Surat Faatir

Surah: 35

Verse: 39

سورة فاطر

ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَکُمۡ خَلٰٓئِفَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ فَمَنۡ کَفَرَ فَعَلَیۡہِ کُفۡرُہٗ ؕ وَ لَا یَزِیۡدُ الۡکٰفِرِیۡنَ کُفۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ اِلَّا مَقۡتًا ۚ وَ لَا یَزِیۡدُ الۡکٰفِرِیۡنَ کُفۡرُہُمۡ اِلَّا خَسَارًا ﴿۳۹﴾

It is He who has made you successors upon the earth. And whoever disbelieves - upon him will be [the consequence of] his disbelief. And the disbelief of the disbelievers does not increase them in the sight of their Lord except in hatred; and the disbelief of the disbelievers does not increase them except in loss.

وہی ایسا ہے جس نے تم کو زمین میں آباد کیا ، سو جو شخص کفر کرے گا اس کے کفر کا وبال اسی پر پڑے گا ۔ اور کافروں کے لئے ان کا کفر ان کے پروردگار کے نزدیک ناراضی ہی بڑھنے کا باعث ہوتا ہے اور کافروں کے لئے ان کا کفر خسارہ ہی بڑھنے کا باعث ہوتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَيِفَ فِي الاَْرْضِ ... He it is Who has made you successors generations after generations in the earth, meaning, all people succeed one another, generation after generation. This is like the Ayah: وَيَجْعَلُكُمْ حُلَفَأءَ الاٌّرْضِ and makes you inheritors of the earth, generations after generations. (27:62) ... فَمَن كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُ... فْرُهُ ... so whosoever disbelieves, on him will be his disbelief. means, he and no one else will have to bear the consequences of that. ... وَلاَ يَزِيدُ الْكَافِرِينَ كُفْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ إِلاَّ مَقْتًا ... And the disbelief of the disbelievers adds nothing but hatred of their Lord. means, the longer they persist in their disbelief, the more Allah hates them, and the longer they persist in it, the more they and their families will lose on the Day of Resurrection. ... وَلاَ يَزِيدُ الْكَافِرِينَ كُفْرُهُمْ إِلاَّ خَسَارًا And the disbelief of the disbelievers adds nothing but loss. This is in contrast to the believers, for the longer they live and do good deeds, the higher their status in Paradise will be, the greater their reward, and the more beloved they will be to their Creator.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

39۔ 1 یعنی اللہ کے ہاں کفر کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا، بلکہ اس سے اللہ کے غضب اور ناراضگی میں بھی اضافہ ہوگا اور انسان کے اپنے نفس کا خسارہ بھی زیادہ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٤٣] انسان زمین میں خلیفہ کس کا ہے ؟ اس جملہ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ تم سے پہلی قوم کو ان کے جرم کی پاداش میں ہلاک کرکے تمہیں ان کا جانشین بنایا۔ دوسرا یہ کہ تم سے پہلی نسل مرگئی تو ان کی جگہ تم ان کے جانشین ہوئے۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ اس کائنات کا اور اسی طرح اس زمین کا اصل مالک اور حاکم ... تو اللہ تعالیٰ ہے اور تمہیں اس کے نائب کی حیثیت سے یہاں بھیجا گیا ہے۔ اور اس لئے بھیجا گیا ہے کہ تم اس کی عطا کردہ چیزوں کو اسی کے حکم اور اسی کی مرضی کے مطابق استعمال کرتے ہو۔ یا اس کے باغی بن کر اپنی خواہشات کی پیروی کرنے لگ جاتے ہو۔ اور اگر تم اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اختیارات کا اس کی مرضی کے خلاف غلط استعمال کرو گے تو یہ بددیانتی ہوگی اور اس کا تمہیں بہت بڑا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ تمہارا اصل مالک یقیناً تم سے ناراض ہوجائے گا پھر اس کی ناراضگی اور غصہ تمہارے لئے مزید نقصان کا باعث بن جائے گا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

هُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِي الْاَرْضِ ۭ : اس کے انعام اور اپنے کفر اور ناشکری پر غور کرو، اس کا احسان دیکھو کہ اس نے پہلی نسل کو فوت کرکے تمہیں اس کی جگہ زمین اور اس میں موجود تمام چیزوں کا مالک بنادیا۔ (خلیفہ کا مطلب سمجھنے کے لیے سورة بقرہ کی آیت (٣٠) ” اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَ... لِيْفَةً “ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں) اگر ہر آنے والی نسل کے ساتھ پہلی تمام نسلیں بھی موجود رہتیں تو زمین میں نہ رہنے کی گنجائش رہتی، نہ ان کی ضروریات پوری ہوتیں۔ اس احسان کا بدلا تم نے یہ دیا کہ اس کی ناشکری کی، اس کا احسان ماننے سے انکار کیا اور اس کے ساتھ شریک بنا لیے، جنھوں نے نہ کچھ پیدا کیا، نہ ان کا زمین کی پیدائش یا ملکیت میں کوئی حصہ ہے اور تم نے انھیں پکارنا شروع کردیا۔ فَمَنْ كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُهٗ : تو جو اس نعمت کی ناشکری کرے اور اس کا احسان ماننے اور اس کے احکام تسلیم کرنے سے انکار کر دے تو اس کی ناشکری اور انکار کا وبال اسی پر پڑے گا، کسی دوسرے کو اس کا کچھ نقصان نہیں۔ وَلَا يَزِيْدُ الْكٰفِرِيْنَ كُفْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ اِلَّا مَقْتًا۔ : یعنی اگر کفار کو ان کے کفر کے باوجود زمین کی خلافت ملی ہوئی ہے اور مال و اولاد اور دوسری نعمتوں کے ساتھ لمبی عمر ملی ہوئی ہے اور ان کی رسی دراز ہے، تو یہ نہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر خوش ہے، اس لیے انھیں نعمتیں دیے جا رہا ہے اور نہ یہ سمجھیں کہ وہ اس طرح نفع کا سودا کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کافروں کے کفر سے ان پر اللہ تعالیٰ کے شدید غضب میں اضافہ ہی ہو رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے کفر سے ان کا خسارا ہی بڑھ رہا ہے، کیونکہ اس سے ان پر حجت تمام ہو رہی ہے اور ان کے عذر ختم ہو رہے ہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The word: خَلَائِفَ (khala&if) in verse 39: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ فِي الْأَرْ‌ضِ (He is the One who has made you successors (of the past generations) in the earth.) is the plural of: خَلِیفَہ (khalifah) which means deputy or vice-regent. The general sense is that Allah Ta’ ala has let human beings have lands and houses that keep passing on from one to the other. In this ... phenomena, there is a great lesson - turn to Allah. Then, the statement could also be taken to have been addressed to the ummah of the Holy Prophet t saying, &After past communities, We made you take their place with authority to make life better around you, so it is your duty that you learn your lesson from what happened to people earlier than you, and hence you, on your part, do not while away precious moments of your life in negligence.  Show more

معارف ومسائل (آیت) ہوالذی جعلکم خلئف فی الارض، خلائف خلیفہ کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں نائب اور قائم مقام۔ مراد یہ ہے کہ ہم نے انسانوں کو یکے بعد دیگرے زمین و مکان وغیرہ کا مالک بنایا ہے ایک جاتا ہے تو دوسرے کو اس کی جگہ ملتی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کے لئے بڑی عبرت ہے۔ اور یہ معنی بھ... ی ہو سکتے ہیں کہ یہ خطاب امت محمدیہ کو ہو کہ ہم نے پچھلی قوموں کے بعد ان کے خلیفہ کی حیثیت سے تم کو مالک و متصرف بنایا ہے، لہٰذا تمہارا فرض ہے کہ اپنے سے پہلے لوگوں کے حالات سے عبرت حاصل کرو، عمر کے قیمتی لمحات کو غفلت میں نہ گزارو۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ہُوَالَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِي الْاَرْضِ۝ ٠ ۭ فَمَنْ كَفَرَ فَعَلَيْہِ كُفْرُہٗ۝ ٠ ۭ وَلَا يَزِيْدُ الْكٰفِرِيْنَ كُفْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ اِلَّا مَقْتًا۝ ٠ ۚ وَلَا يَزِيْدُ الْكٰفِرِيْنَ كُفْرُہُمْ اِلَّا خَسَارًا۝ ٣٩ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخوا... تها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ خلف والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر/ 39] ، ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے ) الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام/ 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ مقت المَقْتُ : البغض الشدید لمن تراه تعاطی القبیح . يقال : مَقَتَ مَقاتَةً فهو مَقِيتٌ ، ومقّته فهو مَقِيتٌ ومَمْقُوتٌ. قال تعالی: إِنَّهُ كانَ فاحِشَةً وَمَقْتاً وَساءَ سَبِيلًا [ النساء/ 22] وکان يسمّى تزوّج الرّجل امرأة أبيه نکاح المقت، وأما المقیت فمفعل من القوت، وقد تقدّم ( م ق ت ) المقت کے معنی کسی شخص کو فعل قبیح کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھ کر اس سے بہت بغض رکھتے کے ہیں ۔ یہ مقت مقاتۃ فھو مقیت ومقتہ فھو مقیت وممقوت سے اسم سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ یہ نہایت بےحیائی اور ( خدا کی ) ناخوشی کی بات تھی اور بہت برا دستور تھا ۔ جاہلیت میں اپنے باپ کی بیوہ سے شادی کرنے کو نکاح المقیت کہا جاتا تھا ۔ المقیت کی اصل قوۃ ہے جس کی تشریح پہلے گزر چکی ہے ۔ خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

