Surat Faatir

Surah: 35

Verse: 14

سورة فاطر

اِنۡ تَدۡعُوۡہُمۡ لَا یَسۡمَعُوۡا دُعَآءَکُمۡ ۚ وَ لَوۡ سَمِعُوۡا مَا اسۡتَجَابُوۡا لَکُمۡ ؕ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یَکۡفُرُوۡنَ بِشِرۡکِکُمۡ ؕ وَ لَا یُنَبِّئُکَ مِثۡلُ خَبِیۡرٍ ﴿٪۱۴﴾  14 الثلٰثۃ

If you invoke them, they do not hear your supplication; and if they heard, they would not respond to you. And on the Day of Resurrection they will deny your association. And none can inform you like [one] Acquainted [with all matters].

اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر ( با لفرض ) سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گے بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا صاف انکار کر جائیں گے آپ کو کوئی بھی حق تعالٰی جیسا خبردار خبریں نہ دے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِن تَدْعُوهُمْ لاَ يَسْمَعُوا دُعَاءكُمْ ... If you invoke them, they hear not your call; means, `the gods upon whom you call instead of Allah, do not hear your supplication, because they are inanimate and have no soul in them.' ... وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ... and if (in case) they were to hear, they could not grant it to you. means, `they are not able to do any of the things that you ask them for.' ... وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ... And on the Day of Resurrection, they will disown your worshipping them, means, `they will disown you.' This is like the Ayat: وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لاَّ يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَـمَةِ وَهُمْ عَن دُعَأيِهِمْ غَـفِلُونَ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُواْ لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُواْ بِعِبَادَتِهِمْ كَـفِرِينَ And who is more astray than one who calls on besides Allah, such as will not answer him till the Day of Resurrection, and who are (even) unaware of their calls to them. And when mankind are gathered, they (false deities) will become their enemies and will deny their worshipping. (46:5-6) and, وَاتَّخَذُواْ مِن دُونِ اللَّهِ ءالِهَةً لِّيَكُونُواْ لَهُمْ عِزّاً كَلَّ سَيَكْفُرُونَ بِعِبَـدَتِهِمْ وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدّاً And they have taken gods besides Allah, that they might give them honor, power and glory. Nay, but they will deny their worship of them, and become opponents to them. (19:81-82) ... وَلاَ يُنَبِّيُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ And none can inform you like Him Who is the All-Knower. means, no one can tell you about the consequences of things and how they will end like the One Who is the All-Knower of them. Qatadah said, "He is referring to Himself, may He be blessed and exalted, for He undoubtedly tells the truth."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 یعنی اگر تم انہیں مصائب پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں ہیں، کیونکہ جمادات ہیں پتھر کی مورتیاں۔ 14۔ 2 یعنی اگر بالفرض وہ سن بھی لیں تو بےفائدہ، اس لئے کہ تمہاری التجاؤں کے مطابق تمہارا کام نہیں کرسکتے۔ 14۔ 3 اس لئے کہ اس جیسا کامل علم کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ وہی تمام امور کی حقیقت سے پوری طرح باخبر ہے جس میں ان کے پکارے جانے والوں کی بےاختیاری، پکار کو نہ سننا اور قیامت کے دن اس کا انکار کرنا بھی شامل ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢٠] مشرکوں کی فریاد کیسے رائیگاں جاتی ہے ؟ إسْتَجَابُوْا کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک کسی پکار یا سوال کا جواب دینے میں مثلاً ایک شخص مجھ سے پوچھتا ہے کہ کراچی شہر کہاں واقع ہے ؟ تو میں اسے جواب دیتا ہوں کہ وہ پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ اور دوسرا استعمال یہ ہے کہ کوئی شخص مثلاً مجھ سے ایک سو روپیہ مانگتا ہے تو اس کی استجابت کا تعلق فعل سے ہوگا خواہ میں اسے سو روپیہ دے دوں یا نہ دوں اور جواب دے دوں۔ ان بتوں کی کیفیت یہ ہے کہ یہ کچھ سنتے ہی نہیں اور بالفرض سنتے بھی ہوں تو پھر نہ وہ کوئی جواب دے سکتے ہیں اور نہ ہی اس پر کچھ عمل درآمد کرسکتے ہیں گویا ان کے آگے درخواست پیش کرنا بالکل بےمحل ہوگی مثلاً ایک شخص درخواست یہ لکھتا ہے کہ میرے گھر میں سوئی گیس کا کنکشن لگایا جائے لیکن وہ یہ درخواست سوئی گیس کے ہیڈ آفس میں بھیجنے کی بجائے محکمہ پولیس کے ہیڈ آفس میں بھیج دیتا ہے۔ تو ظاہر ہے کہ اس درخواست پر کچھ عمل درآمد نہ ہوسکے گا خواہ کتنی ہی مدت گزر جائے۔ اس لئے کہ سوئی گیس کا کنکشن دینا محکمہ پولیس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ حالانکہ وہ لوگ سنتے سمجھتے ضرور ہیں۔ یہی حال ان مشرکوں کا ہے وہ اپنی درخواستیں وہاں پیش کرتے ہیں جن کے دائرہ اختیار میں کچھ ہے ہی نہیں۔ لہذا قیامت تک بھی مشرکوں کی اس درخواست پر کبھی عمل درآمد نہ ہوسکے گا۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا : (وَمَا دُعَاءُ الْکٰفِرِیْنَ الاَّ فِیْ ضَلاَلٍٍ ) [ ٢١] اس جملہ سے معلوم ہوا کہ ہر قسم کے معبودوں کو قیامت کے دن حاضر کرلیا جائے گا۔ خواہ وہ پیغمبر تھے یا فرشتے تھے یا بزرگ اور مشائخ تھے۔ خواہ سیاسی قائدین تھے یا بت وغیرہ بےجان قسم کے معبود تھے۔ اور اس مقام پر تو بالخصوص بےجان معبودوں یا بتوں کا ذکر چل رہا ہے۔ یعنی بتوں میں بھی جان ڈال کر میدان محشر میں لاکھڑا کیا جائے گا۔ اور ان معبودوں اور ان کے عبادت گزاروں یعنی مشرکوں کے درمیان مکالمہ ہوگا۔ تو یہ بےجان بت بھی ڈٹ کر مشرکوں کے خلاف شہادت دینگے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان بتوں کے بجائے وہ مخصوص ارواح ہوں جو مشرکوں نے ان بتوں کے ساتھ تجویز کر رکھی ہیں۔ وہ معبود مشرکوں کو یہی جواب دیں گے کہ بدبختو ! ہم نے تمہیں کب کہا تھا کہ تم ہماری عبادت کرنا اور اگر تم ہماری عبادت کرتے بھی رہے ہو تو ہمیں اس کی کچھ خبر نہیں ہے۔ [ ٢٢] قیامت کو معبود اپنے عابدوں کے دشمن بن جائیں گے :۔ خبیر سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو موجود اور غیر موجود، گذشتہ اور آنے والے حالات سے پوری طرح خبردار ہے۔ اور اس کے سامنے کوئی چیز غیب ہے ہی نہیں بلکہ سب کچھ شہادت ہی شہادت ہے۔ اب اگر دوسرا کوئی شخص مستقبل کے متعلق کوئی خبر دے گا تو ظاہر ہے کہ وہ یقینی نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کی بنیاد ظن وتخمین پر ہوگی اس کے مقابلہ میں اللہ کی خبر یقینی ہے کیونکہ وہ آئندہ کے واقعات سے خبردار بھی ہے اور انہیں دیکھ بھی رہا ہے۔ اور اللہ کی بتائی ہوئی خبر یہ ہے کہ قیامت کے دن ہر قسم کے معبود اپنے عبادت گزار مشرکوں کے خلاف گواہی دیں گے ان کی عبادت سے انکار کردیں گے اور ان کے دشمن بن جائیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ : جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : (وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ ) [ الأحقاف : ٥ ] ” اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو اللہ کے سوا انھیں پکارتا ہے جو قیامت کے دن تک اس کی دعا قبول نہیں کریں گے اور وہ ان کے پکارنے سے بیخبر ہیں۔ “ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ : اگر وہ سن بھی لیں تو تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے، کیونکہ ان کے پاس کوئی اختیار ہی نہیں، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ فَادْعُوْهُمْ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) [ الأعراف : ١٩٤ ] ” بیشک جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہارے جیسے بندے ہیں، پس انھیں پکارو تو لازم ہے کہ وہ تمہاری دعا قبول کریں، اگر تم سچے ہو۔ “ اور فرمایا : ( لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۭ وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَجِيْبُوْنَ لَهُمْ بِشَيْءٍ اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ اِلَى الْمَاۗءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهٖ ۭ وَمَا دُعَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ ) [ الرعد : ١٤ ] ” برحق پکارنا صرف اسی کے لیے ہے اور جن کو وہ اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان کی دعا کچھ بھی قبول نہیں کرتے، مگر اس شخص کی طرح جو اپنی دونوں ہتھیلیاں پانی کی طرف پھیلانے والا ہے، تاکہ وہ اس کے منہ تک پہنچ جائے، حالانکہ وہ اس تک ہرگز پہنچنے والا نہیں اور نہیں ہے کافروں کا پکارنا مگر سراسر بےسود۔ “ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ : اس کی مفصل تفسیر کے لیے دیکھیے سورة مریم (٨٢) اور سورة قصص (٦٢، ٦٣) ۔ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ : عرب میں یہ کلمہ ضرب المثل ہے کہ جب کسی نادان کو کسی دانا مجرب نے انجام کار سے آگاہ کیا تو وہ تنبیہ کردیتا ہے کہ اس نصیحت کو گرہ میں باندھ لے اور کہتا ہے : ” لَا یُنَبِّءُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ “ یعنی جو شخص خبردار ہے، جس طرح اس نے تجھے بتادیا ویسا کوئی نہیں بتائے گا، پھر ظاہر ہے اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کون علیم وخبیر ہوسکتا ہے۔ (مواہب) ” خَبِیْرٍ “ کا معنی پوری خبر رکھنے والا ہے اور پوری خبر رکھنے والا خود اللہ تعالیٰ ہے، اس کے سوا سب کا علم ناقص ہے اور پوری خبر رکھنے والے کی طرح کوئی بھی خبر نہیں دے سکتا اور اس نے تمہیں بتادیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی پکار نہیں سنتا، بالفرض سن بھی لے تو درخواست قبول نہیں کرسکتا اور قیامت کے دن وہ سب تمہارے شرک کا انکار کردیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the last verse: إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ (If you call them, they do not hear your call, and even if they were to hear, they would not respond to you. - 35:14). To explain, it can be said that if you call those idols or some prophets or angels you take as god and worship them asking them to help you in distress, they will, first of all, be unable to listen to you because idols do not have the ability to listen. Though, prophets and angels have this ability, yet they are not present everywhere nor do they hear that which is said by everybody. Further on, it was said that, should they, as a matter of supposition, be able to listen, as in the case of angels and prophets, still, they would not fulfill your request, because they themselves have no control over it, and cannot intercede with Allah on behalf of anyone without His permission. In the last verse: إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ (If you call them, they do not hear your call, and even if they were to hear, they would not respond to you. - 35:14). To explain, it can be said that if you call those idols or some prophets or angels you take as god and worship them asking them to help you in distress, they will, first of all, be unable to listen to you because idols do not have the ability to listen. Though, prophets and angels have this ability, yet they are not present everywhere nor do they hear that which is said by everybody. Further on, it was said that, should they, as a matter of supposition, be able to listen, as in the case of angels and prophets, still, they would not fulfill your request, because they themselves have no control over it, and cannot intercede with Allah on behalf of anyone without His permission. The issue of the ability of the dead to hear سماع الموتی sama`-ul¬mawta) has appeared earlier. The present verse neither confirms nor rejects it. Arguments and proofs relating to this issue are different. They have already been mentioned in details under the commentary on Surah Ar-Rum [ 30] (Ma` ariful-Qur an, Volume VI).

