Surat Faatir

Surah: 35

Verse: 37

سورة فاطر

وَ ہُمۡ یَصۡطَرِخُوۡنَ فِیۡہَا ۚ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا نَعۡمَلۡ صَالِحًا غَیۡرَ الَّذِیۡ کُنَّا نَعۡمَلُ ؕ اَوَ لَمۡ نُعَمِّرۡکُمۡ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیۡہِ مَنۡ تَذَکَّرَ وَ جَآءَکُمُ النَّذِیۡرُ ؕ فَذُوۡقُوۡا فَمَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ نَّصِیۡرٍ ﴿٪۳۷﴾  16

And they will cry out therein, "Our Lord, remove us; we will do righteousness - other than what we were doing!" But did We not grant you life enough for whoever would remember therein to remember, and the warner had come to you? So taste [the punishment], for there is not for the wrongdoers any helper.

اور وہ لوگ اس میں چلائیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو نکال لے ہم اچھے کام کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو کیا کرتے تھے ( اللہ کہے گا ) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ سکتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی پہنچا تھا سو مزہ چکھو کہ ( ایسے ) ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا ... Therein they will cry, means, they will call out in the Fire, beseeching Allah with their voices: ... رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ... "Our Lord! Bring us out, we shall do righteous good deeds, not that we used to do." which means, they will ask to go back to the worldly life so that they can do something ... different to the first deeds they did. But Allah, may He be glorified, knows that if He sent them back to this world, they would go back to what they had been forbidden to do, and He knows that they are lying, so He will not respond to their plea. This is like the Ayah where Allah tells us that they will say: فَهَلْ إِلَى خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍذَلِكُم بِأَنَّهُ إِذَا دُعِىَ اللَّهُ وَحْدَهُ كَـفَرْتُمْ وَإِن يُشْرَكْ بِهِ تُوْمِنُواْ Then is there any way to get out (of the Fire). (It will be said): "This is because, when Allah Alone was invoked you disbelieved (denied), but when partners were joined to Him, you believed! (40:11-12) i.e., `there will be no response for you because you were like that; if you were to return to this world, you would just go back to that which you had been forbidden to do.' Allah says here: ... أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءكُمُ النَّذِيرُ ... Did We not give you lives long enough, so that whosoever would receive admonition could receive it. And the warner came to you. meaning, `did you not live for long enough in the world that if you were to be among those who would benefit from the truth, you would have benefited from it during your lifetimes' Imam Ahmad recorded that Abu Hurayrah, may Allah be pleased with him, said that the Prophet said: لَقَدْ أَعْذَرَ اللهُ تَعَالَى إِلَى عَبْدٍ أَحْيَاهُ حَتْى بَلَغَ سِتِّينَ أَوْ سَبْعِينَ سَنَةً لَقَدْ أَعْذَرَ اللهُ تَعَالَى إِلَيْهِ لَقَدْ أَعْذَرَ اللهُ تَعَالَى إِلَيْه Allah has left no excuse for the person who lives to be sixty or seventy years old; Allah has left no excuse for him; Allah has left no excuse for him. Imam Al-Bukhari also recorded, in the Book of Riqaq in his Sahih, that Abu Hurayrah, may Allah be pleased with him, said, "The Messenger of Allah said: أَعْذَرَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى امْرِىءٍ أَخَّرَ عُمْرَهُ حَتْى بَلَغَ سِتِّينَ سَنَة Allah has left no excuse for a man who reaches the age of sixty." Ibn Jarir recorded that Abu Hurayrah, may Allah be pleased with him, said, "The Messenger of Allah said: مَنْ عَمَّرَهُ اللهُ تَعَالَى سِتِّينَ سَنَةً فَقَدْ أَعْذَرَ إِلَيْهِ فِي الْعُمْر Whoever is granted a long life until the age of sixty, Allah has left no excuse for him." This was also recorded by Imam Ahmad and An-Nasa'i in Ar-Riqaq. Because this is the age at which Allah removes any excuse from His servants, this is the usual age of people in this Ummah, as was reported in the Hadith of Abu Hurayrah, may Allah be pleased with him, who said, "The Messenger of Allah said: أَعْمَارُ أُمَّتِي مَا بَيْنَ السِّتِّينَ إِلَى السَّبْعِينَ وَأَقَلُّهُمْ مَنْ يَجُوزُ ذَلِك The usual life span in my Ummah is between sixty and seventy years, and only a few pass this age." This was also recorded by At-Tirmidhi and Ibn Majah in the Book of Zuhd (of his Sunan). ... وَجَاءكُمُ النَّذِيرُ ... And the warner came to you. It was reported that Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, Ikrimah, Abu Ja`far Al-Baqir, may Allah be pleased with him, Qatadah and Sufyan bin Uyaynah said, "This means grey hair." As-Suddi and Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said, "This means the Messenger of Allah " and Ibn Zayd recited, هَـذَا نَذِيرٌ مِّنَ النُّذُرِ الاٍّوْلَى This is a warner of the (series of) warners of old. (53:56) This is the correct view according to Shayban who narrated that Qatadah said, "Proof will be established against them by the fact that they lived long enough and that Messengers came to them." This is also the view favored by Ibn Jarir, and it is the apparent meaning of the Ayah: وَنَادَوْاْ يمَـلِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ قَالَ إِنَّكُمْ مَّـكِثُونَ لَقَدْ جِيْنَـكُم بِالْحَقِّ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كَـرِهُونَ And they will cry (to the keeper of Hell): "O Malik! Let your Lord make an end of us." He will say: "Verily, you shall abide forever." Indeed We have brought the truth to you, but most of you have a hatred for the truth. (43:77-78) meaning: `We showed you the truth clearly through the Messengers, but