وہی ایسا ہے اے امت محمدیہ جس نے تمہیں پچھلی قوموں کو ہلاک کرنے کے بعد زمین پر آباد کیا اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہی بڑھنے کا باعث ہوتا ہے۔ اور نیز کافروں کے لیے ان کا دنیوی کفر آخرت میں خسارہ ہی بڑھنے کا باعث ہوتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩{ ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ فِی الْاَرْضِ } ” وہی تو ہے جس نے تمہیں جانشین بنایا زمین میں۔ “ { فَمَنْ کَفَرَ فَعَلَیْہِ کُفْرُہٗ } ” تو جس کسی نے کفر کیا تو اس کے کفر کا وبال اسی پر ہوگا۔ “ { وَلَا یَزِیْدُ الْکٰفِرِیْنَ کُفْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ اِلَّا مَقْتًاج } ” اور کافروں کے...  لیے ان کا کفر ان کے رب کے نزدیک سوائے غضب کے کسی چیز میں اضافہ نہیں کرے گا۔ “ { وَلَا یَزِیْدُ الْکٰفِرِیْنَ کُفْرُہُمْ اِلَّا خَسَارًا } ” اور کافروں کے لیے ان کا کفر سوائے خسارے کے اور کچھ نہیں بڑھائے گا۔ “ ان کے کفر کے سبب ان کے خلاف اللہ کے غصے اور اس کی بےزاری میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔ اس طرح ان کی تباہی اور بربادی بڑھتی ہی چلی جائے گی۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

64 This can have two meanings: (1) "Now He has settled you on His earth after the passing away of the previous generations and nations;" and (2) "the powers and authority that He has given you over different things in the earth are not meant to make you the owners of these things but are meant to enable you to function as the representatives of their real Owner. " 65 If the previous sentence is t... aken to mean that you have been made successors to the previous nations, this sentence would mean this: "The one who did not learn any lesson from the fate of the previous nations and adopted the conduct of disbelief due to which those nations have gone to their doom, will himself see the evil end of his folly." And if the sentence is taken to mean this that Allah has delegated to you powers and authority as His vicegerents in the earth, this sentence would mean: `He who forgot this position of vicegerency and became independent, or he who adopted service of someone else, apart from his real Master, would see the evil end of his rebellious conduct himself."  Show more