ان تدعوھم لایسمعوا دعاء کم ولوسمعوا ما استجابوالکم یعنی یہ بت یا بعض انبیاء یا فرشتے جن کو تم خدا سمجھ کر پرستش کرتے ہو اگر ان کو مصیبت کے وقت پکارو گے تو اولاً یہ تمہاری بات سن ہی نہ سکیں گے، کیونکہ بتوں میں تو سننے کی صلاحیت ہے ہی نہیں، انبیاء اور فرشتوں میں اگرچہ صلاحیت ہے مگر نہ وہ ہر جگہ موجود ہیں نہ ہر ایک کے کلام کو سنتے ہیں۔ آگے فرمایا کہ اگر بالفرض وہ سن بھی لیں جیسے فرشتے اور انبیاء تو پھر بھی وہ تمہاری درخواست پوری نہ کریں گے۔ کیونکہ ان کو خود قدرت نہیں اور اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اس سے کسی کی سفارش نہیں کرسکتے۔ سماع موتی کا مسئلہ جو پہلے گذر چکا ہے اس آیت سے نہ اس کا اثبات ثابت ہوتا ہے نہ نفی، اس بحث کے دلائل دوسرے ہیں جن کا ذکر سورة روم میں مفصل آ چکا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ۝ ٠ ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ۝ ٠ ۭ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ۝ ٠ ۭ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ۝ ١ ٤ۧ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ استجاب والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] ، وقال : ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر/ 60] ، فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة/ 186] ، فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران/ 195] ، وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری/ 26] وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری/ 38] ، وقال تعالی: وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي[ البقرة/ 186] ، الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران/ 172] . ( ج و ب ) الجوب الاستحابتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر/ 60] کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری ( دعا ) قبول کرونگا ۔ فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران/ 195] تو ان کے پرور گار نے ان کی دعا قبول کرلی ۔ وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری/ 26] اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کی ( دعا) قبول فرماتا وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری/ 38] اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة/ 186] اور اے پیغمبر جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو ( کہہ دو کہ ) میں تو ( تمہارے پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں ۔ الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران/ 172] جنهوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا اور رسول کے حکم کو قبول کیا ۔ قِيامَةُ والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] ، القیامتہ سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ خبیر والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، ( خ ب ر ) الخبر کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اگر تم ان کو پکارو تو اول تو وہ تمہاری سنیں گے نہیں کیوں کہ وہ بہرے ہیں اور اگر وہ بالفرض سن بھی لیں تو کیونکہ انہیں تم سے دشمنی ہے اس لیے وہ تمہارا کہنا نہیں مانیں گے۔ اور قیامت کے روز تو وہ بت تمہارے شرک اور تمہاری عبادت کرنے کے خود مخالف ہوجائیں گے۔ اور تمہیں ان کے اور ان کے اعمال کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے برابر کوئی نہیں بتائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ { اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآئَ کُمْ } ” اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار کو نہیں سنتے ۔ “ { وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَـکُمْ } ” اور اگر سن بھی لیں تو تمہاری دعا قبول نہیں کرسکتے۔ “ جیسے کہ وہ لوگ فرشتوں کو بھی اللہ کا شریک ٹھہراتے تھے۔ چناچہ اگر فرشتہ سن بھی لے کہ مجھے پکارا جا رہا ہے تو وہ اس پکارنے والے کی حاجت روائی تو نہیں کرسکتا۔ { وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ } ” اور قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کردیں گے۔ “ { وَلَا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ } ” اور نہیں آگاہ کرے گا کوئی بھی آپ کو اس (اللہ) کی طرح جو ہرچیز سے باخبر ہے۔ “ اللہ تعالیٰ چونکہ ہرچیز کا علم رکھنے والا ہے اس لیے جس طرح وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حقائق سے آگاہ کر رہا ہے کوئی دوسرا اس طرح کی آگاہی فراہم نہیں کرسکتا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

33 This does not mean that they cannot tell aloud, in answer to vour prayer.whether your prayer has been accepted or not, but it means that .they cannot take any action on your supplications. If a person sends his application to someone who is not a ruler. his application miscarries. For the person to whom it has been sent, has no authority whatever: he can neither reject it nor accept it. However, if the same application is sent to the one who is really a ruler, one or the other action will certainly be taken on it. 34 That is, "They will plainly say: We had never told theta that we are Allah's associates and that they should worship us. On the contrary, we were not at All aware that they regarded us as Allah's associates and were invoking us for help. None of their prayers has reached us, nor has any of their gifts and offerings" . 35 "All-Aware": Allah Almighty Himself. It means this: The other person can at the most refine shirk and prove the powerlessness of the gods of the polytheists by rational arguments only, but We are directly aware of the Absolute Truth. We are telling you, on the basis of knowledge, that All those whom the people believe to be possessing some powers in Our Godhead are absolutely powerless. They have no authority whatever by which they might do somebody good or harm. And We know this directly that on the Day of Resurrection, these gods of the mushriks will themselves refute their shirk. "

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :33 اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ تمہاری دعا کے جواب میں پکار کر کہہ نہیں سکتے کہ تمہاری دعا قبول کی گئی یا نہیں کی گئی ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہاری درخواستوں پر کوئی کاروائی نہیں کر سکتے ۔ ایک شخص اگر اپنی درخواست کسی ایسے شخص کے پاس بھیج دیتا ہے جو حاکم نہیں ہے تو اس کی درخواست رائگاں جاتی ہے ، کیونکہ وہ جس کے پاس بھیجی گئی ہے اس کے ہاتھ میں سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں ہے ، نہ رد کرنے کا اختیار اور نہ قبول کرنے کا اختیار ۔ البتہ اگر وہی درخواست اس ہستی کے پاس بھیجی جائے جو واقعی حاکم ہو ، تو اس پر لازماً کوئی نہ کوئی کارروائی ہوگی ، قطع نظر اس سے کہ وہ قبول کرنے کی شکل میں ہو یا رد کرنے کی شکل میں ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :34 یعنی وہ صاف کہہ دیں گے کہ ہم نے ان سے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ ہم خدا کے شریک ہیں ، تم ہماری عبادت کیا کرو ۔ بلکہ ہمیں یہ خبر بھی نہ تھی کہ یہ ہم کو اللہ رب العالمین کا شریک ٹھہرا رہے ہیں اور ہم سے دعائیں مانگ رہے ہیں ۔ ان کی کوئی دعائیں نہیں پہنچی اور ان کی کسی نذر و نیاز کی ہم تک رسائی نہیں ہوئی ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :35 خبردار سے مراد اللہ تعالیٰ خود ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ دوسرا کوئی شخص تو زیادہ سے زیادہ عقلی استدلال سے شرک کی تردید اور مشرکین کے معبودوں کی بے اختیاری بیان کرے گا ۔ مگر ہم حقیقت حال سے براہ راست با خبر ہیں ۔ ہم علم کی بنا پر تمہیں بتا رہے ہیں کہ لوگوں نے جن جن کو بھی ہماری خدائی میں با اختیار ٹھہرا رکھا ہے وہ سب بے اختیار ہیں ۔ ان کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے جس سے وہ کسی کا کوئی کام بنا سکیں یا بگاڑ سکیں ۔ اور ہم براہ راست یہ جانتے ہیں کہ قیامت کے روز مشرکین کے یہ معبود خود ان کے شرک کی تردید کریں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(35:14) ما استجابوا لکم۔ ما نفی کے لئے ہے۔ استجابوا ماضی جمع مذکر غائب۔ استجابۃ مصدر باب استفعال سے بمعنی ماننا۔ قبول کرنا۔ یعنی وہ تمہارا کہنا قبول نہ کر پائیں گے ۔ تمہاری التجا قبول نہ کرسکیں گے۔ یکفرون بشرککم۔ وہ (خود) تمہارے شرک کا انکار کردیں گے۔ یعنی تم جو ان کو اللہ کی عبادت میں شریک کرتے ہو وہ قیامت کے دن اس کے منکر ہوجائیں گے اور کہیں گے ما کنتم ایانا تعبدون۔ (10:38) تم ہماری پوجا نہیں کرتے تھے (بلکہ اپنی ہوا وہوس اور باطل خیالات کی پوجا کرتے تھے) ۔ لا ینبئک۔ مضارع منفی واحد مذکر غائب۔ تنبئۃ مصدر باب تفعیل بمعنی خبر دینا۔ بتادینا۔ آگاہ کرنا۔ ک ضمیر واحد مذکر حاضر۔ تمہیں (کوئی ) نہیں بتائے گا۔ مثل خبیر۔ مثل اسم مفرد۔ طرح۔ مضاف، خبیر مضاف الیہ۔ فعیل کے وزن پر صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ خبردار ۔ خبر رکھنے والا۔ دانا۔ خبر رکھنے والے کی طرح۔ خبر رکھنے والے کے برابر۔ خبیر اللہ تعالیٰ کے اسما حسنیٰ میں سے ہے۔ اور قرآن مجید میں خبیر ذات باری تعالیٰ کے لئے ہی استعمال ہوا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 کیونکہ وہ تمہیں کسی قسم کا نفع یا نقصان پہنچانے سے قطعی عاجز ہیں۔6 یا ’ ’ تمہارے شرک سے انکار کریں گے “۔ یعنی یہ کہیں گے کہ ہم نے کبھی تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم تمہارے معبود ہیں اس لئے ہماری بندگی کیا کرو ہم سے دعائیں مانگا کرو اور حاجتیں طلب کیا کرو، مطلب یہ ہے کہ تمہارے یہ معبود تو دنیا میں کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ آخرت میں، بلکہ قیامت کے دن یہ تمہارے خلاف شہادت دیں گے۔ ( کبیر) ۔ 1 یعنی جب اللہ تعالیٰ جو ہر چیز کی خبر رکھتا ہے، خود یہ بتارہا ہے کہ لکڑی اور پتھر کے مجسمے قیامت کے دن گویا ہوناگے اور اپنی عبادت کرنے والوں سے بیزاری کا اظہار کریں گے تو معلوم ہوا کہ اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اس کے سوا کسی کی بندگی جائز نہیں ہے اور یہ بت اور دیوتا سب باطل ہیں۔ (کبیر وغیرہ)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اوپر توحید کا ذکر تھا چونکہ کفار اس کا انکار کرتے تھے، اور اس انکار سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حزن بھی ہوتا تھا، اس لئے آگے انکار سے حق تعالیٰ کا ضرر نہ ہونا بلکہ خود ان کفار ہی کا ضرر ہونا اور تسلیم سے حق تعالیٰ کا کچھ نفع نہ ہونا بلکہ خود ان کا ہی نفع ہونا اور دنیا میں اس کا ضرر کا احتمال اور آخرت میں اس کا وقوع بیان کر کے کفار کی تحذیر اور اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حزن پر آپ کے تسلیہ کا مضمون ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے سوا جن کو مشرکین پکارتے ہیں ان کی حیثیت۔ قرآن مجید باربار ارشاد فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو نہ پکارا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ سے بھی مدد مانگتا ہے اور اس کے ساتھ بتوں، فوت شدگان، جنّات، ملائکہ یا کسی اور غیر مری طاقت سے بھی امداد طلب کرتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کے سامنے قیام، رکوع، سجدہ اور نذرونیاز پیش کرتا ہے اسی طرح ہی درسروں کے سامنے جھکتا اور نذرانے پیش کرتا ہے۔ گو یا کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ دوسروں کی عبادت کرتا اور ان کو پکارتا ہے۔ قرآن مجید اس بات سے بھی روکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نہ پکاراجائے۔ پہلے طریقہ کے لیے ” وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہٖ “ کے الفاظ آئے ہیں اور دوسرے انداز کے لیے ” مِنْ دُوْنِ اللّٰہٖ “ یا ” مِنْ دُوْنِہٖ “ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ جس کا صاف معنٰی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے مدد طلب نہیں کرنی چاہیے۔ بیشک وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہوں یا حضرت عزیر (علیہ السلام) یا کوئی فوت شدہ ہستی۔ تمام فوت شدگان کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ وہ نہیں سنتے۔ بفرض محال اگر وہ سن بھی لیں تو وہ تمہاری فریاد کا جواب نہیں دے سکتے۔ قیامت کے دن جب ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ اپنے پکارنے والوں کا انکار کردیں گے۔ اگر سن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے یہ الفاظ لا کر ثابت کیا ہے کہ وہ کسی صورت بھی نہ سن سکتے ہیں اور نہ جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ لوگو ! سنو اور سوچو ! تمہارا رب تمہیں شرک کے بارے میں کس طرح باربار روکتا ہے اور اسے کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔ اس علیم وخبیر کے سوا کوئی تمہیں اس طرح نہ سمجھا سکتا اور نہ بتلا سکتا ہے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَقُوْلُ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی لأَہْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ کَانَتْ لَکَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا أَکُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہَا فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ قَدْ أَرَدْتُ مِنْکَ أَہْوَنَ مِنْ ہَذَا وَأَنْتَ فِیْ صُلْبِ اٰدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِکَ أَحْسَبُہُ قَالَ وَلاَ أُدْخِلَکَ النَّارَ فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ ) [ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب طَلَبِ الْکَافِرِ الْفِدَاءَ بِمِلْءِ الأَرْضِ ذَہَبًا ] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب پانے والے سے فرمائے گا کہ اگر دنیا اور جو کچھ اس میں ہے تیرے پاس ہو۔ کیا تو اسے فدیہ کے طور پر دینے کے لیے تیار ہے ؟ وہ کہے گا جی ہاں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تجھ سے اس سے بھی ہلکی بات کا مطالبہ کیا تھا جب تو آدم کی پشت میں تھا وہ یہ کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تجھے جہنم میں داخل نہ کرتا مگر تو شرک سے باز نہ آیا۔ “ مسائل ١۔ فوت شدگان کسی کی بات نہیں سنتے اور نہ ہی جواب دے سکتے ہیں۔ ٢۔ قیامت کے دن فوت شدگان اپنے ساتھ کیے گئے شرک کی نفی کریں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ باربار لوگوں کو شرک کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے ساتھ یا اس کے سوا کسی اور کو پکارنا شرک ہے : ١۔ بس ایک الٰہ کے سوا کسی دوسرے الٰہ کو نہ پکارو۔ (القصص : ٨٨) ٢۔ اللہ ہی کو پکارو وہی تکلیف دور کرتا ہے۔ (الانعام : ٤١) ٣۔ اللہ کے سوا کسی کو نہ پکاروجو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے۔ (یونس : ١٠٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں صرف اسی کو پکارو (المومن : ٦٥) ٥۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نا پکارو اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہی ہے۔ (القصص : ٨٨) ٦۔ وہ زندہ ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں خالصتاً اسی کو پکارو۔ (المومن : ٦٥) ٧۔ سب کو صرف اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ صرف ایک اللہ کو پکارو۔ (البینۃ : ٥) ٨۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکاریں ورنہ آپ عذاب میں مبتلا ہونے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ (الشعراء : ٢١٣) ٩۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ (النساء : ٣٦) ١٠۔ مومنو ! اللہ کو اخلاص کے ساتھ پکارو اگرچہ کفار کے لیے یہ ناپسند ہی کیوں نہ ہو۔ (المومن : ١٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اِنْ تَدْعُوْھُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآءَ کُمْ ) (جن لوگوں کی اللہ تعالیٰ کے علاوہ تم عبادت کرتے ہو ان کی بےبسی اور عاجزی کا یہ حال ہے کہ اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار سن بھی نہ سکیں گے) (وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَکُمْ ) (اور اگر بالفرض تمہاری بات سن بھی لیں تو تمہاری بات نہ مانیں) یعنی تمہاری پکار تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی، نہ جواب میں ہاں کہیں نہ اسی وقت کوئی مدد کرسکیں نہ بعد میں (یہ تو رہی دنیا کی حالت اور) رہا آخرت کا معاملہ سو سمجھ لو کہ تم نے جو ان کی مدد کا خیال جما رکھا ہے یہ خیال غلط ہے، وہ تو وہاں تم سے بیزار ہوجائیں گے اور تم جو انہیں اللہ کا شریک بناتے ہو اس کے وہ منکر ہوجائیں گے۔ اسی کو یہاں فرمایا (وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ ) (اور قیامت کے دن وہ تمہارے شرک سے منکر ہوجائیں گے۔ ) سورة النحل میں فرمایا ہے (وَاِذَا رَاَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا شُرَکَآءَ ھُمْ قَالُوْا رَبَّنَا ھآؤُلَآءِ شُرَکَآؤُنَا الَّذِیْنَ کُنَّا نَدْعُوْا مِنْ دُوْنِکَ فَاَلْقَوْا اِلَیْھِمُ الْقَوْلَ اِنَّکُمْ لَکٰذِبُوْنَ ) (اور جب مشرک لوگ اپنے شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ! یہ ہمارے شریک ہیں، آپ کو چھوڑ کر ہم ان کی پوجا کرتے ہیں سو وہ ان کی طرف کلام کو متوجہ کریں گے کہ تم جھوٹے ہو۔ ) (وَلَا یُنَبِّءُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ ) (اور اے مخاطب تجھے خبر رکھنے والے کے برابر کوئی نہیں بتائے گا) علیم وخبیر جل مجدہٗ نے تجھے بتایا ہے جسے سب کچھ علم ہے اس نے جو کچھ بتایا ہے اس کو مان لے اسی میں تیرا بھلا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(14) اگر تم ان کو پکارو بھی تو وہ تمہاری پکار کو نہیں سن سکتے اور اگر فرض کرو وہ معبودان باطلہ سن بھی لیں تو تمہاری پکار کو قبول نہ کریں گے اور تمہاری پکار پر نہ پہنچیں گے اور قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کرنے اور شریک ٹھہرانے کی خود مخالفت کریں گے اور منکر ہوجائیں گے اور اے مخاطب تجھ کو خبر رکھنے والے کے برابر کوئی دوسرا نہ بتاسکے گا۔ یعنی جمادات میں تو سننے کی صلاحیت ہی نہیں اور رہے صاحب ارواح تو ان کا سننا بھی بغیر اذن خداوندی متحقق نہیں اور اگر سن بھی لیں تو وہ کام نہیں آسکتے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے سوا پکارنے کو پسند نہیں کرتے اور اپنے کو پکارنے پر راضی نہیں رہے۔ شیاطین تو ان میں قدرت مستقلہ نہیں۔ پس سن لینے کے باوجود کام نہیں آسکتے۔ پھر مزید برآں وہ سب مدعولہم قیامت کے روز تمہارے ان مشکرکانہ افعال کا انکار کریں گے۔ ماکنتم ایانا تعبدون۔ اور یہ جو فرمایا ولا ینبئک مثل خبیر یہ ایک عربی کی مثل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خبردار یعنی اللہ تعالیٰ کی طرح کوئی آپ کو خبر نہیں دے سکتا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ سے زیادہ احوال کون جانے وہی فرماتا ہے یہ شریک غلط ہیں۔ یعنی اس سے زیادہ کوئی واقف حال نہیں اس لئے وہی خبر دے سکتا ہے اور اس کی خبر صحیح ہوسکتی ہے وہی فرماتا ہے کہ یہ شریک غلط ہیں اور شرک کا انجام برا ہے۔ لہٰذا اس کی بات کا یقین کرنا چاہیئے اور شرک کو ترک کردینا چاہیے۔