you rejected it and opposed it.' And Allah says: وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً And We never punish until We have sent a Messenger. (17:15) تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الغَيْظِ كُلَّمَا أُلْقِىَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَأ أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ قَالُواْ بَلَى قَدْ جَأءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللَّهُ مِن شَىْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلاَّ فِى ضَلَـلٍ كَبِيرٍ Every time a group is cast therein, its keepers will ask: "Did no warner come to you?" They will say: "Yes, indeed a warner did come to us, but we denied him and said: `Allah never sent down anything; you are only in great error'." (67:8-9) ... فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ So taste you. For the wrongdoers there is no helper. means, `taste the punishment of the Fire, as a recompense for your going against the Prophets in all your deeds, for today you will have no helper to save you from your fate of punishment and chains.'   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 یعنی غیروں کی بجائے تیری عبادت اور معصیت کی بجائے اطاعت کریں گے۔ 37۔ 2 اس سے مراد کتنی عمر ہے ؟ مفسرین نے مختلف عمریں بیان کی ہیں بعض نے احادیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ 60 سال کی عمر مراد ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں عمر کی تعیین صحیح نہیں اس لیے کہ عمریں مختلف ہوتی ہیں کوئی جوانی میں کوئی بڑھ... اپے میں فوت ہوتا ہے پھر یہ ادوار بھی لمحہ گزراں کی طرح مختصر نہیں ہوتے، مثلا ہر دور خاصا لمبا ہوتا ہے مثلا جوانی کا دور، بلوغت سے کہولت تک اور کہولت کا دور شیخوخت بڑھاپے تک اور بڑھاپے کا دور موت تک رہتا ہے۔ اور سب سے یہ سوال کرنا صحیح ہوگا کہ ہم نے تجھے اتنی عمر دی تھی کہ اگر تو حق کو سمجھنا چاہتا تو سمجھ سکتا تھا پھر تو نے حق کو سمجھنے اور اسے اختیار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی ؟ 37۔ 3 اس سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ یعنی یاد دہانی اور نصیحت کے لئے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے منبر و محراب کے وارث علماء تیرے پاس آئے، لیکن تو نے اپنی عقل فہم سے کام لیا نہ داعیان حق کی باتوں کی طرف دھیان کیا۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٤١] جہنمیوں کی فریاد کے مختلف جوابات :۔ اہل دوزخ کی اس فریاد کا ذکر بھی قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مذکور ہے اور اس کے مختلف جواب بھی۔ مثلاً ایک مقام پر یہ جواب دیا گیا کہ اگر ہم انہیں دوبارہ دنیا میں بھیج بھی دیں تو وہ پھر دل کی دلفریبیوں پر مفتون ہوجائیں گے اور پھر ویسے ہی کام کریں گے جیسے پہ... لے کرکے آئے ہیں۔ دوسرے مقام پر یہ جواب دیا گیا کہ ان کی یہ آرزو بالکل لغو ہوگی۔ کیونکہ ایمان لانے سے مراد غیب پر ایمان لانا ہے اور اعمال صالحہ کا نمبر اس کے بعد آتا ہے اور یہاں روز آخرت میں جب سب کچھ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو پھر یہ تو ایمان بالشہادت ہوگیا۔ اور شہادت یا دیکھی ہوئی چیز پر تو ہر کوئی یقین کرلیتا ہے۔ پھر ان کی آزمائش کیا رہی جبکہ ہر انسان کو قوت ارادہ و اختیار اور عقل و فہم اس لئے دیا گیا تھا کہ اس کی آزمائش ہوگی اور تیسرا جواب یہاں دیا گیا ہے کہ کیا تمہیں اتنی عمر دنیا میں نہیں دی گئی تھی کہ اگر غور و فکر کرکے تم ایمان لانا چاہتے تو اس میں کوئی بات مانع نہ تھی اس کے علاوہ تمہارے پاس نبی بھی آئے تھے جنہوں نے تمہیں تمہارے اس برے انجام سے پوری طرح آگاہ کردیا تھا۔ اس بات کا ان مجرموں کے پاس کوئی جواب نہ ہوگا۔ && اتنی عمر && سے مراد سن شعور ہے۔ بلوغت کے بعد انسان میں عقل و شعور آجاتا ہے وہ اپنا نفع و نقصان سوچنے کے قابل ہوجاتا ہے اسی لئے اس عمر میں وہ شرعاً مکلف سمجھا جاتا ہے۔ اس عمر سے پہلے اگر کوئی شخص مرجائے تو اس کا عذر قابل قبول ہوسکتا ہے۔ اور جس شخص کو چالیس یا پچاس یا ساٹھ برس عمر مل جائے تو اس پر تو مکمل طور پر حجت تمام ہوجاتی ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۚ وَهُمْ يَصْطَرِخُوْنَ فِيْهَا ۚ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا۔۔ : ” يَصْطَرِخُوْنَ ‘ ” صَرَخَ یَصْرُخُ صُرَاخًا “ (ن) (سخت چیخنا) سے باب افتعال ہے، جس میں مزید مبالغہ ہے، اصل میں ” یَصْتَرِخُوْنَ “ تھا، ” صاد “ کی مناسبت سے ” تاء “ کو ” طاء “ سے بدل دیا، یعنی بہت چیخیں چلائیں گے۔ جہنمیوں کی تمنا کہ انھیں ا... یک دفعہ جہنم سے نکال کر دنیا میں بھیج دیا جائے اور وہ پہلے کے برعکس نیک عمل کریں گے، قرآن مجید میں کئی جگہ ذکر ہوئی ہے، مگر ان کی یہ تمنا پوری نہیں کی جائے گی۔ دیکھیے سورة اعراف (٥٣) ، سجدہ (١٢) ، مؤمن (١١) اور سورة شوریٰ (٤٤) ایک مقام پر فرمایا کہ اگر انھیں واپس بھیج بھی دیا جائے تو دوبارہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں۔ دیکھیے سورة انعام (٢٨) ۔ اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ ۔۔ : اس آیت کی تفسیر میں امام بخاری (رض) نے ابوہریرہ (رض) سے مروی حدیث بیان فرمائی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَعْذَرَ اللّٰہُ إِلَی امْرِئٍ أَخَّرَ أَجَلَہُ حَتّٰی بَلَّغَہُ سِتِّیْنَ سَنَۃً ) [ بخاري، الرقاق، باب من بلغ ستین سنۃ۔۔ : ٦٤١٩ ]” اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کا عذر ختم کردیا جس کی موت میں اتنی دیر کی کہ وہ ساٹھ برس ہی کو پہنچ گیا۔ “ مگر اس حدیث سے مراد یہ نہیں کہ اس سے کم عمر والے کو یہ بات نہیں کہی جائے گی، بلکہ مراد یہ ہے کہ سب سے زیادہ ڈانٹ اس عمر کے لوگوں کو پڑے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات ہر اس شخص کو کہی جائے گی جو بلوغت کی عمر کو پہنچا، اللہ تعالیٰ نے اسے اچھے برے کی تمیز عطا فرمائی، اگر وہ چاہتا تو ایمان لاسکتا تھا، مگر وہ جان بوجھ کر کفر پر اڑا رہا۔ کیونکہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ ساٹھ سال سے کم عمر والے کفار کو اس عذر کی وجہ سے جہنم سے چھٹکارا نہیں ملے گا کہ انھیں ساٹھ برس کی عمر نہیں ملی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں کتنے ہی کافر جہنم واصل ہوئے، جن کی عمریں ساٹھ سال سے کم تھیں۔ وَجَاۗءَكُمُ النَّذِيْرُ : اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے بعد ہر وہ شخص ہے جس کے ذریعے سے کسی کو حق کا پیغام پہنچے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے : (وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا ) [ بني إسرائیل : ١٥ ] ” اور ہم کبھی عذاب دینے والے نہیں یہاں تک کہ کوئی پیغام پہنچانے والا بھیجیں۔ “ ” النذیر “ کا لفظ عام ہے، جس میں رسول اور اس کے نائب کے علاوہ وقتاً فوقتاً پیش آنے والے حوادث بھی شامل ہیں، جن سے بندہ عبرت حاصل کرسکتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (اَوَلَا يَرَوْنَ اَنَّھُمْ يُفْتَنُوْنَ فِيْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَيْنِ ) [ التوبۃ : ١٢٦ ] ” اور کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں، پھر بھی وہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ ہی وہ نصیحت پکڑتے ہیں۔ “ بعض سلف نے سفید بالوں کو بھی النذیر “ میں شامل کیا ہے، کیونکہ وہ زندگی کی مہلت ختم ہونے سے خبردار کرتے ہیں۔ فَذُوْقُوْا فَمَا للظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ : یہاں ظالموں سے مراد مشرک ہیں، کیونکہ جہنم میں ہمیشہ وہی رہیں گے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

When the people in Jahannam will plead with their Lord that they be delivered from its punishment, so that they could do good deeds then, and not do the bad ones they did earlier, at that time they will be told: أَوَلَمْ نُعَمِّرْ‌كُم مَّا يَتَذَكَّرُ‌ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ‌ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ‌ |"Did We not give you an age in your life in which lesson could have been learnt by the one who wished...  to take lesson - 37) Sayyidna Ibn Husain Zain ul-` Abidin رضی اللہ تعالیٰ عنہ said, |"It means the age of seventeen years.|" And Qatadah (رح) gave the age as eighteen years, meaning thereby the age of puberty. And the difference of seventeen and eighteen is possible in determining the age of puberty, as someone may reach puberty at the age of seventeen and someone else at, eighteen. In the Shari&ah, the age of puberty is the first line of demarcation after having crossed which a person is Divinely blessed with enough reason, so that one can understand what is good or bad in his or her case. Therefore, this address will be to disbelievers at large irrespective of their ages being long or short. However, the one who had a long lease of life, yet did not come to his senses, saw all sorts of physical proofs scattered around and heard the teachings of the prophets, still did not recognize the truth - so then, this one will be more blameworthy. In short, the person who saw nothing beyond the age of puberty, he too was given enough power of discrimination by nature that he could have used to distinguish between the true and the false. When he failed to do that, he too is deserving of censure and punishment. But, the person who was given long years to live, the warning of Allah stood served against him in a more conclusive degree. Then, if he could still not shake off his disbelief and disobedience, he would be more deserving of punishment and blame. Sayyidna Ali al-Murtada (رض) said, &The age whereupon Allah Ta’ ala has asked His sinning servants to beware is that of sixty years.& Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ، according to one narration, has given it as forty years while, according to another narration, as sixty. He has said that this is the age when the argument and warrant of Allah stands served conclusively on an erring person who, then, is left with no room for making excuses. Ibn Kathir has given preference to the second Hadith of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) . From the presentation made above, it is clear that there is no contradiction in the narrations pointing out to the age of seventeen, eighteen and sixty. Though, someone at the age of seventeen/eighteen is able to distinguish between the true and the false. Therefore, one has been obligated with precepts of the Shari` ah from this benchmark this very age of puberty. But, the age of sixty is such a long period of time that, should one still fail to recognize the truth, there remains no room for making any more excuses. Against such a person, the argument of Allah stands firmly established. Therefore, the aggregate ages of people in this blessed ummah are destined to be between sixty and seventy years - as said in Hadith: اَعمَارُ اُمَّتِی مَا بَین السِّتِّینَ اِلَی السَّبعِین وَ اَقَلُّھُم مَّن یَّجُوز ذلِکَ The ages of my ummah will be in between sixty and seventy and there will be few of those who will exceed that - reported by al-Tirmidhi and Ibn Majah, Ibn Kathir. Towards the end of the verse (37), it was said: وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ‌ (And (furthermore) the warner had (also) come to you.). Given here is a hint that Allah Ta’ ala gives one from the age one attains puberty enough ability to rationalize and recognize at least his or her creator and master and then goes on to live a life the purpose of which is to seek His pleasure. To do only this much, human reason alone would have been sufficient. But, Allah Ta’ ala did not leave it simply at that. In fact, He sent His special people called: نَذِیر (nadhir) to help them reason it out. This word is usually translated as &one who warns& or &warner& in English (the later, though, not formally admissible in the language, but is still used in the absence of a suitable equivalent). In fact, a nadhir is a person who, by virtue of his mercy and compassion, asks his people to stay away from things that are likely to bring harm to them or cause their total ruination as a people and tries to instill the fear of such things in their hearts, lest it actually happens. In terms of its well-recognized meaning, it refers to the noble prophets علیہم السلام and to the ` Ulama& who carry out their mission as their deputies. The outcome of the verse is: &We gave them reason to recognize the true from the false. Along with it, We also sent Our prophets who would guide them on the path of truth and keep them safe from the false.