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :64 اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ اس نے پچھلی نسلوں اور قوموں کے گزر جانے کے بعد اب تم کو ان کی جگہ اپنی زمین میں بسایا ہے ۔ اور دوسرا یہ کہ اس نے تمہیں زمین میں تصرف کے جو اختیارات دیے ہیں وہ اس حیثیت سے نہیں ہیں کہ تم ان چیزوں کے مالک ہو ، بلکہ اس حیثیت سے ہیں کہ تم...  اصل مالک کے خلیفہ ہو ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :65 اگر پہلے فقرے کا یہ مطلب لیا جائے کہ تم کو پچھلی قوموں کا جانشین بنایا ہے تو اس فقرے کے معنی یہ ہوں گے کہ جس نے گزشتہ قوموں کے انجام سے کوئی سبق نہ لیا اور وہی کفر کا رویہ اختیار کیا جس کی بدولت وہ قومیں تباہ ہو چکی ہیں ، وہ اپنی اس حماقت کا نتیجہ بد دیکھ کر رہے گا ۔ اور اگر اس فقرے کا مطلب یہ لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنے خلیفہ کی حیثیت سے زمین میں اختیارات عطا کیے ہیں تو اس فقرے کے معنی یہ ہوں گے کہ جو اپنی حیثیت خلافت کو بھول کر خود مختار بن بیٹھا یا جس نے اصل مالک کو چھوڑ کر کسی اور کی بندگی اختیار کر لی وہ اپنی اس باغیانہ روش کا برا انجام دیکھ لے گا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی پچھلی نسلیں ختم ہوگئیں تو تم نے ان کی جگہ لے لی اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ نے تمہیں زمین پر اپنا خلیفہ بنایا۔ چناچہ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی رسولوں کے پیچھے تمہیں ریاست دی یا اگلی امتوں کے پیچھے اب اس کا حق ادا کرو “۔6 یعنی جو اس نعمت ( خلافت) کی ناشکری کرے۔ نہ حق بندگ... ی ادا کرے اور نہ گزشتہ قوموں کے انجام سے عبرت حاصل کرے تو اس کی ناشکری کا وبال اسی پر پڑے گا۔ کسی دوسرے کو وہ کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ ان دلائل و نعم کا مقتضاء یہ تھا کہ استدلالا و شکرا توحید و اطاعت وختیار کرتے، مگر بعضے اس کے خلاف کفر و خلاف پر مصر ہیں۔ 3۔ کسی دوسرے کا کیا بگڑتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 204 ایک نظر میں یہ اس سورة کا آخری سبق ہے اور یہ وسیع مطالعاتی اسفار پر مشتمل ہے۔ اس میں جابجا دل و دماغ کو تیز احساس دلایا گیا ہے اور اشارات و ہدایات دی گئی ہیں۔ انسان کی تاریخ کی طویل وادی میں دور تک یہ سفر ہے ، جس میں بیشمار نشیب و فراز آتے ہیں۔ بعض اقوام و ملل کیا اور بعض کچھ ہیں۔ پھر...  زمین و آسمان کا ایک سفر بھی اس میں ہے جس میں سعی بسیار کے باوجود اللہ کا کوئی شریک اور ہمسر نہ ملا۔ پوری کائنات کو چھان مارا۔ پھر ایک سفر اس مطالعہ کے لیے ہے کہ زمین و آسمان کو اللہ نے کس طرح تھام رکھا ہے وہ مہین توازن کیا ہے جس کی وجہ سے کائنات کے یہ دیوہیکل کرے باہم نہیں ٹکراتے۔ پھر ایک سفر اس قوم کی وادیوں میں ہے جس نے ہدایت کو ٹھکرا دیا ہے حالانکہ اس سے قبل یہ قوم دعائیں کرتی تھی کہ اگر اس کے اندر کوئی رسول آگیا تو وہ دو امتوں میں سے کسی ایک کے مقابلے میں کم از کم زیادہ ہدایت پر ہوں گے۔ لیکن جب ان کے ہاں رسول بشیر و نذیر بھیجا گیا تو وہ اپنے وعدے کو بھلا بیٹھے اور بےحد نفرت کرنے لگے اپنے مطلوب رسول سے۔ اور پھر انسانی تاریخ کی طویل وادیوں میں ہلاک کردہ اقوام کی سیر جن پر عذاب آئے اور ہلاک ہوئیں لیکن آج کے لوگ ان مصائب سے کوئی عبرت نہیں لیتے اور پھر اس سبق کا خوفناک خاتمہ۔ ولو یواخذ اللہ ۔۔۔۔۔ من دابۃ (35: 45) ” اگر کہیں اللہ لوگوں کو ان کے کرتوتوں پر پکڑتا تو زمین پر کسی متنفس کو جیتا نہ چھوڑتا “۔ لیکن یہ اللہ کا عظیم فضل ہے کہ وہ لوگوں کو مہلت دئیے جا رہا ہے اور ان پر تباہ کن عذاب نازل نہیں فرماتا حالانکہ وہ اس کے مستحق ہیں۔ درس نمبر 204 تشریح آیات 39 ۔۔۔ تا۔۔۔ 45 ھو الذی جعلکم۔۔۔۔۔۔ کفرھم الا خسارا (39) “۔ زمین کے اوپر نسلوں کا آنا اور جانا اور اس کا تسلسل اور ایک نسل کا مٹنا اور دوسری کا اس کی جانشینی کے مقام کو پانا ، ایک مملکت کا ختم ہونا اور دوسری کا قیام عمل میں آنا ، ایک شعلہ جوالہ کا بجھنا اور دوسرے کا اشتعال پذیر ہونا ، ایک قوم کا مٹنا اور دوسری کا ظاہر و غالب ہونا اور صدیوں سے ایسا ہوتے چلے جانا۔ تاریخ کی اس رفتار پر غور و فکر کرنے سے انسان کو بہت سا سبق اور عبرت حاصل ہوتی ہے اور حاضر اقوام یہ سوچتی ہیں کہ انہیں بھی اسی طرح نیست و نابود ہونا ہے۔ ان کے آثار پر بھی آنے والے اسی طرح غور کریں گے جس طرح ہم جانے والوں کے آثار پر غور کرتے ہیں۔ یوں غافل سے غافل شخص بھی ہوش کے ناخن لے سکتا ہے۔ یوں ایک گور کرنے والا یہ غور کرسکتا ہے کہ وہ دست قدرت کیا ہے جس کی یہ سب کرشمہ سازیاں ہیں کہ کسی کی عمر کم ہے اور کسی کی زیادہ۔ آج ایک حکومت ہے اور کل دوسری۔ آج ایک ملک پر قابض ہے اور کل دوسرا قابض ہے۔ ایک قوم دوسری قوم کی جانشین ہے۔ ہر چیز جاری ہے۔ اس کی انتہاء ہو رہی ہے اور باقی ہے صرف نام اللہ کا۔ جو نہ زائل ہوتا ہے اور نہ اس کے لیے انتہاء ہے۔ جو چیز جانے والی ہے اور اس کا وجود ختم ہوتا ہے وہ دائمی نہیں ہوتی۔ اس کی مثال اس طرح ہے جس طرح ایک مسافر کسی منزل پر رکتا ہے۔ کل اسے آگے جانا ہوتا ہے۔ اور بعد میں دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ اس نے کیا کیا اور کیا چھوڑا۔ اور اس کا انجام یہ ہونے والا ہے کہ اس کا حساب کیا جائے کہ اس نے کیا کیا اور کیا نہ کیا۔ لہٰذا ہر شخص کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی قلیل زندگی میں اچھے کام کرے اور اپنے پیچھے ذکر جمیل چھوڑے۔ کچھ ایسے کام کرے جو اس کے جائے آرام میں اسے کام آئیں۔ یہ ہیں بعض وہ خیالات جو دل و دماغ کی دیواریں پھلانگ کر آتے ہیں لیکن اس وقت جب کوئی اقوام کے عروج وزوال کو دیکھتا ہے۔ طلوع و غروب پر غور کرتا ہے۔ عروج پانے والی قوتوں اور مٹ جانے والی قوتوں کے امور پر غور کرتا ہے اور ایک قوم کو دیکھتا ہے کہ وہ دوسری قوم کی وارث ہوجاتی ہے۔ ھو الذی جعلکم خلئف فی الارض (35: 39) ” وہی تو ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے “۔ اس موثر ، مسلسل اور دیکھے جانے والے منظر کے سائے میں ، انسانوں کو یہ یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ ذمہ داری انفرادی ہے۔ لہٰذا قیامت میں کوئی کسی کی جگہ کوئی ذمہ داری نہ اٹھا سکے گا اور کوئی کسی کے مقابلے میں مدافعت نہ کرسکے گا۔ یہاں اشارہ کیا جاتا ہے کہ تم جس طرح منہ پھیرتے ہو ، جس طرح کفر کرتے ہو ، جس طرح گمراہی ہی مبتلا ہوتے ہو ، آخر کار اس کا انجام نہایت ہی گھناؤنا ہوگا فمن کفر فعلیہ۔۔۔۔۔ کفرھم الا خسارا (35: 39) ” اب جو کوئی کفر کرتا ہے اس کے کفر کا وبال اسی پر ہے ، اور کافروں کو ان کا کفر اس کے سوا کوئی ترقی نہیں دیتا کہ ان کے رب کا غضب ان پر زیادہ سے زیادہ بھڑکتا چلا جاتا ہے۔ کافروں کے لیے خسارے میں اضافے کے سوا کوئی ترقی نہیں “۔ مقت کا مفہوم شدید غضب ہے اور جس پر اللہ کا شدید غضب ہوجائے تو اسے جان لینا چاہئے کہ کس قدر بر انجام اس کے انتظار میں ہے۔ اس سے بڑا خسارہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ دوسرا سفر آسمانوں کی وسعتوں میں ہے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ جن لوگوں کو یہ اللہ کا شریک بناتے ہیں آیا ان کے کسی کارنامے کے کوئی آثار زمین و آسمان میں ہیں۔ زمین و آسمان میں تو ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے اور نہ کچھ آثار ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کفر کا وبال اہل کفر ہی پر پڑے گا، کافر آپس میں ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے ہیں، آسمانوں اور زمین کو اللہ تعالیٰ ہی روکے ہوئے ہے ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی صفت علم وقدرت کو بیان فرمایا ہے اور مشرکوں اور کافروں کی گمراہی اور بدحالی بیان فرمائی ہے۔ اول تو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو آسمانوں کی اور زمین کی...  پوشیدہ چیزوں کا علم ہے یعنی جو چیزیں مخلوق کے علم سے غائب ہیں وہ ان سب کو پوری طرح جانتا ہے۔ دوم یہ فرمایا کہ وہ دلوں کی باتوں کو جانتا ہے۔ سوم یہ فرمایا کہ تم لوگوں کو اس نے زمین میں خلیفہ بنایا ہے یعنی تم سے پہلے جو لوگ زمین میں رہتے اور بستے تھے ان کے بعد تمہیں بسا دیا، سارے انسانوں پر لازم ہے کہ اس کا شکر ادا کریں، اس کی ذات وصفات پر، اس کے نبیوں اور کتابوں پر ایمان لائیں لیکن لوگ اکثر کفر اختیار کیے ہوئے ہیں۔ (فَمَنْ کَفَرَ فَعَلَیْہِ کُفْرُہٗ ) (سو جو شخص کفر اختیار کرے گا اس کے کفر کا وبال اسی پر ہے) (وَلَا یَزِیْدُ الْکٰفِرِیْنَ کُفْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ اِلَّا مَقْتًا) اور کافروں کا کفر انہی کے حق میں مضر ہے جس کا سب سے بڑا ضرر یہ ہے کہ ان کا رب ان سے ناراض ہے اور جیسے جیسے یہ لوگ کفر میں آگے بڑھتے ہیں برابر پروردگار عالم جل مجدہٗ کی ناراضگی بڑھتی چلی جاتی ہے، کافر خواہ یہ سمجھتے ہوں کہ ہم بڑے نفع میں ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا کفر ان کے لیے خسارہ میں اضافہ کا باعث بنتا چلا جا رہا ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

