Surat Faatir

Surah: 35

Verse: 11

سورة فاطر

وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ثُمَّ جَعَلَکُمۡ اَزۡوَاجًا ؕ وَ مَا تَحۡمِلُ مِنۡ اُنۡثٰی وَ لَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلۡمِہٖ ؕ وَ مَا یُعَمَّرُ مِنۡ مُّعَمَّرٍ وَّ لَا یُنۡقَصُ مِنۡ عُمُرِہٖۤ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ ﴿۱۱﴾

And Allah created you from dust, then from a sperm-drop; then He made you mates. And no female conceives nor does she give birth except with His knowledge. And no aged person is granted [additional] life nor is his lifespan lessened but that it is in a register. Indeed, that for Allah is easy.

لوگو! اللہ تعالٰی نے تمہیں مٹی سے پھر نطفہ سے پیدا کیا ہے پھر تمہیں جوڑے جوڑے ( مرد و عورت ) بنا دیا ہے ، عورتوں کا حاملہ ہونا اور بچوں کا تولد ہونا سب اس کے علم سے ہی ہے اور جو بھی بڑی عمر والا عمر دیا جائے اور جس کسی کی عمر گھٹے وہ سب کتاب میں لکھا ہوا ہے اللہ تعالٰی پر یہ بات بالکل آسان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاللَّهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ... And Allah did create you from dust, then from Nutfah, means, He initiated the creation of your father Adam from dust, then He created his offspring from semen of worthless water. ... ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا ... then He made you pairs. means, male and female, as a kindness and a mercy from Him, He gave you partners from your own kind, that you may find repose in them. ... وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَى وَلاَ تَضَعُ إِلاَّ بِعِلْمِهِ ... And no female conceives or gives birth but with His knowledge. means, He knows about that and nothing is hidden from Him at all, but, وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلاَ حَبَّةٍ فِى ظُلُمَـتِ الاٌّرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِى كِتَـبٍ مُّبِينٍ not a leaf falls, but He knows it. There is not a grain in the darkness of the earth nor anything fresh or dry, but is written in a Clear Record. (6:59) We have already discussed in this respect in the Ayah: اللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنثَى وَمَا تَغِيضُ الاٌّرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَكُلُّ شَىْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ عَـلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَـدَةِ الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ Allah knows what every female bears, and by how much the wombs fall short or exceed. Everything with Him is in (due) proportion. All-Knower of the unseen and the seen, the Most Great, the Most High. (13:8-9) ... وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلاَ يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلاَّ فِي كِتَابٍ ... And no aged man is granted a length of life nor is a part cut off from his life, but is in a Book. means, some of those sperm are granted a long life, which He knows and it is recorded with Him in the First Book. وَلاَ يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ (nor is a part cut off from his life), Here the pronoun (his) refers to mankind in general, not to a specific person, because the long life which is recorded in the Book and is known by Allah will not be cut off. It was reported via Al-Awfi that Ibn Abbas said concerning the Ayah, ... وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلاَ يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلاَّ فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ And no aged man is granted a length of life nor is a part cut off from his life, but is in a Book. Surely, that is easy for Allah. There is no one for whom Allah has decreed a long life but he will reach the age that has been decreed for him. When he reaches the time that has been decreed for him, he will not surpass it. And there is no one for whom Allah has decreed a short life but it will end when he reaches the age that has been decreed for him. Allah says: ... وَلاَ يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلاَّ فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ nor is a part cut off from his life, but is in a Book. Surely, that is easy for Allah. He said, "That is recorded in a Book with Him." This was also the view of Ad-Dahhak bin Muzahim. On the other hand, some of them said, "The phrase وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّر (And no aged man is granted a length of life) means, what He decrees for him of life, and وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّر (nor is a part cut off from his life) means, his time is constantly decreasing. All of this is known to Allah year after year, month after month, week after week, day after day, hour after hour. Everything is written with Allah in His Book. This was reported by Ibn Jarir from Abu Malik, and was also the view of As-Suddi and Ata Al-Khurasani. In the Tafsir of this Ayah, An-Nasa'i recorded that Anas bin Malik, may Allah be pleased with him, said, "I heard the Messenger of Allah say: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَه Whoever would like to have ample provision and a long life, let him uphold the ties of kinship." It was also recorded by Al-Bukhari, Muslim and Abu Dawud. ... إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ Surely, that is easy for Allah. means, that is very easy for Him, and He has detailed knowledge of all His creation, for His knowledge encompasses all things, and nothing at all is hidden from Him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 یعنی تمہارے باپ آدم کو مٹی سے اور پھر اس کے بعد تمہاری نسل کو قائم رکھنے کے لیے انسان کی تخلیق کو نطفے سے وابستہ کردیا جو مرد کی پشت سے نکل کر عورت کے رحم میں جاتا ہے۔ 11۔ 2 یعنی اس سے کوئی چیز مخفی نہیں، حتی کہ زمین پر گرنے والے پتے کو اور زمین کی تاریکیوں میں نشوونما پانے والے بیج کو بھی جانتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ١٧] جنین پر وارد ہونے والے تغیرات اور اللہ تعالیٰ کی انفرادی توجہ :۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مٹی کے چند اجزاء سے آدم کا پتلا بنایا۔ پھر اس میں اپنے ہاں سے روح پھونکی، تو یہی مٹی کے اجزا، گوشت پوست، ہڈیوں اور عضلات میں تبدیل ہوگئے پھر صرف اتنا ہی نہیں ہوا بلکہ اس میں اللہ کی اپنی کئی صفات بھی منعکس ہوگئیں وہ بولنے لگا۔ دیکھنے اور سننے لگا، سمجھنے لگا اس میں عقل پیدا ہوگئی۔ فہم و تدبر پیدا ہوگیا اور استنباط کا ملکہ پیدا ہوگیا۔ پھر آگے جو اس کی نسل چلی تو اس کے نطفہ سے چلی۔ یہ نطفہ کیا تھا، مٹی کے بےجان عناصر سے ہی حاصل شدہ چیز تھی۔ اور اس حقیر سے قطرہ میں اس انسان کے کثیر خواص منتقل ہوگئے جس کا یہ نطفہ تھا پھر اسی نطفہ سے اللہ نے جنس انسان کو مرد اور عورت کی دو نوعوں میں تبدیل کردیا۔ غرضیکہ اللہ کے عجائبات کا کہاں تک ذکر کیا جائے۔ مزید حیران کن بات یہ ہے کہ رحم مادر میں اللہ تعالیٰ ہر پیدا ہونے والے بچے کی طرف انفرادی توجہ مبذول فرماتے ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ رحم مادر میں کیا کیا تغیرات واقع ہوتے ہیں جن کا اس کی ماں کو بھی علم نہیں ہوتا۔ جس کے پیٹ میں یہ جنین ہوتا ہے پھر اس دوران ہر نومولود کی عمر بھی طے کردی جاتی ہے کہ وہ کس عمر میں مرے گا، اسے رزق کتنا ملے گا اور اس کا انجام کیسا ہوگا۔ گویا یہ آیت اللہ تعالیٰ کی خالقیت، اس کے لامحدود اور ہر چیز پر مکمل تصرف پر روشنی ڈالتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ۔۔ : اس سے پہلے بارش سے زمین کے زندہ ہونے کو موت کے بعد زندگی کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا، اب اس آیت میں موت کے بعد زندگی کی تین دلیلیں پیش فرمائیں جو تینوں عقلی ہیں، پہلی انسان کا مٹی سے پیدا ہو کر مختلف مراحل سے گزر کر موت کی آغوش میں جا بسنا ہے، جیسا کہ فرمایا : (يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ ۭ وَنُقِرُّ فِي الْاَرْحَامِ مَا نَشَاۗءُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّكُمْ ۚ وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّٰى وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْــــًٔا ۭ وَتَرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاۗءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَاَنْۢبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍۢ بَهِيْجٍ ) [ الحج : ٥ ] ” اے لوگو ! اگر تم اٹھائے جانے کے بارے میں کسی شک میں ہو تو بیشک ہم نے تمہیں حقیر مٹی سے پیدا کیا، پھر ایک قطرے سے، پھر کچھ جمے ہوئے خون سے، پھر گوشت کی ایک بوٹی سے، جس کی پوری شکل بنائی ہوئی ہے اور جس کی پوری شکل نہیں بنائی ہوئی، تاکہ ہم تمہارے لیے واضح کریں اور ہم جسے چاہتے ہیں ایک مقررہ مدت تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں، پھر ہم تمہیں ایک بچے کی صورت میں نکالتے ہیں، پھر تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کوئی وہ ہے جو قبض کرلیا جاتا ہے اور تم میں سے کوئی وہ ہے جو سب سے نکمّی عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے، تاکہ وہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے۔ “ یعنی جس اللہ نے پہلے مٹی سے پیدا فرمایا وہ انسان کے مٹی ہونے کے بعد دوبارہ بھی اسے پیدا فرما سکتا ہے۔ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْـثٰى وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِهٖ : یعنی کسی بھی مادہ کے حمل سے لے کر وضع تک کے تمام مراحل جس ہستی کے علم میں ہیں اور اسی کے کمال قدرت سے سر انجام پا رہے ہیں، اس کے لیے اس انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ بنادینا کیا مشکل ہے ؟ اس کی ہم معنی آیت کے لیے دیکھیے سورة حج کی آیت (٨) ۔ وَمَا يُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ ۔۔ : یہ بعث بعد الموت کی تیسری دلیل ہے، یعنی کسی زیادہ عمر والے کو زیادہ عمر دی جاتی ہے، یا کم عمر والے کو کم عمر دی جاتی ہے، تو یہ سب کچھ ایک کتاب میں درج ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے پہلے ہی طے فرما دیا ہے۔ تو جس ہستی نے ہر زیادہ عمر والے کی عمر اور کم عمر والے کی عمر پہلے ہی لکھ دی ہے اور جو ہر شخص کی زندگی کے ایک ایک لمحے سے واقف ہے اس کے لیے انھیں دوبارہ بنانے میں کیا دشواری ہوسکتی ہے ؟ یعنی اگرچہ تمہارے لیے اور پوری مخلوق کے لیے ناممکن ہے کہ تم پہلے ہی ان باتوں کو جان لو یا ان کا فیصلہ کرلو، مگر اللہ تعالیٰ کے لیے یہ بالکل آسان ہے، کیونکہ اسے پہلے ہی ان سب باتوں کا علم ہے اور وہ ہمیشہ سے یہ سب کچھ کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The sense of the verse: وَمَا يُعَمَّرُ‌ مِن مُّعَمَّرٍ‌ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِ‌هِ إِلَّا فِي كِتَابٍ (And no aged person is made to advance in age, nor a part is curtailed from his age, but all this is (recorded) in a book - 35:11), according to the majority of the commentators is that if Allah Ta’ ala blesses a person with a long age, it is a fact already on record in the Preserved Tablet (al-lawh al-mahfuz). Similarly, when the age of a certain person is kept at a lower mark in terms of the number of years, that too already stands recorded in al-lawh al-mahfuz. The outcome of it all is that the text, at this place, is not referring to one individual person&s age being long or short, instead, the statement relates to humankind as a whole, in the sense that some individuals from it are given long ages and others, a comparatively shorter ones. The explanation has been reported by Ibn Kathir from Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Abbas (رض) . Abu Bakr al-Jassas (رح) reports the same saying from Hasan al-Basri and Dahhak رحمۃ اللہ علیہما . Therefore, in general books of Tafsir, such as, Ibn Jarir, Ibn Kathir, Rah ul-Ma’ ani and others, this very explanation has been declared as the view of the majority of commentators. However, some early commentators have said: Should the length of age concerns one single person, then, decrease in age would mean that the age of every person as already written by Allah Ta’ ala is certain, and every day that passes decreases one day from this pre-fixed age. If two days pass, two days decrease. In the same way, every day, in fact, every single breath keeps decreasing one&s age. This Tafsir or explanation has been reported from Sha&bi, Ibn Jubayr, Abu Malik, Ibn ` Atiyyah and Suddiyy. (Ruh ul Ma’ ani) This subject has been succinctly expressed in an Arabic couplet as: حِیَاتُک اَنفَاسُ تُعَدُّ فَکُلَّمَا مَضٰی نَفَسُ مِّنھَا انتقَصَتُ بِہٖ جُزء، Your life is (the name of) counted breaths. So, whenever passes away a breath from it, a part of it decreases. In his explanation of this verse, Imam an-Nasa` i (رح) has reported from Sayyidna Anas Ibn Malik (رض) that he heard the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) saying,” مَن سَرَّہ، اَن یُبسَطَ لَہ، فِی رِزقِہٖ وَ یُنسَأ فِی اَثَرہٖ فَلیَصِلَ رَحمَۃ،”. This Hadith has also been reported by al-Bukhari, Muslim and Abu Dawud on the authority of a narration from Yunus Ibn Yazid Ayli. The Hadith means: &He who wishes that his sustenance and age is increased should treat his close relatives well (Silatu-r-rahim).& This obviously suggests that these deeds increase one&s age. But, another Hadith given below has itself clarified its sense: Ibn Abi Hatim (رح) reports from Sayyidna Abu-d-Darda& (رض) . He says, &when we mentioned this (subject) before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، he said, |" (Age as such is already fixed and determined by Allah), when the fixed term is over, no one is given the least respite. In fact, increase in age means (in the Hadith cited above) that Allah Ta` a1a blesses one with good children who keep praying for him. This person is not there anymore, but he keeps receiving their prayers in his grave (that is, he keeps on receiving the benefits one would have received if one were alive. Thus, in a way, his age has increased|" ). (Both narrations appearing above have been reported by Ibn Kathir). In short, Ahadith that say that some deeds cause age to increase mean increase in the barakah or bliss of age.

(آیت) وما یعمرمن معمر ولا ینقص من عمرہ الا فی کتاب، اس آیت کا مفہوم جمہور مفسرین کے نزدیک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو عمر طویل عطا فرماتے ہیں وہ پہلے ہی لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے، اسی طرح جس کی عمر کم رکھی جاتی ہے وہ بھی سب لوح محفوظ میں پہلے ہی درج ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہاں عمر کا طول اور نقص فرد واحد کے متعلق مراد نہیں، بلکہ کلام نوع انسانی کے متعلق ہے کہ اس کے کسی فرد کو عمر طویل دی جاتی ہے کسی کو اس سے کم یہ تفسیر حضرت عباس سے ابن کثیر نے نقل کی ہے۔ حصاص نے حسن بصری اور ضحاک کا یہی قول نقل کیا ہے، اسی لئے ابن جریر، ابن کثیر، روح المعانی وغیرہ عام تفاسیر میں اسی کو جمہور کی تفسیر قرار دیا ہے اور بعض حضرات نے فرمایا ہے اگر عمر کی کمی زیادتی کو ایک ہی شخص کے متعلق کہا جائے تو عمر میں کمی کرنے کا یہ مطلب ہے کہ ہر شخص کی جو عمر اللہ تعالیٰ نے لکھ دی ہے وہ یقینی ہے اور جو دن گذرتا ہے اس مقررہ مدت عمر میں سے ایک دن کی کمی کردیتا ہے، دو دن گذرتے ہیں تو دو کم ہوجاتے ہیں، اسی طرح ہر دن بلکہ ہر سن اس کی عمر کو گھٹاتا رہتا ہے۔ یہ تفسیر شعبی، ابن جبیر، ابومالک، ابن عطیہ اور سدی سے منقول ہے (روح) اسی مضمون کو اس شعر میں ادا کیا گیا ہے۔ ” یعنی تیری زندگی چند گنے ہوئے سانسوں کا نام ہے تو جب بھی ایک سانس گذراتا ہے تیری عمر کا ایک جز گھٹ جاتا ہے۔ “ امام نسائی نے اس آیت کی تفسیر میں حضرت انس بن مالک سے یہ روایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا۔ من سرہ ان یبسط لہ فی رزقہ وینساء فی اثرہ فلیصل رحمہ بخاری، مسلم، ابوداؤد نے بھی یہ حدیث یونس بن یزید ایلی کی روایت سے نقل کی ہے۔ معنی حدیث کے یہ ہیں کہ جو شخص چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں وسعت اور عمر میں زیادتی ہو تو اس کو چاہئے کو صلہ رحمی کرے یعنی اپنی ذی رحم رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرے۔ بظاہر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صلہ رحمی سے عمر بڑھ جاتی ہے، مگر اس کا مطلب ایک دوسری حدیث نے خود واضح کردیا ہے وہ یہ ہے۔ ابن ابی حاتم نے حضرت ابو الدروا سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس (مضمون کا ذکر) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کیا تو آپ نے فرمایا کہ (عمر تو اللہ کے نزدیک ایک ہی مقرر اور مقدر ہے جب مقررہ مدت پوری ہوجاتی ہے تو کسی شخص کو ذرا بھی مہلت نہیں دی جاتی۔ بلکہ زیادتی عمر سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اولاد صالح عطا فرما دیتا ہے وہ اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں۔ یہ شخص نہیں ہوتا ہے اور ان لوگوں کی دعائیں اس کو قبر میں ملتی رہتی ہیں (یعنی مرنے کے بعد بھی ان کو وہ فائدہ پہنچتا رہتا ہے، جو خود زندہ رہنے سے حاصل ہوتا ہے، اسی طرح گویا اس کی عمر بڑھ گئی۔ یہ دونوں روایتیں ابن کثیر نے نقل کی ہیں) خلاصہ یہ ہے کہ جن احادیث میں بعض اعمال کے متعلق یہ آیا ہے کہ ان سے عمر بڑھ جاتی ہے، اس سے مراد عمر میں برکت کا بڑھ جانا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاللہُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ اَزْوَاجًا۝ ٠ ۭ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْـثٰى وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِہٖ۝ ٠ ۭ وَمَا يُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّلَا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِہٖٓ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ۝ ٠ ۭ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرٌ۝ ١١ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے ترب التُّرَاب معروف، قال تعالی: أَإِذا كُنَّا تُراباً [ الرعد/ 5] ، وقال تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر/ 11] ، یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] . ( ت ر ب ) التراب کے معنی مٹی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر/ 11] کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ۔ یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] کہ اے کاش کے میں مٹی ہوتا ۔ نطف النُّطْفَةُ : الماءُ الصافي، ويُعَبَّرُ بها عن ماء الرَّجُل . قال تعالی: ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون/ 13] ، وقال : مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ [ الإنسان/ 2] ، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى [ القیامة/ 37] ويُكَنَّى عن اللُّؤْلُؤَةِ بالنَّطَفَة، ومنه : صَبِيٌّ مُنَطَّفٌ: إذا کان في أُذُنِهِ لُؤْلُؤَةٌ ، والنَّطَفُ : اللُّؤْلُؤ . الواحدةُ : نُطْفَةٌ ، ولیلة نَطُوفٌ: يجيء فيها المطرُ حتی الصباح، والنَّاطِفُ : السائلُ من المائعات، ومنه : النَّاطِفُ المعروفُ ، وفلانٌ مَنْطِفُ المعروف، وفلان يَنْطِفُ بسُوء کذلک کقولک : يُنَدِّي به . ( ن ط ف ) النطفۃ ۔ ضمہ نون اصل میں تو آب صافی کو کہتے ہیں مگر اس سے مرد کی منی مراد لی جاتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون/ 13] پھر اس کو ایک مضبوط اور محفوظ جگہ ہیں نطفہ بنا کر رکھا ۔ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ [ الإنسان/ 2] نطفہ مخلوط سے أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى [ القیامة/ 37] کیا وہ منی کا جور رحم میں ڈالی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا ۔ اور کنایۃ کے طور پر موتی کو بھی نطمۃ کہا جاتا ہے اسی سے صبی منطف ہے یعنی وہ لڑکا جس نے کانوں میں موتی پہنے ہوئے ہوں ۔ النطف کے معنی ڈول کے ہیں اس کا واحد بھی نطفۃ ہی آتا ہے اور لیلۃ نطوف کے معنی بر سات کی رات کے ہیں جس میں صبح تک متواتر بارش ہوتی رہے ۔ الناطف سیال چیز کو کہتے ہیں اسی سے ناطف بمعنی شکر ینہ ہے اور فلان منطف المعروف کے معنی ہیں فلاں اچھی شہرت کا مالک ہے اور فلان ینطف بسوء کے معنی برائی کے ساتھ آلودہ ہونے کے ہیں جیسا کہ فلان یندی بہ کا محاورہ ہے ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة . ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة/ 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔ حمل الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل . وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی: وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] ، ( ح م ل ) الحمل ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔ وضع الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية/ 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن/ 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران/ 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی: إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف/ 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء/ 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة . ( و ض ع ) الواضع ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية/ 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران/ 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن/ 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف/ 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء/ 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا عمر ( زندگی) والْعَمْرُ والْعُمُرُ : اسم لمدّة عمارة البدن بالحیاة، فهو دون البقاء، فإذا قيل : طال عُمُرُهُ ، فمعناه : عِمَارَةُ بدنِهِ بروحه، وإذا قيل : بقاؤه فلیس يقتضي ذلك، فإنّ البقاء ضدّ الفناء، ولفضل البقاء علی العمر وصف اللہ به، وقلّما وصف بالعمر . والتَّعْمِيرُ : إعطاء العمر بالفعل، أو بالقول علی سبیل الدّعاء . قال : أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر/ 37] ، وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر/ 11] ، وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة/ 96] ، وقوله تعالی: وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] ، قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] ، وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء/ 18] . والعُمُرُ والْعَمْرُ واحد لکن خُصَّ القَسَمُ بِالْعَمْرِ دون العُمُرِ «3» ، نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر/ 72] ، وعمّرک الله، أي : سألت اللہ عمرک، وخصّ هاهنا لفظ عمر لما قصد به قصد القسم، ( ع م ر ) العمارۃ اور العمر والعمر اس مدت کو کہتے میں جس میں بدن زندگی کے ساتھ آباد رہتا ہے اور یہ بقا سے فرو تر ہے چنناچہ طال عمر ہ کے معنی تو یہ ہوتے ہیں کہ اس کا بدن روح سے آباد رہے لیکن طال بقاء ہ اس مفہوم کا مقتضی نہیں ہے کیونکہ البقاء تو فناء کی ضد ہے اور چونکہ بقاء کو عمر پر فضیلت ہے اس لئے حق تعالیٰ بقاء کے ساتھ تو موصؤف ہوتا ہے مگر عمر کے ساتھ بہت کم متصف ہوتا ہے ۔ التعمیر کے معنی ہیں بالفعل عمر بڑھانا نا یا زبان کے ساتھ عمر ک اللہ کہنا یعنی خدا تیری عمر دراز کرے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر/ 37] کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو سوچنا چاہتا سوچ لیتا ۔ وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر/ 11] اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے ۔ وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة/ 96] اگر اتنی لمبی عمر اس کو مل بھی جائے تو اسے عذاب سے تو نہیں چھڑا سکتی ۔ اور آیت : ۔ وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] اور جس کو بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] یہاں تک کہ ( اسی حالت میں ) ان کی عمر ین بسر ہوگئیں ۔ وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء/ 18] اور تم نے برسوں ہمارے عمر بسر کی ۔ العمر والعمر کے ایک ہی معنی ہیں لیکن قسم کے موقعہ پر خاص کر العمر کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے ۔ عمر کا لفظ نہیں بولا جاتا جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر/ 72] تمہاری زندگی کی قسم وہ اپنی مستی میں عمرک اللہ خدا تمہاری عمر دارز کرے یہاں بھی چونکہ قسم کی طرح تاکید مراد ہے اس لئے لفظ عمر کو خاص کیا ہے ۔ نقص النَّقْصُ : الخُسْرَانُ في الحَظِّ ، والنُّقْصَانُ المَصْدَرُ ، ونَقَصْتُهُ فهو مَنْقُوصٌ. قال تعالی: وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَالْأَنْفُسِ [ البقرة/ 155] ، وقال : وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ [هود/ 109] ، ( ن ق ص ) النقص ( اسم ) حق تلفی اور یہ نقصتہ ( ن ) فھو منقو ص کا مصدر بھی ہے جس کے معنی گھٹانے اور حق تلفی کر نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَالْأَنْفُسِ [ البقرة/ 155] اور جانوں اور مالوں ۔۔۔۔ کے نقصان سے وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ [هود/ 109] اور ہم ان کو ان کا حصہ پورا پوارا کم وکاست دینے والے ہیں ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو يسير واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء/ 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب/ 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج/ 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب/ 14] الیسیر والمیسور سہل اور آسان قرآن میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء/ 28] تو ان سے نر می سے بات کہدیا کرو ۔ اور کبھی یسیر کے معنی حقیر چیز بھی آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب/ 30] اس کو دونی سزا دی جائیگی اور یہ بات خدا کو آسان ہے میں لفظ یسیرا کے معنی آسان اور سہل کے ہیں اور آیت وما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب/ 14] اور اس کے لئے بہت کم توقف کریں میں اس کے معنی بہت کم عرصہ کے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

ہر ایک کی زندگی کا وقت اللہ نے مقرر کر رکھا ہے قول باری ہے (وما یعمر من معمرو لا ینقص من عمرہ الا فی کتاب۔ اور نہ کسی کی عمر زیادہ کی جاتی ہے اور نہ کم کی جاتی ہے مگر یہ سب لوح محفوظ میں ہے) حسن اور ضحاک سے مروی ہے کہ کسی کی عمر نہ کم کی جاتی ہے اور نہ کسی اور شخص کی عمر میں اضافہ کیا جاتا ہے مگر یہ سب لوح محفوظ میں ہے۔ شعبی کا قول ہے کہ (لا ینقص من عمرہ) کا مفہوم یہ ہے کہ ” ایک شخص کی عمر میں ہر وقت ہر گھڑی جو کمی آتی جاتی ہے اس کا علم اللہ کو ہوتا ہے۔ “ عمر اس مدت کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنی ہر مخلوق کے لئے لکھ دیتا ہے اس لئے اوقات اور زمانے کے گزرنے کے ساتھ عمروں میں جو کمی آتی ہے اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہوتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اللہ تعالیٰ نے تمہیں بذریعہ آدم مٹی سے پیدا کیا ہے پھر تمہیں تمہارے آباء کے نطفہ سے پیدا کیا ہے پھر تمہیں جوڑے جوڑے بنایا اور کسی عورت کو نہ حمل رہتا ہے اور نہ وہ پورا یا ادھورا جنتی ہے مگر سب کچھ اس کی اطلاع اور اجازت سے ہوتا ہے اور نہ کسی عمر والے کو عمر دی جاتی ہے اور نہ کسی کی عمر بڑھائی جاتی ہے اور نہ کسی کی عمر کم کی جاتی ہے، مگر یہ سب لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہوتا ہے بغیر کتابت کے بھی ان تمام امور کا محفوظ رکھنا اللہ تعالیٰ پر بہت آسان ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١ { وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ جَعَلَکُمْ اَزْوَاجًا } ” اور وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ‘ پھر نطفے سے ‘ پھر تمہیں جوڑے جوڑے بنا دیا۔ “ { وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰی وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِہٖ } ” اور نہ ہی کسی مادہ کو کوئی حمل ہوتا ہے اور نہ ہی وہ جنتی ہے مگر یہ اس کے علم میں ہوتا ہے۔ “ انسان ہو یا حیوان ‘ اس حوالے سے کوئی چیز اللہ کے علم سے باہر نہیں۔ { وَمَا یُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّلَا یُنْقَصُ مِنْ عُمُرِہٖٓ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ } ” اور کسی عمر والے کو عمر نہیں دی جاتی اور نہ ہی کسی کی عمر میں کمی کی جاتی ہے مگر یہ سب ایک کتاب میں (لکھا ہوا) ہے۔ “ { اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ} ” یقینا یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔ “ یعنی اپنی نوع (species) کے اعتبار سے انسان کی ایک اوسط (average) عمر ہے ‘ لیکن کوئی شخص اس اوسط عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی فوت ہوجاتا ہے جبکہ ایک دوسرا شخص اوسط عمر کے بعد بھی طویل عرصہ تک زندہ رہتا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ایک طے شدہ نظام کے تحت وقوع پذیر ہوتا ہے۔ کون طویل عمر پائے گا ‘ کون چھوٹی عمر میں فوت ہوجائے گا اور کس کو کب موت آئے گی ‘ اس بارے میں تمام فیصلے اللہ کے ہاں پہلے سے طے شدہ ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

23 From here again the discourse is directed to the common people. 24 That is, man in the first instance was created from the dust directly, then his race was perpetuated through the sperm-drop. 25 That is, "It is pre-ordained for everyone who is born in this world how long he will live. If a person lives a long life, he dces so by Allah's decree, and if another one lives a short life, he too lives so by Allah's decree. Some ignorant people give the argument that in the past the death-rate of the newly-born children used to be high, and now it has been checked by the advancement of the medical science; and the people used to live short lives in the past, now due to better medical facilities the life-span has increased. But this argument could be presented in refutation of the Qur'anic argument only when it could be ascertained that Allah, for instance, had pre-ordained a two-year life for a certain person, and the modern medical facilities have enhanced it by a day. If a person has no such knowledge, he cannot refine this Qur'anic statement on any rational grounds. Only on the basis of the statistics that the death-rate among children has fallen, or that the people now. are living longer lives, it cannot be argued that man has now become able to change the decrees of Allah. Rationally it is not impossible that Allah might have fixed different life-spans for the people born in different periods, and this might also be Allah Almighty's decree that man in such and such an age would be granted curative power to treat such and such diseases, and in such and such a period man would be given greater means for longevity. 26 That is, "It is not at all difficult for AIlah to give commands and pass judgements about each individual of His countless creations when He possesses detailed and perfect knowledge about them."