& And it has been reported from Sayyidna Ibn ` Abbas, ` Ikrimah and Imam Ja&far Baqir that nadhir means the gray hair of the old age. When they flare up, they give a message to human beings: Here comes the time to go! This statement too is not contradictory to the first one for gray hair might as well serve as the standard bearers of warning along with Anbiya& and ` Ulama&. And the truth of the matter is that all conditions faced by human beings after their age of puberty and all minor and major changes that take place in their persons and in that they are surrounded with are, all of them, heralds of warning for human beings.  Show more

(آیت) اولم نعمرکم ما یذکر فیہ من تذکر و جاء کم النذیر، یعنی جب جہنم میں یہ فریاد کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار آپ ہمیں اس عذاب سے نکال دیجئے اب ہم نیک عمل کریں گے اور پچھلی بد اعمالیوں کو چھوڑ دیں گے۔ اس وقت یہ جواب دیا جائے گا کہ کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر کی مہلت نہیں دی تھی جس میں غور کرنے والا غور...  کر کے صحیح راستہ پر آجائے۔ حضرت علی ابن حسین زین العابدین (رض) نے فرمایا کہ اس سے مراد سترہ سال کی عمر ہے۔ اور حضرت قتادہ نے اٹھارہ سال کی عمر بتلائی اور مراد اس سے عمر بلوغ ہے، اور سترہ اٹھارہ کا فرق بلوغ میں ہوسکتا ہے کہ کوئی سترہ سال میں بالغ ہو کوئی اٹھارہ سال میں۔ عمر بلوغ شریعت میں پہلی حد ہے، جس میں داخل ہو کر انسان کو منجانب اللہ اتنی عقل دے دی جاتی ہے کہ اپنے بھلے برے کو سمجھنے لگے۔ اس لئے یہ خطاب عام کفار سے ہوگا، خواہ طویل العمر ہوں یا قصیر العمر۔ البتہ جس کو عمر طویل ملی اور پھر بھی اس نے ہوش نہ سنبھالا، اور دلائل قدرت کو دیکھ کر اور انبیاء کی باتیں سن کر حق کو نہ پہچانا وہ زیادہ مستحق ملامت ہوگا۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص کو صرف عمر بلوغ ملی اس کو بھی قدرت نے اتنا سامان دے دیا تھا کہ حق و باطل میں امتیاز کرسکے، جب نہ کیا تو وہ بھی مستحق ملامت و عذاب کا ہے، لیکن جس کو زیادہ عمر طویل ملی اس پر اللہ تعالیٰ کی حجت اور زیادہ پوری ہوگئی وہ اگر اپنے کفر و معصیت سے باز نہ آیا وہ زیادہ مستحق عذاب و ملامت ہے۔ حضرت علی مرتضیٰ نے فرمایا وہ عمر جس پر اللہ تعالیٰ نے گناہگار بندوں کو عار دلائی ساٹھ سال ہے۔ اور حضرت ابن عباس نے ایک روایت میں چالیس اور دوسری میں ساٹھ سال کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ وہ عمر ہے جس میں انسان پر اللہ کی حجت تمام ہوجاتی ہے اور انسان کو کوئی عذر کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ ابن کثیر نے حضرت ابن عباس کی اس دوسری حدیث کو ترجیح دی ہے۔ تقریر مذکور سے واضح ہوچکا ہے کہ سترہ اٹھارہ سال کی روایات اور ساٹھ سال کی روایات میں کوئی تعارض نہیں۔ اگرچہ انسان سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں اس قابل ہوتا ہے کہ غور وفکر کر کے حق و باطل میں تمیز کرے، اسی لئے اسی عمر بلوغ سے اس کو احکام شرعیہ کا مکلف قرار دیا گیا ہے، مگر ساٹھ سال ایسی عمر طویل ہے کہ اگر اس میں بھی کسی نے حق کو نہ پہچانا تو اسے کسی عذر کی گنجائش نہیں رہی، اس پر اللہ تعالیٰ کی حجت پوری تمام ہوچکی۔ اسی لئے امت مرحومہ کی عام عمریں ساٹھ سال سے ستر سال تک مقدر ہیں، جیسا کہ حدیث میں ارشاد ہے : ” یعنی میری امت کے عمریں ساٹھ سے ستر سال تک ہوں گی، کم لوگ ہوں گے جو اس سے تجاوز کریں گے “ آخر آیت میں فرمایا (آیت) وجاء کم النذیر، اس میں اشارہ ہے کہ انسان کو عمر بلوغ کے وقت سے اتنی عقل وتمیز منجانب اللہ عطا ہوجاتی ہے کہ کم از کم اپنے خالق ومالک کو پہچانے اور اس کی رضا جوئی کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے۔ اتنے کام کے لئے خود انسانی عقل بھی کافی تھی، مگر اللہ جل شانہ، نے صرف اسی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ اس عقل کی امداد کے لئے نذیر بھی بھیجے، نذیر کے معنی اردو میں ڈرانے والے کے کئے جاتے ہیں، درحقیقت نذیر وہ شخص ہے جو اپنی رحمت و شفقت کے سبب اپنے لوگوں کو ایسی چیزوں سے بچنے کی ہدایت کرے جو اس کو ہلاکت یا مضرت میں ڈالنے والی ہیں، اور ان چیزوں سے لوگوں کو ڈرائے۔ مراد اس سے معروف معنی کے اعتبار سے انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے نائب علماء ہیں۔ حاصل آیت کا یہ ہے کہ ہم نے حق و باطل کو پہچاننے کے لئے عقل بھی دی، اس کے ساتھ اپنے پیغمبر بھی بھیجے جو حق کی طرف ہدایت کریں باطل سے بچائیں۔ اور حضرت ابن عباس، عکرمہ اور امام جعفر باقر سے منقول ہے کہ نذیر سے مراد بڑھاپے کے سفید بال ہیں، کہ جب وہ ظاہر ہوجائیں تو وہ انسان کو اس کی ہدایت کرتے ہیں کہ اب رخصت کا وقت قریب آ گیا ہے۔ یہ قول بھی پہلے قول سے متعارض نہیں کہ سفید بال بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نذیر ہوں اور انبیاء و علماء بھی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ انسان کو بالغ ہونے کے بعد سے جتنے حالات پیش آتے ہیں اس کے اپنے وجود اور گردو پیش میں جو تغیرات و انقلابات آتے ہیں، وہ سب ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نذیر اور انسان کو متنبہ کرنے والے ہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَہُمْ يَصْطَرِخُوْنَ فِيْہَا۝ ٠ ۚ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُ۝ ٠ ۭ اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْہِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاۗءَكُمُ النَّذِيْرُ۝ ٠ ۭ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ۝ ٣٧ۧ صرخ : يه لفظ مفردات القرآن سے نهيں ملا الصّ... َرْخَةُ : الصَّيْحَةُ الشَّدِيدَةُ عِنْدَ الْفَزَعِ أَو الْمُصِيبَةِ. وَقِيلَ الصُّراخُ الصَّوْتُ الشَّدِيدُ مَا كَانَ ؛ صَرَخَ يصرُخُ صُراخاً. وَمِنْ أَمثالهم : كانَتْ كَصَرْخَةِ الحُبْلى؛ للأَمر يفجَؤُك . وَالصَّارِخُ وَالصَّرِيخُ : الْمُسْتَغِيثُ. وَفِي الْمَثَلِ : عَبْدٌ صَريخُهُ أَمَةٌ أَي نَاصِرُهُ أَذل