36:۔ ھو الذی الخ : یہ ترغیب الی الایمان مع تخویف اخروی ہے۔ تمہارے باپ دادے کی جگہ اللہ نے اب تمہیں زمین کا وارث بنایا اور ان کا جانشین بنایا ہے۔ اس لیے اگر تم نے بھی ناشکری کی اور شرک کیا تو اس کی سزا پاؤ گے۔ یاد رکھو جس قدر زیادہ کفر کرو گے اسی قدر زیادہ اللہ کے قہر و غضب کے مستحق بنو گے اور اسی قد... ر زیادہ خسارے اور نقصان میں رہوگے۔ اس لیے اگر اللہ کے عذاب سے، اس کے قہر و غضب سے اور خسارہ آخرت سے بچنا چاہتے ہو تو اس کی توحید پر اور تمام ضروریات دین پر ایمان لے آؤ اور اس کے فرمانبردار بندے بن جاؤ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(39) وہ اللہ تعالیٰ ایسا قادر مطلق ہے جس نے تم کو زمین میں پہلوں کا جانشین بنایا اور تم کو زمین میں آباد کیا جو شخص کفروانکار کی روش اختیار کرے گا تو اس کے کفر کا وبال اسی پر پڑے گا اور کافروں کا کفر ان کے پروردگار کے ہاں نہیں بڑھاتا مگر بیزاری اور اشد غضب ہی بڑھاتا ہے اور کافروں کو ان کا کفر نہیں ب... ڑھاتا مگر نقصان اور ٹوٹا ہی بڑھاتا ہے۔ یعنی جانشین کیا پہلوں کا اور تم کو زمین میں آباد کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ کا احسان مانو اور اس کی نافرمانی اور کفر نہ کرو اور یہ بات ذہن نشین کرلو کہ جو کفر اختیار کرتا ہے تو اس کے کفر کا وبال اسی پر پڑتا ہے اور کافروں کا کفر ان کے پروردگار کے نزدیک بیزاری اور غضب میں ہی اضافہ کرتا ہے اور کافروں کا کفر اور منکروں کا انکار ان کے لئے نقصان ہی کا موجب ہوتا ہے۔ مقت کا ترجمہ سخت غضب کیا گیا ہے ہم نے شاہ صاحب (رح) کا لفظ بیزاری بھی اور ترجمہ کی تیسیر میں دونوں باتیں رکھی ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں قائم مقام کیا زمین میں یعنی رسولوں کے پیچھے ریاست دی یا اگلی امتوں کے پیچھے اب اس کا حق ادا کرو۔  Show more