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :23 یہاں سے پھر روئے سخن عوام الناس کی طرف پھرتا ہے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :24 یعنی انسان کی آفرینش پہلے براہ راست مٹی سے کی گئی ، پھر اس کی نسل نطفے سے چلائی گئی ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :25 یعنی جو شخص بھی دنیا میں پیدا ہوتا ہے اس کے متعلق پہلے ہی یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ اسے دنیا میں کتنی عمر پانی ہے ۔ کسی کی عمر دراز ہوتی ہے تو اللہ کے حکم سے ہوتی ہے ، اور چھوٹی ہوتی ہے تو وہ بھی اللہ ہی کے فیصلے کی بنا پر ہوتی ہے ۔ بعض نادان لوگ اس کے جواب میں یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ پہلے نو زائیدہ بچوں کی موتیں بکثرت واقع ہوتی تھیں اور اب علم طب کی ترقی نے ان اموات کو روک دیا ہے ۔ اور پہلے لوگ کم عمر پاتے تھے ، اب وسائل علاج بڑھ جانے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ عمریں طویل ہوتی جا رہی ہیں ۔ لیکن یہ دلیل قرآن مجید کے اس بیان کی تردید میں صرف اس وقت پیش کی جا سکتی تھی جبکہ کسی ذریعہ سے ہم کو یہ معلوم ہو جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے تو فلاں شخص کی عمر مثلاً دو سال لکھی تھی اور ہمارے طبی وسائل نے اس میں ایک دن کا اضافہ کر دیا ۔ اس طرح کا کوئی علم اگر کسی کے پاس نہیں ہے تو وہ کسی معقول بنیاد پر قرآن کے اس ارشاد کا معارضہ نہیں کر سکتا ۔ محض یہ بات کہ اعداد و شمار کی رو سے اب بچوں کی شرح اموات گھٹ گئی ہے ، یا پہلے کے مقابلہ میں اب لوگ زیادہ عمر پا رہے ہیں ، اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ انسان اب اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کو بدلنے پر قادر ہو گیا ہے ۔ آخر اس میں کیا عقلی استبعاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف زمانوں میں پیدا ہونے والے انسانوں کی عمریں مختلف طور پر فرمائی ہوں ، اور یہ بھی اللہ عزوجل ہی کا فیصلہ ہو کہ فلاں زمانے میں انسان کو فلاں امراض کے علاج کی قدرت عطا کی جائے گی اور فلاں دور میں انسان کو بقائے حیات کے فلاں ذرائع بخشے جائیں گے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :26 یعنی اتنی بے شمار مخلوق کے بارے میں اتنا تفصیلی علم اور فرد فرد کے بارے میں اتنے مفصل احکام اور فیصلے کرنا اللہ کے لیے کوئی دشوار کام نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: اس سے مراد لوح محفوظ ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١۔ اس آیت میں آدم اور اولاد آدم کی پیدائش کا ذکر فرما کر منکرین حشر کو یوں قائل کیا گیا ہے کہ جو صاحب قدرت پانی جیسی پتلی چیز سے اولاد آدم کا پتلا بنادینے پر قادر ہے جس قدرت کو رات دن یہ لوگ آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں تو پھر حشر کے دن آدم کے پتلے کی طرح مٹی سے تمام اولاد آدم کے پتلے بنا دینا اور ان میں پیٹ کے بچوں کی طرح روحول کا پھونک دینا اس کی قدرت سے کیوں کر باہر ہوسکتا ہے الابوداؤد ترمذی صحیح ابن حبان کے حوالہ ٢ ؎ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے (٢ ؎ مشکوۃ باب الایمان بالقدر فصل دوسری مع تنیقح الرواۃ) کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کے پتلے کے لیے تمام زمین کی مٹی لی ہے اسی واسطے اولاد آدم میں کوئی گورا ہے کوئی کالا ہے کوئی خوش مزاج کوئی بدمزاج ‘ اس حدیث کو واللہ خلقکم من تراب کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ اب اولاد آدم کی پیدائش نطفہ سے ہے لکن اس کی پیدائش میں مدم (علیہ السلام) کے پتلے کی مٹی کا بھی میل ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود کی حدیث ٣ ؎ ایک جگہ گزر چکی ہے (٣ ؎ ایضا فصل اول۔ ) کہ نطفہ عورت کے رحم میں جاکر چالیس روز تک نطفہ کی حالت میں رہتا ہے اور پھر جما ہوا خون اور پھر گوشت کی بوٹی بن جاتا ہے یہ حدیث ثم من نطفۃ کی گویا تفسیر ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ١ ؎ ایک جگہ گزر چکی ہے (١ ؎ ایضا باب عشرۃ النساء وما لکل واحد من الحقوق) کہ حوا (علیہ السلام) آدم (علیہ السلام) کی پسلی سے پدیا ہوئی ہیں اس لیے پسلی کی ہڈی کی طرح ہر عورت کے مزاج میں ایک کجی ہے یہ حدیث ثم جعلک ازواج کی گویا تفسیر ہے جس سے آدم اور حوالہ جوڑے کی پیدائش کا حال اور پھر اس جوڑے سے اور سب جوڑوں کی پیدائش کا حال معلوم ہوتا ہے ‘ صحیح بخاری میں انس بن مالک (رض) ٢ ؎ سے اور صحیح مسلم میں حذیفہ بن اسید (رض) ٣ ؎ سے جو روایتیں وماتحمل من انئی ولا تضع الابعلمہ کی گویا تفسیر ہے (٢ ؎ صحیح بخاری ص ٦٦٩ ج اول طبع اصخ المطابع دہلی۔ ) (٣ ؎ صحیح مسلم ص ٣٣٢ ج ٢ کتاب القدر ) ان کا حاصل یہ ہے کہ نطفہ کی حالت سے لے کر لڑکا یا لڑکی کے پتلا بن جانے کی حالت تک رحم پر جو فرشتہ تعینات ہے وہ ہر حالت کو اللہ تعالیٰ سے پوچھتا ہے اور اللہ تالیٰ کا جیسا حکم ہوتا ہے اس کے موافق عمل کرتا ہے یہ حدیثیں وما تحمل من انئی ولا تضع الابعلمہ کی گویا تفسیر ہے صحیح بخاری ومسلم کی عبداللہ (رض) بن مسعود یک روایت ٤ ؎ میں ہر لڑکے یا لڑکی کی عمر کے لکھے جانے کا بھی ذکر ہے جو ٹری چھوٹی عمر کی گویا تفسیر ہے آخر کو فرمایا کہ انسان کی عقل کے آگے یہ باتیں مشکل معلوم ہوتی ہیں لیکن اللہ کے علم اور قدرت کے مگے یہ سب باتیں آسمان میں ومایعمر من معمر ولا ینقص من عمرہ اس کا یہ مطلب ہے کہ بعضے لوگوں کی عمر بڑی ہوتی ہے اور بعضوں کی چھوٹی اس کا حساب لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے جو کچھ ہوتا ہے اسی کے موافق ہوتا ہے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے میت کے اس ٹکڑے کی یہی تفسیر کی ہے جو بیان کی گئی۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(35:11) من تراب۔ مٹی سے۔ اصل بعید کی طرف اشارہ ہے یعنی اولیں حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا۔ اور من نطفۃ اصل قریب کی طرف اشارہ ہے (یعنی حضرت آدم کے بعد نسل انسانی کو) ۔ ازواجا۔ جوڑے۔ ما تحمل مضارع منفی واحد مؤنث غائب۔ حمل (باب ضرب) سے مصدر وہ نہیں اٹھاتی ہے وہ حمل سے نہیں ہوتی۔ وہ حمل نہیں اٹھاتی۔ وہ حاملہ نہیں ہوتی۔ ولا تضع اور نہ جنتی ہے ۔ وائو عاطفہ تضع مضارع منفی واحد مؤنث غائب اور نہ بچہ جنتی ہے وضع باب فتح سے مصدر جس کے معنی ہیں رکھنے اور ڈالدینے یا عورت کے بچہ جننے کے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے کہ : قالت رب انی وضعتہا انثی (3:36) اس نے (حضرت مریم نے ) کہا اے میرے پروردگار میں نے تو ایک بچی کو جنم دیا ہے۔ من انثی۔ کوئی عورت ، اس صورت میں من تبعیضیہ ہے۔ من زائدہ بھی ہوسکتا ہے۔ ما یعمر۔ مضارع منفی مجہول واحد مذکر غائب تعمیر (تفعیل) مصدر جس کے معنی عمر بڑھانا یا زبان سے عمرک اللہ (خدا تیری عمر دراز کرے) کہنا ہے العمارۃ۔ خراب کی ضد ہے ۔ آباد کرنا۔ آبادی۔ عمر ارضہ اس نے اپنی زمین آباد کی۔ معمور۔ آباد کی ہوئی جگہ۔ عمر آدمی کی مدت زندگی۔ کیونکہ مدت زندگی میں انسان کی عمارت بدن قائم رہتی ہے۔ بدنی مکان تعلق روح کی وجہ سے آباد رہتا ہے۔ عمر اور عمر کا اگرچہ ایک ہی معنی ہے لیکن قسم کے موقع پر عمر بولا جاتا ہے ۔ مایعمر اس کی عمر نہیں بڑھائی جاتی ہے ۔ معمر۔ اسم مفعول واحد مذکر تعمیر مصدر سے۔ جس کی عمر بڑھائی گئی ہو۔ بڑی عمر والا۔ عمر رسیدہ ۔ طویل العمر۔ یا محض وہ شخص جس کو زندگی دی گئی ہو۔ لا ینقص۔ مضارع نفی مجہول واحد مذکر غائب نقص (باب نصر) مصدر نہیں کم کی جاتی ہے۔ عمرہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ اس کی عمر۔ ما یعمر من معمر ولا ینقص من عمرہ الا فی کتب۔ کسی عمر والے کی عمر زیادہ نہیں کی جاتی اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے مگر (سب کچھ) کتاب میں (لکھا ہوا ) ہے۔ اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) معمر سے مراد شخص محض ہے اور عمرہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع معمر اخر ہے۔ جیسے عربی میں عندی درہم ونصفہ میں نصفہ سے نصف درہم آخر مراد لیا جاتا ہے ۔ ترجمہ ہوگا :۔ کسی شخص کی عمر بڑھائی نہیں جاتی ہے اور نہ کسی دوسرے شخص کی عمر کم کی جاتی ہے مگر (یہ سب کچھ) کتاب میں (لکھا ہوا ) ہے۔ (2) معمر۔ بمعنی شخص محض ہے اور ہ ضمیر کا مرجع وہی معمر ہے جو پہلے مذکور ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ کسی شخص کی عمر بڑھائی نہیں جاتی ہے اور نہ ہی اس کی عمر کم کی جاتی ہے مگر (یہ سب کچھ ) کتاب میں (لکھا ہوا) ہے۔ (3) معمر سے مراد طویل العمر شخص ہے اور ہ ضمیر دوسرے ناقص العمر شخص کی طرف راجع ہے اس صورت میں ترجمہ ہوگا :۔ کسی طویل العمر کی عمر نہیں بڑھائی جاتی ہے اور نہ کسی ناقص العمر کی عمر میں کمی کی جاتی ہے۔ مگر (یہ سب کچھ ) کتاب میں (لکھا ہوا) ہے۔ بعض اہل تفسیر نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ :۔ طویل العمر شخص کی عمر میں بیشی اور ناقص العمر کی عمر میں کمی اس طرح نہیں کی جاتی کہ ناقص العمر کی عمر کا کوئی حصہ اس کی عمر سے گھٹا کر طویل العمر کی عمر میں بڑھا دیا جائے اور اس طرح ایک طویل العمر ہوجائے اور دوسرا ناقص العمر۔ فی کتب۔ میں کتب سے مراد لوحد محفوظ ہے۔ ذلک۔ جو واللہ خلقکم سے لے کر فی کتب تک مذکور ہے۔ یسیر۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے یسر مادہ۔ آسان ۔ سہل۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی ہر شخص کی عمر میں جو کمی یا زیادتی وہ اللہ تعالیٰ کے لکھے ہوئے فیصلہ کے مطابق ہوتی ہے۔ احادیث میں ہے کہ دعا صدقہ اور صلہ رحمی سے رزق اور عمر میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ پس ان روایات سے دوسری احادیث کی عموم میں تخصیص کی جائے گی جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رزق و عمر اور سعادت و شقاوت ماں کے رحم میں لکھے جاتے ہیں اور پھر ان میں کمی بیشی اور تغیر و تبدل نہیں ہوتا۔ ( قرطبی، شوکانی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 11 تا 14۔ ۔ نطفۃ ( نطفہ ، پانی کی حقیر بوند) انثی (عورت) لا تصنع (پیدا نہیں کرتی ، جنم نہیں دیتی) یعمر ( وہ عمر کو بڑھاتا ہے) لا ینقص ( وہ کمی نہیں کرتا) یسیر ( آسان کرتا ہے) لا یستوی (برابر نہیں ہے) عذب فرات (میٹھا پانی ، پیاس بجھانے والا) سائغ (خوش گوار) شراب ( پینے کی چیز) ملح ( کھارا ، نمکین) اجاج ( کڑوا) طری ( تازہ) حلیۃ ( زیور) تلبسون ( تم پہنتے ہو) مواخر ( پانی پھاڑنے والا) یولج ( داخل کرتا ہے) مسمی (مقرر مدت ، متعین) قطمیر (چھلکا ، کھجور کی گٹھلی پر لگی جھلی) یا ینبی (وہ جبر نہیں دیتا) خبیر ( بہت خبر رکھنے والا ، نگہبان) تشریح : آیت نمبر 11 تا 14 :۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اپنی بعض نشانیوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہی اس ساری کائنات اور اس کے ذرے ذرے کا خالق ومالک ہے اور اس کی ہر بات کا پوری طرح علم ہے۔ اس نے انسانوں کو بنا کر یوں ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس نے رزق کے تمام اسباب مہیا فرما کر آزمایا ہے کہ اپنے اختیار سے کوئی شخص کیا عمل کرتا ہے اور اپنے لئے جنت یا جہنم میں سے کون سا راستہ منتخب کرتا ہے۔ 1۔ اللہ نے انسانی نسل کی ابتداء حضرت آدم (علیہ السلام) سے فرمائی جنہیں مٹی سے پیدا کیا گیا تھا پھر اس نے پانی کی ایک حقیر بوند ( نطفہ) سے انسانی نسل کو ساری دنیا میں پھیلا دیا ۔ اور ہر ایک کے لئے اسکے جوڑے اور ساتھی کو بھی پیدا کیا تا کہ اس کے ذریعہ سکون قلب حاصل ہو سکے۔ 2۔ اپنی ساری مخلوق کے متعلق اس کا علم اس قدر وسیع ہے کہ جو بچہ بھی اس دنیا میں قدم رکھ رہا ہے اس کے متعلق اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ کیا ہے ؟ کیسا ہے ؟ اس کی عمر کتنی ہوگی ؟ اور اس کو کتنا رزق دیا جائے گا ؟ ان تمام باتوں کا حساب اور علم رکھنا انتہائی آسان ہے اور اس میں اس ذات پاک کے لئے کوئی دشواری نہیں ہے کیونکہ ایک ایک بات لوح محفوظ میں لکھ دی گئی ہے۔ 3۔ یہ اللہ ہی کی قدرت ہے کہ جس نے ایک ہی زمین کے سوتوں سے نکلنے والی پانی کی خصوصیات کو اس طرح کنٹرول کیا ہوا ہے اگر ایک طرف صاف ستھرا اور میٹھا پانی ہے جس سے دریا ، نہریں اور چشمے جاری ہیں تو دوسری طرف اس نے کھارے ، کڑوے اور تلخ پانی کو پیدا کر کے بےانتہاء گہرے اور عظیم سمندر بنا دیئے اور کنوؤں سے کھارے پانی کو پیدا کیا لیکن یہ اس کی ایک عظیم قدرت ہے کہ سمندر کے انتہائی کڑوے اور نمکین پانی میں پلنے اور بڑھنے والی مچھلیوں کے گوشت کو نمک اور کڑواہٹ سے محفوظ فرما دیا جو انسانوں کی بہترین عذا ہے اس میں نمک اور کڑواہٹ محسوس تک نہیں ہوتی بلکہ مچھلیوں کو پکانے کے بعد ہر انسان اپنی مرضی سے اس پر نمک چھڑک کر لطف اور لذت حاصل کرتا ہے۔ اس کڑوے اور کسیلے پانی میں اس نے نہایت خوبصورت اور قیمتی موتی ، مونگے اور مرجان کو پیدا کیا جن کو زیب وزینت کے لئے زیور بنا کر پہنا جاتا ہے۔ ان ہی پانیوں میں کشتیاں اور بڑے بڑے جہاز چلتے ہیں جو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک انسانی ضرورت کا سامان پہنچاتے ہیں ۔ یہ تمام چیزیں ایسی نعمتیں ہیں جن پر جس قدر شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے۔ 4۔ اسی نے اپنی قدرت سے رات اور دن ، اندھیرے اور اجالے کو نعمت کے طور پر پیدا کیا ۔ کبھی کے دن بڑے ہوتے ہیں اور کبھی کی راتیں ، موسم بدلتے رہتے ہیں ، کبھی سردی ، گرمی ، جاڑا اور برسات ہے کبھی خوش گوار ہوائیں ، کبھی خشک موسم، ان کو اس لئے تبدیل کیا جاتا ہے کہ انسان زندگی اور موسموں کی یکسانیت سے کتا نہ جائے۔ 5۔ وہی ایک اللہ ہے جس نے اپنی قدرت سے چاند ، سورج اور ستاروں کو پیدا کر کے ان کو انسانوں کے لئے مسخر اور تابع کردیا یہ تمام چیزیں خادم کی حیثیت سے ان کے کاموں میں لگا دی گئی ہیں جن سے انسان بہت سے فائدہ حاصل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب ساری کائنات کا خالق ومالک اللہ ہی ہے اور ہر طرف اس کی قدرت کی نشانیاں بکھری ہوئی ہیں تو پھر اس کے سوا عبادت و بندگی کے لائق اور کون ہو سکتا ہے ؟ یقینا وہی ایک اللہ سب چیزوں کا خالق ہے اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔ جو لوگ اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں وہ ایک بڑی جہالت اور نادانی میں مبتلا ہیں کیونکہ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ” قطمیر “ کو بھی پیدا کرسکے یعنی کھجور تو بڑی چیز ہے یہ جھوٹے معبود تو کھجور پر جو ہلکی سی ایک جھلی ہوتی ہے اس کو پیدا کرنے کی اہلیت اور صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ وہ کسی کو نفع اور نقصان کیا پہنچا سکتے ہیں ۔ اگر ان کو پکارا جائے تو وہ کسی کی پکار کو سن نہیں سکتے اور اگر فرض کرلیا جائے کہ وہ سن بھی لیں تو وہ سن کر کیا فائدہ پہنچا سکتے ہیں کیونکہ وہ تو خود اپنے وجود میں دوسروں کے ہاتھوں کے محتاج ہیں ۔ ان کو اگر توڑ پھوڑ دیا جائے تو وہ اپنے آپ کو بچا نہیں سکتے اور اگر ان سے کسی حاجت کے لئے سوال کیا جائے تو وہ اس کو پورا نہیں کرسکتے۔ اور فرمایا کہ وہ دن کتنا حسرت ناک ہوگا جب یہ جھوٹے معبود خود اپنے ماننے والوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہہ دیں گے کہ الٰہی ! ہم نے ان سے نہیں کہا تھا کہ وہ ہماری عبادت کریں یہ ان کے اپنے تصورات تھے جن کی وہ عبادت و بندگی کرتے تھے ۔ فرمایا کہ یہ ایک ایسی سچی اور صحیح خبر ہے جو تمہیں اس ذات کی طرف سے دی جا رہی ہے جو ہر چیز اور ہر بات کا جاننے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی کچھ مذکر کچھ مونث بنائے۔ 8۔ یعنی اس کو پہلے سے سب کی خبر ہوتی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مرنے کے بعد قیامت کے دن جی اٹھنے کی دوسری دلیل۔ اس آیت سے دو آیات پہلے ” بعث بعد الموت “ کو بارش اور مردہ زمین سے تشبیہ دی گئی ہے یہاں انسان کی مرحلہ وارتخلیق کے حوالہ سے انسان کو دوبارہ زندہ ہونے کا ثبوت دیا گیا ہے۔ مرنے کے بعد جی اٹھنے کا انکار کرنے والو ! ذرا اپنی تخلیق پر غور کرو کہ جس ” اللہ “ نے تمہیں پیدا کیا ہے وہی تمہاری موت کے بعد تمہیں اٹھائے گا اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا ہے پھر نطفے کو تمہاری تخلیق کا ذریعہ بنایا، پھر تمہارے درمیان میاں بیوی کا ناطہ جوڑا۔ کوئی عورت نہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی بچہ جنتی ہے مگر یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتا ہے۔ کسی کو زیادہ یا تھوڑی عمر ملنا بھی کسی کے اختیار میں نہیں۔ عمر میں کمی، بیشی کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور سب کچھ اس کے ہاں لوح محفوظ میں تحریر ہے۔ یہ تمام معاملات اور اختیارات اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں جنہیں بروئے کا لانا اللہ تعالیٰ کے لیے نہایت ہی آسان ہے۔ اس آیت مبارکہ میں سات کاموں کا ذکر کیا گیا ہے جن کی تفصیلات قرآن مجید کے کئی مقامات پر بیان ہوئی ہیں۔ 1 اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر مٹی کے جوہر سے انسان کی تخلیق کا سلسلہ شروع کیا۔ 2 ہر انسان جوہرِحیات یعنی نطفے سے تخلیق پاتا ہے۔ 3 اللہ تعالیٰ نے انسانی تخلیق کے سلسلہ کو جاری رکھنے کے لیے میاں بیوی کا رشتہ قائم فرمایا۔ 4 اللہ تعالیٰ حاملہ کے حمل سے پوری طرح واقف ہوتا ہے۔ 5 کسی کو زیادہ یا تھوڑی عمر دینا صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ 6 اللہ تعالیٰ نے ہر بات لوح محفوظ پر درج کر رکھی ہے۔ 7 اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی کام کرنا مشکل نہیں۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) وَرَفَعَ الْحَدِیثَ أَنَّہُ قَالَ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ وَکَّلَ بالرَّحِمِ مَلَکًا فَیَقُولُ أَیْ رَبِّ نُطْفَۃٌ أَیْ رَبِّ عَلَقَۃٌ أَیْ رَبِّ مُضْغَۃٌ فَإِذَا أَرَاد اللَّہُ أَنْ یَقْضِیَ خَلْقًا قَالَ قَالَ الْمَلَکُ أَیْ رَبِّ ذَکَرٌ أَوْ أُنْثَی شَقِیٌّ أَوْ سَعِیدٌ فَمَا الرِّزْقُ فَمَا الأَجَلُ فَیُکْتَبُ کَذَلِکَ فِی بَطْنِ أُمِّہِ )[ رواہ مسلم : باب کَیْفِیَّۃِ الْخَلْقِ الآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّہِ وَکِتَابَۃِ رِزْقِہِ وَأَجَلِہِ وَعَمَلِہِ وَشَقَاوَتِہِ وَسَعَادَتِہِ ] ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے وہ حدیث کو مرفوع بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رحم میں ایک فرشتہ مقرر کیا ہے وہ پوچھتا ہے اے میرے رب ! یہ نطفہ ہے اے میرے رب ! یہ گوشت کا لوتھڑا ہے جب اللہ تعالیٰ کسی کی تخلیق کا فیصلہ فرماتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ فرشتہ کہتا ہے اے میرے رب مذکر یا مؤنث بدبخت یا خوش بخت اس کا رزق کتنا ہے اس کی عمر کتنی ہے اسی طرح سب کچھ انسان کی ماں کے پیٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔ “ تفسیر بالقرآن انسان کی تخلیق کے مراحل : ١۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران : ٥٩) ٢۔ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٣۔ اللہ نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الحجر : ٢٧) ٤۔ حوا کو آدم سے پیدا کیا۔ (النساء : ١) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا۔ (النحل : ٤) ٦۔ ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٧۔ اے لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ہے۔ (النساء : ١) ٨۔ اللہ نے انسانوں میں سے ہی ان کی بیویاں بنائیں اور ان سے بچے پیدا فرمائے۔ (النحل : ٧٢) ٩۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے جوڑے بنائے۔ (فاطر : ١١) ١٠۔ کیا تو اس ذات کا کفر کرتا ہے جس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے تجھے آدمی بنایا۔ (الکھف : ٣٧) ١١۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنا کر انسان بنایا۔ (الحج : ٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واللہ خلقکم من تراب ۔۔۔۔۔۔ علی اللہ یسیر (11) ” انسان کی پہلی تخلیق کی طرف قرآن کریم میں بار بار اشارہ کیا گیا ہے کہ اسے مٹی سے پیدا کیا گیا ۔ اسی طرح قرآن میں حمل کے ابتدائی مراحل کی طرف بھی مفصل اشارہ کیا گیا ہے۔ یعنی نطفے کی طرف۔ تراب وہ عنصر ہے جس میں زندگی نہیں ہوتی اور نطفہ وہ عنصر ہے جس میں زندگی ہوتی ہے۔ اس کائنات کے عظیم معجزات میں سے ایک یہ ہے کہ اس بےجان عنصر میں کس طرح جان ڈال دی گئی اور حیات کس طرح پہلے عنصر کے ساتھ گھل مل گئی۔ آج تک یہ راز معمہ ہے اور انسان ابھی تک اس تک رسائی حاصل نہیں کرسکا۔ یہ ایک قائم اور دیکھی جانے والی حقیقت ہے۔ اس کے اعتراف کے سوا چارہ کار بھی نہیں ہے۔ یہ معجزہ خالق ، زندہ کرنے والے اور عظیم قدرت والے اللہ کی طرف انسان کو دھکیل کرلے جاتا ہے اور انسان کسی شکل میں بھی اسے رد نہیں کرسکتا اور نہ اس میدان میں کوئی چوں چرا کرسکتا ہے۔ بےجان سے جان دار کی طرف کسی عنصر کو منتقل کرنا نہایت ہی بڑا انقلاب ہے اور یہ زمان و مکان کی دوریوں سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اس انقلاب پر ایک زندہ دل شخص جس قدر بھی غور کرے وہ ملول نہ ہوگا۔ اس طرح اس کائنات کے اسرار کبھی ختم نہ ہوں گے اور اس راہ میں علم کے آگے بڑھنے سے جو اسرار و رموز کبھی کھلیں گے ہر اگلا راز پچھلے سے زیادہ عجیب ہوگا۔ اب اس نطفے سے ذرا آگے بڑھئے۔ ایک خلیہ کامل ہوتا ہے ، جنین بنتا ہے اور پھر ایک مرحلے میں اس جنین کی جنس کا تعین ہوتا ہے ۔ مرد اور عورت الگ الگ ۔ پھر وہ صورت بنتی ہے جس کی طرف قرآن اشارہ کرتا ہے۔ ثم جعلکم ازواجا (35: 11) ” پھر تمہارے جوڑے بنا دئیے “۔ چاہے اس سے مراد یہ ہو کہ جنین کی حالت میں مذکر اور مونث کا امتیار کردیا یا اس سے مراد یہ ہو کہ ولادت کے بعد اور بالغ ہونے کے بعد شادیاں کر کے جوڑے بنا دیا۔ یہ انقلاب بھی کیا فکر و نظر کے لیے کم ہے کہ نہایت چھوٹے نطفے سے یوں مذکر و مونث بنا دیا گیا تو یہ بھی ایک عظیم انقلاب ہے۔ یا تو ایک چھوٹا سا نکتہ جو نطفے کی شکل میں ہے اور یا پھر ایک مکمل انسان جو ایک قوی ہیکل مخلوق ہے اور جس کے جسم کے اندر کثیر التعداد مشینیں ہیں جو مختلف کام کر رہی ہیں۔ جس کی تفصیلات میڈیکل سائنسز میں موجود ہیں اور باہم بالکل جدا ہیں۔ اب ہمارے زیر مطالعہ یہ سادہ خلیہ ہے۔ یہ اب تقسیم در تقسیم ہوتا ہے اور اس سے اور خلیے نکلتے ہیں ۔ اب اس ایک خلیے سے خلیات کے مجموعے بنتے چلے جاتے ہیں اور اعضاء بنتے چلے جاتے ہیں اور ہر عضو کا ایک فیضہ مقرر ہوتا چلا جاتا ہے۔ ان تمام اعضا سے ترکیب پاکر ایک انسان وجود میں آتا ہے اور اس کے تمام اعضاء باہم مربوط اور ہم آہنگ ہوتے ہیں ۔ یہ انسان ایک بالکل ممتاز مخلوق ہوتا ہے۔ یہ اپنے ہم جنس بنی نوع انسان سے بھی الگ خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔ بلکہ اپنے قریبی رشتہ داروں سے بھی جدا ہوتا ہے۔ ممکن ہی نہیں ہے کہ دو انسان بالکل ایک ہی جیسے ہوں ، حالانکہ یہ ایک ہی نطفے سے پیدا ہوئے اور اس کے اندر کسی فرق کا ادراک انسان کو نہ تھا ۔ پھر یہ خلیے مرد و عورت کی شکل اختیار کرکے جوڑے بن جاتے ہیں اور ان جوڑوں کے ذریعے پھر اس تخلیق کا تسلسل قائم ہوتا ہے اور یہ تسلسل انہی مراحل میں چلتا ہے۔ وہی مراحل دوبارہ دہرائے جاتے ہیں۔ یہ اس قدر عجیب سلسلہ ہے کہ جس کے عجائبات ختم نہیں ہوتے۔ اس وجہ سے قرآن میں اس اعجوبے کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ ایک راز نہیں ہے بلکہ جسم انسانی میں رازوں کا مجموعہ ہے۔ لوگ اگر اس پر تدبر کریں تو ایک سنان کے جسم میں بیشمار عجائبات ہیں اور انسان کی روح ان پر تدبر کرکے جاگ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن اس زاویہ سے انسان کو بار بار جھنجھوڑتا ہے اور جگاتا ہے۔ اس باریک مطالعہ کو پیش کرنے کے بعد اللہ کے علم کی وسعت کی طرف بھی اشارہ کردیا جاتا ہے۔ جیسا کہ سورة سبا میں اس کی تفصیلات آئی ہیں کہ اللہ کا علم بہت ہی وسیع ہے۔ یہاں مذکر و مونث کی تخلیق اور حمل اور وضع حمل بھی اس کے علم میں رہتا ہے وما تحمل من انثی ولا تضع الا بعلمہ (35: 11) ” کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی اور نہ کوئی بچہ جنتی ہے مگر یہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہوتا ہے “۔ اب یہاں مذکر و مونث کا دائرہ عام کردیا جاتا ہے۔ انسان ، حیوان ، طیور ، مچھلیاں اور تمام حشرات الارض اس کے دائرے میں آجاتے ہیں ۔ چاہے ہم ان کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں کہ جن کا وضع حمل ہوتا ہے یا جو انڈے دیتے ہیں کیونکہ انڈا بھی ایک قسم کا حمل ہوتا ہے ۔ انڈے کے اندر جو جنین ہوتا ہے وہ ماں کے پیٹ میں نہیں بڑھتا بلکہ انڈے کے اندر بڑھتا ہے۔ صرف انڈا ماں کے پیٹ سے باہر آجاتا ہے اور یہ بھی اللہ کی صنعت کاری کا ایک کرشمہ ہے کہ ایک عمل جو پیٹ کے اندر ہوتا ہے ، یہاں یہ پوری ٹیکنالوجی انڈے کے اندر پیٹ کے باہر کردی جاتی ہے اور پھر وہ بڑھتی ہے اور ان سب عملوں کو اللہ جانتا ہے اور اس پر اس کا علم محیط ہے۔ اس پوری کائنات کے مختلف اطراف ہیں۔ اللہ کے علم کی یہ جامعیت ایسی ہے کہ ذہن انسانی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتا۔ نہ تصور کے اعتبار سے اور نہ انداز تعبیر کے اعتبار سے جیسا کہ ہم نے سورة سبا میں یہ نکتہ بیان کیا۔ یہ تو بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ ہی قرآن کا نازل کرنے والا ہے اور قرآن کا مصدر وسیع ذات باری ہے اور یہ ایک منفرد انداز استدلال ہے۔ پھر مختلف افراد و اشیاء کی عمر بھی اللہ کے علم میں ہے اور کتاب میں درج ہے۔ وما یعمر من ۔۔۔۔۔ علی اللہ یسیر (35: 11) ” کوئی عمر پانے والا عمر نہیں پاتا اور نہ کسی کی عمر میں کچھ کمی ہوتی ہے مگر یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھا ہوتا ہے ۔ اللہ کے لیے یہ سب کچھ بہت آسان کام ہے۔ جب خیال اس طرف جاتا ہے کہ اس کائنات میں نباتات ، پرندے ، حیوانات اور انسان اور دوسری چیزیں ، جن کے سائز اور حجم مختلف ہیں اور مختلف انواع و اقسام کی ہیں۔ مختلف علاقوں اور زمانوں میں ہیں ، پھر انسان جب یہ تصور کرتا ہے کہ یہ عظیم تعداد ، جس کا صحیح علم صرف خالق ہی کو ہے ، اس کے ہر فرد کو ایک عمر دی جاتی ہے۔ یہ عمر طویل ہو یا قصیر ہو ، اس میں زیادتی ہو یا کمی ہو ، سب کی سب ایک کتاب میں درج ہے اور اللہ سب کے بارے میں جانتا ہے۔ بلکہ ہر ایک فرد کے جزء کے بارے میں بھی اللہ جانتا ہے کہ اس کی عمر کیا ہوگی۔ زیادہ ہوگی یا کم ہوگی مثلا کسی درخت کے پتے کی عمر کیا ہوگی۔ کب نکلے گا اور کب گرے گا۔ اور کب مٹی ہوگا۔ ہر پرندے کے ہر پر کے بارے میں بھی اللہ کو معلوم ہے کہ وہ کب جسم سے الگ ہوگا۔ ہر حیوان کا ہر سینگ کس قدر عمر پائے گا یا حیوانات کی باہم ٹکر میں کوئی سینگ ٹوٹ جائے گا۔ پھر انسان کے اعضاء آنکھ اور کان وغیرہ یہ کب تک رہیں گے اور کب کام چھوڑ دیں گے۔ یہ سب باتیں اللہ کی کتاب تقدیر میں درج ہیں۔ اور اللہ کے علم میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اس سلسلے میں کوئی جہد کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ان ذلک علی اللہ یسیر (35: 11) ” اللہ کے لیے یہ بہت آسان ہے “۔ جب انسانی خیال ان باتوں پر غور و فکر کرتا ہے اور ان لائنوں پر آگے بڑھتا ہے تو یہ بہت ہی عجیب نظر آتا ہے۔ اس آیت کے ضمن میں ہم اس طرف متوجہ ہوتے ہیں جس طرف انسانی خیال بالعموم متوجہ نہیں ہوتا۔ بلکہ اس طرح کی باتیں ساچنا انسان کی عادت ہی نہیں ہے۔ یہ صرف خداوند قدوس کی ہدایت ہے کہ تم ذرا اس انداز سے غور کرو۔ اور عمر کی زیادتی سال و ماہ کی تعداد کے ذریعے بھی ہوتی ہے اور عمر میں برکت کے ذریعے بھی ہوتی ہے۔ عمر میں برکت یوں ہوتی ہے کہ انسان کی عمر اچھے کاموں میں صرف ہو اور اس میں دوڑ دھوپ ، مفید کام اور اعمال و آثار زیادہ ہوں۔ اور عمر کا نقص بھی اسی طرح ہے یا تو ماہ و سال کم ہوجائیں یا عمر کی افادیت کم ہوجائے اور اس سے برکت نکل آئے بجائے اس کے کہ انسان اچھے کام کرے اس کی زندگی خالی ہو۔ بعض اوقات زندگی کا ایک گھنٹہ بھی پوری عمر کے برابر ہوتا ہے۔ وہ افکار اور شعور اور احساسات سے بھرپور ہوتا ہے۔ اور اس کے اندر اونچے درجے کا اعمال عمل میں آجاتے ہیں اور اچھے نتائج نکلتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات انسان کا پورا سال خالی خولی گزر جاتا ہے اور اس کا کوئی حساب و کتاب نہیں ہوتا۔ اللہ کے نزدیک اس سال کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی۔ یہ سب امور اللہ کے حساب و کتاب میں ہیں اور ہر موجود مخلوق کے بارے میں یہ سب امور صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ جماعتیں افراد کی طرح ہیں۔ اسی طرح اقوام بھی ایک فرد کی طرح ہیں۔ ان کی عمر کا بھی یہی قانون ہے۔ کسی کی عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور کسی امت کا پتہ جلد ہی کاٹ لیا جاتا ہے اور یہ سب معانی اس آیت میں داخل ہیں۔ امم کی بھی تقدیر ہوتی ہے اور وہ طاؤس و رباب پر ختم ہوتی ہے۔ تمام اشیاء کی بھی عمر ہوتی ہے جس طرح زندہ چیزوں کی عمر ہوتی ہے۔ ایک چٹان کی بھی عمر ہوتی ہے۔ ایک پہاڑ کی بھی عمر ہوتی ہے ۔ ایک نہر کی بھی عمر ہوتی ہے اور ایک پتھر کی بھی عمر ہوتی ہے۔ پھر وہ پاش پاش ہوجاتا ہے۔ ایک غار کی بھی عمر ہوتی ہے اور پھر وہ ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے۔ ایک نہر کی عمر ہوتی ہے اور جب عمر ختم ہو تو نہر خشک ہو کر ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔ بعض اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن کو انسان بناتا ہے۔ ان کی بھی عمر ہوتی ہے۔ مشینیں ، کپڑے اور تمام دوسری مصنوعات کی بھی عمر ہوتی ہے اور اپنی مقررہ عمر پوری کرکے وہ ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں۔ اور یہ سب کام اللہ کی تقدیر میں ہیں اور معلوم و مقدر ہیں۔ اس زاویہ سے اگر امور پر تدبر کیا جائے تو اس کائنات کا مطالعہ ایک نئے افق سے ہوتا ہے ۔ یہ کائنات کے مطالعہ کا یہ ایک نیا اسلوب ہے اور انسانی فہم و ادراک کی قوتوں کو ایک نیا شعور ملتا ہے۔ انسان محصوس کرتا ہے کہ اللہ کی قدرت اور علم وسیع اور شامل اور کامل ہے۔ لہٰذا انسان اس شعور کے ہوتے ہوئے کبھی غافل اور گمراہ نہیں ہوسکتا۔ وہ جہاں دیکھتا ہے ، دست قدرت کی کاری گری نظر آتی ہے۔ اللہ کی نگرانی نظر آتی ہے اور ہر چیز کی مہربانی اور قدرت نظرآتی ہے۔ اب سیاق کلام کا رخ کائناتی مناظر کے ایک منظر کی طرف ہوتا ہے ۔ سمندر کے پانیوں کے مناظر میں سے ایک منظر ، پانیوں کی اقسام ۔ یہ ہے میٹھا پانی اور وہ ہے سخت کھارا۔ دونوں قسم کے پانیوں کے پہاڑ سمندر کے اندر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ دونوں انسانوں کی خدمت کرتے ہیں ، یا ہم ملتے نہیں ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی شان خالقیت بیان فرمائی (وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ) (اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پیدا فرمایا) یعنی ابو البشر حضرت آدم (علیہ السلام) کا پتلا مٹی سے بنایا پھر اس میں روح پھونکی، ان کی تخلیق میں ان کی ساری اولاد کی تخلیق مضمر تھی اس لیے ان کی ساری اولاد کے بارے میں فرمایا کہ مٹی سے تمہاری پیدائش فرمائی، پھر چونکہ سلسلہ توالد و تناسل نطفہ کے ذریعہ ہوتا رہا اور ہوتا ہے، اس لیے (ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ) بھی فرمایا یعنی مٹی سے تمہاری تخلیق فرمائی اس کے بعد تمہاری پیدائش کا سلسلہ اس طرح جاری فرمایا کہ مرد کا نطفہ عورت کے رحم میں جاتا ہے پھر اس سے انسان پیدا ہوتا ہے۔ (ثُمَّ جَعَلَکُمْ اَزْوَاجًا) (پھر تمہیں جوڑے بنا دیا) یعنی مرد بھی پیدا فرمائے اور عورتیں بھی، جو ایک دوسرے کی زوجیت میں آتے ہیں اور ان سے اولاد پیدا ہوتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی صفت علم بیان فرمائی کہ (وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰی وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِہٖ ) جس کی عورت کو حمل قرار پا جاتا ہے اور جو بھی کوئی عورت بچہ جنتی ہے وہ سب اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ (وَمَا یُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّ لَا یُنْقَصُ مِنْ عُمُرِہٖٓ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ ) (اور جس کسی عمر والے کی عمر زیادہ کی جاتی ہے اور جس کی عمر کم کردی جاتی ہے وہ سب کتاب میں ہے) یعنی جس کسی کی عمر زیادہ مقرر کی گئی اور جس کی عمر دوسروں کے مقابلہ میں کم کی گئی، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے۔ (اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ) (بلاشبہ یہ اللہ پر آسان ہے) یعنی لوح محفوظ میں انسانوں کی تخلیق سے پہلے ہی ان کی عمروں کی کمی بیشی لکھ دینا یہ اللہ تعالیٰ کے لیے بالکل آسان ہے کیونکہ اسے ازل سے ابد تک ہر چیز کا علم ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17:۔ واللہ خلقکم الخ : یہ پانچویں عقلی دلیل ہے اللہ تعالیٰ نے کمال قدرت سے تمہارے جد اعلی آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا پھر قطرہ آب سے سلسلہ نسل جاری کیا اور تم میں نر و مادہ کو پیدا فرمایا۔ یہ اس کی قدرت کمال ہے اور اس کے علم کا کمال یہ ہے کہ وہ ہر مادہ کے پیٹ میں استقرار حمل سے لے کر وضع حمل تک جنین کے تمام احوال و کوائف کو بخوبی جانتا ہے اور پھر ہر جاندار کی عمر کی مقدار بھی اسے معلوم ہے غرضیکہ سب کچھ علم الٰہی میں موجود ہے۔ یہ سب کچھ کرنے والا اور سب کچھ جاننے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے لہذا کارساز اور حاجت روا بھی وہی ہے اور کوئی نہیں۔ اس لیے مافوق الاسباب صرف اسی کو پکارو۔ عمر میں کمی بیشی تقدیر معلق کے اعتبار سے ہے جیسا کہ بعض اعمال صالحہ کی وجہ سے عمر میں اضافہ ہوجاتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے اعبدوا اللہ واتقوہ۔ ویوخرکم الی اجل مسمی (نوح) ۔ اور حدیث میں من احب ان یبسط لہ فی رزقہ وینسا لہ فی اثرہ فلیصل رحمہ (قرطبی ج 14 ص 333) ۔ یا یہ عمروں کے اختلاف کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی کسی کو زیادہ عمر عطا کرتے ہیں اور کسی کو کم۔ ان ذلک علی اللہ یسیر۔ یعنی اللہ کے لیے آسان ہے اور اس کے قبضہ و اختیار میں ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(11) اور اللہ تعالیٰ نے تم کو یعنی تمہارے باپ آدم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نسل انسانی اور آدم کی اولاد کو نطفہ سے پیدا کیا پھر تم کو جوڑے جوڑے بنایا یعنی نر و مادہ کو پیدا کیا اور بغیر علم الٰہی کے نہ کوئی مادہ حمل کو اٹھاتی ہے اور نہ حمل کو جنتی ہے اور نہ کسی بڑے عمر والے کی عمر مقرر کی جاتی ہے اور نہ کسی کی عمر کم مقرر کی جاتی ہے مگر یہ سب کتاب یعنی لوح محفوظ میں موجود ہے بلاشبہ یہ کام اللہ پر آسان ہے۔ یعنی کسی عورت کو حمل ٹھہرنا اور کسی کا وضع حمل ہونا اس سب کی اس کو اطلاع ہوتی ہے بلکہ حمل کے گھٹنے بڑھنے کا بھی اس کو علم ہوتا ہے جیسا کہ سورة رعد میں گزر چکا ہے اور کسی عمر کا زیادہ ہونا یا کسی کی عمر کم ہونا یہ سب بھی لوح محفوظ میں مکتوب ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم قدیم کی بناء پر لوح محفوظ میں ثبت ہے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ پر آسان ہے کیونکہ اس کا علم ذاتی ہے جس کی نسبت جمیع معلومات کے ساتھ وقوع سے قبل اور وقوع کے بعد یکساں ہے۔