مِنْهُ وأَضعف؛ وَقِيلَ : الصَّارِخُ الْمُسْتَغِيثُ وَالْمُصْرِخُ الْمُغِيثُ ، ؛ وَقِيلَ : الصَّارِخُ الْمُسْتَغِيثُ وَالصَّارِخُ الْمُغِيثُ ؛ قَالَ الأَزهري : وَلَمْ أَسمع لِغَيْرِ الأَصمعي فِي الصَّارِخِ أَن يَكُونَ بِمَعْنَى الْمُغِيثِ. قَالَ : وَالنَّاسُ كُلُّهُمْ عَلَى أَن الصارخ المستغیث، والمصرخ المغیث، وَالْمُسْتَصْرِخَ الْمُسْتَغِيثُ أَيضاً. وَرَوَى شَمِرٌ عَنْ أَبي حَاتِمٍ أَنه قَالَ : الِاسْتِصْرَاخُ الِاسْتِغَاثَةُ ، والاستصراخ الْإِغَاثَةُ. وَفِي حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ : أَنه اسْتَصْرَخَ عَلَى امرأَته صَفِيَّةَ اسْتِصْرَاخَ الْحَيِّ عَلَى الْمَيِّتِ أَي اسْتَعَانَ بِهِ لِيَقُومَ بشأْن الْمَيِّتِ فَيُعِينَهُمْ عَلَى ذَلِكَ ، وَالصُّرَاخُ صَوْتُ اسْتِغَاثَتِهِمْ ؛ قَالَ ابْنُ الأَثير : اسْتُصْرِخ الإِنسان إِذا أَتاه الصَّارِخُ ، وَهُوَ الصَّوْتُ يُعْلِمُهُ بأَمر حَادِثٍ لِيَسْتَعِينَ بِهِ عَلَيْهِ ، أَو يَنْعَى لَهُ مَيْتًا . واسْتَصْرَخْتُهُ إِذا حَمَلْتَهُ عَلَى الصُّرَاخِ. وَفِي التَّنْزِيلِ : مَا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَما أَنْتُمْ بِمُصْرِخِيَ . والصریخُ : الْمُغِيثُ ، وَالصَّرِيخُ الْمُسْتَغِيثُ أَيضاً ، مِنَ الأَضداد؛ قَالَ أَبو الْهَيْثَمِ : مَعْنَاهُ مَا أَنا بِمُغِيثِكُمْ. قَالَ : وَالصَّرِيخُ الصَّارِخُ ، وَهُوَ الْمُغِيثُ مِثْلُ قَدِيرٍ وَقَادِرٍ. واصْطَرَخَ القَومُ وَتَصَارَخُوا وَاسْتَصْرَخُوا : اسْتَغَاثُوا . وَالِاصْطِرَاخُ : التَّصَارُخُ ، افْتِعَالٌ. وَالتَّصَرُّخُ : تَكَلُّفُ الصُّرَاخِ. وَيُقَالُ : التَّصَرُّخُ بِهِ حُمْقٌ أَي بِالْعُطَاسِ. وَالْمُسْتَصْرِخُ : الْمُسْتَغِيثُ ؛ تَقُولُ مِنْهُ : اسْتَصْرَخَنِي فأَصرخته . والصَّريخُ : صوتُ الْمُسْتَصْرِخِ. وَيُقَالُ : صَرَخَ فُلَانٌ يصرخُ صُرَاخًا إِذا استغاث فقال : وا غوثاهْ وا صَرْخَتاهْ قَالَ : وَالصَّرِيخُ يَكُونُ فَعَيْلًا بِمَعْنَى مُفعِل مِثْلَ نَذِيرٍ بِمَعْنَى مُنْذِرٍ وَسَمِيعٍ بِمَعْنَى مُسْمِعٍ؛ ( لسان العرب) یصطرخون۔ مضارع جمع مذکر غائب اصطراخ ( افتعال) مصدر افتعال کی تا کو طا سے بدلا گیا ہے وہ چیخیں گے ۔ وہ چلائیں گے ۔ وہ فریاد کریں گے۔ اور جگہ قرآن مجید ہے فاذا الذی استنصرہ بالامس یستصرخہ (28:18) تو ناگہاں وہی شخص جس نے کل ان سے مدد مانگی تھی پھر ان کو پکار رہا ہے۔ اور وان نشا نغرقہم فلا صریخ لہم (36:43) اور اگر ہم چاہیں تو ان کو غرق کردیں پس ان کا کوئی فریادرس نہ ہو۔ ( انوار البیان) خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے عمر ( زندگی) والْعَمْرُ والْعُمُرُ : اسم لمدّة عمارة البدن بالحیاة، فهو دون البقاء، فإذا قيل : طال عُمُرُهُ ، فمعناه : عِمَارَةُ بدنِهِ بروحه، وإذا قيل : بقاؤه فلیس يقتضي ذلك، فإنّ البقاء ضدّ الفناء، ولفضل البقاء علی العمر وصف اللہ به، وقلّما وصف بالعمر . والتَّعْمِيرُ : إعطاء العمر بالفعل، أو بالقول علی سبیل الدّعاء . قال : أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر/ 37] ، وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر/ 11] ، وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة/ 96] ، وقوله تعالی: وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] ، قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] ، وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء/ 18] . والعُمُرُ والْعَمْرُ واحد لکن خُصَّ القَسَمُ بِالْعَمْرِ دون العُمُرِ «3» ، نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر/ 72] ، وعمّرک الله، أي : سألت اللہ عمرک، وخصّ هاهنا لفظ عمر لما قصد به قصد القسم، ( ع م ر ) العمارۃ اور العمر والعمر اس مدت کو کہتے میں جس میں بدن زندگی کے ساتھ آباد رہتا ہے اور یہ بقا سے فرو تر ہے چنناچہ طال عمر ہ کے معنی تو یہ ہوتے ہیں کہ اس کا بدن روح سے آباد رہے لیکن طال بقاء ہ اس مفہوم کا مقتضی نہیں ہے کیونکہ البقاء تو فناء کی ضد ہے اور چونکہ بقاء کو عمر پر فضیلت ہے اس لئے حق تعالیٰ بقاء کے ساتھ تو موصؤف ہوتا ہے مگر عمر کے ساتھ بہت کم متصف ہوتا ہے ۔ التعمیر کے معنی ہیں بالفعل عمر بڑھانا نا یا زبان کے ساتھ عمر ک اللہ کہنا یعنی خدا تیری عمر دراز کرے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر/ 37] کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو سوچنا چاہتا سوچ لیتا ۔ وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر/ 11] اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے ۔ وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة/ 96] اگر اتنی لمبی عمر اس کو مل بھی جائے تو اسے عذاب سے تو نہیں چھڑا سکتی ۔ اور آیت : ۔ وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] اور جس کو بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] یہاں تک کہ ( اسی حالت میں ) ان کی عمر ین بسر ہوگئیں ۔ وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء/ 18] اور تم نے برسوں ہمارے عمر بسر کی ۔ العمر والعمر کے ایک ہی معنی ہیں لیکن قسم کے موقعہ پر خاص کر العمر کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے ۔ عمر کا لفظ نہیں بولا جاتا جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر/ 72] تمہاری زندگی کی قسم وہ اپنی مستی میں عمرک اللہ خدا تمہاری عمر دارز کرے یہاں بھی چونکہ قسم کی طرح تاکید مراد ہے اس لئے لفظ عمر کو خاص کیا ہے تَّذْكِرَةُ : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] ، أي : القرآن . وذَكَّرْتُهُ التذکرۃ جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ مراد قرآن پاک ہے ۔ ذَكَّرْتُهُ كذا جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچ  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

