صداقت کو جھٹلاتے اور آپ کے ارشادات کو ماننے سے انکار کرتے ہیں تو آپ ہرگز دل چھوٹا نہ کریں کہ ایسا صرف آپ کے ساتھ ہی نہیں ہورہا بلکہ آپ سے پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء رسل کی دعوت کو بھی جھٹلایا گیا مگر کیا جھٹلا کر کوئی لوگ بچ گئے ہرگز نہیں کہ حال کار تو تمام امور کو اللہ ہی طرف پلٹنا ہے۔ اور اے لوگوں تم بھی سن لو کہ یہ یقینی بات ہے اور اللہ کا وعدہ ہے یہ قیامت قائم ہوگی اور جزا و سزا کا فیصلہ ہوگا یہ حق ہے کہیں محض دنیا کی نعمتیں اور اقتدار و اختیار یا مال و زر کا نشہ تمہیں دھوکے میں نہ رکھے یا وہ دھوکہ باز ابلیس تمہیں دغا نہ دے جائے یاد رکھو شیطان تمہارا دشمن ہے لہذا اس کے ساتھ دشمنی رکھو نہ یہ کہ اس کی غلامی کرنے لگو کہ وہ اس کا سارا گروہ جنوں میں ہوں یا انسانوں میں سے سب کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ تمہیں اللہ کی رحمت سے دور کرکے جہنم کا ایندھن بنا دیں۔ اور جو کوئی ان کی بات مانے گا یعنی کفر کی راہ اپنائے گا اسے بہت سخت عذاب دیا جائیگا ہاں جس نے ان سے دشمنی رکھی اور ایمان پہ قائم رہا اور نیک اعمال میں کوشاں رہا اگر اس سے خطا بھی ہوئی تو اللہ معاف فرمائے گا اور اسے بیش بہا انعامات سے نوازے گا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن ۔ (آیت نمبر 1 تا 7) فاطر (پیدا کرنے والا) جاعل ( بنانے والا) اجنحۃ ( جناح) (پر ۔ بازو) مثنی۔ (دو دو) ثلث۔ ( تین تین) ربع ( چار چار) لایفتح (وہ نہیں کھولتا ہے) ممسک ( روکنے والا) انی (کہاں) تو فکون (الٹے پھرے جا رہے ہیں) لا تغرن ( ہرگز دھوکے میں نہ ڈال دے) الغرور (دھوکا ، فریب) حزب ( جماعت) مغفرۃ (معافی) ۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 7 :۔ اس کائنات میں جتنی بھی قابل تعریف خوبیاں ہیں وہ اس اللہ کی ذات کے لئے مخصوص ہیں جو ارض و سماء کا مالک اور سب کا رازق ہے۔ کائنات میں ہر طرف اس کی عظمت کی نشانیاں بکھری ہوئی ہیں ۔ اگر ذرا بھی غور کیا جائے تو یہ حقیقت نکھر کر سامنے آجائے گی کہ اللہ نے زمین و آسمان اور اس کے درمیان جتنی بھی چیزیں اور مخلوق کو پیدا کیا ہے اس میں ایک خاص تو ازن اور اعتدال رکھا ہے۔ اگر یہ تو ازن (Balance) نہ ہوتا تو زمین و آسمان کی ہر چیز ایک دوسرے سے ٹکرا کر فنا ہوجاتی اس نے اس نظام کو اپنی قدرت سے چلانے کے لئے بیشمار فرشتے مقرر کر رکھے ہیں جو اگرچہ نظر نہیں آتے لیکن وہ اللہ کے حکم سے ہر کام کو اسی طرح انجام دیتے ہیں جیسا ان سے کہا جاتا ہے۔ وہ اللہ کے ہر حکم اور فیصلے کو بندوں تک اور ان کے اعمال کو اللہ کی بارگاہ تک پہنچانے کے فرائض سر انجام دیتے ہیں ۔ اللہ نے ان فرشتوں کو پوری قوت و طاقت سے نوازا ہے جس سے وہ ہر کام کو احسن طریقے پر انجام دیتے ہیں ۔ جس طرح اللہ نے ہر جان دار کو ہاتھ پیر اور بازو عطاء کئے ہیں کوئی پیٹ کے بل رینگ رہا ہے ، کسی کے دو پاؤں ہیں ، کوئی چار ہاتھ پاؤں رکھتا ہے اسی طرح اللہ نے انی نورانی مخلوق فرشتوں کو دو دو تین تین اور چار چار بازو عطاء فرماتے ہیں بلکہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ میں نے جبریل کو اس حالت میں دیکھا ہے کہ ان کے چھ سو بازو تھے۔ اسی طرح کی ایک روایت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے بھی نقل کی گئی ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل کو اس طرح دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو ( اور پر) تھے۔ خلاصہ یہ ہے کہ فرشتے بھی انسان اور جنات کی طرح ایک نورانی مخلوق ہیں جو نہایت فرماں برداری کا مظاہرہ کرتے اور اپنے فرائض کو احسن طریقے پر ادا کرتے ہیں ۔ حضرت جبرئیل کے ذمے یہ ہے کہ وہ اللہ کے پیغمبروں کے پاس اللہ کا کلام اور پیغام لے کر پہنچاتے ہیں تا کہ بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ ہدایت نصیب ہو سکے اسی طرح حضرت اسرافیل (علیہ السلام) بارشیں برسانے اور اللہ کا رزق اللہ کے بندوں تک پہنچانے کی ذمہ داری پر مقرر ہیں حضرت اسرافیل (علیہ السلام) قیامت میں صور پھونکنے اور حضرت عزرائیل (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے موت دینے کی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں ۔ اسی طرح اللہ کے لا تعداد فرشتے مختلف کاموں پر مقرر کئے گئے ہیں ، بادلوں سے بارش برستی ہے ، سورج اپنی گرمی سے حرارت اور روشنی پیدا کرتا ہے ، ہوائیں بادلوں کو لے کر چلتی ہیں جن سے بارشیں برسنے کے بعد ہر طرح کا سبزہ ، سبزی ، پھل ، میوے ، غلے پیدا ہوتے ہیں جن سے انسانی ضروریات پوری ہوتی ہیں ۔ ایک مومن کا یہ اعتقاد اور یقین ہوتا ہے کہ اس کائنات کے نظام اور پیداوار کے پیچھے اللہ کا حکم چلتا ہے اور وہ اپنے فرشتوں کے ذریعہ کائنات میں تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ اللہ اپنی قوت و طاقت کے اظہار کے لئے دنیا کے ظاہری اسباب کا محتاج نہیں ہے لہٰذا اگر وہ کسی پر اپنی رحمتیں نازل کرنا چاہے تو کوئی اس کو روکنے والا نہیں ہے اور اگر وہ روک لے تو کوئی زبردستی اس سے کسی کو دلوانے والا نہیں ہے۔ دینے والی ذات اسی ایک اللہ کی ہے اس کے سوا کسی کو کوئی اختیار نہیں ہے لہٰذا اللہ کو چھوڑ کر اپنی مرادوں کے لئے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا اور ان سے توقع رکھنا شرک ہے جو اللہ کے ہاں ناقابل معافی جرم ہے۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کفار مکہ سے جو اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بتوں کو اپنا مشکل کشا مانتے تھے اور ان سے اپنی مرادوں کے پورا ہونے کی توقع رکھتے تھے یہ فرمایا کہ اس کائنات میں ساری قوت و طاقت ایک اللہ کی ہے اور جن بتوں کو وہ اپنا مشکل کشا مان رہے ہیں ان میں کوئی طاقت و قوت نہیں ہے۔ اس پر کفار بھڑک اٹھے اور انہوں نے آپ کی شدید مخالفت کی اور پھر وہ جاہلانہ مزاحمت و مخالفت پر اتر آئے۔ اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر آج یہ لوگ آپ کو اور آپ کی لائی تعلیمات کو جھٹلا رہے ہیں اور شدید مخالفت پر اتر آئے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ آپ سے پہلے جتنے بھی پیغمبر تشریف لائے ہیں ان کو اسی طرح جھٹلایا گیا اور ان کی تعلیمات کو ماننے کے بجائے ان کا مذاق اڑایا گیا ۔ لیکن اس مخالفت اور مزاحمت کا انجام یہ ہوا کہ ان کی بستیوں اور تہذیب و تمدن کو اس طرح ملیا میٹ کردیا گیا کہ ان کے شہروں کے کھنڈرات اور منکرین کی زندگیاں نشان عبرت بن چکی ہیں ۔ اگر غور کیا جائے تو یہی بات ان کی ہدایت کے لئے کافی ہے لیکن جو اللہ کے سچے وعدے کے بر خلاف دنیا کی زندگی اور عیش و عشرت کے دھوکے میں پڑگئے اور شیطان کے جھانسے اور فریب میں آگئے انہوں نے اپنے ہاتھوں اپنی دنیا اور آخرت کو برباد کر ڈالا ۔ اصل میں شیطان انسان کا ازالی دشمن ہے وہ اپنی پوری قوت و طاقت اس بات پر لگا دیتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ جہنم میں اس کے ساتھ بن جائیں لیکن جو لوگ ایمان اور عمل صالح کی زندگی اختیار کرتے ہیں ان کے لئے نہ صرف مغفرت کا سامان کیا جاتا ہے بلکہ ان کو آخرت میں بہت بڑا اجر وثواب عطاء کیا جائے گا ۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ پیغام سے مراد وحی لانا انبیاء (علیہم السلام) کی طرف عام اس سے کہ شرائع ہوں یا بشارات وغیرہ ہوں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن تمام تعریفات ” اللہ “ ہی کے لیے ہیں جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا۔ وہی ملائکہ کو پیغام رساں بنانے والا ہے۔ اسی نے ملائکہ کو دو دو، تین تین اور چارچار پَر عطا فرمائے ہیں۔ وہ جو چاہے اور جس طرح چاہے پیدا کرتا ہے کیونکہ وہ ہر کام کرنے پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ اس لیے بھی تعریف کا مستحق ہے کہ اس نے زمین و آسمانوں کو نہ صرف پیدا کیا بلکہ اس نے آسمانوں کو اسی ساخت اور پرداخت کیساتھ بنایا جس طرح ان کی تخلیق کا مقصد تھا۔ زمین کو تہہ در تہہ بچھایا اور اس میں ایسی صلاحیتیں رکھیں جو اس کے بسنے والوں کے لیے ضروری تھیں۔ ملائکہ کی تخلیق کے بیان کے فوراً بعد ” یَزِیْدُ “ کا لفظ لا کر یہ واضح فرمایا کہ ملائکہ صرف چار چار پَر رکھنے والے ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے ملائکہ بھی پیدا فرمائے ہیں جن کا وجود سینکڑوں پروں پر مشتمل ہے۔ اس کی تخلیق میں جمود اور ٹھہراؤ نہیں بلکہ وہ مخلوق در مخلوق پیدا کرنیوالا ہے۔ زمین کی طرف دیکھیے جو نباتات آج سے ایک صدی پہلے موجود نہ تھی آج وہ بھی دکھائی دے رہی ہیں۔ نامعلوم قیامت تک کون کون سی نباتات زمین سے برآمد ہونے والی ہیں۔ یہی حالت معدنیات کی ہے جس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ آسمان کی طرف کسی لطیف ترین دوربین سے دیکھیں تو عقل حیران رہ جائے گی کہ لاکھوں کی تعداد میں مٹنے والے سیاروں کی جگہ دوسرے سیارے نمودار ہورہے ہیں۔ آسمان کے بارے میں ارشاد ہے کہ ہم نے اسے اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ہم ہی انہیں وسعت دینے والے ہیں۔ (الذّاریات : ٤٧) ملائکہ کی تخلیق کے ذکر میں ارشاد ہے کہ انہیں پیغام رسانی کے لیے بنایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کا نظام چلانے کے لیے ملائکہ کو مختلف قسم کی ذمہ داریاں دے رکھی ہیں جو انتہائی تابع فرمان خادم کی حیثیت سے اپنے خالق کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہیں ان کی ذمہ داریوں میں پیغام رسانی کا ذکر فرما کر انسانوں کو یہ احساس دلایا ہے کہ تمہاری تمام حرکات و سکنات کو ملائکہ نہ صرف نوٹ کرتے ہیں بلکہ وہ اسے اپنے رب کے حضور پیش بھی کرتے ہیں۔ ملائکہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ نظام کے کارکنان ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو براہ راست دیکھنے والا اور جاننے والا ہے۔” قَدِیْرٌ“ کا لفظ استعمال فرما کر مشرکوں کے اس عقیدہ کی نفی کی گئی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خدائی میں ملائکہ کو بھی کچھ اختیار دے رکھے ہیں ایسا ہرگز نہیں۔ کیونکہ وہ پوری کائنات میں بلا شرکت غیرے کامل اور مکمل اختیار رکھنے والا ہے۔ (عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رَأَی جِبْرِیلَ وَلَہُ سِتُّمِاءَۃِ جَنَاحٍ )[ رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ وَالنَّجْمِ ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا اس کے چھ سو پر تھے۔ “ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں ملائکہ کا تذکرہ اور ان کے کام : ١۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی گواہی دیتے ہیں۔ ( النساء : ١٦٦) ٢۔ قرآن مجید میں ٤ فرشتوں کا نام آیا ہے۔ جبرائیل، میکائیل، ملک الموت، مالک۔ (البقرۃ، ٩٨، السجدۃ : ١١، الزخرف : ٧٧) ٣۔ حضرت جبریل امین (علیہ السلام) ملائکہ کے سردار ہیں۔ (نبا : ٣٨) ٤۔ جبریل (علیہ السلام) مقرب ترین فرشتہ ہے۔ (النجم : ٨) ٥۔ جبریل (علیہ السلام) طاقتور فرشتہ ہے۔ (النّجم : ٥) ٦۔ جبریل (علیہ السلام) دیانت دار فرشتہ ہے۔ (الشعراء : ١٩٣) ٧۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر پر قرآن اتارا ہے۔ (البقرۃ : ٩٧) ٨۔ (اسرافیل) قیامت کے دن صور پھونکے گے۔ (الزمر : ٦٨) ٩۔ جہنم کے کنٹرولر فرشتے کا نام مالک ہے۔ (الزخرف : ٧٧) ١٠۔ قیامت کے دن ٨ فرشتے اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ (الحاقۃ : ١٧) ١١۔ اللہ تعالیٰ کے عرش کو ملائکہ اٹھائے ہوئے ہیں اور مومنوں کے لیے بخشش کی دعائیں کرتے ہیں۔ (المؤمن : ٧) ١٢ فرشتے جنت پر معمور ہیں۔ (الزمر : ٧٣) ١٣۔ فرشتے جہنم پر ڈیوٹی کر رہے ہیں۔ ( الزمر ٧١) ١٤۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ (البقرۃ : ٣٠) ١٥۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت دیتے ہیں۔ ( ہود : ٦٩) ١٦۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے نافرمانوں کو عذاب دیتے ہیں۔ (ہود : ٧٧) ١٧۔ ملائکہ لوگوں کے اعمال کا درج کرتے ہیں۔ ( انفطار : ١١) ١٨۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے مسلمانوں کی مدد کرتے ہیں۔ ( آل عمران : ١٢٤، ١٢٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 199 تشریح آیات 1 ۔۔۔ تا۔۔ 3 ﷽ الحمدللہ فاطر السمٰوٰت ۔۔۔۔۔۔۔۔ کل شیء قدیر (1) “۔ سورة کا آغاز حمد باری سے ہو رہا ہے ۔ اس پوری سورة کا مضمون یہ ہے کہ انسانی دل کو اللہ کی طرف متوجہ کیا جائے ۔ اللہ کی نعمتوں کو دیکھا جائے ، اللہ کی رحمتوں کا شعور زندہ کیا جائے اور انسان کو اس طرف متوجہ کیا جائے کہ اپنی مخلوقات میں اللہ نے کیا کیا عجائبات پیدا لیے ہیں ۔ انسانی احساس کو ان عجائنات کے شعور سے بھر دیا جائے اور نتیجہ انسان اللہ کی حمد وثنا میں رطب اللسان ہو۔ سب حمد اللہ کے لیے ہے ۔ الحمدللہ (35: 1) ” سب تعریف اللہ کے لیے ہے “۔ اور اس کے بعد اللہ کی وہ صفت بیان ہورہی ہے جو خلق اور ایجاد پر دلالت کرتی ہے ۔ فاطرالسموت والارض (35: 1) ” جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے “۔ وہ ان عظیم اور ہولناک مخلوقات کا پیدا کرنے والا ہے جنہیں ہم اپنے اوپر نیچے دیکھ رہے ہیں ۔ جہاں بھی ہم ہوں اور ان میں سے نہایت ہی چھوٹے اجسام اور ہم سے قریب ترین اجسام کے بارے میں ہم کچھ معلومات رکھتے ہیں ۔ ان تمام اجسام کو ایک ہی قانون قدرت کنٹرول کرتا ہے ، نہایت ہی تناسب اور توافق کے ساتھ ۔ یہ سب چیزیں چلتی ہیں اور ان کا تصور بھی ہم اپنے ذہن پر بہت بڑا بوجھ ڈال کر ، کرسکتے ہیں۔ یہ تمام اجسام اپنی عظمت اور خوفناکی کے ساتھ ساتھ ایک ایسے دقیق اور پیچیدہ تناسب کے ساتھ اپنے مدارات میں ایک ہی رخ پر چلتے ہیں کہ اگر اس تناسب میں بالفعل ایک معمولی فرق آجائے تو یہ تمام عظیم اجسام ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراکر پاش پاش ہوجائیں اور قیامت برپا ہوجائے اور سب کے سب روٹی کے گالوں کی طرح بکھر جائیں ۔ قرآن کریم اسی عظیم تخلیق سماوات کی طرف باربار اشارہ کرتا ہے اور ہم اس پر سے یو نہی گزر جاتے ہیں ، بغیر اس کے کہ ہم اس کے سامنے رک کر قدرت تامل اور تدبر کریں ۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ یہ کہ ہمارا احساس جمود اختیار کر گیا ہے ۔ ہماری عقل وخرد کے تار زنگ آلود ہوگئے ہیں اور ان پر قرآن کو یم کے منصراب کی اس قدر سخت ضربات بھی کارگر نہیں ہیں اور ان ضربات کے باوجود ان سے کوئی نغمہ نہیں نکلتا۔ وہ سرودجو کبھی اللہ کے لیے جڑے ہوئے دلوں سے نکلتا تھا ، جو اللہ کو یاد کرتے تھے اور اللہ کی قدرت کی ان نشانیوں کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے تھے ۔ اس کی وجہ یہ ہے اور یہ بڑی وجہ ہے کہ اس عظیم کائنات کو ہم دیکھتے دیکھتے اس کے اس قدر عادی بن گئے ہیں کہ اس کے عجائبات ہمیں عجائبات ہی نہیں لگتے ۔ ان کو بےمثال حسن ہمیں متاثر ہی نہیں کرتا اور ان کی نہایت ہی پیچیدہ ٹیکنا لوجی ہمیں ششدر نہیں کرتی ۔ اگر ہم ان پر ایسی نظر ڈالیں جس طرح کوئی انہیں پہلی مرتبہ دیکھتا ہے اور بہت ہی حیران ہوجاتا ہے ۔ یاد رہے کہ کھلے دل ، اللہ کے ساتھ جڑے ہوئے دل کے لیے آسمان میں ، ستاروں کے مواقع دمدار ات پر غور اور تد بر کرنے کے لیے ، ان کے حجم اور عظمت کو دیکھنے کے لیے ، اور ان کے ماحول کے مطالعے کے لیے ، بعض کا دوسرے کے ساتھ تعلق اور کشش کے معلوم کرنے کے لیے ۔ اور ہر ایک کے حجم ، ہر ایک کی حرکت اور ہر ایک کی حالات معلوم کرنے کے لیے کسی بڑے علم کی ضرورت نہیں ہے ، جو دل اللہ سے جڑا ہوا ہو ، اس کے لیے کسی بڑے اور گہرے علم کی ضرورت نہیں ہے ۔ معمولی توجہ سے اس کائنات کے حسن و جمال کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ یہ مناظر ایک خدا سیدہ شخص کے دماغ کے تاروں کے اندر نغمہ پیدا کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ رات کے وقت ذراصاف ستھری فضا اور صاف موسم میں ان گنت تاروں ہی کو چمکتا ہوا دیکھ لیجئے ! تاریک رات ہو اور موسم صاف ہو اور ہر ستارہ زمین پر ضوپاشی کررہاہو۔ پھر صبح کے وقت ذراسپیدۂ صبح کی نموداری اور سورج کے طلوع ہونے کے منظر کو دیکھئے ۔ اسی طرح پہاڑوں کی اوٹ میں ذدبنے والے سورج اور سرخ شفق ہی کو دیکھئے ۔ پھر اس چھوٹی سی زمین اور اس کے مختلف مواقع اور مناظر کو دیکھئے ۔ ان مناظر کو کوئی سیاح ختم نہیں کرسکتا اور نہ ان کی سیر سے سیر ہوسکتا ہے ۔ بلکہ میں کہوں گا کہ صرف ایک پھول ہی کو دیکھئے ۔ اس کا رنگ اور اس کی پتیاں اور اس کی تشکیل اور رنگوں کی تنظیم سبحان اللہ احسن الخالقین ۔ قرآن کریم ان امور کی طرف جابجا اشارات کرتا ہے ۔ بڑے بڑے مناظر کی طرف بھی اور چھوٹے چھوٹے پیش پا افتادہ مناظر کی طرف بھی ۔ اگر کوئی زندہ دل ان میں سے ایک کی طرف بھی اشارہ کر دے تو زندہ دبیدار مغز انسان کی ہدایت کے لیے صرف ایک ہی چیز یا ایک ہی پھول کا مطالعہ کا فی ہے اور کسی ایک چیز کے اندر موجود عجائبات پر بھی انسان اللہ کی حمد وثنا کا حق ادا نہیں کرسکتا ۔ الحمداللہ ۔۔۔۔ وربع (35: 1) ” تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا اور فرشتوں کو پیغام رساں مقرر کرنے والا ہے ، جن کے دودو ، تین تین ، اور چارچار بازو ہیں “۔ اس سورة میں موضوع سخن رسولوں ، وحی الٰہی اور نزول وحی ہے ، فرشتوں کا اس کے اندر بہت اہم کردار ہے کیونکہ یہ فرشتے ہی آسمانوں سے وحی لے کر مختار رسولوں کے پاس آیا کرتے ہیں اور یہ پیظام رسانی جو اللہ سے رسولسوں کے پاس آتی ہے ، نہایت ہی اہم اور نہایت ہی بھاری کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کائنات کی عظیم تخلیقات کے بعد فرشتوں کی تخلیق کا خصوصی ذکر ہوا کیونکہ یہ فرشتے ہی زمین اور آسمان کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہیں۔ وہی رابطہ ہوتے ہیں خالق سماوات وارض اور اللہ کے مختار بندوں یعنی رسولوں کے درمیان اور یہ پیغام رسانی اور ذریعہ ربط اس کائنات کا اہم کام فریضہ رسالت کے بارے میں ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں آغاز سے یہاں تک فرشتوں کا ذکر ہوتا رہا ہے لیکن فرشتوں کی شکل و صورت کے بارے میں پہلی مرتبہ بتایا گیا ہے ۔ اس سے قبل فرشتوں کی طبیعت اور ان کے فریضہ منصبی کی بات ہوتی رہی ہے مثلاً ومن عندہ لا ۔۔۔۔۔ لا یفترون (انبیاء : 19- 20) ” اور جو اس کے پاس ہیں وہ نہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اس کی بندگی سے سرتابی کرتے ہیں۔ نہ ملول ہوتے ہیں۔ شب و روز تسبیح کرتے رہتے ہیں۔ دم نہیں لیتے “۔ دوسری جگہ ہے۔ ان الذین عند ۔۔۔۔۔ ولہ یسجدون (7: 206) ” جو فرشتے تمہارے رب کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آکر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے۔ اور اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اس کے آگے جھکے رہتے ہیں “۔ (7: 206) یہاں ایک نیہ بات یہ کہی گئی ہے کہ ان کی تخلیقی صورت کیا ہے کہ ” جن کے دو دو ، تین تین اور چار چار بازو ہیں “۔ یہ ایک ایسی صفت ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہے ، نہ اس کا ہم کوئی تصور کرسکتے ہیں کہ ان کے بازو اور پر کیسے ہیں۔ ہمیں بس چاہئے اور ہم یہی کرسکتے ہیں کہ بس اجمالاً ایمان لائیں کہ ان کے پر ایسے ہوں گے۔ اس بارے میں کوئی متعین تصور ہم نہیں کرسکتے کیونکہ ہم جو اندازہ بھی کریں گے اس میں غلطی ہوگی جبکہ ان کی شکل کے بارے میں تفصیلات ہمیں احادیث صحیحہ سے بھی نہیں ملتیں۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ ان کی ایک اور صفت آئی ہے اور وہ یہ ہے۔ علیھا ملئکۃ ۔۔۔۔ ما یومرون (66: 6) ” جن پر نہایت تندخو اور سخت گیر فرشتے ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں “۔ اس میں بھی فرشتوں کی شکل کو متعین نہیں کیا گیا۔ احادیث میں جو کچھ آتا ہے وہ یہ ہی ہے کہ رسول اللہ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دو مرتبہ اپنی اصل شکل میں دیکھا۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ اس کے چھو سو پر تھے اس سے بھی ان کی شکل وہیبت کا تعین نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ معاملہ بھی علوم غیبیہ میں سے ایک ہے۔ ان کے دو دو یا تین تین یا چار چار پر ہیں اور انسانوں نے صرف پرندوں کے پر دیکھے ہیں۔ اس لیے اللہ فرماتے ہیں۔ یزید فی الخلق ما یشآء (35: 1) ” وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں جیسا چاہتا ہے ، اضافہ کرتا ہے “۔ یوں اللہ کی مشیت بےقید ہے اور وہ خود اپنی بنائی ہوئی اشکال کا پابند نہیں ہے۔ اس کی مخلوقات میں ہم دیکھتے ہیں کہ لاتعداد شکلیں ہیں اور لاتعداد شکلیں ایسی ہیں جو ابھی تک ہمارے علم ہی سے باہر ہیں۔ ان اللہ علی کل شئ قدیر (35: 1) ” اللہ ہر چیز پر قادر ہے “۔ یہ تبصرہ نہایت وسیع ہے اور زیادہ جامع ہے “۔ لہٰذا کسی صورت کے تعین کی ضرورت نہیں ہے۔ یعنی تمام شکلیں اللہ کی قدرت کے دائرے کے اندر آتی ہیں۔ ہر قدم کا تغیر و تبدل اللہ کی قدرت کے تحت ہوتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ خالق ارض و سما ہے ہر چیز پر قادر ہے، اس کے سوا کوئی پیدا کرنے والا نہیں اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں یہاں سے سورة فاطر شروع ہو رہی ہے جس کا دوسرا نام سورة الملائکہ بھی ہے۔ سورة الفاتحہ سورة الکہف اور سورة سباء کی طرح یہ سورت بھی اللہ تعالیٰ کی تعریف سے شروع ہے، فرمایا کہ سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں کا اور زمین کا پیدا فرمانے والا ہے، اس کی مخلوق میں فرشتے بھی ہیں ان فرشتوں کو بھی اس نے پیدا فرمایا اور کاموں پر مقرر فرمایا، ان کاموں میں سے ایک یہ کام ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اور اس کے نبیوں کے درمیان پیغام رسانی کا کام کرتے رہے ہیں، ان کی تخلیق بھی دوسری مخلوق سے علیحدہ ہے، ان کے جو بازو ہیں وہ دو دو بھی ہیں تین تین بھی ہیں اور چار چار بھی، فرشتے ان بازوؤں کے ساتھ جاتے اور آتے ہیں، چڑھتے اور اترتے ہیں۔ اور صرف چار بازوؤں پر ہی منحصر نہیں ہے اس سے زیادہ بازوؤں کا بھی صحیح بخاری میں ذکر ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو دو بار اصلی صورت میں دیکھا جن کے چھ سو بازو تھے۔ (یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآءُ ) (اللہ تعالیٰ پیدائش میں جو چاہے زیادہ فرما دیتا ہے) اور یہ زیادتی کمیت اور کیفیت دونوں میں ہوتی ہے، مخلوق میں جو کمی بیشی نظر آتی ہے اجسام میں بھی ہے اور اوصاف میں بھی، یہ سب محض اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے ہے۔ (اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) (بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ الحمد للہ الخ : اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ حاجات و مشکلات اور مصائب و بلیات میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارو۔ اس کے کسی پیغمبر، فرشتے اور جن و بشر کو مت پکارو اس مضمون کو بارہ دلائل سے ثابت کیا گیا ہے۔ جن میں گیارہ دلائل عقلیہ ہیں اور ایک دلیل وحی۔ بعض دلائل میں بیان کیا گیا ہے کہ سب کچھ کرنے والا اور ہر چیز پر قادر اللہ تعالیٰ ہی ہے اور بعض میں مذکور ہے کہ سب کچھ جاننے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ کارساز اور حاجت روا بھی وہی لہذا مافوق الاسباب صرف اسی کو پکارو۔ یہ پہلی عقلی دلیل ہے جس کا پہلا جزو یعنی (الحمد للہ) تمام صفات کمال کا جامع ہے۔ یعنی تمام صفات کارسازی اللہ کے ساتھ خاص ہیں وہ ہر چیز پر قادر بھی ہے اور ہر چیز کو جاننے والا بھی لہذا کارساز اور پکارے جانے کے لائق بھی وہی ہے۔ 3:۔ فاطر السموات الخ : سارے جہان کو اللہ ہی نے پیدا فرمایا۔فرشتوں کو پیدا کرنے والا بھی وہی ہے بعض فرشتوں کو دود پر عطا فرمائے بعض کو تین تین اور بعض کو چار چار۔ فرشتوں کو اس نے مختلف خدمات میں لگا دیا۔ اس طرح فرشتے اس کے خدام اور اس کے حکم کے بندے ہیں لہذا وہ معبود اور کارساز نہیں ہوسکتے۔ یزید فی الخلق الخ : وہ جس طرح چاہتا ہے پیدائش میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ چار سے زیادہ بھی پر عطا فرما سکتا ہے۔ جیسا کہ جبریل (علیہ السلام) کو چھ سو پر عطا فرمائے۔ قال ابن مسعود فی قولہ عز و جل (ولقد رای من ایات ربہ الکبری) قال رای جبریل فی صورتہ لہ ستمائۃ جناح (خازن جلد 5 ص 296) ۔ 4:۔ ان اللہ الخ : یہ یزید فی الخلق ایک کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ عام ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت عامہ کا ذکر ہے کہ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور سب کچھ کرسکتا ہے لہذا حاجات میں غائبانہ صرف اسی کو پکارو۔ فرشتے اس کے محکوم بندے ہیں وہ پکارے جانے کے لائق نہیں ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) تمام تعریفیں اور تمام حمدوثناء اس اللہ تعالیٰ کو لائق اور سزاوار ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو بنایا اور فرشتوں کو پیغام لانے والا بنایا جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار پر ہیں وہ اپنی مخلوق کی پیدائش اور بناوٹ میں جو چیز چاہے بڑھا دیتا ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو تمام تعریفیں سزاوار ہیں وہ ایسا ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو عدم سے وجود بخشا آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا۔ فرشتوں کو پیغامبر بنایا۔ یعنی وحی اور بشارتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے پیغمبروں کے پاس لاتے ہیں۔ فرشتوں کے پر والے بازو ہیں، نہ معلوم ان کی کیفیت کیا ہوگی جس نے فرشتوں کو دیکھا ہو وہی سمجھ سکتا ہے۔ دو دو تین تین چار چار بازوئوں میں انحصار نہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں بڑھاتا ہے یعنی چار سے زیادہ پر ہیں بعضوں نے کہا جبریل (علیہ السلام) کے چھ سو پر ہیں۔ فاطرالسمٰوٰت والارض کے معنی ہیں آسمان و زمین کا بنانے والا۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں۔ میں فاطر کے معنی میں الجھا ہوا تھا پہلی مرتبہ میرے سامنے دو اعرابی جھگڑتے ہوئے آئے جھگڑا ایک کنویں کا تھا دونوں میں سے ایک نے کہا۔ انا فطرتھا یعنی میں نے اس کنویں کو بنایا ہے۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ فاطر کے معنی ہیں بنانے والا۔ آگے اس کی قدرت کی وسعت اور اس کے قدیر ہونے کا ذکر ہے۔