سمجھ داری کی عمر قول باری ہے (اولم نعمر کم ما یتذکر فیہ من تذکروجآء کم النذیر ۔ کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی کہ جس میں جس کو سمجھنا ہوتا سمجھ لیتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی پہنا تھا) حضرت ابن عباس (رض) اور مسروق سے روایت ہے کہ سمجھ کی جس عمر کا اللہ نے ذکر کیا ہے وہ چالیس برس کی عمر ہے۔ ح... ضرت ابن عباس (رض) سے ایک اور روایت کے مطبق نیز حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ یہ ساٹھ برس ہے۔ ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی انہیں الحسن بن الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے کہا کہ مجھے بنو غفار کے ایک شخص نے سعید المقبری سے روایت سنائی۔ انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لقد اعذر اللہ عبداً احیاہ حتی بلغ ستین اور سبعین سنۃ لقد ا عذر اللہ الیہ لقد اعذر اللہ الیہ۔ اللہ تعالیٰ نے جس بندے کو ساٹھ ستر سال تک زندہ رکھا ہو اس نے گویا اس کا عذر دور کردیا، اس نے گویا اس کا عذر دور کردیا) یعنی اس عمر میں پہنچ کر بھی اگر وہ خدا شناسی سے بےبہرہ رہ جائے تو اس کی کوئی معذرت قابل قبول نہیں ہوگی۔ ہمیں عبداللہ نے روایت بیان کی ، انہیں حسن نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے ابوخیثم سے، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ ” وہ عمر جس میں اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کا عذر دور کردیا ہے ساٹھ برس کی عمر ہے۔ “ اسی استاد سے مجاہد سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ قول باری (وجاء کم النذیر) کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ اس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مراد ہے۔ ایک قول ہے کہ اس سے بڑھاپا مراد ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں نذیر سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات نیز وہ تمام دلائل مراد لینا درست ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید، اپنے انبیاء کی تصدیق، اپنے وعدے اور وعید پر قائم کر رکھے ہیں نیز زندگی کے تمام مراحل میں بلوغت سے لے کر موت تک پیدا ہونے والے وہ جسمانی اور ذہنی تغیرات وتبدلات بھی جن میں انسان کو کوئی دخل نہیں ہوتا اور یہ فطری طور پر اپنے اپنے اوقات میں رونما ہوتے چلے جاتے ہیں۔ عمر کے ایک مرحلے میں ایک شخص نو عمر، پھر جوان ہوتا ہے پھر ادھیڑ عمر کو پہنچ کر بڑھاپے کی سرحد میں داخل ہوجاتا ہے ۔ پھر ان مراحل میں بیماری ، صحت نیز فقہ وغنا اور خوشی غمی کے ادوار گزرتے ہیں۔ یہ خود اپنی جگہ معرفت الٰہی کے دلائل ہیں، علاوہ ازیں ہر شخص اپنی ذات سے باہر دوسروں پر گزرنے والے حوادث کا اور ان حوادث کے نزول میں ان کے بےبسی کا مشاہدہ کرتا ہے۔ یہ تمام باتیں بھی اسے اللہ کی ذات کی طرف دعوت دینے والی اور اس کی ذات سے ڈرانے والی ہوتی ہیں۔ جس طرح ارشاد ہے (اولم ینظروا فی ملکوت السموت والارض وما خلق اللہ من شیء کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین میں (اللہ کی) بادشاہت نیز اللہ کی پیدا کردہ چیزوں کو نہیں دیکھا) اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ اس کی پیدا کردہ تمام چیزوں میں اس کی ذات پر دلالت موجود ہے اور بندوں کو اس کی طرف لے جانے کا وسیلہ بھی موجود ہے۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور وہ کافر اس دوزخ میں پڑے ہوئے فریاد اور واویلا اور آہ وزاری کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں دوزخ سے نکال کر پھر دنیا میں بھیج دیجیے تاکہ ہم آپ پر ایمان لے آئیں اور خوب خلوص کے ساتھ نیک اعمال کریں بجائے ان کاموں کے جو کہ حالت شرک میں کرتے تھے اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ اے گروہ کفار کیا ہم نے...  تمہیں دنیا میں اتنی مہلت نہیں دیت کہ جس کو نصیحت حاصل کرنی اور ایمان لانا ہوتا وہ نصیحت حاصل کرلیتا اور ایمان لے آتا اور تمہارے پاس رسول اکرم قرآن کریم لے کر آئے تھے اور تمہیں اس دن سے ڈرایا تھا مگر پھر بھی تم ایمان نہیں لائے سو اب دوزخ کے عذاب کا مزہ چکھو ایسے کافروں کا عذاب خداوندی کے مقابلہ میں کوئی مددگار نہیں ہوگا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧{ وَہُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْہَاج رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ } ” اور وہ اس میں چیخ و پکار کریں گے : اے ہمارے پروردگار ! ہمیں (یہاں سے) نکال لے ! اب ہم نیک اعمال کریں گے ‘ ان اعمال سے مختلف جو ہم (پہلے) کیا کرتے تھے۔ “ { اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا ی... َتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ } ” کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں سبق حاصل کرلیا جس نے سبق حاصل کرنا چاہا “ ہم نے تمہیں عمر کی مناسب مہلت دی تھی۔ اسی مہلت میں کچھ لوگوں نے دنیا میں رہتے ہوئے غیب کے پردوں میں ہمیں پہچانا۔ وہ ہم پر ایمان لائے اور بھلائی کا راستہ اختیار کر کے جنت میں پہنچ گئے۔ عمر کی اس مہلت میں اگر وہ لوگ راہ راست پر آسکتے تھے تو تم لوگ ایسا کیوں نہیں کرسکتے تھے ؟ { وَجَآئَ کُمُ النَّذِیْرُط } ” اور تمہارے پاس خبردار کرنے والا بھی تو آیا تھا ! “ { فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ } ” تو اب چکھو (مزہ اس عذاب کا اور یاد رکھو کہ) ظالموں کے لیے کوئی مدد گار نہیں ہے۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

63 This implies every such age of life in which a person may be able to distinguish between good and evil, truth and falsehood, if he likes to, and turn to right guidance instead of deviation, if he wishes. If a person has died before attaining such an age, he will not be called to any account according to this verse. However, the one who has attained this age will certainly be held answerable for...  his actions. Then, as long as he lives after attaining this age and gets more and more opportunities for choosing and adopting the right path, his responsibility also will increase accordingly; so much so that the one who does not adopt right guidance even in old age will have no chance left for making any excuse. This same thing has been reported by Hadrat Abu Hurairah and Hadrat Sahl bin Sa'd as-Sa'idi in a Hadith, saying: "The one who lives a short life has an excuse to offer, but there is no room for making an excuse for him who lives for 60 years or more." (Bukhari Ahmad, Nasa'i, Ibn Jarir, Ibn Abi Hatim).  Show more

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :63 اس سے مراد ہر وہ عمر ہے جس میں آدمی اس قابل ہو سکتا ہو کہ اگر وہ نیک و بد اور حق و باطل میں امتیاز کرنا چاہے تو کر سکے اور گمراہی چھوڑ کر ہدایت کی طرف رجوع کرنا چاہے تو کر سکے ۔ اس عمر کو پہنچنے سے پہلے اگر کوئی شخص مر چکا ہو تو اس آیت کی رو سے اس پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا ... ۔ البتہ جو اس عمر کو پہنچ چکا ہو وہ اپنے عمل کے لیے لازماً جواب دہ قرار پائے گا ، اور پھر اس عمر کے شروع ہو جانے کے بعد جتنی مدت بھی وہ زندہ رہے اور سنبھل کر راہ راست پر آنے کے لیے جتنے مواقع بھی اسے ملتے چلے جائیں اتنی ہی اس کی ذمہ داری شدید تر ہوتی چلے جائے گی ، یہاں تک کہ جو شخص بڑھاپے کو پہنچ کر بھی سیدھا نہ ہو اس کے لیے کسی عذر کی گنجائش باقی نہ رہے گی ۔ یہی بات ہے جو ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت سہل بن سَعد ساعِدی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرمائی ہے کہ جو شخص کم عمر پائے اس کے لیے تو عذر کا موقع ہے ، مگر 60 سال اور اس سے اوپر عمر پانے والے کے لیے کوئی عذر نہیں ہے ( بخاری ، احمد ، نَسائی ، ابن جریر اور ابن ابی حاتم وغیرہ ) ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: انسان کو اوسطاً جتنی عمر دی جاتی ہے، وہ اتنی طویل ہے، اور اس میں انسان اتنے مختلف مراحل سے گزرتا ہے کہ اگر وہ واقعی حق تک پہنچنا چاہے تو پہنچ سکتا ہے، اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دار کرنے والے بھی اسی عمر کے دوران آتے رہتے ہیں، خبر دار کرنے والے سے مراد انبیاء کرام اور اس امت کے لئے آنح... ضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جنہوں نے انسان کو آخرت کے عذاب سے آگاہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ اور ہر دور میں علماء بھی یہ فریضہ انجام دیتے رہے ہیں، اور بعض مفسرین نے خبردار کرنے والے کی تفسیر یہ کی ہے کہ انسانی عمر کے مختلف مرحلوں پر جو چیزیں موت کی یاد دلاتی ہیں یہاں خبر دار کرنے والے سے مراد وہ ہیں چنانچہ بڑھاپے کے مقدمے کے طور پر انسان کے بال سفید ہوتے ہیں تو وہ بھی خبر دار کرنے والا ہے، جب کسی کے یہاں اس کا پوتا پیدا ہوتا ہے تو وہ بھی ڈرانے والا ہے کہ موت کا وقت قریب آرہا ہے، نیز انسان کو جو بیماریاں لاحق ہوتی ہیں وہ سب بھی موت کی یاد دلاکر انسان کو خبر دار کرتی ہیں کہ وہ آخرت کی بہتری کا کوئی سامان کرلے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٧۔ اس میں سلف کا اختلاف ہے کہ آیت کے اس ٹکڑے میں عمر کی کس قدر مدت مقصود ہے جس مدت میں نصیحت پکڑنے والا آدمی نصیحت پکڑے سکے اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو یہ عذر پیش نہ کرے کہ دنیا میں اس کو کم عمر کے سبب سے نصیحت کے قبول کرنے کا موقع نہیں ملا یہ تو ایک ظاہر بات ہے کہ دنیا میں اللہ کے رسول مح... ض اس غرض سے آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ہر ایک طرح کا حکم جو مرضی الٰہی کے موافق ہو وہ لوگوں کو سمجھادیویں اسی واسطے جن مفسروں نے بغیر سند کلام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس آیت کی تفسیر کی ہے وہ تو کسی طرح مقبول ہونے کے قابل نہیں ہے کیوں کو قرآن شریف کی کسی آیت کا وہ مطلب صحیح نہیں ہوسکتا جس کی سند قرآن کا مطلب سمجھانے والے تک نہ پہنچنے اسی طرح جن مفسروں نے اپنے نزدیک کسی حدیث کے مضمون کے موافق اس آیت کی تفسیر کی ہے اور اس حدیث کی سند ضعیف ہے تو وہ تفسیر بھی قبول ہونے کے لائق نہیں کس واسطے کہ جس کلام کا سند صحیح سے کلام رسول ہونا نہ ثابت ہوجاوے اس کلام سے مراد الٰہی کیوں کر ثابت کی جاسکتی ہے اب چند حدیثوں کے مضمون کے موافق مفسروں کے چار قول ہیں پہلا قول یہ ہے کہ آیت میں ساٹھ برس کی عمر مراد الٰہی ہے یہی قول بہت صحیح ہے کیوں کہ اس قول کی تائید صحیح بخاری کی حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ٢ ؎ سے ہوتی ہے (٢ ؎ الترغیب والترہیب ص ٤٩٢ ج ٤ فصل فی بکائہم وشہیقہم۔ ) جس روایت کا حاصل یہ ہے کہ ساٹھ برس کی عمر ہونے کے بعد کسی کا کم عمری جکا عذر خدا تعالیٰ کے روبرو قبول نہ ہوگا اگرچہ حافظ ابن جریرنے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ چالیس برس کی عمر کی روایت صحیح ہے ہے لیکن حافظ ابن کثیر نے لکھا ١ ؎ ہے کہ حافظ ابن جریر کا یہ قول صحح نہیں ہے کس لیے کہ صحیح بخاری کی کتاب الرقاق میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ساٹھ برس کی جب کہ موجود ہے تو صحیح بخاری سے بڑھ کر کون سی صحیح روایت کی پھر ضرورت باقی ہے دوسرا قول چھیالیس برس کی عمر کا ہے اس کی روایت تفسیر ابن مردو یہ میں حضرت عبدللہ بن عباس (رض) سے ہے مگر اس میں ایک راوی ابن خثیم ضعیف ہے تیسرا قول ستر برس کا تفسیر ابن مردویہ میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت سے ہے اس میں بھی ایک راوی یحییٰ بن میمون ضعیف ہے چوتھا قول چالیس برس کی عمر کی تفسیر ابن جریر وغیرہ میں ہے یہ روایت حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی ہے لیکن دوسری روایت حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی ساٹھ برس کی بھی تفسیر سفیان ثوری وغیرہ میں موجود ہے اور یہی دوسری روایت عبداللہ بن عباس (رض) کی ابوہریرہ (رض) کی صحیح بخاری کی حدیث کہ موافق ہے اس واسطے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی اسی روایت کو حافظ ابن کثیر اور اور مفسروں نے صحیح قرار دیا ہے اس قدر عمر خدا کے پہچاننے اور دین کی باتیں سمججھنے اور نیک عمل کرنے کے لیے کافیھی اس واسطے امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کی عمر ساٹھ اور ٧٠ ستر برس کے مابین میں قرار پائی ہے شاذونادر آدمی ہیں جن کی عمر اس سے زیادہ ہوتی ہے چناچہ معتبر سند سے ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ٢ ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت کے لوگوں کی عمر ساٹھ اور ستربرس کے مابین میں ہے بہت کم لوگ ہیں جن کی عمر اس سے زیادہ ہوگی اسی واسطے علماء نے لکھا ہے کہ جو شخص دنیا میں ساٹھ ٦٠ برس کی عمر کو پہنچ کر بھی توبہ و استغفار اور عبادت الٰہی میں مضروف نہ ہوا اس کے حال پر بڑا افسوس ہے کیوں کہ ایسے شخص کو قیامت کے روز خدا کے روبرو کسی عذر کا موقع بھی باقی نہیں ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ جب نافرمان لوگ دوزخ سے نکالے جانے کی خواہش اور آئندہ کے لیے نیک عملوں کا اقرار کریں گے تو ان کو کتوں کی طرح دھتکارا جاکر یہ جواب دیا جاوے گا کہ تم کو راہ راست پر آنے کے لیے کافی عمر دی گئی اللہ کی مرض یکے کام سمجھانے اور آج کے دن کی آفت سے ڈرانے کے لیے آسمانی کتابیں دے کر رسول بھیجے گئے مگر تم یہی کہتے رہے کہ اول تو مر کر پھر جینا نہیں اور اگر ایسا ہوا بھی تو جن فرشتوں اور نیک لوگوں کی مورتوں کی ہم پوجا کرتے ہیں وہ ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچالیں گے اب یہ تم نے دیکھ لیا کہ وہ فرشتے اور نیک لوگ تم سے بیزار ہوگئے اس لیے اب تم یہ سزا اپنے جرموں کی بھگتوں اور کسی مددگار کی مدد کا امید نہ رکھو۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(35:37) یصطرخون۔ مضارع جمع مذکر غائب اصطراخ (افتعال) مصدر افتعال کی تا کو طا سے بدلا گیا ہے وہ چیخیں گے ۔ وہ چلائیں گے ۔ وہ فریاد کریں گے۔ اور جگہ قرآن مجید ہے فاذا الذی استنصرہ بالامس یستصرخہ (28:18) تو ناگہاں وہی شخص جس نے کل ان سے مدد مانگی تھی پھر ان کو پکار رہا ہے۔ اور وان نشا نغرقہم فلا صریخ ل... ہم (36:43) اور اگر ہم چاہیں تو ان کو غرق کردیں پس ان کا کوئی فریادرس نہ ہو۔ نعمل مضارع مجزوم (بوجہ جواب شرط) جمع متکلم۔ ہم نیک کام کریں گے۔ غیر الذی کنا نعمل برخلاف ان کاموں کے جو ہم کیا کرتے تھے۔ اولم نعمرکم۔۔ جواب من جھتہ تعالیٰ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ملے گا۔ ہمزہ استفہامیہ ہے وائو عاطفہ ہے جس کو ہمزہ استفہام کے بعد لایا گیا ہے ۔ لم نعمر مضارع نفی حجد بلم۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ کیا ہم نے تم کو اتنی لمبی عمر نہ دی تھی۔ ما یتذکر فیہ۔۔ میں ما موصوفہ ہے ای اولم نعمرکم عمرا یتذکر فیہ یا ما موصولہ ہے ای اولم نعمرکم الذی یتذکر فیہ۔ یتذکر مضارع واحد مذکر غائب تذکر (تفعل) مصدر۔ وہ نصیحت پکڑ تا ہے وہ نصیحت حاصل کرتا ہے (یعنی وہ اس لمبی عمر میں نصیحت حاصل کرلیتا) ۔ اس میں ضمیر فاعل کا مرجع من (اسم موصول) ہے جو آگے آرہا ہے فیہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب عمر کی طرف راجع ہے۔ تذکر ماضی واحد مذکر غائب اس نے نصیحت پکڑی۔ وجاء کم النذیر۔ النذیر سے مراد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ ابو حبان کے نزدیک النذیر سے مراد جنس النذیر ہے یعنی انبیاء (علیہم السلام) کیونکہ ہر نبی اپنی امت کے لئے نذیر ہے۔ اور تمہارے پاس ڈرانے والے بھی آگئے تھے۔ اس جملہ کا عطف اولم نعمرکم پر ہے۔ اور جواب کا دوسرا جزو ہے ۔ یعنی تمہیں لمبی عمر عطا کی اور پھر تمہیں سمجھانے کے لئے ڈرانے والے بھی بھیجے۔ فذوقوا میں فا ترتیب کا ہے۔ ذوقوا فعل امر جمع مذکر حاضر۔ ذوق مصدر (باب نصر) تم چکھو۔ فما۔ میں فاء تعلیل کا ہے اور ما نافیہ ہے۔ الظالمین سے مراد کفار ہیں ۔ منکرین توحید و رسالت رسل۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3” اتنی عمر “ سے مراد ساٹھ برس کی عمر ہے۔ یہی قول حضرت ابن عباس (رض) اور اکثر صحابہ (رض) سے منقول ہے۔ صحیح بخاری کتاب الرقاق میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے ایک مرفوع حدیث میں ہے ( اعذر اللہ الی امری اخرعمرہ حتی بلغ ستین سنۃ) کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کا عذرختم کردیا جسے اس نے ساٹھ برس کی عمر دے دی، پس ی... ہی قول اصح ہے اور جن روایات و اقوال میں چھیالیس، ستر اور چالیس برس کی تحدید مذکور ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ ( ملخص از ابن کثیر وغیرہ) ۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ مراد اس سے عمر بلوغ ہے کہ بقدر ضرورت اس سے کمال فہم حاصل ہوجاتا ہے اسی لئے اس میں مکلف ہوجاتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وھم یصطرخون فیھا ۔۔۔۔۔ من نصیر (37) ” “۔ وھم یصطرخون فیھا (35: 37) ” وہ وہاں چیخ چیخ کر کہیں گے “۔ لفظ (یصطرخون) کے تلفظ کے اندر ہی اس کے تمام مفہوم ثبت ہیں۔ اس کرخت آواز ہی سے اس کا مفہوم ظاہر ہوجاتا ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں : ربان اخرجنا ۔۔۔۔ نعمل (35: 37) ” اے ہمارے رب ، ہمیں یہاں سے نکال لے تاکہ ہم...  نیک عمل کریں ان اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے رہے تھے “۔ اب یہ اللہ کی طرف جھک رہے ہیں۔ اعتراف گناہ کر رہے ہیں اور نادم ہیں لیکن جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ دیکھئے کس قدر سخت اور دو ٹوک جواب سنتے ہیں ہم جس کے اندر سرزنش بھی ہے۔ اولم نعمر کم ۔۔۔۔ من نصیر (35: 37) ”(انہیں جواب دیا جائے گا) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق لے سکتا تھا ؟ اور تمہارے پاس متنبہ کرنے والا بھی آچکا تھا۔ اب مزا چکھو۔ ظالموں کا یہاں کوئی مددگار نہیں ہے “۔ تمہیں ہم نے عمر دی تم نے اس سے استفادہ نہ کیا ، حالانکہ یہ عمران لوگوں کے لیے کافی تھی جو نصیحت حاصل کرنا چاہتے تھے۔ پھر تمہاری مزید سہولت کے لیے انبیاء بھی بھیجے گئے۔ انہوں نے تمہیں ڈرایا مگر تم نہ ڈرے۔ ان آیات میں دو باہم متقابل صورتیں بتائی گئی ہیں۔ ایک جانب امن و راحت ہے اور دوسری جانب قلق و اضطراب ہے۔ ایک طرف شکر نعمت کا میٹھا نغمہ ہے اور دوسری طرف چیخ و پکار ہے۔ ایک طرف اعزازو اکرام و استقبال ہے اور دوسری جانب نظر انداز کرنا اور سرزنش کرنا ہے۔ ایک طرف نرم و نازک اور فرحت بخش الفاظ اور دوسری جانب کرخت اور سخت جھڑکی ہے۔ یوں کلام کے دونوں اطراف میں مکمل تقابل ہے ، ہر ہر جزء میں۔ اور سب سے آخر میں تمام مناظر پر ایک آخری تبصرہ آتا ہے ، خصوصاً اہل دین اور امت مصطفوی کو چن لینے اور اسے اعزازو اکرام دینے پر۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(37) اور یہ لوگ اس دوزخ میں پڑے چلاتے اور فریاد کرتے ہوں گے اے ہمارے پروردگار ہم کو نکال دے ہم آئندہ نیک کام کیا کریں گے وہ کام نہیں جو ہم پہلے نیک سمجھ کر کیا کرتے تھے۔ جواب ملے گا کیا تم کو اتنی عمر نہ دی تھی اور تم کو اس قدر زندگی نہیں دی تھی کہ جس کو سوچنا سمجھنا ہوتا وہ اس عمر اور اس زندگی میں ... سوچ سمجھ لیتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا تھا۔ پس اب عذاب کا مزہ چکھو، سو ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہیں کہ ان کی مدد کرے۔ مطلب یہ ہے کہ اے رب ہم کو اس جہنم سے نکال کر پھر دنیا میں بھیج دے تو آئندہ ہم نیک اعمال کریں گے اس پر شبہ تھا کہ تمام کافرانہ اعمال کو بھلا ہی سمجھ کر کیا کرتے تھے۔ اس شبہ کا دفعیہ کریں گے۔ غیر الذی کنا نعمل یعنی وہ نہیں جو اب تک کرتے رہے بلکہ ان کے خلاف جن اعمال کو پیغمبر اچھا بتاتے تھے وہ کیا کریں گے۔ جواب کا مطلب ظاہر ہی ہے کہ اس قدر عمر اور زندگی دی گئی تھی یعنی بلوغ سے لے کر جہاں تک بھی ہو وہ ایک سوچنے سمجھنے والے کو کافی تھی جس کو سوچنا سمجھنا ہوتا وہ اس زندگی میں سوچ سمجھ سکتا تھا۔ مزیدبرآں یہ کہ پیغمبر بھی بھیجا گیا جس کا کام زیادہ تر نافرمانوں کو اس دن کی وحشت اور عذاب سے ڈرانا ہوتا تھا۔ سوچنے سمجھنے کو عقل ملی ہوش و حواس ملے۔ عقل ابھارنے اور حرکت دینے کو ڈرانے والا پیغمبر آیا۔ اب کام کون سا باقی رہ گیا۔ جس کے لئے پھر واپس بھیجا جائے لہٰذا مزہ چکھتے رہو اور یہ سمجھ لو کہ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں وہ نہیں جو کرتے تھے یعنی اس وقت تو اسی کو بھلا سمجھتے تھے پر اب وہ نہ کریں گے۔  Show more